اسلامی عقائد

 

الجواب وباللّٰہ التوفیق:(۱،۲) جو لوگ اللہ کے وجود کے قائل اور حضرات موسیٰ وعیسیٰ علیہما السلام کو نبی اور تورات وانجیل کو اللہ کی کتاب مانتے ہوں وہ اہل کتاب میں داخل ہیں؛ اگرچہ انہوں نے اپنے دین کو بدل ڈالا ہے، تورات وانجیل میں تحریف کردی ہے، تثلیث وغیرہ جیسے مشرکانہ عقائد اختیار کرتے ہیں، مگر یہ آج نہیں، نزول قرآن کے زمانہ میں بھی ان کا یہی حال تھا، قرآن پاک میں ہے۔ {ٰٓیأَیُّھَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْٓا إِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ الْأَحْبَارِ وَالرُّھْبَانِ لَیَأْکُلُوْنَ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَیَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِط} (۱) نیز فرمایا: {إِتَّخَذُوْٓا أَحْبَارَھُمْ وَرُھْبَانَھُمْ أَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ} (۲) نیز ایک آیت میں فرمایا : {وَقَالَتِ الْیَھُوْدُ عُزَیْرُ نِ ابْنُ اللّٰہِ وَقَالَتِ النَّصٰرَی الْمَسِیْحُ ابْنُ اللّٰہِط ذٰلِکَ   قَوْلُھُمْ بِأَفْوَاھِھِمْج} (۳)  قرآن پاک نے مذکورہ تحریفات کے باوجود ان کو اہل کتاب قرار دیا تو وہ سب اہل کتاب ہی مانے جائیں گے۔
البتہ وہ لوگ جو محض قومی طورپر مسیحی یا عیسائی کہلاتے ہیں، مگر وہ خدا ہی کے وجود کے قائل نہیں تو کسی پیغمبر کے یا رسول کے تو وہ کیا قائل ہوں گے؛ جیسا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے قبیلۂ بنی تغلب کے نصاریٰ کے ذبیحہ کو یہ کہہ کر حرام قرار دیا تھا کہ یہ لوگ دین نصرانیت میں سوائے شراب نوشی کے اور کسی چیز کو نہیں مانتے، تو ایسے یہودی یا عیسائیوں کو جو صرف نام کے یہودی اور عیسائی ہیں اہل کتاب نہیں کہا جائے گا کہ وہ کتاب نازل کرنے والے کو نہیں مانتے، تو پھر اہل کتاب کیسے ہوسکیں گے اور ظاہر ہے کہ اس قسم کے افراد کی وجہ سے پوری قوم کو جوکہ اللہ کو مانتے اور انجیل وتورات کو خدا کی کتاب مانتے ہیں، عیسائیت یا یہودیت اور اہل کتاب ہونے سے خارج کرنا کسی طرح صحیح نہیں ہے ان کے ذبائح کو حلال اور ان کی عورتوں سے نکاح کے جواز پر امام تفسیر ابن کثیر نے علمائے امت کا اجماع نقل کرکے فرمایا ہے: ’’لأنہم یعتقدون تحریم الذبح لغیر اللّٰہ ولا یذکرون علی ذبائحہم إلا إسم اللّٰہ وإن اعتقدوا فیہ تعالی ماہو منزہ عنہ تعالیٰ وتقدس‘‘۔(۱)
(۳،۴،۵) قرآن و سنت وکلام فقہاء کی روشنی میں واضح ہوتا ہے کہ ذبیحہ کے لئے متعدد شرائط ہیں، ذبح کی دو صورتیں ہیں: اختیاری اور اضطراری، اختیاری کے لئے یہ تین شرطیں ہیں: (۱) ذابح کا مسلمان یا کتابی ہونا (۲) بوقت ذبح اللہ کا نام لینا (۳) شرعی طریقے پر حلقوم اور سانس کی نالی کا کاٹ دینا ’’وتشترط التسمیۃ حال الذبح أو الرمي لصید أو الإرسال أو حال وضع الحدید لحمار الوحش، (۲) وأیضاً: وشرط کون الذابح مسلما حلالا أو کتابیا ذمیا وحربیاً ولا تحل ذبیحۃ غیر کتابي من وثنی ومجوسي ومرتد۔ وأیضا: قال وذکاۃ الاختیار ذبح بین الحلق واللبۃ وعروقہ الحلقوم کلہ وسطہ أو اعلاہ أو أسفلہ وہو مجری النفس علی الصحیح‘‘(۳)۔ بہر صورت ذبح کے صحیح ہونے کے لئے سب سے پہلی اور اہم شرط یہ ہے کہ اس پر اللہ کا نام لیا جائے چنانچہ حکم ربانی ہے {وَ لَا تَأْکُلُوْا مِمَّا لَمْ یُذْکَرِ اسْمُ اللّٰہِ عَلَیْہِ وَإِنَّہٗ لَفِسْقٌط}(۴) اور سورہ حج میں ہے {وَلِکُلِّ أُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًا لِّیَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلٰی مَا رَزَقَھُمْ مِّنْ م  بَھِیْمَۃِ الْأَنْعَامِط}(۵) اور اہل کتاب کے ذبیحہ کے بارے میں فرمایا گیا {وَطَعَامُ الَّذِیْنَ أُوْتُوا الْکِتٰبَ حِلٌّ لَّکُمْص وَطَعَامُکُمْ حِلٌّ لَّھُمْز}(۶) کہ جو لوگ کتاب دئے گئے ہیں ان کا ذبیحہ تم کو حلال ہے اور تمہارا ذبیحہ ان کے لئے حلال ہے۔
قرآن کریم کی مذکورہ آیتوں میں اس شرط کو بہ تکرار ذکر فرمایا ہے کہ اس جانور کا گوشت کھا سکتے ہو جس کے ذبح کے وقت اللہ کا نام لیا گیا ہو۔ اور وہ جانور حرام ہے جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو {حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَمَآ أُھِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ} إلی آخر الآیۃ}(۷) اب ذبح کے وقت اللہ کا نام نہ لینے کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں ایک تو یہ کہ ذبح کے وقت اللہ کا نام لینا بھول گیا، دوسرے یہ کہ قصداً اللہ کا نام نہیں لیا۔ پس اگر ذبح کے وقت اللہ کا نام لینا بھول گیا۔ ایسی صورت میں ذبیحہ حلال ہے درمختار میں ہے ’’فإن ترکہا ناسیاحل‘‘ ’’وقال في رد المحتار:ذکر في البدائع أنہ لم یجعل ظنہ الأجزاء عن الثانیۃ عذراً کالنسیان لأنہ من باب الجہل بحکم الشرع وذلک لیس بعذر بخلاف النسیان کمن ظن أن الأکل لا یفطر الصائم‘‘ (۱) اور وہ صورت کہ عمداً و قصداً ذبح کے وقت تسمیہ کو ترک کردیا تو اس صورت میں علامہ شامی نے لکھا ہے کہ ذبیحہ حلال نہیں ہوگا ’’ولا تحل ذبیحۃ من تعمد ترک التسمیۃ مسلما أوکتابیا لنص القرآن ولانعقاد الاجماع‘‘(۲) نیز امام بخاری نے آیت پاک {وَ لَا تَاْکُلُوْا مِمَّا لَمْ یُذْکَرِاسْمُ اللّٰہِ عَلَیْہِ وَإِنَّہٗ لَفِسْقٌط وَإِنَّ الشَّیٰطِیْنَ لَیُوْحُوْنَ إِلٰٓی أَوْلِیٰٓئِھِمْ لِیُجَادِلُوْکُمْج وَإِنْ أَطَعْتُمُوْھُمْ إِنَّکُمْ لَمُشْرِکُوْنَہع ۱۲۱}(۳) سے ثابت کیا ہے کہ جس جانور کے ذبح پر اللہ کا نام قصداً چھوڑ دیا جائے وہ حرام ہے، بھول کراگر رہ جائے تو وہ معاف ہے؛ کیونکہ قرآن کریم نے اس کو ’’لفسق‘‘ کہا ہے اور بھولنے والے کو فاسق نہیںکہا جاتا اس کے بعد آیت کا آخری جملہ {وإن الشیاطین الخ} نقل فرمایا ہے اس جملے کے نقل کرنے کا مقصد حافظ حدیث امام ابن حجر نے فتح الباری شرح بخاری میں یہ ذکر کیا ہے ’’فکأنہ یشیر بذلک إلی الزجر عن الاحتجاج لجواز ترک التسمیہ بتأویل الأیۃ وحملہا علی غیر ظاہرہا‘‘(۴) گویا کہ امام بخاری آیت کے اس جملہ سے اس طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ اس میں ان لوگوں کو زجر و تنبیہ مقصود ہے جو آیت مذکورہ میں ظاہر کے خلاف تاویل کرکے بسم اللہ کے ترک کرنے کو جائز قرار دیتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ صحابہؓ تابعین اور ائمہ مجتہدین سے لے کر متأخرین فقہاء تک سبھی اس مسئلہ میں متفق ہیں کہ جان بوجھ کر کوئی شخص ذبیحہ پر اللہ کا نام لینا چھوڑ دے تو اس کو ذبیحہ نہیں مردار کہا جائے گا۔ امام یوسفؒ نے اس پر اجماع امت نقل کیا ہے کذا فی الہدایۃ۔
اسلاف امت میں سے بعض علماء نے اہل کتاب کے ایسے ذبائح کی اجازت دیدی ہے جس پر اللہ کا نام نہیں لیا گیا یا غیر اللہ کا نام لیا گیا، ان کے نزدیک بھی اصل مذہب اہل کتاب کا یہی ہے کہ یہ چیزیں ان کے مذہب میں بھی ہیں مگر ان حضرات نے غلط کار عوام کو بھی اس حکم میں شامل رکھاجو اصل اہل کتاب کا حکم ہے؛ چنانچہ ابن عربی نے احکام القرآن میں لکھا ہے کہ میں نے استاذ ابوالفتح مقدسی سے سوال کیا کہ موجودہ نصاریٰ جو غیر اللہ کے نام پر ذبح کرتے ہیں مثلاً مسیح یا عزیر کا نام بوقت ذبح لیتے ہیں تو ان کا ذبیحہ کیسے حلال ہوسکتا ہے؟ لیکن جمہور صحابہؓ وتابعین اور ائمہ مجتہدین نے اس پر نظر فرمائی کہ اہل کتاب کے جاہل عوام جو غیر اللہ کے نام یا بغیر کسی نام کے ذبح کرتے ہیں یہ اسلامی حکم کے خلاف ہے؛ اس لئے ان کے عمل کا احکام پر کوئی اثر نہیں ہونا چاہئے، انہوں نے یہ فیصلہ دیا کہ ان لوگوں کا ذبیحہ طعام اہل کتاب میں داخل نہیں؛ اس لئے اس کے حلال ہونے کی کوئی وجہ نہیں اور ان کے غلط عمل کی وجہ سے آیات قرآنی میں نسخ یا تخصیص کا قول اختیار کرنا کسی طرح صحیح نہیں؛ اس لیے تمام ائمہ تفسیر ابن جریر، ابن کثیر، ابن حبان وغیرہ اس پر متفق ہیں کہ سورۂ بقرہ اور سورۂ انعام کی آیات میں کوئی نسخ واقع نہیں ہوا ہے۔ یہی جمہور صحابہؓ اور تابعین کا مذہب ہے؛ پس وہ مسلمان جس نے حلال جانور کو حلقوم پربطریق شرعی ذبح کیا ہو، لیکن یہ معلوم ہوکہ اس نے بوقت ذبح اللہ کا نام نہیں لیا تو اگر بھول گیا، تو ذبیحہ اس کا حلال ہے۔ ایسے ہی اہل کتاب کا ذبیحہ بھی حلال ہے اور اگر یہ معلوم ہو کہ اس نے بوقت ذبح جان بوجھ کر اللہ کا نام نہیں لیا، تو اس کا ذبیحہ حلال نہیں ہے۔ ایسے ہی کتابی کا ذبیحہ بھی حلال نہیں ہوگا، لیکن اگر یہی نہیں معلوم کہ اس نے اللہ کا نام لیا ہے یا نہیں، تو اس کی تحقیق ضروری ہے۔ یہ سمجھتے ہوئے کہ ہر مسلمان ذبح کے طریقہ کو جانتا ہے ایسے ہی ہرکتابی ذبح کے طریقہ کو جانتا ہے اور یہ بھی کہ اللہ کا نام لینا چاہئے اس نے بھی لیا ہوگا، ایسے ذبیحہ کے گوشت کی حلت کا ہی حکم ہوگا اور اگر ایسا جاہل ہے کہ اس کو اپنے مسئلہ کا ہی علم نہیں تو لاعلمی کو عذر نہیں قرار دیا جائے گا اور اس کے ذبیحہ کو حلال نہیں کہا جائے گا۔ اگرچہ صاحب بزار یہ نے اس کو بھی عامی کے حکم میں رکھا ہے؛ لیکن شامی میں اس پر اشکال کیا ہے اور بدائع کی جو عبارت پہلے ہم نے نقل کی ہے اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ یہ عذر معتبر نہیںاور اس کا ذبیحہ حلال نہیں۔

(۱) سورۃ التوبہ: ۳۴۔             (۲) سورۃ التوبہ: ۳۱۔             (۳) سورۃ التوبہ: ۳۰۔
(۱) ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، ’’سورۃ المائدۃ، الآیۃ: ۵‘‘؛ ج ۲، ص: ۱۹۔
(۲) ابن عابدین، حاشیہ رد المحتار علی الدر المختار، ’’باب مسائل شتی‘‘: ج ۶، ص: ۷۴۹۔
(۳) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’باب جنابۃ البہیمۃ‘‘: ج ۶، ص: ۲۹۴۔(۱) ابن عابدین، حاشیہ ابن عابدین، ’’کتاب الذبائح‘‘: ج ۹، ص: ۴۳۵۔
(۲) ’’أیضاً‘‘: ج ۶، ص: ۲۹۹۔                (۳) سورۃ الأنعام: ۱۲۱۔

فقط: واللہ اعلم بالصواب

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص285

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:(۱،۲) حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ’’من کذب علي متعمداً فلیتبوأ مقعدہ في النار أو قال من النار أو کما قال علیہ الصلوۃ والسلام‘‘۔(۱)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ایسے کلام کا منسوب کرنا، جو آپ سے صادر نہ ہوا ہو۔ بہت بڑا گناہ ہے، اکثر صحابہؓ حدیث کی روایت کرنے سے؛ اس لیے احتراز کرتے تھے کہ جو بات آپ نے نہ کہی ہو، ہمارے سہو یا غلطی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب نہ ہوجائے۔ مقرر نے جو کچھ بھی حدیث کے نام سے بیان کیا صحیح نہیں؛ اس لیے صحیح روایت اور سند میں اس کا تذکرہ نہیں ہے۔
(۱) عن أبي ہریرۃ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من کذب علي متعمداً فلیتبوأ مقعدہ في النار۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’باب التحذیر من الکذب علی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۱، ص: ۱۰، رقم: ۳)؛ وعن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام الباطلۃ‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص117

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 2614/45-4050

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  کتابوں میں سن ایاس پچپن سال ہی کو شمار کیاگیا ہے اور لکھا ہے کہ پچپن سال کی عمر کے بعد عورت کو اگر خون نظر آئے تو وہ حیض کا نہیں بلکہ استحاضہ کا خون ہوگا، ایہ عام عورتوں کے احوال ہیں، تاہم کچھ احوال شاذ و نادر پیش آتے ہیں، لہذا اگر کسی عورت کو پچپن سال کی عمر کے بعد خون آئے اور اس کی علامتیں ، اس کے سابقہ ایام حیض کے مشابہ ہوں تو ان کو حیض کے ایام ہی شمار کرنا چاہئے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: یہ سمجھنا غلط ہے کہ حاکم کی موجودگی میں محکوم نماز نہیں پڑھا سکتا؛ لہٰذا استاذ کی موجودگی میں طالب علم کا امامت کرنا درست ہے۔ وہ باریش ہو تو زیادہ بہتر ہے  استاذ کو مقدم کرنا چاہیے، لیکن استاذ ہی اپنے شاگرد کو آگے بڑھائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔(۱)

(۱) إذا لم یکن بین الحاضرین صاحب منزل ولا وظیفۃ ولا ذو سلطان فالأعلم أحق بالإمامۃ ثم الأقرأ ثم الأورع ثم الأسن ثم الأحسن خلقا ثم الأحسن وجہا ثم الأشرف نسبا ثم الأحسن صوتا ثم الأنظف ثوبا، فإن استووا یقرع أو الخیار إلی القوم، فإن اختلفوا فالعبرۃ بما اختارہ الأکثر وإن قدموا غیر الأولی فقد أساء وا۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ، فصل في الأحق بالإمامۃ وترتیب الصفوف‘‘: ص: ۱۱۱،۱۱۲)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص105

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:صورت مسئول عنہا میں بالعموم سورج کے غروب سے ڈیڑھ گھنٹہ بعد نماز عشاء کا وقت ہوتا ہے فی زمانہ اپنے علاقہ کے معتبر جنتریوں میں وقت دیکھ کر مقرر کرلیا جائے اس طرح سفیدی یا سرخی کے دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔(۱)

(۱) وقت المغرب منہ إلی غیبوبۃ الشفق وہو الحمرۃ عندہما وبہ یفتی ہکذا في شرح الوقایۃ وعند أبي حنیفۃ الشفق ہو البیاض الذي یلی الحمرۃ ہکذا في القدوري وقولہما أوسع للناس وقول أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ أحوط … ووقت العشاء والوتر من غروب الشفق إلی الصبح۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الأول في مواقیت الصلاۃ وما یتصل بہا‘‘: الفصل الأول في أوقات الصلاۃ: ج ۱، ص: ۱۰۷، ۱۰۸)
ویقل رعایۃ أوقاتہا أي بعدم ظہور الشمس أو التوقیت بالساعات الفلکیۃ ونحو ذلک۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، مطلب: یشترط العلم بدخول الوقت‘‘: ج ۲،ص: ۲۹، مکتبہ، زکریا، دیوبند)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص79

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اللہ اکبر میں اکبر کے الف کا تلفظ ضروری ہے، الف کو حذف کردینا یا واو سے بدل کر پڑھنا غلط ہے۔ممکن ہے کہ امام صاحب اللہ اکبر کہتے ہوں لیکن جلدی کہنے کی وجہ سے الف کی آواز پوری نہ آتی ہو، لیکن اگر واقعی امام صاحب سے ایسی غلطی ہوتی ہے تو ان کو یہ غلطی درست کرلینی ضروری ہے ایسی صورت میں فسادِ نماز کا خطرہ بھی ہے۔
’’وکذا لو مد ألف أکبر أو بائہ لا یصیر شارعا؛ لأن اکبار جمع کبر، وہو الطبل وقیل إسم للشیطان، ولو مد ہاء ’’اللہ‘‘ فہو خطأ لغۃ، وکذا لو مد رائہ ومد لام ’’اللہ‘‘ صواب وجزم الہاء خطأ؛ لأنہ لم یجییٔ إلا في ضرورۃ الشعر، وقد بحث الأکمل في العنایۃ في قولہم إنہ إذا مد الہمزۃ من ’’اللہ‘‘ تفسد ویکفر إن تعمدہ للشک بأن الہمزۃ یجوز أن تکون للتقریر فلا یکون ہناک لا کفر ولا فساد‘‘(۱)
’’وفي المبسوط: ولو مد ألف اللّٰہ لا یصیر شارعا، وخیف علیہ الکفر إن کان قاصدا، وکذا لو مد ألف أکبر، وکذا لو مد بائہ لا یصیر شارعا، لأن إکبار جمع کبر، فکان فیہ إثبات الشرکۃ. وقیل: إکبار اسم للشیطان. وقیل: إکبار جمع کبر وہو الطبل. فإن قلت: یجوز أن تشبع فتحۃ الباء، فصارت ألفا. قلت: ہذا في ضرورۃ الشعر، ویجزم الراء في أکبر، وإن کان أصلہ الرفع بالخبریۃ، لأنہ روي عن إبراہیم التکبیر جزم والسلام جزم‘‘(۱)

(۱) ابن نجیم، البحرالرائق، ’’کتاب الصلاۃ، آداب الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۲؛ ابن الہمام، فتح القدیر، کتاب الصلاۃ، ’’باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۰۳؛ وجماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الھندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الثالث في سنن الصلاۃ وآدابہا وکیفیتہما‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۰۔
(۱) العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: التکبیر قبل الرکوع و بعد الرفع منہ‘‘: ج ۲، ص: ۲۲۱۔

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص351



 

Marriage (Nikah)

Ref. No. 2790/45-4346

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

According to Hanafi Fiqh, if milk is fed once and even a little bit of milk goes down the child's throat, the ruling of breastfeeding will apply. The arguments of the Hanafi Fiqh have been explained in detail in the concerned books, for example, Allah Almighty has said, "And your mothers who fed you”, in this verse it has been said that a woman becomes a mother by breastfeeding, so any woman who breastfeeds, even once, is a foster mother in case the breastfeeding is made within the period of breastfeeding.

In response to the other scholars who make it a condition to suck milk five times at least and narrate the hadith, Hanafi scholars say that it has been revoked, so Hazrat Abdullah bin Abbas (RA) says: “People say that one time breast-feeding does not bring hurmat." This was the case earlier, then this ruling was abrogated. Similarly, Hazrat Abdullah bin Masoud (RA) says that at the end, the ruling on breastfeeding was upheld on whether breastfeeding is more or less, the hurmat will apply.

"قال (قليل الرضاع وكثيره سواء إذا حصل في مدة الرضاع تعلق به التحريم) وفي الشرع: مص الرضيع اللبن من ثدي الآدمية في وقت مخصوصأي مدة الرضاع المختلف في تقديرها (قوله قليل الرضاع وكثيره سواء إذا تحقق في مدة الرضاع تعلق به التحريم)." فتح القدیر كتاب الرضاع، ج:3، ص:438، ط:دار الفكر)

"قليل الرضاع وكثيره إذا حصل في مدة الرضاع تعلق به التحريم كذا في الهداية. قال في الينابيع: والقليل مفسر بما يعلم أنه وصل إلى الجوف كذا في السراج الوهاج." ( الھندیۃ، كتاب الرضاع، ج:1، ص:342، ط:دار الفكر بيروت)

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

Zakat / Charity / Aid

Ref. No. 1214 Alif

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as it follows:

The Zakat (obligatory charity) can be paid only to the poor Muslims. It cannot be given to non Muslims or Christians. If one did so it will not relieve him of the obligation. Nevertheless, if a non Muslim or a Christian is in a dire need, one should help him by giving Sadaqa (voluntary charity).

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

متفرقات

Ref. No. 38 / 1094

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس کمپنی کے سلسلہ میں لوگوں سے معلومات کریں، اور اس کو تلاش کرنے کی خوب کوشش کریں۔ اگر کسی صورت بھی مالک کا علم نہ ہوسکے تو ان اشیاء کی قیمت صدقہ کردیں ۔ لیکن خیال رہے کہ جب بھی مالک کا علم ہوجائے اس کی چیز اس کو لوٹانا لازم ہوگا۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Prayer / Friday & Eidain prayers

Ref. No. 41/953

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

It is not allowed to offer voluntary prayers like tahajjud prayers in congregation. Some Ulama consider it Mahrooh only if it is done with Tadaee (pre-announcement) while others consider it makrooh in both cases. The Prophet of Allah (saws) and his companions were not accustomed to offering voluntary prayers in congregation. So in general voluntary prayers should be offered alone. This is the view of majority of the Ulama. An individual practice cannot be an evidence for others. One is obliged to follow the accepted norms of believers.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband