اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اللہ تعالیٰ کا جب استعمال ہو تو کہنے والے کے لیے لفظ اللہ کے ساتھ تعظیمی الفاظ استعمال کرنا مستحب ہے؛ اس لیے اللہ تعالی، اللہ رب العزت، اللہ جل شانہ، اللہ جل جلالہ اس طرح استعمال کرنا مستحب ہے۔(۱)

۱) {قُلِ ادْعُوا اللّٰہَ أَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَط أَیًّامَّا تَدْعُوْا فَلَہٗ الْأَسْمَآئُ الْحُسْنٰی ج وَلَا تَجْھَرْ بِصَلَا تِکَ وَلَا  تُخَافِتْ بِھَا وَابْتَغِ بَیْنَ ذٰلِکَ  سَبِیْلًا ہ۱۱۰} (سورۃ الإسراء، آیۃ: ۱۱۰)

قال الفخر في تفسیرہ: الصفات الإضافیۃ کل صفۃ لہ تعالیٰ لیست زائدۃ علی الذات ککونہ معلوماً ومذکوراً مسبحا ممجداً۔ (تقریرات الرافعي، علی رد المحتار: ج ۱، ص: ۶)

 

متفرقات

Ref. No. 1890/43-1762

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  صرف محمد نام رکھنا بھی درست ہے، شرعا محبوب ہے، البتہ سرکاری کاغذات میں صرف محمد سے اندراج نہیں ہوتاہے،  بلکہ اس کے ساتھ کسی اور نام کا اضافہ ضروری ہوتاہے، اس لئے آپ محمد احمد نام بھی رکھ سکتے ہیں۔ ایک نام کے ایک خاندان میں کئی بچے ہوں تو کوئی حرج نہیں ہے، ہر ایک اپنے والد سے  منسوب ہوکر پہچانا جاتاہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قبر پر بیٹھنا بے ادبی ہے اور قبر پر نماز مکروہ ہے بشرطیکہ قبر سطح زمین سے ابھری ہوئی ہو اگر سطح زمین کے برابر ہے، تو اس پر نماز مکروہ نہیں ہوگی۔(۱)

(۱) ویکرہ أن یبنی علی القبر أو یقعد أو ینام علیہ أو یوطأ علیہ أو تقضی حاجۃ الإنسان من بول أو غائط أو یعلم بعلامۃ من کتابۃ ونحوہ۔ کذا في التبیین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ: الفصل السادس في القبر والدفن‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۷)
ویکرہ أن یبنی علی القبر مسجد أو غیرہ، کذا في السراج الوہاج۔ (’’أیضاً:‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۸)
ولو بلی المیت وصار تراباً جاز، دفن غیرہ في قبرہ وزرعہ والبناء علیہ کذا في التیین۔ (’’أیضاً:‘‘)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص383

قرآن کریم اور تفسیر

الجواب وباللّٰہ التوفیق:وہ دو آیتیں ہیں:
(۱) {قد جاء کم بصائر من ربکم} (الآیۃ)
(۲) {أفغیر اللّٰہ أبتغي حکماً} (الآیۃ)(۱)

(۱) عبد الرحمن بن أبي بکر، الإتقان في علوم القرآن: ج ۱، ص: ۴۷۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص65

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:امی اس کو کہتے ہیں جس نے کسی سے لکھنا پڑھنا نہ سیکھا ہو اور جاہل وہ ہے، جس کو کوئی علم حاصل نہ ہو، دونوں میں فرق ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی سے لکھنا پڑھنا نہیں سیکھا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی استاذ نہیں تھا؛ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو امی کہا جاتا ہے اور یہ کہنا درست ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنے علوم عطا فرمائے تھے کہ دنیا میں کسی کو بھی اتنے علوم لکھنا پڑھنا سیکھنے کے باوجود حاصل نہیں ہوسکے؛ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے عالم ومعلم ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جاہل کہنا خلاف واقعہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی سے پڑھے ہوئے نہ تھے؛ اس لئے انپڑھ کہنا درست نہیں ہے۔ اب اگر کوئی شخص آپ کو صلی اللہ علیہ وسلم کو انپڑھ کہتا ہے اور اس کی سمجھ میں یہ امی کا ترجمہ ہے (جس نے پڑھنا  لکھنا نہ سیکھا ہو)، تو وہ گنہگار نہیں ہے، تاہم انپڑھ کا لفظ استعمال کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان رفعت کے خلاف ہے۔ اور جاہل کہنا تو قطعاً درست نہیں ہے، اگر اپنی دانست میں اس نے یہ امی ہی کا ترجمہ کیا ہے؛ اگرچہ غلط کیا ہے، تو وہ اس کلمہ سے دائرۂ اسلام سے خارج نہیں ہوا اور اگر عیاذا باللہ اہانت کے لئے اس جملہ کو استعمال کیا تو وہ بلا شبہ مرتد ہوجائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے لفظ امی بولنے کی ضرورت پیش آئے تو امی لفظ بولا جائے، انپڑھ وغیرہ الفاظ سے اجتناب کیا جائے۔(۱)

(۱) محمد ثناء اللّٰہ پاني پتي، تفسر المظہري، ’’سورۃ الأعراف: ۱۵۷‘‘: ج ۳، ص: ۴۴۲۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص208

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2611/45-4053

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  صورت مذکورہ میں نماز درست ہوگئی، اس لئے معنی میں کوئی ایسی خرابی نہیں آئی جو مفسد صلوۃ ہو،  مکذبین کے لئے حسرت کی اس میں مزید تاکید ہوگئی، اس لئے نماز درست ہوگئی۔

"ومنها: ذکر کلمة مکان کلمة علی وجه البدل إن کانت الکلمة التي قرأها مکان کلمة یقرب معناها وهي في القرآن لاتفسد صلاته، نحو إن قرأ مکان العلیم الحکیم، وإن کان في القرآن، ولکن لاتتقاربان في المعنی نحو إن قرأ: "وعداً علینا إنا کنا غافلین" مکان {فاعلین} ونحوه مما لو اعتقده یکفر تفسد عند عامة مشایخنا،وهو الصحیح من مذهب أبي یوسف رحمه الله تعالی، هکذا في الخلاصة". (الفتاوی الهندیة، ۱: ۸۰،، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ اس کو استعمال نہ کیا جائے؛ لیکن اگر مجبوری ہے، تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ دیگ میں جتنا شوربا ہے، اتنا ہی پانی اس میں ڈال کر پکایا جائے؛ تاکہ زائد پانی جل جائے؛ اس طرح تین مرتبہ کرنے سے دیگ پاک ہو جائے گی۔ یہی قول امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ  کا ہے اور یہی مفتی بہ ہے۔(۱)
    ’’ویطہر لبن و عسل ودبس ودہن یغلیٰ ثلاثاً، وفي رد المحتار علی الدر المختار ولو تنجس العسل فتطہیرہ أن یصب فیہ ماء بقدرہ فیغلیٰ حتی یعود إلی مکانہ، والدہن یصب علیہ الماء فیغلیٰ فیعلو الدہن الماء فیرفع بشیئ ہکذا ثلث مرات، وہذا عند أبي یوسف رحمہ اللہ خلافا لمحمد رحمہ اللہ وہو أوسع وعلیہ الفتویٰ۔ (۲)’’الدہن النجس یغسل ثلاثاً، بأن یلقیٰ في الخابیۃ، ثم یصب فیہ مثلہ ماء، ویحرک، ثم یترک حتی یعلو الدہن، فیؤخذ أو یثقب أسفل الخابیۃ حتی یخرج الماء، ہکذا ثلاثاً فیطہر۔‘‘(۳) ’’وفي المجتبی: تنجس العسل یلقی في قدر ویصب علیہ الماء ویغلیٰ حتی یعود إلی مقدارہ الأول ہکذا ثلاثاً قالوا وعلی ہذا الدبس۔(۴)

(۱)إمداد الفتاویٰ جدید، کتاب الطہارۃ باب الأنجاس وتطہیرہا،ج۱، ص:۴۳۳ ، ایضاً: ۷۲۳)
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، مطلب في تطہیر الدہن والعسل‘‘ ج۱، ص:۵۴۳
(۳) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الطہارۃ، الباب السابع في النجاسۃ وأحکامہا، الفصل الأول، في تطہیر الأنجاس،ج۱، ص: ۹۷)
(۴) ابن نجیم، البحر الرائق، کتاب الطہارۃ،باب الأنجاس، ج۱، ص: ۴۱۱

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص411

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق: مذکورہ صورت میں وہ کنواں تین دن تین رات سے ناپاک سمجھا جائے گا اور جن لوگوں نے اس مدت میں اس کے پانی سے وضوء کیا یا نہاکر نماز پڑھی ہے، ان کو اپنی نماز کا اعادہ کرنا ضروری ہوگا اور کنویں کا سارا پانی نکالا جائے گا، اگر سارا پانی ممکن نہ ہو، تو تین سو ڈول کا نکالنا واجب ہوگا، اس کے بعد کنواں پاک ہو جائے گا۔(۲)

(۲) فإن انتفخ الحیوان فیھا أو تفسخ نزح ما فیھا صغر الحیوان أو کبر لانتشار البلۃ في أجزاء الماء۔ (المرغیناني الہدایہ، کتاب الطہارۃ، فصل في البئر، ج۱،ص:۴۳)،  و إن کانت قد انتفخت أو تفسخت أعادوا صلوۃ ثلثۃ أیام و لیالیھا۔ (المرغیناني، الہدایہ، کتاب الطہارۃ، فصل في البئر، ج۱، ص:۴۳)،؛ و (متنفخ) ینجسھا من ثلاثۃ أیام و لیالیھا إن لم یعلم وقت وقوعہ۔ (احمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، کتاب الطہارۃ، فصل في مسائل آبار، ص:۴۱)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص465

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:گردن پر مسح کے سلسلہ میں کوئی صحیح حدیث نہیں ملی، اس باب میں جو احادیث ملتی ہیں، ان کو علماء نے ضعیف قرار دیا ہے؛ اس لیے احناف کے نزدیک گردن پر مسح کرنا سنت نہیں ہے؛ ہاں مستحب ہے؛ کبھی کرلے اور کبھی چھوڑدے؛ اس کی گنجائش ہے۔(۱)

(۱)و مستحبہ التیامن و مسح الرقبۃ قولہ (و مسح الرقبۃ) ھو الصحیح، و قیل: إنہ سنۃ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر، ’’کتاب الطہارۃ،  مطلب لا فرق بین المندوب، والمستحب والنفل والتطوع، ج۱، ص:۲۴۶)؛  و قال ظفر أحمد التھانوی بعد ما ساق أحادیث المسح علی الرقبۃ: دلّت ھذہ الأحادیث علی استحباب مسح الرقبۃ، ولا یمکن القول بسنیتہ لعدم نقل المواظبۃ (ظفر احمد عثماني، إعلاء السنن، کتاب الطہارۃ، باب استحباب مسح الرقبۃ، ج۱، ص:۶۶)؛ و في الظھیریۃ: قیل : مسح الرقبۃ مستحب۔ ( عالم بن العلاء، الفتاویٰ التاتارخانیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الفصل الأول، فيالوضوء، المسح علی الرقبۃ والاختلاف فیہ‘‘، ج ۱،ص:۲۲۶)
 

فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص135

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اونٹ کا گوشت استعمال کرنے سے وضو نہیں ٹوٹتا    سوال میں مذکورہ خیال غلط ہے؛ البتہ کلی کرکے اچھی طرح منہ صاف کرکے نماز پڑھنا بہتر ہے، تاکہ منھ کی بدبو سے لوگوں کو تکلیف نہ پہونچے۔ عن أبي أمامۃ الباھلي ۔۔۔ فقلت: الوضوء یارسول اللّٰہ، فقال صلی اللہ علیہ وسلم : إنما علینا الوضوء مما یخرج لیس مما یدخل(۱)

(۱) علاء الدین الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الطہارۃ، فصل: و أما بیان ما ینقض الوضوء،‘‘ ج۱، ص:۱۱۹
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص235