Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 41/1086

In the name of Allah the most Gracious the most merciful

The answer to your question is as follows:

It is Wajib (necessary) to proceed for Juma prayer after first Azan is called. Therefore, sleeping or doing any transaction that interferes in the process will not be permissible. Allah says in the holy Quran: O ye who believe! When the call is proclaimed to prayer on Friday, hasten earnestly to the remembrance of Allah, and leave off business; that is best for you if ye but knew! (The Quran, 62/9).

So, it is necessary on the first Azan (which is recited when the sun begins to decline) to leave off business and hasten to Friday prayer.

(قوله ويجب السعي وترك البيع بالأذان الأول) لقوله تعالى {يا أيها الذين آمنوا إذا نودي للصلاة من يوم الجمعة فاسعوا إلى ذكر الله وذروا البيع} [الجمعة: 9] (البحرالرائق ۲/۱٦٨)

And Allah knows best

 

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf deoband

 

Hajj & Umrah

Ref. No. 1291/42-636

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

The protection of human life is very important in Islam; Self-destruction is strictly forbidden in the holy Quran. Therefore, one should not travel to a place where the pandemic is severe. However, in the current situation, if travelling is necessary, one can travel with precautions.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1535/43-1044

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اللہ اکبر میں اکبر کے الف کا تلفظ ضروری ہے، الف کو حذف کردینا یا واو سے بدل کر پڑھنا غلط ہے۔ممکن ہے کہ امام صاحب اللہ اکبر کہتے ہوں لیکن جلدی کہنے کی وجہ سے الف کی آواز پوری نہ آتی ہو، لیکن اگر واقعی امام صاحب  سے ایسی غلطی ہوتی ہے  تو ان کو یہ غلطی درست کرلینی ضروری ہے ایسی صورت میں فسادِ نماز کا خطرہ  بھی ہے۔

وكذا لو مد ألف " أكبر " أو باءه لا يصير شارعا؛ لأن أكبار جمع كبر، وهو الطبل وقيل اسم للشيطان، ولو مد هاء " الله " فهو خطأ لغة، وكذا لو مد راءه ومد لام " الله " صواب وجزم الهاء خطأ؛ لأنه لم يجئ إلا في ضرورة الشعر، وقد بحث الأكمل في العناية في قولهم إنه إذا مد الهمزة من " الله " تفسد ويكفر إن تعمده للشك بأن الهمزة يجوز أن تكون للتقرير فلا يكون هناك لا كفر ولا فساد اهـ. (البحرالرائق، آداب الصلوۃ 1/332) (فتح القدیر، باب صفۃ الصلوۃ 1/297) (الھندیۃ، الفصل الثالث فی سنن الصلوۃ 1/73)

وفي " المبسوط ": ولو مد ألف الله لا يصير شارعا، وخيف عليه الكفر إن كان قاصدا، وكذا لو مد ألف أكبر، وكذا لو مد باءه لا يصير شارعا، لأن إكبار جمع كبر، فكان فيه إثبات الشركة. وقيل: إكبار اسم للشيطان. وقيل: إكبار جمع كبر وهو الطبل. فإن قلت: يجوز أن تشبع فتحة الباء، فصارت ألفا. قلت: هذا في ضرورة الشعر، ويجزم الراء في أكبر، وإن كان أصله الرفع بالخبرية، لأنه روي عن إبراهيم التكبير جزم والسلام جزم (البنایۃ، التکبیر قبل الرکوع 2/221)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Prayer / Friday & Eidain prayers

Ref. No. 1700/43-1338

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

It is obligatory on Musafir to shorten a 4 Rakat prayer into two Rakats only. However, if a musafir imam leads four rakats then the prayer of local followers will not be valid; they have to reoffer all 4-Rakat prayers that offered behind musafir imam. Because, the last two rakats were supererogatory for the musafir Imam and were obligatory for the followers. And it is not permissible to offer obligatory prayer behind a person performing a nafl prayer. Therefore, the prayers of the local followers are not valid in the above case. So it is obligatory on such people to repeat the prayers of four rakats.

''فلو أتم المقیمون صلاتهم معه فسدت ؛ لأنه اقتداء المفترض بالمتنفل''۔ (شامی ص ۸۲۷ ج۱)

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

اسلامی عقائد

Ref. No. 1797/43-1533

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسجد اللہ کا گھر ہے، اللہ کی ملکیت ہے، اس سے کسی بندے کا کوئی حق وابستہ نہیں رہتاہے۔ مسجد زمین سے آسمان تک پوری کی پوری مسجد ہوتی ہے۔  مسجد ایک  دو منزل  اور اس سے زیادہ  منزل والی بھی ہوسکتی ہے، البتہ مسجد کا نیچے سے اوپر تک ہر فلور مسجد اور مصالح مسجد ہی میں استعمال ہوگا۔ مسجد کا وضو خانہ ، مسجد کے امام و مؤذن کا کمرہ ، مسجد میں نمازیوں کے لئے گاڑی کی پارکنگ وغیرہ کی سہولیات کا شمار مصالح مسجد میں ہوتاہے۔

 چند منزلہ بلڈنگ کے کسی ایک فلور کو مسجد بنانے کی صورت میں اس کو مصلی کہاجائے گا، وہ شرعی مسجد نہیں ہوگی اور مسجد شرعی کے احکام بھی اس پر جاری نہیں ہوں گے، اس میں پنجوقتہ نمازیں اور نماز جمعہ قائم کرنا درست ہے۔اس لئے کسی ایک فلور کو مسجد بناکر باقی فلور میں  ، مارکیٹ،  پارکنگ ،اسکول ، مدرسہ قائم کرنا اور اس میں طلبہ کی رہایش رکھنا جائز نہیں ہے۔  اور کسی پرانی مسجد کو مذکورہ مقصد کے لئے شہید کرنا  قطعا جائز نہیں ہے۔ ان سب کاموں کے لئے کوئی اور انتظام کیا جائے۔ وقف للہ مسجد میں یہ امور ممنوع ہیں ۔

حتی لو لم یخلص المسجد للّٰہ تعالی بأن کان تحتہ سرداب أو فوقہ بیت،أو جعل وسط دارہ مسجداً وأذن للناس بالدخول والصلاة فیہ لا یصیر مسجداً ویورث عنہ إلا إذا کان السرداب أو العلو لمصالح المسجد أو کانا وقفاً علیہ (الاختیار لتعلیل المختار ۲: ۵۲۴،ط: دار الکتب العلمیة بیروت)،قولہ:”أو جعل فوقہ بیتاً الخ“ ظاھرہ أنہ لا فرق بین أن یکون البیت للمسجد أو لا، إلا أنہ یوٴخذ من التعلیل أن محل عدم کونہ مسجداً فیما إذا لم یکن وقفاً علی مصالح المسجد ،وبہ صرح فی الإسعاف فقال: وإذا کان السرداب أو العلو لمصالح المسجد أو کانا وقفاً علیہ صار مسجداً اھ شرنبلالیة۔ قال فی البحر: وحاصلہ أن شرط کونہ مسجداً أن یکون سفلہ وعلوہ مسجداً لینقطع حق العبد عنہ لقولہ تعالی: ”وأن المساجد للہ“بخلاف ما إذا کان السرداب والعلو موقوفاً لمصالح المسجد فھوکسرداب بیت المقدس، وھذا ھو ظاہر الروایة، وھناک روایات ضعیفة مذکورة فی الھدایة (رد المحتار، کتاب الوقف ۶: ۵۴۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، لو بنی فوقہ بیتاً للإمام لا یضر؛ لأنہ من المصالح، أما لو تمت المسجدیة ثم أراد البناء منع الخ تاتر خانیة (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الوقف ۶: ۵۴۸) ومثلہ في الکتب الأخری من الفقہ الفتاوی ۔

"فقد قال الله تعالى: {وأن المساجد للّٰه} [الجن: 18] و ما تلوناه من الآية السابقة فلايجوز لأحد مطلقًا أن يمنع مؤمنًا من عبادة يأتي بها في المسجد؛ لأن المسجد ما بني إلا لها من صلاة و اعتكاف و ذكر شرعي و تعليم علم و تعلمه و قراءة قرآن و لايتعين مكان مخصوص لأحد." (البحر الرائق  2 / 36 ، کتاب الصلاۃ، فصل ، ط؛ دارالکتاب الاسلامی، بیروت)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام نبی ہیں، ان کو عمر طویل دی گئی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعزیت کے لئے آنا بھی روایات سے معلوم ہوتا ہے۔ ان کی حیات کب تک ہے اس کو اللہ ہی جانتا ہے۔ (۱)
(۱) والصحیح أنہ نبي، وجزم بہ جماعۃ۔ وقال الثعلبي: ہو نبي علی جمیع الأقوال معمر محجوب عن الأبصار، وصححہ ابن الجوزي، أیضاً: في کتابہ، لقولہ تعالیٰ: حکایۃ عنہ {وما فعلتہ عن أمري} (سورۃ الکہف: ۸۲) فدل علی أنہ نبي أوحی إلیہ، ولأنہ کان أعلم من موسیٰ في علم مخصوص، ویبعد أن یکون ولي أعلم من نبي وإن کان یحتمل أن یکون أوحي إلی نبي في ذلک العصر یأمر الخضر بذلک، ولأنہ أقدم علی قتل ذلک الغلام، وما ذلک إلا للوحي إلیہ في ذلک لأن الولي لا یجوز لہ الإقدام علی قتل النفس، بمجرد ما یلقی في خلدہ، لأنہ خاطرہ لیس بواجب العصمۃ۔ (العیني،عمدۃ القاري، ’’کتاب العلم: باب ما ذکر في ذہاب موسیٰ علیہ السلام‘‘: ج ۲، ص: ۸۵)وأیضاً: النوع الثالث في نبوتہ: فالجمہور علی أنہ نبي وہو الصحیح، لأن أشیاء في قصتہ تدل علی نبوتہ۔ (أیضاً: ’’باب طو فان من السبیل‘‘: ج ۱۵، ص: ۲۹۹، رقم: ۲۰۴۳)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص286

آداب و اخلاق

Ref. No. 2615/45-4049

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  والدین کے ساتھ بدزبانی یا بدسلوکی سنگین جرم اور بڑا گناہ ہے، قرآن کریم میں مختلف جگہوں پر اللہ تعالی نے اپنی  عبادت کے ساتھ والدین  کی اطاعت اور فرمانبرداری کو بیان کرکے اس کی اہمیت کو واضح کیا ہے، یہاں تک کہ ان کو 'اف' تک کہنے کی اجازت نہیں ہے، بلکہ اگر وہ ظلم کریں تو بھی ان کو پلٹ کر جواب دینے کی اجازت نہیں ہے۔  اس لئے آپ اللہ کا حکم واجب سمجھ کر ان کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کریں، ان کے سامنے اپنے کو ذلیل کرکے پیش کریں تاکہ ان کو کسی بات میں ادنی تکلیف یا ناگواری کا احساس بھی نہ ہو۔ تاہم یہ بھی خوشی کی بات ہے کہ آپ کو اس کا احساس ہے کہ آپ کا رویہ ان کے ساتھ غلط ہے اور آپ اس کو ٹھیک کرنا چاہتے ہیں، لیکن غصہ پ کنٹرول نہ ہونے کی وجہ سے آپ پریشان ہیں۔ اگر والدین کو آپ کی خدمت کی ضرورت ہے اور کوئی خدمت کرنے والا نہیں ہے تو آپ اپنے غصہ کو قابو میں کرکے ان کے پاس ہی رہیں، اور اگر کوئی دوسرا خدمت کے لئے میسر ہے یا انتظام ہو سکتاہے تو آپ اپنے غصہ کی وجہ سے اگر زیادہ دنوں میں ان کے پاس ملاقات کے لئے آئیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

{وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا ً وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَارَبَّيَانِي صَغِيرًا} [الإسراء: 23، 24]

- "عن عبدالله بن عمرو قال: قال رسول الله ﷺ : من الکبائر شتم الرجل والدیه، قالوا: یارسول الله وهل یشتم الرجل والدیه، قال: نعم، یسب أبا الرجل فیسب أباه ویسب أمه فیسب أمه. متفق علیه". (مشکاة المصابیح، کتاب الآداب، باب البر والصلة، الفصل الاول)

- "عن ابن عباس قال: قال رسول الله ﷺ: من أصبح مطیعاً لله في والدیه أصبح له بابان مفتوحان من الجنة وإن کان واحداً فواحداً، ومن أصبح عاصیاً لله في والدیه أصبح له بابان مفتوحان من النار، إن کان واحداً فواحداً، قال رجل: وإن ظلماه؟ قال: وإن ظلماه وإن ظلماه وإن ظلماه. رواه البیهقي في شعب الإیمان". (مشکاة المصابیح، کتاب الآداب، باب البر والصلة، الفصل الثالث)

"وَعَنْ أَبِي بَكْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كلُّ الذنوبِ يغفرُ اللَّهُ مِنْهَا مَا شاءَ إِلَّا عُقُوقَ الْوَالِدَيْنِ فَإِنَّهُ يُعَجَّلُ لِصَاحِبِهِ فِي الحياةِ قبلَ المماتِ»". (مشکاۃ المصابیح ،  2/421 ،باب البر والصلۃ، قدیمی)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 2683/45-4142

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر بچی کے پیشاب اور پاخانہ کو صاف کیا اور ہاتھ میں نجاست لگی تو ہاتھ کو دھونا ضروری ہے، اگر  بچی کا بدن خشک ہوگیا تھا اور اس کا بدن پکڑنے سے کوئی نجاست ہاتھ میں نہیں لگی تو ہاتھ ناپاک نہیں ہوگا، اور بلا ہاتھ دھوئے نماز درست ہوجائے گی۔ اگر بچی کے ناپاک کپڑے یا بدن دھوتے وقت ناپاک پانی کی چھینٹیں آپ کے کپڑے یا بدن کو لگ جائیں تو ان کو دھونا ضروری ہوگا۔ 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جو آدمی نمازیوں میں سب سے زیادہ لائق ہو اور نماز وغیرہ کے مسائل سے زیادہ واقف ہو، متبع شریعت ہو، قرآن کریم صحیح پڑھتا ہو ایسے شخص کو امام بنانا چاہئے، امامت ایک جلیل القدر منصب ہے اس کے لیے کسی اچھے وجید عالم کو ہی منتخب کیا جانا چاہئے تاہم فتنہ وفساد سے بچنے کی ہر ممکن کوشش اہل مسجد پر لازم ہے۔
’’والأحق بالإمامۃ تقدیما بل نصباً، الأعلم بأحکام الصلوٰۃ فقط صحۃ وفسادا بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ … ثم الأحسن تلاوۃ وتجویدا للقراء ۃ ثم الأورع‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۴، زکریا دیوبند۔
عن عبداللّٰہ بن مسعود رضي اللّٰہ عنہ قال: قال لنا علیہ السلام: یؤم القوم أقرأہم لکتاب اللّٰہ وأقدمہم قراء ۃ۔ (أخرجہ مسلم في صحیحہ، ’’کتاب المساجد ومواضع الصلوۃ، باب من أحق بالإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۲۳۶، رقم:۶۷۳)
ثم الأحسن تلاوۃ وتجویداً، ومعنی الحسن في التلاوۃ أن یکون عالماً بکیفیۃ الحروف والوقف وما یتعلق بہا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴، زکریا)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص106

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: افضل تو یہی ہے کہ ظہر کی نماز مثل اول میں پڑھے اور عصر کی دو مثل ہونے کے بعد پڑھے البتہ دفع نزاع اور رفع ضرر کی وجہ سے صاحبینؒ کے قول پر عمل کیا جاسکتا ہے یعنی ہر چیز کا سایہ ایک مثل ہونے کے بعد نماز عصر پڑھنا درست ہے۔ پس صورت مسئولہ عنہا میں مذکورہ حنفی امام کا ایک مثل بعد نماز عصر پڑھانا فرض کی ادائیگی کے لیے کافی ہے۔(۱)

(۱) وقد قال في البحر لا یعدل عن قول الإمام إلی قولہما أو قول أحدہما إلا لضرورۃ من ضعف دلیل أو تعامل بخلافہ کالمزارعۃ و إن صرّح المشایخ بأن الفتویٰ علی قولہما کما ہنا قولہ: (وعلیہ عمل الناس الیوم) أي في کثیر من البلاد والأحسن مافي السراج عن شیخ الإسلام أن الاحتیاط أن لا یؤخر الظہر إلی المثل وأن لا یصلی العصر حتی یبلغ المثلین لیکون مؤدّیا للصلاتین في وقتہما بالإجماع۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، مطلب: في تعبدہ علیہ السلام قبل البعثۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۵، زکریا، دیوبند)
أول وقت الظہر إذا زالت الشمس وأخر وقتہا عند أبي حنیفۃؒ إذا صار ظل کل شيء مثلیہ سوی فيء الزوال وقالا إذا صار الظل مثلہ وہو روایۃ عن أبي حنیفۃؒ۔ (المرغیناني، الہدایۃ: کتاب الصلاۃ، باب المواقیت، ج ۱، ص: ۸۱، دار الکتاب، دیوبند)
وقت الظہر من الزوال إلی بلوغ الظل مثلیہ سوی الفيء کذا في الکافي … إلی أن قال … الاحتیاط أن یصلی الظہر قبل صیرورۃ الظل مثلہ ویصلی العصر حین یصیر مثلیہ لیکون الصلاتان في وقتیہما بیقین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب الأول في المواقیت وما یتصل بہا، الفصل الأول في أوقات الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۷، مکتبہ فیصل، دیوبند)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص79