Frequently Asked Questions
مساجد و مدارس
Ref. No. 2154/44-2231
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بہتر ہے کہ مدرسہ کے اوقات کے علاوہ اس کا نظم رکھاجائے، البتہ اگر کبھی مدرس صاحب مفوضہ امور انجام دینے کے بعد فارغ ہیں اور کوئی بچہ آگیا تو اس کو سپارہ دے کر پیسہ لینے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور یہ حرام نہیں ہوگا۔ تاہم اگر مدرس صاحب پڑھائی کا نقصان کرکے ، اور کھنٹہ چھوڑکر سپارے فروخت کرتے ہیں تو یہ خیانت ہوگی اور ایسا کرنا جائز نہیں ہوگا لیکن پیسہ حلال ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:قبر کو بوسہ دینا ، زمین بوسی، قدم بوسی یہ چیزیں اکرام مسلم میں غلو ہونے کی وجہ سے بدعت وگمراہی ہے۔ مسلمانوں کو اس سے پرہیز کرنا چاہئے۔(۱)
(۱) ویکرہ عند القبر ما لم یعہد من السنۃ، والمعہود منہا، لیس إلا زیارتہ والدعاء عندہ قائماً، کذا في البحر الرائق۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ: الفصل السادس في القبر والدفن والنقل من مکان إلی آخر‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۸)
ویکرہ النوم عند القبر وقضاء الحاجۃ، وکل ما لم یعہد من السنۃ، والمعہود منہا لیس إلا زیارتہا، والدعاء عندہا قائماً کما کان یفعل صلی اللّٰہ علیہ وسلم في الخروج إلی البقیع۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلوۃ: فصل في الدفن‘‘: ج ۲، ص: ۱۵۰)
من أحدث فی أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۲۷، رقم: ۱۴۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص384
قرآن کریم اور تفسیر
الجواب وباللّٰہ التوفیق:آیت کریمہ تمام مؤمنین کے لئے ہے، تخصیص کی جو صورت سوال میں مذکور ہے وہ بلا دلیل ہے۔(۱)
(۱) بأن المراد نہیہ عن عدم الفعل لا عن القول۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني، ’’سورۃ آل عمران: ۹۸ إلی ۱۱۵‘‘: ج ۲، ص: ۲۳۹)
إنہا نزلت في شأن القتال۔ (أبو محمد الحسین، البغوي، ’’سورۃ الصف: ۶۱‘‘: ج ۵، ص: ۷۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص66
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:قریش ایک بحری جانور ہے جو اپنی قوت کی وجہ سے سب جانوروں پر غالب رہتا ہے وہ جس جانور کو چاہتا ہے کھا لیتا ہے، مگر اس کو کوئی نہیں کھا سکتا ہے، اسی طرح قریش بھی اپنی شجاعت اور بہادری کی وجہ سے سب پر غالب رہتے ہیں کسی سے مغلوب نہیں ہوتے اس لیے قریش کے نام سے موسوم ہوئے (۲) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خاندان اگرچہ ’’أبا عن جد‘‘ معزز اور ممتاز چلا آتا تھا، لیکن جس شخص نے اس خاندان کو قریش کے لقب سے ممتاز کیا وہ نضر بن کنانہ تھے، بعض محققین کے مطابق قریش کا لقب سب سے پہلے فہر کو ملا اور انہی کی اولاد قریشی ہے۔
نضر کے بعد فہر اور فہر کے بعد قصی بن کلاب نے نہایت عزت واحترام حاصل کیا، قصی نے بڑے بڑے نمایاں کام کیے، قصی کی چھ اولاد تھیں، ان میں ایک عبد مناف تھے، قصی کے بعد قریش کی ریاست عبد مناف نے حاصل کی اور انہی کا خاندان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاص خاندان ہے۔ تفصیل کے لیے سیرت مصطفی اور سیرت النبی کا مطالعہ کریں۔(۱)
(۲)ادریس کاندھلویؒ، سیرت المصطفیٰ: ج ۱، ص: ۲۵۔
(۱) علامہ سیّد سلیمان ندویؒ، سیرت النبی: ج ۱، ص: ۱۰۶؛ والعیني، عمدۃ القاري شرح صحیح البخاري: ج ۷، ص: ۴۸۶۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص209
طلاق و تفریق
Ref. No. 2612/45-4052
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مسئولہ میں اس شخص کی دماغی حالت یقینا خراب ہے، لیکن جو کچھ وہ کرتاہے یا بولتاہے وہ اپنے اختیار سے کرتا اور بولتاہے گوکہ اس کو غلطی کا احساس کم ہوتاہے یا بالکل نہیں ہوتاہے، ایسا شخص سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کے کم ہونے کی وجہ سے مجنون یا پاگل یا مغلوب العقل نہیں کہاجائے گا۔ اس لئے شخص مذکور نے اگر تین طلاقیں دی ہیں تو تینوں طلاقیں واقع گردانی جائیں گی، اور اب اس کی بیوی کو اس سے الگ کردیا جائے گا، تاکہ وہ عدت شرعی گزار کر کسی دوسرے مرد سے شادی کرنے میں آزاد ہو۔
"لایقع طلاق المولی علی امرأة عبدہ والمجنون". (تنویر) وفي الشامية: "قال في التلویح: الجنون اختلال القوة الممیزة بین الأمور الحسنة والقبحة المدرکة للعواقب بأن لا تظهر آثارها وتتعطل أفعالها". (شامي: ۴/۴۵۰)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:گوبر نجس ہے، صرف سوکھنے سے وہ پاک نہیں ہوتا، اس پر پیر رکھا جائے اور وہ پیر پر نہ لگے، تو کوئی حرج نہیں؛ لیکن اگر گیلے پیر ہیں اور وہ پیروں پر لگ جائے تو پیر ناپاک ہو جائیں گے۔(۱)
(۱) و إذا جعل السرقین في الطین فطین بہ السقف، فیبس، فوضع علیہ مندیل مبلول لا یتنجس۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الھندیۃ،الفصل الثانی: في الأعیان النجسۃ ، ج۱، ص:۱۰۲)؛ و إذا فرش علی النجاسۃ الیابسۃ فإن کان رقیقا یشف ما تحتہ او توجد منہ رائحۃ النجاسۃ علی تقدیر أن لھا رائحۃ لا تجوز الصلوۃ علیہ، و إن کان غلیظا بحیث لا یکون کذلک جازت الخ۔ (ابن عابدین، حاشیہ ردالمحتار علی الدر المختار، کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیھا، مطلب في التشبہ بأھل الکتاب، ج۲، ص:۳۸۷)؛ و إذا أراد أن یصلی علی الأرض علیھا نجاسۃ، فکبسھا بالتراب، ینظر: إن کان التراب قلیلا بحیث لو استشمہ یجد رائحۃ النجاسۃ، لا یجوز، و إن کان کثیرا لا یجد الرائحۃ، یجوز ھکذا في ’’التاتارخانیۃ‘‘ و إذا کان علی الثوب المبسوط نجاسۃ و فرش علیہ التراب لا یجوز، ھکذا في ’’السراج الوھاج‘‘۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ،کتاب الصلاۃ،الباب الثالث:في شروط الصلاۃ، الفصل الثاني طہارۃ ما یستر بہ العورۃ وغیرہ، ج۱، ص:۱۱۹، و ہکذا في الفتاویٰ التاتارخانیہ، ج۱، ص:۲۳۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص418
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق: چوںکہ اس میں کوئی ناپاکی نہیں ہے، اس لیے بچے ہوئے پانی سے وضو کرنا جائز ہے۔(۱)
(۱) اس پانی سے وضو کرنا بلاکراہت جائز ہے۔ فقط، فتاویٰ رشیدیہ، باب غسل ووضو کا بیان، ص:۲۸۳)؛ و طاھر مطھر غیر مکروہ وھو الماء المطلق الذي لم یخالطہ ما یصیر بہ مقیداً۔ (احمد بن محمد، حاشیہ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، کتاب الطہارۃ، ص:۲۱)؛ و قولہ علیہ السلام: الماء طھور لا ینجسہ شيء إلا ما غیر طعمہ أو لونہ أو ریحہ۔ (محمود بن احمد، البنایہ، کتاب الطہارۃ، باب الماء الذي یجوز بہ الوضوء و مالا یجوز ،ج۱، ص:۳۵۳)؛ قلت معنی قولہ علیہ السلام: الماء طہور لا ینجسہ شيء إلا ماغیر۔ الحدیث، أي لا ینجسہ شيء نجس۔(محمود بن أحمد، البنایہ، کتاب الطہارۃ، باب الماء الذي یجوز بہ الوضو ومالا یجوز بہ، ج۱، ص:۳۶۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص466
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق: پیر دھونا اور اگر خفین پہنے ہوں، تو ان پر مسح کرناجب فرض ہے(۱)؛ تو جوتے پہن کر وضو کرنے کا کیا مطلب ہے؟ جوتے تو بہرحال اتارنے ہی پڑیںگے۔(۲)
(۱) عن سعید بن المسیب والحسن أنھما قالا: یمسح علی الجوربین إذا کانا صفیقین۔ (أخرجہ ابن أبي شیبۃ، في مصنفہ، ’’کتاب الطہارۃ، في المسح علی الجوربین‘‘ ج۱، ص:۲۷۶، رقم :۱۹۸۸، بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان)
(۲)لا شک أن المسح علی الخف علی خلاف القیاس، فلا یصلح إلحاق غیرہ بہ، إلا إذا کان بطریق الدلالۃ وھو أن یکون في معناہ و معناہ (الساتر) لمحل الفرض الذي ھو بصدد متابعۃ المسح فیہ في السفر وغیرہ للقطع بأن تعلیق المسح بالخف لیس لصورتہ الخاصۃ؛ بل لمعناہ للزوم الحرج في النزع المتکرر في أوقات الصلاۃ خصوصاً مع آداب السیر۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارات، فصل في الآثار، باب المسح علی الخفین‘‘، ج۱، ص:۱۵۸)؛ اور جوربین اگر موٹے ہوں تو ان پر مسح کرنے کے تو بعض فقہاء قائل بھی ہیں لیکن جوتوں پر مسح کرنا تو کسی بھی امام کے مذہب میں جائز نہیں۔ لم یذھب أحد من الأئمۃ إلی جواز المسح علی النعلین۔ (محمد یوسف البنوري، معارف السنن، ’’باب في المسح علی الجوربین والنعلین‘‘ ج۱، ص:۳۴۷،مکتبۃ أشرفیۃ، دیوبند)
فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص136
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:القہقہۃ في کل صلوٰۃ فیہا رکوع و سجود تنقض الصلوٰۃ والوضوء(۱)
قہقہہ مار کر ہنسنا رکوع و سجدے والی نماز میںناقض وضو ہے، اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے جب کہ نماز جناز ہ میں ہنسنے سے وضو نہیں ٹوٹنا؛ صرف نماز ٹوٹ جاتی ہے۔
حدیث میں ہے: إن النبي صلی اللہ علیہ وسلم کان یصلي بالناس فدخل أعمی المسجد فتردی في بئر فضحک ناس فأمر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من کان ضحک أن یعید الوضوء والصلاۃ۔(۲)
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ زور سے ہنسنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے، ساتھ ہی وضو بھی ٹوٹ جاتا ہے۔
(۱) جماعۃ من علماء الھند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الفصل الخامس في نواقض الوضوء، و منھا القھقھۃ،‘‘ ج۱، ص:۶۳
(۲) أخرجہ دار قطني، في سننہ، کتاب الطہارۃ، باب أحادیث القھقھۃ في الصلاۃ و عللھا، ج۱، ص: ۱۸-۲۱۹ (بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص236
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: مذکورہ حافظ صاحب کی امامت درست ہے، لڑکی پر پردہ لازم اور ضروری ہے۔امام کو چاہئے اس کو اس بات سے روکے اگر امام صاحب اپنی بچی کو سمجھاتے نہیں ہیں تو ان کے پیچھے نماز مکروہ ہے۔(۱)
(۱) وروي محمد عن أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ تعالیٰ وأبي یوسف رحمہ اللّٰہ تعالیٰ أن الصلاۃ خلف أہل الہواء لاتجوز، والصحیح أنہا تصح مع الکراہۃ خلف من لاتکفرہ بدعتہ لقولہ علیہ السلام: صلوا خلف کل بروفاجر وصلوا علی کل بروفاجر الخ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۳، شیخ الہند دیوبند)
الأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلاۃ … ثم الأحسن خلقا … ثم أکثرہم حسب ثم الأشرف نسبا … قولہ وفاسق من الفسق وہو الخروج عن الاستقامۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۹۸ - ۲۹۷، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص95