Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:(۱) نیت دل کے ارادہ کا نام ہے، اگر نیت کرلی تو زبان سے کہنا ضروری نہیں ہے، البتہ زبان سے نیت کا ادا کرنا بھی جائز ہے،اس کو بدعت کہنا درست نہیں ہے جب کہ بعض فقہائِ کرام نے زبان سے نیت کو مستحب قراردیا ہے۔
(۲) صورت مسئولہ میں اگر حالت قیام میں اللہ اکبر کہا اور ہاتھ باندھے بغیر رکوع میں چلاگیا تو بھی اس کی نماز درست ہوجائے گی۔ ہاتھ کانوں تک اٹھانا، ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا اوراللہ اکبر کہنے کے بعد قیام میں کچھ دیررہنافرائض میں سے نہیں ہے۔ اللہ اکبر (تکبیر تحریمہ) کھڑے ہونے کی حالت میں کہے اور اس کے فورا بعد رکوع میں چلاجائے تو اس کو قیام ورکوع پانے والا شمار کیاجائے گا۔ اس میں کسی فرض کا ترک کرنا لازم نہیں آیا اس لیے نماز درست ہوجائے گی۔
’’والمعتبر فیہا عمل القلب اللازم للإرادۃ) فلا عبرۃ للذکر باللسان إن خالف القلب؛ لأنہ کلام لا نیۃ إلا إذا عجز عن إحضارہ لہموم أصابتہ فیکیفیہ اللسان، مجتبی (وہو) أي عمل القلب (أن یعلم) عند الإرادۃ (بداہۃ) بلا تأمل (أي صلاۃ یصلي) فلو لم یعلم إلا بتأمل لم یجز (والتلفظ) عند الإرادۃ (بہا مستحب) ہو المختار‘‘(۱)
’’النیۃ إرادۃ الدخول في الصلاۃ والشرط أن یعلم بقلبہ أي صلاۃ یصلي وأدناہا ما لو سئل لأمکنہ أن یجیب علی البداھۃ وإن لم یقدر علی أن یجیب إلا بتأمل لم تجز صلاتہ ولا عبرۃ للذکر باللسان، فإن فعلہ لتجتمع عزیمۃ قلبہ فہو حسن، کذا في الکافي‘‘(۲)
’’فلو کبر قائماً فرکع ولم یقف صح؛ لأن ما أتي بہ من القیام إلی أن یبلغ حد الرکوع یکفیہ، قنیۃ‘‘(۳)
’’ولا یصیر شارعاً بالتکبیر إلا في حالۃ القیام الخ‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ، بحث النیۃ‘‘: ج ۲، ص:۹۱۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الھندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث في شروط الصلاۃ، الفصل الرابع في النیۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۳۔
(۳) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۳۱، مکتبۃ زکریا دیوبند۔
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الأول في فرائض الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۶۔
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص353
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: (۱)ہماری معلومات کے مطابق شامی میں یہ مسئلہ بیان کیا گیا ہے کہ کعبہ کی چھت پر نماز پڑھنا مکروہ ہے اور اس کی علت یہ بیان کی ہے کہ اس میں کعبۃ اللہ کی ترک تعظیم لازم آتی ہے، کعبہ کے عکس یا اس کی تصویر پر نماز کی کراہت وعدم کراہت کا مسئلہ شامی میں ہماری معلومات کے مطابق نہیں ہے۔
(۲) کعبہ کی چھت پر نماز پڑھنا ترک تعظیم کی وجہ سے مکروہ ہے اور کعبہ کے عکس پر یا کعبہ کے نقش والے مصلیٰ پر نماز پڑھنے میں کراہت معلوم نہیں ہوتی؛ اس لیے کہ یہ عکس اور تصویر غیر ذی روح کی ہے اور غیر ذی روح کی تصویر کے سامنے نمازپڑھنے میں مضائقہ نہیں اگر مصلی کو غافل نہ کرے، تو غیر ذی روح کی تصویر کی گنجائش ہے۔ غیر ذی روح کی تصویر کے متعلق ہی شامی میں ہے ’’أو لغیر ذي روح لا یکرہ، لأنہا لا تعبد‘‘(۱) غیر ذی روح کی تصویر میں مدار انتشار قلب وذہن اور فوت خشوع ہے اگر نقش ونگار اور تصویر سے مصلی کا خشوع فوت ہوجائے، تو کراہت ہے اور اگر خشوع فوت نہ ہو، تو کوئی کراہت نہیں؛ قرآن کریم کی آیت {الذین ہم في صلاتہم خاشعون}(۱) میں خشوع کا حکم ہے؛ پس جو چیز خشوع میں کمی پیدا کرے یا خشوع کو ختم کردے وہ چیز باعث کراہت ہوگی، آج کل چوں کہ مصلیٰ پر بنے ہوئے نقش یا عکس کعبہ سے خشوع فوت نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ کوئی نئی چیز ہے جس کی طرف ذہن کا التفاف ہو یعنی نقش ونگار کا رواج نہ ہو پھر کسی جگہ نقش ونگار بنے ہوئے ہیں، تو انسان کا ذہن اس کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے؛ لیکن جب اس طرح کے نقش عام ہوجائیں، تو التفاتِ ذہن یا فوات خشوع کا مطلب ہی نہیں؛ پس عکس کعبہ سے جب فوات خشوع نہ ہو، تو شرعاً ایسے مصلیٰ پر نماز پڑھنے میں کوئی کراہت نہیں ہوگی۔
عکس کعبہ بنی ہوئی جا نماز کے بارے میں یہ بھی بعض حضرات نے کہا ہے کہ اس کی ایجاد یہودیوں نے کی ہے جن کا مقصد یہ ہے کہ کعبہ کی تعظیم ذہن مسلم سے نکل جائے۔ سو اول تو عکس کعبہ مصلّے پر سجدے کی جگہ بنا ہوا ہوتا ہے پیروں کی جگہ نہیں ہوتا جس میں ترک تعظیم لازم نہیں آتی دوسرے یہ کہ نمازی جس وقت اس پر نماز پڑھتا ہے اس کے ذہن میں یہ تفصیل یا سوء ادبی کی (عیاذاً باللہ) نیت نہیں ہوتی اور مشابہت یا یہودیوں وعیسائیوں کی کسی چیز کا اختیار کرنا مطلقاً ناجائز نہیں؛ بلکہ جو دین کے لیے باعث ضرر ہو اس کا اختیار یا اس میں مشابہت ممنوع ہے ’’وإن کانت العلۃ التشبہ بعبادتہا فلا تکرہ‘‘(۲) یہودیوں وعیسائیوں کی چیزوں وافعال کو اس قصد سے اختیار کرے کہ یہ ان کی چیز یا ان کی مشابہت ہے، تو مکروہ ہے اگر ایسا نہ ہو، تو کوئی کراہت نہیں ’’صورۃ المشابہۃ بلا قصد لایکرہ‘‘(۳) اس قسم کی جا نماز میں نہ تشبہ ہے جو ممنوع ہو اور نہ یہ قصد نمازی کا ہوتا ہے کہ یہ یہودیوں کی ایجاد ہے پس اس قسم کی جا نماز پر نماز مکروہ نہیں؛ ہاں! اگر جا نماز پر ایسا نقش ہو کہ اس سے خشوع فوت ہوجائے، تو وہ عکس کعبہ ہو یا دوسرا نقش ہو ہر صورت میں کراہت ہے۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب مایفسد الصلاۃ، ومایکرہ فیہا‘‘: ج۱، ص: ۴۱۸،زکریا۔)
(۲) سورۃ المؤمنون: ۲۔
(۳) ابن عابدین، رد المحتار، ’’باب ما یفسد الصلاۃ الخ ‘‘: ج۲، ص:۴۱۹، زکریا۔
(۴) ابن عابدین، رد المحتار، ’’ ‘‘: ج۱، ص: ۶۴۹، سعید کراچی۔
فأما إذا صلوا في جوف الکعبۃ فالصلاۃ في جوف الکعبۃ جائزۃ عند عامۃ العلماء، نافلۃ کانت أو مکتوبۃ۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في شرائط الأرکان: الصلاۃ في جوف الکعبۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۴، زکریا دیوبند)
ولو صلی في جوف الکعبۃ أو علی سطحہا جاز۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثالث، الفصل الثالث في استقبال القبلۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۱، زکریا دیوبند)
ولا باس بہ للتذلل … وتعقبہ في الامداد بما في التجنیس من أنہ یستحب لہ ذلک، لأن مبنی الصلاۃ علی الخشوع۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ الخ ‘‘: ج۲، ص: ۴۰۷،زکریا دیوبند)
إعلم أن التشبیہ بأہل الکتاب لایکرہ في کل شيء فانا نأکل ونشرب کما یفعلون إنما الحرام ہو التشبہ فیما کان مذموماً وفیما کان یقصد بہ التشبیہ، کذا ذکرہ قاضي خان في شرح الصغیر۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ج ۲، ص: ۱۱، مطبوعہ مصر)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص162
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 1004 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
صورت مسئولہ میں شوہر اپنے پہلے دھرم پر ہی ہے اور اسے اسی پر رہنے کے لئے اصرار و ضد ہے اور بیوی مسلمان ہوگئی تو وہ نکاح ختم ہوگیا۔ اس پہلے شوہر کےساتھ بیوی بن کر رہنے کی اسلامی اعتبار سے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اور اب کسی مسلمان سے شرعی طریقہ پر نکاح کرنا چاہے تو کرسکتی ہے۔ کذا فی الفتاوی۔ تاہم کسی اچھے عالم دین سے مل کر اگر مسئلہ اچھی طرح سمجھ لیں تو بہتر ہے۔
واللہ تعالی اعلم
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
آداب و اخلاق
Ref. No. 961/41-105
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر کسی کے بارے میں معلوم ہو کہ اس کی آمدنی مکمل یا اکثر حرام ہے، تو اس کا ہدیہ قبول کرنا جائز نہیں ہے۔ لیکن اگر کسی کی آمدنی کے حلا ل و حرام ہونے کا علم نہ ہو تو اس کا ہدیہ قبول کرنا جائز ہے۔ تحقیق کی ضرورت نہیں ہے۔ غیرمسلم ممالک میں نوکری کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس لئے کہ اس کی حلال وحرام مخلوط آمدنی اس کے حق میں ہے، ملازم کے حق میں تو اس کی اجرت ہے۔ جہاں تک مسئلہ بینک کے سود کا ہے تو سود خواہ بینک کے ذریعہ ہو یا کسی بھی ذریعہ سے ہو وہ حرام ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 17/43-1540
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ امام کو تجوید کی رعایت کے ساتھ ہی قرآن پڑھنا چاہئے، آپ قرآن اچھا پڑھتے ہیں مگر معنی نہیں سمجھتے ہیں، ایسی صورت میں صرف یہی حل ہے کہ کسی اچھے عالم سے غلطی کی نشاندہی کرکے مسئلہ معلوم کرلیا جائے۔ اتنا یاد رہے کہ چند آیات چھوٹ جانے سے یا معروف کو مجہول پڑھنے سے نماز ہوجاتی ہے، دوہرانے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ البتہ حرکات میں غلطی یا ایک کلمہ کی جگہ دوسرا کلمہ پڑھ لینے کی صورت میں معنی کی خرابی پر نماز فاسد ہوجاتی ہے۔ بہتر یہ ہے کہ اس علاقہ کے کسی عالم و مفتی کواس امام کا قرآن کریم سنوادیاجائے اور اگرآپ کو کوئی مفتی میسر نہ ہو اور آپ کو غالب گمان ہے کہ نماز نہیں ہوئی تو آپ اپنی صوابدید پر نمازیں دوبارہ تنہا پڑھ سکتے ہیں۔
"قال في شرح المنیة الکبیر:"القاعدة عند المتقدمین أن ما غیره تغیراً یکون اعتقاده کفراً تفسد في جمیع ذلک سواء کان في القرآن أو لم یکن إلا ما کان من تبدیل الجمل مفصولاً بوقف تام، ثم قال بعد ذلک: فالأولی الأخذ بقول المتقدمین". (إمداد المفتین، ص ۳۰۳)
"وإن غیر المعنی تغیراً فاحشاً فإن قرأ: ” وعصی آدم ربه فغوی “ بنصب میم ” اٰدم “ ورفع باء ” ربه “……… وما أشبه ذلک لو تعمد به یکفر، وإذا قرأ خطأً فسدت صلاته..." الخ (الفتاوی الخانیة علی هامش الهندیة، ۱: ۱۶۸، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)
"ومنها: ذکر کلمة مکان کلمة علی وجه البدل إن کانت الکلمة التي قرأها مکان کلمة یقرب معناها وهي في القرآن لاتفسد صلاته، نحو إن قرأ مکان العلیم الحکیم …، وإن کان في القرآن، ولکن لاتتقاربان في المعنی نحو إن قرأ: "وعداً علینا إنا کنا غافلین" مکان {فاعلین} ونحوه مما لو اعتقده یکفر تفسد عند عامة مشایخنا،وهو الصحیح من مذهب أبي یوسف رحمه الله تعالی، هکذا في الخلاصة". (الفتاوی الهندیة، ۱: ۸۰،، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)
"وفي المضمرات: قرأ في الصلاة بخطإ فاحش ثم أعاد وقرأ صحیحاً فصلاته جائزة". (حاشیة الطحطاوي علی الدر المختار،۱: ۲۶۷ط: مکتبة الاتحاد دیوبند)
"ذکر في الفوائد: لو قرأ في الصلاة بخطإفاحش ثم رجع وقرأ صحیحاً ، قال: عندي صلاته جائزة". (الفتاوی الهندیة، ۱: ۸۲، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت جو صحابہؓ نابالغ تھے وہ بھی صحابہ رضی اللہ عنہم کے زمرہ میں داخل ہیں ان کو بھی صحابی ہی کہا جائے گا۔ (۱)
(۱) من لقي النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم مؤمنا بہ ومات علی الإیمان، (سید عمیم الإحسان، قواعد الفقہ: ص: ۳۴۶)
ومن صحب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أو رآٔہ من المسلمین فہو من أصحابہ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ،’’کتاب المناقب: باب فضائل أصحاب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۱، ص: ۵۱۵، رقم: ۳۶۴۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص287
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:بغیر ہاتھ اٹھائے دعا کرے اور قبر کی طرف پشت کرکے اور اگر قبلہ کی طرف منھ کرکے دعا کرے کہ قبر سامنے نہ ہو، توہاتھ اٹھاکر دعاء کرسکتا ہے۔(۱)
(۱) وفي حدیث ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ، رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم في قبر عبد اللّٰہ ذي النجادین الحدیث وفیہ فلما فرغ من دفنہ استقبل القبلۃ رافعاً یدیہ أخرجہ أبو عوانہ في صحیحہ۔ (ابن حجرالعسقلاني، فتح الباري، ’’کتاب الدعوات: قولہ باب الدعاء مستقبل القبلۃ‘‘: ج ۱۱، ص: ۱۶۵، رقم: ۶۳۴۳)
ویکرہ النوم عند القبر وقضاء الحاجۃ وکل ما لم یعہد من السنۃ والمعہود منہا لیس إلا زیارتہا والدعاء عندہا قائماً کما کان یفعل صلی اللّٰہ علیہ وسلم في الخروج إلی البقیع۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلوۃ: فصل في الدفن‘‘: ج ۲، ص: ۱۵۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص392
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن کریم کو عقیدت سے چومنا یا آنکھوں سے لگانا ثابت ہے؛ اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے۔ (۱)
(۱) عن عمر رضي اللّٰہ عنہ، أنہ کان یأخذ المصحف کل غداۃ ویقبلہ ویقول: عہد ربي ومنشور ربي عز وجل وکان عثمان رضي اللّٰہ عنہ، یقبل المصحف ویمسحہ علی وجہہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ: باب الاستبراء وغیرہ، متصل فصل في البیع‘‘: ج ۹، ص: ۵۵۲)
فتاوی درالعلوم وقف دیوبند ج1ص518
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: افہام و تفہیم کا پہلو اختیار کرنا ہی بہتر ہے اس کے لیے آپ کوئی طریقہ اختیار کرسکتے ہیں؛ بلکہ یہ عمل کار ثواب ہوگا اور فتنہ وفساد کا سد باب بھی ہوگا انشاء اللہ تعالیٰ، خطبات میں خطا ہوجائے تو کوئی خاص نقصان نہیں ہوگا مگر امامت کے دوران قرأت میں خطا ہوجانا بعض دفعہ نماز کے فاسد ہوجانے کا سبب بن جاتا ہے؛ لہٰذا کوئی فریق ضد سے کام نہ لے اگر واقعۃً ایسی خطا نہیں ہے جو مفسد نماز ہو تو بھی امام و خطیب کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر کا خیال کرکے اعلم من الناس کو ترجیح دینا چاہئے دین میں واراثت علمی اعتبار سے چلتی ہے خاندانی اعتبار سے نہیں، پھر بھی امام بضد رہتا ہے تو اس کے لیے امامت کرنا مناسب نہیں۔(۱)
(۱) عن عبداللّٰہ بن مسعود رضي اللّٰہ عنہ قال: قال لنا علیہ السلام: یؤم القوم أقرأہم لکتاب اللّٰہ وأقدمہم قراء ۃ۔ (أخرجہ مسلم في صحیحہ، ’’کتاب المساجد ومواضع الصلوۃ، باب من أحق بالإمامۃ ‘‘: ج۱، ص: ۲۳۶، رقم: ۶۷۳)
الأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلاۃ ثم الأحسن تلاوۃ، وتجویداً للقراء ۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۵ - ۲۹۴، زکریا)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص107