Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس مسبوق کو چاہئے کہ سلام پھیرنے کے بعد فوراً ہی کھڑا ہو جائے اور اپنی ایک رکعت پوری کرے اور سجدہ سہو اس پر واجب ہے اپنی رکعت کے آخر میں سجدہ سہو کر کے پھر سلام پھیر لے۔(۱)
(۱) ثم المسبوق إنما یتابع الإمام في السہو لا في السلام، فیسجد معہ و یتشہد، فإذا سلم الإمام قام إلی القضاء، فإن سلم فإن کان عامداً فسدت وإلا فلا۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲، ص: ۱۷۶، زکریا، دیوبند)
وإن سلم مع الإمام مقارناً لہ، أو قبلہ ساہیاً، فلا سہو علیہ لأنہ في حال اقتدائہ وإن سلم بعدہ یلزمہ السہو لأنہ منفرد۔ (الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ص: ۴۶۵، مکتبہ: شیخ الہند دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص39
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: وہ زمین جو ناحق طریقہ سے قبضہ کی گئی ہے ایسی مغصوبہ زمین پر نماز پڑھنے کو فقہاء نے مکروہ لکھا ہے، البتہ اس پر پڑھی گئی نمازیں ادا ہوگئیں ان نمازوں کو لوٹانے کی ضرورت نہیں ہے، جیسا کہ صاحب مراقی الفلاح نے شرح نور الایضاح میں لکھا ہے:
’’و تکرہ في أرض الغیر بلا رضاہ، و إذا ابتلی بالصلاۃ في أرض الغیر و لیست مزروعۃً، أو الطریق إن کانت لمسلم صلی فیہا، و إن کانت لکافر صلی في الطریق‘‘(۱)
’’(قولہ: صلی فیہا) لأن الظاہر أنہ یرضی بہا لأنہ ینال أجراً من غیر اکتساب منہ‘‘(۲)
’’الصلاۃ في أرض مغصوبۃ جائزۃ، و لکن یعاقب بظلمہ، فما کان بینہ وبین اللّٰہ تعالی یثاب، وما کان بینہ و بین العباد یعاقب، کذا في مختار الفتاوی‘‘(۳)
’’و في الواقعات: بنی مسجداً علی سور المدینۃ لاینبغي أن یصلی فیہ؛ لأنہ حق العامۃ فلم یخلص للّٰہ تعالی، کالمبني في أرض مغصوبۃ…‘‘(۴)
(۱) حسن بن عمار، مراقي الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في المکروہات‘‘: ص: ۳۵۸۔
(۲) أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في المکروہات‘‘: ص: ۳۵۸۔
(۳) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع، الفصل الثاني فیما یکرہ في الصلاۃ و ما لا یکرہ‘‘: ج ۱، ص:۱۶۸۔
(۴) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب في الصلاۃ في الأرض المغصوبۃ ودخول البساتین و بناء المسجد في أرض الغصب‘‘: ج ۲، ص۴۴، ۵۴، زکریا دیوبند
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص153
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق: {أن جاء ہ الاعمیٰ} پڑھنے کی وجہ سے معنی بدل گئے، اس لیے نماز فاسد ہو گئی۔(۲)
(۲) وإن کان في القرآن ولکن لاتتقاربان في المعنی نحو ان قرأ: وعداً علینا ان کنا غافلین مکان فاعلین ونحوہ مما لو اعتقدہ یکفر تفسد عند عامۃ مشایخنا، وہو الصحیح من مذہب أبي یوسف، ہکذا في الخلاصۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الخامس في زلۃ القاري‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۷، زکریا دیوبند)
ولو زاد کلمۃ أو نقص کلمۃ أو نقص حرفاً أو قدمہ أو بدلہ بآخر نحو: من ثمرہ إذا اثمر واستحصد إلی قولہ لم تفسد مالم یتغیر المعنی إلا مایشق تمییزہ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا، مطلب مسائل زلۃ القاري‘‘: ج ۲، ص: ۳۹۶، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص271
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: بوقت شب اس طرح پڑھنا جائز ہے، مگر قعدہ ہر دو رکعت کے بعد کرنا چاہئے جس میں صرف تشہد (التحیات پڑھی جائے) اور قعدہ اخیرہ میں درود شریف اور دعاء بھی پڑھنی چاہئے؛ البتہ دن ورات کے نوافل میں ایک سلام کے ساتھ چار رکعت تک پڑھنا افضلہے، دن کے نوافل میں ایک سلام کے ساتھ چار رکعت سے زیادہ پڑھنا مکروہ ہے(۱) اور رات کے نوافل ایک سلام کے ساتھ آٹھ رکعت سے زیادہ پڑھنا مکروہ ہے۔
’’وتکرہ الزیادۃ علی أربع في نفل النہار، وعلی ثمان لیلا بتسلیمۃ لأنہ لم یرد والأفضل فیہما الرباع بتسلیمۃ وقالا: في اللیل المثنیٰ أفضل، قیل وبہ یفتی‘‘(۲)
(۱) والأفضل فیہما الرباع بتسلیمۃ وقالا: في اللیل المثنیٰ أفضل، قیل: وبہ یفتی۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار: ج۲، ص:۴۵۵)
(۲) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۴۵۵، زکریا، دیوبند۔)
وصلاۃ اللیل وأقلہا علی ما في الجوہرۃ ثمان، ولو جعلہ أثلاثاً فالأوسط أفضل، ولو أنصافا فالأخیر أفضل۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص:۴۶۷- ۴۶۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص381
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1170 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔مستقلا ہمیشہ عصرکی نماز مثل واحد پر اداکرنا گویا امام ابوحنیفہ کے مسلک کو ترک کرنا ہے، اس لئے ایسا نہیں کرنا چاہئے۔ ہاں اگر کبھی ایسی مجبوری آجائے یا سفر وغیرہ درپیش ہو تو اس کی گنجائش ہے؛ تاہم ایک حنفی المسلک کے لئے اس کی عادت بنالینا ٹھیک نہیں ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
مساجد و مدارس
Ref. No. 948 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: اگر کوئی زمین وقف شدہ نہیں ہے بلکہ کسی کی ملکیت میں ہے تو وہ مسجد شرعی نہیں ہوگی؛ اس میں نماز درست ہوجائے گی تاہم مسجد شرعی کا ثواب حاصل نہیں ہوگا۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 39 / 0000
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ چھوٹی ہوئی ایک رکعت پڑھنے کے بعد بیٹھنا چاہئے البتہ دونوں رکعتیں پڑھنے کے بعد بیٹھا تو بھی استحسانا نماز درست ہوجائے گی۔ اس کے خلاف کوئی حدیث ملی ہو تو مع حوالہ ارسال کریں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 41/756
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ التحیات پڑھ کر خاموش بیٹھا رہے، اور بہتر ہے کہ التحیات ٹھہرٹھہر کر پڑھے کہ اما م کے سلام پھیرنے کا وقت ہوجائے۔ جب امام سلام پھیرلے تو کھڑا ہو اور اپنی نماز مکمل کرے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 1014/41-168
In the name of Allah the most gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
Tawaf al-Wida (Farewell Tawaf) is performed by the pilgrims just before leaving Makkah after completing the Hajj. It is the final rite that is performed in Makkah prior to moving on to the next destination. Doing tawaf-e-Wida is wajib for an Afaqi. The time of Tawaf-e-Widaa begins just after Tawaf-e-Ziyarat. If a person performed any tawaf after tawaf-e-ziayarat that will suffice from Tawaf-e-Widaa. However, if a person leaves Tawaf-e-Widaa completely, then Dum (slaughtering) becomes obligatory on him which is to be sacrificed in the premises of the holy Haram. If he is not there, he can send money to a person who will pay the Dum on his behalf. In the case you mention, your wife is Halal for you.
And Allah knows best
Darul ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
نکاح و شادی
Ref. No. 955/41-102 B
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جہاں مال اور دولت ہوتی ہے، چور اور ڈاکو اسی جگہ حملہ کرتے ہیں۔ زید کے پاس ایمان کی دولت ہے اور شیطان اس پر حملہ کرکے اس دولت کو چھیننا چاہتا ہے، زید نے لاحول ولا قوۃ الا باللہ پڑھ کر شیطان کو نامراد و ناکام واپس کردیا ہے ۔ ایسے وساوس ایمان کی علامت ہیں۔ ان سے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑا، نکاح بدستور باقی ہے۔ کوئی پریشانی کی بات نہیں۔
عن ابی هريرة قال: جاء ناس من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم الی النبی ﷺ فسألوه: إنا نجد في أنفسنا ما يتعاظم أحدنا أن يتكلم به. قال: " وقد وجدتموه؟ " قالوا: نعم، قال: " ذاك صريح الإيمان " (مشکوۃ ص87 باب الوسوسۃ)۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند