Divorce & Separation

Ref. No. 2097/44-2146

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

In the above mentioned case, the husband has not said a word about giving divorce, so no divorce has taken place. But, in future the husband and wife both need to be very careful in the matter of divorce.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ عام لوگوں میں مشہور ہے، شریعت میں اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ (۱)

(۱) قال الکشمیري: ولم یکن لہ أصل من الشریعۃ الغراء۔ (علامہ أنور شاہ، الکشمیري، العرف الشذي، ’’أبواب العیدین، باب ما جاء في التکبیر في العیدین‘‘: ج ۱، ص:۵۶۸)
عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: …من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو ردٌّ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح: باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)
من أحدث في الإسلام رأیا لم یکن لہ من الکتاب والسنۃ سند ظاہر أو خفي ملفوظ أو مستنبط فہو مردود۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۶، رقم: ۱۴۰)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص517

حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ہجرت کے وقت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے اور نکیل پکڑ کر اونٹنی کو چلانے والے آپ ہی تھے اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے میزبانِ اول حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ تھے ان کو اول میزبانی کا شرف حاصل ہوا۔ (۱) (۱) أبو البرکات عبد الرؤف، أصح السیر: ۱۳۶۔ فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص201

زیب و زینت و حجاب

Ref. No. 2610/45-4054

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اجنبی مرد کا بالغہ یا نابالغ قابلِ شہوت لڑکی کا کان دیکھنا اور چھوناجائز نہیں ہے،اس لئے اجنبی مرد سے چھدوانا بھی جائز نہیں بلکہ گناہ ہے۔ البتہ چھوٹی بچی  ہو تواس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس لئے  جب بچی چھوٹی ہو تبھی کان چھدوالینا چاہئے یا پھر کسی عورت کو اس مقصد کے لئے تلاش کرنا چاہئے۔  تاہم اگر کوئی شدید مجبوری ہو  تو ایسی صورت میں سارے سر اور گردن وغیرہ کو اچھی طرح چھپاکر صرف کان کو کھول دیاجائے تو اس کی گنجائش ہے۔

"وَلَا يَجُوزُ لَهُ أَنْ يَمَسَّ وَجْهَهَا وَلَا كَفَّهَا وَإِنْ أَمِنَ الشَّهْوَةَ لِوُجُودِ الْمُحَرَّمِ وَلِانْعِدَامِ الضَّرُورَةِ وَقَالَ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ { : مَنْ مَسَّ كَفَّ امْرَأَةٍ لَيْسَ لَهُ فِيهَا سَبِيلٌ وُضِعَ عَلَى كَفِّهِ جَمْرٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ } قَالَ فِي التَّتَارْخَانِيَّة : أَصَابَ امْرَأَةً قُرْحَةٌ فِي مَوْضِعٍ لَا يَحِلُّ لِلرَّجُلِ النَّظَرُ إلَيْهِ فَإِنْ لَمْ يُوجَدْ امْرَأَةٌ تُدَاوِيهَا وَلَمْ يَقْدِرْ أَنْ يُعَلِّمَ امْرَأَةً تُدَاوِيهَا يَسْتُرُ مِنْهَا كُلَّ شَيْءٍ إلَّا مَوْضِعَ الْقُرْحَةِ وَيَغُضُّ بَصَرَهُ مَا أَمْكَنَ وَيُدَاوِيهَا وَفِي الْمُحِيطِ أَيْضًا." (البحر الرائق شرح كنز الدقائق كتاب الكراهية، فصل فى النظر والمس، ج:8، ص:219، ط:دارالكتاب الاسلامى) 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 2663/45-4433

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  ہونے والی بیوی کا مطلب وہ عورت جس سے میرا نکاح ہو، اس لئے معنی کے اعتبار سے طلاق کو نکاح کی  طرف منسوب کیاگیا ہے ،  اور اس طرح طلاق کی تعلیق درست ہے اور اس سے احناف کے نزدیک  نکاح کے بعد طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ اس لیے صورت مسئولہ میں نکاح کرتے ہی اس شخص کی ہونے والی بیوی پر ایک طلاق بائنہ واقع ہوجائے گی، البتہ قسم بھی پوری ہوجائے گی، اس کے بعد اسی عورت سے دوبارہ یا کسی اور عورت سے نکاح کرنے پر ہونے والی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہ ہوگی۔ یہ بھی خیال رہے کہ اگر پہلی عورت ہی سے نکاح کیا تواس کو صرف دو طلاق کااختیار حاصل  ہوگا، اس لئے کہ اس کی جانب سے اس  کی بیوی پر ایک طلاق واقع ہوچکی ہے۔

ثم اعلم أن المراد ہنا بالإضافة معناہا اللغوي الشاملة للتعلیق المحض وللإضافة الاصطلاحیة الخ (شامی: ۴: ۵۹۳، ۵۹۴ مطبوعہ مکتبہ زکریا دیوبند) بخلاف غیر المعینة فلو قال: المرأة التي أتزوجہا طالق طلقت بتزوجہا (الدر المنتقی: ۲/۵۷، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:کپڑے کا جو حصہ ناپاک ہوا ہے اسے پاک کرنا ضروری ہے اور جو پاک ہو اس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں۔
یجوز رفع نجاسۃ حقیقیۃ عن محلّھا۔(۱)و إزالتھا إن کانت مرئیۃ بإزالۃ عینھا، و أثرھا إن کانت شیئا یزول أثرہ۔ (۲)

(۱)ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس ، ج۱،ص:۵۰۹
(۲)جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، الباب السابع في النجاسۃ و أحکامھا، الفصل الأول، في تطہیر الأنجاس، منھا: الغسل، ج ۱، ص:۹۶

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2457

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن کریم کی کسی ایک آیت کو بھی بغیر وضو چھونا جائز نہیں ہے، تو کسی پارہ کو چھونا بھی جائز نہیں ہے؛ البتہ اگر کسی کتاب میں قرآن بھی لکھا ہو اور اس کے علاوہ دیگر باتیں بھی ہوں، وہ دیگر باتیں قرآن سے زائد ہوں، تو بغیر وضو چھونے کی گنجائش ہے اور اگر قرآن زیادہ ہو یا صرف قرآن ہی ہو، تو چھونا جائز نہیں۔ نورانی قاعدہ میں آیات قرآنی کم ہیں؛ اس لیے اس کو بلا وضو چھونے کی گنجائش ہے۔(۲)

(۲) و یعرف بہ أن القرآن إذا کتب في کتاب و رسالۃ مخلوطا بکلام آخر لا یشترط الطھارۃ لمسہ۔ (إعلاء السنن،  لا یمسہ القرآن إلا طاہر، ج۱، ص:۲۶۹)؛ و لکن لا یحرم في غیر المصحف إلا بالمکتوب أي موضع الکتابۃ کذا في باب الحیض (ابن عابدین، ردالمحتار،سنن الغسل، ج۱، ص:۱۷۳،زکریا بک ڈپو دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص125

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بغل اور زیر ناف بال بطریق خشک یا بطریق پانی دور کرنے سے غسل لازم نہیں آتا؛ ہاں اگر بال اکھڑ جائیں، تو دھو لینا بہتر ہے۔(۱)

(۱)و ذکر الشیخ الإمام شمس الأئمۃ الحلوانيؒ: أن بنفس خروج الدبر ینتقض وضوء ہ کذا في الذخیرۃ المذي ینقض الوضوء و کذا الودي والمني إذا خرج من غیر شھوۃ بأن حمل شیئا فسبقہ المني أو سقط من مکان مرتفع یوجب الوضوء کذا في المحیط ۔۔۔ و إن خرجت من قبل المرأۃ والذکر ۔۔۔ لا ینقض کما في الصوم کذا في الظھیریۃ الخ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ،’’کتاب الطہارۃ، الباب الأول: في الوضوء، الفصل الخامس، في نواقض الوضوء‘‘ج۱، ص:۶۱)؛ ولیس في المذي والودي غسل و فیھما الوضوء لقولہ علیہ الصلوٰۃ والسلام: کل فحل یمذي و فیہ الوضوء الخ۔ (المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الطہارات، فصل في الغسل‘‘ ج۱، ص:۳۳) زیر ناف بال صاف کرنا یہ موجباتِ غسل میں سے نہیں ہے، اسی لئے حضرات فقہاء نے زیر ناف بال صاف کرنے پر نہ تو غسل کو ضروری قرار دیا ہے اور نہ ہی مسنون اور مستحب قرار دیا ہے؛ بلکہ زیر ناف بال صاف کرنے کا تعلق نظافت سے ہے، طہارت سے اس کاکوئی تعلق نہیںہے۔  و سن لصلاۃ جمعۃ ولصلاۃ عید ولأجل إحرام و عرفۃ و ندب لمجنون أفاق و عند حجامۃ و في لیلۃ برأۃ الخ۔ (ابن عابدین، الدرالمختار مع رد المحتار، ج ۱، ص:ـ۳۱۰) ؛ وعن أنس بن مالک  رضي اللّٰہ عنہ قال: وقت لنا رسول اللّٰہ ﷺ حلق العانۃ و تقلیم الأظفار و قص الشارب و نتف الإبط أربعین یوما مرۃ۔ (أخرجہ ابو داود، في سننہ، ’’باب في أخذ الشارب‘‘ج۱، ص:۳۱۸، رقم۴۲۰۰)؛والأفضل أن یقلم أظفارہ و یحفی شاربہ و یحلق عانتہ و ینظف بدنہ بالاغتسال في کل أسبوع مرۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’الباب التاسع عشر: في الختان‘‘ج ۵، ص:۴۱۳)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص312

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگرچہ عام فقہاء کا قول یہی ہے کہ ترک تشدید سے نماز فاسد ہو جاتی ہے؛ لیکن مختار قول یہ ہے کہ ترک تشدید سے نماز فاسد نہیں ہوتی؛ البتہ امام کو اپنے طریقہ پر ضد ہرگز نہیں کرنی چاہیے کوشش یہی کرے کہ ترک تشدید نہ ہو، تاکہ عامۃ الفقہاء کی بھی مطابقت ہو جائے، امام تصحیح کرلے یا بغیر فتنہ کے امام بدلا جائے ورنہ اسی کی اقتدا کی جائے۔(۱)

(۱) ومنہا ترک التشدید والمد في موضعہما: لو ترک التشدید في قولہ إیاک نعبد وإیاک نستعین۔ (الفاتحۃ: ۵) أو قرأ الحمد للّٰہ رب العالمین۔ (الفاتحۃ: ۲) وأسقط التشدید علی الباء المختار أنہا لا تفسد، وکذا في جمیع المواضع وإن کان قول عامۃ المشایخ إنہا تفسد۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الخامس في زلۃ القاري‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۹)
 

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص211

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 2744/45-4279

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ انزال کا مطلب ہے کہ منی کا نکلنا ۔اگر منی کا نکلنا سونے کی حالت میں ہو تو اس کو احتلام کہاجاتاہے جس کو لوگ بدخوابی بھی کہتے ہیں۔ مرد و عورت کی شرمگاہ سے منی کا نکلنا غسل کو واجب کردیتاہے۔ لہذا انزال چاہے جاگنے میں ہوا ہو یا سونے میں ، بہرصورت ا س سے آدمی ناپاک ہوجاتاہے اور اس پر غسل فرض ہوجاتاہے۔  مردو عورت کی شرمگاہ سے منی  نکلنے سےغسل فرض ہوجاتاہے، اسی طرح اگر مرد کا عضو تناسل عورت کی شرمگاہ میں داخل ہوجائے تو اس سے بھی غسل فرض ہوجاتاہے، چاہے انزال ہو یا نہ ہو۔ خلاصہ یہ ہے کہ شہوت کے ساتھ منی کے نکلنے، جماع کرنے، حیض ونفاس سے پاک ہوجانے، احتلام ہوجانے سے غسل واجب ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ غسل مستحب ہے۔

’’فرض الغسل عند خروج المني موصوف بالدفق و الشهوة عند الإنفصال عن محله‘‘. (البحر الرائق، كتاب الطهارة، [ المعاني الموجبة للغسل] ١/ ٥٥، ط: سعيد)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند