Frequently Asked Questions
حدیث و سنت
الجواب وبا اللّٰہ التوفیق:ڈاڑھی ایک مشت سے کم کرنا یا بالکل منڈانا، موجب فسق وگناہِ کبیرہ ہے(۱)؛ لیکن مذکورہ فی السوال باتیں حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں نہیں ہیں، وعظ ونصیحت کے وقت انتہائی احتیاط لازم ہے جو حدیث نہ ہو، اس کو حدیث کہہ کر بیان کرنا شرعاً درست نہیں۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے: ’’من تعمد علی کذباً فلیتبؤ مقعدہ من النار‘‘(۲)
(۱) أما الأخذ منہا وہي دون ذلک کما یفعلہ بعض المغاربۃ ومخنثۃ الرجال فلم یبحہ أحد، وأخذ کلہا فعل یہود الہند ومجوس الأعاجم۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصوم: باب ما یفسد الصوم ومالا یفسدہ‘‘: ج ۲، ص: ۲۱۸)
(۲) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: إثم من کذب علي النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۱، ص: ۲۱، رقم: ۱۰۸۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص120
بدعات و منکرات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:بندوں کے حقوق کی ادائیگی کی فکر کرنا اور قرض کو ادا کرنے کی کوشش کرنا اللہ تعالیٰ سے تعلق کی دلیل ہے اور یہ توکل کے منافی بھی نہیں ہے۔ دنیا دار الاسباب ہے، یہاں اسباب اختیار کرنے کے بعد توکل کرنا ہوگا، آپ نماز وتلاوت وغیرہ کے ساتھ ہی تبلیغی جماعت سے جڑے رہیں اور قرض کو جلد از جلد ادا کرنے کی کوشش کریں، قرض کی ادائیگی سے پہلے مزید قرض لینا یا اس کا مشورہ دینا حماقت ہے۔ حقوق العباد کی ادائیگی میں کوتاہی ہرگز نہ کریں۔(۱)
(۱) {إِنَّ اللّٰہَ یَأْمُرُکُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمٰنٰتِ إِلٰٓی أَھْلِھَالا} (سورۃ النساء: ۵۸)…بقیہ حاشیہ آئندہ صفحہ پر……إن دمائکم وأموالکم وأعراضکم بینکم حرام، الحدیث۔ (تحفۃ الأحوذي، باب ما جاء دمائکم وأموالکم علیکم حرام: ص: ۳۱۳)
----------
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص330
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: بشرط صحت سوال مقررقائم، مقام امام امامت کے مستحق ہیں، دوسرا آدمی جو مقرر امام نہیں ہے وہ مستحق امامت نہیں ہے نیز کسی شرعی وجہ کے نہ ہوتے ہوئے اس شخص کا جماعت چھوڑ کر چلے جانا قطعاً درست نہیں اور ان کا یہ کہنا کہ میں مقرر قائم مقام امام سے بڑا عالم ہوں یہ شرعی عذر نہیں ہے، مقرر امام خواہ مقتدی سے کم درجہ کا عالم ہو تب بھی جماعت چھوڑنی درست نہیں اور ترک جماعت کا گناہ اس کے دامن پر ہوگا۔(۱)
(۱) عن أبي مسعود، أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: لا یؤم الرجل في سلطانہ ولا یجلس علی تکرمتہ في بیتہ إلا بإذنہ۔ (أخرجہ الترمذي في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب من أحق بالإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۵۸، رقم: ۲۳۵)
ولا یؤمن الرجل الرجل في سلطانہ) أی: في مظہر سلطنتہ ومحل ولایتہ، أو فیما یملکہ، أو فی محل یکون في حکمہ) ویعضد ہذا التأویل الروایۃ الأخری في أہلہ، وروایۃ أبي داؤد في بیتہ ولا سلطانہ، ولذا کان ابن عمر یصلی خلف الحجاج، وصح عن ابن عمر أن إمام المسجد مقدم علی غیر السلطان، وتحریرہ أن الجماعۃ شرعت لاجتماع المؤمنین علی الطاعۃ وتآلفہم وتوادہم، فإذا أم الرجل الرجل في سلطانہ أفضی ذلک إلی توہین أمر السلطنۃ، وخلع ربقۃ الطاعۃ۔ (ملا علي قاري، المرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، الفصل الأول‘‘: ج۳، ص: ۱۷۵، رقم: ۱۱۱۷)
قولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ولا یؤمن الرجل في سلطانہ معناہ ماذکرہ أصحابنا وغیرہم أن صاحب البیت والمجلس وإمام المسجد أحق من غیرہ وإن کان ذلک الغیر أفقہ وأقرأ وأورع وأفضل منہ وصاحب المکان أحق فإن شاء تقدم وإن شاء قدم من یریدہ وإن کان ذلک الذي یقدمہ مفضولاً بالنسبۃ إلی باقي الحاضرین لأنہ سلطانہ فیتصرف فیہ کیف شاء۔ (النووي، شرح النووی علی مسلم، ’’کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ: باب من أحق بالإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۳۶، رقم: ۶۷۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص111
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر آپ کواتنا وقت بھی نہیں ملتا کہ وضو کر کے نماز ادا کریں بلکہ ہر وقت یہ پیشاب یا منی کے قطروں کا سلسلہ جاری رہتا ہے، ایک نماز ادا کرنے کا وقت بھی نہیں خالی ملتا تو مذکورہ شخص معذور کے حکم میں ہے، اس کے لیے شرعی حکم یہ ہے کہ وہ وضو کر کے ایک وقت کی نماز ادا کرے پھر دوسرے وقت کے لئے دوبارہ وضو کرے اور معذور کی امامت درست نہیں ہے۔(۱)
(۱)صاحب عذر من بہ سلس بول لا یمکنہ إمساکہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض مطلب في أحکام المعذور‘‘ج۱، ص:۵۰۴) ؛ و إنما یصیر صاحب عذر إذا لم یجد في وقت الصلاۃ زمنا یتوضأ و یصلي فیہ خالیا عن الحدث۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارات، فصل في الاستحاضۃ‘‘ج۱، ص:۱۸۵) ؛ (وطاھر بمعذور) أي و فسد اقتداء طاھر بصاحب العذر المفوت للطھارۃ لأن الصحیح أقوی حالا من المعذور۔ (ابن نجیم، البحرالرائق،’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ‘‘ج۱،ص۶۳۰)؛ ولا یصلي الطاھر خلف من بہ سلس البول ولا الطاھرۃ خلف المستحاضۃ، و ھذا إذا قارن الوضوء الحدث أو طرأ علیہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس: في الإمامۃ، الفصل الثالث: في بیان ما یصلح إمام لغیرہ‘‘ج۱،ص:۱۴۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص406
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: چاشت کی نماز کا وقت سورج طلوع ہونے سے زوال تک ہے؛ لیکن افضل یہ ہے کہ ایک چوتھائی دن گذرنے کے بعد پڑھے یعنی سورج طلوع ہونے اور زوال کے درمیان (ایک چوتھائی دن) سے شروع ہوکر زوال تک رہتا ہے؟ اس کی چار رکعتیں ہیں دو بھی پڑھ سکتے ہیں زیادہ پڑھنی چاہیں تو بارہ رکعت پڑھ سکتے ہیں۔ جیسا کہ در مختار میں ہے:
’’وندب أربع فصاعداً في الضحیٰ علی الصحیح من بعد الطلوع إلی الزوال ووقتہا المختار بعد ربع النہار وفي المنیۃ أقلہا رکعتان وأکثرہا اثنتا عشر وأوسطہا ثمان وہو أفضلہا کما في الذخائر الأشرفیۃ لثبوتہ بفعلہ الخ‘‘ (۱)
(۱) ابن عابدین،رد المحتارعلی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مطلب: سنۃ الضحی‘‘: ج۲، ص: ۴۶۵۔
عن أنس رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من صلی الفجر في جماعۃ ثم قعد یذکر اللّٰہ حتی تطلع الشمس، ثم صلی رکعتین کانت لہ کأجر حجۃ وعمرۃ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: تامۃ تامۃ تامۃ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ: ’’أبواب الصلاۃ‘‘: باب ما ذکر مما مستحب من الجلوس في المسجد، ج ۱، ص: ۱۳۰، رقم: ۵۸۶)
(و) ندب (أربع فصاعدا في الضحی) علی الصحیح من بعد الطلوع إلی الزوال ووقتہا المختار بعد ربع النہار۔ وفي المنیۃ: أقلہا رکعتان وأکثرہا اثنتا عشر، وأوسطہا ثمان وہو أفضلہا کما في الذخائر الأشرفیۃ، لثبوتہ بفعلہ وقولہ علیہ الصلاۃ والسلام۔ (ابن عابدین، رد المحتارعلی الدر المختار، ’’کتاب الصلوۃ: باب الوتر والنوافل‘‘ مطلب: سنۃ الضحی، ج ۲، ص: ۴۶۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص84
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: اقامت کہنا شریعت میں سنت مؤکدہ ہے جب کہ جماعت کے ساتھ نماز ادا کی جا رہی ہو اور اگر کوئی انفرادی طور پر نماز پڑھ رہا ہے اس وقت اقامت کہنا مستحب ہے۔ اقامت پانچوں فرض نمازوں اور جمعہ کی نماز باجماعت میں مردوں پر سنت مؤکدہ ہے، سنن ونوافل وعیدین میں اقامت نہیں ہے اسی طرح نماز باجماعت میں اقامت ترک کرنا مکروہ ہے اور ترک کرنے والا گنہگار بھی ہوگا نیز انفرادی فرض نماز میں اگر اقامت چھوڑ دی گئی تو اس سے گناہ تو نہیں ہوگا، البتہ ایسا کرنا خلاف اولیٰ ہے۔ تاہم بغیر اقامت کے پڑھی جانے والی نماز ادا ہو جائے گی اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔
’’وکذا الإقامۃ سنۃ مؤکدۃ في قوۃ الواجب؛ لقول النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا حضرت الصلاۃ فلیؤذن لکم أحدکم ولیؤمکم أکبرکم، وللمدوامۃ علیہا للفرائض، ومنہا الجمعۃ فلایؤذن لعید واستسقاء وجنازۃ ووتر‘‘(۱)
’’ویکرہ أداء المکتوبۃ بالجماعۃ في المسجد بغیر أذان وإقامۃ۔ کذا في فتاویٰ قاضي خان، ولا یکرہ ترکہما لمن یصلي في المصر إذا وجد في المحلۃ ولا فرق بین الواحد والجماعۃ۔ ہکذا في التبیین والأفضل أن یصلي بالأذان والإقامۃ کذا في التمرتاشي وإذا لم یؤذن في تلک المحلۃ یکرہ لہ ترکہما ولو ترک الأذان وحدہ لا یکرہ کذا في المحیط ولو ترک الإقامۃ یکرہ۔ کذا في التمرتاشي‘‘(۲)
(۱) حسن بن عمار، مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۷۶۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الصلاۃ ’’الباب الثاني: في الأذان، الفصل الأول: في صفتہ وأحوال المؤذن‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۱۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص206
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: عورتوں کو ایسے کپڑے پہننے چاہئیں جو ڈھیلے ہوں اس طرح چست نہ ہوں کہ جسم کی ساخت واضح ہوجائے تاہم بیلٹ کی شلوار یا چوڑی دار پائجامہ سے اگر رکوع وسجود میں ان کے ٹائٹ ہونے کی وجہ سے دشواری ہو، تو نماز مکروہ ہے اور اگر دشواری نہ ہو، تو مکروہ نہیں ہے۔ کپڑے ایسے پہنے جائیں کہ جس سے جسم اچھی طرح چھپا رہے جسم کی ساخت نظر نہ آئے باہر جاتے وقت پردے کا پورے طور پر اہتمام کیا جائے صرف شوہر کے سامنے چست کپڑا پہنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ جب کہ وہاں کوئی دوسرا نہ ہو۔(۱)
(۱) ٰیبَنِیْ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاسًا یُّوَارِیْ سَوْاٰتِکُمْ وَرِیْشًاط (سورۃ الأعراف: ۲۶) ٰیبَنِیْٓ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ وَّکُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَاتُسْرِفُوْاج اِنَّہٗ لَایُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَہع ۳۱ (سورۃ الأعراف: ۳۱)
صنفان من أہل النار لم أرہما:… نساء کاسیات، عاریات، ممیلات، مائلات، رئوسہن کأسنمۃ البخت المائلۃ، لا یدخلن الجنۃ ولا یجدن ریحہا وإن ریحہا لیوجد من مسیرۃ کذا وکذا۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب اللباس والزینۃ: باب النساء الکاسیات … الخ‘‘: ج۲، ص: ۲۰۵،رقم:۲۱۲۸)
یسترن بعض بدنہن ویکشفن بعضہ إظہارا لجمالہن وإبرازا لکمالہن وقیل: یلبسن ثوبا رقیقا یصف بدنہن وإن کن کاسیات للثیاب عاریات فی الحقیقۃ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح: ج۶، ص: ۲۳۰۲، مطبوعہ، دار الفکر بیروت)
(وللحرۃ) … (جمیع بدنھا) حتی شعرھا النازل في الأصح (خلا الوجہ والکفین) … (والقدمین … (وتمنع) المرأۃ الشابۃ (من کشف الوجہ بین الرجال) … لخوف الفتنۃ۔ (ابن عابدین، الدرالمختار، ’’باب شروط الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص:۷۷-۷۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص167
متفرقات
Ref. No. 1018
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: جو جنگلی کبوتر ہیں اور وہ کسی کی ملکیت میں نہیں ہیں تو ان کو جو پکڑ لے اسی کی ملک ہوتے ہیں اس لئے اگر آپ کے پالتو کبوتروں کے ساتھ دوسرے کبوتر جو کسی دوسرے کی ملک نہ ہوں آجائیں تو آپ کے لئے ان کو پکڑکر کھانا اور خریدوفروخت کرنا درست ہے، تاہم اگر وہ کسی کی ملک ہوں ، یاملک کی کوئی خاص علامت ہوتو پھر ان کو پکڑنا درست نہیں ہے؛ اگر پکڑلیا اور مالک آگیا تو اس کو لوٹانا ضروری ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 966/41-120
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔جن علاقوں میں جمعہ کی شرائط پائی جاتی ہوں، وہاں جامع مسجد میں اگر تمام لوگوں کے لئے گنجائش ہو تو سب کو ایک ہی مسجد میں جمعہ پڑھنا چاہئے۔ اس لئے کہ جمعہ کا مقصد ہی اجتماعیت کا اظہار ہے۔ جب سب لوگ ایک جگہ جمعہ پڑھیں گے تو اجتماعیت اور اتحاد کا مظاہرہ ہوگا؛ تاہم جامع مسجد کے علاوہ دوسری مسجد میں بھی جمعہ کی نماز درست ہے۔
وعلی الروایۃ المختارۃ عندالسرخسی وغیرہ من جواز تعددھا (فتح القدیر 2/65)۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Business & employment
Ref. No. 1078/41-267
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
It is permissible to hold shares of the companies that do Halal business. So before investment you have to make inquiries about their products and production methods.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband