Prayer / Friday & Eidain prayers
Whether the following is Mufta bihi Qoul ? For the same majlis, only one Sijdah is Wajib for repeated tilawat of the Ayat e Sijdah. Majlis will not change may it be too long or one eats or drinks or stands or walks a few steps for example rides on the vehicle or comes out from vehicle or goes from one corner to another of the masjid & bed room (those parts of the masjid where IQTIDA is valid are treated as same place).Furthermore,Journey by boat does not change the Majlis for the sitting person but journey through road by vehicle. Ref:نفع المفتي والساءل of Abdul Hai Lakhnawi Rahimahullah

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایمان مجمل کے الفاظ میں حقیقتِ نسبت کو بیان کیا ہے، اور قرآن پاک میں نسبت ادب کو بیان کیا ہے کہ شر کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کرنا بے ادبی ہے۔ (۱)

۱) قولہ تعالی: {مَآ أَصَابَکَ مِنْ حَسَنَۃٍ فَمِنَ اللّٰہِز وَمَا أَصَابَکَ مِنْ سَیِّئَۃٍ  فَمِنْ نَّفْسِکَط} (النساء: ۷۹) وہذا الاختلاف منہي، أي علی ہذا الوجہ، وإنما الطریق في مثل تلک الآیات أن یؤخذ ما علیہ إجماع المسلمین، ویئوّل الایۃ الأخری کما نقول: العقد الإجماع علی أنّ الکلّ بتقدیر اللّٰہ تعالی، وأمّا قولہ تعالی: {مَا أَصَابَک} (النساء:۷۹) إِلَخْ۔ فذہب المفسرون إلی أنّہ متّصل بما قبلہ، والمعني {فَمَالِ  ھٰٓؤُلَآئِ الْقَوْمِ لَا یَکَادُوْنَ یَفْقَھُوْنَ حَدِیْثًا ہ۷۸} (النساء:۷۸) یعني: أنّ المنافقین لا یعلمون ما ہو الصّواب، {وَیَقُوْلُوْنَ ماَ أَصَابَکَ إِلَخ} وقیل: الآیۃ مستأنفۃ أي: ما أصابک یا محمّد أو یا إنسان من حسنۃ، أي: فتح وغنیمۃ وراحۃ وغیرہا، فمن فضل اللّٰہ، {وَمَا أَصَابَکَ مِنْ سَیِّئَۃٍ} أي: من ہزیمۃ وتلف مال ومرض فہو جزاء ما عملت من الذّنوب کما قال تعالی: {وَمَآ أَصَابَکُمْ  مِّنْ مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ أَیْدِیْکُمْ وَیَعْفُوْ عَنْ کَثِیْرٍہط۳۰} (الشوری:۳۰) (ملا علي القاري، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح،’’کتاب العلم‘‘: ج ۱، ص: ۴۴۹، رقم: ۲۳۷)

زیب و زینت و حجاب

Ref. No. 1889/43-1762

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔     اگر کوئی مسلمان عورت منگل سوتر کو بطور زیور کے پہنے ، اور اس سے مشرکانہ  رسم سے مشابہت کا ارادہ نہ ہو، تو اس کی گنجائش  توہے، تاہم جو چیز مشرکانہ   رسم و رواج میں سےہو اور غیرمسلم عورتوں سے مشابہت ہوتی ہو تو ایسی چیز کا ایک مسلمان عورت کے لئے استعمال یقینا مکروہ ہوگا۔  حدیث میں ہے من تشبه بقوم فھو منھم

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نکاح و شادی

Ref. No. 2084/44-2093

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ الفاظ سے اصل مسئلہ پر کوئی فرق نہیں پڑے گا اوراصل  مسئلہ یہ ہے کہ شوہر کے انتقال کے بعد جب تک بیوہ عدت میں ہوتی ہے، شوہر کے نکاح میں باقی رہتی ہے، اس لئے بیوہ اپنے شوہر کو غسل دے سکتی ہے۔ البتہ شوہر کے لئےمردہ بیوی کوغسل دینا شرعاً جائز نہیں ہے؛ کیونکہ اس صورت میں نکاح بالکلیہ ختم ہو چکا ہوتا ہے۔

ویمنع زوجہا من غسلہا ومسہا لا من النظر إلیہا علی الأصح ․․․․․․ وہی لاتمنع من ذلک ․․․․․․ قلت: أي لأنہا تلزمہا عدة الوفاة ولولم یدخل بہا، وفی البدائع: المرأة تغسل زوجہا لأن إباحة الغسل مستفادة بالنکاح، فتبقی مابقي النکاح والنکاح بعد الموت باقی إلی أن تنقضي العدة الخ (درمختار مع الشامی: ۳/۹۰، ۹۱، ط: زکریا) ۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:جنات فرشتے نہیں ہیں؛ اس لئے کہ فرشتے نور سے پیدا ہوئے ہیں اور جنات کی پیدائش آگ سے ہوئی ہے اللہ تعالی کا ارشاد ہے: {وَالْجَآنَّ خَلَقْنٰہُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَّارِ السَّمُوْمِہ۲۷} (۱) اور جنات کو ہم نے آگ سے پیدا کیا ہے۔ فرشتے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کرتے ہیں ہروقت اطاعت میں لگے رہتے ہیں؛ جبکہ جنات میں فرماں بردار اور نافرمان دونوں ہوتے ہیںجنات کے بارے میںاللہ تعالی کا ارشاد ہے: {وَّأَنَّا مِنَّا الْمُسْلِمُوْنَ وَمِنَّا الْقٰسِطُوْنَط فَمَنْ أَسْلَمَ فَأُولٰٓئِکَ تَحَرَّوْا رَشَدًاہ۱۴ وَأَمَّا الْقٰسِطُوْنَ فَکَانُوْا لِجَھَنَّمَ حَطَبًاہلا ۱۵}(۲) ہم میں بعض مسلمان ہوگیے ہیں اور ہم میں سے اب بھی کچھ ظالم ہیں، چنانچہ جو اسلام لا چکے ہیں انہوں نے ہدایت ڈھونڈ لی ہے اور رہے وہ لوگ جو ظالم ہیں تو وہ جہنم کا ایندھن ہیں۔ فرشتے کھاتے پیتے نہیں ہیں ؛جبکہ جنات کھاتے پیتے ہیں۔ حدیث میں ہے کہ جنات کا وفد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا تھا تو آپ نے ان سے فرمایا جس ہڈی پر اللہ تعالیٰ کا نام لیا گیا ہو اس پر پہلے سے زیادہ گوشت تم پاؤگے جو تمہاری غذا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جنات فرشتے نہیں ہیں، قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ بیان کیا ہے کہ تمام فرشتوں نے آدم علیہ السلام کو سجدہ کیا سوائے ابلیس کے، تو یہاں ابلیس کا استثناء اس لئے نہیں تھا کہ ابلیس فرشتوں میں سے ہے؛بلکہ اس لیے تھا کہ اس وقت ابلیس فرشتوں کے ساتھ تھا۔ سورہ کہف میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے: {وَ إِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اسْجُدُوْا لِأٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا إِلَّآ إِبْلِیْسَطکَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّہٖط} (۳) اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو تمام فرشتوں نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے وہ جنات میں سے تھا پس اس نے اپنے پروردگارکے امر سے نافرمانی کی۔ اللہ تعالی نے ابلیس کی نافرمانی کی وجہ اس کا جنات میں سے ہونا بیان کیا ہے،اگر وہ فرشتوں میں سے ہوتا تو اللہ تعالی کی نافرمانی نہیں کرتا اس لئے ابلیس اور جنات یہ فرشتوں میں سے نہیں ہیں۔ (۱) سورۃ الحجر: ۲۷۔ (۲) سورۃ الجن: ۱۴- ۱۵۔ (۳) سورۃ الکہف: ۵۰۔ فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص269

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:آپ کا جذبہ اور فکر قابل ستائش اور صد تعریف ہے۔ اتباع شریعت کا عزم کاش جملہ سجادہ نشینوں کے قلوب میں جاںگزیں ہوجائے اور یہ خانقاہیں سابق کی طرح اصلاح اور اشاعت دین اورمعاشرہ میں سدھار کی خدمات انجام دیں۔
مندرجہ ذیل صندل کا شریعت میں کوئی وجود نہیں ہے، نہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ایسا کیا اور نہ تابعین و تبع تابعین نے، نہ اسلاف عظام و بزرگان دین نے ایسا کیا، یہ بدعت ہے اور بدعت کو ضلالت وگمراہی کہا گیا ہے۔(۱) جمعہ کے خطبہ میں خطیب بھی یہی بتلاتا ہے۔ سرہند شریف میں بھی درگاہ ہے، وہاں سالانہ عرس کے موقع پر قرآن خوانی، نعت گوئی اور وعظ کے سواء اور کچھ نہیں ہوتا۔ ہزاروں افراد اس موقع پر جمع ہوتے ہیں اور ان کا وظیفہ بھی ہوتا ہے، نہ صندل، نہ قوالی، نہ گانا بجانا، یہ سب کے لئے ایک نمونہ ہے۔

۱) وأما أہل السنۃ والجماعۃ فیقولون في کل فعل وقول لم یثبت عن الصحابۃ رضي اللّٰہ عنہم ہو بدعۃ لأنہ لو کان خیراً لسبقونا إلیہ، لأنہم لم یترکوا خصلۃ من خصال الخیر إلا وقد بادروا إلیہا۔ (ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، ’’سورۃ الأحقاف: ۱۰-۱۴‘‘ : ج ۷، ص: ۲۵۶)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص379

قرآن کریم اور تفسیر

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مسابقہ قرأت کا عنوان ہو یا مظاہرہ قرأت کا اس سے قرآن کو بہترین طریقہ پر پڑھنے کا رواج پیدا ہوتا ہے، جب کہ حدیث شریف میں بھی فرمایا کہ ’’حسنوا القرآن بأصواتکم‘‘ کہ قرآن پاک کو بہترین سے بہترین انداز پر پڑھو کہ اس میں شان اسلام کو سلام ہے؛ اس لیے یہ امر مستحسن ہے اور باقی رہا انعام کا معاملہ یہ ترغیب کے لیے ہے، اس کو بھی جائز قرار دیا جاسکتا کہ ترغیب عبادت اعانت علی الطاعت کے قبیل سے ہے جس پر وعدہ ثواب ہے۔
البتہ نمبر کی کمی زیادتی کی وجہ سے ممتحن کی غیبت کرنے والا گنہگار ہوگا۔ جب کہ یہ باتیں تمام امتحانات میں ہوتی ہیں، مدارس دینیہ اسلامیہ کے امتحانات ہوں یا اسکولوں اور کالجوں کے ، آپ کو ہدایت کی جاتی ہے کہ آپ اس کے محاسن پر نظر ڈالیں۔(۱)

(۱) ویجوز إذا کان البدل من جانب واحد بأن قال إن سبقتک فلی کذا وإن سبقتني فلا شيء لک وإن کان البدل من الجانبین فہو حرام لأنہ قمارٌ إلا إذا أدخلا محلِّلاً بینہما … إلی … وما یفعلہ الأمراء فہو جائز بأن أن یقولوا الإثنین أیکما سبق فلہ کذا۔ (ابن عبادین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ‘‘: ج ۹، ص: ۳۱۰)
عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال ما أذن اللّٰہ لشيء ما أذن النبي حسن الصوت یتغني بالقرآن۔ (أخرجہ مسلم، في سننہ، ’’کتاب فضائل القرآن: باب استحباب تحسین الصوت بالقرآن: ج ۱، ص: ۲۶۸، رقم: ۷۹۲)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص60

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:اس سے وضو کرنا درست ہے(۱) ’’و تجوز الطہارۃ بماء خالطہ شيء طاھر، إلی قولہ: والماء الذي یختلط بہ الأشنان أوالصابون أو الزعفران بشرط أن تکون الغلبۃ للماء من حیث الأجزاء بأن تکون أجزاء الماء أکثر من أجزاء المخالط۔ ہذا إذا لم یزل منہ اسم الماء الخ، کبیري‘‘۔(۲)

(۱) و تجوز الطھارۃ بالماء المطلق کماء السماء والعین والبئر والأودیۃ والبحار، و إن غیر طاھر بعض أوصافہ کالتراب والزعفران والصابون(عبدالرحمٰن بن محمد، مجمع الأنہر،کتاب الطہارۃ، ج ۱، ص:۴۴)
(۲) ابراہیم حلبي، کبیري، فصل في بیان أحکام المیاہ، ص:۷۸


 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص458

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر داڑھی گھنی نہ ہو اور بالوں کے اندر سے چہرہ بالکل صاف نظر آتا ہو، تو پوری ڈاڑھی کا دھونا فرض ہے؛ صرف مسح کرنا کافی نہیں ہوگا، اگر گھنی داڑھی ہو، تو نیچے جلد پر پانی پہونچانا ضروری نہیں ہے۔(۱)

(۱)ثم لا خلاف أن المسترسل لا یجب غسلہ ولا مسحہ: بل یسن، و أن الخفیفۃ التي تری بشرتھا، یجب غسل ما تحتھا۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطہارۃ، مطلب، في معنی الاستنشاق و تقسیمہ، ج۱، ص:۲۱۵)؛ والشعر المسترسل من الذقن، لا یجب غسلہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، کتاب الطہارۃ، الباب الأول في الوضوء، ج ۱، ص:۵۴)(مکتبۃ فیصل دیوبند)؛ و(یجب) یعني یفترض (غسل ظاھر اللحیۃ الکثۃ) وھي التي لا تری بشرتھا) في أصح ما یفتی بہ) (ویجب) یعني یفترض (إیصال الماء إلی بشرۃ اللحیۃ الخفیفۃ)۔(احمد بن اسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، کتاب الطہارۃ، فصل في تمام أحکام الوضوء، ص:۶۲)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص126

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:وضو اور غسل کی دعا یکساں ہے جو دعا وضو کی ہے وہی غسل کی ہے، غسل کے لیے علیحدہ کوئی دعا احادیث میںمنقول نہیں ہے۔ علامہ نوویؒ نے لکھا ہے کہ غسل کے اذکار مثل وضو کے ہیں، اس لیے غسل سے فارغ ہوکر وہ دعا پڑھنی چاہیے جو وضو کے بعد پڑھتے ہیں اور اگر غسل خانہ میں برہنہ حالت میں ہو، تو اس حالت میں ذکر نہیں کرنا چاہیے؛ بلکہ غسل سے فارغ ہوکر جب باہر آجائے تو اس وقت پڑھے(۳)’’یستحبّ للمغتسل أن یقول جمیع ما ذکرناہ في المتوضئ من التسمیۃ وغیرہا، ولا فرق في ذلک بین الجُنب والحائض وغیرہما، وقال بعض أصحابنا: إن کان جُنُباً أو حائضاً لم یأتِ بالتسمیۃ، والمشہور أنہا مستحبّۃ لہما کغیرہما، لکنہما لا یجوز لہما أن یقصدا بہا القرآن‘‘ (۱)

(۳)إلاّ حال انکشاف و في محل نجاسۃ فیسمی بقلبہ۔ الظاھر أن المراد أن یسمی قبل رفع ثیابہ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ‘‘ج۱، ص:ـ۲۲۷)
(۱)النووي، الأذکار’’ باب ما یقول علی اغتسال‘‘ ج۱، ص:۵۱(بیروت: دارابن حزم، لبنان)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص313