Frequently Asked Questions
تجارت و ملازمت
Ref. No. 2099/44-2164
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مذکورہ میں زید نے عمر سے خالد کو بطور صدقہ کے ایک ہزار روپیہ دینے اور اس کے خود ضامن ہونے کا اقرار کیاہے، گویا زید یہ کہتاہے کہ میری طرف سے اتنا پیسہ صدقہ کردو، میں اس پیسہ کا ضامن ہوں، تو صورت مذکورہ میں زید پر ہزار روپئے لازم ہوں گے،۔
ولوقال ادفع الی فلان کل یوم درھما فاناضامن لک فاعطاہ حتی اجتمع علیہ مال کثیر فقال الاخر لم ارد ھذا کلہ یلزمہ جمیع ذلک (الفتاوی الھندیۃ 3/256) قال ادفع العشرۃ الیہ علی انی ضامن لک العشرۃ ھذہ یجوز (البحر الرائق 6/236)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:کوئی عورت نبیہ ہوئی ہے یا نہیں اس بارے میں مفسرین ومحدثین کے درمیان اختلاف ہے، بعض حضرات حضرت مریم علیہا السلام کو اور بعض حضرات دوسری بعض عورتوں کی نبوت کے قائل ہیں، لیکن جمہور مفسرین وعلماء کے نزدیک کوئی عورت نبوت یا رسالت سے سرفراز نہیں ہوئی اور یہ ہی قول راجح ہے۔(۲) لہٰذا اصح قول کے موافق مذکورہ فی السوال یا اس کے علاوہ کوئی عورت نبیہ نہیں ہوئی ہے ہاں مذکورہ عورتوں کی ولایت میں کوئی شبہ نہیں۔(۳)
(۱) سورۃ المائدہ: ۳۔
(۲) معارف القرآن: ج۶، ص: ۸۲۔۲) {وَمَآ أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ إِلَّا رِجَالًا نُّوْحِيْٓ إِلَیْھِمْ فَسْئَلُوْا أَھْلَ الذِّکْرِ إِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَہلا ۴۳} (سورۃ النحل: ۴۳)
{وَمَآ أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ إِلَّا رِجَالًا نُّوْحِيْٓ إِلَیْھِمْ مِّنْ أَھْلِ الْقُرٰیط أَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِي الْأَرْضِ فَیَنْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْط وَلَدَارُ الْأٰخِرَۃِ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ اتَّقَوْاط أَفَلاَ تَعْقِلُوْنَہ۱۰۹} (سورۃ یوسف: ۱۰۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص288
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایک صورت تو یہ ہے کہ کھانا کھلایا جائے اور ثواب کی نیت کسی پیر وبزرگ کے لئے کرلی جائے، اس کے جواز میں کوئی شبہ نہیں؛ لیکن مذکورہ صورت میں ۱۱؍ تاریخ متعین کرنا، اس کے لیے رقم جمع کرنا، غرباء و فقراء کے بجائے ملنے جلنے والوں کو کھلانا، پیر اور مزار کا نام رکھنا اور متعین کرنا، یہ تمام اس بات کی علامات ہیں کہ اللہ کے نام کے بجائے پیر ہی کے نام پر سب کیا اور کھلایا جارہا ہے، اس لیے اس میں حصہ لینا یا وہ کھانا کھانا جائز نہیں ہے، اس سے بچنا ضروری ہے۔(۱)
(۱) {إِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسٰکِیْنِ} (سورۃ التوبۃ: ۶۰)
الوصیۃ المطلقۃ لا تحل للغني لأنہا صدقۃ، وہي علی الغني حرام۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الوصایا: باب الوصیۃ بالحدمۃ والسکنیٰ والثمرۃ، فصل في وصایا الذمي‘‘: ج ۱۰، ص: ۴۰۶)
عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو رد۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح: باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)
واعلم أن النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام وما یؤخذ من الدراہم والشمع والزیت ونحوہا إلی ضرائح الأولیاء الکرام تقربا إلیہم فہو بالإجماع باطل وحرام۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصوم: باب ما یفسد الصوم وما لا یفسدہ، مطلب فی النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام‘‘: ج ۳، ص: ۴۲۷)
من تعبد للّٰہ تعالی بشيء من ہذہ العبادات الواقعۃ في غیر أزمانہا فقد تعبد ببدعۃ حقیقیۃ لا إضافیۃ فلا جہۃ لہا إلی المشروع بل غلبت علیہا جہۃ الابتداع فلا ثواب فیہا۔ (أبو اسحاق الشاطبي، الاعتصام: ج ۲، ص: ۲۶)
وشر الأمور محدثاتہا، وکل بدعۃ ضلالۃ۔ وفي روایۃ: وشر الأمور محدثاتہا، وکل محدثۃ بدعۃ۔ (أخرجہ أحمد، في مسندہ، ’’مسند جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہ‘‘: ج ۲، ص: ۵۹۲، رقم: ۸۶۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص396
نکاح و شادی
Ref. No. 2573/45-3940
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ رخصتی سے قبل نکاح کے ناجائز ہونے کا علم ہوگیا اور تفریق کرادی گئی یہ بہت اچھا ہوا، اور اب لڑکے کو معلوم ہونے کے بعد یہ لڑکی میری پوتی کے درجہ میں ہے اس سے نکاح حرام ہے پھر بھی اس سے نکاح کی ضد کرنا بڑی بے شرمی اور بے دینی کی بات ہے۔ اس مسئلہ کا آسان حل تو یہی ہے کہ لڑکے کا نکاح جلد از جلد کسی دوسری لڑکی سے کرادیاجائے۔ اس کی ضد اور اصرار کی بناء پر بہن بیٹی ، پوتی یا کسی بھی محرم سے نکاح کو حلال نہیں کہاجاسکتاہے۔ جو چیز شریعت میں قطعی طور پر حرام ہے اس میں گنجائش کا خیال بھی کسی بے دینی سے کم نہیں ۔
قال الله تعالى: ﴿حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالاَتُكُمْ وَبَنَاتُ الأَخِ وَبَنَاتُ الأُخْتِ﴾۔ (النساء: 23)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
بدعات و منکرات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اپنے عقیدہ کی درستگی، اعمال صالحہ کی تحصیل اور دین کے دیگر بنیادی مسائل کا جاننا ہر مسلمان پر فرض ہے۔(۳) یہ تمام امور دینی مدرسہ، خانقاہ، وغیرہ سے جس طرح حاصل ہوتے ہیں، اسی طرح تبلیغی جماعت میں نکلنے سے بھی حاصل ہوتے ہیں۔ آج کے دور میں اپنی اصلاح اور لوگوں میں دینی بیداری پیدا کرنے کا یہ موثر طریقہ ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا حکم عام ہے؛ ہر دور میں ہر شخص پر وقت اور حالت کے تقاضہ کے مطابق ضروری ہے۔ اپنے گھر پر رہ کر بھی لوگوں کو نیکی کا حکم کرنا اور برائیوں سے روکنا حتی الوسع ضروری ہے۔(۱) اگرآپ اس راہ میں نکلیں گے، تو آپ کو بھی فائدہ ہوگا اور آپ کی ذات سے دوسروں کو بھی فائدہ ہوگا، جو ذخیرہ آخرت ہوگا۔ ’’إن شاء اللّٰہ‘‘ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کوسمجھنے اور اس کو پھیلانے کی توفیق عطا فرمائے۔ میرا مشورہ ہے کہ آپ خود بھی شامل ہوں اور اپنے متعلقین کو بھی شامل کریں۔ کچھ دن اس راستہ میں لگانے کے بعد ہی اس کا فائدہ آپ کی سمجھ میں آئے گا۔ علاوہ ازیں اپنی اصلاح اور دینی مسائل کو سمجھنے کے لئے علماء سے بھی رابطہ رکھیں۔(۲)
(۳) واعلم أن تعلم العلم یکون فرض عین وہو بقدر ما یحتاج لدینہ وفرض کفایۃ وہو ما زاد علیہ لنفع غیرہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’المقدمۃ، مطلب في فرض الکفایۃ وفرض العنایۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۶)
قال العلامي في فصولہ: من فرائض الإسلام تعلم ما یحتاج إلیہ العبد في إقامۃ دینہ وإخلاص عملہ للّٰہ تعالی ومعاشرۃ عبادہ۔ وفرض علی کل مکلف ومکلفۃ بعد تعلمہ علم الدین والہدایۃ تعلم علم الوضوء والغسل والصلاۃ والصوم، وعلم الزکاۃ لمن لہ نصاب، والحج لمن وجب علیہ۔ (’’أیضاً‘‘)
(۱) إن العلماء اتفقوا علی أن الأمر بالمعروف والنہي عن المنکر من فروض الکفایات۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني للآلوسي:، ’’سورۃ آل عمران: ۱۰۴‘‘: ج ۳، ص: ۳۴)
--------------
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص335
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر وہ دونوں واقعی طور پر علم، مسائل اور علم تجوید میں یکساں ہیں، تو ان میں جو شخص زیادہ پرہیز گار اور زیادہ عمر والا ہے اس کو امام بنایا جائے۔ اور اگر ان سب میں دونوں برابر ہوں، تو سید کو امام بنایا جائے۔ ’’ثم أکثرہم حسبا ثم الأشرف نسبا‘‘(۱)
(۱) الحصکفي، الدر المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص:۲۹۵۔
والأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلاۃ ثم الأحسن تلاوۃ وتجویداً للقراء ۃ ثم الأورع أي الأکثر اتقاء للشبہات أي الأکثر اتقأ للشبہات، والتقوی اتقأ المحرمات ثم الأحسن أي الأقدم إسلاما فیقدم شاب علی شیخ أسلم، وقالوا یقدم الأقدم ورعا، وفي النہر عن الزاد وعلیہ یقاس سائر الخصال، فیقال یقدم أقدمہم علما ونحوہ وحینئذ فقلما یحتاج للقرعۃ ثم الأحسن خلقا بالضم ألفۃ بالناس ثم الأحسن وجہا۔ (أیضًا: ص: ۲۹۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص114
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر اتنے وقت کے لیے پانی بند نہیں ہوتا کہ فرض نماز ادا کر سکیں، تو آپ معذور کے حکم میں ہوںگے، وضو کر کے نماز پڑھیں، وہ وضو اس نماز کے وقت تک قائم رہے گا۔(۳)
(۳)تتوضأ المستحاضۃ ومن بہ عذر کسلس بول أو استطلاق بطن لوقت کل فرض … و یصلون بہ ما شاؤا من الفرائض والنوافل۔ (الشرنبلالي، نورالإیضاح مع مراقي الفلاح، کتاب الطہارۃ، باب الحیض والنفاس والاستحاضہ، ج۱، ص:۶۰) وفي المجتبیٰ: الدم والقیح والصدید وماء الجرح والنفطۃ وماء البثرۃ والثدي والعین والأذن لعلۃ سواء علی الأصح۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض، مطلب في أحکام المعذور‘‘ ج۱، ص:۵۰۴) ؛ومن بہ سلس البول والرعاف الدائم والجرح الذی لا یرقأ۔ (بدرالدین العینی، البنایہ شرح الہدایۃ، ’’فصل فيوضوء المستحاضۃ ومن بہ سلس البول‘‘ج۱، ص:۶۸۵، مکتبہ نعیمیہ دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص408
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو تین اوقات میں نماز پڑھنے سے منع کیا ہے، ایک طلوع شمس کے وقت یہاں تک کہ سورج اچھی طرح نکل جائے دوسرے نصف النہار (زوال) اور تیسرا غروبِ آفتاب (سورج کے غروب) کے وقت، ان تینوں وقتوں کے علاوہ قضاء نمازوں کے لیے کوئی خاص وقت متعین نہیں ہے۔ آپ ان کے علاوہ باقی تمام اوقات میں جس وقت چاہیں قضاء نماز پڑھ سکتی ہیں، شریعت مطہرہ آپ کو اس کی اجازت دیتی ہے جیسا کہ علامہ کاسانی نے بدائع الصنائع میں تحریر فرمایا ہے۔
’’لیس للقضاء وقت معین بل جمیع الأوقات وقت لہ إلا ثلاثۃ: وقت طلوع الشمس ووقت الزوال ووقت الغروب، فإنہ لا یجوز القضاء في ہذہ الأوقات لما مر أن من شأن القضاء أن یکون مثل الفائت والصلاۃ في ہذہ الأوقات تقع ناقصۃ والواجب في ذمتہ کامل، فلا ینوب الناقص عنہ‘‘(۱)
’’إن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نھی عن الصلاۃ في ثلاث ساعات: عند طلوع الشمس حتی تطلع ونصف النھار وعند غروب الشمس‘‘(۲)
مراقی الفلاح میں ہے:
’’ثلاثۃ أوقات لا یصح فیھا شيء من الفرائض والواجبات التي لزمت في الذمۃ قبل دخولھا، عند طلوع الشمس إلی أن ترتفع و عند استوائھا إلی أن تزول وعند إصفرارھا إلی أن تغرب‘‘(۳)
خلاصہ: مذکورہ عبارتوں کی روشنی میں یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ تین اوقات کے علاوہ دیگر اوقات میں سے آپ کسی وقت بھی قضاء نماز پڑھ سکتی ہیں، ان تینوں اوقات میں ایسے فرائض وواجبات ادا کرنا درست نہیں، جو ان اوقات کے داخل ہونے سے قبل لازم ہو گئے تھے، جیسا کہ در مختار میں لکھا ہے:
’’وجمیع أوقات العمر وقت القضاء إلا الثلاثۃ المنھیۃ‘‘(۴)
’’قولہ: ’’إلا الثلاثۃ المنھیۃ‘‘: وھي الطلوع والاستواء والغروب‘‘(۵)
(۱) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ، کیفیۃ قضاء الصلوات‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۲، دارالکتاب، دیوبند۔
(۲) سلیمان بن أحمد الطبراني، المعجم الأوسط، ’’ ‘‘: ج ۵، ص:۵۳۔(شاملہ)
(۳) حسن بن عمار، مراقي الفلاح شرح نور الایضاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في الأوقات المکروہۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۵-۱۸۶، دارالکتاب، دیوبند۔
(۴) ابن عابدین، رد المحتارعلی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب قضاء الفوائت، مطلب: في تعریف الإعادۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۲۴، زکریا، دیوبند۔ (۵) أیضًا۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص87
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس پر التزام واصرار مناسب نہیں ہے کیوں کہ احناف کے نزدیک افضل اور بہتر یہ ہے کہ شروع ہی تکبیر میں کھڑا ہوجائے تاکہ تکبیر ختم ہونے تک صفوف کی درستگی ہوجائے اور امام کے تکبیر کہنے کے ساتھ ساتھ مقتدی بھی تکبیر کہہ کر نماز شروع کردیں اور ان کوبھی تکبیر اولیٰ کا ثواب مل جائے۔(۱)
(۱) (قولہ: والقیام لإمام ومؤتم الخ) مسارعۃ لامتثال أمرہ، والظاہر أنہ احتراز عن التاخیر لا التقدیم، حتی لو قام أول الإقامۃ لا بأس اہـ، وکلمۃ ’’لا بأس‘‘ ہنا مستعملۃ في المندوب۔ (نص الطحطاوي في الحاشیۃ علی الدر ہکذا:
عن عبدالرحمن بن عوف سمع أبا ہریرۃ یقول أقیمت الصلوٰۃ فَقُمْنا فَعَدَّلنا الصفوف قبل أن یخرج إلینا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ‘‘: باب متی یقوم الناس للصلاۃ، ج ۱، ص: ۲۲۰، رقم: ۶۰۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص209