Frequently Asked Questions
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس سلسلے میں پہلے تو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ یہ عمل ناجائز اور حرام ہے، شریعت نے جنسی تسکین کے لیے دو راستے مقرر کئے ہیں ایک نکاح کا اور دوسرا باندی سے جماع کا۔ اس وقت جنسی تسکین کی ایک ہی صورت جائز ہے کہ نکاح کے ذریعہ جنسی ضرورت پوری کی جائے اور اگر نکاح ممکن نہ ہوتو روزہ کے ذریعہ اپنی جنسی ضرورت کو کم کیا جائے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے {إلا علی أزواجہم أو ماملکت أیمانہم فإنہم غیر ملومین فمن ابتغی وراء ذلک فأولئک ہم العادون‘‘ (۱)
اگر کوئی اس طرح مصنوعی کھلونے سے جنسی ضرورت پوری کرتا ہے اور اس کو انزال ہوجائے تو غسل واجب ہوگا۔ (۲)
نیز مصنوعی کھلونے سے جنسی عمل کیا اس طورپر کہ مرد نے اپنا حشفہ مصنوعی فرج میں داخل کیا اور انزال نہیں ہوا، تو اس پر غسل واجب نہیں ہوگا اوراگر عورت نے مصنوعی کھلو نے کے حشفہ کو قضاء شہوت کے لیے اپنی شرم گاہ میں داخل کیا اور اس سے اس کو تسکین ملی تو اگر چہ انزال نہیں ہوا، اس پر غسل واجب ہوجائے گا۔ (و) لا عند (إدخال إصبع ونحوہ) کذکر غیر آدمي وذکر خنثی ومیت وصبي لایشتہی وما یصنع من نحو خشب (في الدبر أو القبل) علی المختار ... (بلا إنزال) لقصورالشہوۃ أما بہ فیحال علیہ ۔۔۔۔ في ردالمحتار: قال
في التجنیس: رجل أدخل إصبعہ في دبرہ وہو صائم اختلف في وجوب الغسل والقضاء. والمختار أنہ لا یجب الغسل ولا القضاء؛ لأن الإصبع لیس آلۃ للجماع فصار بمنزلۃ الخشبۃ، ذکرہ في الصوم، وقید بالدبر؛ لأن المختار وجوب الغسل في القبل إذا قصدت الاستمتاع؛ لأن الشہوۃ فیہن غالبۃ فیقام السبب مقام المسبب دون الدبر لعدمہا۔ نوح أفندی‘‘’’وکذا الاستمناء بالکف وإن کرہ تحریما لحدیث ناکح الید ملعون، ولو خاف الزنی یرجی أن لا وبال علیہ ... بقي ہنا شيء وہو أن علۃ الإثم ہل ہي کون ذلک استمتاعا بالجزء کما یفیدہ الحدیث، وتقییدہم کونہ بالکف ویلحق بہ ما لو أدخل ذکرہ بین فخذیہ مثلا حتی أمنی، أم ہي سفح الماء وتہییج الشہوۃ في غیر محلہا بغیر عذر کما یفیدہ قولہ و أما إذا فعلہ لاستجلاب الشہوۃ إلخ؟ لم أرمن صرح بشيء من ذلک والظاہر الأخیر؛ لأن فعلہ بید زوجتہ ونحوہا فیہ سفح الماء لکن بالاستمتاع بجزء مباح کما لو أنزل بتفخیذ أو تبطین بخلاف ما إذا کان بکفہ ونحوہ، وعلی ہذا فلو أدخل ذکرہ في حائط أو نحوہ حتی أمنی أو استمنی بکفہ بحائل یمنع الحرارۃ یأثم أیضا، ویدل أیضا علی ما قلنا ما في الزیلعي حیث استدل علی عدم حلہ بالکف بقولہ تعالی ’’والذین ہم لفروجہم حافظون‘‘ (۱) الآیۃ وقال فلم یبح الاستمتاع إلا بہما أي بالزوجۃ والأمۃ اہ فأفاد عدم حل الاستمتاع أي قضاء الشہوۃ بغیرہما ہذا ما ظہر لي واللہ سبحانہ أعلم‘‘ (۲)
(۱)المؤمنون، آیت: ۶
(۲) ابن عابدین، ردالمحتار ’’مطلب رطوبۃ الفرج‘‘ ج۱۰،ص:۳۰۴-۳۰۶
(۱)المؤمنون: ۵(۲) ابن عابدین، رد المحتار’’باب ما یفسد الصوم ومالا یفسدہ، مطلب في حکم الاستمناء بالکف‘‘ج۳، ص: ۳۷۱
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص314
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: تجوید کے خلاف قرآن کریم پڑھنے یا انتظامی مصلحت کی بنا پر اہل محلہ کے مشورہ پر متولی نے جب امامت سے سبکدوش کر دیا، تو مذکورہ شخص کا زبردستی امامت کرنا، آپسی انتشار پھیلانا شرعاً درست نہیں ہے؛ اس لیے متولی کو صحیح قرآن پڑھنے والے شخص کو امام مقرر کرنا چاہئے اور مذکورہ شخص کی قرأت اگر مفسد نماز نہیں ہے، تو اس کے پیچھے اداء کی گئیں نمازیں درست ہیں۔(۱)
(۱) والأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلاۃ ثم الأحسن تلاوۃ وتجویدً للقراء ۃ ثم الأورع ثم الأسن ثم الأحسن خلقاً ثم الأحسن وجہا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴)
الأولیٰ بالإمامۃ أعلمہم بأحکام الصلاۃ ہکذا في المضمرات وہو الظاہر ہکذا في البحرالرائق۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثاني في بیان من ہو أحق بالإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۱)
قال في الخانیہ والخلاصۃ الأصل فیما إذا ذکر حرفا مکان حرف وغیرالمعنی إن أمکن الفصل بینہما بلا مشقۃ تفسد وإلا یمکن إلا بمشقۃ کالظاء مع الضاد المعجمتین والصاد مع السین المہملتین والطاء مع التاء قال أکثرہم لاتفسد وفي خزانۃ الأکمل قال القاضي أبوعاصم: إن تعمد ذلک تفسد وإن جری علی لسانہ أولا یعرف التمییز لاتفسد وہو المختار۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا‘‘: ج۲، ص: ۳۹۶)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص214
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: امامت کے لیے جھگڑا نہیں کرنا چاہئے اکابر ملت اور سلف صالحین کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے امام بننے سے گریز کیا اور اپنے بجائے ایسے لوگوں کو امامت کے لیے بڑھا دیا کہ جو بزرگی اور تقوے میں ان کے برابر نہیں تھے۔(۲)
(۲) فإن تساووا فأورعہم، لقولہ علیہ السلام: من صلی خلف عالم تقي فکأنما صلی خلف نبي۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۳۵۸، زکریا دیوبند)
الأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلاۃ، فقط صحۃ وفساداً بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ وحفظہ قدر فرض وقیل واجب وقیل سنۃ۔ (ابن عابدین، الرد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴، زکریا دیوبند)
{یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْاَنْفَالِط قُلِ الْاَنْفَالُ لِلّٰہِ وَالرَّسُوْلِج فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَاَصْلِحُوْا ذَاتَ بَیْنِکُمْص وَاَطِیْعُوااللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗٓ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَہ۱ } (سورۃ الأنفال: ۱)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص298
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:تکبیر پڑھتے وقت اگر آگے بڑھنے اور پیچھے ہٹنے کی ضرورت ہے تو جائز ہے، (۱) بلا وجہ ایسا کرنا خلاف اولیٰ ہے؛ لیکن اس سے نماز میں کوئی خلل پیدا نہیں ہوگا۔
(۱) ویستقبل غیر الراکب القبلۃ بہما ویکرہ ترکہ تنزیہا (قولہ: غیر الراکب) عبارۃ الإمداد: إلا أن یکون راکباً مسافراً لضرورۃ السیر الخ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، مطلب في أول من بنی المنائر للأذان‘‘: ج ۲، ص: ۵۵، مکتبہ: زکریا، دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص196
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: جو شخص خطبہ کے وقت یا نماز جمعہ میں تشہد تک شریک ہو جائے ایسا شخص جمعہ کی نماز میں شامل ہو جائے، اور جمعہ کی نماز پوری کرے ظہر نہیں۔(۱)
(۱) عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من أدرک من الجمعۃ رکعۃ فلیصل إلیہا أخری۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’أبواب إقامۃ الصلوات والسنۃ فیہا، باب ما جاء فیمن أدرک من الجمعۃ رکعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۷۸، رقم: ۱۱۲۱)
عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أدرک رکعۃ الجمعۃ فقد أدرکہا ولیضف إلیہا أخری۔ (أخرجہ الدار قطني، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۲۳، رقم: ۱۶۰۸)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص42
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: روشنی اور تاریکی دونوں حالتوں میں نماز پڑھنا شرعاً بلاکراہت درست ہے(۲) اور نماز میں خشوع وخضوع اور دنیاوی باتوں سے دھیان ہٹا کر اللہ رب العزت کی طرف ذہن کو پورے طور پر متوجہ کرنا مطلوب شرعی ہے۔ {الَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلَا تِھِمْ خَاشِعُوْنَہلا ۲ }(۳) تاہم مقتدیوں کو جس میں سہولت ہو وہی اختیار کیا جائے اگر کسی چیز سے نقصان کا اندیشہ ہو تو کچھ روشنی رکھنی چاہئے۔
(۲) عن عائشۃ زوج النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہا قالت: کنت أنام بین یدی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ورجلاي في قبلتہ، فإذا سجد غمزنی فقبضت رجلي فإذا قام بسطتہما قالت: والبیوت یومئذ لیس فیہا مصابیح۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ: ’’کتاب الصلاۃ، باب الصلاۃ علی الفراش‘‘ ج۱، ص: ۵۶، رقم ۳۸۲)
(۳) سورۃ المؤمنون: ۲۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص156
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق: معنی میں ایسی خرابی نہیں آئی کہ اس سے نماز فاسد ہو اس لیے نماز فاسدہ نہیں ہوئی۔(۱)
(۱) ولو زاد کلمۃ أو نقص کلمۃ أو نقص حرفا، أو قدمہ أو بدلہ بآخر نحو : من ثمرہ إذا أثمر واستحصد تعالی جد ربنا انفرجت بدل انفجرت أیاب بدل أواب لم تفسد ما لم یتغیر المعنی إلا ما یشق تمییزہ کالضاد والظاء فأکثرہم لم یفسدہا۔
(قولہ: أو بدلہ بآخر) ہذا إما أن یکون عجزا کالألثغ وقدمنا حکمہ فی باب الإمامۃ، وإما أن یکون خطأ، وحینئذ فإذا لم یغیر المعنی، فإن کان مثلہ في القرآن نحو : (إن المسلمون) لا یفسد، وإلا نحو (قیامین بالقسط)، وکمثال الشارح لا تفسد عندہما، وتفسد عند أبي یوسف، وإن غیر فسدت عندہما؛ وعند أبي یوسف إن لم یکن مثلہ في القرآن، فلو قرأ (أصحاب الشعیر) بالشین المعجمۃ فسدت اتفاقا، وتمامہ في الفتح (قولہ: نحو من ثمرہ إلخ) لف ونشر مرتب (قولہ: إلا ما یشق إلخ) ( الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا، ج۲، ص۳۹۵، ۳۹۶، زکریا)۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص274
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: عشاء کے مذکورہ نفل ہوں یا دیگر نوافل بیٹھ کر پڑھنے میں آدھا ثواب ملتا ہے، اگرچہ ان نوافل کا آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بیٹھ کر پڑھنا بھی ثابت ہے۔(۲)
(۲) ویتنفل مع قدرتہ علی القیام قاعداً لا مضطجعاً إلا بعذر ابتداء وکذا بناء الشروع بلا کراہۃ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج۲، ص: ۴۸۳، ۴۸۴، زکریا دیوبند)
وفي التجنیس: الأفضل أن یقوم فیقرأ شیئاً ثم یرکع لیکون مواقفاً للسنۃ … ففی صحیح مسلم عن عبد اللّٰہ بن عمرو قلت : حدثت یا رسول اللّٰہ (صلی اللّٰہ علیہ وسلم) انک قلت صلاۃ الرجل قاعداً علی نصف الصلاۃ وأنت تصلی قاعداً قال أجل لست کأحد منکم۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۳۷، مکتبہ: سعید کراچی پاکستان)
ویجوز أن یتنفل القادر علی القیام قاعداً بلا کراہۃ في الأصح۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب التاسع، في النوافل‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۳، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص383
متفرقات
Ref. No. 950 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ہاں، دفن کرسکتے ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 41/1085
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
While doing tawaf it is Makrooh (disliked) looking at Kaba. One should look to his front only.
During tawaf one has to act like he is in namaz; as he is recommended to look at the place of sajda during namaz.
لقوله عليه السلام: "الطواف حول الكعبة مثل الصلاة إلا أنكم تتكلمون فيه فمن تكلم فيه فلا يتكلمن إلا بخير" (حاشیۃ الطحطاوی 1/82)
And Allah knows the best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband