Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: سجدہ میں اس طرح پیر اٹھانا برا ہے، لیکن اگر سجدے میں پیروں کی انگلیاں تھوڑی دیر کے لیے بھی زمین پر رکھی گئیں، تو سجدہ ادا ہو جائے گا۔(۱)
(۱) ولو سجد ولم یضع قدمیہ علی الأرض لا یجوز ولو وضع إحداہما جاز مع الکراہۃ إن کان بغیر عذر: کذا في شرح منیۃ المصلي لابن أمیر الحاج۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الأول في فرائض الصلاۃ، ومنہا: السجود‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۸، مکتبہ زکریا دیوبند)
وأما وضع القدم علی الأرض في الصلوٰۃ حال السجدۃ ففرض فلو وضع إحداہما دون الأخریٰ تجوز صلاتہ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ص: ۲۳۰، مکتبہ شیخ الہند دیوبند)
لأن أصبع واحدۃ منہما یکفی کما ذکرہ بعد، وأفاد أنہ لو لم یضع شیئاً من القدمین لم یصح السجود۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ: بحث الرکوع والسجود ‘‘: ج ۲، ص: ۱۳۵، مکتبہ زکریا دیوبند)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص342
روزہ و رمضان
Ref. No. 985 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
شش عید کے روزے عید سے اگلے روز ہی شروع کردے تو بھی درست ہے اور اس کے بعد شروع کرے توبھی درست ہے۔ پھر لگاتار رکھے یا درمیان میں ناغہ کرے دونوں صورتیں درست ہیں۔ شامی ج2 ص 435
واللہ اعلم
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 40/0000
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اریکہ یا ایریکا ہندی کا لفظ ہے، اور یہ نام غیرمسلموں میں زیادہ مستعمل ہے، اس لئے اس سے احتراز کرنا چاہئے اور کوئی اسلامی نام اریبہ ، عفیفہ عقیلہ وغیرہ رکھنا چاہئے۔
۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Islamic Creed (Aqaaid)
Games and Entertainment
Ref. No. 962/41-119
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
It is a kind of gambling (game of chance) which is strictly prohibited in Islam. Gambling refers to the betting or staking of something of value, with consciousness of risk and hope of gain, on the outcome of a game, or a contest. In the case you mentioned above a team may acquire money more than they deposited and another team may lose what they deposited and it is called gambling in Islam. And it is a grave sin.
يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصابُ وَالْأَزْلامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (سورہ مائدۃ 90)
والحاصل أن العدالة إنما تسقط بالشطرنج إذا وجد واحد من خمسة: القمار وفوت الصلاة بسببه وإكثار الحلف عليه واللعب به على الطريق كما في فتح القدير،(شامی 5/483) لأن القمار من القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى، وسمي القمار قمارا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص، ولا كذلك إذا شرط من جانب واحد لأن الزيادة والنقصان لا تمكن فيهما بل في أحدهما تمكن الزيادة، وفي الآخر الانتقاص فقط فلا تكون مقامرة لأنها مفاعلة منه زيلعي (شامی 6/403)۔
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No.1411/42-839
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
A married woman will live with her worldly husband in the Heaven and she will be the leader of the virgins whom the husband meets. And if a woman in the world remarries after the death or divorce of her husband, then she will have the option in the Heaven to stay with whichever husband she wants to live with. And a believing virgin girl will be married to a boy of her choice. If she does not like a man, then Allah will create a man from Hoor-e-Ain and marry her.
"، قلت: يا رسول الله المرأة منا تتزوج الزوجين والثلاثة والأربعة ثم تموت فتدخل الجنة ويدخلون معها، من يكون زوجها؟ قال: " يا أم سلمة إنها تخير فتختار أحسنهم خلقاً، فتقول: أي رب إن هذا كان أحسنهم معي خلقاً في دار الدنيا فزوجنيه، يا أم سلمة ذهب حسن الخلق بخير الدنيا والآخرة'' (23/ 367، وفي الغرائب: ولو ماتت قبل أن تتزوج تخیّر أیضًا، إن رضیت بآدميّ زوجت منہ، وإن لم ترض فاللہ یخلق ذکرًا من الحور العین، فیزوجہا منہ۔
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
بدعات و منکرات
Ref. No. 1530/43-1034
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جس طرح ڈاکٹر مریض کے احوال دیکھ کر مرض کی تشخیص کرتاہے، اور اندازہ لگالیتاہے کہ اس کو کون سا مرض لاحق ہے، اسی طرح عاملین کچھ آثار سے اور علامات سے جادو یا آسیبی اثرات کی تشخیص کرتے ہیں۔ قرآن و حدیث سے اس کا ثبوت نہیں ہے البتہ عاملین کے اپنے قدیم تجربات ہیں جو لوگوں کے لئے مفید ثابت ہوتے ہیں ، لیکن اس میں غلطی کا امکان بہرحال رہتاہے، تاہم اس کو علم غیب سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ایک اندازہ ہوتاہے اور اس کے مطابق تعویذ و رقیہ کے ذریعہ اس کا علاج کیاجاتاہے۔ اور تعویذ ورقیہ کی شریعت میں اس شرط کے ساتھ اجازت ہے کہ اس میں شرکیہ کوئی بات نہ ہواور عقیدہ کے فساد کا سبب نہ بنے۔ اس لئے ایسے عامل سے علاج کرانے میں کوئی حرج نہیں ہے جو متبع سنت ہو اور شرکیہ کلمات سے بچتے ہوئے قرآن و حدیث سے علاج کرتاہو۔
’’ عن عوف بن مالك الأشجعي، قال: كنا نرقي في الجاهلية، فقلنا: يا رسول الله كيف ترى في ذلك؟ فقال: «اعرضوا علي رقاكم، لا بأس بالرقى ما لم يكن فيه شرك»‘‘. صحیح مسلم، (4/ 1727، رقم الحدیث: 2200، باب لا باس بالرقی مالم یکن فیہ شرک، ط: دار احیاء التراث العربی)
’’ذكر مالك في " موطئه ": عن زيد بن أسلم: ( «أن رجلاً في زمان رسول الله صلى الله عليه وسلم أصابه جرح، فاحتقن الجرح الدم، وأن الرجل دعا رجلين من بني أنمار، فنظرا إليه، فزعما أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لهما: " أيكما أطب"؟ فقال: أو في الطب خير يا رسول الله؟ فقال: " أنزل الدواء الذي أنزل الداء (ففي هذا الحديث أنه ينبغي الاستعانة في كل علم وصناعة بأحذق من فيها فالأحذق، فإنه إلى الإصابة أقرب‘‘.(زاد المعاد فی ھدی خیرالعباد، ص:781، فصل في هديه صلى الله عليه وسلم في الإرشاد إلى معالجة أحذق الطبيبين، دار الفکر بیروت)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس طرح کے جملہ کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ مانگنے کی ترغیب ہو، اور توجہ اللہ کی طرف ہو، اس لئے اس جملہ میں کوئی حرج نہیں اور نہ ایمان کو کوئی خطرہ۔ تاہم اگر قائل یہ عقیدہ رکھے کہ بغیر مانگے اللہ تعالیٰ کچھ نہیں دیتے تو ایسے جملوں سے پرہیز ضروری ہے۔ (۱)
(۱) {إِنَّ اللّٰہَ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآئُ بِغَیْرِ حِسَابٍہ۳۷} (سورۃ آل عمران: ۳۷)
{وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًاہلا ۲ وَّیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُط وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَھُوَ حَسْبُہٗط إِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ أَمْرِہٖط قَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شَیْئٍ قَدْرًاہ ۳} (سورۃ الطلاق: ۲۔۳)
طلاق و تفریق
Ref. No. 1796/43-1562
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ وساوس سے بچنے کی کوشش کریں ورنہ زندگی اجیرن ہوجائے گی۔ شریعت میں دل کے اندر آنے والے وسوسوں کا اعتبار نہیں ہے جب تک ان کو زبان سے نہ کہاجائے یا اس کے مطابق عمل نہ کیا جائے۔ اس لئے آپ کا طلاق کا وسوسہ بے معنی ہے۔ اگر دل میں خیال آیا کہ میری بیوی فلاں کام کرے تو اس کو طلاق، مگر آپ نے اس کو زبان سے نہیں کہا تو اس کے وہ کام کرنے سے طلاق واقع نہیں ہوگی۔
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: محمد اسعد
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر اس نے استخفاف اور استہزا کے طور قرآن کو پھینکا ہے، تو اس کا یہ امر موجب کفر وارتداد ہے۔(۱)
(۱) إذا أنکر آیۃ من القرآن أو استخف بالقرآن أو بالمسجد، أو بنحوہ مما یعظم في الشرع، أو عاب شیأ من القرآن کفر۔ (عبد الرحمن بن محمد، مجمع الأنہر، ’’کتاب السیر والجہاد: باب المرتد، ثم إن ألفاظ الکفر أنواع‘‘: ج ۱، ص: ۵۰۷)
تثبت (أي الردۃ بالشہادۃ) ویحکم بہا حتی تبین زوجتہ منہ ویجب تجدید النکاح۔ (زین الدین ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب السیر: باب أحکام المرتدین‘‘: ج ۵، ص: ۲۱۳)
(فتاوی دار العلوم وقف دیوبند جلد اول ص 179)