Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ہر انسان عقل کی روشنی میں غور و فکر کا مالک ہے، تمام انسانوں پر غور وفکر لازم ہے(۱) اور سبق لینا ضروری ہے، الا یہ کہ وہ مکلف نہ ہو جیسے مجنون وبچے وغیرہ اگر کوئی بات شبہ کی معلوم ہو تو کسی مقامی عالم سے حل کرلیں،(۲) قرآن پر ترجیح سے کیامراد ہیَ؟ واضح کریں، اگر مراد یہ ہے کہ قرآن کمتر وغیر درست ہے اور دسری کوئی کتاب درست اور اس سے بہتر ہے تو یہ اعتقاد کفر کو پہنچے گا۔ (۳)
(۱) {فَاسْتَمْسِکْ بِالَّذِيْٓ أُوْحِيَ إِلَیْکَج إِنَّکَ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍہ۴۳ وَإِنَّہٗ لَذِکْرٌ لَّکَ وَلِقَوْمِکَج وَسَوْفَ تُسْئَلُوْنَہ۴۴} (سورۃ الزخرف: ۴۳-۴۴)
{کِتٰبٌ أَنْزَلْنٰہُ إِلَیْکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْٓا أٰیٰتِہٖ وَلِیَتَذَکَّرَ أُولُوا الْأَلْبَابِہ۲۹} (سورۃ ص: ۲۹)
(۲) {وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍہع ۴۰} (سورۃ القمر: ۵۲)
(۳) في خزانۃ الفقہ) لو قیل لم لا تقرأ القرآن فقال: ’’بیزار شدم از قرآن‘‘ یکفر۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: فيأحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج(۳) في خزانۃ الفقہ) لو قیل لم لا تقرأ القرآن فقال: ’’بیزار شدم از قرآن‘‘ یکفر۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: فيأحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص289
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 2502/45-3822
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
There are many statements about reciting Bismillah or not after Surah Al-Fatihah, but Allama Shami has recommended reciting Bismillah after Surah Al-Fatihah and before reciting a Surah, though it is not masnoon, but it is better to read. Hence, Bismillah should be recited before Surah. However, if recitation is started from the middle of a surah, it is better not to recite Bismillah. In any case, Sajdah Sahu will not be mandatory. Whatever Maulana said is not correct, reciting Bismillah or leaving it will not make any difference in the prayer.
عن ابن عمر رضي اللہ عنہ أنہ کان إذا افتتح الصلاۃ قرأ بسم اللہ الرحمن الرحیم، فإذا فرغ من الحمد قرأ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ، مؤسسۃ علوم القرآن، جدید ۳/ ۳۷۷، رقم: ۴۱۷۸، قدیم رقم: ۴۱۵۵، المعجم الأوسط، دارالفکر ۱/ ۲۴۵، رقم: ۸۴۱)
ولا تسن بین الفاتحۃ والسورۃ مطلقا ولو سریۃ، ولا تکرہ اتفاقا۔ (درمختار، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، کراچی ۱/ ۴۹۰، زکریا ۲/ ۱۹۲، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، کتاب الصلاۃ، فصل في کیفیۃ ترتیب أفعال الصلاۃ، جدید، دارالکتاب دیوبند ۲۸۲)
واتفقوا علی عدم الکراہۃ في ذکرہا بین الفاتحۃ والسورۃ، بل ہو أحسن، سواء کانت الصلاۃ سریۃ أو جہریۃ۔ (حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، کتاب الصلاۃ، فصل في بیان سننہا، دارالکتاب ۱/ ۲۶۰)
وروی عن أبي نصر عن محمد رحمہ ﷲ: أنہ یأتي بالتسمیۃ عند افتتاح کل رکعۃ، وعند افتتاح السورۃ أیضا، وفي الفتاوی الغیاثیۃ: وہو المختار۔ (الفتاوی التاتارخانیۃ، کتاب الصلاۃ، الفصل الثالث في کیفیۃ الصلاۃ، زکریا ۲/ ۱۶۶، رقم: ۲۰۳۵)
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
حدیث و سنت
بدعات و منکرات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مسجدوں میں محراب کے سامنے کرسی رکھ کر تقریر کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں، البتہ مصلی حضرات سنت ونوافل سے فارغ ہوجائیں تاکہ تقریر کی وجہ سے ان کی نماز سنت ونوافل میں خلل نہ ہو۔(۱)
(۱) إن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نہي أن یحلق یوم الجمعۃ قبل الصلوٰۃ۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’أبواب إقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیہا، فرض الجمعۃ، باب الحلق یوم الجمعۃ،قبل الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۷۹، رقم: ۳۱۴)
إن المسجد بني للصلوٰۃ وغیرہا تبع لہا بدلیل أنہ إذا ضاق فللمصلي إزعاج القاعد للذکر أو القرائۃ أو التدریس۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الدیات: باب ما یحدثہ الرجل في الطریق وغیرہ‘‘: ج ۱۰، ص: ۲۶۱)
----------
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص336
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:چیٹنگ (میسیج کے ذریعہ بات) کرتے ہوئے شہوت کی وجہ سے جو پانی نکلتا ہے اس کو مذی کہتے ہیں، اور اس سے صرف وضو واجب ہوتا ہے، اس میں غسل کی ضرورت نہیں۔ (۱)
(ولیس في المذي والودي غسل وفیہما الوضوء)(۲)ولیس في المذي والودي غسل وفیہما الوضوء ’’لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام:‘‘ ’’کل فحل یمذي وفیہ الوضوء‘‘ (۳)
(۱)و إذا علم أنہ مذي أو شک أنہ مذي أو ودي أو کان ذکرہ منتشرا قبیل النوم فلا غسل علیہ اتفاقاً۔(ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في تحریر الصاع والمد والرطل‘‘ج۱، ص:۳۰۱-۳۰۲)؛ ولا یجب الغسل بإنزال المذي والودي والبول بالإجماع۔ (زین الدین ابن نجیم، البحر الرائق،’’ کتاب الطہارۃ‘‘ج۱، ص:۱۰۲)
(۲)کمال الدین محمد بن عبدالواحد ابن ھمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارۃ، فصل في الغسل‘‘ ج۱، ص:۷۱
(۳) المرغیناني، الہدایہ ،’’کتاب الطہارۃ، فصل في الغسل‘‘ج۱، ص:۳۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص322
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: بیوی کا خوبصورت ہونا یا نہ ہوناامامت سے متعلق نہیں ہے اور اس قسم کی باتیں کرنا مذہب میں تحریف کے مترادف ہے جو باعث گناہ ہے، دونوں شخصوں میں جو خوش الحان بھی ہو اس کو ترجیح دی جائے۔
اور بعض فقہاء نے جو یہ لکھا ہے: ’’ثم الأحسن زوجۃ‘‘ اس کی علت یہ ہے کہ زوجہ کے خوبصورت ہونے کی وجہ سے دوسری عورتوں کی طرف التفات نہیں کرے گا۔ صالح اور نیک ہوگا علت اور سبب کا بھی لحاظ کیا جاتا ہے۔ اس کا عمومی مطلب یہ نہیں کہ جس کی بیوی خوبصورت ہو، تو وہ وجہ تقدیم امامت بن جائے ایسا نہیں ہے۔
اس لیے دیکھا جائے کہ خوش الحان ہو اور زیادہ صالح وعابد وزاہد ہو اور اس میں بھی دونوں برابر ہوں تو قرعہ اندازی کر لی جائے، جیسا کہ شامی نے وضاحت کی ہے۔(۱)
(۱) (قولہ ثم الأحسن زوجۃ) لأنہ غالباً یکون أحب لہا وأعف لعدم تعلقہ بغیرہا وہذا مما یعلم بین الأصحاب أو الأرحام أو الجیران إذ لیس المراد أن یذکر کل أو صاف زوجتہ حتی یعلم من ہو أحسن زوجۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۵)
ولا شک أن ہذہ المعاني إذا اجتمعت في إنسان کان ہو أولی کما بینا أن بناء أمرالإمامۃ علی الفضیلۃ والکمال والمستجمع فیہ ہذہ الخصال من أکمل الناس: أما العلم والورع وقراء ۃ القرآن فظاہر۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلوٰۃ: بیان أحق بالإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۸۸، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص115
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایسے شخص کو چاہئے کہ بادی کا علاج کرائے اور ریاح پیدا کرنے والی چیزوں سے پرہیز کرے، یہ شخص جب کہ اتنا وقت نہیں پاتا کہ وضو کر کے فرض نماز پڑھ سکے تو یہ معذور ہے، اس شخص کے لیے حکم یہ ہے کہ وقت ہو جانے پر وضو کر لیا کرے، اور جتنی نمازیں چاہے وقت میں پڑھے یہ شخص اس وقت تک معذور ہی سمجھا جائے گا، جب تک کہ ایک کامل نماز کا وقت اس عذر سے خالی نہ گزرے۔(۱)
(۱)المستحاضۃ ومن بہ عذر کسلس بول أو استطلاق بطن لوقت کل فرض و یصلون بہ ما شاؤا من الفرائض والنوافل۔ (الشرنبلالي، نورالإیضاح ،کتاب الطہارۃ، باب الحیض والنفاس والاستحاضۃ، ص:۵۰-۵۱)؛ و کذا کل من ھو في معناھا وھو من ذکرناہ ومن بہ استطلاق بطن وانفلات ریح لأن الضرورۃ بھذا تحقق۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارۃ، فصل في الاستحاضہ‘‘ج۱،ص:۱۸۶) ؛ وصاحب عذر من بہ سلس بول أو استطلاق بطن أو انفلات ریح ھو من لا یملک جمع مقعدتہ لاسترخاء فیھا و حکمہ الوضوء لکل فرض الخ۔ (ابن عابدین، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض، مطلب في أحکام المعذور‘‘ ج۱، ص:۵۰۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص409
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: فجر کی نماز کے لیے وہی وقت بہتر ہے جس وقت عموماً نماز ہوتی ہے یعنی تاخیر سے جماعت ہونا افضل ہے؛ لیکن رمضان المبارک میں سحری کے بعد عام طور پر نیند آتی ہے اس کے بعد نماز کے وقت پر اٹھنا مشکل ہوتا ہے اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بعض لوگوں کی جماعت ہی نکل جاتی ہے؛ اس لیے اذان کے فوراً بعد نماز پڑھ لی جاتی ہے، اس صورت میں جماعت میں زیادہ لوگ شریک ہوجاتے ہیں اور یہ ہی مطلوب ہے، یہ صورت لوگوں کو سمجھا دی جائے کہ لوگوں کی جماعت میں زیادہ سے زیادہ شرکت ہونی چاہئے اس کے بعد باہمی مشورے سے جو صورت طے ہو اس پر عمل کیا جائے اگر پھر بھی اختلاف ہو تو جو رائے اکثر کی ہو اس پر عمل کیا جائے، رہا لوگوں کا برا کہنا تو اس کا خیال نہ کیا جائے ایسا کون ہے جس کو سبھی اچھا کہیں صبر سے کام لیا جائے یہ بھی باعث اجر ہے۔(۱)
(۱) عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ أن زید بن ثابت حدثہ أنہم تسحّروا مع النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ثم قاموا إلی الصلوٰۃ قلت کم بینہما، قال قدر خمسین أو ستین یعني آیۃ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب وقت الفجر‘‘: ج ۱، ص: ۸۱، رقم: ۵۷۵، مکتبہ: نعیمیہ، دیوبند)
فلو اجتمع الناس الیوم أیضاً في التغلیس لقلنا بہ أیضاً کما في مبسوط السرخسي في باب التیمم أنہ یستحب التغلیس في الفجر والتعجیل في الظہر إذا اجتمع الناس۔ (الکشمیري، فیض الباري شرح البخاري، ’’کتاب مواقیت الصلاۃ، باب وقت الفجر‘‘: ج ۲، ص: ۱۷۷، رقم: ۵۷۶، مکتبہ شیخ الہند، دیوبند)
قولہ کنت اتسحر في أہلی ثم یکون سرعۃ بي أن أدرک صلاۃ الفجر مع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ولعل ہذا التغلیس کان في رمضان خاصۃ وہکذا ینبغي عندنا إذا اجتمع الناس وعلیہ العمل في دار العلوم بدیوبند من عہد الأکابر۔ (الکشمیري، فیض الباري شرح البخاري، ’’کتاب مواقیت الصلاۃ، باب وقت الفجر‘‘: ج ۲، ص: ۱۷۸، رقم: ۵۷۷، مکتبہ: شیخ الہند، دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص89
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:در مختار میں ہے کہ ’’الإقامۃ کالأذان فیما مر‘‘(۲)
اور اس کے تحت شامی میں ہے ’’وأراد بما مر أحکام الأذان العشرۃ المذکورۃ في المتن‘‘(۳)
تکبیر میں بھی ’’حي علی الصلوٰۃ، حي علی الفلاح‘‘ کہتے وقت چہرہ دائیں، بائیں گھمانا چاہئے یہ مستحب ہے۔
’’ویلتفت فیہ أي الأذان وکذا فیہا أي في الإقامۃ مطلقاً یمیناً ویساراً‘‘(۴)
’’قولہ ویلتفت: أي یحول وجہہ لا صدرہ، قہستاني، ولا قدمیہ، وکذا فیہا مطلقاً أي في الإقامۃ سواء کان المحل متسعا أولا … قولہ بصلاۃ وفلاح … یعنی یلتفت فیہما یمیناً بالصلاۃ ویساراً بالفلاح‘‘(۱)
(۲) ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، مطلب في أول من بنی المنائر للأذان‘‘: ج ۲، ص: ۵۵۔
(۳) أیضًا،ج ۲، ص: ۵۴۔ (۴) أیضًا،ج ۲، ص: ۵۳۔
(۱) أیضًا۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص210
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: بلا ضرورت مکروہ ہے البتہ نماز ادا ہوجاتی ہے۔(۱)
(۱) یکرہ للمصلي ان یعبث بثوبہ أو لحیتہ أو جسدہ، وإن یکف ثوبہ بأن یرفع ثوبہ من بین یدیہ أو من خلفہ إذا أراد السجود، کذا في معراج الدرایۃ ولا بأس بان ینفض ثوبہ کیلا یلتف بجسدہ في الرکوع۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ،کتاب الصلاۃ، الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا، الفصل الثاني ج۱، ص: ۱۶۴)
قال في النہایۃ وحاصلہ أن کل عمل ہو مفید للمصلی فلابأس بہ، اصلہ ماروی ان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم عرق في صلاتہ فسلت العرق عن جبینہ إلی مسحہ، لأنہ کان یوذیہ فکان مفیداً وفي زمن الصیف کان إذا قام من السجود ونفض ثوبہ یمنۃ او یسرۃ لانہ کان مفیداً کیلا یتقي صورۃ، فاما مالیس بمفید فہو عبث۔ (ابن عابدین، رد المحتار: ج۲، ص: ۴۹۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص171