Frequently Asked Questions
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 1786/43-1533
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
You did not specify which serials make people convert to Islam. However, in this regard, it should be kept in mind that only the goal and the result should not be good, but also the steps to achieve this goal should be good and in accordance with Shariah. Serials usually contain a lot of obscene and prohibited materials. So watching such serials should be avoided according to shari'ah.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس سلسلے میں کفایت المفتی میں درج ہے: گرنتھ صاحب کو سجدہ کرنا یا پھول چڑھانا مسلمانوں کے لئے حرام ہے، اسلام نے دوسرے مذاہب کے پیشواؤں کی توہین کرنے اور ان کو برا کہنے سے منع کیا ہے، ان کی تعظیم کا حکم نہیں دیا ہے، خصوصا ایسی تعظیم جو عبادت کے درجے تک پہونچی ہو کسی طرح جائز اور مباح نہیں ہوسکتی ہے۔(۲)
اسلام میں مجسموں کی حیثیت بت کی ہے اور بت کی تعظیم کفر ہے، یہ ایک متفقہ مسئلہ ہے، اب یہاں دیکھنا ہے مجسموں پر ہار ڈالنا کیا کوئی قانونی مجبوری ہے یا باہمی رواداری ہے، اگر کوئی قانونی یا سیاسی مجبوری ہو، تو ناجائز اور غلط سمجھتے ہوئے ہار ڈالا جاسکتا ہے، جب کہ اس پر توبہ واستغفار بھی کرنا چاہئے اور اگر یہ کوئی قانونی مجبوری نہیں ہے تو محض اپنے آپ کو سیکولر دکھانے کے لئے حرام کاموں پر جرأت نہیں کرنی چاہئے او راگر کوئی شخص مجسموں پر ہار ڈالتا ہے اسے غلط سمجھتے ہوئے تو اس کا یہ عمل غلط ہوگا، لیکن اس کی بنا پر اس کی تکفیر نہیں کی جائے گی اور اگر اس کا یہ عمل مجسموں کی تعظیم کے پیش نظر ہو تو بت کی تعظیم کی وجہ اس کا یہ عمل دائرہ کفر میں آئے گا، جب کہ غالب گمان یہ ہے کہ سیاسی لیڈران اپنے سیکولر کردار کو ظاہر کرنے کے لئے ایسا کرتے ہیں، مجسموں کی تعظیم کے پیش نظر ایسا نہیں کرتے ہیں۔ (۱
(۲) مفتی کفایت اللّٰہ، کفایت المفتی: ج ۱۳، ص: ۱۷۱۔
(۱) إذا سجد واحد لہؤلاء الجبابرۃ فہو کبیرۃ من الکبائر وہل یکفر؟ قال بعضہم: یکفر مطلقا، وقال أکثرہم: ہذا علی وجوہ إن إراد بہ العبادۃ یکفر وأن أراد التحیۃ لم یکفر، ویرحم علیہ ذلک۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۲)
دار العلوم وقف دیوبند
(فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند جلد اول ص 174)
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:عورتوں کے مزارات پر جانے کی، ان کی نوحہ و گریہ کرنے کی وجہ سے پہلے ممانعت تھی، بعد میںاجازت دیدی گئی تھی۔ بخاری شریف میں حدیث موجود ہے، لیکن محرم کے ساتھ ہو، بے پردگی نہ ہو، مردوں سے اختلاط نہ ہو، ان شرائط کی پابندی ضروری ہے۔(۱) مزارات کا طواف قطعا ناجائز ہے اسی طرح سجدہ کرنا قطعاً جائز نہیں ہے کہ اس سے تو اندیشہ کفر ہے اور الٹے پاؤں واپس لوٹنا بھی بے اصل وبیجا احترام ہے۔(۲)
(۱) (قولہ وقیل تحرم علی النساء إلخ) قال الرملي أما النساء إذا أردن زیارۃ القبور إن کان ذلک لتجدید الحزن والبکاء والندب علی ما جرت بہ عادتہن فلا تجوز لہن الزیارۃ، وعلیہ حمل الحدیث، لعن اللّٰہ زائرات القبور، وإن کان للاعتبار والترحم والتبرک بزیارۃ قبور الصالحین فلا بأس إذا کن عجائز ویکرہ إذا کن شواب کحضور الجماعۃ في المساجد۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الجنائز: فصل السلطان أحق بصلاتہ، الصلاۃ علی المیت في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۳۴۲)
وقیل تحرم علی النساء والأصح أن الرخصۃ ثابتۃ۔ (أیضاً:)
عن أنس بن مالک -رضي اللّٰہ عنہ-، قال: مر النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم بامرأۃ تبکي عند قبر، فقال: اتقی اللّٰہ واصبري، قالت: إلیک عني فإنک لم تصب بمصیبتي ولم تعرفہ، فقیل: لہا إنہ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم فأتت باب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم فلم تجد عندہ بوّابین، فقالت: لم أعرفک، فقال: إنما الصبر عند الصدمۃ الأولی۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الجنائز: باب زیارۃ القبور‘‘: ج ۱، ص:۱۷۱، رقم: ۱۲۸۳)
أما علی الأصح من مذہبنا وہو قول الکرخي وغیرہ من أن الرخصۃ في زیارۃ القبور ثابتۃ للرجال والنساء جمیعا فلا إشکال۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’حرم المدینۃ ومکۃ‘‘: ج ۲، ص: ۶۲۹)
وفي السراج وأما النساء إذا أردن زیارۃ القبور إن کان ذلک لتجدید الحزن والبکاء والندب کما جرت بہ عادتہن فلا تجوز لہن الزیارۃ، وعلیہ یحمل الحدیث الصحیح ’’لعن اللّٰہ زائرات القبور‘‘ وإن کان للاعتبار والترحم والتبرک بزیارۃ قبور الصالحین من غیر ما یخالف الشرع ’’فلا بأس بہ إذا کن عجائز‘‘ وکرہ ذلک للشابات کحضورہن في المساجد للجماعات اہـ۔ ’’العیني في شرح البخاري‘‘۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح: ج ۱، ص: ۶۲۰)
(۲)ولم یکن لہ أصل من الشریعۃ الغراء۔ (علامہ أنور شاہ الکشمیري، العرف الشذي، ’’أبواب العیدین، باب ما جاء في التکبیر في العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص380
قرآن کریم اور تفسیر
الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کے لیے جو اعضاء ذکر کئے گئے ہیں، جیسے: ہاتھ، پنڈلی ، وجہ وغیرہ اس بارے میں مفسرین کے دو قول ہیں:
ایک یہ کہ ان اعضاء کو انسانی اعضاء پر قیاس نہ کیا جائے؛ بلکہ ان سے مراد وہ اعضاء نورانی ہیں جو شان الٰہی کے موافق ہوں(۱) اور دوسرے یہ کہ ایسے اعضاء بول کر ذات خداوند کی بعض صفات مراد ہیں، بہر کیف انسانی اعضاء کی طرح اللہ تعالیٰ کے اعضاء ہوں یہ مراد نہیں ہے؛ اس لیے کوئی تشبہ جسم وغیرہ میں پیدا نہیں ہوتا۔(۲)
(۱) وإنما یسلک في ہذا المقام مذہب السلف من ائمۃ المسلمین قدیماً وحدیثاً وہو إمرارہا کما جائت من غیر تکییف ولا تشبیہ ولا تعطیل۔ (ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، ’’سورۃ الأعراف: ۵۴‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۸)
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اس عقیدہ میں حضرات سلف کے مسلک پر ہوں کہ نصوص اپنی حقیقت پر ہیں مگر ’’کنہ‘‘ اس کی معلوم نہیں۔ (أشرف علي التھانوي، إمداد الفتاویٰ: ج ۶، ص: ۴۲۵)
(۲) وأما ما قال المتأخرون من ائمتنا في تلک الآیات یؤولونہا بتأویلات صحیحۃ سائغۃ في اللغۃ والشرع بأنہ یمکن أن یکون المراد من الاستواء الاستیلاء ومن الید القدرۃ إلی غیر ذلک تقریبا إلی أفہام القاصرین فحق أیضا عندنا۔ (خلیل أحمد سہارنفوري، المہند علی المفند: ص: ۱۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص63
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضرات صحابہؓ کی تعداد کے سلسلہ میں قرآن وحدیث میں کوئی واضح صراحت نہیں ملی۔ حافظ ابن صلاح نے مقدمہ ابن صلاح میں امام ابوزرعہ رازی کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ صحابہ کرامؓ کی مجموعی تعداد ایک لاکھ چودہ ہزار تھی۔ ’’قبض رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن مأۃ ألف وأربعۃ عشر ألفا من الصحابۃ ممن روي عنہ وسمع منہ وفي روایۃ ممن رآہ وسمع منہ‘‘(۱) البتہ حافظ عراقی نے لکھا ہے کہ حضرات صحابہؓ کو شمار کرنا اور ان کی تعداد متعین کرنا دشوار ہے، اس لیے کہ وہ حضرات ملکوں میں منتشر تھے۔ امام بخاری نے اپنی صحیح میں کعب بن مالک کے تبوک میں پیچھے رہ جانے کے قصہ کے ذیل میں لکھا ہے کہ ’’أصحاب رسول اللّٰہ کثیر لایجمعھم کتاب حافظ‘‘(۲)
(۱) إبراہیم بن موسیٰ الشافعي، مقدمہ ابن الصلاح۔ (النوع التاسع والثلاثون: ج ۲، ص: ۵۰۱)
(۲) أحمد بن علي بن محمد، الإصابۃ في تمییز الصحابۃ: ج ۱، ص: ۸۷۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص107
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق: مذکورہ مرض میں پانی اس کے لیے مضر نہیں ہوتا جیسا کہ سوال سے ظاہر ہوتا ہے۔ صرف طہارت میں شبہ ہو تا ہے تو اس شخص کے لیے وضو کرنا ہی ضروری ہے ۔طہارت کے بعد آپریشن ہوا تھا، تو پہلی طہارت زائل ہو گئی ہے؛ ہاں اگر طہارت یعنی وضو آپریشن کے بعد کیا تھا یا اس کے بعد وضو کرتے رہے، تو وہ معذور کے حکم میں ہے ایک وقت کی جتنی نمازیں چاہیں پڑھ لیں، شبہ نہ کریں۔ جب تک عذر باقی رہے ہر وقت کے داخل ہونے پر وضوء کرلیں؛ ہاں اس کے علاوہ کوئی ناقض وضوء پیش آئے، تو اس سے وضو ٹوٹ جائے گا؛ لیکن پیشاب کے قطرے آتے رہنے سے پورے وقت وضو ہی کا حکم رہے گا۔(۱)
(۱)صاحب عذر من بہ سلس بول لا یمکنہ إمساکہ، الخ، إن استوعب عذرہ تمام وقت صلوۃ مفروضۃ بأن لا یجد في جمیع وقتھا زمنا یتوضأ و یصلي فیہ خالیا عن الحدث ولو حکما۔ (ابن عابدین، رد المحتار، کتاب الطہارۃ، باب الحیض، مطلب في أحکام الآئسۃ،ج۱، ص:۵۰۴)، من بہ سلس البول والرعاف الدائم والجرح الذي لا یرقاء یتوضؤون لوقت کل صلوٰۃ فیصلون بذلک الوضوء في الوقت ما شاؤا من الفرائض والنوافل۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، کتاب الطہارات، فصل: في الاستحاضۃ، ج۱،ص:۱۸۱)؛ و یصلون بہ فرضا و نفلا، و یبطل بخروجہ فقط، و ھذا إذا لم یمض علیھم وقت فرض إلا وذلک الحدث یوجد فیہ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، کتاب الطہارۃ، باب الحیض، ج۱، ص:۳۷۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص411
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:اگر تالاب دہ در دہ ہے اور اس میں کوئی ظاہری نجاست بھی نہیں ہے، تو اس سے وضو کرنا اور نماز پڑھنا درست ہے۔(۲)
(۲)والغدیر العظیم الذي لا یتحرک أحد طرفیہ بتحریک الطرف الآخر، إذا وقعت نجاسۃ في أحد جانبیہ، جاز الوضوء من الجانب الآخر… و بعضھم قدروا بالمساحۃ عشرا في عشر بذراع الکرباس توسعۃ للأمر علی الناس، و علیہ الفتویٰ۔ (المرغینانی، الہدایہ، کتاب الطہارۃ ، ج۱، باب الماء الذي یجوز بہ التوضؤ مالا یجوز بہ، ص:۳۶،۳۷)، الماء الراکد إذا کان کثیراً، فھو بمنزلۃ الجاري…قال أبوسلیمان الجوزجاني: إن کان عشراً في عشر، فھو مما لا یخلص۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الطہارۃ، الباب الثالث: في المیاہ، النوع الثانی : الماء الراکد، ج۱، ص:۷۰)؛ والمعنی لا تجوز الطھارۃ بماء قلیل وقع فیہ نجس مالم یکن غدیراً، أو لم یکن عشراً في عشر۔ (عبدالرحمن بن محمد، مجمع الأنہر، ج۱، ص:۴۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص459
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مسواک پاکی کے لیے ہوتی ہے۔ ناپاکی سے پاکی حاصل ہی نہیں ہوسکتی؛ لہٰذا اس پانی میں کوئی کراہت نہیں آئے گی، پھر بھی احتیاط اسی میں ہے کہ مسواک لوٹے میں نہ ڈالی جائے؛ بلکہ الگ سے پانی ڈال کر مسواک کو تر کر لیا جائے۔(۱)
(۱)وھو من قضبان أشجار لھا رائحۃ طیبۃ۔ ( عالم بن العلاء، تاتارخانیہ ’’کتاب الطہارۃ، فصل الوضوء‘‘ ج۱،ص۲۲۲)؛ و ینبغی أن یکون السواک من أشجار مِرّۃ لا یطیب نکھۃ الفم۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب الأول في الوضوء، الفصل الثاني في سنن الوضوء، منہا السواک،‘‘ ج۱، ص۵۷)؛ و روي ابن ماجہ من حدیث عائشۃؓ أیضا۔ کنت أصنع لہ ثلاثۃ آنیۃ مخمرۃ إناء لطھورہ و إناء لسواکہ۔ و إناء لشرابہ۔ (بدرالدین العینی، البنایۃ شرح الھدایۃ،’’ کتاب الطہارۃ، سنن الوضوء‘‘ج۱، ص:۲۰۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص128
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:باتھ روم ایک گندی اور برہنگی کی جگہ ہے، دورانِ غسل بات چیت کرنا، دعا اور ذکر کرنا مکروہ ہے، اس لیے کسی کتاب کا مطالعہ کرنا بھی مکروہ ہوگا۔
و یستحب أن لا یتکلم بکلام قط من کلام الناس أو غیرہ۔(۳) و یستحب أن لا یتکلم بکلام مطلقا، أما کلام الناس فلکراھتہ حال الکشف۔(۴)
(۳)محمد بن محمد ، غنیۃ المستملي شرح منیۃ المصلي،ص: ۴۵
(۴) ابن عابدین،رد المحتار ’’کتاب الطہارۃ، مطلب: سنن الغسل‘‘ ج ۱، ص:۲۹۱
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص316
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئول عنہا میں اگر واقعی طور پر وہ امام مذکورہ اوصاف اپنے اندر رکھتا ہے تو وہ شخص گناہگار ہے، اس کی امامت مکروہ تحریمی ہے اور اگر قرأت میں فحش غلطیاں ہوجاتی ہیں کہ جن سے نماز ہی فاسد ہوجائے تو ایسے امام کے پیچھے نماز صحیح نہیں ہوگی کسی اچھے عالم، دیندار، متقی لائق امامت کو امام بنانا چاہئے تاکہ فریضۂ نماز عمدہ اور بہترین طریقہ پر ادا ہوسکے۔(۱)
(۱) صلی خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعۃ وقال الشامي تحتہ قولہ: نال فضل الجماعۃ أفاد أن الصلاۃ خلفہما أولٰی من الإنفراد لکن لاینال کما ینال خلف تقي ورع وکذا في البحر الرائق۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثاني في بیان من ہو أحق بالإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۱)
والأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلاۃ ثم الأحسن تلاوۃ وتجویدا للقراء ۃ ثم الأورع ثم الأسن ثم الأحسن وجہا۔ (الحصکفي، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص215