حج و عمرہ

Ref. No. 1684/43-1326

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نہیں، یعنی جس شخص کا حج فاسد ہوگیا اس پر طوافِ وداع  واجب نہیں  ہے۔

وليس على فائت الحج طواف الصدر؛ لأنه طواف عرف وجوبه في الشرع بعد الفراغ من الحج على ما قال النبي - صلى الله عليه وسلم - «من حج هذا البيت فليكن آخر عهده به الطواف» وهذا لم يحج فلا يجب عليه. (بدائع الصنائع: (221/2،ط:دار الکتب العلمیۃ) إن فائت الحج ليس عليه طواف الصدر...الخ (غنیۃ الناسک: (318) )ولیس علی فائت الحج طواف الصدر۔۔۔الخ )البحر الرائق: 377/2،ط:دار الکتاب الاسلامی)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 1999/44-1951

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حسب گنجائش کسی اچھے ڈاکٹر سے علاج کے لئے رابطہ کریں۔  اور جو دوا کھائیں یا لگائیں اس پر سات مرتبہ سورہ فاتحہ پڑھ کر استعمال کریں۔  اللہ تعالی سے ہمیں شفاکی امید رکھنی چاہیے،  اور علاج نہیں چھوڑنا چاہئے۔ دنیا دارالاسباب ہے، اللہ پر توکل کرکے اسباب کو اختیار کرنا چاہئے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

سیاست

Ref. No. 2212/44-2338

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ووٹ دینے والوں پر لازم ہے کہ بہت سوچ سمجھ کر کسی ایسے شخص کو ووٹ دیں جو بلا امتیاز اس سرزمین کی تعمیر و ترقی میں سچے دل سے خدمت انجام دے سکے۔ جو شخص پہلے سے کرپٹ ہو یا اس کی بددیانتی ظاہر ہوچکی ہو، اس کو ووٹ دینا جائز نہیں ہے، تاہم اگر کسی ایسے شخص کو ووٹ دیا جو امانت دار تھااور خدمت خلق کاجذبہ رکھتاتھا، یا یہ کہ اس کا حال ظاہر نہیں تھا لیکن امید تھی کہ وہ ملک  کی ترقی میں اہم کردار اداکرے گا، لیکن وہ اس کے برعکس نکلا، توچونکہ  ووٹ دینے والے نے اپنے اعتقاد کے مطابق ایک مستحق اور اہل  کو ووٹ دیا ہے اس لئے اب اگر وہ قائد  کسی کرپشن یا بددیانتی میں مبتلا ہوتاہے تو اس کا گناہ ووٹ دینےوالے پر نہیں آئے گا۔ ہاں اگر  ووٹ امانت ودیانت داری کے بناء پر نہیں دیا گیا بلکہ برادری یا تعصب کی بناء  پر جان بوجھ کر کسی نااہل کو دیاگیاتھا تو ووٹ دینے والے پر گناہ ہوگا، اور اس کو تعاون علی الاثم کہاجائے گا جس کو قرآن میں ممنوع قراردیاگیاہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس وقت میں ہاتھ اٹھاکر دعاء کرنا مکروہ ہے اس سے احتراز لازم ہے، اگر ہاتھ اٹھائے جائیں تو اس انداز پر کھڑے ہوں کہ قبر سامنے نہ پڑے اور کسی طرح کا تشبہ غیروں کے ساتھ نہ ہو۔(۱)

(۱) وإذا أراد الدعاء یقوم مستقبل القبلۃ کذا في خزانۃ الفتاوی۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب السادس عشر في زیارۃ القبور‘‘: ج ۵، ص: ۴۰۴)
وفي حدیث ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ، رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم في قبر عبد اللّٰہ ذي النجادین الحدیث وفیہ فلما فرغ من دفنہ استقبل القبلۃ رافعاً یدیہ أخرجہ أبو عوانہ في صحیحہ۔ (ابن حجرالعسقلاني، فتح الباري، ’’کتاب الدعوات: قولہ باب الدعاء مستقبل القبلۃ‘‘: ج ۱۱، ص: ۱۶۵، رقم: ۶۳۴۳)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص389

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ماہ محرم میں دسویں تاریخ میں یوم عاشوراء کے روزے کا سنت ہونا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل اور قول سے ثابت ہے، نویں تاریخ کے روزے کا بھی ثبوت ہے، آج کل یہودی عاشوراء کا روزہ نہیں رکھتے، پرانے یہودی عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے؛ اس لیے فرمایا گیا کہ ایک دن پہلے یا بعد کا بھی روزہ رکھو تا کہ ان کی مشابہت نہ ہو؛ لہٰذا عاشوراء میں دسویں کے ساتھ نویں یا گیارھویں کا روزہ بھی رکھا جائے جب کہ اس پر اکابر امت کا عمل چلا آرہا ہے؛ لیکن اگر صرف دس محرم کا روزہ رکھا، تو بھی درست ہے اس لیے کہ اب عمداً یہود سے مشابہت نہیں ہوتی۔(۱)

(۱) عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، قال: أمر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بصوم عاشوراء یوم عاشر واختلفوا أہل العلم في یوم عاشوراء، فقال بعضہم: یوم التاسع، فقال بعضہم: یوم العاشر۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصوم: باب ما جاء في عاشوراء:… … أي یوم ہو؟‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۸، رقم: ۷۵۵)
عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، أنہ قال: صوموا التاسع والعاشر وخالفوا الیہود۔ (’’أیضاً:‘‘)
قال الکشمیري: حاصل الشریعۃ أن الأفضل صوم عاشوراء وصوم یوم قبلہ وبعدہ، ثم الأدون منہ صوم عاشوراء مع صوم یوم قبلہ أو بعدہ، ثم الأدون صوم یوم عاشوراء فقط. والثلاثۃ عبادات عظمی، وأما ما فی الدر المختار من کراہۃ صوم عاشوراء منفرداً تنزیہاً فلا بد من التأویل فیہ أی أنہا عبادۃ مفضولۃ من القسمین الباقیین، ولا یحکم بکراہۃ فإنہ علیہ الصلاۃ والسلام صام مدۃ عمرہ صوم عاشوراء منفرداً وتمنی أن لو بقی إلی المستقبل صام یوماً معہ۔ (علامہ، أنور شاہ الکشمیري، العرف الشذي، ’’باب ما جاء فی الحث علی صوم یوم عاشوراء‘‘: ج ۲، ص: ۷۱۴)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص477

حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:رحمۃ للعالمین حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مخصوص ہے جیسا کہ قرآن پاک کی آیت {وما أرسلناک إلا رحمۃ للعالمین}(۱) سے مستفاد ہوتا ہے لیکن کوئی شخص کسی بزرگ متقی دیندار کے لئے یہ جملہ استعمال کرے اور اس کا منشاء اور مقصد یہ ہو کہ ان کی وجہ سے ظلم سے لوگ بچے ہوئے ہیں۔ عدل وانصاف جاری ہے، مصائب وپریشانیوں سے تحفظ اللہ نے دیا ہوا ہے، تو مقصد اور نیت کے اعتبار سے ایسا کہنے پر کہنے والے کو مطعون نہیں کیا جائے گا۔ (۱) سورۃ الأنبیاء: ۱۰۷۔ فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص211

متفرقات

Ref. No. 2687/45-4145

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کسی ناجائز کام کے لئے اپنا مکان یا دوکان کرایہ پر دینا تو جائز نہیں، کیونکہ حکم خدا وندی ہے۔

(وتعاونوا علی البر والتقوی ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان) (المائدۃ)

تاہم فلم بنانے والوں کو کھانا بنانے یا کھانا کھانے کے لئے جگہ کرایہ پر دینے کی گنجائش ہے۔

ولا بأس بأن یؤاجر المسلم دارا من الذمي یسکنہا فان شرب فیہا الخمر أو عبد فیہاالصلیب أو أدخل فیہا الخنازیر لم یلحق المسلم اثم فی شیئ من ذلک لأنہ لم یؤاجرہا لذلک والمعصیۃ فی فصل المستاجر وفعلہ دون قصد رب الدار فلا اثم علی رب الدار فی ذلک‘‘ (سرخسي، المبسوط: ج ١٦، ص: ٣٩، بیروت دار المعرفۃ؛ وجماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ: ج ٤، ص: ٤٥٠، بیروت دار الفکر)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:محض شراب پینے سے وضو نہیں ٹوٹتا جب تک کہ نشہ نہ ہو ہاں اگر شراب پینے کی وجہ سے نشہ پیدا ہو جائے اور اس کی چال اور زبان اپنی حالت پر بر قرار نہ رہے تو وضو ٹوٹ جائے گا، جیسا کہ علامہ شامی نے لکھا ہے:
’’وینقضہ إغماء ومنہ الغشي وجنون وسکر قولہ وسکر ہو حالۃ تعرض للإنسان من امتلاء دماغہ من الأبخرۃ المتصاعدۃ من الخمر ونحوہ‘‘(۱)
البتہ شراب پینے سے منہ ناپاک ہو جاتا ہے، شراب نجس ہے اور اس کا پینا حرام ہے اور شراب پینے والے پر حدیث شریف میں لعنت آئی ہے اور اس کے علاوہ بھی مختلف وعیدیں مذکور ہیں؛ اس لئے شراب سے بہر صورت دور رہنا لازم ہے۔
’’وحرم قلیلہا وکثیرہا بالإجماع وہي نجسۃ نجاسۃ مغلظۃ کالبول‘‘(۲)
’’عن أنس رضي اللّٰہ عنہ قال: لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم في الخمر عشرۃ عاصرہا ومعتصرہا وشاربہا الخ‘‘(۳)

(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب نوم الأنبیاء غیر ناقض‘‘: ج ۱، ص: ۲۷۴۔
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’ کتاب الأشربہ‘‘: ج ۶، ص: ۴۴۹۔
(۳) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب البیوع، باب ما جاء في بیع الخمر والنہي عن ذلک‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۲، رقم: ۱۲۹۵۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص245

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئول عنہا میں بشرط صحت سوال امام معین کے ہوتے ہوئے اس کی اجازت کے بغیر کسی دوسرے کو امامت کرانا شرعاً درست نہیں(۱) اگر امام معین میں کوئی نقص نہ ہو تو صرف اپنے ذاتی اختلاف کی بنا پر اس کی امامت پر اعتراض کرنا یا اس کی اقتدا نہ کرنا بھی شرعاً درست نہیں اپنے ذاتی اختلاف کو ذات تک ہی محدود رکھا جائے(۲) امام کی عظمت اور اس کا احترام لازم اور ضروری ہے۔ امام اس شخص کو بنایا جائے جو قرآن کریم صحیح اور مخارج کی ادائیگی کے ساتھ پڑھتا ہو۔ ک کو ق اور زبر کو پیش پڑھنے سے معانی، مطالب بدل جاتے ہیں جو شخص معذور نہ ہو تخلیقی طور پر اس کی زبان میں کمی نہ ہو؛ بلکہ قلت مشق کی بنا پر ایسی غلطی کرے ایسے شخص کی امامت شرعاً درست نہیں، اس لیے کہ نماز کے فاسد ہو جانے کا خوف رہتا ہے مثلاً اگر {قل أعوذ برب الناس} کو {کل أعوذ برب الناس} پڑھا، تو معنی میں بڑا فرق ہوکر نماز فاسد ہوجائے گی؛ لہٰذا ایسے لوگ امامت نہ کریں اور صحیح قرآن پڑھنے والے کی اقتدا کریں۔(۳)

(۱) اعلم أن صاحب البیت ومثلہ إمام المسجد الراتب أولٰی بالإمامۃ من غیرہ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع الرد، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۷)
(۲) وإن ہو أحق لا والکراہۃ علیہم۔ (أیضاً: ج۲، ص: ۲۹۸)
(۳) معنی الحسن في التلاوۃ أن یکون عالما بکیفیۃ الحروف والوقف وما یتعلق بہا۔ (أیضًا: ص: ۲۹۴)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص100

متفرقات

Ref. No. 2729/45-4244

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ خود سے گھر پر دوہرالینا بھی کافی ہوگا اب دوبارہ حافظ صاحب کو سنانا ضروری نہیں ہے، البتہ اگلے دن اگر دونوں دن کا سبق سنادیں تاکہ اور پختگی آجائے تو بہتر ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند