Frequently Asked Questions
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:{وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہٖ لِیُبَیِّنَ لَھُمْ ط}(۱) قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم نے جو نبی اور رسول بھیجا ہے اس کو اس کی قوم کی زبان دے کر بھیجا، تاکہ وہ اپنی قوم کو تبلیغ کرسکے اور اسی زبان میں اس کو وحی دے کر بھیجا گیا جس زبان کو وہ جانتے تھے، چنانچہ بعض رسولوں اور نبیوں کو عربی زبان میں اور بعض کو سریانی زبان میں وحی بھیجی گئی؛ کیونکہ وہ اس کو جاننے والے تھے اور وہی زبان ان کی قوم کی زبان تھی ورنہ نبی اور رسول کا تخاطب بے کار ہو جاتا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف عربی زبان میں وحی بھیجی جو قرآن پاک کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔(۲)
(۱) سورۃ الإبراہیم: ۴۔
(۲) {نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْأَمِیْنُہلا ۱۹۳عَلٰی قَلْبِکَ لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ ہلا ۱۹۴ بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُّبِیْنٍ ہط۱۹۵} (سورۃ الشعراء: ۱۹۵)
{فَإِنَّمَا یَسَّرْنٰہُ بِلِسَانِکَ لِتُبَشِّرَ بِہِ الْمُتَّقِیْنَ وَتُنْذِرَ بِہٖ قَوْمًا لُّدًّاہ۹۷} (سورۃ المریم: ۹۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص213
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ دونوں حضرات میں سے جو شخص عمر رسیدہ متقی پرہیزگار اور چالیس سال سے امام ہیں اور اسی گاؤں کے رہنے والے ہیں اور گاؤں کے لوگ ان کی عزت اور احترام کرتے ہیں وہی امام نماز جمعہ بننے کے مستحق ہیں پس اگر اصل امام کے علاوہ کوئی دوسرا شخص نماز جمعہ پڑھائے، تو مذکورہ حافظ ان دونوں میں سے زیادہ مستحق ہیں کہ ان سے نماز جمعہ پڑھوائی جائے۔(۱)
(۱) وإن کان متبحرا في علم الصلاۃ لکن لم یکن لہ حظ في غیرہ في العلوم فہو أولی، ہکذا في الخلاصۃ فإن تساووا فأقرأہم أي أعلمہم بعلم القراء ۃ … فإن تساووا فأورعہم فإن تساووا فأسنہم کذا في الہدایۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثاني في بیان من ہو أحق بالإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۱)
ثم الأورع ثم الأسن۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘:ج۲، ص: ۲۹۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص101
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مخصوص ایام میں بیوی کی ناف سے لے کر گھٹنوں تک کے حصہ سے بغیر حائل کے نفع اٹھانا شوہر کے لیے شرعاً ممنوع قرار دیاگیاہے؛ البتہ اس حصہ کے علاوہ باقی تمام بدن سے فائدہ اٹھانے کی شرعاً اجازت ہے، جیساکہ علامہ حصکفیؒ نے لکھا ہے:
’’(وقربان ما تحت إزار) یعنی ما بین سرۃ ورکبۃ ولو بلا شہوۃ، وحل ما عداہ مطلقًا۔ وہل یحل النظر ومباشرتہا لہ؟ فیہ تردد‘‘
’’(قولہ: وقربان ما تحت إزار) من إضافۃ المصدر إلی مفعولہ، والتقدیر: ویمنع الحیض قربان زوجہا ما تحت إزارہا، کما في البحر‘‘
’’(قولہ: یعني ما بین سرۃ ورکبۃ) فیجوز الاستمتاع بالسرۃ وما فوقہا والرکبۃ وما تحتہا ولو بلا حائل، وکذا بما بینہما بحائل بغیر الوطء ولو تلطخ دماً‘‘(۱)
نیز حالت حیض میں ہمبستری کرنا قطعاً ناجائز اور حرام ہے، قرآن کریم میں صراحۃً اس سے منع کیا گیا ہے {وَیَسْأَلُونَکَ عَنِ الْمَحِیضِ قُلْ ہُوَ أَذًی فَاعْتَزِلُوا النِّسَائَ فِی الْمَحِیضِ}(۲) اگر کبھی بے احتیاطی یا غلطی سے ایسا ہوجائے، تو سچے پکے دل سے اللہ تعالیٰ سے توبہ کرنا واجب ہے، نیز اس کے ساتھ ساتھ بہتر ہے کہ اگر ابتدائے حیض میں ہمبستری کی ہو، تو ایک دینار اور اخیر ایام میں کی ہو، تو نصف دینار خیرات کرے۔ در مختار میں ہے:
’’…… فتلزمہ التوبۃ ویندب تصدقہ بدینا أو نصفہ …… ثم قیل إن کان الوطء في أول الحیض فبدینار أو آخرہ فبنصفہ، وقیل: بدینار لو الدم أسود وبنصفہ لو أصفر۔ قال في البحر: ویدل لہ ما رواہ أبو داود والحاکم وصححہ ’’إذا واقع الرجل أہلہ وہی حائض، إن کان دما أحمر فلیتصدق بدینار، وإن کان أصفر فلیتصدق بنصف دینار اہـ‘‘۔(۳)
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الحیض‘‘: ج ۱، ص: ۲۹۲۔
(۲) سورۃ البقرۃ: ۲۲۲۔
(۳) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الحیض‘‘: ج ۱، ص: ۴۹۴۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص399
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: جماعت مسجد کے نچلے حصہ میں ہی ہونی چاہئے؛ لیکن کسی ضرورت مثلاً شدت گرمی کی وجہ سے مسجد کے اوپر کے حصہ میں نماز پڑھ لی گئی تو بھی درست ہے اور مسجد ہی کا ثواب ملے گا۔ ’’إن شاء اللّٰہ‘‘(۱)
(۱) وکرہ تحریماً الوطأ فوقہ والبول والتغوّط لأنہ مسجد إلی عنان السماء، قال الزیلعي: ولہٰذا صح اقتداء من علی سطح المسجد بمن فیہ إذ لم یتقدم علی الإمام ولایبطل الاعتکاف بالصعود إلیہ ولایحل للجنب والحائض والنفساء الوقوف علیہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ: باب یفسد الصلوۃ ومایکرہ فیہا، مطلب فيأحکام المسجد‘‘: ج۲، ص: ۴۲۸)
عند العذر کما في الجمعۃ والعیدین فإن القوم یقومون علی الخذف والإمام علی الأرض لم یکرہ ذلک لضیق المکان، کذا في النہایۃ … والأصح أنہ لایکرہ وبہ جرت العادۃ في جوامع المسلمین في أغلب الأمصار۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلوۃ: باب مایفسد الصلوۃ ومایکرہ فیہا‘‘: ج۲، ص: ۴۴۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص435
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق:غروب کے ڈیڑھ گھنٹہ (شفق ابیض کے غروب ہونے کے بعد) عشاء کی نماز پڑھنی چاہئے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا یہی مسلک ہے۔ اور اگر کوئی مجبوری ہو تو ایک گھنٹہ (شفق احمر کے غروب کے) بعد بھی پڑھی جاسکتی ہے یہ صاحبین رحمہما اللہ کا مسلک ہے۔ اور اگر کوئی مجبوری نہ ہو تو امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے مسلک پر عمل کرنا چاہئے۔(۱)
(۱) وأخر وقتہا ما لم یغب الشفق أي الجزء الکائن قبیل غیبوبۃ الشفق من الزمان وہو أي المراد بالشفق ہو البیاض الذي في الأفق الکائن بعد الحمرۃ التي تکون في الأفق عند أبي حنیفۃ وقالا أي أبو یوسف ومحمد رحمہما اللّٰہ وہو قول الأئمۃ الثلثۃ وروایۃ اسد بن عمرو عن أبي حنیفۃ أیضاً المراد بالشفق ہو الحمرۃ نفسہا لا البیاض الذي بعدہا۔ (إبراہیم الحلبي، حلبي کبیري: ص: ۲۰۰، مکتبہ، دار الکتاب، دیوبند؛ ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، مطلب: في الصلاۃ الوسطی‘‘: ج ۲، ص: ۱۸، مکتبہ، زکریا، دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص76
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز میں قرأت کرنا فرض ہے، پہلی رکعت میں اس نے قرأت نہیں کی اس لیے ترک فرض کی وجہ سے اس کی نماز فاسد ہوگئی، اعادہ کرنا لازم ہے۔(۱)
(۱) ومنہا القراء ۃ: وفرضہا عند أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ تعالیٰ یتأدی بآیۃ واحدۃ وإن کانت قصیرۃ، کذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الأول في فرائض الصلاۃ، ومنہا: القراء ۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۶، زکریا دیوبند)
وفي الولو الجیۃ‘‘ الأصل في ہذا أن المتروک ثلاثۃ أنواع: فرض، وسنۃ، وواجب ففي الأول: أمکنہ التدارک بالقضاء یقضي وإلا فسدت صلاتہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني عشر في سجود السہو‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۵، زکریا دیوبند)
وقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا صلاۃ إلا بقرأۃ‘‘ رواہ مسلم من حدیث أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ وعلیہ انعقد الإجماع … (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلوٰۃ‘‘: ص: ۲۲۵، مکتبہ شیخ الہند دیوبند)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص347
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 991 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحم الرحیم:۔ صورت مسئولہ میں بغیر بناؤ سنگھار کے، عورت پردہ کے ساتھ باہر جاسکتی ہے، لیکن جلد واپس آجائے؛ باہر نکل کر کسی اور کام میں وقت ضائع نہ کرے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
مساجد و مدارس
Ref. No. 38 / 1084
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ضرورت کے پیش نظر کیمرے نصب کرنے کی گنجائش ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 1405/42-837
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نفل نماز کی باضابطہ جماعت مردوں کے لئے بھی ناجائز اورمکروہ تحریمی ہے، تو عورتوں کے لئے بدرجہ اولی مکروہ وناجائز ہوگی۔ اس لئے یہ طریقہ درست نہیں ہے، اس سلسلہ کو فوری طور پر بند کردینا چاہئے۔
التطوع بالجماعة إذا كان على سبيل التداعي يكره وفي الأصل للصدر الشهيد أما إذا صلوا بجماعة بغير أذان وإقامة في ناحية المسجد لا يكره، وقال شمس الأئمة الحلواني: إن كان سوى الإمام ثلاثة لا يكره بالاتفاق وفي الأربع اختلف المشايخ والأصح أنه يكره. هكذا في الخلاصة. (الفتاوی الھندیۃ الفصل الثانی فی بیان من ھو احق بالامامۃ 1/83) (و) يكره تحريما (جماعة النساء) ولو التراويح في غير صلاة جنازة (لأنها لم تشرع مكررة) ، فلو انفردن تفوتهن بفراغ إحداهن (شامی، باب الامامۃ 1/565) ولا ينبغي أن يتكلف لالتزام ما لم يكن في الصدر الأول كل هذا التكلف لإقامة أمر مكروه وهو أداء النفل بالجماعة على سبيل التداعي، فلو ترك أمثال هذه الصلوات تارك ليعلم الناس أنه ليس من الشعار فحسن. شامی، باب الوتر والنوافل 2/49) وصلاة النفل بالجماعة مكروه ما خلا قيام رمضان وصلاة الكسوف؛ لأنه لم يفعلها الصحابة. اهـ.(تبیین الحقائق ، باب ادراک الفریضۃ 1/180)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1741/43-1439
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اذان میں حی علی الصلوۃ کے وقت چہرہ کو دائیں جانب پھیرنا، اور حی علی الفلاح کے وقت بائیں جانب چہرہ پھیرنا مسنون ہے۔ سنت کے خلاف عمل جان بوجھ کر نہ کرنا چاہئے،کہ ایسا کرنا مکروہ ہے، لیکن اگر کبھی اتفاق سے ایسا ہوگیا تو کوئی حرج نہیں ہے، اذان ہوگئی اوراس کے بعد پڑھی گئی نمازبلاکراہت درست ہوگئی۔ 2 جو شخص اذان دے اقامت کہنا بھی اسی کا حق ہے، اذان کہنے والے کی اجازت کے بغیر دوسرے شخص کا اقامت کہنا مکروہ ہے اگر مؤذن ناراض ہوتاہو، لیکن اگر مؤذن نے اجازت دیدی، یا مؤذن ناراض نہیں ہوتاہے تو دوسرا شخص بلااجازت بھی اقامت کہہ سکتاہے۔ نماز بہرصورت درست ہوجاتی ہے۔
قوله: ويلتفت يمينًا وشمالًا بالصلاة والفلاح) لما قدمناه ولفعل بلال - رضي الله عنه - على ما رواه الجماعة، ثم أطلقه فشمل ما إذا كان وحده على الصحيح؛ لكونه سنة الأذان فلايتركه خلافًا للحلواني؛ لعدم الحاجة إليه، وفي السراج الوهاج: أنه من سنن الأذان فلايخل المنفرد بشيء منها، حتى قالوا في الذي يؤذن للمولود: ينبغي أن يحول. اهـ.
وقيد باليمين والشمال؛ لأنه لايحول وراءه لما فيه من استدبار القبلة، ولا أمامه لحصول الإعلام في الجملة بغيرها من كلمات الأذان، وقوله بالصلاة والفلاح لف ونشر مرتب، يعني أنه يلتفت يمينًا بالصلاة وشمالاً بالفلاح، وهو الصحيح خلافًا لمن قال: إن الصلاة باليمين والشمال والفلاح كذلك، وفي فتح القدير: أنه الأوجه، ولم يبين وجهه، وقيد بالالتفات؛ لأنه لايحول قدميه؛ لما رواه الدارقطني عن بلال قال: «أمرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا أذّنّا أو أقمنا أن لانزيل أقدامنا عن مواضعها»، وأطلق في الالتفات ولم يقيده بالأذان، وقدمنا عن الغنية أنه يحول في الإقامة أيضًا، وفي السراج الوهاج: لايحول فيها؛ لأنها لإعلام الحاضرين بخلاف الأذان فإنه إعلام للغائبين، وقيل: يحول إذا كان الموضع متسعًا". (البحر الرائق شرح كنز الدقائق (1/ 272)
ويحول في الإقامة إذا كان المكان متسعًا وهو أعدل الأقوال كما في النهر". حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (ص: 197)
"وفي البستان: لايحول في الإقامة إلا لإناس ينتظرون، ذكره التمرتاشي. اهـ. كاكي". تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق وحاشية الشلبي (1/ 92)
أقام غير من أذن بغيبته) أي المؤذن (لا يكره مطلقاً)، وإن بحضوره كره إن لحقه وحشة‘‘.(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 395)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند