Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 38 / 1114
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ الجواب وباللہ التوفیق: (1) فرض نمازوں کے بعد دعاء کا قبول ہونا اسی طرح انفرادی واجتماعی دونوں طرح دعا کرنا ثابت ہے۔ حضرت معاذ بن جبل سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے حضرت معاذ سے ارشاد فرمایا کہ تم کسی بھی نماز کے بعد اس دعاء"اللہم انی اعنی علی ذکرک وشکرک وحسن عبادتک " کو نہ چھوڑو۔(احمد، ابوداؤد)۔ حضرت انس فرماتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ جو بندہ نماز کے بعد اپنے دونوں ہاتھوں کو پھیلاکر (حدیث میں مذکور) دعاء کرتا ہے تو اللہ پر یہ حق ہے کہ اس کے دونوں ہاتھوں کو ناکام اور خالی واپس نہ کرے (عمل الیوم واللیلۃ)۔ حضرت ام سلمہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ جب صبح کی نماز پڑھ لیتے تو سلام پھیرکر یہ دعاء کرتے "اللہم انی سئلک علما نافعا ورزقا طیبا وعملا متقبلا (احمد ، ابن ماجہ)۔ اسود عامری اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ صبح کی نماز ادا کی، جب آپ نے سلام پھیرا تو آپ مُڑ گئے اور آپ نے اپنے دست مبارک اٹھائے اور دعاء فرمائی(امداد الفتاوی)۔ ان تمام احادیث سے نماز کے بعد دعاء کرنا ثابت ہوا، اب ظاہر ہے جب آپ ﷺ نماز کے بعد دعاء میں مشغول ہوں تو کیا جانثار صحابہ نے دعاء میں شرکت نہیں کی ہوگی۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ آپﷺ دعاء کریں اور صحابہ یوں ہی خاموش بیٹھے رہے ہوں اور اس سعادت سے محروم ہوجائیں، بلکہ یقیناً صحابہ نے موافقت کی ہوگی۔ نیز حدیث میں ہے کہ ایک موقع پر رسول اللہ ﷺ نے ہاتھ اٹھاکر دعاء فرمائی تو موجود صحابہ نے بھی آپﷺ کے ساتھ ہاتھ اٹھاکر دعاءمیں شرکت فرمائی (بخاری شریف)۔ البتہ دعاؤں میں اخفاء افضل ہے اس لئے اجتماعی دعاء بلند آواز سے کرنے کا التزام نہ کیاجائے۔ نماز کے بعد آپﷺ سے بے شمار دعائیں منقول ہیں جو احادیث کی کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ (2) جو درود خلاف شرع نہ ہو اور صلاۃ وسلام کے الفاظ پر مشتمل ہو تو اس کے پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، تاہم سب سے افضل درود ابراہیمی پڑھنا ہے۔ اور نبی علیہ السلام نے نماز جیسی اہم عبادت کے لئے اسی درود کا انتخاب فرمایا ہے۔ اور آپ ﷺ کے زمانے میں صحابہ سے یہ دعاء پڑھنا بھی ثابت ہے، اس لئے بہتر ہے درود ابراہیمی پڑھے۔ درود پڑھنے کے لئے اجتماع کرنا ثابت نہیں ہے،درود بلندآواز سے بھی پڑھ سکتے ہیں البتہ آہستہ پڑھنا بہتر ہے جیسا کہ دیگر دعاؤں کا حکم ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Miscellaneous
Ref. No. 968/41-118
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
Yes, you may be allowed to learn Arabic from that teacher. But teaching directly adult women is against Islamic norms and it must be shunned at earliest.
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
تجارت و ملازمت
Ref. No. 1437/42-858
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔مدرسہ میں اگرمدرس کا وقت فارغ ہو تو ان اوقات کو ذکر میں لگانے میں حرج نہیں ہے، البتہ طلبہ کی تعلیم کا نقصان کرکے اوراد و وظائف میں لگے رہنا درست نہیں ہے۔ مدرسہ میں مدرس تدریسی خدمت کے لئے ملازم ہے،اس پر مدرسہ کی جانب سے سونپے گئے امور کی انجام دہی لازم ہے، اس میں کوتاہی گناہ ہے اور ذکر الہی کے منشا اور مقتضی کے خلاف ہے۔
[مطلب ليس للأجير الخاص أن يصلي النافلة] (قوله وليس للخاص أن يعمل لغيره) بل ولا أن يصلي النافلة. قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي وإذا استأجر رجلا يوما يعمل كذا فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة ولا يشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة وفي فتاوى سمرقند: وقد قال بعض مشايخنا له أن يؤدي السنة أيضا. واتفقوا أنه لا يؤدي نفلا وعليه الفتوى. (شامی، مطلب ليس للأجير الخاص أن يصلي النافلة 6/70)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت میںمسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک کا ذکر قرآن پاک میں فرمایا گیا ہے تو اس پر ایمان رکھنا فرض اور ضروری ہے ،اس کا منکر چوںکہ آیت قرآنی کا منکر ہے؛ اس لیے وہ کافر ہوگا، مسجد اقصیٰ کے بعد آسمانوں پر جانا اور وہاں سے عجائبات وغیرہ
کی سیر کرنا جو احادیث سے ثابت ہے اس کا منکر کافر نہ ہوگا، البتہ فاسق ہوگا۔ (۱)
(۱) إذا أنکرالرجل آیۃ من القرآن أو تسخر بآیۃ من القرآن، وفي الخزانۃ أو عاب فقد کفر، کذا في التاتار خانیۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب السابع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بالقرآن‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۹)
ویکفر إذا أنکر آیۃ من القرآن۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب السیر: باب أحکام المرتدین‘‘: ج ۵، ص:۲۰۵)
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 1687/43-1332
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذی کم ہو یا زیادہ اس کے نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتاہے، اگر شرمگاہ پر نجاست پھیلی ہے تو اس کا دھونا ضروری ہے، اور اگر شرمگاہ پر نہیں پھیلی، اس کو کپڑے سے پونچھ لیا تو شرمگاہ کا دھونا یعنی استنجا کرناضروری نہیں ہے۔ وضو کرکے نماز پڑھ سکتاہے۔ اگر کپڑے میں نجاست لگی ہے تو ایک درہم کی مقدار سے کم ہو تو اس میں نماز ہوجائے گی ، اس کا دھونا ضروری نہیں ہے، گرچہ جان بوجھ کر ایسا کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ پیشاب کا قطرہ ایک درہم سے کم کپڑے پر لگاہو تو وہ کپڑا پاک شمار ہوگا اور ا س میں نماز درست ہوجائے گی، اور اگر ایک درہم سے زیادہ پھیلاہوا ہے تو کپڑا ناپاک ہے اس کو پہن کر نماز پڑھنا جائز نہیں ہے۔
(الفصل الخامس في نواقض الوضوء) منها ما يخرج من السبيلين من البول والغائط والريح الخارجة من الدبر والودي والمذي والمني والدودة والحصاة، الغائط يوجب الوضوء قل أو كثر وكذلك البول والريح الخارجة من الدبر. كذا في المحيط. (الھندیۃ، الفصل الخامس في نواقض الوضوء 1/9) ، أن النبي - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قال في المذي: "يغسل ذكره، ويتوضأ" وفي رواية: "يتوضأ وضوء الصلاة» رواه البخاري ومسلم. وعن ابن مسعود، وابن عباس - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ - قالا. في الودي الوضوء، رواه البيهقي، والمذي والودي غير معتادين، وقد وجب فيهما الوضوء ولأنه خارج من السبيل فينقض كالريح والغائط ولأنه إذا وجب الوضوء بالمعتادة، والذي تعم به البلوى بغيره أولى. (البنایۃ، ماخرج من السبیلین من نواقض الوضوء 1/258)
المانع في الغليظة ما زاد على الدرهم قياسا على النجاسة المغلظة، كذا في البحر (شامی، مطلب فی ستر العورۃ 1/409) النجاسة إن كانت غليظة وهي أكثر من قدر الدرهم فغسلها فريضة والصلاة بها باطلة وإن كانت مقدار درهم فغسلها واجب والصلاة معها جائزة وإن كانت أقل من الدرهم فغسلها سنة وإن كانت خفيفة فإنها لا تمنع جواز الصلاة حتى تفحش. كذا في المضمرات. (الھندیۃ، الفصل الاول فی الطھارۃ وسترالعورۃ 1/58)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 1804/43-1566
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شرک کے کام سے آپ نے توبہ کرلی، اور تجدید ایمان کیا، اس پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے اور آئندہ شرک کے کاموں سے بچنے کی پوری کوشش رہنی چاہئے۔ مفتی طارق مسعود صاحب ہماری معلومات کے مطابق ایک صحیح العقیدہ اورصحیح الفکر عالم دین ہیں۔ اس لئے عام مسلمان کے لئے اس طرح عقیدہ کا اظہار کرنا کہ جو ان کا عقیدہ ہے میرا بھی وہی عقیدہ ہے ، درست ہے۔ اور اس طرح تجدید ایمان کرنے میں کوئی گناہ نہیں ہے۔
تاہم بہتر ہے کہ آپ پھر سے اس طرح تجدید ایمان کریں کہ میں اسلام قبول کرتاہوں، اللہ تعالی کو اپنا رب ، خالق اور معبود حقیقی تسلیم کرتاہوں، اور حضرت محمد ﷺ کو آخری نبی مانتاہوں، اور آپ ﷺ نے جن چیزوں پر ایمان لانے کے لئے کہا ہے میں ان تمام پر ایمان لاتاہوں، بار بار تجدید ایمان سے کوئی حرج نہیں بلکہ یہ بہتر ہے۔
البتہ مستقبل میں اگر خدانخواستہ طارق مسعود صاحب کا عقیدہ (العیاذباللہ) بگڑتاہے تو اس کا اثر آپ کے ایمان پر نہیں پڑے گا جب تک آپ اس عقیدہ کو اختیار نہیں کریں گے، ان کا غلط عقیدہ جاننے کے بعد اگر آپ اس پر رضامند ہوئے تو آپ بھی اس گمراہی میں شریک ہوں گے اور تجدید ایمان کرنا ہوگا۔ ایک مسلمان کو اپنے ایمان کے تئیں کافی حساس ہونا چاہئے تاکہ کوئی خواہی نخواہی ایسی غلطی نہ ہوجائے کہ ایمان جاتا رہے۔ اللہ ہم سب کے ایمان کی حفاظت فرمائے۔ آمین
وإذا قيل لهم آمنوا كما آمن الناس قالوا أنؤمن كما آمن السفهاء ألا إنهم هم السفهاء ولكن لا يعلمون (13)
يقول تعالى وإذا قيل للمنافقين: آمنوا كما آمن الناس أي كإيمان الناس بالله وملائكته وكتبه ورسله والبعث بعد الموت والجنة والنار وغير ذلك مما أخبر المؤمنين به وعنه، وأطيعوا الله ورسوله في امتثال الأوامر وترك الزواجر قالوا أنؤمن كما آمن السفهاء يعنون- لعنهم الله- أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم رضي الله عنهم (تفسیر ابن کثیر، سورۃ البقرۃ الآیۃ 13، 1/92)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 1909/43-1798
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
We are not fully aware of the terms intraday trading, holding trading, banking stock etc. if you resubmit the question with details, we will send you the answer in-sha-Allah.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
زکوۃ / صدقہ و فطرہ
Ref. No. 2007/44-1963
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہر شخص اپنے علاقہ میں سونے اور چاندی کی بازاری قیمت کو بنیاد بناکر زکوۃ ادا کرے۔
(وجاز دفع القيمةفي زكاة وعشر وخراج وفطرة ونذر وكفارة غين الاعتاق) وتعتبر القيمة يوم الوجوب، وقالا يوم الاداء. (الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار (ص: 130)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:توراۃ اور انجیل کی زبان عبرانی تھی۔ (۱)
(۱) وبالجملۃ کان لسان الیہود العبراني، والتوراۃ والإنجیل کلاہما کانا بالعبري، أما التوراۃ العبریۃ فتوجد الیوم أیضاً: ولا یوجد أصل الإنجیل العبري۔ (علامہ أنوار شاہ الکشمیري، فیض الباري، ’’کتاب بدء الوحي ہل التسمیۃ جزء من کل سورۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۵)
{وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہٖ لِیُبَیِّنَ لَھُمْط فَیُضِلُّ اللّٰہُ مَنْ یَّشَآئُ وَیَھْدِيْ مَنْ یَّشَآئُط وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُہ۴ } (سورۃ الإبراہیم: ۴)
فتاوی دار العلوم وقف دیوبند ج1ص291
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:سوا مہینے پر دعوت وغیرہ کو امر شرعی سمجھنا تو بالکل بدعت اور گناہ ہے۔ اتفاقاً اگر دعوت وغیرہ ہو اور اس کو حکم شرعی اور لازم نہ سمجھا جائے؛ نیز خلاف شرع کسی چیز کا ارتکاب نہ ہوتو جائز ہے۔(۱)
(۱) ویکرہ اتخاذ الضیافۃ من الطعام من أہل المیت لأنہ شرع في السرور لا في الشرور، وہي بدعۃ مستقبحۃ۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في الدفن‘‘: ج ۲، ص: ۱۵۱)
ویکرہ اتخاذ الطعام في الیوم الأول والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلی القبر في المواسم۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في کراہۃ الضیافۃ من أہل المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۸)
وشر الأمور محدثاتہا، وکل بدعۃ ضلالۃ۔ وفي روایۃ: وشر الأمور محدثاتہا، وکل محدثۃ بدعۃ۔ (أخرجہ أحمد، في مسندہ، ’’مسند جابر بن عبد اللّٰہ‘‘: ج ۲، ص: ۵۹۲، رقم: ۸۶۷)
عن معمر عن لیث عن سعید بن جبیر قال ثلاث من عمل الجاہلیۃ النیاحۃ، والطعام علی المیت۔ (أخرجہ عبد الرزاق الصنعاني، في مصنفہ: ج ۳، ص: ۵۵۰، رقم: ۶۶۶۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص397