تجارت و ملازمت

Ref. No. 1996/44-1953

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سرکار نے جو میڈیکل سرٹیفکیٹ آپ کے لئے جاری کیا ہے اس کو کسی دوسرے کو اجرت پر دینا قانونا جرم ہے، اور شرعا بھی   درست نہیں ہے۔ اگر میڈیکل اسٹور میں شرکت کرلی جائے تو ایک شریک کے پاس جو سرٹیفکیٹ ہے اس کو استعمال کیاجاسکتاہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

احکام سفر

Ref. No. 2500/45-3821

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔    اگر آپ پہلےسےمقیم ہیں تو صرف احتمال کی وجہ سے مسافر نہیں ہوں گے جب تک کہ سفر کا آغاز نہ کردیں، اور سفر کا آغاز کرتے ہی آپ قصر شروع کردیں گے گرچہ درمیان سے واپس آنا پڑ جائے، اسی طرح اگر آپ مسافر ہیں اور کسی جگہ قیام کا پندرہ دن پختہ ارادہ نہیں ہے تو آپ مسافر ہی ہیں، جب آپ نے قیام کیا تو اس وقت نیت آپ کی پندرہ دن سے زیادہ ٹھہرنے کی ہے اور احتمال ہے کہ سفر پر جانا پڑ جائے  تو اس احتمال سے اقامت ختم نہیں ہوگی۔ اور اگر صرف 14 دن قیام کی نیت تھی پھرسفرمیں جانےکاارادہ تھااس احتمال کے ساتھ کہ اگر اجازت نہیں ملی تو رک جاؤں گا تو آپ مسافر ہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حدیث و سنت
غزوہ احد کس سن اور کس ماہ میں ہوا؟ (۲۳)سوال:غزوہ احد کس سن اور کس ماہ میں ہوا؟ فقط: والسلام المستفتی: مولوی ابراہیم، گورکھپور

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس میں کوئی حرج نہیں ہے، بلکہ اچھا ہے۔(۲)

(۲) ولأہلک علیک حقا فأعط کل ذي حق حقہ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصوم: باب من أقسم علی أخیہ یفطر في التطوع‘‘: ج ۱، ص: ۲۶۴، رقم: ۱۹۶۸۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص329

اسلامی عقائد

Ref. No. 2699/45-4459

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

It is not right to pray for impossible things, similarly, it is not right to pray for illegal and forbidden things, things that a person does not have the right to pray for, for example, it is not right to pray for a miracle; such prayers are not answered. Similarly, there are some conditions for the acceptance of dua, if these conditions are not met, dua even for a halal item is not answered.

يحرم سوال العافية فقال الثاني من المحرم ان نسال المستحيلات العادية وليس نبیا ولا وليا في الحال كسوال الاستغناء عن النفس في الهواء‘‘ (رد المحتار: ج 1، ص: 522)

 

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایک شخص صرف حافظ ہے اور دوسرا شخص عالم باعمل ہے پس اگر کوئی مقررہ امام مسجد موجود نہ ہو یا اس کا قائم مقام نہ ہو تو ایسی صورت میں عالم دین کو امامت کا مستحق قرار دیا جائے گا یہی افضل اور بہتر ہے جیسا کہ ہدایہ، شامی، البحرالرائق اور فقہ کی بہت سی کتابوں میں اس کی تصریح موجود ہے۔(۲)

(۲) الأولی بالإمامۃ أعلمہم بأحکام الصلاۃ ہکذا في المضمرات وہو الظاہر ہکذا في البحرالرائق۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ، الباب الخامس: في الإمامۃ، الفصل الثاني في بیان من ہو أحق بالإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۱)
 الأحق بالإمامۃ تقدیماً بل نصبا۔ مجمع الأنہر۔ الأعلم بأحکام الصلاۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص102

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:خواتین کے لیے مخصوص ایام میں مستحب یہ ہے کہ نماز کے اوقات میں وضو کرکے مصلی پر بیٹھ کر تھوڑی دیر تسبیح وغیرہ پڑھ لیا کریں؛ تاکہ عبادت کا اہتمام برقرار رہے اور پاکی کے بعد نماز پڑھنے میں سستی نہ آئے۔ حیض کے ایام میں نماز اور قرآن پڑھنا منع ہے لیکن تسبیح پڑھنا منع نہیں ہے، ایسی عورت نماز تو نہیں پڑھے گی؛ لیکن تشبہ بالمصلین ہوجائے گا۔فتاویٰ تاتارخانیہ میں ہے کہ حائضہ عورت کے لیے مستحب ہے کہ نماز کے وقت وضو کرکے جتنی دیر نماز پڑھنے میں لگتی ہے، اتنی دیر مصلیٰ بچھا کر بیٹھ کر ذکر ودعا کرتی رہے، تاکہ عام اوقات میں جو وقت عبادت میں لگتا تھا وہ ضائع بھی نہ ہو اور عبادت کی عادت بھی باقی رہے۔
’’وقال: ویجوز للجنب والحائض الدعوات وجواب الأذان ونحو ذلک کذا في السراجیۃ‘‘(۱)
’’و یستحب للمرأۃ الحائض إذا دخل علیہا وقت الصلاۃ أن تتوضأ و تجلس عند مسجد بیتہا، و في السراجیۃ: مقدار ما یمکن أداء الصلاۃ لو کانت طاہرۃ و تسبح و تہلل کي لا تزول عنہا عادۃ العبادۃ‘‘(۲)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: …الباب السادس، في الدماء المختصۃ بالنساء، الفصل الرابع: في أحکام الحیض والنفاس والاستحاضۃ، ومنہا: حرمۃ قرأۃ القرآن‘‘: ج ۱، ص: ۹۳۔
(۲) عالم بن العلاء، الفتاویٰ التاتار خانیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: بیان حکم الحیض والاستحاضۃ والنفاس، نوع آخر في الأحکام التي بالحیض‘‘: ج ۱، ص: ۴۷۸۔


 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص401

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: صفوں کی درستگی سنت مؤکدہ ہے، اور صفوں کی درستگی کا اہتمام نہ کرنے پر سخت وعیدیں وارد ہیں۔ اس لیے یہ مقتدیوں کی ذمہ داری ہے کہ صف سیدھی کریں
اور صفوں کے بیچ میں خالی جگہیں پُر کریں۔ اور امام کو بیچ میں رکھیں، اگر کسی صف میں دائیں جانب کم لوگ ہوں تو آنے والا دائیں جانب صف میں کھڑا ہو تاکہ امام درمیان میں ہو اور دونوں جانب صف برابر ہوجائے۔ امام کو چاہئے کہ نماز شروع کرنے سے پہلے مقتدیوں کی صف کا معائنہ کرکے ان کو درست کرائے؛ لیکن یہ امام کے ذمہ لازم نہیں ہے، اگر اس کا اہتمام کرے تو بہتر ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرامؓ مقتدیوں کی صفوں کو درست کرانے کا اہتمام کرتے تھے۔
’’قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لتسون صفوفکم أو لیخالفن اللّٰہ بین وجوہکم، وکان في زمن عمر رضي اللّٰہ تعالی عنہ رجل موکل علی التسویۃ، کان یمشی بین الصفوف ویسوِّیہم، وہو واجب عندنا تکرہ الصلاۃ بترکہ تحریمًا، وسنۃ عند الشافعیۃ لانتفاء مرتبۃ الواجب عندہم، وذہب إبن حزم إلی أنہ فرض‘‘(۱)
’’عن أنس عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: سووا صفوفکم فإن تسویۃ الصفوف من إقامۃ الصلاۃ‘‘(۲)
’’قال علیہ السلام: لتسون صفوفکم، أو لیخالفن اللّٰہ بین وجوہکم وفیہ: أنس، قال الرسول:  أقیموا الصفوف، فإني أراکم من وراء ظہری۔ تسویۃ الصفوف من سنۃ الصلاۃ عند العلماء، وإنہ ینبغي للإمام تعاہد ذلک من الناس،  وینبغی للناس تعاہد ذلک من أنفسہم، وقد کان لعمر وعثمان رجال یوکلونہم بتسویۃ الصفوف، فإذا استوت کبرا إلا أنہ إن لم یقیموا صفوفہم لم تبطل بذلک صلاتہم۔ وفیہ: الوعید علی ترک التسویۃ‘‘(۱)
’’قلت: قولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: تراصوا، وقولہ: رصوا صفوفکم، وقولہ: سدوا الخلل، ولا تذروا فرجات للشیطان، وقول النعمان بن بشیر: فرأیت الرجل یلزق کعبہ بکعب صاحبہ الخ، وقول أنس: وکان أحدنا یلزق منکبہ بمنکب صاحبہ
الخ، کل ذلک یدل دلالۃ واضحۃ علی أن المراد باقامۃ الصف وتسویتہ إنما ہو اعتدال القائمین علی سمت واحد وسد الخلل والفرج في الصف بإلزاق المنکب بالمنکب والقدم بالقدم، وعلی أن الصحابۃ في زمنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کانوا یفعلون ذلک، وأن العمل برص الصف والزاق القدم بالقدم وسد الخلل کان في الصدر الأول من الصحابۃ وتبعہم، ثم تہاون الناس بہ‘‘(۲)
’’أي یصفہم الإمام بأن یأمرہم بذلک۔ قال الشمني: وینبغي أن یأمرہم بأن یتراصوا ویسدوا الخلل ویسووا مناکبہم ویقف وسطا‘‘(۳)

(۱) الکشمیري، فیض الباري علی صحیح البخاري، ’’کتاب الصلوۃ، باب تسویۃ الصفوف‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۹۔
(۲) أیضًا:۔
(۱) ابن بطال، فتح الباري علی صحیح البخاري، ’’کتاب الصلوۃ، باب تسویۃ الصفوف‘‘: ج۲، ص: ۳۳۴۔
(۲) مرعاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، الفصل الاول‘‘: ج۲، ص: ۵۵۔
(۳) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمامۃ، مطلب ہل الإساء ۃ دون الکراہۃ أو أفحش منہا‘‘ج۲، ص: ۳۰۹۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص436

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:سورج کے غروب ہونے کے بعد آسمان کے کناروں پر جو سرخی رہتی ہے۔ اس کو شفق کہتے ہیں جب تک یہ سرخی موجود رہے جو تقریباً غروب سے ایک گھنٹہ تک رہتی ہے۔ اس وقت تک مغرب کی نماز ہوسکتی ہے۔(۲) بعض لوگوں میں یہ مشہور ہے کہ ذرا سا اندھیرا ہوا تو وقت مغرب ختم ہوگیا یہ غلط ہے البتہ قصداً نماز مغرب میں تاخیر کرنا مکروہ ہے۔(۱) تاہم اگر شفق سرخ کے غروب ہونے سے پہلے پڑھ لے تو مغرب کی نماز ادا ہو جائے گی۔
 

(۱) وأخر وقتہا ما لم یغب الشفق أي الجزء الکائن قبیل غیبوبۃ الشفق من الزمان وہو أي المراد بالشفق ہو البیاض الذي في الأفق الکائن بعد الحمرۃ التي تکون في الأفق عند أبي حنیفۃ وقالا أي أبو یوسف ومحمد رحمہما اللّٰہ وہو قول الأئمۃ الثلثۃ وروایۃ اسد بن عمرو عن أبي حنیفۃ أیضاً المراد بالشفق ہو الحمرۃ نفسہا لا البیاض الذي بعدہا۔ (إبراہیم الحلبي، حلبي کبیري: ص: ۲۰۰، مکتبہ، دار الکتاب، دیوبند؛ ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، مطلب: في الصلاۃ الوسطی‘‘: ج ۲، ص: ۱۸، مکتبہ، زکریا، دیوبند)
(۲) أیضًا۔

(۱) ویستحب أیضاً تعجیل المغرب في کل الأزمنۃ إلا یوم الغیم کما في الصحیحین۔ (إبراہیم الحلبي، حلبي کبیري: ص: ۲۰۵، دار الکتاب، دیوبند)
 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص76



 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں ثنا کے بعد پہلی رکعت میں قرأت نہ کرنے کی وجہ سے فرض ترک ہوا ہے؛ اس لیے پہلی رکعت باطل ہوگئی اور پہلی رکعت باطل ہونے کی بنا پر پور ی نماز میں فساد آ گیا اس لیے نماز کا لوٹانا واجب ہے، جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: {فاقرء وا ما تیسر من القرآن} اس آیت میں بآسانی قرأت کرنے کا حکم ملتا ہے جب کہ احادیث مبارکہ میں سورۂ فاتحہ کے ساتھ سورت ملانے کا حکم دیا گیا ہے، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ’’عن أبي سعید الخدري رضي اللّٰہ عنہ قال: أمرنا أن نقرأ بفاتحۃ الکتاب وما تیسر‘‘(۱)
اس حدیث پاک میں حکم دیا گیا ہے کہ سورۃالفاتحہ کے ساتھ جو قرآن کریم میں آسان ہو اسے پڑھا کریں، امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روایت نقل کی ہے ’’لا صلاۃ إلا بقراء ۃ‘‘(۲)
فتاوی عالمگیری میں ہے: ’’ومنہا القرء ۃ وفرضہا عند أبي حنیفۃ رحمۃ اللّٰہ علیہ یتأدی بآیۃ واحدۃ وإن کانت قصیرۃ کذا في المحیط‘‘(۱)
مذکورہ عبارتوں سے یہ بات واضح ہو گئی کہ ترک فرض (سورۂ فاتحہ اور قرأت) کی وجہ سے نماز کا اعادہ کرنا ضروری ہے سجدہ سہو کرنے سے بھی نماز درست نہیں ہوگی۔
 

(۱) أخرجہ أبوداود، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب من ترک القراء ۃ في صلاتہ بفاتحۃ‘‘: ج۱، ص: ۲۱۸، رقم:۸۱۸، ومسند أحمد، ’’مسند أبی ہریرۃؓ‘‘: ج ۱۲، ص: ۲۳۹، رقم: ۷۲۹۱۔
(۲) أخرجہ مسلم، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب وجوب قراء ۃ الفاتحۃ في کل رکعۃ‘‘: ج۱ ، ص: ۱۷۰، رقم:۳۹۶۔
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الأول في فرائض الصلاۃ، ومنہا القراء ۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۶۔…

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص348