Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس قسم کے وظائف کہ جن میں غیر اللہ سے مدد طلب کی جائے حرام ہیں ان سے بچنا چاہئے ایسا کرنے والے سخت گنہگار ہیں۔ (۲)
(۲) {وَیَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَا لَا یَضُرُّھُمْ وَلَا یَنْفَعُھُمْ وَیَقُوْلُوْنَ ھٰٓؤُلَآئِ شُفَعَآؤُنَا عِنْدَ اللّٰہِط} (سورہ یونس: ۱۸)
{وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِیَآئَ م مَا نَعْبُدُ ھُمْ اِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَآ اِلَی اللّٰہِ زُلْفٰیط} (سورہ الزمر: ۳)
؟عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما قال: کان المشرکون یقولون: لبیک لا شریک لک، قال: فیقول رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: (ویلکم قد قد) فیقولون: إلا شریکاً ہو لک،
… تملکہ وماملک۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’باب التلبیۃ وصفتہا ووقتہا‘‘: ج ۲، ص: ۸۴۱، رقم: ۱۱۸۵)؟
ویکفر بقولہ أرواح المشایخ حاضرۃ تعلم۔ (عبد الرحمن بن محمد، مجمع الأنہر في شرح ملتقی الأبحر، ’’کتاب السیر والجہاد، ألفاظ الکفر أنواع‘‘: ج ۲، ص: ۵۰۵)
وأعلم أن النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام وما یؤخذ من الدراہم والشمع والزیت ونحوہا إلی ضرائح الأولیاء الکرام تقربا إلیہم فہو بالإجماع باطل وحرام۔ (ابن عابدین، الدر المختارمع رد المحتار، ’’کتاب الصوم: باب ما یفسد الصوم وما لا یفسدہ، مطلب: في النذر الذي یقع للأموات من أکثر‘‘: ج ۳، ص: ۴۲۷)
فقہ
Ref. No. 2082/44-2092
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ یہ ہینڈ پمپ عام طور پر صدقہ نافلہ کے طور پر دئے جاتے ہیں، اس لئے یا تو یہ پمپ رفاہ عام کے لئے ہوتاہے جس سے امیر غیرب سب پانی پی سکتے ہیں، یا کسی غریب کے ذاتی استعمال کےلئے ہوتاہے، لیکن کسی امیر شخص کا اس کو لے کر اپنے گھر میں لگانا اور اس کا ذاتی استعمال میں لانا مناسب نہیں ہے۔
وفي المنتقی: إذا أراد أن یبنی کنیفا أو ظلة علی طریق العامة فإنی أمنعہ عن ذلک وإن بنی ثم اختصموا نظرت فی ذلک فإن کان فیہ ضرر أمرتہ أن یقلع وإن لم یکن فیہ ضرر ترکتہ علی حالہ وقال محمد- رحمہ اللہ تعالی - إذا أخرج الکنیف ولم یدخلہ فی دارہ ولم یکن فیہ ضرر ترکتہ وإن أدخلہ دارہ منع عنہ (فتاوی ہندیہ: ۵/۴۲۷، ط: اتحاد دیوبند) ۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر غلطی اور انجانے سے کوئی کفریہ کلمہ زبان سے نکل جائے تو اس کفریہ کلمہ کی وجہ سے وہ شخص کافر نہیں ہوگا، مسلمان ہی ہے جیسا کہ فتاویٰ ہندیہ میں ہے: ’’وماکان
خطأ من الألفاظ لا یوجب الکفر فقائلہ مومن علی حالہ ولا یؤمر بتجدید النکاح‘‘ (۱) اور اس شخص پر مذکورہ صورت میں تجدید نکاح بھی لازم نہیں ہے؛ لیکن ایسے الفاظ جو کفریہ ہوں ان کا استعمال کرنا بہت غلط ہے آئندہ احتیاط کرنی ضروری ہے اور اس شخص پر توبہ اور استغفار لازم ہے۔ ’’ولکن یؤمر بالاستغفار والرجوع عن ذلک‘‘(۲) ’’ومن تکلم بہا مخطئاً أو مکرہا لا یکفر عند الکل‘‘۔ (۳)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۳
…(۲) أیضاً:
(۳) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب: ما یشک أنہ ردۃ لا یحکم بہا‘‘: ج۶، ص: ۳۵۸۔
دار العلوم وقف دیوبند
(فتاوی دار العلوم وقف دیوبند جلد اول ص 176)
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نامی آئے تو درود پڑھنا ضروری ہے۔ انگوٹھے چومنے کا کوئی ثبوت شریعت میں نہیں ہے، جو کوئی انگوٹھے چومتا ہو اور کوئی غلط عقیدہ رکھتا ہو اس پر اس طریقہ کا چھوڑنا اور توبہ کرنا لازم ہے پس صورت مسئولہ میں مذکورہ شخص کو کافر کہنا بالکل غلط ہے۔ (۱)
۱) یستحب أن یقال عند سماع الأولیٰ من الشہادۃ: صلی اللّٰہ علیک یا رسول اللّٰہ، وعند الثانیۃ منہا: قرت عیني بک یا رسول اللّٰہ، ثم یقول: اللّٰہم متعني بالسمع والبصرۃ بعد وضع ظفري الإبہامیی علی العینین ………… أیضاً: ثم قال: ولم یصح في المرفوع من کل ہذا شیئ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان، مطلب في کراہۃ تکرار الجماعۃ في المسجد، تتمۃ‘‘: ج ۲، ص: ۶۸)
عن عائشۃ -رضي اللّٰہ عنہا- قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو رد۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح: باب إذا اصطلحوا علی صلح جور فہو مردود‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷) وقال القاري في مرقاۃ المفاتیح: ہذا الحدیث عماد في التمسک بالعروۃ الوثقیٰ، وأصل في الاعتصام بحبل اللّٰہ الأعلی، ورد للمحدثات والبدع والہوی، وقد أنشد في ہذا المعنی۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ الفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۶، رقم: ۳۳۶)…
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند جلد اول ص 192
خوردونوش
Ref. No. 2359/44-3557
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مدرسہ میں جو آم کا درخت ہے وہ کس مقصد کے لیے ہے اس کا واضح ہونا ضروری ہے اگر فروخت کرنے اور اس کے پیسے کو مدرسہ کے مصارف میں خرچ کرنے کے لیے ہوں تو بچوں یا اساتذہ کے لیے توڑنا درست نہیں ہے، لیکن اگر یونہی ایک دو درخت ہیں جس پر مدرسہ کی کوئی خاص توجہ نہیں ہے یا توڑنے کی دلالۃ اجازت ہے اس لیے بچے توڑ کر کھاتے ہیں تو مدرسہ کے اساتذہ کے لیے بھی توڑ کر کھانا درست ہوگا۔
مدرسہ میں لگا آم کا درخت کوئی زکاۃ کا مال نہیں ہے کہ بچے کھا سکتے ہیں اور اساتذہ نہیں کھا سکتے ہیں اس مسئلے کا مدار انتظامیہ کی اجازت پر ہے خواہ صراحت ہو یا دلالۃ ہو۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ حدیث مستدرک علی صحیحین میں ہے اور حاکم نے اس پر صحیح کا حکم لگایا ہے۔ (۱)
(۱) الحاکم، في مستدرکہ، ج ۴، ص: ۲۷۸، رقم: ۷۶۳۷۔
عن جابر بن عبد اللّٰہ، رضي اللّٰہ عنہما قال: خرج علینا النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فقال: خرج من عندي خلیلي جبریل آنفاً، فقال: یا محمد، والذي بعثک بالحق إن للّٰہ عبداً من عبیدہ عبد اللّٰہ تعالیٰ خمس مائۃ سنۃ علی رأس جبل في البحر عرضہ وطولہ ثلاثون ذراعاً في ثلاثین ذراعاً، والبحر المحیط بہ أربعۃ آلاف فرسخ من کل ناحیۃ وأخرج اللّٰہ تعالیٰ لہ عیناً عذبۃ بعرض الأصبع تبض بماء عذب فتستنقع في أسفل الجبل وشجرۃ رمان تخرج لہ کل لیلۃ رمانۃ فتعذیہ یومہ، فإذا أمسیٰ نزل فأصاب من الوضوء وأخذ تلک الرمانہ فأکلہا ثم قام لصلاتہ … قال جبریل علیہ السلام: إنما الأشیاء برحمۃ اللّٰہ تعالیٰ یا محمد، ہذا حدیث صحیح الإسناد۔ (أبو عبد اللّٰہ الحاکم محمد بن عبد اللّٰہ، في مستدرکہ: ج ۴، ص: ۲۷۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص109
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تبارک وتعالیٰ کو کئی بار دیکھا ہے۔
طبرانی میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے ’’رآہ مرتین مرۃ بقلبہ ومرۃ ببصرہ عن عکرمۃ عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ قال رأی محمد ربہ قلت ألیس اللّٰہ یقول لاتدرکہ الأبصار وہو یدرک الأبصار قال ویحک ذاک إذا تجلی بنورہ الذي ہو نورہ وقد رأی ربہ مرتین‘‘(۲)
(۲) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب التفسیر، سورۃ النجم‘‘: ج ۲، ص: ۱۶۴، رقم: ۳۲۷۹)
عن أبي ذر قال: سألت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہل رأیت قال: نور إني أراہ۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: باب معنی قول اللّٰہ عزول ولقد رأہ نزلۃ أخری الخ‘‘: ج ۱، ص: ۹۹، رقم: ۲۹۱)
وذہب الجمہور من المفسرین إلی أن المراد أنہ رأی ربہ سبحانہ وتعالیٰ ثم اختلف ہولاء فذہب جماعۃ إلی أنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم رأی ربہ بفؤادہ دون عینیہ، وذہب جماعۃ إلی أنہ رأہ بعینیہ قال الإمام أبو الحسن الواحدي قال المفسرون في ہذا إخبار عن رؤیۃ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ربہ عز وجل لیلۃ المعراج۔ (النووي شرح المسلم ’’کتاب الإیمان: باب معنی قول اللّٰہ عزول ولقد رأہ نزلۃ أخری الخ‘‘: ج ۱، ص: ۹۷، رقم: ۲۸۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص202
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:پرانی ساڑھیاں اور دیگر پرانے کپڑے جو بازار میں بکتے ہیں، وہ دھلے ہوئے ہوتے ہیں؛ اس لیے یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ ناپاک ہیں (۱)؛ لہٰذا ایسی صورت میں اگر نئے کپڑے میں لگا کر سلا ہے، تو اس نئے کپڑے کو دھونے کی ضرورت نہیں ہے اس میں نماز جائز اور درست ہوگی۔ فقہ کا اصول ہے ’’الیقین لا یزول بالشک‘‘ یقین شک سے زائل نہیں ہوتا ہے(۲)،البتہ اگر آپ کو یقین ہے کہ وہ ناپاک ہے اور دھویا نہیں گیا ہے، تو ایسے کپڑے کو دھو کر لگایا جائے اگر بغیر دھلے لگا دیا، تو لگانے کے بعد سارے کپڑے کو دھولیا جائے؛ اگر نہ دھویا گیا، تو اس کپڑے میں نمازنہیں ہوگی اور جو نماز پڑھی ہے، اس کا اعادہ ضروری ہوگا۔(۳)
(۱)في التاتارخانیۃ: من شک في إنائہ أو ثوبہ أو بدنہ أصابتہ نجاسۃ أولا، فھو طاھر مالم یستیقن،… و کذا ما یتخذہ أھل الشرک أو الجھلۃ من المسلمین کالسمن والخبز والأطعمۃ والثیاب، (ابن عابدین، ردالمحتار، کتاب الطہارۃ،قبیل مطلب في أبحاث الغسل، ج۱، ص:۲۸۳، ۲۸۴)
مفتیٔ اعظم مفتی کفایت اللہ فرماتے ہیں: ’’ہندو جن کے ہاتھ میں ہندوستان کی اکثری تجارت کی باگ ہے، بہت سی ناپاک چیزوں کو پاک اور پَوِتْر سمجھتے ہیں، گائے کا گوبر اور پیشاب ان کے نزدیک نہ صرف پاک؛ بلکہ متبرک بھی ہے، باوجود اس کے، ان کے ہاتھ کی بنی مٹھائیاں اور بہت سی خوردنی چیزیں عام طور پر مسلمان استعمال کرتے ہیں اور استعمال کرنا شرعاً جائز بھی ہے؛ یہ کیوں؟ صرف اس لیے کہ چوںکہ ہندو دوکاندار جانتے ہیں کہ ہمارے خریدار، ہندوو مسلمان اور دیگر اقوام کے لوگ ہیں اور ہندوئوں کے علاوہ دوسرے لوگ گائے کے گوبر اور پیشاب کو ناپاک سمجھتے ہیں، اس لیے وہ تجارتی اشیاء کو ایسی چیزوں سے علیحدہ اور صاف رکھتے ہیں، تاکہ خریداروں کو ان سے خریدنے میں تامل نہ ہو اور خریداروں کے مذہبی جذبات ان کی تجارتی اغراض کی مزاحمت نہ کریں۔‘‘ (کفایت المفتی،ج ۳، ص:۴۳۰)
(۲) ’’الیقین لا یزول بالشک‘‘ (ابن نجیم، الاشباہ والنظائر، القاعدۃ الثالثۃ:ص: ۱۸۳)
(۳)ھي (شروط الصلاۃ) طھارۃ بدنہ من حدث و خبث و ثوبہ و مکانہ من الثاني أي الخبث، لقولہ تعالیٰ: و ثیابک فطھر، (ابن عابدین، الدر المختار مع ردّ المحتار،کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ، ج۲، ص:۷۳-۷۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص413
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:کنواں پاک ہے، تو اس سے وضو بھی درست ہے(۱) اور ناپاک ہے تو اس پانی کو کھانے میں استعمال کرنا بھی جائز نہیں ہے۔(۲)
(۱)عن راشد بن سعد عن أبي أمامۃ قال: قال رسول اللّہ ﷺ:إن الماء لا ینجسہ شيء إلا ما غلب علی ریحہ و طعمہ و لونہ۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، تحقیق: محمد فواد عبدالباقی: باب الحیض،ج۱، ص:۱۷۴، رقم الحدیث ۵۲۱)
(۲)و بتغیر أحد أوصافہ من لون أو طعم أو ریح ینجس الکثیر ولو جاریاً إجماعاً۔ (ابن عابدین، رد المحتار، کتاب الطہارۃ، باب المیاہ، مطلب: حکم سائر المائعات، ج۱، ص:۳۳۱)؛ و أما إذا بقی علی رقتہ و سیلانہ فإنہ لا یضر أي لا یمنع جواز الوضوء بہ، تغیر أوصافہ کلھا بجامد خالطہ بدون طبخ کزعفران و فاکھۃ و ورق شجر الخ (احمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، باب المیاہ علی خمسۃ أقسام من حیث طہارتہا، ج۱، ص:۲۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص461
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس مسئلہ میں تقریبا حضرات اہل علم کا اتفاق ہے کہ موبائل میں قرآن کریم کی تلاوت جائز ہے؛ البتہ یہاں یہ سوال اہمیت کا حامل ہے کہ جس وقت موبائل میں قرآن کی تلاوت کی جائے اور قرآن کریم کے نقوش موبائل کی اسکرین پر نمایاں ہوں، جسے دیکھ کر قاری پڑھ رہا ہے، تو اس وقت موبائل کو بلا وضو ہاتھ لگانا درست ہے یا نہیں؟ اس سلسلے میں حضرات اہل علم کے درمیان اختلاف ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ جس وقت موبائل کی اسکرین پر قرآن کے نقوش ظاہر ہوں، تو وہ مصحف کے حکم میں ہے اور پورے قرآن کو بلا وضو چھونا درست نہیں ہے {لاَ یَمَسُّہُ اِلاَّ الْمُطَہَّرُوْنَ} دوسری رائے یہ ہے کہ صرف اسکرین کو چھونا درست نہیں ہے، باقی موبائل کے دوسرے حصے کو چھونا درست ہے۔ یہ حضرات کہتے ہیں کہ جس وقت موبائل کی اسکرین پر قرآن کے نقوش ہوں، تو وہ قرآن کے حکم میں نہیں ہے اور اگر ہے بھی تو موبائل کے دوسرے پارٹس غلاف منفصل کے حکم میں ہے۔ تیسری رائے یہ ہے کہ اس اسکرین کو بھی بلا وضو ہاتھ لگانا جائز ہے اور دیگر حصے کو بھی۔ ان حضرات کا کہنا ہے کہ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے ایک کاغذ پر قرآن لکھ کر اس کو فریم کردیا ہو، وہ حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ موبائل یا کمپیوٹر کی اسکرین پر جوآیات نظر آتی ہیں، وہ سافٹ ویر ہیں، یعنی ایسے نقوش ہیں، جن کو چھوا نہیں جا سکتاہے، نیز ماہرین کے مطابق یہ نقوش بھی کمپیوٹر یا موبائل کے شیشے پر نہیں بنتے؛ بلکہ فریم پر بنتے ہیں اور شیشے پر نظر آتے ہیں؛ لہٰذا اسے مصحف قرآنی کے غلاف منفصل پرقیاس کیا جاسکتاہے، یعنی: ایسا غلاف جو قرآن کریم کے ساتھ لگا ہوا نہ ہو؛ بلکہ اس سے جدا ہو۔ فقہاء کرام کی تصریح کے مطابق اس کو چھونا درست ہے۔
تینوں نقطہائے نظر دلائل پر مبنی ہیں اور اپنی جگہ درست معلوم ہوتے ہیں؛ لیکن یہاں ضروری ہے کہ قرآن کریم کے آداب کو ملحوظ رکھاجائے۔ سماج اور معاشرے میں جو لوگ موبائل میں قرآن پڑھتے ہیں؛ وہ قرآن سمجھ کر ہی پڑھتے ہیں؛ اگر چہ اس پر قرآن کی حقیقت صادق نہ آئے؛ اس لیے یہ تیسری رائے اگر چہ دلائل کے اعتبار سے قوی ہے؛ لیکن فتوی اور عمل کے لیے مناسب نہیں ہے؛ اسی لیے زیادہ تر حضرات اہل علم نے پہلی اوردوسری رائے اختیار کی ہے۔
فقہاء کے یہاں اصول یہ ہے کہ غیر مصحف میں صرف نقوش کو بلا وضو چھونا درست نہیں ہے باقی حصے کو چھونا درست ہے۔ اس اصول کی روشنی میں موبائل پر نمایاں نقوش کو بلا وضو چھونا درست نہ ہوگا؛ باقی دیگر حصے کو چھونا درست ہوگا ۔ علامہ شامی تحریر فرماتے ہیں:
’’یحرم بہ أي بالأکبر و بالأصغر مس مصحف أي ما فیہ آیۃ -إلا بغلاف متجاف غیر مشرز -وقال إبن عابدین :لکن لا یحرم في غیر المصحف إلا بالمکتوب أي موضع الکتابۃ‘‘(۱)
البتہ احتیاط اس میں ہے کہ اسکرین پر آیات کے نمایاں ہونے کی صورت میں پورے موبائل کو مصحف کے حکم میں رکھ کربلا وضو چھونے کی اجازت نہ دی جائے ،اس میں قرآن کریم کا ادب بھی ملحوظ رہے گا۔ علامہ شامی تحریر فرماتے ہیں :
’’ومسہ أي القرآن و لو في لوح أو درہم أو حائط لکن لا یمنع إلامن مس المکتوب بخلاف المصحف فلا یجوز مس الجلد و موضع البیاض منہ‘‘۔(۱)
علامہ ابن نجیم مصری تحریر فرماتے ہیں :
’’وتعبیر المصنف بمس القرآن أولی من تعبیر غیرہ بمس المصحف لشمول کلامہ ما إذا مس لوحا مکتوبا علیہ آیۃ و کذا الدرہم والحائط ۔۔۔۔۔لکن لا یجوز مس المصحف کلہ المکتوب و غیرہ بخلاف غیرہ فإنہ لا یمنع إلا مس المکتوب‘‘(۲)
(۱) ابن عابدین، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب: یطلق الدعاء علی ما یشمل الثناء،‘‘ ج۱، ص: ۳۱۵ (زکریا بک ڈپو دیوبند)۔
(۱)ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض، مطلب : لو أفتی مفت بشيء من۔۔۔‘‘ ج ۱، ص: ۴۸۸
(۲) ابن نجیم، البحر الرائق ، ’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض‘‘، ج۱، ص:۳۹۴(دارالکتاب دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص129