Frequently Asked Questions
بدعات و منکرات
Ref. No. 2788/45-4341
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حیض کے خون کو جذب کرنے اور کپڑے کو خون سے آلودہ ہونے سے بچانےکے لئے ، حیض والے کپ کے استعمال میں کوئی حرج نہیں ہے، اس میں آسانی ہے اور زیادہ صفائی کا خیال رکھاگیاہے تو شرعا اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 1248 Alif
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as it follows:
If you have started doing a particular good deed, you should continue the same, else do take full care of your daily prayers, and work hard for your Halal living. Such a dream indicates that a good period of your life has begun, and you will do what will benefit you in the hereafter too. May Allah grant us taufiq to do good deeds and what that pleases Him! And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
طلاق و تفریق
Ref. No. 39/ 940
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔حلالہ درست ہوجائے گا، اور عورت پہلے شوہر کے لئے حلال ہوجائے گی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Prayer / Friday & Eidain prayers
Ref. No. 41/952
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
There are two kinds of Sunnat: (1) Sunnate Muakkadah (emphasized sunnat) (2) Sunnate Ghair Muakkadah (a sunnat not emphasized).
(1) Sunnat-e-Muakkadah is a Sunnat which the Prophet of Allah (saws) performed punctually like four rakats sunnah before Zuhr fardh. So if a person abandons this sunnat permanently with no genuine reason, he will be sinful. But there is no sin if anytime the sunnah is missed without any intention or is given up due to some excuses.
(2) Sunnate Ghair Muakkadah is an optional prayer. It is also proved by the Prophet of Allah (saws) but it is not proved to offer them punctually. Therefore, offering it is a cause reward but leaving it is not a sin like four rakats begore Asr fardh.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
اسلامی عقائد
Ref. No. 1285/42-630
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ یہ محبت کرنے کی مثال دی گئی ہے، اور مثال دینے میں ایک گونہ مشابہت کافی ہے، ہر اعتبار سے مشابہت نہیں مراد ہوتی ہے، اس لئے اس میں توہین رسالت شامل نہیں ہے، البتہ اس جیسی کہاوتوں سے گریز کیا جائے تاکہ کسی کو توہین کا شبہہ نہ ہو۔
قال شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله في ((جامع المسائل - المجموعة الأولى -)) (ص: 322): ((وليس من شرط التشبيه التساوي من كلّ وجه)) اهـ.
وقال العلامة ابن القيم رحمه الله في ((المنار المنيف في الصحيح والضعيف)) (ص: 22): ((والمقصود: أنه لا يلزم من تشبيه الشيء بالشيء مساواته له)) اهـ.
وقال العلامة أحمد بن إسماعيل بن عثمان بن محمد الكوراني رحمه الله في ((الكوثر الجاري إلى رياض أحاديث البخاري)) (1/ 309): ((التشبيه لا يقتضي التساوي، بل المشبه ناقص عن المشبه به في وجه الشبه)) اهـ.
وقال العلامة الطيبي رحمه الله في ((الكاشف عن حقائق السنن)) (10/ 3213): ((وفي المشابهة يكفي المساواة في بعض الصفات)) اهـ.
وقال العلامة المناوي رحمه الله في ((فيض القدير)) (6/ 353): ((والمشابهة في بعض الصفات كافية إذ التشبيه إنما يصار إليه للمبالغة ولا يقصد به المساواة ولا بد)) اهـ.
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 1706/43-1362
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ نے جو کچھ کیا وہ لاعلمی اور انجانے میں کیا ، اس لئے آپ کا یہ عمل مشرکانہ تو نہیں ہوا البتہ غلطی پر اللہ تعالی سے استغفار کرلینا چاہئے۔
وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُمْ بِهِ وَلَكِنْ مَا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا) الأحزاب: 5( وَ مَنۡ یَّعۡمَلۡ سُوۡٓءًا اَوۡ یَظۡلِمۡ نَفۡسَہٗ ثُمَّ یَسۡتَغۡفِرِ اللّٰہَ یَجِدِ اللّٰہَ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًاسورۃ النساء 110)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
زکوۃ / صدقہ و فطرہ
Ref. No. 2491/45-3801
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ (1) ظاہری وضعداری سے اگر کوئی مستحق زکوۃ معلوم ہو تو اس کو زکوۃ کی رقم دینی جائز ہے، پھر اگر بعد میں معلوم ہواکہ جس کوزکوۃ کی رقم دی تھی وہ غیر مستحق تھا تو بھی زکوۃ ادا ہوجائے گی؛ دوبارہ زکوۃ دینی لازم نہیں ہے۔ (2) صاحب نصاب کا جس دن زکوۃ کا سال پورا ہو، اس دن کی تمام ملکیت کا حساب ہوگا، لہذا زکوۃ کے سال کے آخری دن جتنی رقم کسی کو قرض دی ہوئی ہو، یا بینک میں جمع ہو، یا ماہانہ خرچ کے لئے گھر میں رکھی ہوئی ہو سب کی مجموعی رقم پر زکوۃ کا حساب ہوگا۔ یعنی ماہانہ اخراجات کو منہا نہیں کیاجائے گا بلکہ ان کی بھی زکوۃ ادا کرنی ہوگی۔
دفع بتحر ) لمن يظنه مصرفًا ( فبان أنه عبده أو مكاتبه أو حربي ولو مستأمنًا أعادها ) لما مر ( وإن بان غناه أو كونه ذميًا أو أنه أبوه أو ابنه أو امرأته أو هاشمي لا) يعيد؛ لأنه أتى بما في وسعه، حتى لو دفع بلا تحر لم يجز إن أخطأ". (فتاوی شامی كتاب الزكوة، ج: 2، ص: 253، ط: سعيد)
"إذا شك وتحرى فوقع في أكبر رأيه أنه محل الصدقة فدفع إليه أو سأل منه فدفع أو رآه في صف الفقراء فدفع فإن ظهر أنه محل الصدقة جاز بالإجماع، وكذا إن لم يظهر حاله عنده....وإذا دفعها، ولم يخطر بباله أنه مصرف أم لا فهو على الجواز إلا إذا تبين أنه غير مصرف، وإذا دفعها إليه، وهو شاك، ولم يتحر أو تحرى، ولم يظهر له أنه مصرف أو غلب على ظنه أنه ليس بمصرف فهو على الفساد إلا إذا تبين أنه مصرف، هكذا في التبيين". (فتاوی ہندیہ)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
بدعات و منکرات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ میں تمام انتظامات کے بعد محمد ارشد کا جماعت میں دینی اصلاح کے لئے جانا درست ہے، ایسی اصلاح ہونی چاہئے، وہ جماعت میں جاکر ہو یاکسی دینی مدرسہ، خانقاہ میں یا کسی اللہ والے کی صحبت میں رہ کر۔(۱)
(۱) یطلق أیضاً: علی مجاہدۃ النفس والشیطان والفساق فأما مجاہدۃ النفس فعلی تعلم أمور الدین ثم علی العمل بہا ثم علی تعلیمہا۔ (ابن حجر، فتح الباري، ’’کتاب الجہاد والسیر‘‘: ج ۶، ص: ۷۷، رقم:۲۷۸۱)
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: بلغوا عني أي: انقلوا إلی الناس، وأفیدوہم ما أمکنکم۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’قولہ کتاب الجہاد‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۷، رقم: ۱۹۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص331
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: ان دونوں میں سے جو شخص مسائل نماز سے واقف اور پانچوں وقت کی نماز پابندی سے پڑھنے والا ہے وہ ہی افضل ہے کہ اس کے پیچھے نماز ادا کی جائے اس صورت میں {إن أکرکم عند اللّٰہ أتقاکم} پر عمل کیا جائے اور جو نماز نہیں پڑھتا وہ فاسق ہے اس کی امامت مکروہ تحریمی ہے جماعت میں نہ دیکھنے یا اس کے حاضر جماعت نہ ہونے کی وجہ کو معلوم کریں کوئی شرعی عذر تو نہیں ہے۔(۱)
(۱) فإن تساووا فأورعہم۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ،…الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثاني في بیان من ہو أحق بالإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۱)
الأعلم بالسنۃ أولی إلا أن یطعن علیہ في دینہ لأن الناس لایرغبون في الاقتداء بہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص103
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اسقاط حمل کے نتیجہ میں اگر اجزائے انسانی میں سے کوئی جز مثلاً ہاتھ پاؤں وغیرہ ظاہر ہو گئے، تو وہ شرعاً بچہ ہے اور اس کے بعد آنے والا خون نفاس ہے، مذکورہ صورت میں عورت سے نماز ساقط ہو جائے گی اور روزہ دوسرے دنوں میں قضا کرے گی اور اس جزو انسانی کو غسل دیا جائے گا۔
اور اگر کوئی چیز ظاہر نہیں ہوئی، تو وہ بچہ نہیں ہے نہ اس کے لیے غسل ہے اور نہ کفن ودفن؛ البتہ جزو انسانی ہونے کی وجہ سے دفن کرنا چاہئے اور اس صورت میں آنے والا خون نفاس نہیں ہے، اب دیکھنا چاہئے کہ اس سے قبل حیض آئے ہوئے کتنا زمانہ ہوا اور یہ خون کتنے دن آیا، اگر حیض آئے ہوئے پندرہ دن یا اس سے زیادہ ہو گئے اور یہ خون کم از کم تین دن آئے، تو حیض ہے ورنہ استحاضہ ہے جس میں نماز روزہ سب درست ہے۔
’’وسقط ظہر بعض خلقہ کید أو رجل أو إصبع أو ظفر أو شعر ولا یستبین خلقہ إلا بعد مائۃ وعشرین یوماً ولد حکماً فتصیر المرأۃ بہ نفساء … فإن لم یظہر لہ شيء فلیس بشيء والمرئي حیض إن دام ثلاثاً وتقدمہ طہر تام وإلا استحاضۃ‘‘(۱)
’’وإلا أي وإن لم یستہل غسل وسمیٰ عند الثاني وہو الأصح فیفتی بہ علی خلاف ظاہر الروایۃ إکراماً لبني آدم کما في ملتقی البحار وفي النہر عن الظہیریۃ: وإذا استبان بعض خلقہ غسل وحشر ہو المختار وأدرج في خرقۃ ودفن ولم یصل علیہ‘‘(۲)
’’ولا خلاف في غسلہ ومالم یتم وفیہ خلاف والمختار أنہ یغسل ویلف في خرقۃ ولا یصلی علیہ‘‘ (۳)
’’وأما السقط الذي لا یتم أعضاؤہ ففي غسلہ اختلاف المشایخ والمختار أنہ یغسل ویلف في خرقۃ، ولم یصل علیہ باتفاق الروایات ومذہب علمائنا رحمہم اللّٰہ في السقط الذي استبان بعض خلقہ أنہ یحشر وہو قول الشعبي وابن سیرین‘‘ (۴)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الحیض، مطلب في أحوال السقط وأحکامہ‘‘: ج ۱، ص: ۵۰۰، ۵۰۱۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ‘‘: ج ۳، ص: ۱۳۱۔
(۳) أیضاً۔
(۴) عالم بن العلاء، الفتاویٰ التاتار خانیۃ : ج ۳، ص: ۱۱۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص402