Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: بلندی کی کم سے کم حد کے بارے میں فقہاء کا اختلاف ہے اس سے متعلق جو احادیث آئی ہیں ان میں اس بات کی تصریح نہیں ہے، ابو داؤد میں روایت ہے کہ عمار بن یاسر رضی اللہ نماز پڑھانے کے لیے آگے پڑھے، تو اونچی جگہ پر کھڑے ہوئے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے ہاتھ پکڑ کر کھینچ لیا اور فرمایا کہ آپ کو معلوم نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے امام کو اونچی جگہ کھڑے ہونے سے منع فرمایا ہے، چوں کہ اس کی کوئی مقدار مقررہ حدیث میں نہیں ہے؛ اس
لیے اختلاف ہونا بھی لازمی ہے اس میں دو قول معتبر سمجھے گئے ہیں۔
(۱) ایک ذراع یعنی ایک ہاتھ کی مقدار بلندی ممنوع ومکروہ ہے اس سے کم مکروہ نہیں دلیل یہ ہے کہ نمازی کے لیے سترہ کی بلندی کی مقدار کم از کم ایک ذراع ہے یعنی ایک ہاتھ کے برابر ہے اس پر قیاس کر کے امام کی جگہ کی بلندی کی مقدار بھی یہی ہوگی کہ ایک ذراع کے برابر مکروہ ہوگی اور اس سے کم میں کوئی کراہت نہیں ہوگی۔
(۲) اتنی بلندی پر کھڑا ہونا مکروہ ہے کہ نمایاں طور پر امام مقتدیوں سے ممتاز اور الگ معلوم ہوتا ہو، دلیل یہ ہے کہ احادیث میں مطلق بلندی ممنوع ہے؛ لہٰذا جتنی بلند جگہ پر امام مقتدیوں سے جدا اور نمایاں معلوم ہوتا ہو اتنی بلندی مکروہ ہونی چاہیے، اور جیسے یہ بلندی بڑھتی چلی جائے گی کراہت میں زیادتی ہوتی جائے گی۔
لیکن اس کی مقدار کتنی ہونی چاہیے کہ اس پر امام کھڑا ہوکر نمایاں اور ممتاز معلوم نہ ہو اور معمولی سی بلندی تو قریب قریب ہر جگہ ہی ہوتی ہے؛ اس لیے اس سے پرہیز ممکن نہیں ہے؛ اس لیے چھ سات انچ کی بلندی تو مکروہ ہوگی اور اس سے کم بلندی باعث کراہت نہ ہوگی یہ بظاہر معلوم ہوتا ہے۔(۱)
(۱) عن عدي بن ثابت الأنصاري، حدثني رجل، أنہ کان مع عمار بن یاسر بالمدائن فأقیمت الصلاۃ فتقدم عمار وقام علی دکان یصلي والناس أسفل منہ، فتقدم حذیفۃ فأخذ علی یدیہ فاتبعہ عمار، حتی أنزلہ حذیفۃ فلما فرغ عمار من صلاتہ قال لہ حذیفۃ: ألم تسمع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: إذا أم الرجل القوم فلا یقم في مکان أرفع من مقامہم أو نحو ذلک؟ قال عمار: لذلک اتبعتک حین أخذت علی یدي۔ (أخرجہ أبو داؤد، في سننہ، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمام یقوم مکانا أرفع من مکان القوم‘‘: ج ۱، ص: ۹۸، رقم: ۵۹۸)
فالحاصل أن التصحیح قد اختلف والأولی العمل بظاہر الروایۃ وإطلاق الحدیث وأما عکسہ وہو انفراد القوم علی الدکان بأن یکون الإمام أسفل فہو مکروہ أیضا في ظاہر الروایۃ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمامۃ، تغمیض عینہ في الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص438
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: اذان عصر کے بعد فرائض کے ادا کرنے سے پہلے عصر کی سنت مستحبہ اور دیگر نوافل ادا کرسکتے ہیں۔(۲)
(۲) ویجوز التطوع قبل العصر۔ (فخر الدین حسن بن منصور، فتاویٰ قاضي خان: کتاب الصلاۃ، باب الأذان، ج ۱، ص: ۴۹، زکریا دیوبند)
ویستحب أیضاً عند نا تاخیر العصر في کل الأزمنۃ إلا یوم الغیم ما لم تتغیر الشمس، وذلک لیتوسع وقت النوافل، إذا التنفل بعد أداء ہا مکروہ۔ (إبراہیم الحلبي، حلبي کبیري: ص: ۲۰۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص77
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز وہاں بھی فرض ہے اور بلا وجہ شرعی اس کو ترک کرنا گناہ ہے؛(۲) اس لیے پردہ کے اہتمام کے ساتھ کھیت میںہی نماز اداء کریں اور کھیت میں نماز کا کوئی علاحدہ طریقہ نہیں ہے جس طرح گھر میں نماز پڑھتی ہیں اسی طرح کھیت میں نماز پڑھیں گی بس پردہ کا خیال رکھنا چاہئے۔(۳)
(۲) {فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ ہلا۴ الَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ صَلَا تِہِمْ سَاھُوْنَہلا۵ } (سورۃ الماعون: ۴،۵)
من ترک الصلوٰۃ متعمداً فقد کفر جہاراً۔ (أخرجہ الطبراني في المعجم الأوسط، ’’من اسمہ جعفر‘‘: ج ۳، ص: ۳۴۳، رقم: ۳۳۴۸)(شاملہ)
(۳){وَحَیْثُ مَا کُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ شَطْرَہٗط} (سورۃ البقرہ: ۱۴۴)
عن جابر بن عبد اللّٰہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: جعلت لي الأرض مسجداً وطہوراً أینما أدرک رجل من أمتي الصلاۃ صلی۔ (أخرجہ النسائي، ’’کتاب المساجد: الرخصۃ في ذلک‘‘: ج۱، ص: ۸۵، رقم: ۷۳۶)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص349
اسلامی عقائد
Ref. No. 2789/45-4362
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ گاڑھا سرخ جو زنانہ لباس کے طور پر مستعمل ہے اس کا استعمال مردوں کے لئے مکروہ تنزیہی ہے اور یہ کراہت صرف لباس کی حدتک ہے، لہٰذا دوسرے کاموں میں جیسے خطاطی وغیرہ کے لئے سرخ کپڑا استعمال کرنابلا کراہت درست ہے، بعض مربتہ موقع ومحل کے اعتبار سے غیروں کی مشابہت ہو جائے تو سرخ کپڑا استعمال کرنے سے بچنا چاہئے۔
وليس المعصفر والمزعفر والاحمر مفاده أن الكراهة تنزيهية لكن صرح في التحفة بالحرمة فادانها تحريمية‘‘ (الدر المحتار مع رد المحتار: ج 9،ص: 515)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
مساجد و مدارس
Ref. No. 997 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: مذکورہ مسئلہ درست ہے، مفتی صاحب نے صحیح فرمایا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 40/802
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قرآن کریم میں سورہ مائدہ آیت نمبر چھ میں وضو کے فرائض بیان کئے گئے ہیں۔وضو میں چار چیزیں فرض ہیں (1) چہرہ دھونا یعنی پیشانی کے بالوں سے ٹھوڑی کے نیچے تک اور ایک کان کے لَو سے دوسرے کان کے لَو تک پورا چہرہ دھونا۔ (2) دونوں ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھونا۔(3) سرکا مسح یعنی چوتھائی سر کا مسح کرنا۔ (4) دونوں پیر ٹخنوں سمیت دھونا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Usury / Insurance
Ref. No. 41/951
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
The interest money received from government banks may be used in paying the income tax to government.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
اسلامی عقائد
Ref. No. 1528/43-1128
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس طرح کے جملوں سے آپ کی کیا مراد ہے؟ آپ خود ہی اس کی وضاحت کرکے دوبارہ معلوم کرلیں۔
إذا كان في المسألة وجوه توجب الكفر، ووجه واحد يمنع، فعلى المفتي أن يميل إلى ذلك الوجه كذا في الخلاصة في البزازية إلا إذا صرح بإرادة توجب الكفر، فلا ينفعه التأويل حينئذ كذا في البحر الرائق، ثم إن كانت نية القائل الوجه الذي يمنع التكفير، فهو مسلم، وإن كانت نيته الوجه الذي يوجب التكفير لا تنفعه فتوى المفتي، ويؤمر بالتوبة والرجوع عن ذلك وبتجديد النكاح بينه وبين امرأته كذا في المحيط. (الفتاوی الھندیۃ، مطلب فی موجبات الکفر، انواع منھا مایتعلق 2/282)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 2301/44-3458
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ جرمانہ چونکہ سرکار کی طرف سے ہے، اور سرکاری بینک کا سود بھی سرکار کا ہے، اور سودی رقم میں اصل یہ ہے کہ جس کا پیسہ ہو اسی کو واپس کردیاجائے چاہے کسی طرح بھی واپس کیاجائے۔ اس لئے مذکورہ جرمانہ میں سرکاری بینک کا سود دے سکتے ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:جو شخص ایسا عقیدہ رکھتا ہو اور ائمہ دین خصوصاً امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو مذکورہ الفاظ سے تعبیر کرتا ہو یا کسی صحابی کی توہین کرتا ہو، تو وہ شخص مبتدع فاسق اور مستحق تعزیر ہے ’’عزّر کل مرتکب منکر أو موذي مسلم بغیر حق بقول أو فعل‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، الدر الختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحدود: باب التعزیر، مطلب: التعزیر قد یکون بدون معصیۃ‘‘: ج ۶، ص: ۱۱۳۔
ویخاف علیہ الکفر إذا شتم عالماً أو فقیہا من غیر سبب۔ (جماعۃ من علماء الہند، التفاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجباب الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بالعلم والعلماء‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۲)
ومن بغض عالماً من غیر سبب ظاہر خیف علیہ الکفر۔ (إبراہیم بن محمد، ……مجمع الأنہر في شرح ملتقی الأبحر، ’’کتاب السیر والجہاد: باب المرتد، ثم إن ألفاظ الکفر أنواع‘‘: ۲، ص: ۵۰۹)
وسب أحد من الصحابۃ وبغضہ لا یکون کفراً، لکن یضل الخ، وذکر في فتح القدیر أن الخوارج الذین یستحلون دماء المسلمین وأموالہم ویکفرون الصحابۃ حکمہم عند جمہور الفقہاء وأہل الحدیث حکم البغاۃ، وذہب بعض أہل الحدیث إلی أنہم مرتدون۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب مہم: في حکم سب الشیخین‘‘: ج ۶، ص: ۳۷۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص279