Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر اس اجلاس کو اسی متعینہ تاریخ میں لازم سمجھ کر نہ کیا جائے تو یہ بدعت نہیں ہوگا اور بدعت کی تعریف اس پر صادق نہ آئے گی، اس میں اتنا تغیر کرلینا سنت شریعت کے موافق ہوگا کہ اسی ۹؍ ربیع الاول کو لازم نہ سمجھا جائے، گاہے گاہے اس تاریخ کے علاوہ دوسری تاریخوں میں اجلاس کرلیا جائے کہ کسی سال میں ۸؍ کو کسی میں ۷؍ کو وغیرہ۔(۱) لیکن اس کو لازم سمجھ کر عمل کرنا بدعت اور واجب الترک ہے۔ انتظامی طور پر کوئی تاریخ مقرر کئے رکھنا درست ہے، سنت سمجھ کر درست نہیں ہے، اسی طرح کوئی ایسی تاریخ طے کئے رکھنا بھی درست نہیں ہے جسے لوگ سنت کی حیثیت دینے لگیں جب کہ وہ سنت نہ ہو۔(۲)
(۱) لا بأس بالجلوس للوعظ إذا أراد بہ وجہ اللّٰہ تعالیٰ کذا في الوجیز۔ …(جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب الخامس في آداب المسجد والقبلۃ‘‘: ج ۵، ص: ۳۱۹)
(۲) ومن جملۃ ما أحدثوہ من البدع مع اعتقادہم أن ذلک من أکبر العبادات وأظہر الشعائر ما یفعلونہ في شہر ربیع الأول من المولد وقد احتوی علی بدع ومحرمات جملۃ۔ (موسوعۃ الرد علی الصوفیۃ، ’’البدع الحولیۃ‘‘: ج ۲۲، ص: ۱۹۳)
عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص482
قرآن کریم اور تفسیر
الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن کریم پڑھتے اورپڑھاتے وقت ابتداء میں تلاوت شروع کرتے ہوئے تعوذ اور ’’بسم اللّٰہ‘‘ پڑھنا سنت ہے: جیسا کہ معارف القرآن میں حضرت مفتی شفیع عثمانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے تحریر فرمایا: تلاوت قرآن کے علاوہ کسی دوسرے کلام یا کتاب پڑھنے سے پہلے ’’أعوذ باللّٰہ‘‘ پڑھنا سنت نہیں ہے وہاں صرف ’’بسم اللّٰہ‘‘ پڑھنی چاہئے۔(۲)
مفسر کے درسِ قرآن کا مقصد قرأت قرآن کریم نہیں ہے؛ اس لئے ابتداء میں ’’بسم اللّٰہ‘‘ پڑھ لینا کافی ہے جیسا کہ علامہ ابن عابدینؒ نے لکھا ہے:
’’وحاصلہ أنہ إذا أراد أن یأتي بشيء من القرآن کالبسملۃ والحمدلۃ، فإن قصد بہ القراء ۃ تعوذ قبلہ وإلا فلا، وکما لو أتی بالبسملۃ في افتتاح الکلام کالتلمیذ حین یبسمل في أول درسہ للعلم فلا یتعوذ، وکما لو قصد بالحمدلۃ الشکر، وکذا إذا تکلم بغیر ما ہو من القرآن فلا یسن التعوذ بالأولیٰ‘‘(۱)
فتاویٰ عالمگیر میں ہے:
’’إذا أراد أن یقول بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم، فإن أراد افتتاح أمر لا یتعوذ، وإن أراد قراء ۃ القرآن یتعوذ، کذا فی السراجیۃ‘‘(۲)
قرأت کا ارادہ ہو تو ’’أعوذ باللّٰہ‘‘ اور ’’بسم اللّٰہ‘‘ دونوں پڑھنا چاہئے اور اگر قرأت کا ارادہ نہ ہو؛ بلکہ درس وتدریس یا تفسیر کا ہو تو تعوذ پڑھنا بھی کوئی ضروری نہیں ہے
’’قال العلامۃ آلوسي رحمہ اللّٰہ: {فَإِذا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّہِ} أي إذا أردت قراء ۃ القرآن فاسألہ عز جارہ أن یعیذک مِنَ وساوس الشَّیْطانِ الرَّجِیمِ کی لا یوسوسک في القراء ۃ‘‘(۳)
(۲) مفتي شفیع عثمانيؒ، معارف القرآن، ’’سورۃ النحل: ۸۹‘‘: ج ۵، ص: ۳۸۹۔
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: فروع قرأ بالفارسیۃ أو التوراۃ أو الإنجیل‘‘: ج ۱، ص: ۴۸۹۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الرابع: في الصلوٰۃ والتسبیح وقراء ۃ القرآن‘‘: ج ۵، ص: ۳۶۵۔
(۳) علامہ آلوسي، روح المعاني، ’’سورۃ النحل: ۹۸‘‘: ج ۸، ص: ۳۳۷۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص68
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس عمل سے غسل واجب نہیں ہو تا۔
’’(و) لا عند (إدخال إصبع ونحوہ) کذکر غیر آدمي وذکر خنثی ومیت وصبي لا یشتہي وما یصنع من نحو خشب (في الدبر أو القبل) علی المختار۔ (الدر المختار) وفي رد المحتار: (قولہ: علی المختار) قال في التجنیس: رجل أدخل إصبعہ في دبرہ وہو صائم اختلف في وجوب الغسل والقضاء۔ والمختار أنہ لا یجب الغسل ولا القضاء؛ لأن الإصبع لیس آلۃ للجماع فصار بمنزلۃ الخشبۃ ذکرہ في الصوم، وقید بالدبر؛ لأن المختار وجوب الغسل في القبل إذا قصدت الاستمتاع؛ لأن الشہوۃ فیہن غالبۃ فیقام السبب مقام المسبب دون الدبر لعدمہا نوح آفندي‘‘(۱)
’’منہا إدخال أصبع ونحوہ کشبہ ذکر مصنوع من نحو جلد في أحد السبیلین علی المختار لقصور الشہوۃ‘‘(۲)
’’(ولا) عند (إدخال أصبع ونحوہ في الدبر ووطء بہیمۃ بلا إنزال) لقلۃ الرغبۃ کما مر‘‘(۳)
’’رجل أدخل اصبعہ في دبرہ وہو صائم الختلفوا في وجوب الغسل والقضاء والمختار إنہ لا یجب الغسل ولا القضاء لأن الأصبع لیس آلۃ للجماع فصار بمنزلۃ الخشبۃ‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، الدر المختارمع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب في تحریر الصاع والمد والرطل‘‘: ج ۱، ۳۰۴۔
(۲) الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الطہارۃ: عشرۃ أشیاء لا یغتسل منہا‘‘: ص: ۱۰۱۔
(۳)علي حیدر، درر الحکام شرح مجلۃ الأحکام، ’’موجبات الغسل‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۔(مکتبہ شاملہ)
(۱) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۱۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص326
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: جو عالم ماہر ہو، مگربلا عذر تارک جماعت ہو، تو وہ فاسق ہے، اس کی امامت مکروہ ہے، ناظرہ خواں امامت کے لیے بہتر ہے، کیوں کہ فاسق اگرچہ کتنا ہی بڑا عالم ہو امامت اس کی مکروہ ہے ، تاہم بلا تحقیق کسی عالم پر الزام نہ لگایا جائے۔(۲)
(۲) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إن سرکم أن تقبل صلاتکم فلیؤمکم علماء کم فإنہم وفدکم فیما بینکم وبین ربکم في روایۃ فلیؤمکم خیارکم۔۔۔۔۔۔ ولذا کرہ إمامۃ الفاسق العالم لعدم اہتمامہ بالدین فتجب إہانتہ شرعا فلا یعظم یتفرعہ للإمامۃ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۱، ۳۰۲، شیخ الہند دیوبند)
وأما الفاسق وقد عللوا کراہۃ تقدیمہ بأنہ لایہتم لأمر دینہ وبأن في تقدیمہ للإمامۃ تعظیمہ وقد وجب علیہم إہانتہ شرعًا، ولا یخفی أنہ إذا کان أعلم من غیرہ لاتزول العلۃ۔ (الحصکفي، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۹، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص117
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ناسور اگر ہر وقت بہتا ہے، تو وہ معذور ہے۔(۲)
(۲)تتوضأ المستحاضۃ ومن بہ عذر کسلس بول أو استطلاق بطن و انفلات ریح و رعاف دائم و جرح لا یرقأ … یتوضؤن لوقت کل فرض۔ (الشرنبلالي، نورالإیضاح مع المراقي والطحطاوي، ’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض والنفاس والاستحاضۃ‘‘ ج۱، ص:۱۴۹) ؛ ولا یصیر معذوراً حتی یستوعبہ العذر وقتا کاملاً لیس فیہ انقطاع بقدر الوضوء والصلاۃ، إذ لو وجد، لا یکون معذوراً۔ (أیضاً، ص:۱۵۰)؛ و صاحب عذر من بہ سلس … إن استوعب عذرہ تمام وقت صلاۃ مفروضۃ بأن لا یجد في جمیع وقتھا زمنا یتوضأ و یصلّي فیہ خالیا عن الحدث۔ (ردالمحتار علی الدر المختار،’’ کتاب الطہارۃ، باب الحیض، مطلب في أحکام المعذور‘‘ ج۱،ص:۵۰۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص411
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: ان بعض مقتدیوں کے قول پر توجہ نہ دیجئے مذکورہ امام کے پیچھے نماز صحیح ادا ہوجاتی ہے۔(۱)
(۱) وشروط صحۃ الإمامۃ للرجال الأصحاء ستۃ أشیاء: الإسلام، والبلوغ، والعقل، والذکورۃ، والقراء ۃ، والسلامۃ من الأعذار کالرعاف والفأفأۃ والتمتمۃ واللثغ، وفقد شرط کطہارۃ وستر عورۃ۔ (الشرنبلالي، نور الإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ص: ۷۸، ۷۷، مکتبہ عکاظ دیوبند)
لقولہ علیہ السلام: صلوا خلف کل برو فاجر الخ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۳، شیخ الہند دیوبند)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص318
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق:احتیاطاً پندرہ بیس منٹ پر عمل کرنا چاہئے؛ کیوں کہ طلوع آفتاب پورے طور ہو جانے کے بعد اشراق کا وقت شروع ہوجاتا ہے۔
’’قال العلامۃ سراج أحمد في شرح الترمذي لہ إن المتعارف في أول النہار صلاتان الأولی بعد طلوع الشمس وارتفاعہا قدر رمح أو رمحین، ویقال لہا صلاۃ الإشراق، والثانیۃ عند ارتفاع الشمس قدر ربع النہار إلی ما قبل الزوال ویقال لہا صلاۃ الضحیٰ واسم الضحیٰ في کثیر من الأحادیث شامل لکلیہما و قد ورد في بعضہا لفظ الإشراق أیضاً‘‘(۱)
’’عن أنس رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من صلیٰ الفجر في جماعۃ ثم قعد یذکر اللّٰہ تعالیٰ حتی تطلع الشمس ثم صلی رکعتین کانت لہ کأجر حجۃ وعمرۃ قال: قال رسول للّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم تامۃ تامۃ تامۃ‘‘(۲)
’’عن أبي الدرداء وأبي ذر رضي اللّٰہ عنہما قالا: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: عن اللّٰہ تبارک وتعالیٰ أنہ قال یا ابن آدم لاتعجزنی في من أربع رکعات من أول النہار اکفک آخرہ‘‘(۳)
(۱) ظفر أحمد العثماني، إعلاء السنن، کتاب الصلاۃ: ج ۷، ص: ۲۴۔
(۲) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’باب ما ذکر مما یستحب من الجلوس في المسجد بعد صلاۃ الصبح حتی تطلع الشمس‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۰، رقم: ۵۸۶، مکتبہ: نعیمیہ، دیوبند۔
(۳) البغوی، مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الصلوۃ، باب صلوٰۃ الضحیٰ، الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۵، ۱۱۶، رقم: ۱۳۱۳۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص91
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت بھی قواعد کے لحاظ سے صحیح ہے، اس میں کوئی مضائقہ نہیںہے۔ اقامت کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ ایک سانس میں چار مرتبہ ’’اللّٰہ أکبر‘‘ کہا جائے اور ہر ’’اللّٰہ أکبر‘‘ کی راء پر سکون کیا جائے اور اگر ملا کرپڑھیں تو راء پر حرکت ظاہرکی جائے ’’حي علی الصلوٰۃ اور حي علی الفلاح‘‘ دونوں ایک سانس میں دو دو بار پڑھیں، آخر حرف کو ساکن پڑھیں۔
’’وحاصلہا أن السنۃ لیسکن الراء من اللّٰہ أکبر الأولیٰ أو یصلہا باللّٰہ أکبر الثانیۃ، فإن سکتہا کفی وإن وصلہا نوی السکون فحرک الراء بالفتحۃ‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: مطلب في الکلام علی حدیث الأذان جزم، ج ۲، ص: ۵۲، زکریا دیوبند۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص212
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: مسبوق کے لیے سجدہ سہو کے احکام بیان کرتے ہوئے علامہ کاسانیؒ نے بدائع الصنائع میں درج ذیل وضاحتیں کی ہیں:
مسبوق (جس مقتدی کی ایک، دو یا تین رکعت چھوٹ گئی ہو) سجدہ سہو میں امام کی متابعت یعنی پیروی کرے گا، سلام پھیرنے میں امام کی پیروی نہ کرے؛ بلکہ مسبوق امام کا انتظار کرے کہ وہ سلام پھیر کر سجدہ سہو کرے تو مسبوق بھی سجدہ سہو کرے۔ اور سجدہ سہو میں امام کی متابعت اور پیروی کرے۔ آخری سلام پھیرنے میں مسبوق امام کی متابعت ہرگز نہ کرے۔ اور اگر سلام پھیرنے میں جان بوجھ کر امام کی پیروی کی تو اس صورت میں مقتدی کی نماز فاسد ہو جائے گی یعنی ٹوٹ جائے گی؛ لیکن بھول کر پیروی کی تو نماز فاسد نہیں ہو گی اور مسبوق پر سجدہ سہو بھی نہیں ہوگا، کیوں کہ وہ مقتدی ہے اور مقتدی کا سہو باطل ہوتا ہے۔ اور جب امام آخری سلام پھیرے تو مسبوق امام کے ساتھ سلام نہ پھیرے؛ اس لیے کہ امام کا سلام نماز سے باہر آنے کے لیے ہے اور مسبوق پر ابھی ارکانِ نماز باقی ہیں۔
’’ثم المسبوق إنما یتابع الإمام في السہو دون السلام، بل ینتظر الإمام حتی یسلم فیسجد فیتابعہ في سجود السہو، لا في سلامہ، وإن سلم فإن کان عامدا تفسد صلاتہ، وإن کان ساہیا لا تفسد ولا سہو علیہ لأنہ مقتد، وسہو المقتدی باطل، فإذا سجد الإمام للسہو یتابعہ في السجود ویتابعہ في التشہد، ولا یسلم إذا سلم الإمام لأن السلام للخروج عن الصلاۃ وقد بقي علیہ أرکان الصلاۃ‘‘(۱)
خلاصہ: مذکورہ عبارتوں کی روشنی میں یہ واضح ہو جاتی ہے کہ مسبوق امام کے ساتھ سلام نہیں پھیرے گا، اور اگر مسبوق نے امام کے ساتھ جان بوجھ کر سلام پھیر لیا تو اس صورت میں مسبوق کی نماز ٹوٹ جائے گی؛ البتہ اگر مسبوق بھول کر امام کے ساتھ سلام پھیرا ہے، تو اس کی نماز درست ہو جائے گی اور مسبوق پر سجدہ سہو بھی لازم نہیں آئے گا، نیز مسبوق ہر حال میں امام کے ساتھ سجدہ سہو کرے گا خواہ امام کی وہ بھول مسبوق کے نماز میں شامل ہونے سے پہلے یا بعد میں ہوئی ہو، مسبوق پر امام کے ساتھ سجدہ سہو کرنا ضروری ہے، اگر مسبوق سجدہ سہو نہ کیا تو نماز فاسد ہو جائے گی اور اعادہ ضروری ہوگا۔
(۱) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: بیان من یجب علیہ سجود السہو و من لا یجب علیہ‘‘: ج ۱، ص:۴۲۲( دارالکتاب، دیوبند)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص50
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس طرح محراب میں کھڑا ہونا کہ پیر بھی باہر نہ ہوں مکروہ ہے اور اگر ایڑیاں باہر ہوں تو کوئی کراہت نہیں نماز بہر صورت ادا ہوجاتی ہے۔(۱)
(۱) وقیام الإمام في المحراب لاسجودہ فیہ وقدماہ خارجہ لأن العبرۃ للقدم۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ج۲، ص: ۴۱۴)
ویکرہ قیام الإمام وحدہ في الطاق وہو المحراب، ولا یکرہ سجودہ فیہ إذا کان قائماً خارج المحراب۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب السابع، الفصل الثاني فیما یکرہ في الصلاۃ وما لایکرہ‘‘: ج ۱، ص:۱۶۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص173