Frequently Asked Questions
احکام سفر
Ref. No. 955
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: بشرط صحت سوال یہ طالب علم پورے ہفتہ مسافر کی حالت میں رہے گا، اور نماز قصر کرے گا۔ اس نے مدرسہ میں آتے جاتے رہنے کی نیت کی ہے، پورے سال ایک ہی سفر میں ٹھہرنے کی نیت نہیں ہے اس لئے جب تک ١٥ /دن یا اس سے زیادہ کی نیت سے نہیں ٹھہرے گا وہ قصر ہی کرتا رہے گا۔ واللہ اعلم بالصوا ب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 40/00
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قمیص کا بٹن کھول کر نماز پڑھنا یا کہنی کھول کر نماز پڑھنا مکرہ ہے۔ یہ عام آداب مجلس کے خلاف ہے تو احکم الحاکمین کے سامنے زیادہ مودب ہونے کی ضرورت ہے۔ خلاف وضع صورت اختیار کونے کو علماء نے اس وجہ سے مکروہ قرار دیا ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Death / Inheritance & Will
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
The answer given by your Mufti Friend is correct. In the above mentioned case, Hiba is complete and the condition imposed by Zakariya is invalid. وصح العمری للمعمر حال حیٰوتہ ولورثتہ بعدہ وھی ان یجعل دارہ لہ عمرہ فاذامات ترد علیہ (وبطل فی الشریعۃ الشرط ای شرط الرد علی المعمر او ورثتہ) کنز الدقائق ص 356۔
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
نکاح و شادی
Ref. No. 41/1091
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عورت مسلمان ہو کر کسی مسلمان سے شادی کرنا چاہتی ہے، اس کے لئے مسلمان ہونے کے بعد تین حیض گزار لے اور پھر نکاح کرے تو نکاح درست ہوجائے گا۔ اسلام لانے کے بعد تین حیض گزرنے سےخود بخود نکاح ختم ہوجائے گا۔
إلا أن ملك النكاح قبل الدخول غير متأكد فينقطع بنفس الإسلام، وبعده متأكد فيتأجل إلى انقضاء ثلاث حيض كما في الطلاق. .( فتح القدیر 3/419)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 957/41-101 B
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ وسوسہ حدیث النفس کو کہتے ہیں۔ الوسوسۃ حدیث النفس یقال وسوست الی نفسہ ای حدثتہ حدیثا واصلھا الصوت الخفی ومنھا الوسواس للصوت الجلی (تفسیر حقانی 5/34 تفسیر سورۃ الناس آیت 4)۔ آپ کو کس طرح کے وسوسے آتے ہیں آپ نے اس کی تفصیل بیان نہیں کی ہے، تاہم وساوس سے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
عن ابی هريرة قال: جاء ناس من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم الی النبی ﷺ فسألوه: إنا نجد في أنفسنا ما يتعاظم أحدنا أن يتكلم به. قال: " وقد وجدتموه؟ " قالوا: نعم، قال: " ذاك صريح الإيمان " (مشکوۃ ص87 باب الوسوسۃ)۔
حدیث میں ہے کہ جب تک ان وساوس کو زبان پر نہ لایاجائے ، ان پر عمل نہ کیا جائے تب تک گرفت نہ ہوگی۔ (البخاری 2528- مسلم 127، 331)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 1066/41-227
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم :۔ ان صاحب نے آپ کو غلط مسئلہ بتایا اور آپ کا عمل صحیح ہے ، عصر سے پہلے چار رکعت یا دورکعت پڑھنا سنت غیر موکدہ ہے ، فقہاء ا حناف نے اس کو مستحب نمازوں میں شامل کیا ہے اور احادیث سے اس کا ثبوت بھی ملتا ہے۔ علامہ ابن الہمام نے فتح القدیر میں روایات کا تذکرہ کیا ہے ۔
أخرج أبو داود وأحمد وابن خزيمة وابن حبان في صحيحيهما والترمذي عن ابن عمر - رضي الله عنهما - قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - «رحم الله امرأ صلى قبل العصر أربعا» قال الترمذي: حسن غريب. وأخرج أبو داود عن عاصم بن ضمرة عن علي - رضي الله عنه - «أن النبي - صلى الله عليه وسلم - كان يصلي قبل العصر ركعتين» ورواه الترمذي وأحمد فقالا أربعا بدل ركعتين ( فتح القدیر باب النوافل ، 1/442)(قوله ويستحب أربع قبل العصر) لم يجعل للعصر سنة راتبة لأنه لم يذكر في حديث عائشة المار بحر قال في الإمداد وخير محمد بن الحسن والقدوري المصلي بين أن يصلي أربعا أو ركعتين قبل العصر لاختلاف الآثار ( رد المحتار ، باب الوتر و النوافل 2/13)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 1161/42-396
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ (1) معاملہ کی جو صورت آپ نے بیان کی ہے یہ مضاربت کی صورت ہے جو شرعا جائز ہے۔ (2) تجارت کے ڈوب جانے کے بعد شراکت کا معاملہ ختم ہوگیا، اب جو رقم آپ ان کو دے رہے ہیں چونکہ یہ رقم بلا کسی شرط کے ہے اس لئے یہ آپ کی طرف سے ہدیہ ہے اور آپ کے لئے ایسا کرنا شرعا مستحسن ہے (3) اگر آپ ہدیہ کے طور پر ان کے دو لاکھ واپس کرتے ہیں تو شرعا اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 1275/42-631
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ان منڈیوں میں ہماری معلومات کے مطابق جو آڈت لکھتاہے وہ ان جانوروں کی ذمہ داری بھی لیتاہے، اور ان کی تفصیل اپنے رجسٹر میں درج کرتا ہے، قطع نظر اس سے کہ اس کو کون بیچ رہاہے، اس لئے جس جانور کو مالک نے بیچا اس کی انٹری بھی آڈت والا ہی کرتا ہے اس لئےاس کا ایک ہزار فی جانور اپنی سروس چارج کے طور پر لینا درست ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 1394/42-809
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔مذکورہ الفاظ کے ساتھ اپنی مملوکہ چیز عطیہ کرنا وھبہ کرنا درست ہے اور جس شخص کو ان دونوں بھائیوں نے زمین ہبہ کردی ، موھوب لہ اس کا مالک ہوگیا، اس میں وراثت جاری ہوگی اور موہوب لہ کی اولاد کو اس میں شرعی طور پر وراثت کی تقسیم کرلینی چاہئے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 1517/43-1022
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ فجر کی سنت گھر پر ہی پڑھ لیں تو زیادہ بہتر ہے، البتہ اگر مسجد میں ہیں تو صف سے ہٹ کر سنت پڑھیں اور اگر ایک ہی صف کی جگہ ہے، اس کے علاوہ کوئی جگہ نہیں ہے تو اسی صف میں ایک کنارہ لوگوں سے الگ ہٹ کر سنت پڑھ کرامام کے ساتھ فرض میں شامل ہوجائیں ، اس کی گنجائش ہے۔
''وكذا يكره تطوع عند إقامة صلاة مكتوبة) أي إقامة إمام مذهبه ؛ لحديث: «إذا أقيمت الصلاة فلا صلاة إلا المكتوبة» (إلا سنة فجر إن لم يخف فوت جماعتها) ولو بإدراك تشهدها، فإن خاف تركها أصلاً۔ (قوله: إلا سنة فجر)؛ لما روى الطحاوي وغيره عن ابن مسعود: أنه دخل المسجد وأقيمت الصلاة فصلى ركعتي الفجر في المسجد إلى أسطوانة، وذلك بمحضر حذيفة وأبي موسى، ومثله عن عمر وأبي الدرداء وابن عباس وابن عمر، كما أسنده الحافظ الطحاوي في شرح الآثار، ومثله عن الحسن ومسروق والشعبي شرح المنية. (شامی 1/377)
والحاصل أن السنة في سنة الفجر أن يأتي بها في بيته، وإلا فإن كان عند باب المسجد مكان صلاها فيه، وإلا صلاها في الشتوي أو الصيفي إن كان للمسجد موضعان، وإلا فخلف الصفوف عند سارية، لكن فيما إذا كان للمسجد موضعان والإمام في أحدهما، ذكر في المحيط أنه قيل لا يكره لعدم مخالفة القوم، وقيل يكره لأنهما كمكان واحد. قال: فإذا اختلف المشايخ فيه فالأفضل أن لا يفعل. قال في النهر: وفيه إفادة أنها تنزيهية اهـ. لكن في الحلية قلت: وعدم الكراهة أوجه للآثار التي ذكرناها اهـ ثم هذا كله إذا كان الإمام في الصلاة، أما قبل الشروع فيأتي بها في أي موضع شاء كما في شرح المنية. (شامی، باب ادراک الفریضۃ 2/57)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند