Marriage (Nikah)

Ref. No. 1533/43-1049

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

To get a reward for sexual intercourse with one's wife is reported and logical too. Hadith also points to the rational argument that when indulging in an illegal sex is a sin, then having sex legally with one’s wife will certainly be rewarding. However, the Hadith mentions mere reward but being batter than Nafl is not found in a hadith.

عن أبي ذر، أن ناسا من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم قالوا للنبي صلى الله عليه وسلم: يا رسول الله، ذهب أهل الدثور بالأجور، يصلون كما نصلي، ويصومون كما نصوم، ويتصدقون بفضول أموالهم، قال: " أوليس قد جعل الله لكم ما تصدقون؟ إن بكل تسبيحة صدقة، وكل تكبيرة صدقة، وكل تحميدة صدقة، وكل تهليلة صدقة، وأمر بالمعروف صدقة، ونهي عن منكر صدقة، وفي بضع أحدكم صدقة، قالوا: يا رسول الله، أيأتي أحدنا شهوته ويكون له فيها أجر؟ قال: «أرأيتم لو وضعها في حرام أكان عليه فيها وزر؟ فكذلك إذا وضعها في الحلال كان له أجر» (صحیح مسلم، باب بیان ان اسم الصدقۃ یقع علی کل، 2/697)

ويتضمن ذلك أن الإنسان إذا فعل شيئا أصله على الإباحة وقصد به وجه الله تعالى يثاب عليه وذلك كالأكل بنية التقوي على طاعة الله تعالى والنوم للاستراحة ليقوم إلى العبادة نشيطا والاستمتاع بزوجته وجاريته ليكف نفسه وبصره ونحوهما عن الحرام وليقضي حقها وليحصل ولدا صالحا وهذا معنى قوله صلى الله عليه وسلم وفي بضع أحدكم صدقة والله أعلم (شرح النووی علی مسلم، کتاب الوصیۃ قال الزھری ھی مشتقۃ من وصیت 11/78)

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 1692/43-1335

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بیت الخلاء سے فراغت کے  بعد مٹی سے رگڑ کر ہاتھ دھونا چاہئے تاکہ بدبو باقی نہ رہے، اور صابن وغیرہ کا بھی استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ تاہم اگر  کسی نے اچھی طرح ہاتھ دھولیا کہ کوئی گندگی اور نجاست ہاتھ میں باقی نہیں رہی  تومحض  بدبو کا باقی رہ جانا مضر نہیں ہے۔ وضو کرکے  نماز درست ہوجائے گی۔

ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ ﺑﻦ ﺧﺎﻟﺪ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺳﻮﺩ ﺑﻦ ﻋﺎﻣﺮ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺷﺮﻳﻚ - ﻭﻫﺬا ﻟﻔﻈﻪ - ﺣ ﻭﺣﺪﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﻳﻌﻨﻲ اﻟﻤﺨﺮﻣﻲ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻭﻛﻴﻊ، ﻋﻦ ﺷﺮﻳﻚ، ﻋﻦ ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ ﺑﻦ ﺟﺮﻳﺮ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺯﺭﻋﺔ، ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻫﺮﻳﺮﺓ، ﻗﺎﻝ: «ﻛﺎﻥ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺇﺫا ﺃﺗﻰ اﻟﺨﻼء، ﺃﺗﻴﺘﻪ ﺑﻤﺎء ﻓﻲ ﺗﻮﺭ ﺃﻭ ﺭﻛﻮﺓ ﻓﺎﺳﺘﻨﺠﻰ»، ﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﺩاﻭﺩ: ﻓﻲ ﺣﺪﻳﺚ ﻭﻛﻴﻊ: «ﺛﻢ ﻣﺴﺢ ﻳﺪﻩ ﻋﻠﻰ اﻷﺭﺽ، ﺛﻢ ﺃﺗﻴﺘﻪ ﺑﺈﻧﺎء ﺁﺧﺮ ﻓﺘﻮﺿﺄ»، ﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﺩاﻭﺩ: ﻭﺣﺪﻳﺚ اﻷﺳﻮﺩ ﺑﻦ ﻋﺎﻣﺮ ﺃﺗﻢ۔(سنن ابی داؤد :ﺑﺎﺏ اﻟﺮﺟﻞ ﻳﺪﻟﻚ ﻳﺪﻩ ﺑﺎﻷﺭﺽ ﺇﺫا اﺳﺘﻨﺠﻰ، رقم الحدیث : 45، ط : المکتبة العصریة)

ﺛﻢ ﻣﺴﺢ ﻳﺪﻩ ﻋﻠﻰ اﻷﺭﺽ» ) : ﻋﻨﺪ ﻏﺴﻠﻬﺎ ﻹﺯاﻟﺔ اﻟﺮاﺋﺤﺔ ﻭﻫﻮ ﺳﻨﺔ، ﻗﺎﻟﻪ اﺑﻦ اﻟﻤﻠﻚ، ﻭﻛﺬا اﺑﻦ ﺣﺠﺮ ( «ﺛﻢ ﺃﺗﻴﺘﻪ ﺑﺈﻧﺎء ﺁﺧﺮ، ﻓﺘﻮﺿﺄ» ) : ﺇﺗﻴﺎﻧﻪ ﺑﺈﻧﺎء ﺁﺧﺮ ﻟﻴﺲ ﻟﻌﺪﻡ ﺟﻮاﺯ اﻟﺘﻮﺿﺆ ﺑﺎﻟﻤﺎء اﻟﺒﺎﻗﻲ ﻣﻦ اﻻﺳﺘﻨﺠﺎء، ﺑﻞ ﻟﻌﺪﻡ ﺑﻘﺎء اﻟﻤﺎء اﻟﻜﺎﻓﻲ، ﻭﻓﻴﻪ ﺇﺷﺎﺭﺓ ﺇﻟﻰ اﻻﺳﺘﻘﺼﺎء ﻓﻲ اﻻﺳﺘﻨﺠﺎء ﻣﺎ ﻟﻢ ﻳﻔﺾ ﺇﻟﻰ اﻟﻮﺳﻮاﺱ ﻓﻲ ﺃﻣﺮ اﻟﻤﺎء (مرقاة المفاتیح شرح مشکوة المصابیح ج : 1، ص : 388، ط : دارالفکر)

ويطهر متنجس بنجاسة مرئية بزوال عينها ولو بمرة على الصحيح ولا يضر بقاء أثر شق زواله (نورالایضاح، فصل فی باب الانجاس والطھارۃ عنھا 1/42) ولا یضر بقاء أثر کلون وریح الخ (الدر مع الرد: 1/537، ط: زکریا، الطہارة / الأنجاس )

و) البداءة (بغسل اليدين) الطاهرتين ثلاثًا قبل الاستنجاء وبعده، وقيد الاستيقاظ اتفاقي؛ ولذا لم يقل: قبل إدخالهما الإناء؛ لئلايتوهم اختصاص السنة بوقت الحاجة؛ لأن مفاهيم الكتب حجة۔
(قوله: قبل الاستنجاء وبعده) قال في النهر: ولا خفاء أن الابتداء كما يطلق على الحقيقي يطلق على الإضافي أيضًا، وهما سنتان لا واحدة. اهـ.
وفي النهر: الأصح الذي عليه الأكثر أنه سنة مطلقًا، لكنه عند توهم النجاسة سنة مؤكدة، كما إذا نام لا عن استنجاء أو كان على بدنه نجاسة، وغير مؤكدة عند عدم توهمها، كما إذا نام إلا عن شيء من ذلك أو لم يكن مستيقظًا عن نوم اهـ ونحوه في البحر. (شامی، ج: 1، ص: 110،ط: دارالفکر)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

عائلی مسائل

Ref. No. 1810/43-1560

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   والدین اگر اپنا خرچ خود اٹھالیتے ہوں، تو اولاد پر ان کوخرچ دینا لازم نہیں ہے۔ اور اگر خود کفیل نہیں ہیں اور اولاد میں سے کوئی ان کا پورا خرچ  اپنی خوشی سے برداشت کرتاہے اور اس میں سبقت لے جاتاہے تو وہ خوش نصیب ہے،  اس صورت میں بھی تمام اولاد سے نفقہ ساقط ہوجائے گا۔ لیکن اگر کوئی ایک  والدین کا نفقہ  دینے کے لئے تیار نہ ہو،  تو تمام اولاد پر حسب وراثت والدین کا نفقہ واجب ہوگا۔

(و)تجب (علی موسر) ولو صغیراً (یسار الفطرة) علی الأرجح……(النفقة لأصولہ)…(الفقراء) ولو قادرین علی الکسب ……(بالسویة) بین الابن والبنت إلخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطلاق، باب النفقة، ۵: ۳۵۰- ۳۵۵، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۱۰: ۶۲۷- ۶۳۴، ت: الفرفور، ط: دمشق)۔

قولہ: ”الفقراء“: قید بہ؛ لأنہ لا تجب نفقة الموسر إلا الزوجة (رد المحتار)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 1907/43-1799

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   صورت مسئولہ میں ان رشتہ داروں کے لئے تو وصیت نافذ نہیں ہوگی جن کو وراثت میں سے حصہ ملے گا، ہاں جو محروم ہورہے ہوں گے، ان کے حق میں وصیت نافذ ہوجائے گی، مثلا بیٹے کے ہوتے ہوئے پوتے محروم ہوتے ہیں تو پوتوں کے حق میں وصیت نافذ ہوگی۔ اور اگر میت کا کائی بیٹا زندہ نہ ہو صرف پوتے موجود ہوں تو پھر پوتوں کے حق میں بھی وصیت نافذ نہیں ہوگی، کیونکہ اب وہ وارث بن رہے ہیں۔ اور حدیث میں ہے:

عن ابی امامۃ قال سمعت رسول اللہ  ﷺ یقول فی خطبتہ عام حجۃ الوداع ان اللہ قد اعطی کل ذی حق حقہ فلاوصیۃ لوارث (رواہ ابو داؤد۔ مشکوۃ 1/265، باب الوصایا، نعیمیہ دیوبند)

 باق وہ رشتہ دار جو جو وصیت کے حقدار بنیں گے ان میں جو رشتہ دار درجہ اور قرابت میں میت کے زیادہ قریب ہیں وہی مستحق ہوں گے۔

الاقرب فالاقرب یرجحون بقرب الدرجۃ الخ ثم یرجحون بقوۃ القرابۃ ( السراجی فی المیراث ص22، باب العصبات، مکتبہ بلال دیوبند)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند 

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس کی کوئی اصل نہیں ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور نہ آپ کے اصحابؓ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ دین کے قول وعمل سے اس کی تائید ملتی ہے۔ اگر یہ صورت میت کے لئے مفید ہوتی، تو یہ حضرات اس سے دریغ نہ کرتے۔ لہٰذاجنازہ پر پھول کی چادر ثواب سمجھ ڈالنا مکروہ تحریمی ہے۔(۱)

(۱) حضرت شاہ اسحاق دہلوي، مسائل أربعین: ص: ۴۵۔
وفي حق النساء بالحریر والإبریسم والمعصفر والمزعفر ویکرہ للرجال ذلک۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوٰۃ: الباب الحادي والعشرون: في الجنائز، الفصل الثالث في التکفین‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۲)
وعن عمران بن حصین أن نبي اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: لا أرکب الأرجوان ولا ألبس المعصفر ولا ألبس القمیص المکفف بالحریر، وقال: ألا وطیب الرجال ریح لا لون لہ وطیب النساء لون لا ریح لہ۔ رواہ أبو داود۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب اللباس: الفصل الثاني‘‘: ج ۲، ص: ۳۷۵، رقم: ۴۳۵۴)
کل مباح یؤدي إلی زعم الجہال سیئۃ أمرا ووجوبہ فہو مکروہ۔ (تنقیح الفتاویٰ الحامدیۃ، ’’مسائل وفوائد شتیٰ من الحظر والإباحۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۳۳)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص401

قرآن کریم اور تفسیر

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن کریم چونکہ عربی زبان میں نازل ہوا ہے اور عربی زبان کے بہت سے الفاظ ایسے ہیں کہ ان کی مثال دوسری زبانوں میں نہیں ہے اور اگر ہے بھی، تو طرز ادا اور اس کی صحیح آواز اور اس کی ادائے گی میں بہت ہی زیادہ فرق ہے، مثلاً: ’’صَلِّ‘‘ کا لفظ جو اصل ہے اس کے معنی درود اور رحمت نازل فرمانے کے ہیں اور یہ لفظ اگر ’’سَلِّ‘‘ یعنی سین کی آواز کے ساتھ پڑھ دیا جائے، تو اس کے معنی ’’تلوار کھینچ تو‘‘ کے ہوجائیں گے، جیسا: کہ ہندی زبان میں ’’ص، س‘‘ میں کوئی فرق نہیں اور ایسے ہی ’’ط، ت، ۃ‘‘ میں ہندی زبان میں کوئی فرق نہیں وغیرہ۔
ایسے ہی دیگر زبانوں کا حال ہے؛ اس لیے قرآن پاک کے متن کو اصلی عربی رسم الخط اور عربی زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان میں چھا پا جائے گا تو اس سے قرآن پاک کے معنی میں فرق آجائے گا اور اس کی ادائے گی بھی صحیح نہ ہوگی؛ اس لیے قرآن پاک کے متن کو دوسری زبان میں چھاپنا جائز نہیں ہے، البتہ قرآن پاک کے ترجمہ ومطلب میں اس قسم کا تغیر نہ ہوگا، اس تبدیلی میں مقصد کچھ بھی ہو اس کی آسان صورت یہ ہے کہ غیروں کی تعلیم کے لئے قرآن پاک کے اصل متن کو عربی ہی میں چھاپا جائے اور ان کو سمجھانے کے لئے ان کی زبان میں اس کا ترجمہ، مطلب وتفسیر لکھ دی جائے، تاکہ وہ سمجھ لیں اور مسلمانوں کو عربی متن والا قرآن پاک پڑھایا جائے، کیونکہ ان کو نماز میں اور غیر نماز میں قرآن پاک اصل عبارت میں پڑھنا ہے اور مسلمان اسی کے مکلف ہیں۔ (۱)
(۱) یحرم مخالفۃ خط مصحف عثمان في واو أو یاء أو ألف أو غیر ذلک۔ (جلال الدین السیوطي، الإتقان في علوم القرآن: ج ۲، ص: ۱۶۶)     سئل مالک ہل یکتب المصحف علی ما أحدثہ الناس من الہجاء۔فقال: لا إلا علی الکتبۃ الأولی۔(جلال الدین السیوطي، الإتقان في علوم القرآن: ج ۴، ص: ۱۴۶)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص72

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سب سے پہلے حضرت سارہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی تھی۔ ان سے کوئی اولاد نہیں ہوئی تھی کہ حضرت ھاجرہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا ان سے حضرت اسماعیل علیہ السلام پیدا ہوئے ۔ اس کے بعد حضرت سارہ رضی اللہ عنہا سے بھی حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب علیہ السلام پیدا ہوئے۔(۲)
ان دونوں بیویوں کی وفات کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے قطورا بنت یقطن سے شادی کی ان سے چھ اولاد ہوئیں جن کے نام یہ ہیں:
(۱) یقشان (۲) زمران (۳) مدین (۴) مدان (۵) نشق (۶) سو۔
اور قطورا کی وفات کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حجون بنت اہیر سے شادی کی تھی۔(۱)

(۲) قیل کانت ہاجر جاریۃ ذات ہیئۃ فوہبتہا سارۃ لإبراہیم، وقالت: خذہا لعل اللّٰہ یرزقک منہا ولدا، وکانت سارۃ قد منعت الولد حتی أسنت فوقع إبراہیم علی ہاجر فولدت إسماعیل فلما ولد إسماعیل حزنت سارۃ حزنا شدیدا فوہبہا اللّٰہ إسحاق۔ (أبو الحسن الجزري، الکامل في التاریخ: ج۱، ص ۹۴)
(۱) ’’أیضاً‘‘:


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص223

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:دونوں کی دعوت ضروری ہے، دونوں میں بڑا اجر و ثواب ہے آج کے دور میں اس سے غفلت برتنا اچھا نہیں۔(۲)

(۲) وعن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ، قال أتی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم رجل یستحملہ فلم یجد عندہ ما یحلمہ فدلہ علی آخر فحملہ فأتی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم فأخبرہ، فقال: أن الدال علی الخیر کفاعلہ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب العلم، باب ما جاء أن الدال علی الخیر کفاعلہ‘‘: ج ۲، ص: ۹۵، رقم: ۲۶۷۰)
{لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ إِذْ بَعَثَ فِیْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْ أَنْفُسِہِمْ یَتْلُوْاعَلَیْھِمْ أٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیْہِمْ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَج} (سورۃ آل عمران: ۱۶۴)
{ٰٓیأَیُّھَا الْمُدَّثِّرُ ہلا ۱   قُمْ فَأَنْذِرْ  ہلاص۲    وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ  ہلاص۳    وَثِیَابَکَ فَطَھِّرْ  ہلاص۴   } (سورۃ المدثر: ۱ تا ۴)
{وَأَمَّا مَنْ أٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَہٗ جَزَآئَنِ الْحُسْنٰیج وَسَنَقُوْلُ لَہٗ مِنْ أَمْرِنَا یُسْرًاہط ۸۸} (سورۃ الکہف: ۸۸)


-------------

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص338

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:کنویں میں عورت گر کر مر گئی تو کنواں بلاشبہ ناپاک ہوگیا، عورت کے گرنے کے وقت جس قدر پانی تھا، اس کے نکالنے سے کنواں پاک ہو جائے گا، یکبارگی پانی نکالنا ضروری نہیں ہے، تھوڑا تھوڑا پانی نکالنے سے کنواں پاک ہو جاتا ہے۔(۲)

(۲) و إن ماتت فیھا شاۃ أو آدمي أو کلب نزح جمیع مافیھا من الماء؛    لأن إبن عباسؓ و إبن الزبیرؓ أفتیا بنزح الماء حین مات زنجي في بئر زمزم۔ (ہدایہ، کتاب الطہارۃ، فصل في البئر، ج۱،ص:۴۳)؛  أو موت شاۃ أو موت آدمي فیھا لنزح ماء زمزم بموت زنجي۔ (الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، کتاب الطہارۃ، فصل في مسائل  الآبار، ص:۳۶) ؛ و إن ماتت فیھا شاۃ أو آدمی أو کلب نزح جمیع مافیھا من الماء۔ ش أي ھذا حکمھا في الموت۔ (العینی، البنایۃ شرح الہدایہ، کتاب الطہارۃ، فصل في البئر، ج۱، ص:۴۵۲)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص474

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اعضاء وضو کو تین بار دھونا مسنون ہے، ایک مرتبہ دھونے سے بھی وضو درست ہوگا، اس سے نماز ادا ہو جائے گی؛ لیکن اس کو عادت نہیں بنانا چاہیے، وضو سنت طریقے پر کرنا چاہیے۔(۱)

(۱) و تثلیث الغسل المستوعب ولا عبرۃ للغرفات ولو اکتفی بمرۃ، إن اعتادہ أثم و إلا لا۔ (الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في منافع السواک،‘‘ ج۱، ص۳۹) ؛ و تکرار الغسل إلی الثلاث؛ لأن النبي علیہ الصلاۃ والسلام توضأ مرۃ، مرۃ، و قال: ھذا وضوء لا یقبل اللہ تعالیٰ الصلاۃ إلا بہ، و توضأ مرتین مرتین، و قال: ھذا وضوء من یضاعف اللّٰہ لہ الأجر مرتین، و توضأ ثلاثا ثلاثا، و قال: ھذا وضوئي و وضوء الأنبیاء من قبلي۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارات،‘‘ ج۱،ص:۳۱-۳۲)
 

فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص141