Frequently Asked Questions
متفرقات
Ref. No. 1906/43-1801
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگرچہ عرف کے اعتبار سے مالک زمین ہی ٹھیکہ کا حقدار ہوتاہے، اور ملازمت میں بھی اسی کو ترجیح دی جاتی ہے ، لیکن اگر کسی دوسرے نے اس زمین کا ٹھیکہ قانون کے مطابق لے لیا، تو مالک زمین بھی اپنے لئے اس زمین کے ٹھیکہ کا دعوی پیش کرسکتاہے، ۔ حکومت اگر مناسب سمجھے گی تو دوسرے کا ٹھیکہ منسوخ کرکے ٹھیکہ مالک زمین کے نام کردے گی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دنیا میں تشریف لاکر پینتالیس سال دنیا میں زندہ رہیں گے اور میرے مقبرے کے قریب دفن ہوں گے اور قیامت کے دن میں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام ساتھ ہی قبر سے اٹھیں گے۔
یہ حدیث علامہ ابن جوزی نے عقائد نفس میں ذکر کی ہے۔ (۲)
(۲) مشکوٰۃ المصابیح،: ج۲، ص ۴۸۰؛ وحاشیہ جلالین: ج ۱، ص ۵۲۔
عن عبد اللّٰہ بن عمرو رضي اللّٰہ عنہما، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ینزل عیسیٰ ابن مریم إلی الأرض فیتزوج ویولد لہ ویمکث خمسا وأربعین سنۃ ثم یموت فیدفن معي في قبري فأقوم أنا وعیسیٰ ابن مریم في قبر واحد بین أبي بکر وعمر، رواہ ابن الجوزي في کتاب الوفاء۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الفتن: باب نزول عیسیٰ علیہ السلام، الفصل الثالث‘‘: ج۲، ص ۴۸۰، رقم: ۵۵۰۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص223
بدعات و منکرات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:بالکل درست ہے، مگر یہ بھی واضح رہے کہ تبلیغی جماعت والے بھی سب عالم نہیں ہیں؛ اس لئے ان میں سے جو عالم ہوں اور مسائل سے واقف ہوں ان کی بات ماننی چاہئے۔(۱)
(۱) وعن ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ قال: سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: نضر اللّٰہ إمرأً سمع منا شیئاً فبلغہ کما سمعہ فرب مبلغ أوعی لہ من سامع۔ رواہ الترمذي وابن ماجہ ورواہ الدارمي عن أبي الدرداء۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب العلم: الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۳۵، رقم: ۲۳۰)
عن عروۃ بن الزبیر رضي اللّٰہ عنہ قال: قالت لي عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا: یا ابن أختي بلغني أن عبد اللّٰہ بن عمرو رضي اللّٰہ عنہ مار بنا إلی الحج فألْقَہُ فسألہ فإنہ قد حمل النبيصلی اللّٰہ علیہ وسلم علما کثیراً، قال: فلقیتہ فسألتہُ عن أشیاء یذکرہا عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ وسلم قال عروۃ: فکان فیما ذکر أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: إن اللّٰہ لا ینتزع العلم من الناس انتزاعاً، ولکن یقبض العلم بقبض العلماء فیرفع معہم ویبقی في الناس رؤساً جہالاً یفتونہم بغیر علم فیضَلون ویضِلون الخ۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب العلم: باب رفع العلم وقبضہ وظہور الجہل والفتن في آخر الزمان‘‘: ج ۲، ص: ۳۴۰، رقم: ۲۶۷۳)
--------------
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص339
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2672/45-4132
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر دیوار پر لکھی آیات پر نظر پڑی مگر وہ آیات اس کو یاد تھیں اور اس نے اپنی یادداشت سے وہ آیات پڑھیں تو نماز درست ہوجائے گی، اور اگر وہ آیات یاد نہیں تھیں اور دیوار پر دیکھ کر ہی پڑھی گئیں تو نماز فاسد ہوجائے گی۔ اور اگر نظر پڑی اور مطلب سمجھ گیا لیکن زبان سے کچھ نہیں پڑھا تو نماز درست ہوجائے گی۔ نماز میں قیام کی حالت میں نگاہ سجدہ کی جگہ ہونی چاہئے ، نماز میں ادھر ادھر دیکھنا مناسب نہیں ہے۔
"(وقراءته من مصحف) أي ما فيه قرآن (مطلقا) لأنه تعلم.
و في الرد : (قوله أي ما فيه قرآن) عممه ليشمل المحراب، فإنه إذا قرأ ما فيه فسدت في الصحيح بحر (قوله مطلقا) أي قليلا أو كثيرا، إماما أو منفردا، أميا لا يمكنه القراءة إلا منه أو لا".
(کتاب الصلاۃ، باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها، ج:1، ص:623، ط: ایچ ایم سعید)
فتاویٰ عالمگیری (الفتاوى الهندية ) میں ہے:
"ولو نظر إلى مكتوب هو قرآن وفهمه لا خلاف لأحد أنه يجوز. كذا في النهاية
وفي الجامع الصغير الحسامي لو نظر في كتاب من الفقه في صلاته وفهم لا تفسد صلاته بالإجماع. كذا في التتارخانية
إذا كان المكتوب على المحراب غير القرآن فنظر المصلي إلى ذلك وتأمل وفهم فعلى قول أبي يوسف - رحمه الله تعالى - لا تفسد وبه أخذ مشايخنا وعلى قياس قول محمد - رحمه الله تعالى - تفسد. كذا في الذخيرة والصحيح أنها لا تفسد صلاته بالإجماع. كذا في الهداية ولا فرق بين المستفهم وغيره على الصحيح. كذا في التبيين".
(کتاب الصلوۃ، الباب السابع فيما يفسد الصلاة وما يكره فيها، الفصل الأول فيما يفسدها، ج:1، ص:101، ط:مکتبہ رشیدیہ)
لو نظر المصلي إلى مكتوب وفهمه، سواء كان قرآنا أو غيره، قصد الاستفهام أو لا، أساء الأدب ولم تفسد صلاته لعدم النطق بالكلام“
وجه عدم الفساد أنہ إنما يتحقق بالقراءة،وبالنظروالفهم لم تحصل وإليه أشار المؤلف بقوله لعدم النطق۔۔۔۔قوله:(أساء الأدب)لأن فيہ إشتغالاعن الصلاةوظاهره ان الكراهة تنزيهية وهذا إنما يكون بالقصد وأمالو وقع نظره عليه من غير قصده وفهمه فلا يكره
(حاشیۃالطحطاوی علی مراقی الفلاح ،جلد01،صفحہ460)
ولم يذكروا كراهة النظر إلى المكتوب متعمدا وفي منية المصلي ما يقتضيها فإنه قال ولو أنشأ شعرا أو خطبة ولم يتكلم بلسانه لا تفسد وقد أساء وعلل الإساءة شارحها باشتغاله بما ليس من أعمال الصلاة من غير ضرورة “ (بحر الرائق ،جلد02،صفحہ25)
منہا نظر المصلی سواء کان رجلاً أو إمرأۃً إلی موضع سجودہ قائماً حفظاً لہ عن النظر إلی ما یشغلہ عن الخشوع، ونظرہ إلی ظاہر القدم راکعاً وإلی أرنبۃ أنفہ ساجداً وإلی حجرہ جالساً۔ (المراقي) ویفعل ہذا ولو کان مشاہداً للکعبۃ علی المذہب۔ (طحطاوی علی المراقی، ۱۵۱)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:اس کنویں کے پاک کرنے کی صورت یہ ہے کہ اول اس میں جو مردار جانور وغیرہ پڑے ہیں، وہ سب نکالے جائیں اور اس کا تمام پانی نکال دیا جائے، بہتر ہو اگر اس کا سارا کیچڑ بھی نکال دیا جائے، جس قدر بھی نکل سکے، پھر جو پانی اس میں آئے گا وہ پاک ہوگا، گارا نکالنا طہارت کے لیے ضروری نہیں ہے، البتہ صفائی کے لیے بہتر ہے۔(۱)
(۱) و إذا وقعت في البئر نجاسۃ نزحت، و کان نزح ما فیھا من الماء طہارۃ لھا بإجماع السلف۔ (المرغینانی، الہدایہ، کتاب الطہارۃ، فصل في البئر، ج۱،ص:۴۱)؛ و مقتضاہ ما قلنا، و کان نزح ما فیھا من الماء طھارۃ لھا، إشارۃ بھذا إلی أن البئر تطھر بمجرد النزح من غیر توقف علی غسل الحیطان و نقل الأحوال (العیني، البنایۃ، کتاب الطہارۃ، فصل في البئر، ج۱، ص:۴۳۲،۴۳۳)؛ والواقع فیھا روث أو حیوان أو قطرۃ من دم و نحوہ، و حکمھا أن تنزح البئر أي ماؤھا۔ (الطحطاوي،حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، کتاب الطہارۃ، فصل في مسائل الآبار، ص۳۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص475
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:جی ہاں! از سر نووضو کرنا ضروری ہے۔(۲)
(۲)و خروج غیر نجس مثل ریح۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطہارۃ، مطلب نواقض الوضوء، ج۱، ص:۲۶۳)؛ و المعاني الناقضۃ للوضوء کل ما یخرج من السبیلین لقولہ تعالیٰ: أو جاء أحد منکم من الغائط الخ۔ (المرغیناني، ہدایہ،’’کتاب الطہارۃ، فصل في نواقض الوضوء،‘‘ ج۱، ص:۲۲)
فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص141
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:چوںکہ آپ کا نکاح ہوچکا ہے؛ اس لیے بات کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ میسیج کے ذریعہ یا فون کے ذریعہ وہ تمام باتیں کرنے کی گنجائش ہے جو شوہر وبیوی ساتھ رہ کر کرتے ہیں؛ لیکن اگر بات کرنے کی وجہ سے کپڑے پر گیلا پن محسوس ہو، اور وہ شہوت کی زیادتی کے بعد نہ ہو، تو وہ مذی ہے جس سے غسل واجب نہیں ہوتا؛ بلکہ صرف وضو واجب ہوتاہے اور اگر شہوت وجوش کے ساتھ نکلنے والی منی ہو، تو غسل واجب ہوجائے گا اور دونوں صورت میں کپڑے اور بدن کے جس حصے میں لگا ہے وہ ناپاک ہے اسے پاک کرنا ضروری ہے۔
’’المني والمذي والودي فأما المذي والودي فإنہ یغسل ذکرہ ویتوضأ وأما المني ففیہ الغسل‘‘(۱)
’’اعلم أنہ مذي أو شک أنہ مذي أو ودي أو کان ذکرہ منتشرا قبیل النوم فلا غسل وفي رد المحتار لأن برؤیۃ المني یجب الغسل کما صرح بہ في المنیۃ وغیرہا‘‘(۲)
’’عن عبد ربہ بن موسیٰ عن أمہ أنہا سالت عائشۃ عن المذي، فقالت: إن کل فحل یمذي، وإنہ المذي والودي والمني، فأما المذي فالرجل یلاعب امرأتہ فیظہر علی ذکرہ الشيء فیغسل ذکرہ وأنثییہ ویتوضأ ولا یغتسل وأما الودي فإنہ یکون بعد البول یغسل ذکرہ وأنثییہ ویتوضأ ولا یغتسل، وأما المني فإنہ الماء
الأعظم الذي منہ الشہوۃ وفیہ الغسل‘‘(۳)
(۱) الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الطہارۃ: باب الرجل یخرج من ذکرہ المذي کیف یفعل‘‘: ج ۱، ص: ۳۹۔
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب في تحریر الصاع والمد والرطل‘‘: ج ۱، ص: ۳۰۱۔
(۳) ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في الغسل‘‘: ج ۱، ص: ۶۵۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص331
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر نماز کے پورے وقت میں فرض نماز پڑھنے کی مقدار پاکی باقی رہتی ہے، تو شرعاً آپ معذور نہیں ہیں۔ اس لیے وضو کے بعد اگر پیشاب کا قطرہ نکلا، تو وضو ٹوٹ جائے گا اور نیپکن بدل کر وضو کرکے نماز پڑھنا ضروری ہوگا۔ اگر نماز کے بعد پیشاب کا قطرہ دیکھا، تو نماز اور وضو دونوں لوٹانے ضروری ہوں گے۔ پہلی نیپکن ہو یا تیسری بہرحال آپ کو وضو کرکے نماز پڑھنی ہوگی۔ کیوںکہ آپ شرعاً معذور کے حکم میں نہیں ہیں؛ البتہ اگر وضو کے بعد فرض نماز پڑھنے کی مقدار بھی وضو نہیں رکتا اور قطرات مسلسل ٹپکتے رہتے ہیں، توآپ معذور شمار ہوں گے۔
نوٹ: شرعاً معذور وہ شخص ہے جس کوکوئی ایساعذر لاحق ہو کہ جس سے وہ باوضو نہ رہ سکتاہو۔ اگر ایک نماز کا کامل وقت ایساگذرگیا کہ وہ وضو کرکے نماز پڑھنے پر قادر نہیں ہوا،تو وہ شرعاً معذور ہے۔ اس کے بعد ہر نماز کے وقت میں ایک یا دو بار اس عذر کا پایا جانا ضروری ہے۔ جب ایسا وقت گذرجائے جس میں ایک یا دو بار بھی وہ عذر پیش نہ آئے تو معذور نہیں رہے گا۔
معذور کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ ہر نماز کے وقت ایک بار وضو کرے اور پورے وقت میں جتنی چاہے نمازیں پڑھے اگرچہ عذر مسلسل جاری رہے۔ اس عذر سے اس کے وضو میں کوئی خرابی نہیں آئے گی۔(۱)
(۱) و صاحب عذر من بہ سلس بول لا یمکنہ إمساکہ أو استطلاق بطن أوانفلات ریح أو استحاضۃ إن استوعب عذرہ تمام وقت صلاۃ مفروضۃ ولو حکماً۔ و ھذا شرط العذر في حق الابتداء و في حق البقاء کفی وجودہ في جزء من الوقت ولو مرۃ و في حق الزوال یشترط استیعاب الانقطاع تمام الوقت حقیقۃً۔ و حکمہ الوضوء لکل فرض، ثم یصلي فیہ فرضا و نفلاً۔(ابن عابدین، ردالمحتار مع الدر المختار، ’’باب الحیض، مطلب في أحکام المعذور‘‘ ج۱، ص:۵۰۴) ؛ والمستحاضۃ ومن بہ سلس بول أو استطلاق بطن، أو انفلات ریح أو رعاف دائم أو جرح لا یرقأ، یتوضئون لوقت کل صلاۃ، و یصلون بہ في الوقت ما شاؤوا من فرض و نفل۔ والمعذور من لا یمضي علیہ وقت صلاۃ إلا والعذر الذي ابتُلي بہ، یوجد فیہ۔ (ابراہیم بن محمد، ملتقی الأبحر، ’’کتاب الطہارۃ، فصل: المستحاضۃ‘‘ ج۱، ص:۸۴-۸۵) ؛ و حکمہ الوضوء لکل فرض، ثم یصلی فیہ فرضاً و نفلاً، فإذا خرج الوقت، بطل۔ (ابن عابدین، ردالمحتار مع الدر المختار ، ’’باب الحیض، مطلب في أحکام المعذور‘‘ ج ۱، ص:۵۰۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص414
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: فرض ایک امام پڑھائے اوروتر کوئی دوسرے صاحب پڑھائیں اس میں کوئی حرج نہیں ہے نمازبلا شبہ درست ہے۔(۲)
(۲) الأفضل أن یصلوا التراویح بإمام واحد فإن صلوہا بإمامین فالمستحب أن یکون انصراف کل واحد علی کمال الترویحۃ … وإذا جازت التراویح بإمامین علی ہذا الوجہ جاز أن یصلي الفریضۃ أحدہما ویصلي التراویح الآخر وقد کان عمر رضی اللّٰہ عنہ یؤمہم في الفریضۃ والوتر، وکان أبي یؤمہم في التراویح۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب التاسع في النوافل‘‘: ج۱، ص: ۱۷۶)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص321
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق:عذر کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھتا ہے تو اقامت بھی بیٹھ کر پڑھنا درست ہے اور کوئی دوسرا پڑھے تو اولیٰ اور بہتر ہے۔(۱)
(۱) ویکرہ الأذان قاعداً وإن أذن لنفسہ قاعداً فلا بأس بہ، والمسافر إذا أذن راکباً لایکرہ وینزل للإقامۃ، کذا في فتاویٰ قاضي خان، والخلاصۃ وإن لم ینزل وأقام أجزأہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثاني في الأذان، الفصل الأول في صفتہ وأحوال المؤذن‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۱)
(والإقامۃ کالأذان) فیما مر (لکن ہي) أي الإقامۃ، وکذا الإمامۃ (أفضل منہ)، فتح۔ (ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، مطلب في أول من بنی المنائر للأذان‘‘: ج ۲، ص: ۵۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص218