بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ فی السوال کتاب میں احادیث بھی ہیں، ان کے مطالب بھی اور حکایات وواقعات بھی؛ اس لئے حدیث پڑھی جائے گی، کہنے میں کوئی حرج نہیں؛ لیکن کتاب کا نام لینا بہتر ہے، تاکہ اشتباہ نہ ہو؛ نیز ایسی باتوں کو باعث اختلاف بنانا ہوشمندی نہیں ہے، اگر کوئی اچھی بات بتلائے، تو اس کو مان لینا چاہئے۔(۱)

(۱) إعلم أن الحدیث في اصطلاح جمہور المحدثین یطلق علی قول النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وفعلہ وتقریرہ الخ۔
وکذلک یطلق علی قول الصحابي وفعلہ وتقریرہ وعلی قول التابعي وفعلہ وتقریرہ۔ (الشیخ عبد الحق الدہلوي، ’’مقدمۃ مشکوٰۃ المصابیح‘‘: ص: ۳)


----------

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص340

 

تجارت و ملازمت

Ref. No. 2673/45-4146

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مسئولہ میں تحریری باتیں اگر درست ہیں تو یہ آپ کےساتھیوں کی بددیانتی گناہ اور دھوکہ ہے جس پر بہت وعید آئی ہے۔ حدیث میں ہے: ’’من غشا فلیس منا والمکر والخداع في النار‘‘ (تعلیقات الحسان صحیح ابن حبان: حدیث: ٣٣٥٥۔

معاملہ پہلے سے چونکہ متعین نہیں تھا، لہٰذا آپ دوبارہ اپنے ساتھیوں سے رجوع کریں اور معاملہ از سر نو طے فرمالیں، کوئی بھی معاملہ مبہم نہیں کرنا چاہئے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:اس حوض کے پانی سے وضو درست ہے، اگر وہ حوض دہ در دہ ہے تو نجاست گرنے سے پانی ناپاک نہ ہوگا، وضو اس سے جائز ہوگا۔(۱)

(۱) و إن کان أعلی الحوض أقل من عشر في عشر و أسفلہ في عشر أو أکثر، فوقعت نجاست في أعلی الحوض حکم بنجاسۃ الأعلی۔ (جماعۃ من علماء الھند، الفتاویٰ الھندی، کتاب الطہارۃ، الباب الثالث في المیاہ، ج۱، ص:۷۱)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص476

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ شخص نے اگر اس کے بعد مکمل وضو کر لیا، تو وضو درست ہو گیا۔(۱)

(۱)یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصَّلٰوۃ فَاغْسِلُوْا وُجُوْہَکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ اِلَی الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوْا بِرُئُ وْسِکُمْ وَاَرْجُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَیْنِ(مائدہ، آیت:۶)؛  و  فرض الطہارۃ غسل الأعضاء الثلاثۃ و مسح الرأس، (المرغیناني، ہدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ‘‘، ج۱،ص:۱۶، مکتبۃ الاتحاد دیوبند)
 

فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص142

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:دانتوں کے بیچ گوشت کے ریشے اگر پھنس جائیں، تو یہ غسل کی صحت کے لیے مانع نہیں ہے، اس حالت میں غسل درست ہو جائے گا؛ اس لیے کہ گوشت یا روٹی کے ٹکڑے سخت نہیں ہوتے۔ علامہ شامی نے دانتوں کے درمیان پھنسے ہوئے کھانے کو مانع غسل نہیں قرار دیا ہے۔
’’ولا یمنع طعام بین أسنانہ أو في سنہ المجوف: بہ یفتی۔ قال ابن عابدین: صرح بہ في الخلاصۃ وقال لأن الماء شيء لطیف یصل تحتہ غالبًا‘‘(۱)
’’ولو کان سنہ مجوفا أو بین أسنانہ طعام أو درن رطب یجزیہ لأن الماء لطیف یصل إلی کل موضع غالباً‘‘(۲)
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب في أبحاث الغسل، فرض الغسل‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۹۔
(۲) ابن نجیم، البحر الرائق: ’’کتاب الطہارۃ: فرائض الغسل‘‘: ج ۱، ص: ۸۸۔

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص333

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:پیشاب کے قطرے کااگر مرض ہو، تواس کے لیے کچھ تدابیر اختیار کرنی چاہیے (۱) ماہر ڈاکٹر یا حکیم سے رجوع کریں(۲) آپ پیشاب کے لیے ڈھیلے یا ٹیشو پیپر استعمال کریں (۳) ٹیشو پیپر کچھ دیر کے لیے سوراخ میں رکھ لیںتاکہ وہ قطرات اس میںجذب ہوجائیں پھر اسے نکال کر وضو کرکے نماز پڑھ لیں (۴) آپ نیکر استعمال کریںاور نماز کے وقت اسے نکال دیں (۵) اگر آپ چاہیںتو کوئی روئی وغیر ہ پیشاب کے سوراخ میں رکھ لیںتاکہ قطرہ اس کے اندورنی حصہ سے نکل کر باہر نہ آئے، اس لیے کہ جب تک پیشاب کا قطرہ باہر نہ آئے گا نقض وضو کا حکم نہ ہوگا۔ان تدابیر کو اختیار کریں عام حالت میںبھی اورخاص کر سفر میں تاکہ آپ بروقت نماز پڑھ سکیں؛لیکن بدن اور کپڑے پر پیشاب لگے ہونے کی حالات میں بغیر دھوئے نماز نہیں پڑھ سکتے ہیں اور اگر بالکل ہی مجبوری ہو اور پیشاب ایک ہتھیلی کے پھیلائو سے کم کپڑے پر لگا ہوا ہو اور نماز پڑھ لی، تو نماز ادا ہوجائے گی تاہم اس سے بھی بچنا ہی چاہئے(۱) ’’ینقض لو حشا إحلیلہ بقطنۃ وابتل الطرف الظاہر وإن ابتل الطرف الداخل لا ینقض(۲) قلت: ومن کان بطیء الاستبراء فلیفتل نحو ورقۃ مثل الشعیرۃ ویحتشی بہا في الإحلیل فإنہا تتشرب ما بقي من أثر الرطوبۃ التي یخاف خروجہا ۔۔۔ إلی قولہ۔۔۔ وقد جرب ذلک فوجد أنفع من ربط المحل لکن الربط أولی إذا کان صائما لئلا یفسد صومہ علی قول الإمام الشافعي۔(۳)

(۱) و عفا عن قدر درھم وھو مثقال في کثیف و عرض مقعر الکف في رقیق في مغلظۃ کعذرۃ و بول غیر مأکول و لو من صغیر لم یطعم۔ (ابن عابدین، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، قبیل في طہارۃ بولہ علیہ السلام‘‘ج۱،ص:۵۲۰)؛ وتطھیر النجاسۃ واجب من بدن المصلي و ثوبہ والمکان الذي یصلي علیہ لقولہ تعالیٰ: و ثیابک فطھر۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس و تطہیرہا‘‘ ج۱، ص:۱۹۲)
(۲) ابن عابدین، الدرالمختار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في ندب مراعاۃ الخلاف إذا لم یرتکب الخ‘‘ ج۱، ص:۷۸-۲۷۹
(۳)ابن عابدین،رد المحتار،’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس،مطلب في الفرق بین الاستبراء الخ‘‘ ج ۱، ص:۵۵۸۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص415

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر مذکورہ عورت کی مکمل آمدنی ناجائز پیشہ کی ہی ہے اس کے علاوہ کوئی جائز آمدنی نہیں ہے تو اس کا ہدیہ قبول کرنا اور کھانا لینا جائز نہیں ہے اور اگر اس کی کوئی جائز آمدنی بھی ہو تو اس کا ہدیہ قبول کرنا اور کھانا لینا اگرچہ جائز ہے، مگر امام مقتدیٰ و پیشوا ہوتا ہے؛ اس لیے انہیں قبول نہ کرناچاہئے۔(۱)
(۱) أہدی إلی رجل شیئا أو أضافہ إن کان غالب مالہ من الحلال فلا بأس إلا أن یعلم بأنہ حرام فإن کان الغالب ہو الحرام ینبغي أن لا یقبل الہدیۃ ولا یأکل الطعام إلا أن یخبرہ أنہ حلال ورثہ أو استقرضہ من رجل۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الثاني عشر في الہدیا والضیافات‘‘: ج۵، ص: ۳۹۶، زکریا دیوبند)
{ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَاکَسَبْتُمْ وَمِمَّآاَخْرَجْنَا لَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِص وَلَا تَیَمَّمُوا الْخَبِیْثَ مِنْہُ تُنْفِقُوْنَ وَ لَسْتُمْ بِاٰخِذِیْہِ اِلَّآ اَنْ تُغْمِضُوْا فِیْہِط وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌہ۲۶۷} (البقرۃ: ۲۶۷)

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص322

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:امام صاحب کو مقتدیوں کا انتظار کرنا چاہئے تاکہ جماعت ہو جائے اور ترک واجب کا مرتکب ہوکر گنہگار نہ ہو۔ اور اگر کبھی ایسا اتفاق ہو جائے کہ تکبیر نہ ہو اورجماعت کرلی جائے تو نمازادا ہوجائے گی ایسی عادت نہ بنائی جائے اس لیے کہ ترک سنت سے نماز کے اجر و ثواب میں کمی ہوجائے گی۔(۲)

(۲) ویکرہ أداء المکتوبۃ بالجماعۃ في المسجد بغیر أذان وإقامۃ، کذا في فتاویٰ قاضي خان  ولا یکرہ ترکہما لمن یصلي في المصر، إذا وجد في المحلۃ، ولا فرق بین الواحد والجماعۃ، ہکذا في التبیین، والأفضل أن یصلي بالأذان والإقامۃ، کذا في التمرتاشي، وإذا لم یؤذن في تلک المحلۃ یکرہ لہ ترکہما ولو ترک الأذان وحدہ لا یکرہ، کذا في المحیط ولو ترک الإقامۃ یکرہ، کذا في التمرتاشي۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثاني في الأذان، الفصل الأول في صفتہ وأحوال المؤذن‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۱)
 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص218

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: چوں کہ جارجٹ کا کپڑا باریک ہوتا ہے، اس کے پہننے کے باوجود بدن جھلکتا ہے، جب تک اس کے نیچے کپڑا نہ ہو؛ اس لیے اس کا پہننا درست نہیں جب کہ گھر میں ایسے بھی رشتہ دار آتے ہوں جو غیر محرم ہوں، مثلاً: چچا، ماموں، پھوپھا کے لڑکے، سوائے شوہر کے ان کے سامنے ایسے کپڑے پہن کر آنا درست نہیں اگر جارجٹ کی ساڑھی کے نیچے لہنگا اور بالائی حصہ پر بطور بنیان کپڑا ہو جس سے بدن کا کوئی حصہ نظر نہ آئے تو ایسی ساڑھی پہن کر نماز پڑھی جاسکتی ہے۔(۱)

(۱) والثوب الرقیق الذي یصف ماتحتہ لاتجوز الصلاۃ فیہ کذا في التبیین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الثالث في  شروط الصلاۃ‘‘: ج۱، ص:۱۱۵؛ وابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب شروط الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۸۴، زکریا دیوبند)
وحد الستر أن لایری ماتحتہ حتی لوسترہا بثوب رقیق یصف ماتحتہ لایجوز۔ (ابن نجیم، البحر الرائق: ج۱، ص: ۴۶۷، دارالکتاب دیوبند)
والثوب الرقیق الذي یصف ماتحتہ لاتجوز الصلاۃ فیہ لانہ مکشوف العورۃ معنی۔ (فخر الدین عثمان بن علي، تبیین الحقائق، ’’باب شروط الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۳، شاملہ)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص177

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جی ہاں دونوں نمازوں میں فرق ہے، یعنی شکرانہ کی نماز اللہ تعالیٰ کا شکرا دا کرنے کے لیے پڑھی جاتی ہے(۲) اور حاجت کی نماز کسی ضرورت پر اللہ تعالیٰ سے ضرورت پوری کرانے کے لیے پڑھی جاتی ہے (۳) مگر ان دونوں نمازوں کے پڑھنے میں کوئی فرق نہیں ہے، جس نیت سے پڑھیں گے اس کے ثمرات مرتب ہوں گے ’’إن شاء اللّٰہ‘‘۔ بغیر نیت کے کوئی نماز نہیں ہوتی ہے۔(۴)

(۲) من توضأ فأسبغ الوضوء ثم صلی رکعتین یتمہا أعطاہ اللّٰہ ما سأل معجلاً أو مؤخراً۔ (أخرجہ أحمد، في مسندہ،’’مؤسسۃ الرسالۃ‘‘: ج ۴۵، ص: ۴۸۹، رقم: ۲۷۴۹۷)  
(۳) وعن عبد اللّٰہ بن أبي أوفیٰ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من کانت لہ حاجۃ إلی اللّٰہ أو إلی أحد من بنی آدم فلیتوضأ فلیحسن الوضوء ثم لیصل رکعتین الخ۔ (محمد بن عبداللہ الخطیب العمري، مشکاۃ المصابیح، ’’باب التطوع‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۷، مکتبہ: یاسر ندیم، اینڈ کمپنی دیوبند)
(۴) ثم إنہ إن جمع بین عبادات الوسائل في النیۃ صح … ونال ثواب الکل … وکذا یصح لو نوی نافلتین أو أکثر کما لو نویٰ تحیۃ مسجد، وسنۃ وضوء، ضحی، وکسوف، والمعتمد أن العبادات ذات الأفعال یکتفي بالنیۃ في أولہا۔ (أحمد بن محمد الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ وأرکانہا‘‘: ص: ۲۱۶، مکتبہ: شیخ الہند دیوبند)
ویکفیہ مطلق النیۃ للنفل والسنۃ والتراویح ، ہو الصحیح، کذا في التبیین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ، الفصل الرابع: في النیۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۳، مکتبہ: زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص398