نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: پلاسٹک کی ٹوپیاں عام طور پر اچھی نہیں سمجھی جاتیں، لوگ ایسی ٹوپیاں پہن کر شریف اور معزز لوگوں کی مجلس میں جانا پسند نہیں کرتے اور عام حالات میں بھی یہ ٹوپیاں نہیں پہنتے، اس لیے ایسی ٹوپیاں پہن کر نماز پڑھنا مکروہ تنزیہی ہے۔(۲)

’’قال في البحر: وفسرہا في شرح الوقایہ بما یلبسہ في بیتہ ولا یذہب بہ إلی الأکابر، والظاہر أن الکراہۃ تنزیہیۃ‘‘(۱)
’’ورأي عمر رضي اللّٰہ عنہ رجلا فعل ذلک، فقال: أرأیت لو کنت أرسلتک إلیٰ بعض الناس أکنت تمر في ثیابک ہذہ؟  فقال: لا … فقال عمر رضي اللّٰہ عنہ: اللّٰہ أحق أن تتزین لہ‘‘(۲)

(۱)ٰیبَنِیْٓ اٰدَمَ خُذُوْ ازِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ (سورۃ الأعراف: ۳۱)
وصلاتہ في ثیاب بذلۃ یلبسہا في بیتہ ومہنۃ أي خدمۃ إن لہ غیرہا وإلا لا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا‘‘: ج۲، ص: ۴۰۷)

(۱) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب في الکراھۃ التحریمیۃ و التنزیھیۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۰۷، زکریا دیوبند۔
(۲) حسن بن عمار، مراقي الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوي: ص: ۳۵۹، مکتبہ الاشرفیہ دیوبند۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص176

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اوابین کی نماز بعد نمازِ مغرب فرض وسنت مؤکدہ کے بعد ادا کی جاتی ہے اس کو ’’صلاۃ الاوّابین‘‘ کہا جاتا ہے اس نماز کی فضیلت کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ: جو شخص مغرب کی نماز کے بعد بغیر کسی سے بات کئے ہوئے صلاۃ الاوابین کی چھ رکعت نماز ادا کرے اس کے حق میں بارہ سال کی عبادت کے بقدر ثواب لکھا جائے گا، ایسے ہی ایک اور روایت ہے کہ جو شخص اوابین کی بیس رکعت پڑھتا ہے اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے لیے جنت میں گھر بنائے گا، نیز اوابین کے معنی ہیں: اللہ کے وہ نیک بندے جو اس کی طرف کثرت سے رجوع کرنے والے ہیںاور اوابین کی رکعتوں کے بارے میں کتب فقہ میں لکھا ہے کہ کم از کم چھ رکعتیں اور زیادہ سے زیادہ بیس رکعتیں ہیں۔ جیسا کہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے:
’’عن أبي ہریرۃ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم: من صلی بعد المغرب ست رکعات لم یتکلم فیما بینہن بسوء، عدلن لہ بعبادۃ ثنتی عشرۃ سنۃ‘‘
’’قال أبو عیسی: و قد روي عن عائشۃ، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ و سلم قال: من صلی بعد المغرب عشرین رکعۃً بنی اللّٰہ لہ بیتًا في الجنۃ‘‘
’’قال أبو عیسی: حدیث أبي ہریرۃ حدیث غریب، لانعرفہ إلا من حدیث زید بن الحباب عن عمر بن أبي خثعم‘‘
’’قال: وسمعت محمد بن إسماعیل یقول: عمر بن عبد اللّٰہ بن أبي خثعم منکر الحدیث، وضعفہ جدًّا‘‘(۱)

(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ عن رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم، باب ما جاء في فضل التطوع وست رکعات بعد المغرب‘‘: ج ۱، ص: ۹۸، رقم: ۴۳۵۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص397

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1008

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: جماعت میں شریک ہونے کی فضیلت   بھی ہے اور فجر کی سنتوں کی بھی تاکید شدید ہے۔ اس لئے  اگر جماعت بالکلیہ فوت ہونے کا اندیشہ  نہ ہو بلکہ ایک رکعت یا تشہد میں شریک ہونے کی توقع  ہو تو سنت پڑھ لی جائے۔ اگر  اندیشہ ہو کہ جماعت نکل جائے گی تو امام کے ساتھ جماعت میں شریک ہوجائے اور سنت کی قضاء طلوع آفتاب کے بعد کرے ، اور اگر سنت  شروع کردی  اور حال یہ ہے کہ اگر سنت پوری کرے گا تو جماعت نکل جائے گی اور اگر جماعت میں شریک ہونا ہے تو سنت توڑنی پڑیگی، تو ایسی صورت میں سنت پوری کرے اور فجر کی فرض  نماز تنہا پڑھ لے۔فجر کی سنت پڑھنے میں اس کا خیال رکھنا بھی اشدضروری ہے کہ اگر جماعت کھڑی ہوچکی ہے تو جماعت کے ساتھ صف میں شریک ہوکر سنت نہ پڑھے بلکہ وضوخانہ ، یا مسجد کے دروازے کے قریب مناسب جگہ پر یا صحن میں جہاں لوگ سامنے سے نہ گزریں وہاں پڑھے۔اور افضل تو یہ ہے کہ سنت گھر پر ہی پڑھ کر آئے۔ کذا فی الفقہ۔ واللہ اعلم بالصواب 

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Divorce & Separation
Ref. No. 40/ In the name of Allah the most Gracious the most Merciful The answer to your question is as follows: In the above mentioned case, one talaq occurred on your wife. You have right to take her back during the iddah period (3 menses) only. If the iddat is over and you want to take her back then it is necessary to do nikah. And Allah knows best Darul Ifta Darul Uloom Waqf Deoband

اسلامی عقائد

Ref. No. 40/1063

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال، اس سے ایمان سلب نہیں ہوا البتہ اس طرح کے وساوس سے  احتیاط  ضروری ہے۔  وسوسہ کی طرف بالکل دھیان نہ دیں، ذہنی الجھنوں سے دور رہنے کے اسباب اختیار کریں۔

۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

بدعات و منکرات

Ref. No. 1459/42-884

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔جلد کی تازگی اور نکھار  کے لئے ہلدی لگانا اور چیز ہے اور اس کو رسم بنالینا اور چیز ہے۔ چنانچہ ہلدی لگانا ممنوع  نہیں ہے البتہ  ہلدی کے موقع پر جو ناجائز امور ہوتے ہیں ان کی مذمت بیان کی جاتی ہے۔ ایک مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ خوشی کے موقع پر احکام شرع کو بھول کرغیرشرعی  رسم و رواج میں مشغول ہوجائے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Miscellaneous

Ref. No. 1701/43-1340

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

(1) It is permissible to use all items available in the market, whether they are labeled as halal or not. However, if there is any doubt about a particular product, or if it is known to be suspicious by any reliable source or its product code. If haram ingredients are specified thereupon, then caution is required. Halal certificate can be trusted if issued by a reliable institution, and thus its certified products can be used.

(2) Kosher slaughter, used in Jewish custom for halal slaughter. If a Jew knows how to slaughter according to the teachings of his religion, his slaughter will be halal. Therefore, because of being the People of the Book, Kosher Zabiha will be halal. However, today's People of the Book do not usually take care of their religious teachings; hence kosher slaughter should be avoided. 

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 2447/45-3711

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مرحوم عبدالرحمن کی کل جائداد کو 120 حصوں میں تقسیم کریں گے، جن میں سے آٹھواں یعنی 15 حصے موجودہ بیوی کو، چھٹا یعنی 20 حصے ماں کو، 34 حصے بیٹے کو اور 17 حصے تینوں بیٹیوں میں سے ہر ایک کو ملیں گے یعنی  پہلی بیوی سے  جو دو لڑکیاں ہیں ان کو وراثت میں حصہ ملے گا، البتہ وہ بیوی جس کو مرحوم نے اپنی زندگی میں ہی طلاق دے کر الگ کردیا تھا اس کو وراثت میں کچھ بھی حصہ نہیں ملے گا۔ 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:کھانے سے پہلے ہاتھ دھونے کا ثبوت حدیث میں ہے۔ ترمذی شریف میں ہے۔ ’’فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم برکۃ الطعام الوضوء قبلہ والوضوء بعدہ‘‘(۱)

۱) وقال الترمذي: لا نعرف ہذا الحدیث إلا من حدیث قیس بن الربیع، وقیس بن الربیع یضعف في الحدیث، قال الباني: ضعیف۔ (أخرجہ الترمذي: في سننہ، ’’أبواب الأطعمۃ: باب ما جاء في الوضوء قبل الطعام وبعدہ‘‘: ج ۲، ص: ۶، رقم: ۱۸۴۶)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص123

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضرت موسیٰ علیہ السلام سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک ایک ہزار نوسو پچھتر سال عرصہ گزرا ہے۔(۱)

(۱) بین یدي قلبي من التوراۃ أي وہي کتاب موسیٰ وکان بینہ وبین عیسیٰ ألف وتسعمائۃ وخمس وسبعون سنۃ وأول أنبیاء بني إسرائیل یوسف وآخرہم عیسیٰ۔ (حاشیۃ جلالین: ج ۲، ص:۵۱)
اور ابن عساکر نے ایک ہزار نو سو پچیس سال کا فاصلہ بیان کیا ہے۔
ومن موسیٰ إلی داؤد خمسمائۃ سنۃ وتسعۃ وستون سنۃ ومن داؤد إلی عیسیٰ ألف وثلاث مائۃ سنۃ وست وخمسون سنۃ۔ (تاریخ مدینہ دمشق: ج ۱، ص: ۴۰)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص224