Frequently Asked Questions
نکاح و شادی
Ref. No. 1004
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: صورت مسئولہ میں بشرط صحت سوال خالد کا نکاح شاہین سے جائز ہے۔ واما بنت زوجۃ ابیہ اوابنہ فحلال (در مختار 187)
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Fiqh
Ref. No. 41/970
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
Fiqh academy of India has conducted a seminar on organ donation. Seminar’s published articles may help you in your research work. Study ‘Fatawa Darul Uloom Zakariya Vol. 7’ for transplantation detail.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
Prayer / Friday & Eidain prayers
Ref. No. 1176/42-447
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
The Imam's way of giving statement is not appropriate. Yes, it is permissible for the Imam to take salary on rendering imamat service. And it is necessary for those who are taking charge of the mosque to manage the salary of the Imam each month without fail. It is permissible for Imam to take wages on doing Imamate even if he does some business other than Imamate. When the imam is appointed with a fixed salary and the authority agreed upon it, then it is obligatory on those in charge to pay him for his job.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
طلاق و تفریق
Ref. No. 1458/42-886
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مسئولہ میں شوہر نے پہلے جملہ سےبیوی کو فارغ کرنے اور طلاق دینے کی دھمکی دی ہے، اس لئے محض اس دھمکی آمیز جملہ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔ البتہ آپ نے لکھاہے کہ ایک بار طلاق کا لفظ استعمال کیا، اس کی وضاحت ضروری ہے کہ آپ نے کس طرح طلاق کا لفظ استعمال کیا۔ جو جملہ آپ نے بولا تھا بعینہ وہی جملہ لکھ کر بھیجیں تاکہ جواب لکھا جاسکے۔
وبالعربية قوله: أطلق، لا يكون طلاقاً في أنه دائر بين الحال والاستقبال فلم يكن تحقيقاً مع الشك حتى أن موضع علمت استعماله للحال كان تحقيقاً )المحیط البرہانی فی الفقہ النعمانی الفصل السابع والعشرون فی المتفرقات 3/472) (الفتاوی الھندیۃ، الفصل السابع فی الطلاق بالالفاظ الفارسیۃ 1/384)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 2217/44-2349
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ لڑکی نے عارف کواپنے نکاح کا وکیل بنایا اور پھر وکیل نے مجلس نکاح میں لڑکے کے سامنے ایجاب یا قبول کیا تو اس طرح نکاح منعقد ہوگیا۔
وفي الهندية:
"أن يكون الإيجاب والقبول في مجلس واحد، حتى لو اختلف المجلس بأن كانا حاضرين فأوجب أحدهما فقام الآخر عن المجلس قبل القبول أو اشتغل بعمل يوجب اختلاف المجلس لا ينعقد، وكذا إذا كان أحدهما غائباً لم ينعقد، حتى لو قالت امرأة بحضرة شاهدين: زوجت نفسي من فلان، وهو غائب فبلغه الخبر، فقال: قبلت، أو قال رجل بحضرة شاهدين: تزوجت فلانةً وهي غائبة، فبلغها الخبر، فقالت: زوجت نفسي منه، لم يجز وإن كان القبول بحضرة ذينك الشاهدين، وهذا قول أبي حنيفة ومحمد رحمهما الله تعالى. ولو أرسل إليها رسولاً أو كتب إليها بذلك كتاباً، فقبلت بحضرة شاهدين سمعا كلام الرسول وقراءة الكتاب جاز؛ لاتحاد المجلس من حيث المعنى، وإن لم يسمعا كلام الرسول وقراءة الكتاب لا يجوز عندهما". (كتاب النكاح، الباب الأول في تفسير النكاح شرعا وصفته وركنه وشرطه وحكمه: ۱/ ۲۶۹، ط: دار الفكر)
وفي النهر الفائق:
"واعلم أن للإيجاب والقبول شرائط: اتحاد المجلس، فلو اختلف لم ينعقد، بأن أوجب أحدهما فقام الآخر قبل القبول واشتغل بعمل آخر". (كتاب النکاح : ۲/ ۱۷۸، ط: دار الکتب العلمیة)
وفي البحر الرائق :
" ولم يذكر المصنف شرائط الإيجاب والقبول، فمنها: اتحاد المجلس إذا كان الشخصان حاضرين، فلو اختلف المجلس لم ينعقد، فلو أوجب أحدهما فقام الآخر أو اشتغل بعمل آخر بطل الإيجاب؛ لأن شرط الارتباط اتحاد الزمان فجعل المجلس جامعاً تيسيراً". (كتاب النكاح: ۳/ ۸۹، ط: دار المعرفة)
وفي بدائع الصنائع:
" ... وأما الذي يرجع إلى مكان العقد فهو اتحاد المجلس إذا كان العاقدان حاضرين، وهو أن يكون الإيجاب والقبول في مجلس واحد، حتى لو اختلف المجلس لا ينعقد النكاح، بأن كانا حاضرين فأوجب أحدهما فقام الآخر عن المجلس قبل القبول أو اشتغل بعمل يوجب اختلاف المجلس لا ينعقد؛ لأن انعقاده عبارة عن ارتباط أحد الشطرين بالآخر، فكان القياس وجودهما في مكان واحد، إلا أن اعتبار ذلك يؤدي إلى سد باب العقود، فجعل المجلس جامعاً للشطرين حكماً مع تفرقهما حقيقةً؛ للضرورة، والضرورة تندفع عند اتحاد المجلس، فإذا اختلف تفرق الشطرين حقيقةً وحكماً فلا ينتظم الركن". ( كتاب النكاح، فصل وأما شرائط الركن فأنواع: ۲/ ۲۳۲، ط: دار الكتاب العربي)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 2448/45-3710
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عبدالرحمن نے طلاق دی ہے، طلاق نامہ بھی بیوی کے پاس موجود ہے اور گواہ بھی ہیں، اور وہ طلاق کا اقرار بھی کرتا ہے تو پھر طلاق کے وقوع میں شبہہ کیوں ہے؟ طلاق گھر میں دے یا کورٹ میں بہر حال طلاق واقع ہوجاتی ہے، اس لئے کورٹ میں دی گئی طلاق واقع ہوچکی ہے۔ اگر اس کے علاوہ کوئی بات ہو تو اس کی وضاحت کرکے دوبارہ سوال کریں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ میں جس حدیث سے متعلق سوال کیا گیا ہے، در حقیقت یہ علماء کو ان کے مقام سے بڑھانا ہے، عالم کی زیارت، دیدار انبیاء کرام کی طرح ہے؛ یہ حدیث موضوع ہے، ’’کما نقلہ ابن الحجر المکي عن السیوطي‘‘(۲)
(۱) عن أنس رضي اللّٰہ عنہ بلفظ: إن مدینۃ تحت العرش من مسبک إذا فر علی بابہا … ملک ینادي کل یوم ألا من زار العلماء فقد زار الأنبیاء۔
أخرجہ إسماعیل بن محمد، في کشف الخفاء، ’’باب حرف الہمزۃ مع النون‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۷؛ وقال السیوطي: ملک ینادي کل یوم ألا من زار عالما فقد زار الرب فلہ الجنۃ۔ (الحاوي للفتاویٰ، ’’باب العجابۃ الزرنیۃ‘‘: ج ۳، ص: ۵۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص123
بدعات و منکرات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:کسی بھی جماعت کے چند افراد نئے اور غیر تربیت یافتہ ہوتے ہیں؛ لیکن وہ افراد جماعت کا مدار نہیں ہوتے، مدار جماعت کا اس کے اصول وضوابط اور اس کے ذمہ دار و قائدین ہوتے ہیں جماعت کو جب پرکھا جائے، تو اس کے اصول سے پرکھا جائے یا اس کے بانیان وذمہ داران سے بالکل اس طرح سے کہ چند مسلمان کوئی برا کام کر رہے ہوں، تو یہ فیصلہ ہرگز درست نہیں کہ اسلام برا مذہب ہے، (عیاذا باللہ) اسلام کا مدار، تو اس کے اصول ہیں۔ اسی طرح تبلیغی جماعت ہے کہ اس کے اصول، ذمہ دار اور اس کے قائدین مدار ہیں، اگر چند غیر تربیت یافتہ لوگ کچھ غلطی کر جائیں، تو اس کی وجہ سے جماعت پر کوئی حکم درست نہیں؛ حتی الامکان تربیت واصلاح کی کوشش کی جائے، تبلیغی نصاب فضائل پر مشتمل ہے، لوگ اس کو پڑھ لیتے ہیں صحیح ہے، مگر اس میں شدت درست نہیں؛ لیکن اگر ایک وقت مسجد میں یہ کتاب پڑھتے ہوں، تو دوسرے وقت دوسرے لوگ یا وہی لوگ دوسری کتاب پڑھ لیں، اس سے کون منع کرتا ہے؛ بہر کیف تنقید کے لئے بہت سی چیزیں مل سکتی ہیں؛ لیکن اپنے ذہن کو تعمیری بناکر رکھنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح وسیدھی راہ دکھائے۔(۱)
(۱) {کُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِط} (سورۃ آل عمران: ۱۱۰)
{أُدْعُ إِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْھُمْ بِالَّتِيْ ھِيَ أَحْسَنُط} (سورۃ النحل: ۱۲۵)
عن عبد اللّٰہ بن عمرو رضي اللّٰہ عنہ: أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، قال: (بلغوا عني ولو آیۃ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأنبیاء علیہم السلام: باب ما ذکر عن بني إسرائیل‘‘: ج ۱، ص: ۴۹۰، رقم: ۳۴۶۱)
{ٰٓیأَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ أُنْزِلَ إِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَط} (سورۃ المائدۃ: ۶۷)
--------------
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص340
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:پانی میں اگر پاک چیز مل کر پانی مغلوب ہو جائے اور نام پانی کا باقی نہ رہے، یا رنگ ومزا باقی نہ رہے، تو اس سے وضو کرنا جائز نہیں ہے(۲)؛ اس کی تفصیل در مختار میں ہے۔
(۲) ولا بماء مغلوب بشيء طاھر، الغلبۃ إما بکمال الإمتزاج بتشرب نبات أو بطبخ بمالا یقصد بہ التنظیف کالمرق و ماء الباقلا أی الفول فإنہ یصیر مقیدا سواء تغیر شیء من أوصافہ أولا سواء بقیت فیہ رقۃ الماء أولا في المختار کما في البحر۔، قولہ: مالم یزل الاسم أي فإذا زال الاسم۔۔۔ قولہ: کنبیذ تمر و مثلہ الزعفران إذا خالط الماء و صار بحیث یصنع بہ فلیس بماء مطلق۔ (ابن عابدین، رد المختار علی الدر المختار، کتاب الطہارۃ، باب المیاہ مطلب في حدیث ’’لا تسموا الجنب الکرم‘‘، ج۱، ص۳۲۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص476
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:جنابت کی حالت میں بہتر یہ ہے کہ غسل کر کے سوئے اگر غسل پر طبیعت آمادہ نہ ہو، تو شرمگاہ سے نجاست صاف کرے اور وضو کر کے سو جائے، اس کی حکمت واضح ہے غسل کے ذریعہ پاکی ہو جائے گی؛ لیکن بسا اوقات رات میں غسل کرنا حرج کا باعث ہوتا ہے؛ اس لیے شریعت نے رخصت دی ہے کہ مقام نجاست کو صاف کر کے وضو کر لیا جائے، اس سے نجاست میں تخفیف ہو جائے گی، آپ Bکبھی کبھی ایسا کرتے تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ اگرآدمی جنابت کی حالت میں بلا وضو کے سو جائے، اور اسی حالت میں انتقال ہو جائے تو فرشتے اس کے جنازے میں حاضر نہیں ہوتے، اس لیے ایک اہم فائدہ ہے کہ صرف وضو سے ہی فرشتوں کے دخول کے حق میں پاکی ہوگئی ’’أما غسل الفرج فلإزالۃ الأذی وأما الوضوء فلتخفیف الحدث(۱) في معجم الطبراني في جنب ینام ویموت إن الملائکۃ لا تحضر جنازتہ، وبالوضوء تندفع ہذہ المضرۃ، فہذا المعنی أوجب القول باستحبابہ (۲) عن میمونۃ بنت سعد ہل یرقد جنب؟ قال لا: أحب أن یتوضأ فإني أخشی أن یموت فلا یحضرہ جبرئیل(۳) عن عائشۃ قال: أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم إذا أراد أن ینام وہو جنب توضأ وضوئہ للصلاۃ‘‘۔(۴)
(۱)ابن جوزی، کشف المشکل من حدیث الصحیحین: ج۴۔ ص:۳۷۳؛ و کشف المشکل من مسند أم المؤمنین، رقم:۲۵۸۳(شاملۃ)
(۲)انور شاہ الکشمیري، فیض الباري، کتاب الوضوء، باب من لم یتوضأ من لحم، الشاۃ والسویق،ج۱، ص:۴۰۵ (مکتبۃ شیخ الھند دیوبند)
(۳) أیضًا، ج۱ ، ص: ۴۵۱
(۴)ابن قتیبہ، تاویل مختلف الحدیث، قالوا: أحکام قد أجمع علیہا،ج۱، ص: ۳۵۰ (شاملۃ)
فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص142