بدعات و منکرات

Ref. No. 3215/46-7071

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ دُفّ سے ایسی ڈفلی مراد ہے جس میں ایک طرف چمڑا چڑھا ہوا ہو، اور اس میں گھنگرو وغیرہ نہ ہو، توایسا دف اعلانِ نکاح کے لیے بجانا درست ہے، ایسی دف کے ساتھ نعت پڑھنے کی گنجائش ہے، مگر اس سے بچنا بہتر ہے، ورنہ آہستہ آہستہ اس طرح کی نعت سننے سے دیگر موسیقی  آلات کی طرف میلان ہونے کا اندیشہ ہے۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 3214/46-7072

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر بچپن میں کہیں سے آپ نے کوئی سامان وغیرہ لیا تھا جس کا پیسہ نہیں دیا تھا تو اب اس دوکان میں پیسے دیدینے سے آپ کا ذمہ پورا ہوجائے گا اور ان شاء اللہ کل قیامت میں بازپرس سے بچ جائیں گے۔ اگر سوال کچھ اور ہو تو دوبارہ تفصیل لکھ کر بھیجیں۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: چھ دن یا اس سے کم یا اس سے زیادہ ایام میں تراویح میں قرآن پورا کرنے میں کوئی قباحت وکراہت نہیں ہے اور اس میں شرکت کرنا بھی درست ہے بس یہ لحاظ رکھنا چاہئے کہ مقتدیوں کو پریشانی نہ ہو اور اس کے بعد بھی تراویح کا پورا اہتمام کیا جائے بعد میں تراویح کا نہ پڑھنا غلط اور سنت کا ترک ہے۔(۱)

(۱) الختم مرّۃً سنۃٌ ومرّتین فضیلۃ وثلاثا أفضل، ولایترک الختم لکسل القوم؛ لکن في الاختیار: الأفضل في زماننا قدر مالایثقل علیہم۔ (الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مبحث صلاۃ التراویح‘‘: ج ۲، ص: ۴۹۷)السنۃ في التراویح: إنما ہو الختم مرۃ فلا یترک لکسل القوم … والختم مرتین فضیلۃ والختم ثلاث مرات أفضل۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب التاسع في النوافل‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۷)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 34

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: مروجہ شبینہ میں بالعموم ایک رات میں کلام پاک پورا ہوتا ہے جوکہ خلاف سنت ہے، کم ازم تین دن میں کلام پاک کو ختم کیا جاسکتا ہے، اس سے کم میں خلاف سنت ہوگا الایہ کہ لوگ رغبت سے سنیںاور کسی کو شکایت نہ ہواور یہ طریقہ تو بالکل درست نہیں کہ چھوٹی مسجد میں بیک وقت تین یا چار جگہ شبینہ پڑھا جائے اور آوازوں کا ٹکراؤ نماز میں خلل انداز ہوتا رہے۔(۱)

(۱) والأفضل في زماننا: أن یقرأ بما لایؤدي إلی تنفیر القوم عن الجماعۃ لکسلہم لأن تکثیر الجمع أفضل من تطویل القراء ۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب التاسع في النوافل، فصل في التراویح‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۷)والأفضل في زماننا قدر مالا یثقل علیہم۔ (الحصکفي، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مبحث صلاۃ التراویح‘‘: ج ۲، ص: ۴۹۷)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 34

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: خارج از نماز کا لقمہ امام کو نہ لینا چاہئے اور جب کہ امام کو معلوم بھی ہو، تو اگر ایسے شخص کا لقمہ لے لیا تو امام اور مقتدیوں سبھی کی نماز فاسد ہو جائے گی اور نماز کا لوٹانا ضروری ہوگا۔(۱)

(۱) وإن فتح غیر المصلي علی المصلي فأخذ بفتحہ تفسد۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، الفصل الأول فیما یفسدہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۷)ولو سمعہ المؤتم ممن لیس في الصلاۃ ففتح بہ علی إمامہ یجب أن تبطل صلاۃ الکل۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا، مطلب: المواضع التي لا یجب فیہا‘‘: ج ۲، ص: ۳۸۲)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 33

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: تراویح کی نماز سنت مؤکدہ ہے، سفر میں اگر موقع ہو تو پڑھ لینا بہتر ہے اور اگر موقع نہ ہو تو چھوڑ دینا بھی جائز ہے، اور سفر کی وجہ سے اگر نماز چھوٹ گئی تو پھر سنتوں کی قضا کی ضرورت نہیں۔(۱)

(۱)  وبعضہم جوزوا للمسافر ترک السنن والمختار أنہ لا یأتي بہا في حال الخوف ویأتي بہا في حال القرار والأمن، ہکذا فيالوجیز الکردي۔ (جماعۃ من علماء الہند،الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس عشر: في صلاۃ المسافر‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۹)وقال الہندواني: الفعل حال النزول والترک وحال المیسر وفي التنجیس، والمختار أنہ إن کان حال أمن وقرار یأتي بہا، لأنہا شرعت مکملات والمسافر إلیہ محتاج۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۳۰، دار الکتاب، دیوبند)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 32

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: دوبارہ جماعت خواہ وہ کسی بھی نماز کی ہو اس مسجد میں نہ کریں کیوں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سب تراویح پڑھنے والوں کو (جو الگ الگ مسجد میں تراویح پڑھتے تھے) ایک امام کے پیچھے جمع کیا تھا۔ اس لیے مذکورہ عمل سنت طریقہ کے خلاف ہے۔ ہاں مسجدسے ہٹ کر اگر جماعت کریں تو کوئی حرج نہیں ہے۔(۲)

(۲) لو صلی التراویح مرتین في مسجد واحد یکرہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب التاسع في النوافل‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۶)ویکرہ تکرار الجماعۃ بأذان وإقامۃ في مسجد محلۃ۔ (الحصکفي، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۸)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 31

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: تراویح میں پورا قرآن کریم سننا اور سنانا سنت ہے۔ اور یہ شعائر اسلام میں سے ہے۔ حتی الامکان مساجد میں قرآن پاک سننے سنانے کا اہتمام کرنا چاہئے خلاف ورزی درست نہیں ہے۔(۱)

(۱) قولہ: التراویح سنۃ بإجماع الصحابۃ ومن بعدہم من الأمۃ منکرہا مبتدع ضال مردود الشہادۃ کما في المضمرات۔ (أحمد بن إسماعیل، طحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في التراویح‘‘: ج ۱، ص: ۴۱۱)(ذکر لفظ الاستحباب والأصح أنہا سنۃ) یعني في حق الرجال والنساء، وفیہ نظر؛ لأنہ قال: یستحب أن یجتمع الناس، وہذا یدل علی أن اجتماع الناس مستحب، ولیس فیہ دلالۃ علی أن التراویح مستحبۃ، وإلی ہذا ذہب بعضہم فقال: التراویح سنۃ والاجتماع مستحب، وقولہ: (لأنہ واظب علیہا الخلفاء الراشدون) إنما یدل علی سنیتہا لقولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علیکم بسنتي وسنۃ الخلفاء الراشدین من بعدي۔ (بدر الدین العیني، العنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب النوافل، فصل في قیام شہر رمضان‘‘: ج ۲، ص: ۵۵۱، دار الکتب العلمیۃ، بروت)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7 ص: 30

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: دونوں کا وقت ایک ہی ہے، تراویح نماز عشاء کے بعد ہے، تراویح چھوٹ جانے کی صورت میں طلوع صبح صادق سے پہلے پہلے تک اس کو ادا کرسکتا ہے۔ اس کے بعد اس کی قضاء لازم نہیں۔(۱)

(۱) الأفضل إلی ثلث اللیل أو إلی النصف اعتباراً بالعشاء، ولو أخرہا إلی ماوراء النصف، اختلف فیہ: قال بعضہم: یکرہ استدلالا بالعشاء؛ لأنہ تبع لہا، والصحیح أنہ لایکرہ۔ (السرخسي، المبسوط، ’’کتاب الصلاۃ: فصل وقت صلاۃ التراویح المستحب‘‘: ج ۲، ص: ۲۰۱، دار الکتب العلمیۃ، بروت)ووقتہا ما بعد صلاۃ العشاء علی الصحیح إلی طلوع الفجر ولتبعیتہا للعشاء۔ (أحمد بن إسماعیل، طحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي شرح نور الإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في التراویح‘‘: ج ۱، ص: ۴۱۳، دار الکتاب، دیوبند)فتاوي دار العلوم وقف ديوبند: ج 7 ص: 30

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: جان بوجھ کر تراویح ترک کرنا سنت مؤکدہ کو ترک کرنا ہے، جس سے اللہ تعالیٰ کے غضب کا اندیشہ ہے اور ایسا شخص گناہگار ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ترک کا مقصد کچھ اور تھا اور اس شخص کا ترک کرنا سستی اور کاہلی ہے اور مزید یہ کہ اس لاأبالی پن کے لیے خوامخواہ دلیل بھی پکڑنا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ترک کے مقصد کو کسی عالم سے سمجھ لیا جائے اور تراویح ضرور پڑھا کریں خوامخواہ گناہوں کی گٹھری نہ باندھیں۔(۱)

(۱) التراویح سنۃ مؤکدۃ لمواظبۃ الخلفاء الراشدین للرجال والنساء إجماعا ووقتہا بعد صلاۃ العشاء إلی الفجر۔ وقال الشامي: سنۃ مؤکدۃ، صححہ في الہدایۃ وغیرہا، وہو المروي عن أبي حنیفۃ … وفي شرح منیۃ المصلي: وحکی غیر واحد الإجماع علی سنیتہا۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مبحث صلاۃ التراویح‘‘: ج ۲، ص : ۴۹۳)الجماعۃ فیہا سنۃ علی الکفایۃ في الأصح، فلو ترکہا أہل مسجد أثموا إلا لو ترک بعضہم۔ قولہ: والجماعۃ فیہا سنۃ علی الکفایۃ إلخ۔ أفاد أن أصل التراویح سنۃ عین، فلو ترکہا واحد کرہ، بخلاف صلاتہا بالجماعۃ فإنہا سنۃ کفایۃ فلو ترکہا الکل أساؤوا؛ أما لو تخلف عنہا رجل من أفراد الناس وصلی في بیتہ فقد ترک الفضیلۃ، وإن صلی أحد في البیت بالجماعۃ لم ینالوا فضل جماعۃ المسجد، وہکذا في المکتوبات، کما في المنیۃ، وہل المراد أنہا سنۃ کفایۃ لأہل کل مسجد من البلدۃ أو مسجد واحد منہا أو من المحلۃ؟ ظاہر کلام الشارح الأول؛ واستظہر الثاني؛ ویظہر لي الثالث، لقول المنیۃ: حتی لو ترک أہل محلۃ کلہم الجماعۃ فقد ترکوا السنۃ وأساؤوا۔ اھـ۔ (أیضاً: ص: ۴۹۵)فَصلٌ: وأما سننہا فمنہا الجماعۃ والمسجد؛ لأن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قدرما صلی من التراویح صلی بجماعۃ في المسجد، فکذا الصحابۃ رضي اللّٰہ عنہم۔ صلوہا بجماعۃ في المسجد فکان أداؤہا بالجماعۃ في المسجدسنۃ، ثم اختلف المشایخ في کیفیۃ سنۃ الجماعۃ، والمسجد، أنہا سنۃ عین أم سنۃ کفایۃ؟ قال بعضہم: إنہا سنۃ علی سبیل الکفایۃ إذا قام بہا بعض أہل المسجد في المسجد بجماعۃ سقط عن الباقین۔ ولو ترک أہل المسجد کلہم إقامتہا في المسجد بجماعۃ فقد أسائوا وأثموا، ومن صلاہا في بیتہ وحدہ، أو بجماعۃ لایکون لہ ثواب سنۃ التراویح لترکہ ثواب سنۃ الجماعۃ والمسجد۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: صلاۃ التراویح‘‘: ج ۱، ص: ۶۴۵)عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ أنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم صلی بالناس عشرین رکعۃ لیلتین، فلما کان في اللیلۃ الثالثۃ اجتمع الناس فلم یخرج إلیہم، ثم قال من الغد: خشیت أن تفرض علیکم فلا تطیقوہا۔ (التلخیص الحبیر في تخریج أحادیث الرافعي الکبیر، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ التطوع‘‘: ج ۲، ص: ۲۱، رقم: ۵۴۰، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)فتاوي دار العلوم وقف ديوبند ج 7 ص 29