متفرقات

Ref.  No.  3119/46-5099

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  جب کوئی گنہگار اللہ تعالی سے  اپنے گناہوں پر توبہ کرتاہے تو اللہ تعالی اس کے تمام گناہوں کو معاف کردیتاہے، اور اس کو سیدھے راستہ کی ہدایت عطا کرتاہے، تاہم توبہ کے لئے شرط یہ ہے کہ اپنے ماضی کے گناہوں پر شرمندگی کے ساتھ  اب اور آئندہ گناہوں سے بچے اور بچنے کا پختہ عزم کرے۔ گناہوں  کا ارتکاب کرتے ہوئے توبہ کا کوئی معنی نہیں، البتہ اگرتوبہ کرتے وقت گناہ چھوڑدیا اور گناہ نہ کرنے کا عزم کیا مگر بتقاضائے بشریت توبہ کرنے کے بعد پھر اس سے کوئی گناہ سرزد ہوگیا تو دوبارہ توبہ کرنا لازم ہوگا۔اس لئے اگر آپ نے گناہ ترک کردیاہے اور یہ دعا کررہے ہیں تو دعا قبول ہوگی اور آئندہ گناہوں سے بچنے میں مدد ملے گی۔  نیز اگر گناہوں کا تعلق حقوق العباد سے ہو تو ان کی ادائیگی بھی ضروری ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref.  No.  3150/46-6010

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  والد صاحب کے انتقال کے بعد سب لوگوں کی رضامندی سے علماء کی نگرانی میں تمام زمین و جائداد وغیرہ کا بٹوارہ ہوگیا اور ہر ایک نے اپنے حصہ پر قبضہ کرلیا تو اب بعد میں تقسیم کے غلط ہونے کی بات کرنا درست نہیں ہے۔ زمین، مکان اور دوکان کی جائے وقوع کے اعتبار سے قیمت مختلف ہوتی ہے، اور تقسیم کے وقت سب کے اتفاق اور رضامندی سے ہر ایک کا حصہ اس کو دیدیاگیا ہے۔ اس میں تقسیم شریعت کے خلاف کہاں ہوئی ہے?، اس کی نشاندہی کی جانی چاہئے۔ اگر واقعی تقسیم کے وقت علماء سے کوئی چوک ہوئی ہے تو اس کی اصلاح کی جائے گی، ورنہ مذکورہ تقسیم کو بے بنیاد غلط کہنا جائز نہیں ہے۔ جو تقسیم ہوچکی ہے اس میں بار بار تقسیم کا   مطالبہ تکلیف کا باعث ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Fiqh

Ref. No. 3129/46-6008

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   منت کا کھانا صرف غریبوں کے لئے ہوتاہے، اس میں سے مالدار لوگ اور منت ماننے والا  اور اس کے گھروالے نہیں کھاسکتے ؛ جبکہ مسجد کے اندر نماز پڑھنےوالے غریب اور مالدار دونوں طرح کے لوگ ہوتے ہیں، ۔ لہذا صورت مسئولہ میں آپ کا مستحق زکوۃ دس افراد کو کھانا کھلادینا یا دس افراد کے صدقہ الفطر کی مقدار گیہوں یا اس کی قیمت صدقہ کردینا کافی ہوگا۔ اور ایک مستحق کوپورا غلہ یا قیمت دیدیں  یا کئی مساکین میں تقسیم کریں ،دونوں کی اجازت ہے۔ خیال رہے کہ مسجد کے نمازیوں میں سے ہی دس مساکین کوکھانا کھلانا یا صدقہ الفطر کی مقدار دینا ضروری نہیں ہے، بلکہ کوئی بھی مستحق زکوٰۃ ہو اس کو یہ صدقہ دینا کافی ہوگا۔ 

 نذر ‌لفقراء ‌مكة جاز الصرف ‌لفقراء غيرها) لما تقرر في كتاب الصوم أن النذر غير المعلق لا يختص بشيء نذر أن يتصدق بعشرة دراهم من الخبز فتصدق بغيره جاز إن ساوى العشرة) كتصدقه بثمنه۔ مطلب النذر غير المعلق لا يختص بزمان ومكان ودرهم وفقير (قوله لما تقرر في كتاب الصوم) ... فلو نذر التصدق يوم الجمعة بمكة بهذا الدرهم على فلان فخالف جاز وكذا لو عجل قبله فلو عين شهرا للاعتكاف أو للصوم فعجل قبله عنه صح، وكذا لو نذر أن يحج سنة كذا فحج سنة قبلها صح أو صلاة في يوم كذا فصلاها قبله لأنه تعجيل بعد وجود السبب، وهو النذر فيلغو التعيين بخلاف النذر المعلق، فإنه لا يجوز تعجيله قبل وجود الشرط اه.... قلت: وكما لا يتعين الفقير لا يتعين عدده ففي الخانية إن زوجت بنتي فألف درهم من مالي صدقة لكل مسكين درهم فزوج ودفع الألف إلى مسكين جملة جاز. (الدر المختار مع رد المحتار: (740/3، ط: الحلبي)

 [في النذر بالصدقة]النذر إما أن يكون بالصدقة أو بالصوم أو الصلاة أو الاعتكاف فنبدأ بالنذر بالصدقة فنقول: إما أن يعين الوقت بنذره فيقول: لله علي أن أتصدق بدرهم غدا أو يعين المكان فيقول: في مكان كذا أو يعين المتصدق عليه فيقول: على فلان المسكين أو يعين الدرهم فيقول: لله علي أن أتصدق بهذا الدرهم وفي الوجوه كلها يلزمه التصدق بالمنذور عندنا، ويلغو اعتبار ذلك التقييد حتى لو تصدق به قبل مجيء ذلك الوقت أو في غير ذلك المكان أو على غير ذلك المسكين أو بدرهم غير الذي عينه خرج عن موجب نذره . . . . . [وبعد اسطر بَين دليلهم بقوله:] وعلماؤنا - رحمهم الله - قالوا ما يوجبه المرء على نفسه معتبر بما أوجب الله تعالى عليه ألا ترى أن ما لله تعالى من جنسه واجبا على عباده صح التزامه بالنذر وما ليس لله تعالى من جنسه واجبا على عباده لا يصح التزامه بالنذر ثم ما أوجب الله تعالى من التصدق بالمال مضافا إلى وقت يجوز تعجيله قبل ذلك الوقت كالزكاة بعد كمال النصاب قبل حولان الحول وصدقة الفطر قبل مجيء يوم الفطر فكذلك ما يوجبه العبد على نفسه وهذا؛ لأن صحة النذر باعتبار معنى القربة وذلك في التزام الصدقة لا في تعيين المكان والزمان والمسكين والدرهم. (المبسوط للسرخسي: (129/3، ط: دار المعرفة)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Innovations

Ref. No. 3130/46-6007

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مباح امور میں اتنی گنجائش ہوتی ہے کہ اگر ان کو ضروری سمجھ کر یا رسم کے طور پر نہ کیاجائے تو اس میں کوئی گناہ کی بات نہیں ہوتی ہے، اس لئے آپ کا امام صاحب کے ساتھ چند لوگوں کو دعوت دے کر بیان وغیرہ کے بعد کھانا کھلانا رسم یا ضروری سمجھے بغیر  ہے توجائز ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

قرآن کریم اور تفسیر

Ref.  No.  3117/46-6015

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  صحیح قول یہی ہے کہ نبی کریم ﷺ تاحیات دنیویہ لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے، آپ نے کبھی کچھ نہیں لکھا، بلکہ آپ کی وحی اور خطوط وغیرہ لکھنے کے لئے افراد متعین تھے، اور صلح حدیبیہ کے موقع پر مشرکین نے 'رسول اللہ' کا لفظ مٹانے پر اصرار کیا تو معاہدہ کی کتابت کرنے والے صحابی حضرت علی نے معذرت کردی تو بعض حضرات کے مطابق آپ ﷺ نے بطور معجزہ اپنے دست مبارک سے کچھ تحریر فرمایا اور بعض کے مطابق آپ نے تحریر نہیں فرمایا تحریر کا حکم فرمایا۔

بہرحال بقول بعض بطور معجزہ کچھ تحریر کرنا ثابت بھی ہو تو بھی بقیہ زندگی آپ کا اپنے دست مبارک سے کوئی تحریر لکھنا ثابت نہیں ہے۔

قاضی ابولولید باجی اور ان کے متبعین پر فقہاء نے بڑی نکیر کی ہے، اور یہ کہا کہ امام باجی کے قول کا مطلب بھی یہ ہے کہ آپ نے بطور معجزہ لکھاتھا ، یہ مراد بالکل نہیں ہے آپ لکھنا پڑھنا سیکھ گئے تھے، اور یہ حدیث جو نقل کی جاتی ہے کہ "لم یمت علیہ السلام حتی تعلم الکتابۃ" اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔

" وَهَكَذَا كَانَ صَلَوَاتُ اللَّهِ وَسَلَامُهُ عَلَيْهِ دَائِمًا أَبَدًا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَا يُحْسِنُ الْكِتَابَةَ، وَلَا يَخُطُّ سَطْرًا وَلَا حَرْفًا بِيَدِهِ، بَلْ كَانَ لَهُ كُتَّابٌ يَكْتُبُونَ بَيْنَ يَدَيْهِ الْوَحْيَ وَالرَّسَائِلَ إِلَى الْأَقَالِيمِ، وَمَنْ زَعَمَ مِنْ مُتَأَخَّرِي الْفُقَهَاءِ -كَالْقَاضِي أَبِي الْوَلِيدِ الْبَاجِيِّ وَمَنْ تَابَعَهُ- أَنَّهُ عَلَيْهِ السَّلَامُ كَتَبَ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ: "هَذَا مَا قَاضَى عَلَيْهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ" فَإِنَّمَا حَمَلَهُ عَلَى ذَلِكَ رِوَايَةٌ فِي صَحِيحِ الْبُخَارِيِّ: (ثُمَّ أَخَذَ فَكَتَبَ): وَهَذِهِ مَحْمُولَةٌ عَلَى الرِّوَايَةِ الْأُخْرَى: ( ثُمَّ أَمَرَ فَكَتَبَ)، وَلِهَذَا اشْتَدَّ النَّكِيرُ بَيْنَ فُقَهَاءِ الْمَغْرِبِ وَالْمَشْرِقِ على من قال بقول الباجي، وتبرؤوا مِنْهُ، وَأَنْشَدُوا فِي ذَلِكَ أَقْوَالًا وَخَطَبُوا بِهِ فِي مَحَافِلِهِمْ، وَإِنَّمَا أَرَادَ الرَّجُلُ -أَعْنِي الْبَاجِيَّ، فِيمَا يَظْهَرُ عَنْهُ -أَنَّهُ كَتَبَ ذَلِكَ عَلَى وَجْهِ الْمُعْجِزَةِ، لَا أَنَّهُ كَانَ يُحْسِنُ الْكِتَابَةَ، وَمَا أَوْرَدَهُ بَعْضُهُمْ مِنَ الْحَدِيثِ أَنَّهُ لَمْ يَمُتْ عَلَيْهِ السَّلَامُ حَتَّى تَعَلَّمَ الْكِتَابَةَ ، فَضَعِيفٌ لَا أَصْلَ لَهُ ". ( تفسير ابن كثير، ٦/ ٢٨٥ – ٢٨٦)

" وَقَدْ تَمَسَّكَ بِظَاهِرِ هَذِهِ الرِّوَايَةِ - يعني رواية يوم الحديبية - أَبُو الْوَلِيدِ الْبَاجِيُّ فَادَّعَى أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَتَبَ بِيَدِهِ بَعْدَ أَنْ لَمْ يَكُنْ يُحْسِنُ يَكْتُبُ، فَشَنَّعَ عَلَيْهِ عُلَمَاءُ الْأَنْدَلُسِ فِي زَمَانِهِ وَأَنَّ الَّذِي قَالَه مُخَالف الْقُرْآنَ ... وَذكر ابن دِحْيَةَ أَنَّ جَمَاعَةً مِنَ الْعُلَمَاءِ وَافَقُوا الْبَاجِيَّ فِي ذَلِكَ، وَاحْتج بَعضهم لذَلِك بأحاديث، وَأَجَابَ الْجُمْهُورُ عنها بضعفها، وَعَنْ قِصَّةِ الْحُدَيْبِيَةِ بِأَنَّ الْقِصَّةَ وَاحِدَةٌ وَالْكَاتِبُ فِيهَا عَلِيٌّ، وَقَدْ صَرَّحَ فِي حَدِيثِ الْمِسْوَرِ بِأَنَّ عَلِيًّا هُوَ الَّذِي كَتَبَ، فمعنى (كتب) أي : ( أَمَرَ بِالْكِتَابَةِ ) ، وَاللَّهُ أَعْلَمُ " .  (فتح الباري لابن حجر ملخصاً، ٧ / ٥٠٣ – ٥٠٤)

"وَما كُنْتَ تَتْلُوا مِنْ قَبْلِهِ مِنْ كِتابٍ، وَلا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ، إِذاً لَارْتابَ الْمُبْطِلُونَ ( العنکبوت، ٤٨) ٥- النبي محمد صلّى الله عليه وسلّم قبل نزول القرآن كان أمياً لايقرأ ولايكتب بشهادة الكتب السماوية المتقدمة، وبمعرفة قومه الذين عايشوه في مكة مدة أربعين عاماً. وأمّية النبي صلّى الله عليه وسلّم دليل قاطع واضح على أن القرآن كلام الله العزيز الحكيم. ثم ذكر النقاش في تفسير هذه الآية عن الشعبي أنه قال: ما مات النبي صلّى الله عليه وسلّم حتى كتب، وقرأ. وقد ثبت في صحيحي البخاري ومسلم أن النبي في صلح الحديبية كتب بيده: محمد بن عبد الله، ومحا كلمة رسول الله، حينما أصر المشركون على عدم كتابتها. قال القرطبي: الصحيح أنه صلّى الله عليه وسلّم ما كتب ولا حرفاً واحداً، وإنما أمر من يكتب، وكذلك ما قرأ ولا تهجى. وقال: «إنا أمة أمّية لانكتب ولانحسب». رواه الشيخان وأبو داود والنسائي عن ابن عمر". (التفسير المنير للزحيلي،  ٢١ / ١٣)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبن

Fiqh

Ref. No. 3116/46-6017

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  سوال کے تعلق سے  چند چیزوں کی وضاحت مطلوب ہے:۔ 1۔ ممبران سے جو فیس ممبرشپ کےنام سے لی جارہی ہے وہ صرف ایک بار کے لئے ہے یا ہر ماہ ان کو یہ فیس جمع کرنی ہوگی؟ 2۔ یہ بھی وضاحت ضروری ہے ممبران کو واوچرس دینے کے لئے آپ فنڈ کہاں سے مہیا کریں گے۔ 3۔ پروموپیکیج کے ممبران کے درمیان جو قرعہ اندازی ہوگی تو نام نکلنے والے کو عمرہ پر بھیجنے کے لئے فنڈ کا انتظام کہاں سے ہوگا؟ 4۔ اسی طرح بچت ڈائری میں پیسے جمع کرنے والے اپنے پیسے کے مالک ہوں گے اور ان سے کوئی چارج نہیں لیاجائے گا، تو پھر ایک شخص کو مفت میں عمرہ کرنے کے لئے فنڈ کہاں سے آئے گا۔ ان امور کی وضاحت کے بعد ہی سوال پر غور کیاجائے گا ان شاء اللہ۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Family Matters

Ref. No. 3110/46-5085

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  آپ جو کمپنی شروع کرنا چاہتے ہیں، اس میں آپ اپنی ذاتی رقم لگارہے ہیں اور اپنے نفع و نقصان کے خطرہ کے ساتھ شروع کررہے ہیں، دوسرے افراد کی اس میں کسی طرح کی  کوئی شرکت نہیں ہے، اور نہ ہی ان سے کوئی رقم لی گئی ہے ، بلکہ آپ تن تنہا اس کام کو شروع کررہے ہیں تو اس کمپنی کے مالک بھی آپ ہی ہوں گے، اور بعد میں جب موروثی جائداد و کاروبار وغیرہ کی تقسیم ہوگی تو آپ کی کمپنی کے آپ ہی مالک ہوں گے، کسی دوسرے کی اس میں شرکت نہیں ہوگی، اور موروثی جائداد کی تقسیم میں آپ کی کمپنی  تقسیم میں نہیں آئے گی۔ 

حكم الملك ولاية التصرف للمالك في المملوك باختياره ليس لأحد ولاية الجبر عليه إلا لضرورة ولا لأحد ولاية المنع عنه وإن كان يتضرر به إلا إذا تعلق به حق الغير فيمنع عن التصرف من غير رضا صاحب الحق وغير المالك لا يكون له التصرف في ملكه من غير إذنه ورضاه إلا لضرورة." (بدائع الصنائع، کتاب الدعوٰی،فصل في بيان حكم الملك والحق الثابت في المحل،6/263،ط:دارالکتب العلمیۃ)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref.  No.  3108/46-5084

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  قبرستان کے درختوں کا ضرورت مندوں  کی قبروں میں استعمال کرنا جائز ہے۔ یہاں تک کہ اگر کسی غریب کی تجہیز و تکفین کے اخراجات میسر نہ ہوں تو قبرستان کے درختوں کو بیچ کراس کے کفن دفن میں رقم خرچ کرنا بھی درست ہے۔ 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Travel

Ref. No. 3103/46-5096

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  نماز شروع کرتے وقت قبلہ معلوم کرلینا ضروری ہے، ایک بار جب قبلہ کی جانب نماز شروع کردی تو اب اگر دوران نماز قبلہ بدلنامعلوم ہوجائے تو اپنا رخ بھی ادھر ہی کرلے اور اگر نماز میں قبلہ کا بدلنا معلوم نہیں ہوسکا  اور نماز کے بعد چیک کیا تو قبلہ بدل چکا تھا تو اس سے نماز میں کوئی فرق نہیں آئے گا بلکہ  نماز درست ہوگئی۔"و إن اشتبهت علیه القبلة ولیس بحضرته من یسأل عنها اجتہد وصلّی کذا في الهدایة فإن علم أنہ أخطأ بعد ما صلی لا یعیدها،فإن علم أنه أخطأ بعدما صلى لايعيدها وإن علم وهو في الصلاة استدار إلى القبلة وبنى عليها. كذا في الزاهدي وإذا كان بحضرته من يسأله عنها وهو من أهل المكان عالم بالقبلة فلا يجوز له التحري ،ولو كان بحضرته من يسأله عنها فلم يسأله وتحرى وصلى فإن أصاب القبلة جاز وإلا فلا."  (الھندیۃ، كتاب الصلوة، الفصل الثالث في استقبال القبلة،ج:1،ص:64،ط:دارالفكر)

"وإن شرع بلا تحرّ لم یجز وإن أصاب لترکه فرض التحري، إلا إذا علم إصابته بعد فراغه فلا یعید اتفاقًا." (شامی، کتاب الصلوۃ،باب شروط الصلوۃ،مطلب في ستر العورة۔ج:1،ص:435،ط:سعید)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Divorce & Separation

Ref. No. 3102/46-5097

In the name of Allah the most Gracious het most Merciful

The answer to your question is as follows:

If a husband and wife have a disagreement, and the husband has not explicitly or implicitly issued a divorce, they remain legally married, and the marriage is still valid. Merely living apart for several years does not constitute a divorce. However, if the husband has issued a divorce or made any indication with the intention of divorce, please provide clear details in writing before asking the question again.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband