Frequently Asked Questions
مساجد و مدارس
Ref. No. 3422/47-9330
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔مسجد شرعی کے حدود کے باہرمسجد کی اس زمین کوجس کی ابھی ضرورت نہیں ہے، اگر ٹاورکمپنی کو کرایہ پر دیدیا جائے اور اس کی آمدنی کو مسجد کے مصالح میں صرف کیا جائے تو اس کی گنجائش ہے۔ البتہ کسی ایسے حصہ کو کرایہ پر نہ دیاجائے جس سے تلویث مسجد یا توہین مسجد کا اندیشہ ہو۔
(و) كره تحريماً (الوطء فوقه، والبول والتغوط)؛ لأنه مسجد إلى عنان السماء، (واتخاذه طريقاً بغير عذر)، وصرح في القنية بفسقه باعتياده، (وإدخال نجاسة فيه)، وعليه (فلا يجوز الاستصباح بدهن نجس فيه) ولا تطيينه بنجس، (ولا البول) والفصد (فيه ولو في إناء) ۔ (قوله: الوطء فوقه) أي الجماع خزائن؛ أما الوطء فوقه بالقدم فغير مكروه، إلا في الكعبة لغير عذر؛ لقولهم بكراهة الصلاة فوقها. ثم رأيت القهستاني نقل عن المفيد كراهة الصعود على سطح المسجد اهـ ويلزمه كراهة الصلاة أيضاً فوقه، فليتأمل، (قوله: لأنه مسجد) علة لكراهة ما ذكر فوقه. قال الزيلعي: ولهذا يصح اقتداء من على سطح المسجد بمن فيه إذا لم يتقدم على الإمام. ولا يبطل الاعتكاف بالصعود إليه ولا يحل للجنب والحائض والنفساء الوقوف عليه؛ ولو حلف لا يدخل هذه الدار فوقف على سطحها يحنث اهـ (قوله: إلى عنان السماء) بفتح العين، وكذا إلى تحت الثرى كما في البيري عن الإسبيجابي''۔(شامی، 1 / 656، مطلب فی احکام المسجد، باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا، ط:سعید)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
عائلی مسائل
Ref. No. 3413/46-9299
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ (۱) مشترکہ خاندانی نظام میں بیٹے باپ کو رقوم دینے یا بھیجنے میں اس کے حوالے سے عرف یہی ہے کہ وہ رقوم باپ ہی کی ملک سمجھی جاتی ہیں ، لہٰذا ایسی رقوم اور ان کے ذریعہ خریدی گئی جائیداد باپ ہی کی ملکیت شمار ہوگی اور ان کی وفات کے بعد ان کے وفات کے وقت زندہ وارثین میں شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگی لہٰذا مذکورہ 2400 اسکوائر فٹ کا پلاٹ وراثت میں شمار ہوگا۔(۲ )مگر مذکورہ پلاٹ پر مکان بنانے میں جو بھی خرچ دونوں بھائیوں نے از خود کیا ہے وہ دونوں بھائی مکان کے تبدیل کا خرچہ منہا کر سکتے ہیں۔
إذا عمل رجل في صنعة هو وابنه الذي في عياله مجميع الكسب لذلك الرجل ولده بعد معينا له فيه قيدان احتراز بان كما تشير عبارة المتن الأول أن يكون الابن في عياله الأب الثاني أن يعملا معا في صنعة واحدة إذ لو كان لكل منهما صنعة يعمل فيهما وحده فريحه له (شرح المجلة: سم باز المبحث الثاني: ج 2، ص: 582، ماده: 1398، رشيديه)
(۳) پورے پلاٹ کی قیمت کے چودہ حصے کئے جائیں گے جن میں سے ٢/٢ حصے پر بھائی کے اور ایک ایک حصہ پر ایک بہن کا حق ہوگا۔
(۴) اگر مذکورہ دوکانیں بھائیوں کی کمائی سے بنی ہیں تو دوکان کی تقسیم کے وقت کی قیمت کے مٹیریل کے لئے ان ہی کی رضا کافی ہوگی مگر زمین پر ملکیت منتقل کرنے کے حق میں تمام وارثین کا راضی ہونا ضروری ہوگا بہر صورت مسجد کی ملکیت کے لئے مسجد کے نام رجسٹری یا مسجد انتظامیہ کو سپرد یعنی قبضہ کرانے سے پوری ہوگی جو ابھی تک عمل میں نہیں آیا، لہٰذا اب مسجد کی ملکیت تمام وارثین مستحقین کی رضا پر موقوف ہوگی اور ایک مرتبہ راضی ہوکر پلٹ جانا اخلاقا مذموم ہے۔
(۵) والد کی ملکیت والے گھر کو یقیناً سب وارثین کے ما بین مذکورہ تقسیم کے مطابق تقسیم کیا جائے گا زبانی وعدہ کافی نہیں ہوگا ہاں باپ نے کسی ایک یا دو بھائیوں کو م کسی مکان یا زمین کا مالک اور قابض بھی بنا دیا تھا تو پھر وہی بھائی اس مکان و زمین کے مالک ہوں گے باقی کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہوگا کیونکہ زندگی میں والد اپنی جائیداد کا مالک ومختار ہوتا ہے جس کو جتنا چاہے دے سکتاہے۔ تاہم دیگر ورثا کو بالکلیہ محروم کردینا گناہ ہے۔ (شامی: ’’وتنح الہبۃ بالقبض الکامل‘‘: ج ٥، ص: ٦٩٠، سعید)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 3424/47-9325
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ سج علاقہ میں مستقل عید گاہ نہیں ہے وہاں کے لوگ اگر آبادی سے باہر کسی میدان میں جمع کوہر عید کی نماز اداکریں تو نماز درست ہوگی لیکن اس سے عید گاہ کی سنت ادا نہ ہوگی۔ اور عید کی نماز ہوجانے کے بعد اس میدان کو پہلے کی طرح استعمال کیا جاسکتاہے، اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔ جو لوگ اس میدان میں نہیں آئے اور مسجد میں عید کی نماز اداکی ان کی نماز بھی درست ہوگئی۔ البتہ عید گاہ کی سنت عیدگاہ میں پڑھنے سے ہی حاصل ہوگی۔ اس لئے مقامی حضرات کو چاہئے کہ عیدگاہ کا جلد از جلد انتظام کریں۔
ولو صلی العید فی الجامع ولم یتوجہ الی المصلی فقد ترک السنۃ (البحرالرائق ج2 ص278)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 3425/47-9323
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ اسلام میں نکاح ایک پاکیزہ رشتے کا نام ہے،اسلام نے اس کی پائداری پر زور دیا ہے، اور اس کے لیے باہمی الفت ومحبت اور دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کی تلقین کی ہے لیکن اگر کسی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان نااتفاقی ہونے لگے تو پہلے دونوں خاندان کے بزرگ کو صلح کرانے کی کوشش کرنی چاہیے؛ کیوںکہ اسلام میں طلاق ناپسندیدہ فعل ہے اور بلا ضرورت اسکا استعمال درست نہیں ہے۔ پھر بھی اگر نباہ کی کوئی صورت نہ بن سکے اور فتنہ وفساد کا اندیشہ ہو تو ایک طلاق صریح دے کر دونوں کو الگ ہو جانے کا حکم ہے۔ ایک طلاق کے بعد اگر دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو عدت میں رجوع کے ذریعہ اور عدت کے بعد نکاح کے ذریعہ دونوں ساتھ رہ سکتے ہیں۔ ایک ساتھ تین طلاق دینا شرعاً گناہ ہے اور ملکی قانون کے مطابق قابل مواخذہ جرم ہے۔
بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں عورت پر طلاق مغلظہ واقع ہوگئی اور شوہر پر حرام ہوگئی، اب دونوں کا ایک ساتھ رہنا ہرگز جائز نہیں ہے۔ عورت پر تین ماہواری کی عدت گزارنا لازم ہے۔ عدت پوری ہونے م کے بعد اپنی مرضی سے جہاں چاہے کسی دوسرے مرد سے نکاح کرسکتی ہے۔
على المبتوتة والمتوفى عنها زوجها إذا كانت بالغة مسلمة الحداد في عدتها كذا في الكافي. والحداد الاجتناب عن الطيب والدهن والكحل والحناء والخضاب ولبس المطيب والمعصفر والثوب الأحمر وما صبغ بزعفران إلا إن كان غسيلا لا ينفض ولبس القصب والخز والحرير ولبس الحلي والتزين والامتشاط كذا في التتارخانية» (الھندیۃ، کتاب الطلاق، الباب الرابع عشر فی الحداد،1/ 533، المطبعة الكبرى الأميرية)
"وإن کان الطلاق ثلاثاً في الحرة وثنتین في الأمة لم تحل ل حتی تنکح زوجًا غیره نکاحًا صحیحًا ویدخل بها، ثم یطلقها أو یموت عنها". (کتاب الطلاق، الباب السادس،1/535، ط: زکریاجدید)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 3450/47-9328
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں شوہر نے رخصتی سے قبل جو طلاق دی تھی اس سے عورت بائنہ ہوگئی تھی، اور نکاح ختم ہوگیا تھا، اور وہ لڑکی آپ کی بیوی باقی نہیں رہ گئی تھی۔ آپ کو تجدید نکاح کا حکم ہوا تو آپ نے تجدید نکاح نہیں کیا، پھر شادی یعنی رخصتی ہوئی؛ ظاہر ہے کہ یہ رخصتی بلانکاح شرعا غلط تھی، جب نکاح ہی باقی نہ رہا تو رخصتی بے معنی ہوئی۔ آپ کوتجدید نکاح کرنی چاہئے تھی۔ البتہ اب بھی آپ دونوں آپسی رضامندی سے تجدید نکاح کرکے ایک ساتھ رہ سکتے ہیں۔ تاہم خیال رہے کہ ایک طلاق رخصتی سے قبل ہی واقع ہوچکی ہے، لہذا آئندہ آپ کو مزید صرف دو طلاقوں کا اختیار رہے گا۔ بلا شرعی مجبوری کے طلاق دینا شرعا پسندیدہ نہیں ہے، اس لئے آئندہ طلاق دینے سے لازمی احتراز کریں۔ اگر کوئی بات پیش آجائے تو اہل خانہ سے مشورہ کرکے ہی کوئی قدم اٹھائیں۔
"(وَإِنْ فَرَّقَ) بِوَصْفٍ أَوْ خَبَرٍ أَوْ جُمَلٍ بِعَطْفٍ أَوْ غَيْرِهِ (بَانَتْ بِالْأُولَى) لَا إلَى عِدَّةٍ (وَ) لِذَا (لَمْ تَقَعْ الثَّانِيَةُ)(ردالمحتار شامی، "(3/286، با ب طلاق غیر المدخول بھا، ط؛ سعید)
{لَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ مَا لَمْ تَمَسُّوهُنَّ أَوْ تَفْرِضُوا لَهُنَّ فَرِيضَةً وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ مَتَاعًا بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِينَ (236) وَإِنْ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوهُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِيضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ إِلَّا أَنْ يَعْفُونَ أَوْ يَعْفُوَ الَّذِي بِيَدِهِ عُقْدَةُ النِّكَاحِ وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَلَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ إِنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (237)} [البقرة]
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 3426/47-9326
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ واضح ہو کہ خلع بھی دیگر مالی معاملات کی طرح ایک معاملہ ہے۔ اور مالی معاملات کے درست ہونے کے لئے عاقدین کی رضامندی شرعا ضروری ہوتی ہے۔ اسی طرح خلع کے معتبر ہونے اور درست ہونے کے لئے بھی زوجین کی رضامندی شرعاً ضروری ہے۔صورت مسئولہ میں چونکہ شوہر کی رضامندی شامل نہیں تھی، اس وجہ سے مذکورہ خلع ایک طرفہ ہے جو شرعا معتبر نہیں ہوگا۔ لہذا آپ کا نکاح بدستور باقی ہے، تجدید نکاح کی ضرورت نہیں ہے۔
فقالت خلعت نفسی بکزا ففی ظاھر الروایۃ لایتم الخلع مالم یقبل بعدہ (شامی، کتاب الطلاق، باب الخلع 3/440 سعید)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 3427/47-9324
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ حضرات انبیا کے علاوہ کسی کا بھی خواب شریعت میں حجت نہیں ہے۔ لہذا مذکورہ بزرگ ،خواب میں خلافت ملنے کا دعوی کرنے سے مرحوم بزرگ کے خلیفہ نہیں ہوں گے۔ اور نہ ان کو اس سلسلہ سے دوسروں کو بیعت کرنے کا حق حاصل ہوگا۔
ثم رویا عبداللاہ بن زید الخ بان غیرالانبیائ لایبنی علیھا حکم شرعی (شامی، ج۱ ص ۳۸۳)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Slaughtering / Qurbani & Aqeeqah
Ref. No. 3420/46-9294
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ مسلمان عام طور پر حلال و حرام کی تمیز رکھتاہے اور حرام مال سے قربانی نہیں کرتاہے، اور ہم کو کسی کے بارے میں تحقیق کا حکم بھی نہیں ہے۔ اس لئے جب تک یقینی طور پر معلوم نہ ہو کہ کوئی حصہ دار حرام آمدنی والا ہے تب تک دیگر شرکاء کی قربانی کے نہ ہونے کا حکم نہیں لگایا جاسکتا۔ لیکن اگر کسی کے بارے میں یقینی طور پر معلوم ہوجائے کہ اس کی کُل یا اکثر آمدنی حرام ہے تو پھر اسے قربانی کے جانور میں شریک کرنا درست نہیں ہے۔ اب اگر اجتماعی قربانی کرانے والوں کو اس کا علم تھا اس کے باوجود انہوں نے حرام آمدنی والوں کو شریک کرلیاتو اس کا وبال انہیں پر ہوگا۔ دیگر شرکاء کو چونکہ اس کا علم ہی نہیں ہوگا، لہٰذا ان پر اس کا وبال نہیں ہوگا۔
وَإِنْ كَانَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ صَبِيًّا أَوْ كَانَ شَرِيكُ السَّبْعِ مَنْ يُرِيدُ اللَّحْمَ أَوْ كَانَ نَصْرَانِيًّا وَنَحْوَ ذَلِكَ لَا يَجُوزُ لِلْآخَرَيْنِ أَيْضًا كَذَا فِي السِّرَاجِيَّةِ.وَلَوْ كَانَ أَحَدُ الشُّرَكَاءِ ذِمِّيًّا كِتَابِيًّا أَوْ غَيْرَ كِتَابِيٍّ وَهُوَ يُرِيدُ اللَّحْمَ أَوْ يُرِيدُ الْقُرْبَةَ فِي دِينِهِ لَمْ يُجْزِئْهُمْ عِنْدَنَا؛ لِأَنَّ الْكَافِرَ لَا يَتَحَقَّقُ مِنْهُ الْقُرْبَةُ، فَكَانَتْ نِيَّتُهُ مُلْحَقَةً بِالْعَدَمِ، فَكَأَنْ يُرِيدَ اللَّحْمَ وَالْمُسْلِمُ لَوْ أَرَادَ اللَّحْمَ لَا يَجُوزُ عِنْدَنَا۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٥/٣٠٤)
الْيَقِينُ لاَ يَزُول بِالشَّكِّ۔ (الاشباہ والنظائر : ۱/۲۲۰)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Miscellaneous
Ref. No. 3419/46-9298
In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful
The answer to your question is as follows:
In the case presented, the condition requiring a thirty-day prior notice is considered fāsid (invalid) according to Islamic law. However, it still constitutes a significant mutual agreement, and both parties were morally and religiously obligated to honor it. Therefore, any party found to have violated this agreement will be deemed sinful.
عن أبي ہریرة قال قال رسول اللہ - صلی اللہ علیہ وسلم- آیة المنافق ثلاث إذا حدّث کذب، وإذا وَعَدَ أخلف وإذا ائتمن خان (مشکوۃ 1/17م باب الکبائر وعلامات النفاق)
Nevertheless, it is not permissible in Shariah to impose or collect any financial penalty as a consequence of this violation. Such penalties are regarded as unlawful (harām).
: وفی شرح الآثار التعزیر بالمال کان ابتدائ الاسلام ثم نسخ والحاصل ان المذھب عدم التعزیر باخذالمال (البحر الرائق 4/41 فصل فی التقریر سعیدکراچی)
And Allah knows best.
Darul Ifta Darul Uloom Waqf, Deoband
Business & employment
Ref. No. 3418/46-9293
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ اس طرح کے کاروبار میں جس نے اپنی محنت سے اپنے نیچے کسی کو جوڑا اور اس کی وجہ سے اس کو کوئی رقم ملتی ہے تو وہ جائز ہے، لیکن اس کے بعد والوں پر چونکہ آپ کی کوئی محنت نہیں ہے اس لئے ان سے فائدہ حاصل کرنا جائز نہیں ہے۔ مثلا بکر نے محنت کرکے علی کو جوڑا تو علی کی وجہ سے اگر اس کو کچھ رقم ملتی ہے تو ٹھیک ہے، اسی طرح علی نے زید پر محنت کی تو زید کی وجہ سے اگر علی کو نفع پہونچے تو درست ہے لیکن زید کی خریداری کی وجہ سے بکر کو اگر نفع پہنچتاہے تو یہ غلط ہے کیونکہ بکر کی زید پر کوئی محنت نہیں ہے۔ یہ ملٹی لیول مارکیٹنگ کا بزنس ماڈل چین در چین کمیشن کا ہے جس کی مختلف شکلیں ہر روز وجود میں آتی ہیں، اور اس کو ناجائز قرار دیاگیا ہے۔
"عن سعيد بن عمير الأنصاري قال: سئل رسول الله صلّى الله عليه وسلّم أيّ الكسب أطيب؟ قال:عمل الرجل بيده، وكلّ بيع مبرور." (شعب الإيمان (2/ 84، التوكل بالله عز وجل والتسليم لأمره تعالى في كل شيء ،ط:دار الكتب العلمية)
"قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام." (فتاوی شامی ، (6/ 63، کتاب الاجارہ، باب الاجارۃ الفاسدہ، مطلب فی اجرۃ الدلال، ط: سعید)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند