طلاق و تفریق

Ref. No. 3274/46-8089

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ کو 'تیاگ' کا معنی معلوم تھا کہ اس کے معنی چھوڑنے کے آتے ہیں، پھر بھی آپ نے اپنی بیوی کے لئے اس کا استعمال کیا، جس طرح اردو میں چھوڑنا طلاق کے لئے صریح ہے، اسی طرح ہندی کا لفظ 'تیاگ' بیوی کی جانب منسوب کرکے بولنا بھی صریح ہی ہے، اس لئے صورت مسئولہ میں ایک طلاق واقع ہوگئی، خیال رہے کہ مذاق میں بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ ان الفاظ کے بولنے سے پہلے مسئلہ معلوم کرنا چاہئے ۔ ایک طلاق کے بعد دورانِ عدت رجعت کرکے دونوں میاں بیوی ایک ساتھ رہ سکتے ہیں، اور اگر عدت (تین ماہواری) گزرچکی ہے توآپسی رضامندی سے دوبارہ نکاح کرکے ایک ساتھ رہ سکتے ہیں۔

اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ۪ فَاِمْسَاکٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌۢ بِاِحْسَانٍ۔۔۔۔الخ (القرآن الکریم: (البقرة، الآیۃ: 229) واذا طلق الرجل امراتہ تطلیقة رجعیة او تطلیقتین فلہ ان یراجعھا فی عدتھا۔ (الھدایة: (کتاب الطلاق، 394/2) فان طلقھا ولم یراجعھا بل ترکھا حتی انقضت عدتھا بانت وھذا عندنا۔ (بدائع الصنائع: (180/3) اذا کان الطلاق بائنا دون الثلاث فلہ ان یتزوجھا فی العدۃوبعد انقضاءالعدۃ۔ (الفتاوی الھندیۃ: (473/1)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 3273/46-8093

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اللہ تعالی نے سب کو پیدا کیا اور وہی سب کی تقدیر لکھنے والا اور بھلائی برائی کی تمیز دینے والا ہے،  دنی میں جو کچھ کسی بندے وہ وہ عطاکرتاہے اس کا فضل ہے، وہ جب چاہے کسی  کو کوئی نعمت دیدے اور جب چاہے کسی سے کوئی نعمت  سلب کرلے، وہ فعال لمایرید ہے، وہ کسی کا محتاج نہیں اور کسی کے غلط یا صحیح کرنے سے اس کی ذات میں کوئی فرق نہیں آتاہے۔ اس نے بندوں کو نیکی کا حکم کیا ہے اور برائیوں سے ہر حال میں دور رہنے کی تلقین کی ہے، اگر کوئی بندہ پھر بھی گناہ کرتاہے اور اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کرتاہے تو اللہ تعالی اس کو دنیا میں بھی سزا دے سکتاہے اور یہ بھی ہوسکتاہے کہ دنیا میں چھوڑدے لیکن  آخرت میں اس کو سزا دے۔تاہم یہ حقیقت ہے کہ گناہ سے زیادہ کسی کو سزا نہیں ملتی ہے ،کیونکہ گناہ پر سزا اور مصیبت کے تعلق سے اللہ تعالی کے یہاں ضابطہ عدل کا ہے اور اگر گناہ کرے اور اس پر سزا نہ ملے نہ دنیا میں نہ آخرت میں تو یہ اللہ کا فضل ہے۔  کس کو سزا دینی ہے اور کس کو معاف کرنا ہے  اور کس کو کس گناہ پر کتنی سزا دینی ہے وغیرہ یہ سب اس کے اختیار میں ہے، بندے صرف اس کے پابند ہیں کہ اللہ کے احکام کو بجالائیں اور اس میں کوئی کوتاہی نہ کریں، اور ہر وقت اس کی جستجو میں رہیں کہ اللہ کی مرضی کیسے حاصل کی جائے۔ پھر دوسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالی بعض بندوں کو آزمائش میں ڈالتے ہیں اور اس میں ان سے گناہوں کو مٹاتے ہیں یا پھر یہ مشکلات زندگی، آخرت میں ان کےلئے رفع درجات کا سبب ہوتی ہیں۔  یہ تمام باتیں احادیث میں بہت تفصیل سے آئی ہیں کہ دنیا کی مشکلات کا اجر جب کل قیامت میں ملے گا تو آدمی یہ خواہش کرے گا کہ کاش دنیا میں اس کو کوئی راحت میسر نہ ہوتی وغیرہ۔ اس لئے آپ اللہ کے فیصلوں پر کوئی سوال قائم نہ کریں  اور اس کے بارے میں بالکل نہ سوچیں، بلکہ اپنی حالت بہتر سے بہتر کرنے کی کوشش کریں اور اللہ سے اچھے کی امید رکھیں کہ اللہ تعالی جو بھی کرتے ہیں وہ ہماری بھلائی کے لئے ہوتاہے گرچہ اس کے پیچھے سبب کا علم ہم کو نہ ہو۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Divorce & Separation

Ref. No. 3267/46-8069

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔

اذا کان السؤال المذکور صحیحا، فقد وقعت على المرأة ثلاث تطلیقات وفقا لاحکام الشریعۃ الاسلامیۃ، مماادى إلى انقطاع عقد النكاح بشكل نهائي. وبذلك أصبح العيش مع الزوج السابق وإقامة العلاقة الجسدية معہ حرامًا قطعیا۔ ومما یجب ان یعلم ان عدة المرأة تبدأ من وقت وقوع الطلاق وذلک فی شھر فبرائر، وتكتمل بانقضاء ثلاث حيضات. وبعد انتهاء العدة کاملا، المرأة تختار في الزواج بمن تشاء.

قال تعالی: فإن طلقها (بالتطلیقۃ الثالثۃ) فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره (سورۃ البقرۃ الآیۃ 230). إذا طلق واحدة أو ثنتين فله الرجعة ما لم تنقض العدة کما قال سبحانہ وتعالی: الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ، اما اذا طلقھا الثالثۃ فلا تحل للزوج ان یصاحبھا، قال تعالی: فإن طلقهاای بالثالثة فلا رجعة له عليها حتى تنكح زوجا غير ۔  و عدة المرأة تبدأ من وقت وقوع الطلاق وھی ثلاث حیضات کما قال تعالی: والمطلقات يتربصن بأنفسهن ثلاثة قروء (سورۃ البقرۃ 228)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 3270/46-6068

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔نیٹ ورک مارکیٹنگ کمپنی میں شامل ہونے اور اس سے نفع حاصل ہونے کی جو شکلیں رائج ہیں وہ سب غیرشرعی اور ناجائز ہیں۔ اس لئے کہ نیٹ ورک مارکیٹنگ کمپنی کا ممبر بننے کے لئےایک متعینہ رقم اداکرکے اس کی مصنوعات خریدنے کی شرط ہوتی ہے جوغیر شرعی شرط ہے۔ اسی طرح  ممبرسازی بڑھنے پر بالواسطہ اور بلاواسطہ کمیشن بھی ملتارہتاہے جس میں آپ کو بلاکسی عمل کے بھی   کمیشن ملتاہے جو ناجائز ہے۔ نیزاس کمپنی کی مصنوعات کی ماہانہ خریداری  کی صورت میں ہی آپ کمیشن کے مستحق ہوں گے۔ اس لئے ان تمام مفاسد کی بناء پر کسی بھی نیٹ ورک مارکیٹنگ میں جس کی یہ صورت ہو شامل ہونا ، ممبربننا، کمیشن لینا اور ان کے ساتھ کاروبار کرنا شرعا جائز نہیں ہے۔آپ نے جس کمپنی کا ذکر کیا ہے ہمیں اس کے  طریقہ کار کا کچھ علم نہیں ہے۔ اس لئے اگر  آپ کی کمپنی  کا طریقہ کار کچھ مختلف ہو تو دوبارہ پوری تفصیل کے ساتھ سوال بھیجیں تاکہ اسی کے مطابق جواب لکھاجائے۔

قال اللہ تعالی:﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴾(سورۃ المائدۃ:90) 

لأن القمار من القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى، وسمي القمار قمارا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص۔(رد المحتار، كتاب الحظر والإباحة، باب الإستبراء وغيره، فصل في البيع ، ج:9 ص:577)

 فلو جوزناه لكان استحقاقا بغير عمل ولم يرد به الشرع۔(الھدایة،کتاب المساقاۃ،ج:4،ص:430)

الأمور بمقاصدھا:یعني أن الحکم الذی یترتب علی أمر یکون علی ما ھو المقصود من ذالک الأمر۔(شرح المجلة لسلیم رستم باز،المقالة الثانیة فی بیان القواعد الفقہیة،المادۃ:2،ص:(17

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Miscellaneous

Ref. No. 3266/46-6067

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ (1)  والدہ  مرحومہ  کے مال میں جتنے سالوں کی زکوۃ باقی ہے ، اس کی ادائیگی کے لئے یا اگر ان کے ذمہ کچھ نمازیں قضا تھیں ان کے فدیہ کےسلسلہ میں شرعی حکم یہ ہے  کہ اگر انہوں نے اپنے مال سے زکوۃ کی ادائیگی کی یا نمازوں کے فدیہ کی وصیت کی ہے تو ان کے ترکہ سے قرضوں کی ادائیگی کے بعد  باقی  ماندہ  مال  کے ایک تہائی مال سے زکوۃ اور نمازوں کا فدیہ ادا  کیا جائے گا اور اگر ورثاء بالغ ہیں تو  اس سے زیادہ  بھی اپنی مرضی سے بطورِ تبرع  دے  سکتے ہیں، تاہم اگر مرحومہ نے ایسی کوئی  وصیت نہیں کی ہے تو  ورثاء کے ذمہ اس کی زکوۃ ادا  کرنا ضروری تونہیں  ہے،البتہ  اگر ورثہ بطورِ تبرع اپنی خوشی سے دے دیں تو مرحومہ پر احسان ہوگا اور دینے والے بھی اجر عظیم کے مستحق ہوں گے ان شاء اللہ۔(2) خیال رہے کہ زکوٰۃ کی ادائیگی یا نمازوں کے فدیہ کی ادائیگی مرحومہ کے ذمہ تھی، والد صاحب پر نہیں تھی، ان کو اپنی حیات میں ہی اداکرنی تھی یا وصیت کرنی ضروری تھی۔ (3) نیز زکوۃ کی ادائیگی سال گزرنے پر واجب ہوتی ہے، اس لئے اگر 2024 میں سال گرنے کا وقت ہوچکاتھا تو ادائیگی ان پر لازم تھی ورنہ نہیں۔ (4)  اب والدہ کی وفات کے بعد ان کا ترکہ ورثہ کی ملکیت ہے۔ ہر ایک اپنے حصہ پر قبضہ پانے کے بعد اس کا مالک ہوگا اور  ہر صاحب نصاب پراپنے مال کے ساتھ اضافہ شدہ مال کی زکوۃ  بھی واجب ہوگی۔ (5) والدہ کو باربارخواب میں دیکھنا اس بات کی علامت ہے کہ وہ آپ سے ایصال ثواب کے انتظار میں ہیں، اس لئے آپ بقدر استطاعت صدقہ کرتی رہیں اور تلاوت کرکے ثواب پہونچاتی رہیں۔

"وأما دين الله تعالى فإن أوصى به وجب تنفيذه من ثلث الباقي وإلا لا۔ وفی الرد: قوله وأما دين الله تعالى إلخ) محترز قوله من جهة العباد وذلك كالزكاة والكفارات ونحوها قال الزيلعي فإنها تسقط بالموت فلا يلزم الورثة أداؤها إلا إذا أوصى بها؛ أو تبرعوا بها هم من عندهم، لأن الركن في العبادات نية المكلف وفعله، وقد فات بموته فلا يتصور بقاء الواجب اهـ" (شامی، کتاب الفرائض ، 6/ 760)

"أنه لو مات من عليه الزكاة لاتؤخذ من تركته لفقد شرط صحتها، وهو النية إلا إذا أوصى بها فتعتبر من الثلث كسائر التبرعات." (البحر الرائق شرح كنز الدقائق، كتاب الزكوة، شروط اداء الزكوة، ج:2، ص:227، ط:دارالكتاب الاسلامى)

"إذا كان لرجل مائتا درهم أو عشرون مثقال ذهب فلم يؤد زكوته سنتين يزكي السنة الأولى و كذا هكذا في مال التجارة و كذا في السوائم·" (بدائع الصنائع، بدائع الصنائع، كتاب الزكوة ۲/ ۷ ط: سعيد)

"(وقيمة العرض) للتجارة (تضم إلى الثمنين)؛ لأن الكل للتجارة وضعاً وجعلاً (و) يضم (الذهب إلى الفضة) وعكسه بجامع الثمنية (قيمة)."الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)   ٢ / ٣٠٣، ط: دار الفكر)

'' وعن سعد بن عبادة قال: يا رسول الله إن أم سعد ماتت، فأي الصدقة أفضل؟ قال: «الماء» . فحفر بئراً وقال: هذه لأم سعد. رواه أبو داود والنسائي''۔ (مشكاة المصابيح (1/ 597)

''عن أبي هريرة، أن رجلاً قال للنبي صلى الله عليه وسلم: إن أبي مات وترك مالاً، ولم يوص، فهل يكفر عنه أن أتصدق عنه؟ قال: «نعم»''۔ (صحيح مسلم (3/ 1254)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

روزہ و رمضان

Ref. No. 3265/46-8094

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سحر و افطار کے اوقات میں مذکورہ احتیاط درست بلکہ ضروری ہے، اس لئے کہ جنتری کے اوقات میں پانچ چھ منٹ  تو عام طور پر مختلف جنتریوں کا فرق رہتاہے، چنانچہ تھانویؒ نے دس منٹ کے احتیاط کو ضروری قرار دیاہے ، لکھتے ہیں: نقشہ ہذا میں صبح صادق کا وقت جو درج ہے وہ علم ہیئت جدید اور مشاہدہ سے بالکل ابتدائے صبح ہے مگر احتیاطا لازم ہے کہ صبح کی اذان کم از کم دس منٹ بعد ہی کہی جائے ، سحری بیس منٹ پہلے ہی ختم کردی جائے، اس میں بداحتیاطی سے کام نہ لیاجائے۔ (بوادرالنوادر 429)۔ اس لئے مذکورہ احتیاط بالکل درست ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 3269/46-8075

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

In matters of Waqf, it is crucial to respect the intent of the donor (Waqif), and the land dedicated for a specific purpose must be utilized strictly for the same purpose. Consequently, land designated as a cemetery for the burial of the deceased cannot be repurposed or incorporated into an Eidgah.

However, if the cemetery is extensive and the portion of land near the Eidgah under consideration is clearly not required for burial purposes now or in the foreseeable future (e.g., the next 10-20 years), certain conditions may permit its use. This would only be allowed if the graves in that area are very old and the buried remains have fully decomposed into the soil. In such cases, a few graves may be leveled, and the land incorporated into the Eidgah.

If, on the other hand, the graves are relatively recent, it would not be permissible to include that portion of the cemetery in the Eidgah premises.

قد تقرر عند الفقہاء أن مراعاة غرض الواقفین واجبة و أن نص الواقف کنص الشارع، کذا في عامة کتب الفقہ والفتاوی،مستفاد:البقعة الموقوفة علی جھة إذا بنی رجل فیھا بناء ووقفھا علی تلک الجھة یجوز بلا خلاف تبعاً لھا، فإن وقفھا علی جھة أخری ، اختلفوا في جوازہ ، والأصح أنہ لا یجوز(الفتاوی الھندیة، ۲: ۳۶۲،ط:المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)عن الغیاثیة) اھ، وإن اختلف أحدھما بأن بنی رجلان مسجدین أو رجل مسجداً ومدرسة ووقف علیھما أوقافاً لا یجوز لہ ذلک (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الوقف، ۶: ۵۵۱،ط: مکتبة زکریا دیوبند)، قال الخیر الرملي: أقول: ومن اختلاف الجھة ما إذا کان الوقف منزلین أحدھما للسکنی والآخر للاستغلال، فلا یصرف أحدھما إلی الآخر، وھي واقعة الفتوی اھ (رد المحتار ۶: ۵۵۱)۔

"قال ابن القاسم: لو أن مقبرة من مقابر المسلمین عفت، فبنی قوم فیها مسجدًا لم أر بذٰلک بأسًا؛ لأن المقابر وقف من أوقاف المسلمین لدفن موتاهم، لا یجوز لأحد أن یملکها، فإذا درست واستغنی عن الدفن فیها جاز صرفها إلی المسجد؛ لأن المسجد أیضًا وقف من أوقاف المسلمین لا یجوز تملیکه لأحد، فمعناهما واحد. وأما المقبرة الداثرة إذا بُني فیها مسجد لیصلي فیها، فلم أر فیه بأسًا؛ لأن المقابر وقف، وکذا المسجد فمعناهما واحد". (عمدة القاري شرح صحیح البخاري / باب هل تنبش قبور مشرکي الجاهلیة ویتخذ مکانها مساجد ۴؍۱۷۴And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

متفرقات

Ref. No. 3260/46-8071

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مذکورہ میں آپ صرف اپنے تین لاکھ روپئے اور تین تولہ سونا واپس لے سکتے ہیں، مزید نفع کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے، اس لئے کہ بیع فاسد میں مشتری صرف اپنے ثمن کا  ہی حق دار ہوتاہے، مزید کسی چیز کا بھی حق دار نہیں ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 3264/46-8076

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں جملہ نمبر چار اور پانچ سے دو طلاقیں واقع ہوئیں لیکن آخری جملہ میں صرف لفظ طلاق  کس موقع پر بولا گیا اگر طلاق کی بات کے دوران بولا گیا تو اس سے تیسری طلاق واقع ہوجائے گی۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Fasting & Ramazan

Ref. No. 3263/46-8077

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ (1) اگر آپ نے اپنے دوستوں سے صرف وعدہ کیاتھا کہ اب میں کرکٹ نہیں کھیلوں گا، اگر کھیلا تو تیس دن کے روزے رکھوں گا؛ آپ نے یہ نہیں کہا کہ میرے ذمہ تیس دن کے روزے ہوں گے،یا میں قسم کھاتاہوں وغیرہ، اس لئے یہ نذر منعقد نہیں ہوگی، اور تیس دن کے روزے لازم نہ ہوں گے۔ اور اگر قسم کھائی یا نذر مانی تو پھر تیس دن کے روزے لازم ہوں گے، جو الگ الگ بھی رکھ سکتے ہیں اور مسلسل بھی۔

واما اذا کان لشھر غیرمعین فان شاء تابعہ وان شاء فرقہ (شامی ، ج5ص525)

(2) اگر کسی کھانے کی چیز کو اپنے اوپر حرام کرنے کی نیت سے آپ نے  حرام کہہ دیا اور پھر کھالیا یا کسی نے زبردستی آپ کو کھلادیا تو آپ حانث ہوں گے، اور آپ پر قسم کا کفارہ لازم ہوگا، یعنی دس فقراء کو کھانا کھلانا، یا کپڑا دینا، یا پھر تین دن مسلسل روزے رکھنالازم ہوگا۔ کھانے کا بل دوسرا کوئی اداکرے اور آپ اس پر حرام کہہ دیں تو اس سے نہ  تواس پر کوئی چیز لازم ہو گی اور نہ آپ حانث ہوں گے۔  البتہ آئندہ ایسے جملوں سے احتراز کریں۔

ومن حرم علی نفسہ شیئا مما یملکہ لم یصر محرما وعلیہ ان استباحہ کفارۃ یمین (مختصرالقدوری ص229)

(3) سب سے پہلے  اس شنیع عمل پر توبہ واستغفار لازم ہے،صورت مذکورہ میں  انزال ِ منی کی وجہ سے روزہ فاسد ہوگیا ، قضا لازم ہے ، کفارہ لازم نہیں ہے۔ دو رکعت نماز پڑھ کر اللہ کے حضور بہت عاجزی کے ساتھ توبہ کریں اور زیادہ سے زیادہ صدقہ کرنا بھی اللہ کے غصہ کو ٹھنڈا کرتاہے۔

"وإذا قبل امرأته، وأنزل فسد صومه من غير كفارة، كذا في المحيط. ... والمس والمباشرة والمصافحة والمعانقة كالقبلة، كذا في البحر الرائق". (الفتاوى الهندية (1/ 204)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند