طلاق و تفریق

Ref. No. 3361/46-9241

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: شوہر کا قول کہ تم میری زندگی سے ختم ہو، کنائی ہے،   طلاق کی نیت سے  یا مذاکرہ طلاق کے وقت بولنے سے اس سے طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ اس لئے  شوہر  نے اگر طلاق کی نیت سے یہ جملہ کہا یا طلاق کی بات کے دوران  ایسا کہا  تو اس سے ایک طلاق بائن واقع ہوگئی۔اور نکاح ختم ہوگیا۔ نکاح ختم ہونے کے بعد  دوبارہ اس جملہ سے  مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔ اب اگر دونوں میاں بیوی  باہمی رضامندی سے ایک ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو نئے مہر اور شرعی گواہان کے روبرو  دوبارہ عقد کرکے رہ سکتے ہیں ، البتہ آئندہ کے لیے شوہر کو صرف  دو طلاقوں کا اختیار  ہوگا۔ تاہم اگرشوہرکی نیت طلاق کی نہیں تھی  اور نہ ہی مذاکرۂ طلاق تھا تو اس صورت میں مذکورہ جملے سے ایک طلاق بھی واقع نہیں ہوئی۔

"(كنايته) عند الفقهاء (ما لم يوضع له) أي الطلاق (واحتمله) وغيره (ف) الكنايات (لا تطلق بها) قضاء (إلا بنية أو دلالة الحال)، وهي حالة مذاكرة الطلاق أو الغضب. ۔ ۔ ۔ قوله: وهي حالة مذاكرة الطلاق) أشار به إلى ما في النهر من أن دلالة الحال تعم دلالة المقال قال: وعلى هذا فتفسر المذاكرة بسؤال الطلاق أو تقديم الإيقاع، كما في اعتدي ثلاثاً وقال قبله المذاكرة أن تسأله هي أو أجنبي الطلاق (شامی، باب الکنایات،3/296،297 ط: سعید)

قال): ولو قال: أنت مني بائن أو بتة أو خلية أو برية، فإن لم ينو الطلاق لايقع الطلاق؛ لأنه تكلم بكلام محتمل". (المبسوط للسرخسی، 6 / 72،باب ما تقع به الفرقة مما يشبه الطلاق،ط؛دار المعرفة – بيروت)

لا) يلحق البائن (البائن) إذا أمكن جعله إخباراً عن الأول كأنت بائن بائن، أو أبنتك بتطليقة فلا يقع؛ لأنه إخبار، فلا ضرورة في جعله إنشاء. ۔ ۔ ۔ ۔ قوله: لا يلحق البائن البائن) المراد بالبائن الذي لا يلحق هو ما كان بلفظ الكناية؛ لأنه هو الذي ليس ظاهراً في إنشاء الطلاق، كذا في الفتح، (فتاوی شامی، باب الکنایات، 3/308 ط: سعید)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Miscellaneous

Ref. No. 3360/46-9232

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

All the aforementioned arguments are because of not differentiating between a fatwa (legal opinion) and a qazā (judicial verdict), despite the clear and fundamental differences between the two. A judicial verdict is legally binding and is issued with the backing of enforcement authority, whereas a fatwa is non-binding and lacks any such enforcement power. The sole purpose of a fatwa is to ascertain the ruling of the Shari‘ah so that it may be followed voluntarily. Consequently, it is not necessary to hear the statements of the opposing party when issuing a fatwa. A fatwa is based on the presumption that the question posed is accurate and truthful; however, if the question is not rooted in reality, the fatwa becomes irrelevant and inapplicable.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband 

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 3359/46-9229

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: کسی کےانتقال سے پہلے ان کی بیوی اور اولاد میں سے جو بھی انتقال کرچکے ان کومرحوم کی راثت میں سے  شرعا کوئی حصہ نہیں ملتاہے۔  دادا کے انتقال کے وقت ان کی بیوی اور تمام اولاد زندہ تھی اس لئے ان کی جائداد میں سب کا حصہ ہوگا، البتہ  دادی کے انتقال کے وقت ان کی دوبیٹیاں فوت ہوچکی تھی اس لئے ان دو بیٹیوں کا مرحومہ کی جائداد  میں شرعا کوئی حصہ نہیں ہوگا، اور ان بیٹی فوت شدہ بیٹیوں کی اوالاد (نواسوں اور نواسیوں) کو آپ کی دادی کے حصہ میں سے کچھ نہیں ملے گا البتہ ان کی ماں کا جو حصہ ہوگا وہ دادا کی وراثت میں سے ملے گا۔

۔ مزید معلومات چاہئے تو ہر ایک کا نام مع تاریخ وفات اور موجودہ ورثا  کے نام اورمکمل تفصیل لکھ کر بھیجئے۔ 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبندBottoTop of Form

طلاق و تفریق

Ref. No. 3357/46-9230

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: عورت کو حالت حیض میں   طلاق دینا  سخت گناہ  اور ناجائز ہے،تاہم اگر کسی نے  حالت حیض میں طلاق دے دی تو طلاق واقع ہوجائے گی،لیکن اگر شوہر نے ایک یا دو طلاقیں صریح دی ہیں تو شوہر پر واجب ہوگا کہ وہ مطلقہ سے  زبانی رجوع کرلے۔ رجوع کرنے کے بعد جب ماہواری ختم ہوجائے ،اس کے بعد مزید ایک طہر آئے،پھر دوبارہ ماہواری کے بعد طہر آجائے تو اس طہر میں اگر طلاق دینا چاہے تو دے سکتا ہے۔

جس حیض میں اس نے طلاق دی ہے اس کو عدت میں شمار نہیں کیاجائے گا بلکہ اس حیض کے بعد پاکی کا زمانہ ٓئے گا پھر جب ماہواری شروع ہوگی تو وہ حیض عدت میں شمار کریں گے، اور تین حیض مکمل گزرجانے کے بعد عورت کی عدت پوری ہوجائے گی۔

"عن ‌عبد الله بن عمر رضي الله عنهما، «أنه طلق امرأته وهي حائض على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فسأل عمر بن الخطاب رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ‌مره ‌فليراجعها، ثم ليمسكها حتى تطهر، ثم تحيض، ثم تطهر، ثم إن شاء أمسك بعد، وإن شاء طلق قبل أن يمس، فتلك العدة التي أمر الله أن تطلق لها النساء." (صحیح البخاری، کتاب الطلاق،ج:7،ص:41،ط:سعید)

"(والبدعي ثلاث متفرقة أو ثنتان بمرة أو مرتين)...أو) واحدة في (حيض موطوءة)...(وتجب رجعتها) على الأصح (فيه) أي في الحيض رفعا للمعصية (فإذا طهرت) طلقها (إن شاء) أو أمسكها."

(قوله فإذا طهرت طلقها إن شاء) ظاهر عبارته أنه يطلقها في الطهر الذي طلقها في حيضه، وهو موافق لما ذكره الطحاوي، وهو رواية عن الإمام لأن أثر الطلاق انعدم بالمراجعة فكأنه لم يطلقها في هذه الحيضة فيسن تطليقها في طهرها لكن المذكور في الأصل وهو ظاهر الرواية كما في الكافي وظاهر المذهب، وقول الكل كما في فتح القدير إنه إذا راجعها في الحيض أمسك عن طلاقها حتى تطهر ثم تحيض ثم تطهر فيطلقها ثانية. ولا يطلقها في الطهر الذي يطلقها في حيضه لأنه بدعي، كذا في البحر والمنح، وعبارة المصنف تحتمله. اهـ. ح. ويدل لظاهر الرواية حديث الصحيحين «مر ابنك فليراجعها ثم ليمسكها حتى تطهر ثم تحيض فتطهر، فإن بدا له أن يطلقها فليطلقها قبل أن يمسها فتلك العدة كما أمر الله عز وجل» بحر." (الدر المختار مع حاشیہ ابن عابدین: کتاب الطلاق،ج:3،ص:232،233،ط:سعید)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبندBottoTop of Form

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 3358/46-9228

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: حاجی صاحب کے انتقال سے پہلے ان کی بیوی اور اولاد میں سے جو بھی انتقال کرچکے ان کوحاجی صاحب کی وراثت میں سے کوئی حصہ نہیں ملے گا۔  حاجی صاحب کی تمام جائداد ان کے انتقال کے بعد موجود بیوی اور بچوں میں تقسیم ہوگی چاہے وہ اولاد کسی بھی بیوی سے ہوں۔  اگر آپ کی دادی کا انتقال آپ کے دادا کی زندگی میں ہوگیا تھا تو ان کا دادا کی وراثت میں  کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ دادا کے انتقال کے بعد ان کے جو بیٹے یا بیٹیاں زندہ ہیں  ان میں وراثت تقسیم ہوگی ، پوتوں یاپوتیوں کو اس میں سے کچھ نہیں ملے گا البتہ اگر کسی کے لئے دادا نے وصیت کی ہو تو وصیت جاری ہوگی۔ جن بیٹوں کا انتقال ہوگیا ان کی اولاد دادا کی جائداد میں سے اپنے باپ کا حصہ نہیں مانگ سکتی ہے۔ مزید معلومات چاہئے تو ہر ایک کا نام مع تاریخ وفات اور موجودہ ورثا کی مکمل تفصیل لکھ کر بھیجئے۔ 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبندBottoTop of Form

مساجد و مدارس

Ref.  No.  3356/46-9227

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  ہر صف میں نمازیوں کی تعداد کا برابر ہونا ضروری نہیں ہے، اگر کسی وجہ سے پہلی صف میں نمازی کم ہوں اور دوسری صفوں میں زیادہ ہوں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، البتہ صف میں خالی جگہ  ہو جہاں نمازی کھڑا ہوسکتاہو پھر بھی اس جگہ کو پُر نہ کرے تو پچھلی صف والوں کی نماز میں کراہت آئے گی۔ تاہم اگر مائک وغیرہ کے انتظام کی وجہ سے پہلی صف میں جگہ کم ہے تو دوسری صفوں میں زیادہ تعداد ہونے سے کوئی کراہت نہیں آئے گی۔ البتہ انتظامیہ کو چاہئے کہ صفوں سے علاحدہ مائک وغیرہ کا انتظام کیا جائے تاکہ صفوں میں خلل نہ ہو۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبندBottoTop of Form

اسلامی عقائد

Ref. No. 3355/46-9231

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مفتی محمد شفیع صاحبؒ لکھتے  ہیں: (وَ کُلٌّ فِيْ فَلَكٍ یَّسْبَحُوْنَ) آفتاب و مہتاب دونوں اپنے اپنے مدار میں تیرتے رہتے ہیں، ’’فلک‘‘  کے لفظی معنیٰ آسمان کے نہیں،  بلکہ اس دائرہ کے ہیں جس میں کوئی سیارہ حرکت کرتا ہے،  یہ آیت سورۂ انبیاء میں بھی گزر چکی ہے، جس میں یہ بتلایا گیا ہے کہ اس آیت سے معلوم ہوا کہ چاند کسی آسمان کے اندر مرکوز نہیں، جیسا کہ بطلیموسی نظریۂ ہیئت میں ہے، بلکہ وہ آسمان کے نیچے ایک خاص مدار میں حرکت کرتا ہے، اور آج کل کی نئی تحقیقات اور چاند تک انسان کی رسائی کے واقعات نے اس کو بالکل یقینی بنادیا ہے‘‘۔ (معارف القرآن، ج:۷ ،ص:۳۹۳، ادارۃ المعارف ) ایک اور جگہ پر مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللٰہ فرماتے ہیں: ’’قرآن و حدیث کی مذکورہ تصریحات سے یہ بات واضح طور پر ثابت ہوئی کہ شمس و قمر دونوں متحرک ہیں، ایک میعاد کے  لیے چل رہے ہیں، اس سے اس نظریہ کی نفی ہوتی ہے جو آفتاب کی حرکت تسلیم نہیں کرتا اور جدید ترین تحقیقات نے خود بھی اس کو غلط ثابت کردیا ہے‘‘۔ (معارف القرآن ، ج:۷ ،ص:۳۹۳، ادارۃ المعارف)

زمین بھی گھوم رہی ہے یا ساکن ہے؟ اور سورج زمین کے گرد گھوم رہا ہے یا زمین سورج کے گرد گھوم رہی ہے؟ اس کا کوئی تذکرہ قرآن و حدیث میں نہیں ہے، اور اس بارے میں خود قدیم اور جدید ماہرین علمِ طبعیات کی آراء مختلف رہی ہیں، سائنس دانوں کی  جدید تحقیق کے مطابق چاند، سورج، زمین اور باقی تمام سیارات  آسمان کے نیچے کھلی فضا میں معلق ہیں اور اپنے اپنے محور میں گھوم رہے ہیں، نیز  زمین اپنے محور میں سورج کے گرد  مغرب سے مشرق  کی طرف گھوم رہی ہے، سورج اور دیگر سیارات زمین کے گرد نہیں گھوم رہے ہیں، لیکن زمین کی اس حرکت کی وجہ سے تمام اجرامِ سماویہ (شمس و قمر، ستارے اور سیارے وغیرہ) ظاہری نگاہ میں زمین کے گرد مشرق سے مغرب کی طرف گھومتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔  

مفتی شفیع صاحب ؒ لکھتے ہیں:  آیتِ مذکورہ نے جتنی بات بتلائی کہ چاند اور سورج حرکت کر رہے ہیں اس پر یقین رکھنا فرض ہے، اب رہا یہ معاملہ کہ ہمارے سامنے آفتاب کا طلوع و غروب زمین کی حرکت سے ہے یا خود ان سیاروں کی حرکت سے؟  قرآنِ پاک نہ اس کا اثبات کرتا ہے اور نہ اس کی نفی، تجربہ سے جو کچھ معلوم ہوا اس کے ماننے میں کوئی حرج نہیں۔‘‘ (معارف القرآن، سورہ زمر،ج:۷،ص:۵۳۸، ادارۃ المعارف )

قرآنِ کریم میں نہ سکون کی تصریح ہے اور نہ اس کی گردش کی تصریح، نہ اُس کا عقیدہ رکھنا قرآن کے خلاف ہے اور نہ اِس کا معتقد ہونا، اس کے فصیح و بلیغ بیان میں سکون کی بھی گنجائش ہے اور حرکت کی بھی۔  اس لیے زمین کا سورج کے گرد گھومنا قرآن و سنت کے خلاف نہیں بلکہ مشاہدے، عقل اور علم کے موافق ہے۔

الاستاذ الحکیم الشیخ طنطاوی جوہری یقول:  و كل) من الأرض و الشموس و الأقمار (في فلك يسبحون) كما يسبح السمك في الماء، فالشمس في مدارها حول كوكب من الكواكب الجاثي على ركبتيه  ولايدري مدة دورتها، والأرض تجري حول الشمس في سنة و حول نفسها في يوم و ليلة، والقمر يجري حول الأرض كل شهر ... انظر كيف يقول: (يسبحون) و معلوم أن السبح للسمك أليق مع أنّ الفلك القديم قد جعل الكواكب مركوزةً في الفلك أو في تدوير الفلك على ما تراه في اصطلاح القدماء ... إنما الذي يهمنا أن جمع الكواكب تسير على رأي الحديث في مدارات و تلك المدارات في عالم الأثير، فهي إذن كأنها سمك في بحر". (الجواهر في تفسیر القرآن الکریم، ج:۱۷، ص: ۱۴۴، سورة یٰس، مصطفیٰ البابي الحلبي و أولاده بمصر )

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Prayer / Friday & Eidain prayers

Ref. No. 3354/46-00000الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  توجه الدعوة في الصورة المذكورة إلى مفتى ما هر وفقيه باهر لمعاينة القربة المذكورة ، وبعد ذلك يعمل بمايفتی بعد المشاهدة۔ يمكن أن يرى المفتى هذه القريبة صغيرة كمالہ أن یعدها كبيرة۔ وتقع الجمعة فرضا فى القصبات والقرى الكبيرة كما في الشامية كتاب الجمعة ج ۲ ص ۱۳۸ سعید)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 3353/46-9213

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  وہ سرکاری اسکیمیں جن میں پیسہ جمع کرکے سود کی شرح پر نفع کمایا جائے وہ حرام اور ناجائز ہے چاہے وہ سود کم ہو یا زیادہ اور پرائیوٹ کمپنی دے یا سرکار۔  البتہ سرکاری ایسی اسکیمیں جن میں کاغذی کارروائی کے نام پر  پیسے لئے جائیں پھر سرکار تعلیم کے نام پر یا شادی کے نام پر یا اسی طرح کسی اور نام پر مدد کے طور پر رقم دیتی ہے  وہ جائز ہے۔ اگر ہر اسکیم میں ماہانہ یا سالانہ رقم جمع کرنے پر انٹرسٹ  ہی کم یا زیادہ کرکے دیاجائے تو  پھر ایسی اسکیم سے نفع حاصل کرنا جائز نہیں ہے۔ آپ کوئی  پلاٹ قسطوں پر خرید لیں یا  زیورخرید کر رکھ لیں تو اس سے بھی شادی وغیرہ کے موقع پر مدد ملے گی۔ اگر آپ نے سرکاری اسکیم  لےلی ہے تو اس کی قسطیں جمع کرتے رہیں جب آپ رقم  نکالیں تو اپنی جمع کردہ رقم اپنے استعمال میں لائیں اور اضافی رقم جو انٹرسٹ کے طور پر ملتی ہے اس کو غریبوں میں بلانیت ثواب تقسیم کردیں۔  

قال اللّٰہ تعالی:وأحل اللہ البیع وحرم الربا الآیة (البقرة: ۲۷۵)، عن جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہما قال: لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم آکل الربوا وموٴکلہ وکاتبہ وشاہدیہ، وقال: ہم سواء (الصحیح لمسلم، ۲: ۷۲، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)، الربا فضل خال عن عوض بمعیار شرعي مشروط لأحد المتعاقدین في المعاوضة (تنویر الأبصار مع الدر والرد، کتاب البیوع، باب الربا، ۷: ۳۹۸- ۴۰۰، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، ﴿وَلَا تَأْکُلُوْا أَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ﴾ أي بالحرام، یعني بالربا، والقمار، والغصب والسرقة(معالم التنزیل ۲: ۵۰)۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

فقہ

Ref. No. 3352/46-9214

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  إن القراءة بقراءات متعددة في صلاة واحدة جائزة من حيث الأصل، ما دامت هذه القراءات متواترة وثابتة عن النبي ﷺ، وقد ذكر ذلك أئمة القراء والفقهاء، كابن الجزري والنووي وغيرهما. و لکن الاولى والأفضل في حال وجود العامة: أن يلتزم الإمام بقراءة واحدة في الصلاة كلها، لأجل رفع الالتباس عن المأمومين، ودفع الشك والاضطراب عنهم، لأن أكثر الناس لا يعرفون القراءات، وقد يظنون أن الإمام قد أخطأ، مما يؤدي إلى الفتنة والبلبلة في قلوبهم. وقد قال الإمام النووي رحمه الله: "وإنما المستحب أن يقتصر على قراءة واحدة، لئلا يشك المأمومون." (التبيان في آداب حملة القرآن)

وقال ابن الجزري رحمه الله في "النشر":  "ويُكره خلط القراءات في موضعٍ واحد، خاصة إذا كان في صلاة إمام الجماعة، لما فيه من التشويش على المأمومين." فإذا كان الإمام يصلي بالناس، فالأفضل أن يقرأ برواية واحدة من أول الصلاة إلى آخرها، محافظة على الجماعة، وسدًا لذريعة الفتنة والاضطراب.

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند