طہارت / وضو و غسل

الجواب و باللّٰہ التوفیق:حیض کے ایام پورے ہونے کے بعد کپڑے تبدیل کر کے نیم غسل یا تیمم کر کے نمازیں ادا کر لینی چاہئے تھیں، ایسی عورت کو چاہئے کہ پٹی کی جگہ کے علاوہ تمام بدن کو کپڑا تر کر کے اچھی طرح پونچھ لے کہ اعضاء پرپانی بہنے جیسے ہو جائے اور پٹی کی جگہ پر مسح کر لے اور اگر اس طرح پونچھنے پر تکلیف ہو تو تیمم کر لینا چاہئے؛ لیکن نمازوں کو قضا نہیں کرنا چاہئے
تھا اس پر استغفار کریں۔
’’وإذا زادت الجبیرۃ علی نفس الجراحۃ فإن ضرہ الحل والمسح مسح علی الکل تبعاً مع القرحۃ وإن لم یضرہ غسل ما حولہا ومسحہا نفسہا وإن ضرہ المسح لا الحل یمسح علی الخرقۃ التي علی رأس الجرح ویغسل ما حولہا تحت الخرقۃ الزائدۃ إذا الثابت بالضرورۃ یتقدر بقدرہا‘‘(۱)
’’ومن عجز عن استعمال الماء لبعدہ میلاً أو لمرض یشتد أو یمتد بغلبۃ ظن أو قول حاذق مسلم ولو بتحرک‘‘(۲)
(۱) ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارات: باب المسح علی الخفین‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۱۔
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار ’’کتاب الطہارۃ: باب التیمم‘‘: ج ۱، ص: ۳۹۵ - ۳۹۷۔

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص340

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں مذکورہ مسجد کے متولی اور ذمہ داران حضرات اپنے سابقہ امام کی دیرینہ خدمات اور آئندہ کی متوقع خدمات کے پیش نظر خدمت کرنا چاہیں تو مسجد کے فنڈ سے ان کی خدمت وظیفہ، تنخواہ یا پینشن کی صورت میں کرسکتے ہیں اور جب تک مناسب سمجھیں یہ خدمات جائز ہوں گی۔(۱)

(۱) ویفتی الیوم بصحتہا لتعلیم القرآن والفقہ والإمامۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الإجارۃ باب الإجارۃ الفاسدۃ، مطلب في الاستئجار علی الطاعات‘‘: ج۹، ص: ۷۶)

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص327

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اگر مسجد صغیر ہے تو تین چار صف کے آگے سے بھی گزرنا گناہ ہے اور اگر مسجد کبیر ہے تو گناہ نہیں۔(۱)
’’أو مرورہ بین یدیہ إلیٰ حائط القبلۃ في بیت ومسجد صغیر فإنہ کبقعۃ واحدۃ مطلقاً‘‘(۲)

(۱) (ومرور مار في الصحراء أو في مسجد کبیر بموضع سجودہ) في الأصح (أو) مرورہ (بین یدیہ) إلی حائط القبلۃ (في) بیت و (مسجد) صغیر، فإنہ کبقعۃ واحدۃ (مطلقا) (قولہ ومسجد صغیر) ہو أقل من ستین ذراعا، وقیل من أربعین، وہو المختار کما أشار إلیہ في الجواہر قہستاني (قولہ فإنہ کبقعۃ واحدۃ) أي من حیث أنہ لم یجعل الفاصل فیہ بقدر صفین مانعا من الاقتداء تنزیلا لہ منزلۃ مکان واحد، بخلاف المسجد الکبیر فإنہ جعل فیہ مانعا فکذا ہنا یجعل ما بین یدي المصلي إلی حائط القبلۃ مکانا واحدا، بخلاف المسجد الکبیر والصحراء فإنہ لو جعل کذلک لزم الحرج علی المارۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب مایفسد الصلاۃ، ومایکرہ فیہا،مطلب إذا قرأ قولہ -تعالٰی- جدک بدون ألف لاتفسد‘‘: ج۲، ص: ۳۹۸)
وکذا مرور المار في أي موضع یکون من المسجد بمنزلۃ مرورہ بین یدیہ وفي موضع سجودہ وإن کان المسجد کبیرا بمنزلۃ الجامع قال بعضہم: ہو بمنزلۃ المسجد الصغیر فیکرہ المرور في جمیع الأماکن، وقال بعضہم: ہو بمنزلۃ الصحراء (قولہ إن کان المسجد صغیرا) وہو أقل من ستین ذراعا وقیل من أربعین وہو المختار قہستاني عن الجواہر، کذا في حاشیۃ شرح مسکین للسید محمد أبي السعود قلت: وفي القہستاني أیضا، وینبغي أن یدخل فیہ الدار والبیت۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ، باب مایفسد الصلاۃ، ومایکرہ فیہا، الأکل والشرب فی الصلاۃ‘‘: ج۲، ص: ۱۷)

(۲) أیضًا:
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص443

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: وقت ضرورت اس کی گنجائش ہے باقی تمام شرائط کو ملحوظ رکھنا چاہئے۔(۲)

(۲) یستفاد مما في الفتاوی الہندیۃ: صورۃ الاستخلاف أن یتأخر مُحدَوْدِبًا … ویقدم من الصف الذي یلیہ … ولہ أن یستخلف ما لم یجاوز الصفوف في الصحراء وفي المسجد ما لم یخرج عنہ کذا في التبیین۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲،ص: ۵۵۴)۔
 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص56

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: سردی کی وجہ سے مسجد کے اندرونی حصہ کے کواڑ بند کرکے نماز جائز ہے اور درست ہے اس میں کوئی کراہت نہیں ہے۔(۲)

(۲) فلا یضر غلق باب القلعۃ لعدو أو لعادۃ قدیمۃ، لأن الإذن العام مقرر …لأہلہ وغلقہ لمنع العدو لا المصلي؛ نعم لو لم یغلق لکان أحسن کما في مجمع الأنہر۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب الجمعۃ‘‘: ج۳، ص: ۲۵)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص182

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق:  اس صورت میں نماز صحیح ہوگئی ہے اور سجدہ سہو واجب نہیں ہے اور اگر یہ سمجھ کر سجدہ سہو کر لیا کہ اگر سہو کا سجدہ لازم ہوا ہو تو وہ ادا ہوجائے تب بھی نماز صحیح ہوگئی۔(۱)

(۱) و إن ذکر آیۃ مکان آیۃ ان وقف علی الأولی وقفاً تاماً وابتدأ بالثانیۃ لا تفسد صلاتہ۔ کما لو قرأ {والتین والزیتون} ووقف ثم ابتدأ {لقد خلقنا الانسان في کبد} لا تفسد صلاتہ، وکذا لو قرأ {إن الذین آمنوا وعملوا الصٰلحٰت} ووقف ثم قرأ {اولئک ہم شر البریۃ} وإن لم یقف وقرأ موصولاً إن لم تتغیر الأولیٰ بالثانیۃ، کما لو قرأ {إن الذین آمنوا وعملوا الصالحات فلہم جزاء الحسنی} أو قرأ {وجوہ یومئذ علیہا غبرۃ أولئک ہم الکافرون حقاً} لا تفسد (، قاضی خان، فتاویٰ قاضي خان، ’’کتاب الصلاۃ، فصل في قرائۃ القرآن الخ‘‘: ج ۱، ص:۹۷، فیصل دیوبند)
(ومنہا ذکر آیۃ مکان آیۃ) لو ذکر آیۃ مکان آیۃ إن وقف وقفا تاماً ثم ابتدأ بآیۃ أخری أو ببعض آیۃ، لا تفسد کما لو قرأ {والعصر إن الإنسان} (سورۃ العصر: ۱، ۲) ثم قال {إن الأبرار لفي نعیم} (سورۃ الانفطار: ۱۳) أو قرأ: {والتین} (سورۃ التین: ۱)  إلی قولہ: {وہذا البلد الأمین} (سورۃ التین: ۳) ووقف ثم قرأ: {لقد خلقنا الإنسان في کبد} (سورۃ البلد: ۴) أو قرأ: {إن الذین آمنوا وعملوا الصالحات} (سورۃ البینۃ: ۷) ووقف ثم قال {أولئک ہم شر البریۃ} (سورۃ البینۃ: ۶) لا تفسد۔ (جماعۃ من علماء الہندیۃ، ’’الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الخامس في زلۃ القاري‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۸،زکریا)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص286

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: تہجد کی نماز سنت ہے اور سنت کی قضاء نہیں ہوتی، ہاں اگر کوئی شخص پورے سال سنت کا عادی ہو اور کسی دن آنکھ نہ کھلنے کی وجہ سے اس کی تہجد کی نماز فوت ہو جائے تو طلوع آفتاب کے بعد اشراق کے وقت سے دوپہر سے پہلے پہلے اتنی ہی رکعات پڑھ لے تو امید ہے کہ تہجد کے ثواب سے محروم نہیں ہوگا۔(۲)
’’وکان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا صلی صلاۃ أحب أن یداوم علیہا وکان إذا غلبہ نوم أو وجع عن قیام اللیل صلی من النہار اثنتي عشرۃ رکعۃ‘‘(۳)

(۲) من قام عن حزبہ أو نام عن شيء فقرأہ بین صلاۃ الفجر وصلاۃ الظہر کتب لہ کأنہا قرأہ من اللیل۔ (أخرجہ مسلم في صحیحہ، ج۲، ص۳۱۵،رقم: ۷۴۷)
(۳) أخرجہ مسلم، في صحیحہ: ج ۱، ص: ۵۱۳)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص402

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 810 Alif

In the Name of Allah the Most Gracious the Most Merciful

The answer to your question is as follows:

Removing unwanted hair from the chest and back is permissible for men, although it is undesirable and against proper manner. One should avoid it if there is no need. However, if there is a need, such as the wife dislikes it, then there is nothing wrong in removing the hair of chest.

And Allah knows best

 

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband INDIA

اعتکاف

Ref. No. 1267 Alif

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                           

بسم اللہ الرحمن الرحیم-:ایسے گاوں جہاں جمعہ کی نماز درست نہیں وہاں اعتکاف میں بیٹھا شخص ظہر کی نماز ادا کرے گا، اس پر جمعہ واجب نہیں ، اگر دوسری مسجد میں  پہلے سے جمعہ ہوتا آرہا ہے تو بھی اس میں دوسری مسجد کے معتکف کو جانا درست نہیں، اگر گیا تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔  شہر میں جمعہ کی نماز واجب ہے، اس لئے اگر کوئی شخص کسی شہر کی ایسی مسجد میں اعتکاف کررہاہو جہاں جمعہ کی نماز نہیں ہوتی تو اس کو دوسری مسجد میں جمعہ کی نماز اداکرنے کے لئے نکلنا ضروری ہے۔  واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 40/1081

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قرآن پاک مکمل تراویح میں سننا سنت ہے ضروری نہیں ہے۔  اگر اس کے لئے اچھے قاری ملیں تو اس سنت پر عمل کرنا چاہئے۔ جن جگہوں پر حافظ نہ ملیں یا اچھے پڑھنے والے نہ ہوں وہاں اچھے پڑھنے والے امام سے الم تر کیف سے تراویح پڑھ لینی چاہئے۔  اتنا تیز پڑھنا، کہ الفاظ مکمل طور پر ادا نہ ہوتے ہوں یا پیچھے کھڑے حافظ و عالم کو بھی سمجھ میں نہ آتاہو،  درست نہیں ہے بلکہ نماز کے فاسد ہونے کا بھی خطرہ ہے۔ غلطیاں اور بھول ہوجایا کرتی ہیں ، اس کے لئے  ایک سامع بھی رکھنا چاہئے۔  اور اگر حافظ صاحب سے غلطیاں اور بھول بکثرت صادر ہوتی ہوں ، لوگوں کو دشواری  ہو اور تقلیل جماعت کا اندیشہ ہو تو کسی دوسرے حافظ صاحب کا انتظام کرلیا جائے اور وہ بھی نہ ہوسکے تو پھرالم ترکیف سے تراویح پڑھ لی جائے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند