طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:(۱)اگر عورت اپنی شرم گاہ میں انگلی داخل کرے، نہ شہوت ہو اور نہ ہی انزال ہو، تو غسل واجب نہیں ہوگا، ہاں اگر اس عمل کی وجہ سے شہوت پیدا ہوجائے تو محتاط قول کے مطابق غسل واجب ہے (و)لا عند (إدخال إصبع و نحوہ) کذکر غیر آدمي و ذکر خنثی و میت و صبي لا یشتہي وما یصنع من نحو خشب (في الدبر أو القبل) علی المختار… (بلا إنزال) لقصور الشہوۃ أما بہ فیحال علیہ… (قولہ: علی المختار) قال في التجنیس : رجل أدخل إصبعہ في دبرہ وھو صائم اختلف في وجوب الغسل والقضاء۔ والمختار أنہ لا یجب الغسل ولا القضاء؛ لأن الإصبع لیس آلۃ للجماع فصار بمنزلۃ الخشبۃ ذکرہ في الصوم، و قید بالدبر، لأن المختار وجوب الغسل في القبل إذا قصدت الاستمتاع: لأن الشہوۃ فیھن غالبۃ فیقام السبب مقام المسبب دون الدبر لعدمہا نوح افندی… (قولہ: أما بہ) أي أما فعل ہذہ الأشیاء المصاحب للإنزال فیحال وجوب الغسل علی الإنزال۔ (۱)
(۲) اگر کسی دوسری عورت نے یا ڈاکٹر نے شرم گاہ میں انگلی داخل کی اور انزال نہیں ہوا، تو غسل واجب نہیں ہوگا۔
(۳) اگر شوہر نے بیوی کی شرم گاہ (فرج) میں انگلی داخل کی اور عورت کو اس سے شہوت نہیں ہوئی، تو اس صورت میں غسل واجب نہیں ہوگا؛ البتہ اگرمیاں بیوی شہوت کی بنا پر یہ عمل کریں اور شوہر اپنی انگلی عورت کی شرم گاہ میں داخل کرے، تو بعض فقہاء کے قول کے مطابق غسل لازم ہوجاتا ہے، احتیاط اسی قول میں ہے۔ لہٰذا شہوت ہونے کی صورت میں عورت غسل کرے اور اگر مرد کے انگلی داخل کرنے کی وجہ سے عورت کی منی خارج ہوگئی، تو عورت پر بالاتفاق غسل واجب ہوجائے گا۔ (قولہ وفي فتح القدیر أن في إدخال الإصبع الدبر خلافاً الخ) ذکر العلامۃ الحلبی ھنا تفصیلاً، فقال: والأولی أن یجب في القبل إذا قصد الاستمتاع لغلبۃ الشہوۃ: لأن الشہوۃ فیھن غالبۃ فیقام السبب مقام المسبب وھو الإنزال دون الدبر بعدمھا۔(۱)

(۱)ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار ’’کتاب الطہارۃ، قبیل مطلب في رطوبۃ الفرج‘‘ ج۱، ص: ۳۰۵
(۱) ابن نجیم البحر الرائق، ج۱، ص:۱۱۱

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص319

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں اگر امام متعین ہے تو وہ نماز پڑھائے اور اگر مقرر نہیں ہے تو مقرر کرلیا جائے جو پابند شریعت اور امامت کے لائق ہو، امام کے مقرر نہ ہونے کی صورت میں زید سے امامت کرائیں، اس لیے کہ وہ اعلم بالسنۃ اور پابند شرع ہے۔ بکر تو ڈاڑھی بھی کٹاتا ہے اور ایک مشت سے کم رکھتا ہے اس لیے اس کی امامت مکروہ تحریمی ہے، البتہ فرض ادا ہوجاتا ہے، اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔(۱)

(۱) والأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلوۃ فقط صحۃ وفساداً بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ، وحظہ قدر فرض ثم۔ الأحسن تلاوۃ وتجویداً للقراء ۃ ثم الأورع ثم الأسن ثم الأحسن الخ۔ (ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴)
إن سرکم أن تقبل صلوٰتکم فلیؤمکم خیارکم۔ (المعجم الکبیر للطبراني، ’’باب أما أسند مرثد بن أبي مرثد الغنوي‘‘: رقم: ۷۷۷)
وأما الأخذ منہا وہي دون ذلک کما فعلہ بعض المغاربۃ ومخنثۃ الرجال فلم یبحہ أحد، وأخذ کلہا فعل یہود الہند ومجوس الأعاجم۔(ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصوم، باب مایفسد الصوم ومالایفسدہ، مطلب في الأخذ من اللحیۃ‘‘: ج ۳، ص: ۳۹۸)
صلی خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعۃ۔ قولہ: نال فضل الجماعۃ أفاد أن الصلاۃ خلفہما أولیٰ من الإنفراد، لکن لا ینال کما ینال خلف تقي ورع۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في إمامۃ الأمرد‘‘: ج۲، ص: ۳۰۱، ۳۰۲)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبندج5 ص112


 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:طہارت کرنے کے بعد جو پانی رانوں پر لگا رہتا ہے، وہ پاک ہے، اس کے قطرات ٹپک کر اگر کپڑے پر یا بدن کے دوسرے حصے پر لگ جائیں، تو اس پانی سے بدن یا کپڑے ناپاک نہیں ہوںگے اس میں کوئی شبہ نہ کیا جائے۔(۱)

(۱) قد قال في المجتبیٰ: صحت الروایۃ عن الکل أنہ طاھر غیر طھور فالاشتغال بتوجیہ التغلیظ والتخفیف مما لا جدوی لہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب المیاہ مطلب في تفسیر القربۃ والثواب‘‘ ج۱،ص:۳۵۲) قال مشائخ العراق: إنہ طاھر عند أصحابنا۔ واختار المحققون من مشائخ ماوراء النھر طہارتہ و علیہ الفتویٰ(ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارات، باب الماء الذي یجوز بہ الوضوء ومالایجوز‘‘  ج۱، ص۹۰)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص407

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: حنفی مسلک میں جمعہ کی نماز میں تعجیل کرنا افضل ہے البتہ نمازیوں کی تعداد اور سہولت کے پیش نظر باہم مشورہ سے کچھ تاخیر بھی ہو جائے تواس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، واضح رہے کہ ظہر کی نماز موسم گرما میں تاخیر سے ادا کرنا مستحب ہے، جمعہ میں  تاخیر کرنا مستحب نہیں ہے بلکہ جمعہ میں تعجیل افضل ہے جیسا کہ احادیث سے بھی ثابت ہے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روایت نقل کی ہے۔
’’عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، کان یصلي الجمعۃ حین تمیل الشمس‘‘(۱)
’’(وجمعۃ کظہر أصلا واستحبابا) في الزمانین؛ لأنہا خلفہ‘‘۔ وقال ابن عابدین رحمہ اللّٰہ: (واستحبابا في الزمانین) أي الشتاء والصیف، لکن جزم في الأشباہ من فن الأحکام أنہ لا یسن لہا الإبراد …… وقال الجمہور: لیس بمشروع؛ لأنہا تقام بجمع عظیم، فتأخیرہا مفض إلی الحرج ولا کذلک الظہر وموافقۃ الخلف لأصلہ من کل وجہ لیس بشرط‘‘(۲)

(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الجمعۃ: باب وقت الجمعۃ إذا زالت الشمس‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۳، رقم: ۹۰۴، مکتبہ فیصل، دیوبند۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتارعلی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب: في طلوع من مغربہا‘‘: ج ۲، ص: ۲۵،۲۶، مکتبہ زکریا، دیوبند۔

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص85

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: امام کے پیچھے محاذات میں کھڑے ہوکر تکبیر کہنے کا تعامل ہے اس لیے یہ ہی افضل ہے ؛البتہ حسب ضرورت وحسب موقع جس طرح اور جس موقع پر کھڑا ہوکر تکبیر کہے وہ درست ہے۔ شرعی ضرورت کے بغیر خوا مخواہ ادھر ادھر کھڑے ہوکر تکبیر کہنے کی عادت بنا لینا خلاف اولیٰ ہے۔ مگر تکبیر کا اعادہ نہیں ہوگا۔(۱)

(۱) ویقیم علی الأرض ہکذا في القنیۃ، وفي المسجد، ہکذا في البحر الرائق۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الھندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: الباب الثاني في الأذان، الفصل الثاني في کلمات الأذان والإقامۃ وکیفیتہما، ج۱ ،ص: ۱۱۲)
ویسن الأذان في موضع عال والإقامۃ علی الأرض۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۴۴۳)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص208

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: خلاف سنت ومکروہ ہے مگر نماز ادا ہوجائے گی۔(۲)
’’یکرہ اشتمال الصماء والاعتجار والتلثم، قال الشامي: قولہ: والتلثم وہو تغطیۃ الأنف والفم في الصلاۃ لأنہ یشبہ فعل المجوس حال عبادتہم النیران‘‘(۱)

(۲) قال صلی اللّٰہ علیہ وسلم أمرت أن أسجد علی سبعۃ أعظم وأن لا أکف شعرا ولا ثوبا متفق علیہ، ذکرہ في البرہان، وکذا یکرہ الاشتمالۃ الصماء في الصلاۃ وہو أن یلف بثوب واحد رأسہ وسائر بدنہ ولا یدع منفذا لیدہ وہل یشترط عدم الائتزار مع ذلک عن محمد یشترط وغیرہ لا یشترطہ ویکرہ الاعتجار وہو أن یلف العمامۃ حول رأسہ ویدع وسطہا کما یفعلہ الدعرۃ ومتوشحا لا یکرہ وفي ثوب واحد لیس علی عاتقہ بعضہ یکرہ إلا لضرورۃ کما في فتح القدیر۔ (ملا خسرو الحنفي، درر الحکام شرح غرر الاحکام، ’’مکروہات الصلاۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۰۶)
ویکرہ لبسۃ الصماء، وروی الحسن عن أبي حنیفۃ أنہا کالاضطباع،…وإنما کرہہا؛ لأنہا من لباس أہل الأثر والبطر، وفي البخاري أنہ علیہ السلام نہی عن لبسۃ الصماء فقال: إنما یکون الصماء إذا لم یکن علیک إزار۔ قیل: ہی اشتمال الیہود۔ وقال الجوہري عن أبي عبید: اشتمال الصماء أن تخلل جسدک بثوبک نحو سلمۃ الأعراب بأکیستہم وہي أن یرد الکساء من قبل یمینہ علی یدہ الیسری وعاتقہ الأیسر ثم یردہ ثانیۃ من خلفہ علی یدہ الیمنی أو عاتقہ الأیمن فیغطیہا۔ وقیل: أن یشتمل بثوبہ فیخلل جسدہ کلہ ولا یرفع جانبا یخرج یدہ منہ۔ وقیل: أن یشتمل ثوب واحد لیس علیہ إزار، وفي مشارق الأنوار ہو الالتفاف في ثوب واحد من رأسہ إلی قدمیہ یخلل بہ جسدہ کلہ وہو التلفف، قال سمیت بذلک واللّٰہ أعلم لاشتمالہا علی أعضائہ حتی لا یجد مستقرا کالصخرۃ الصماء أو یشدہا وضمہا جمیع الجسد، ومنہ صمام القارورۃ الذي تسد بہ فوہا۔ (العیني، البنایۃ شرح الھدایۃ، ’’باب ما فسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا، فصل في العوارض‘‘: ج ۲، ص: ۴۴۷)
(۱)ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ   وما یکرہ فیہا‘‘: ج ۲، ص: ۴۲۳۔


 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص168


 

اسلامی عقائد

Ref.No.2837/45-4487

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ تراویح سنانے والے حافظ کے لئے سامع کا ہونا ضروری نہیں ہے، بلکہ اس کو اچھا یاد ہونا ضروری ہے۔ سامع کے ہونے نہ ہونے سے تراویح کی نماز میں کوئی فرق نہیں آئے گا، البتہ اگر سامع ہو تو حافظ کے لئے آسانی ہوتی ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1009

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: اگر چند  نمازیں  کسی وجہ سے چھوٹ جائیں  توان کی قضاء  کرتے وقت  ترتیب کا خیال رکھنا ضروری ہے۔خندق کے موقع پر  نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی چار نمازیں  رہ گئی تھیں تو آپ نے بالترتیب ان کی قضاء فرمائی تھی۔ نیز حضرت ابن عمر کی روایت ہے : ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال : من نسی صلاۃ فلم یذکرھا الا وھو مع الامام فلیصل مع الامام ولیجعلھا تطوعا ثم لیقض ماتذکر ثم لیعد ماکان صلاہ مع الامام۔مزید تفصیل کے لئے  دیکھئے بدائع ج1،ص339،338۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 39/1168

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  بیمہ کرانا ناجائز تھا لیکن  اب اس رقم کو بیمہ کمپنی سے نکال لینا اور کسی غریب  اور مستحق کو بلا نیت ثواب صدقہ کردینا لازم ہے ۔  اگر آپ خود صاحب نصاب نہیں ہیں ،مقروض  بھی ہیں اوربیمہ کی رقم سے قرض کی ادائیگی چاہتے ہیں تو ایسا کرنے کی گنجائش ہے۔  اور اگر قرض کی ادائیگی کے بعد بچ جائے تو آپ اپنے استعمال میں لاسکتے ہیں، یا کسی اور مستحق کو بلا نیت ثواب صدقہ کردیں۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 1289/42-842

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آیت کریمہ کا ترجمہ آپ نے غلط سمجھ لیا ہے۔ آیت ہے:

 وَقَالَ لِلَّذِي ظَنَّ أَنَّهُ نَاجٍ مِّنْهُمَا اذْكُرْنِي عِندَ رَبِّكَ فَأَنسَاهُ الشَّيْطَانُ ذِكْرَ رَبِّهِ فَلَبِثَ فِي السِّجْنِ بِضْعَ سِنِينَ (سورۃ یوسف 42)۔

آیت کا مطلب یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے قیدی ساتھی سے فرمایا کہ اپنے آقا کے سامنے میرا بھی تذکرہ  کرنا کہ ایک شخص بے قصور قید میں ہے، اس نے وعدہ کرلیا پھر اس قیدی کو اپنے آقا سے یوسف علیہ السلام  کا تذکرہ کرنا شیطان نے بھُلادیا اس وجہ سے یوسف علیہ السلام کو قید خانہ میں اور بھی چند سال رہنا پڑا۔ یہاں رب سے مراد مالک ہے، جیسے کہ جوہری نے الصحاح میں  لکھا ہے : رب کل شیئ مالکہ: ہر شیئ کا رب وہی ہے جو اس کا مالک ہے۔ عربی محاورہ میں بھی اس کا استعمال ہے جیسے  صاحب خانہ کو رب الدار، کشتی کے مالک کو رب السفینۃ وغیرہ ۔ مذکورہ آیت میں رب سے مراد آقا اور مالک ہے۔ جبکہ آپ نے سمجھا کہ یوسف علیہ السلام کو شیطان نے اللہ کی یاد بھلادی تھی حالانکہ اس قیدی کو اپنے آقا اور مالک سے یوسف علیہ السلام  کا تذکرہ کرنا شیطان نے بھلادیا ۔ (معارف القرآن 5/67)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند