Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:در منثور و بیہقی وغیرہ میں حضرت ابن عباسؓ کے اس اثر کو مکمل بیان کیا گیا ہے اور حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’تحذیر الناس‘‘ میں اس پر تفصیل کے ساتھ کلام فرمایا ہے جس کے مطالعہ کے بعد ان شاء اللہ تعالیٰ کوئی اعتراض باقی نہ رہے گا۔ (۱)
(۱) أخبرنا أحمدبن یعقوب الثقفي، ثنا عبید بن غنام النخعي، أنبأ علي بن حکیم، ثنا شریک، عن عطاء بن السائب، عن أبي الضحی،عن إبن عباس رضي اللّٰہ عنہما، أنہ قال: {اَللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّمِنَ الْاَرْضِ مِثْلَھُنَّط} قال سبع أرضین في کل أرض نبي کنبیکم و آدم کآدم، ونوح کنوح، وإبراہیم کإبراہیم، وعیسیٰ کعیسیٰ۔ (المستدرک علی الصحیحین للحاکم، ’’کتاب التفسیر: تفسیر سورۃ الطلاق‘‘: ج۲، ص: ۵۳۵، رقم: ۳۸۲۲؛ ہکذا في الأسماء والصفات للبیہقي، ’’باب بدأ الخلق‘‘: ج ۲، ص: ۱۶۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند جلد اول ص 198
مساجد و مدارس
Ref. No. 2323/44-3487
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ محلہ والوں کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی مسجد کی تمام ضروریات کا خیال رکھیں، تاہم مسجد کے لئے ان سے زبردستی چندہ لینا جائز نہیں ہوگا۔ اگرچندہ اس طرح ہو کہ مسجد کی ضروریات ان کے سامنے رکھی جائیں اور کہاجائے کہ مسجد کمیٹی نے یہ طے کیا ہے کہ محلہ کے افراد یہ طے شدہ رقم دیدیں تو ضرروریات پوری ہوسکتی ہیں، اس لئے ہم آپ سے یہ چندہ کرنے آئے ہیں، توامید ہے کہ اس طرح محلہ والے چندہ دینے کے لئے تیار ہوجائیں گے۔ اور اگر کچھ افراد چندہ نہ دیں تو ان کو چھوڑدیاجائے، ان سے بالکل بھی تعرض نہ کیا جائے ، ان سے زبردستی کرنا یاکسی بھی طرح ان کو اذیت دینا شرعا جائز نہیں ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 2569/45-3936
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جو کاروبار شریعت میں ناجائز ہے، اس میں گو کہ بظاہر ہزار فائدے نظر آئیں مگر حقیقت میں ان میں خیر نہیں ہوتی، ایک مسلمان جیسے مسلمان کا خیر خواہ ہوتا ہے غیر مسلم کا بھی اس کو خیر خواہ ہونا چاہئے، اس لئے کسی غیر مسلم کو بھی ناجائز کام کی رہنمائی کرنا اور اس پر اجرت لینا جائز نہیں ہے، اگر غیر مسلم کی اعانت کی اور اس نے اس حرام کاروبار دلانے پر اجرت دی تو اس کا لینا جائز نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
بدعات و منکرات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اللہ تعالیٰ سے دعا مسجد میں اور مسجد سے باہر درست ہے، کھڑے ہوکر بھی دعا کرنا صحیح ہے۔ مذکورہ طریقہ پر دعا کرنے میں کوئی وجہ ممانعت نہیں، البتہ اسے شرعی لازمی حکم سمجھنا درست نہیں۔(۱)
(۱) {فَإِذَا قَضَیْتُمُ الصَّلٰوۃَ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ قِیٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِکُمْج} (سورۃ النساء: ۱۰۳)
{وَذَا النُّوْنِ إِذْ ذَّھَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَنْ لَّنْ نَّقْدِرَ عَلَیْہِ فَنَادٰی فِي الظُّلُمٰتِ أَنْ لَّا ٓ إِلٰہَ إِلَّا ٓ أَنْتَ سُبْحٰنَکَصلیق إِنِّيْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ ہجصلے ۸۷ فَاسْتَجَبْنَا لَہٗلا وَنَجَّیْنٰہُ مِنَ الْغَمِّ ط وَکَذٰلِکَ نُنْجِی الْمُؤْمِنِیْنَہ۸۸} (سورۃ الأنبیاء: ۸۷ -۸۸)
وعبد اللّٰہ الخطمي رضي اللّٰہ عنہ قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا أراد أن یستودع الجیش قال: استودع اللّٰہ دینکم وأمانتکم وخواتیم أعمالکم: رواہ أبو داود۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب أسماء اللّٰہ تعالیٰ: باب الدعوات في الأوقات، الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص326
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:ناپاک کپڑے سے نجاست کو زائل کر دیا جائے، تو وہ پاک ہو جاتا ہے، اصل مقصود نجاست کو بالکلیہ زائل کرنا ہے، اگر کوئی نجاست ایسی ہو جو کھرچنے سے زائل ہو جاتی ہو اور اس کا اثر بالکل ختم ہو جاتا ہو، تو صرف کھرچنے سے بھی کپڑا پاک ہو جاتا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ایسی ہی نجاست کا ذکر ہے(۲) اور جو نجاست کھرچنے سے ختم نہ ہوتی ہو اس کو ختم کرنے کے لیے کپڑے کا دھونا ضروری ہوتا ہے ،عام طور پر تین مرتبہ دھونے سے نجاست ختم ہو جاتی ہے اس لیے کپڑے کو تین مرتبہ دھونا چاہیے۔
واشنگ مشین یا بالٹی میں ایک کپڑا یا متعدد کپڑے ڈالے جائیں، پھر ان کو نکال لیا جائے اور اس پانی کو بہا دیا جائے، پھر دوسرا پانی لیا جائے اور اس میں کپڑے ڈالے جائیں اس طرح تین مرتبہ پانی میں کپڑے ڈالے جائیں۔ ایسا نہ ہو کہ ایک کپڑا پانی میں ڈال کر نکال لیا اور پھر اسے نچوڑا اور پھر اسی پانی میں دوسرا کپڑا ڈال دیا جائے نیز ہر مرتبہ کپڑے نچوڑنا بھی ضروری ہے۔ اگر واشنگ مشین میں پانی کم ہو، تو احتیاط اس میں ہے کہ دو بارہ پانی ڈالیں یا بالٹی میں کپڑے کو ڈال کر پاک کر لیا جائے۔(۱)
(۲) عن عائشۃ رضی اللّٰہ عنھا قالت: ربما فرکتہ من ثوب رسول اللّٰہ ﷺ بیدي، (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ابواب الطہارۃ وسننھا، باب في فرک المني من الثوب،ج۱،ص:۴۱)؛ و یطھر البدن والثوب والخف و إذا أصابہ مني بفرکہ إن کان یابسا وبغسلہ إن کان رطباً۔ (ابن نجیم،البحر الرائق، کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، ج۱، ص:۳۸۹)
(۱)و یطھر متنجس بنجاسۃ مرئیۃ بزوال عینھا و لو بمرۃ علی الصحیح ولا یضر بقاء أثر شق زوالہ و غیر المرئیۃ بغسلھا ثلاثاً والعصر کل مرۃ … و یطھر المني الجاف بفرکہ عن الثوب والبدن و یطھر الرطب بغسلہ ( الشرنبلالي، نورالإیضاح، کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس والطہارۃ عنہا،ص:۵۳-۵۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص421
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:وہ پانی طاہر ہے، اس سے کھانا بنانے نہانے کی گنجائش ہے اور مطہر نہیں ہے، اس لیے بہشتی زیور میں کراہت لکھی گئی ہے؛ لہٰذا کوئی بات قابل اعتراض نہیں ہے۔(۱)
(۱) اتفق أصحابنا رحمھم اللّٰہ أن الماء المستعمل لیس بطھور، حتی لا یجوز التوضي بہ، فلا یجوز غسل شيء من النجاسات بہ… واختلفوا في طھارتہ، قال محمد رحمہ اللہ: وھو طاھر غیر طھور، وھو روایۃ عن أبي حنیفہؒو علیہ الفتویٰ۔ (الفتاویٰ التاتارخانیہ، کتاب الطہارۃ، الفصل الرابع، في المیاہ التي یجوز الوضوء بہا، ج۱،ص:۳۴۴)؛ و ھو (أي الماء المستعمل) طاھر، ولو من جنب، وھو الظاھر، لکن یکرہ شربہ والعجن بہ تنزیھاً للاستقذار۔ (ابن عابدین، الدرالمختار مع ردالمحتار، کتاب الطہارۃ، باب المیاہ، مطلب في تفسیر القربۃ والثواب، ج۱، ص:۳۵۲)؛ و اتفق أصحابنا رحمھم اللہ: أن الماء المستعمل لیس بطھور حتی لا یجوز التوضؤ بہ، واختلفوا في طھارتہ، قال محمد رحمہ اللّٰہ : ھو طاہر، وھو روایۃ عن أبي حنیفۃؒ و علیہ الفتویٰ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیہ، کتاب الطہارۃ، الفصل الثانی فیما لایجوز بہ التوضوء، ج ۱،ص:۷۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص469
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ووٹ ایک طرح کی شہادت ہے، جہاں تک ممکن ہو ووٹ ضرور ڈالنا چاہیے(۲) ووٹ ڈالنے کے بعد انگلی پر جو سیاہی لگائی جاتی ہے، وہ جلدی ختم نہیں ہوتی؛ اس لیے اس کے رہتے ہوئے وضو درست ہوگا۔(۳)
(۲)قال النووي۔۔۔ رحمہ اللہ تعالیٰ: أجمعوا علی أن من وعد انساناً شیئا لیس بمنھی عنہ فینبغي أن یفي بوعدہ۔ (ملا علی قاری، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الآداب، باب المزاح،‘‘ج۹، ص:۱۱۴)
فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص138
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:گلوکوز چڑھانے کی وجہ سے اگر سرنچ کی نلکی میں اس قدر خون آجائے کہ اگر وہ سرنچ میں نہ ہوتا، تو باہر بہہ جاتا؛ اس سے وضو ٹوٹ جائے گا اور اگر اس قدر خون نہیں ہے یا بالکل بھی نہیں ہے، تو گلوکوز چڑھانے سے وضو نہیں ٹوٹتا ہے۔ الوضوء مما خرج ولیس مما دخل(۱) القراد إذا مص عضو انسان فامتلأ دما، إن کان صغیرا لا ینقض وضوؤہ، کما لو مصت الذباب أو البعوض، و إن کان کبیرا ینقض، وکذا العلقۃ إذا مصت عضو إنسان حتی امتلأت من دمہ انتقض وضوؤہ (۲)
(۱) الزیلعي، نصب الرایہ ، ’’باب ما یوجب القضاء والکفارۃ،‘‘ ج۲، ص:۴۵۴
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الفصل الخامس: في نواقض الوضوء، و منھا ما یخرج من غیر السبیلین،‘‘ ج ۱، ص:۶۲
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص239
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں مسجد کی انتظامیہ کمیٹی کے فیصلہ پر عمل کرنا ضروری ہے اور انتظامیہ کو ہی فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے جس اخلاقی جرم کا سوال میں ذکر ہے اس میں اختلاف ہے صورت حال پورے طور پر واضح نہیں نیز اخلاقی جرم امام صاحب کے بیٹے کا ہے نہ کہ امام صاحب کا اس لیے جن لوگوں نے نماز ان کی اقتداء میں پڑھ لی ان کی نماز درست ہوگئی ہے؛ لیکن اس طرح کے امور سے مسجد کی بدنامی ہے اس لیے منتظمہ کمیٹی نے جو فیصلہ کیا ہے یا کرے گی اس پر عمل کرنا چاہئے امام و مؤذن کو بھی فیصلہ کے قبول کرنے میں تامل نہ ہونا چاہئے۔(۱)
(۱) (لو أم قوما وہم لہ کارہون فہو من ثلاثۃ أوجہ: إن کانت الکراہۃ لفساد فیہ أو کانوا أحق بالإمامۃ منہ یکرہ، وإن کان ہو أحق بہا منہم ولا فساد فیہ، ومع ہذا یکرہونہ لایکرہ لہ التقدم لأن الجاہل والفاسق یکرہ العالم والصالح، قال صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن سرکم أن تقبل صلاتکم فلیؤمکم علماؤکم فإنہم وفدکم فیما بینکم وبین ربکم، وفي روایۃ فلیؤمکم خیارکم۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب بیان الأحق بالإمامۃ‘‘، ج۱، ص: ۱۴۳) …
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص312
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس صورت میں مسجد کو قطب نما رکھ کر صحیح کرلیا جائے اور دیکھا جائے کہ اگر قطب نما سے زیادہ فرق معلوم ہوتا ہو تو پھر سمت قبلہ کو صحیح کرکے مسجد میں صفیں بچھائی جائیں خواہ وہ صفیں ٹیڑھی ہی ہوجائیں اگر کوئی زیادہ فرق نہ ہو؛ بلکہ یوں ہی معمولی سا فرق ہو تو مسجد کی صفوں کو ٹیڑھی نہ کی جائے بلکہ صفیں سیدھی کرکے بچھائی جائیں۔(۱)
(۱) اتفقوا علی أن القبلۃ في حق من کان عین الکعبۃ فیلزمہ التوجہ إلی عینہا … ومن کان خارجاً من مکۃ فقبلتہ جہۃ الکعبۃ وہو قول عامۃ المشایخ ہو الصحیح۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ: الباب الثالث في شروط الصلوۃ، الفصل الثالث في استقبال القبلۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۲۰، زکریا دیوبند)
فمن کان بحضرۃ الکعبۃ یجب علیہ إصابۃ عینہا ومن کان غائباً منہا ففرضہ جہۃ الکعبۃ … وقبلۃ أہل المشرق ہي جہۃ المغرب۔ (إبراہیم الحلبي، الحلبی کبیری، ’’کتاب الصلوۃ: وأما الشرط الرابع، وہو استقبال القبلۃ‘‘: ص: ۱۹۱، دارالکتاب دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص427