Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر جوتا پاک ہو تو ایسے جوتے کے ساتھ نماز پڑھنا جائز ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ ؓسے جوتا پہن کر نماز پڑھنا ثابت ہے، تاہم مسجد میں جوتے کے ساتھ نماز پڑھنا موجودہ ماحول میں درست نہیں ہے؛ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسجد میں فرش نہیں تھا؛ بلکہ مسجد میں سنگ ریزے تھے؛ ا س لیے وہاں پر آپ جوتے میں نماز پڑھتے تھے؛ لیکن آج کل مساجد میں فرش، ٹائلس اور عمدہ قالین بچھی ہوئی ہوتی ہے مسجد میں جوتا لے کر جانے میں مسجد کی تلویث کا اندیشہ ہے۔ نیز یہ آپسی نزاع کا باعث بن سکتاہے؛ اس لیے کہ عام طورپر لوگ مسجد میں جوتا لے کر داخل نہیں ہوتے؛ بلکہ ہمارے عرف میں مسجد میں جوتا پہن کر جانا اگر چہ جوتا پاک ہو احترام مسجد کے خلاف تصور کیا جاتا ہے اب اگر کوئی ایک آدمی جوتا پہن کر مسجد میں داخل ہوگا تو دوسرے لوگوں کو اعتراض ہوگا اور یہ نزاع کا باعث بنے گا؛ اس لیے مسجد میں جوتا پہن کر نماز نہیں پڑھنی چاہیے؛ ہاں! مسجد کے علاوہ کسی جگہ جوتے پہن کر نماز پڑھنے کی ضرورت ہو تو نماز پڑھ سکتے ہیں۔
’’(قولہ: وصلاتہ فیہما) أي في النعل والخف الطاہرین أفضل؛ مخالفۃً للیہود، تتارخانیۃ۔ وفي الحدیث: صلوا في نعالکم، ولاتشبہوا بالیہود رواہ الطبراني کما في الجامع الصغیر رامزًا لصحتہ۔ وأخذ منہ جمع من الحنابلۃ أنہ سنۃ، ولو کان یمشي بہا في الشوارع؛ لأنّ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وصحبہ کانوا یمشون بہا في طرق المدینۃ ثم یصلون بہا۔ قلت: لکن إذا خشی تلویث فرش المسجد بہا ینبغي عدمہ وإن کانت طاہرۃً۔ و أما المسجد النبوي فقد کان مفروشًا بالحصی في زمنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بخلافہ في زماننا، ولعل ذلک محمل ما في عمدۃ المفتي من أن دخول المسجد متنعلًا من سوء الأدب تأمل‘‘(۱)
’’فروع: یکرہ اشتمال الصلاۃ علی الصماء والاعتجار والتلثم والتنخم وکل عمل قلیل بلا عذر‘‘(۲)
’’أخبرنا أبو مسلمۃ سعید بن یزید الأزدي، قال: سألت أنس بن مالک: أکان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یصلي في نعلیہ؟ قال: ’’نعم‘‘(۱) وقد علمت أن النعال غیر المداس المعروف الآن في بلادنا، والصلاۃ في المداس ربما لا تصح؛ لأن
القدم تبقی فیہا معلّقۃ، ولا تقع علی الأرض، فلا تتم السجدۃ۔ ثم في الشامي: أن الصلاۃ في النعلین مستحبۃ، وفي موضع آخر: أنہا مکروہۃ تنزیہًا۔ قلتُ: بل ہي مباح، وحقیقۃ الأمر عندي: أن موسی علیہ الصلاۃ والسلام لما ذہب إلی الطور {نُوْدِيَ ٰیمُوْسٰیہط ۱۱ إِنِّيْٓ أَنَا رَبُّکَ فَاخْلَعْ نَعْلَیْکَج} (سورۃ طہ: ۱۱، ۱۲) حملہ الیہود علی النہی مطلقًا، فلم یجوزوا الصلاۃ في النعلین بحال، وغلطوا فیہ فأصلَحہُ الشرع وکشف عن حقیقتہ من أنہا جائزۃ فیہما، وما زعموہ باطل، ولذا ورد في بعض الروایات: خالفوا الیہود فعلم أن الأمر بالصلاۃ فیہما علی ما في بعض الروایات، إنما ہي لأجل تقریر مُخالفتہم، لا لأنہا مطلوبۃ في نفسہا‘‘(۲)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘: مطلب في أحکام المساجد، فروع: یکرہ اشتمال الصماء والاعتجار، ج ۲، ص: ۴۲۹
(۲) أیضًا۔
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب الصلاۃ في النعال‘‘: ج۱، ص: ۵۶، رقم: ۳۸۶۔
(۲) الکشمیری، فیض الباري شرح صحیح البخاري، ’’کتاب الصلاۃ: باب الصلاۃ في النعال‘‘: ج ۲، ص:۳۵، شیخ الہند دیوبند۔
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص338
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: نفل زائد اور مستحب نماز ہوتی ہے اس کا پڑھنا ضروری نہیں ہے، نفل نماز کا حکم یہ ہے کہ پڑھ لیا جائے تو باعث اجر و ثواب ہے، اور ہماری فرض نمازوں میں جو کمی رہ جاتی ہے یہ نفل ہمارے فرض کے ثواب کی تکمیل کا ذریعہ بنتی ہے؛ اس لیے روزانہ کچھ نہ کچھ نوافل پڑھتے رہنا چاہئے اور اُن کا شوق رکھنا چاہئے؛ جیساکہ امام ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روایت نقل کی ہے: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: قیامت کے دن بندے سے جس چیز کا سب سے پہلے حساب لیا جائے گا وہ نماز ہوگی، اگر اس نے نماز مکمل طریقے سے ادا کی ہوگی تو نفل نماز علیحدہ لکھی جائے گی، اور اگر مکمل طریقے سے ادا نہ کی ہوگی تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے کہے گا کہ: دیکھو، کیا میرے بندے کے پاس نفل نمازیں ہیں، تو ان سے فرض کی کمی کو پورا کرو، پھر باقی اعمال کا بھی اسی طرح حساب ہوگا۔
’’عن تمیم الداري، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: أول ما یحاسب بہ العبد یوم القیامۃ صلاتہ، فإن أکملہا کتبت لہ نافلۃ، فإن لم یکن أکملہا، قال اللّٰہ سبحانہ للملائکتہ: انظروا، ہل تجدون لعبدي من تطوع؟ فأکملوا بہا ما ضیع من فریضتہ، ثم تؤخذ الأعمال علی حسب ذلک‘‘(۱)
مذکورہ حدیث میں نوافل کی واضح اہمیت وافضلیت بیان کی گئی ہے اور اس میں دعوت فکر ہے ایسے حضرات کے لیے جو سنن ونوافل کی ادائیگی میں کوتاہی کرتے ہیں، انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت اور بندگی کے لیے پیدا کیا ہے۔ انسان کو چاہیے کہ اللہ رب العزت کا شکر گزار بندہ بنے اور اپنے رب کے حضور فرض نماز کے علاوہ بھی شکرانے کے طور پر زیادہ سے زیادہ نوافل ادا کرے تاکہ اللہ تعالیٰ اس سے خوش ہو جائے اور دنیا و آخرت کی تمام مشکلات اس کے لیے آسان ہو جائیں۔
نیز آپ نے پوچھا ہے کہ نفل نماز میں لمبی رکعتیں اور تلاوت میں دلچسپی کی بنا پر قرآن کریم دیکھ کر پڑھ سکتے ہیں یا نہیں؟ اس سلسلے میں یاد رکھیں کہ آپ تمام فرض، واجب اور نفل نمازوں میں قرآن کریم کا وہی حصہ تلاوت کریں جو آپ کو زبانی یاد ہے۔ مزید سورتیں اور آیات یاد کرنے کی کوشش کریں۔ اگر نوافل میں طویل تلاوت کا دل چاہ رہا ہو تو ہر رکعت میں وہ تمام آیات اور چھوٹی سورتیں تلاوت کر لیں جو آپ کو یاد ہیں۔
اگر آپ قرآن کریم دیکھ کر تلاوت کریں گے تو آپ کی نماز فاسد ہو جائیگی اس لیے کہ فقہائے احناف کے نزدیک نماز میں مصحف (قرآن کریم) سے دیکھ کر تلاوت کرنا، صفحہ پلٹنا اور رکوع و سجود کے لیے مصحف (قرآن کریم) کو ایک طرف رکھنا عملِ کثیر ہے اور عملِ کثیر سے نماز فاسد جاتی ہے۔ جیسا کہ صاحب ہدایہ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
’’إذا قرأ الإمام من المصحف فسدت صلاتہ، عند أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ وقالا: ہي تامۃ، لأنہا عبادۃ انضافت إلی عبادۃ، إلا أنہ یکرہ، لأنہ یشبہ بصنع أہل الکتاب، ولأبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ أن حمل المصحف والنظر فیہ وتقلیب الأوراق عمل کثیر، ولأنہ تلقن من المصحف فصار کما إذا تلقن من غیرہ، وعلی ہذا لا فرق بین المحمول والموضوع، وعلی الأول یفترقان‘‘(۱)
خلاصہ: امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک فرائض ونوافل تمام نمازوں میں قرآن سے دیکھ کر قرات کرنے سے نماز فاسد ہو جاتی ہے اور صاحبین رحمہما اللہ کے نزدیک کراہت کے ساتھ نماز ہو جاتی ہے، مگر احناف کا فتویٰ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے قول پر ہے۔
(۱) أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’باب ما جاء في أول ما یحاسب بہ‘‘: ج ۱ ، ص: ۱۰۳ رقم: ۱۴۲۶۔)
(۱) المرغیناني، الہدایۃ، کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا: ج ۱، ص: ۱۳۷-۱۳۸۔)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص395
زکوۃ / صدقہ و فطرہ
Ref. No. 986 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
صاحب نصاب کو زکوۃ دینی درست نہیں، اگر زکوٰۃ دیدی گئی تو ادا نہیں ہوگی۔ ایسے شخص کو امداد و تعاون کی رقم دینی نہ چاہیے۔ شامی
واللہ تعالی اعلم
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Islamic Creed (Aqaaid)
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as hereunder:
He wrote in his profile "Fazile Deoband from Jamia Deneeiyat". Jamia Deeniyat offers courses in the distance mode of learning; every muslim male or female can join it to seek Islamic knowledge without regard to Maslak and school of thoughts, and also get certificate after completion of the course. Joining this distance learning course does not necessarily mean that they fully agree with the thoughts and schools of Ulamae Deoband. And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 967
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: بشرط صحت سوال اگر زید کے والد کے وارثین میں کل تین ہی افراد ہیں تو کل جائداد کو چار حصوں میں تقسیم کرکے دو حصے زید کو اور ایک وہ حصہ جو اس بہن کے حصہ میں آتا ہے جو مصالحت کرچکی ہے زید ہی کو دے کر یعنی زید کو کل تین حصے ملیں گے، باقی ایک حصہ مطالبہ کرنے والی بہن کو دیدیا جائے۔ بہن جس پر راضی ہو وہی صورت اختیار کریں ۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Miscellaneous
Ref. No. 38 / 1079
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
Some ulama hold photographic imaging, video imaging and the like to be forbidden while others say that today’s digital photography is not that photography which is impermissible in Islam, hence digital photography is not Haram.
Therefore, we say it is better to avoid all kinds of photographic and video imaging. And also it should not be used for Tableeghi Islamic purposes.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
نکاح و شادی
Ref. No. 40/1041
الجواب وباللہ التوفیق:
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ تمام امور میں برابری ضروری نہیں ہے، البتہ اتنا خیال رکھنا ضروری ہے کہ لڑکی یا لڑکی والوں کے لئے باعث عار نہ ہو تو ایسی جگہ نکاح کیا جاسکتا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 41/926
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جمع متکلم کا صیغہ استعمال کرے، اور اس میں تمام امت مسلمہ کی نیت کرے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 1403/42-815
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔جس کی جانب اشارہ کیا اگر وہ پہچان کا آدمی ہے تو ممکن ہے کہ وہ کسی معاملے میں ماخوذ ہو ، اور اس پربے بنیاد الزامات عائد ہوں، مگروہ شخص جلدہی ان تمام الزامات سے بری ہوجائےگا۔ نیز خواب دیکھنے والا ممکن کہ کسی معاملے میں بطور گواہ مطلوب ہو۔ اور وہ گواہی دے تو اس کی گواہی قابل قبول ہوگی۔ ان شاء اللہ
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1614/43-1167
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔قصر و اتمام کے سلسلہ میں آخر وقت کا اعتبار ہوگا۔اگر آخر وقت میں سفر شروع کیا تو قصر کرے گا، اور اگر آخر وقت میں مقیم ہوگیا تو اتمام کرے گا۔ اس لئے اگر کوئی مغرب سے قبل اپنے گھر پہونچ گیا اور عصر کا وقت موجود تھا مگر اس نے نماز نہیں پڑھی توچار رکعت قضا میں پڑھے گا۔ اسی طرح اگر کسی نے مغرب سے دس منٹ قبل سفر شروع کیا اور فناء شہر سے نکل گیا تو وہ دو رکعت یعنی قصر پڑھے گا، اور اگر قضا ہوگئی تو دو رکعت قضا کرے گا۔
والمعتبر في تغيير الفرض آخر الوقت) وهو قدر ما يسع التحريمة (فإن كان) المكلف (في آخره مسافراً وجب ركعتان وإلا فأربع) ؛ لأنه المعتبر في السببية عند عدم الأداء قبله۔ (قوله : والمعتبر في تغيير الفرض) أي من قصر إلى إتمام وبالعكس۔ (قوله: وهو) أي آخر الوقت قدر ما يسع التحريمة، كذا في الشرنبلالية والبحر والنهر، والذي في شرح المنية تفسيره بما لا يبقى منه قدر ما يسع التحريمة، وعند زفر بما لا يسع فيه أداء الصلاة، (قوله: وجب ركعتان) أي وإن كان في أوله مقيماً وقوله: وإلا فأربع أي وإن لم يكن في آخره مسافراً بأن كان مقيماً في آخره فالواجب أربع' (شامی 2/131)
'' قال - رحمه الله - : (والمعتبر فيه آخر الوقت) أي المعتبر في وجوب الأربع أو الركعتين آخر الوقت، فإن كان آخر الوقت مسافراً وجب عليه ركعتان، وإن كان مقيماً وجب عليه الأربع ؛ لأنه المعتبر في السببية عند عدم الأداء في أول الوقت''۔( تبيين الحقائق 1/215)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند