Frequently Asked Questions
تجارت و ملازمت
Ref. No. 2108/44-2165
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ملازمین کو ٹھیکیدار کی طرف سے کام سے پہلے کچھ فیصد جو رقم ملتی ہے وہ کس چیز کے عوض ہے؟ اجرت یا پیسہ کام کے عوض ہونا چاہئے، اس لئے بہتر یہ ہے کام سے پہلے جو پیسے دئے اس کو کسی کام کے عوض میں شمار کرلیاجائے، کیونکہ وہ رقم ٹھیکیدار کی نہیں بلکہ حکومت کی ہے، اس لئے ٹھیکیدار کی طرف سے اس کو ہدیہ قرار نہیں دیاجاسکتاہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2220/44-2347
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عورتوں کا نماز تراویح پڑھنے کے لئے مسجد جانا مناسب نہیں ہے۔ نمازیں ثواب کے لئے ہیں، اور عورتوں کو ثواب گھر پر نماز پڑھنے میں زیادہ ملتاہے، تو ان کو مسجد جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ تاہم اگر کسی جگہ تمام احتیاطی تدابیر کے ساتھ نماز تراویح کا نظم ہے اور عورتیں جاتی ہیں تو صحت اقتداء کے لئے صفوں کے درمیان اتصال ضروری ہے، اورمردوعورت کے درمیان دو صف یا اس سے کم کا فاصلہ ہونا چاہئے اگرتین صف یازیادہ کا فاصلہ ہوا تو اقتداء درست نہیں ہوگی ۔
" عن عبد الله ، عن النبي صلى الله عليه وسلم ، قال : صلاة المرأة في بيتها أفضل من صلاتها في حجرتها ، وصلاتها في مخدعها أفضل من صلاتها في بيتها". (المستدرك 405 - (1 / 209)
"عن عائشة ، رضي الله عنها ، قالت: لو أدرك رسول الله صلى الله عليه وسلم ما أحدث النساء لمنعهن كما منعت نساء بني إسرائيل، قلت لعمرة: أو منعن؟ قالت: نعم". (صحيح البخاري (1 / 219) ط: سعید)
"(ويكره حضورهن الجماعة) ولو لجمعة وعيد ووعظ (مطلقاً) ولو عجوزاً ليلاً (على المذهب) المفتى به؛ لفساد الزمان، واستثنى الكمال بحثاً العجائز والمتفانية". (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (1 / 566) ط: سعید)
"(ويمنع من الاقتداء) صف من النساء بلا حائل قدر ذراع أو ارتفاعهن قدر قامة الرجل، مفتاح السعادة أو (طريق تجري فيه عجلة) آلة يجرها الثور (أو نهر تجري فيه السفن) ولو زورقًا ولو في المسجد (أو خلاء) أي فضاء (في الصحراء) أو في مسجد كبير جدًّا كمسجد القدس (يسع صفين) فأكثر إلا إذا اتصلت الصفوف فيصح مطلقًا. (قوله: تجري فيه عجلة) أي تمر، وبه عبر في بعض النسخ. والعجلة بفتحتين. وفي الدرر: هو الذي تجري فيه العجلة والأوقار اھ وهو جمع وقر بالقاف. قال في المغرب: وأكثر استعماله في حمل البغل أو الحمار كالوسق في حمل البعير (قوله: أو نهر تجري فيه السفن) أي يمكن ذلك، ومثله يقال في قوله: تمر فيه عجلة ط. وأما البركة أو الحوض، فإن كان بحال لو وقعت النجاسة في جانب تنجس الجانب الآخر، لايمنع وإلا منع، كذا ذكره الصفار إسماعيل عن المحيط. وحاصله: أن الحوض الكبير المذكور في كتاب الطهارة يمنع أي ما لم تتصل الصفوف حوله كما يأتي (قوله ولو (زورقًا)) بتقديم الزاي: السفينة الصغيرة، كما في القاموس. وفي الملتقط: إذا كان كأضيق الطريق يمنع، وإن بحيث لايكون طريق مثله لايمنع سواء كان فيه ماء أو لا ... (قوله: ولو في المسجد) صرح به في الدرر والخانية وغيرهما (قوله: أو خلاء) بالمد: المكان الذي لا شيء به قاموس". (1/584، 585، باب الإمامة، کتاب الصلاة، ط: سعید)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 2329/44-3495
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جس شادی میں منکرات ناچ گانا وغیرہ ہو، اس میں شرکت کرنا درست نہیں ہے۔ اور اس طرح کے منکرات کی روک تھام کے لئے شہر کے ذمہ دار علماء کرام یا مساجد کے ائمہ کرام نکاح نہ پڑھانے کا فیصلہ کریں تو یہ بھی درست ہے۔ اسی طرح صرف مسجد کےامام یا مقتدا عالم جنازہ میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کریں تو درست ہے۔ لیکن مطلقا نماز جنازہ نہ پڑھانے کا فیصلہ کرنا درست نہیں ہے اس لئے اگر دوبارہ مشورہ کرکے فیصلہ میں تبدیلی کردی جائے تو بہتر ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:میت کو آگے رکھا جائے اور لوگ اس کے پیچھے چلیں یہی مسنون ہے۔(۲) میت کے ساتھ کلمہ طیبہ کی زور سے ضرب لگانا بدعت ہے؛ بلکہ آہستہ پڑھنا چاہئے۔(۱)
(۱) علی متبعی الجنازۃ الصمت ویکرہ لہم رفع الصوت بالذکر وقراء ۃ القرآن۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الحادی والعشرون: في الجنائز، الفصل الرابع في حمل الجنازۃ‘‘: ج ۱ ، ص: ۲۲۳)
(۲) الذي اختارہ في البحر لزومہ علیہ موسرا، أو لا لہا مال، أو لا لأنہ ککسوتہا وہي واجبۃ علیہ مطلقاً۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في کفن الزوجۃ علی الزوج‘‘: ج ۳، ص: ۱۰۱۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص402
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 2423/44-3656
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جس جگہ سے پیشاب خانہ کی نالی شروع ہوتی ہے وہاں سے اس نالی کا پانی ناپاک شمار ہوگا، اس کی چھینٹیں ناپاک ہوں گی۔ لیکن جو وضوخانہ کی نالی ہے اس میں پاک پانی ہونا غالب گمان ہے اس وجہ سے اس کی چھینٹیں پاک شمار ہوں گی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:چاند یا سورج کے گرہن پر کھانا، پینا بند کرنے وغیرہ کا حکم نہیں ہے(۱)؛ البتہ نوافل اور ذکر اللہ کرنے کا حکم ہے، وہ کرنا چاہئے۔ دیکھنے سے چونکہ نگاہ کمزور ہوتی ہے؛ اس لئے منع کیا جاتا ہے۔ (۲)
(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد، متفق علیہ۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸)
قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ہذہ الآیات التي یرسل اللّٰہ لا تکون موت أحد ولا لحیاتہ ولکن یخوف اللّٰہ بہ عبادہ، فإذا رئیتم شیئاً من ذلک فأفزعوا إلی ذکرہ ودعائہ واستغفارہ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الکسوف: باب الذکر في الکسوف‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۵، رقم: ۱۰۵۹)
(۲) یصلي بالناس من یملک اقامۃ الجمعۃ بیان للمستحب الخ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص523
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 2496/45-3798
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال، صورت مسئولہ میں والد کی وفات کے وقت ان کی اولاد میں سے جو لوگ باحیات تھے، ان کے درمیان ہی وراثت کی تقسیم عمل میں آئے گی، اور جس بیٹے کا انتقال ہوگیا تھا اس کا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ چنانچہ مرحوم کی کل جائداد کو 10 حصوں میں تقسیم کریں گے، ہر ایک بیٹے کو دو دو حصے اور ہر ایک بیٹی کو ایک ایک حصہ ملے گا۔ یعنی لڑکوں کو دوہرا اور لڑکیوں کو ااکہرا حصہ ملے گا۔ اور بڑے بھائی کی اولاد یعنی مرحوم کے پوتوں کو وراثت میں سے کوئی حصہ نہیں ملے گا، ان کا حصہ کا مطالبہ کرنا از روئے شرع جائز نہیں ہے، تاہم اگر وراثت میں حصہ پانے والے افراد اپنے حصہ میں سے کچھ نکال کر بطور حسن سلوک اپنے مرحوم بھائی کی اولاد کی مدد کریں اور ان کی ضروریات کا خیال کریں تو بڑے اجرو ثواب کے مستحق ہوں گے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:اگر بچہ مر گیا پھر اس کو نکالا گیا،تو دو سو ڈول پانی نکالا جائے اور اگر زندہ نکل آیا، تو کنواں پاک ہے۔ اگر اس کے بدن کو کوئی نجاست نہ لگی ہو۔(۲)
(۲) ولا ینجس الماء بوقوع آدمي، ولا بوقوع مایؤکل لحمہ کالإبل والبقر والغنم إذا خرج حیا ولم یکن علی بدنہ نجاسۃ۔ (الطحطاوی، حاشیۃ الطحطاوی، کتاب الطہارۃ، فصل في مسائل الآبار،ج۱،ص:۴۱)؛ و کل حیوان سوی الخنزیر والکلب علی ما ذکرہ۔ إذا خرج حیا، من البئر بعد الوقوع والحال أنہ قد أصاب الماء فمہ فأنہ ینظر إن کان سؤرہ طاھراً ولم یعلم أن علیہ نجاسۃ لا ینجس الماء۔ (إبراھیم بن محمد الحلبي، الحلبي الکبیر، فصل في البئر، ص۱۳۹)؛ و إن کان آدمیا و خرج حیا ولم یکن ببدنہ نجاسۃ حقیقیۃ أو حکمیۃ لا ینزح في ظاھر الروایۃ۔ (العینی، البنایۃ۔ کتاب الطہارۃ، فصل في البئر،ج۱، ص۴۵۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص479
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ غسل خانہ یا واش بیسن پر وضو کرتے وقت دعائیہ کلمات پڑھنا درست ہیں؛ لیکن لیٹرین صاف رکھنے کا اہتمام ضرور ی ہے۔(۲)
(۲) و یستحب أن لا یتکلم بکلام مطلقا أما کلام الناس فلکراھتہ حال الکشف، و أما الدعاء فلأنہ في مصب المستعمل و محل الأقذار والأوحال۔ أقول: قد عد التسمیۃ من سنن الغسل فیشکل علی ما ذکرہ تأمل۔ (ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب سنن الغسل،‘‘ ج۱،ص:۲۹۱)؛ و في ’’قاضی خان‘‘ : أنہ یکرہ قراء ۃ القرآن عند الجنازۃ قبل الغسل و حوالی النجاسۃ ولیس ھکذا في الحائض، فإن نجاستھا مستورۃ تحت الثیاب۔ (أنور شاہ الکشمیري، فیض الباري، ’’کتاب الحیض، باب قراء ۃ الرجل، في حجر إمرأتہ وھی حائض،‘‘ ج۱،ص:۴۸۸)
فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص146
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:میوزک سننا یا ٹی وی دیکھنا باعث گناہ ہے؛ لیکن اس سے وضو نہیں ٹوٹتا، اس لیے کہ خروج نجاست ناقض وضو ہے، کسی چیز کا دیکھنا یا سننا یہ ناقض وضو نہیں ہے، اسی وضو سے نماز پڑھ لی یا تلاوت کی تو نماز درست ہو جائے گی اور تلاوت کا ثواب بھی ملے گا؛ البتہ علماء نے بعض صورتوں میں وضو کو مستحب قرار دیا ہے مثلاً گالی دینے یا غیبت کرنے کے بعد وضو کرنا مستحب ہے؛ اس لیے اگر میوزک سننے پا ٹی وی دیکھنے کا گناہ سرزد ہو جائے، تو وضو کرنا مستحب ہے۔
’’ومندوب في نیف وثلاثین موضعاً، ذکرتہا في الخزائن: منہا بعد کذب، وغیبۃ، وقہقہۃ، وشعر، وأکل جزور، وبعد کل خطیئۃ، وللخروج من خلاف العلماء‘‘(۱)
’’وعن نافع رحمہ اللّٰہ قال: کنت مع ابن عمر في طریق فسمع مزماراً فوضع أصبعیہ في أذنیہ، وناء عن الطریق إلی الجانب الآخر، ثم قال لي بعد أن بعد: یا نافع ہل تسمع شیئاً؟ قلت: لا، فرفع أصبعیہ عن أذنیہ قال: کنت مع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فسمع صوت یراع، فصنع مثل ما صنعت۔ قال نافع: فکنت إذ ذاک صغیراً، رواہ أحمد وأبو داود‘‘(۲)
’’وبعد کل خطیئۃ وإنشاد شعر قبیح لأن الوضوء یکفر الذنوب الصغائر‘‘(۳)
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، تنبیہ‘‘: ج ۱، ص: ۸۹۔
(۲) أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الأدب: باب کراہیۃ الغناء والزمر‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۱، رقم: ۴۹۲۴۔
(۳) الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في أوصاف الوضوء‘‘: ج۱ ،ص: ۸۴۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص249