بدعات و منکرات

Ref. No. 39 / 973

الجواب وباللہ التوفیق    

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس کی گنجائش ہے، اورمؤثر حقیقی اللہ تعالی کو ہی سمجھنا لازم ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 976/41-112

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  صورت مذکورہ میں کوئی حرمت ثابت نہیں ہوئی۔ البتہ اس طرح کےمذاق سے گریز کرنا لازم ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 1178/42-431

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس طرح کے حلف اٹھانے میں  بظاہرکوئی حرج نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

فقہ
کیا فقہ حنفی میں یہ مسلہ ہے کہ ایک آدمی الحمد اللہ کہنا چاہتا تھا منہ سے انت طالق نکل گیا تو بیوی کو طلاق واقع ہو جائے گی جبکہ امام بخاری اور تینوں امام اہل سنت امام شافعی امام مالک اور امام احمد بن حنبل کے نزدیک نہیں ہوگی اسی طرح ایک مسلہ ہے کہ ایک آدمی کے بیٹے کا نام طلال ہو اور وہ کہنا چاہتا ہو کہ میں اپنی بیوی کو طلال دیتا ہوں منہ سے نکل جائے میں اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہوں تو کیا طلاق واقع ہو جائے گی جبکہ نیت نہ تھی اس بارے میں جمہور آئمہ کے مسلک پر عمل کرنا کیسا ہے اور باقی اماموں کی رائے کیا ہے

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بیشک کرامات اولیاء حق ہیں؛ مگر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ شرارتِ شیطان بھی حق ہے۔ اور بزرگانِ دین کی کرامت اور شیطان کی شرارت میں امتیاز کرنا ہر کس و ناکس کا کام نہیں ہے، اس لئے پوری ہوشیاری اور شرعی روشنی میں جانچ کر دیکھنا چاہئے کہ واقعی اولیاء کی کرامت ہے یا شیطان کی شرارت ہے۔ (۱)

۱) وکرامات الأولیاء حق، والولی ہو العارف باللّٰہ تعالیٰ وصفاتہ حسب ما یمکن المواظب علی الطاعات المجتنب عن المعاصي المعرض عن الانہماک في اللذات والشہوات، وکرامتہ ظہور أمر خارق من قبلہ غیر مقارن لدعوی النبوۃ فما لا یکون مقرونا بالإیمان والعمل الصالح یکون استدراجا۔ (علامہ سعد الدین تفتازاني، شرح العقائد النسفیۃ، ’’مبحث کرامات الأولیاء حق‘‘: ص:۱۴۴)
الکرامۃ خارق للعادۃ إلا أنہا غیر مقرونۃ بالتحدي وہو کرامۃ للولي۔ (أبو حنیفۃ رحمہ اللّٰہ، شرح الفقہ الأکبر، ’’مبحث في أن خوارق العادات للأنبیاء -علیہم السلام- والکرامات للأولیاء حق‘‘: ص: ۹۵)

  فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص292

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت میں جو ایسے مواقع پر کھانا پکاکر کھلایا جاتا ہے، یہ سب رسم ورواج کے پیش نظر ہوتا ہے، جیسا کہ اوپر سوال سے ظاہر ہے کہ شرمندگی دور کرنے اور ناک رکھنے کے لئے ایسا کیا جا رہا ہے؛ حالانکہ اسلام اس قسم کے رسم ورواج کو مٹانے کے لئے آیا تھا، تاکہ مسلمانوں کی اصلاح ہوجائے؛ پس ایسے رسم ورواج اور بدعات میں شرکت کرنے سے پرہیز کرنا ضروری ہے، اور اگر یہ کھانا میت کے ترکہ سے ہے تو کھانا پکانا ہی ناجائز ہوگا، اور اس کا کھانا بھی جائز نہیں ہوگا اس میں شرکت سے پرہیز ضروری ہے البتہ قرآن پاک پڑھ کر ایصال ثواب کردینے میں کوئی حرج نہیں درست اور جائز ہے۔ خواہ مدرسہ میں ہو یا گھر پر ہو۔(۱)

(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا قالت: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو رد۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح: باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)
ویکرہ اتخاذ الضیافۃ من الطعام من أہل المیت لأنہ شرع في السرور لا في الشرور، وہي بدعۃ مستقبحۃ۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في الدفن‘‘: ج ۲، ص: ۱۵۱)
ویکرہ اتخاذ الطعام في الیوم الأول والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلی القبر في المواسم۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في کراہۃ الضیافۃ من أہل المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۸)
عن قیس بن أبي حازم، عن جریر بن عبد اللّٰہ البجلي، قال: کنا نری الاجتماع إلی أہل المیت وصنعۃ الطعام من النیاحۃ۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’أبواب ما جاء في الجنائز، باب ما جاء في النہي عن الاجتماع‘‘: ج ۱، ص: ۵۱۴، رقم: ۱۶۱۲)
ویقرء من القرآن ما تیسر لہ من الفاتحۃ وأول البقرۃ إلی المفلحون، وآیۃ الکرسي وآمن الرسول، وسورۃ یٰس، وتبارک الملک، وسورۃ التکاثر، والإخلاص إثنی عشر مرۃ أو إحدی عشر أو سبعاً أو ثلاثا، ثم یقول: اللہم أوصل ثواب ما قرأناہ إلی فلان أو إلیہم۔ (ابن عابدین، الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنائز، مطلب في زیارۃ القبور‘‘: ج ۳، ص: ۱۵۱)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص404

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:عورتوں کایہ مسئلہ بالکل غلط ہے۔ غسل صحیح ہوجائے گا۔ (۱)

(۱) عن معاذۃ أن امرأۃ سألت عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا قالت: تختضب الحائض، فقالت: فقد کنا عند النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ونحن نختضب فلم یکن ینہانا عنہ۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ، باب الحائض نختضب‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۵، رقم: ۶۵۶)
جنب اختضب واختضب امرأتہ بذلک الخضاب قال أبو یوسف لا بأس بہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الکراہیۃ‘‘: ج ۵، ص:
۳۵۹)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص525

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حسب ضرورت دیگر دینی کتب تعلیم کے لئے پڑھ کر سنانا بلاشبہ درست ہے کسی ایک ہی کتاب پر اصرار کرنا درست نہیں ہے، علم حاصل کرنے کا جو مناسب طریقہ ہو اختیار کیا جانا چاہئے۔(۱)

(۱) عن أبي سعید رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: یقول الرب عز وجل: من شغلہ القرآن عن ذکري و مسألتي أعطیتہ أفضل ما أعطی السائلین، وفضل کلام اللّٰہ علی سائر الکلام کفضل اللّٰہ علی خلقہ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب فضائل القرآن، باب‘‘: ج ۲، ص: ۱۱۷، رقم: ۲۹۲۶)
عن أبي ذر رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال لي رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یا أبا ذر، لأن تغدو فتعلم آیۃ من کتاب اللّٰہ، خیرٌ لک من أن تصلی مائۃ رکعۃ ولأن تغدو فتعلم باباً من العلم، عمل بہ أو لم یعمل، خیرٌ لک من أن تصلی ألف رکعۃ۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’المقدمۃ، باب فضل من تعلم القرآن وعملہ‘‘: ج ۱، ص: ۷۹، رقم: ۲۱۹)


----------------

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص343

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:مذکورہ صورت میں مسجد کے کنویں کا پانی ناپاک نہیں ہوگا، کیونکہ یہ بات بالاتفاق ثابت ہے کہ ایک کنویں کے پانی کے ناپاک ہونے سے دوسرے کنویں کا  پانی ناپاک نہیں ہوتا، جب کہ اس کی کوئی تحدید بھی نہیں ہے، اس لیے اس سے وضو وغیرہ درست ہے، تاہم احتیاط کی جائے اور جو کنواں ہمیشہ ناپاک رہتا ہے اسے پاک رکھنے کی کوشش کی جائے تاکہ طبعی کراہت نہ ہو۔(۱)

(۱) بئر الماء إذا کانت بقرب البئر النجسۃ فھي طاھرۃ مالم یغیر طعمہ أو لونہ أو ریحہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الھندیۃ، الباب الثالث في المیاہ، الفصل الأول في ما یجوز بہ التوضؤ، النوع الثالث: ماء الآبار، ج۱، ص:۷۳)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص481

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:آدمی جو چادر سردی میں اوڑھ کر مسجد آتا ہے بظاہر وہ پاک ہوتی ہے اور اگر پاک چادر کو وضو کے دوران ممبر پر رکھ دیا جائے، تو اس میں کوئی حرج معلوم نہیں ہوتا ہے، اس کو بلا وجہ انتشار کا سبب نہیں بنانا چاہیے۔(۱)

(۱) عن أبي ھریرۃ قال: قال رسول اللّٰہ ﷺ: من حسن إسلام المرء ترکہ مالا یعنیہ۔(أخرجہ الترمذي، في سننہ، أبواب الزہد، باب ما جاء من تکلم بالکلمۃ لیضحک الناس، ج۲، ص:۵۸)؛ و أن رسول اللّٰہ ﷺ : نھی عن قیل و قال وکثرۃ السوال۔ (أخرجہ الإمام مالک في الموطا، ’’باب التعفف عن المال الحرام،‘‘   … ج۱، ص:۲۶،رقم:۲۹۹

 

فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص148