Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
Ref. No. 40/1079
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہماری معلومات کے مطابق سپوزٹری ایک دوا ہے جو فرج داخل میں رکھی جاتی ہے اور وہ گھُل کر اندرونی مقامات میں پہنچ کر اثر کرتی ہے ۔اس لئے صورت مسئولہ میں شرمگاہ کے اندرونی حصہ میں دوا پہنچانے سے روزہ ٹوٹ جائے گا۔ اگر اس کے علاوہ کوئی تشریح ہو یا اس کےاستعمال کے مختلف طریقے ہوں تو وضاحت کے ساتھ سوال لکھ کر ارسال کریں تاکہ اسی کی روشنی میں جواب دیا جاسکے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Taharah (Purity) Ablution &Bath
Ref. No. 41/968
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
In the above mentioned case, only Wudu will suffice you. Ghusl becomes obligatory only when one is certain that it is wet-dream. You can make wudu and perform namaz and avoid waswasa. Additionally you had better consult a doctor for treatment at earliest to get rid of the waswasa.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
تجارت و ملازمت
Ref. No. 1179/42-441
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر آپ اس سرکاری نوکری کے اہل ہیں اور اس نوکری کی وجہ سے کسی کا حق ضائع نہیں ہوتا ہے بلکہ اہلیت کی وجہ سے وہ نوکری آپ کا حق ہے تو اسے حاصل کرنے کے لئے رشوت دے سکتے ہیں۔ رشوت لینا ہر صورت میں حرام ہے، لیکن بعض ناگزیر صورت میں دینے کی گنجائش ہے۔
الرشوۃ اربعۃ اقسام: الثالث اخذ المال لیسوی امرہ عندالسلطان دفعا للضرر او جلبا للنفع وھو حرام علی الاخذ (ردالمحتار 5/262)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 1298/42-659
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ غلطی سے جس آدمی کے نمبر پر ریچارج ہوگیا وہ آدمی ان پیسوں کا امین ہے، اس کے لئے اس کا استعمال ناجائز ہے، اس کو چاہئے کہ پیسے اس کے مالک کو لوٹادے، اور کسٹمر کیئر سے بات کرے تو ایسا ممکن بھی ہے۔ اگر خود اس کو ضرورت ہے تو مالک کو پیسے ادا کرکے استعمال کرسکتا ہے۔ اگر مالک کو لوٹانے کی کوئی شکل نہ ہو یعنی کسی اجنبی نمبرسے ریچارج آگیا ہوتو کچھ دن انتظار کرنے کے بعد اتنے پیسے صدقہ کردے اور ریچارج استعمال کرلے۔اور اگر استعمال نہ کرنا ہو تو صدقہ کرنے کی بھی ضرورت نہیں ۔
إِنَّ اللّہَ یَأْمُرُکُمْ أَن تُؤدُّواْ الأَمَانَاتِ إِلَی أَہْلِہَا (النساء آیت ۵۸) ”لَا اِیمانَ لِمَنْ لا أ مانةَ لَہ، وَلَا دِینَ لِمَنْ لَا عَہْدَ لَہ“(سنن بیہقی-۱۲۶۹۰(
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
اسلامی عقائد
Ref. No. 1619/43-1327
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہمارے نبی ﷺ کے ذاتی نام دو ہیں، محمد اور احمد، البتہ صفاتی نام بے شمار ہیں۔ صفاتی ناموں کی تعداد میں اختلاف ہے۔ بعض نے ایک ہزار اور بعض نے بارہ سو تک اسماء مبارکہ شمار کئےہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Marriage (Nikah)
Ref. No. 2110/44-1230
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
Your Nikah with your wife was valid, and merely her friend's signature will not affect the marriage. The saheli signed the Nikahnama on behalf of your wife not for herself. And you accepted your wife in your marriage but not her friend. Therefore, your marriage with your wife is undoubtedly valid. Because the signature is not important in the marriage, rather the ijab and qabool (proposal and acceptance) are the essential parts of the marriage. In this signature, the saheli was just a representative, not a self doer.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:کسی کی روح کے حاضرِ مجلس ہونے کا عقیدہ رکھنا جائز نہیں ہے اور مذکورہ وظیفہ پڑھنا بھی جائز نہیں ہے۔(۱)
(۱) ولیست من المسائل التي یضر جہلہا أو یسئل عنہا في القبر أو في الموقف فحفظ اللسان عن التکلم فیہا إلا بخیر أولیٰ وأسلم۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب النکاح: باب نکاح الکافر، مطلب في الکلام علی أبوي النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأہل الفترۃ‘‘: ج ۴، ص: ۳۵۰)
مردے کی روح دنیا میں واپس نہیں آتی (تھانوی، اشرف الجواب: ص: ۱۵۶)
ویکفر بقولہ أرواح المشائخ حاضرۃ تعلم۔ (إبراہیم بن محمد، مجمع الأنہر، ’’کتاب السیر والجہاد، ثم إن ویکفر بقولہ أرواح المشائخ حاضرۃ تعلم۔ (إبراہیم بن محمد، مجمع الأنہر، ’’کتاب السیر والجہاد، ثم إن ألفاظ الکفر أنواع‘‘: ج ۲، ص: ۵۰۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص293
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مردے کو ایصال ثواب کرنے کی شرعاً اجازت ہے؛ لیکن کوئی وقت مقرر کرنا، یا کھانے کی قسم مقرر کرنے کی شرعی اجازت نہیں ہے، جس کام کا آپ نے ذکر کیا ہے اس کی کوئی شرعی اصل نہیں ہے، یہ غلط اور بے اصل ہے، اس رواج کو توڑنا ضروری اور باعث ثواب ہے، مردے کو کچھ پڑھ کر ایصال ثواب کیا جائے، کسی مستحق کو کتابیں کپڑے وغیرہ دیدیئے جائیں، کسی بھوکے کو کھانا کھلادیا جائے؛ ان سب کا ثواب مرحوم کو پہونچا دیا جائے۔(۱)
(۱) فإن من صام أو صلی أو تصدق وجعل ثوابہ لغیرہ من الأموات والأحیاء جاز ویصل ثوابہا إلیہم عند أہل السنۃ والجماعۃ۔ کذا في البدائع، وبہذا علم أنہ لا فرق بین أن یکون المجعول لہ میتاً أو حیًا۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الحج: باب الحج عن الغیر‘‘: ج ۳، ص: ۱۰۶)
ویکرہ اتخاذ الضیافۃ من الطعام من أہل المیت لأنہ شرع في السرور لا في الشرور، وہي بدعۃ مستقبحۃ۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في الدفن‘‘: ج ۲، ص: ۱۵۱)
ویکرہ اتخاذ الطعام في الیوم الأول والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلی القبر في المواسم۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في کراہۃ الضیافۃ من أہل المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۸)
ویقرء من القرآن ما تیسر لہ من الفاتحۃ وأول البقرۃ إلی المفلحون، وآیۃ الکرسي وآمن الرسول، وسورۃ یٰس، وتبارک الملک، وسورۃ التکاثر، والإخلاص إثنی عشر مرۃ أو إحدی عشر أو سبعاً أو ثلاثا، ثم یقول: اللہم أوصل ثواب ما قرأناہ إلی فلان أو إلیہم۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنائز، مطلب في زیارۃ القبور‘‘: ج ۳، ص: ۱۵۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص406
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 2422/44-3652
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ صورت میں برش ناپاک ہوگیا، اور اس کے ذریعہ دروازہ کو پینٹ کرنا بھی دروازہ کو ناپاک کردے گا، تاہم اگر نجاست نظر نہ آتی ہو تو بعد میں دروازہ پر تین بار اچھی طرح سے پانی بہاینا کافی ہوگا اور اس طرح دروازہ کا ظاہر پاک ہوجا ئے گا یعنی اب دیوار پر تر ہاتھ لگنے سے ہاتھ ناپاک نہیں ہوگا ۔
ولو موہ الحدید بالماء النجس یموہ بالطاھر ثلاثاً، فیطھر خلافاً لمحمد فعندہ لا یطھر أبداً، وھذا في الحمل في الصلاة، أما لو غسل ثلاثاً ثم قطع بہ نحو بطیخ أو وقع في ماء قلیل لا ینجسہ فالغسل یطھر ظاھرہ إجماعاً، وتمامہ في شرح المنیة (رد المحتار، کتاب الطھارة، باب الأنجاس، ۱: ۵۴۲، ط: مکتبة زکریا دیوبند، ۲: ۴۰۳، ت: الفرفور، ط: دمشق)۔ (احسن الفتاوی، ۲: ۹۴، مطبوعہ: ایچ، ایم سعید، کراچی)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند