نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 41/1093

الجواب وباللہ التوفیق     

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ صورت میں نماز درست ہے، لیکن اگر فاصلہ دو صفوں کے بقدر یا زائد ہے تو اقتداء درست نہیں ہوگی۔

والمانع فی الصلوۃ فاصل یسع فیہ صفین علی المفتی بہ۔ (مراقی الفلاح  ۲۹۲)

 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 1071/41-236

الجواب وباللہ التوفیق     

بسم اللہ الرحمن الرحیم :۔  کرنٹ کے ذریعہ اپنے تالاب کی مچھلی کا شکار کرنا درست ہے، بشرطیکہ دیگر مفاسد کا اندیشہ نہ ہو مثلا  کرنٹ سے دوسری  چھوٹی مچھلیاں  بھی مرجائیں اور دوسرے جانور بھی متاثر ہوں تو پھر درست نہیں۔

ولایحل حیوان مائی الا السمک الذی مات مآفۃ – ومامات  بحرالماء  او بردہ و بربطہ فیہ او القاء شئی فموتہ بآفۃ  (ردالمحتار 6/306)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 1409/42-448

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ یہ روایت صحیح ہے۔ پوری حدیث اس طرح ہے کہ حضرات صحابہ نے آپ ﷺ سے سوال کیا یا رسول اللہ آپ کے نزدیک سب سے تعجب خیز ایمان کن کا ہے؟ فرشتوں کا! تو آپ نے فرمایا وہ کیسے ایمان نہ لائیں جبکہ وہ اللہ کے حضور ہوتے ہیں، پھر صحابہ نے فرمایا تو انبیاء  کرام کا! تو آپ نے فرمایا وہ کیسے ایمان  نہ لائیں جبکہ ان پر وحی آتی ہے ۔ صحابہ نے کہا یا رسول اللہ پھر ہمارا ایمان عجیب تر ہوگا؟ تو آپ نے فرمایا کیا تم اب بھی ایمان نہ لاؤگے جبکہ تمہارے سامنے ہروقت میرا سراپا  رہتاہے۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا میرے نزدیک ساری کائنات میں عجیب تر ایمان ان لوگوں کا ہوگا جو تمہارے بعد ہوں گے وہ صرف اوراق پر لکھی کتاب دیکھیں گے اور اس پر ایمان لائیں گے۔ (شرح مشکل الآثار، باب بیان مشکل احکام من کان بعد 6/269 الرقم 2472)

اس حدیث میں بعد والوں کے ایمان کو عجیب قرار دیا گیا ہے اس لئے کہ صحابہ کرام کا ایمان بھی اگرچہ ایمان بالغیب ہے لیکن ان کو بعض مومن بہ کا مشاہدہ تھا جبکہ تابعین کا ایمان بالکلیہ ایمان بالغیب ہے۔ پھر بعد کے لوگوں کے ایمان کو تعجب خیز کہاگیا اس سے بعد کے لوگوں کا افضل ترین ہونا لازم نہیں آتاہے۔

وحيث ورد الكلام في الأعجبية والأغربية، فلا استدلال بالحديث في الأفضلية بوجه من وجوه المزية ۔۔۔۔۔۔  ولا يخفى أن الصحابة أيضا كانوا مؤمنين بالغيب، لكن باعتبار بعض المؤمن به مع مشاهدة بعضه بخلاف التابعين، فإن إيمانهم بالغيب كله، فمن هذه الحيثية بأنهم أعجب وأفضل والله أعلم.( مرقاۃ المفاتیح 9/4050)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1527/43-1032

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  نماز شروع کرنے سے قبل نیت کرنا شرائط نماز میں سے ہے۔ اس لئے تشہد پڑھنے کے بعد صرف ایک رکعت وتر کی نیت سے ملانے سے وتر کی تین رکعتیں شمار نہیں ہونگی۔ اگر تشہد پڑھ کر وتر کی نیت کرکے کھڑا ہوا، اور تکبیر تحریمہ کے ساتھ تین رکعت وترکی  پڑھی تو یہ وتر کی نماز درست ہوگئی۔ اور جو نماز تہجد پڑھ رہاتھا جس کا واجب سلام نہیں پھیرا،  اس کی قضاء کرے۔ آپ کی پیش کردہ صورت میں وتر کی ایک ہی  رکعت ہورہی ہے جبکہ وتر کی تین رکعتیں واجب ہیں، اور جو  رکعتیں سنت کی نیت سے پڑھی گئیں وہ وتر میں تبدیل نہیں ہوسکتی ہیں۔ اس لئے وتر دوبارہ ادا کریں۔  یہی حکم دو رکعت ، چار رکعت  اور چھ رکعت کا بھی ہے۔

قوله: ولاتبطل بنية القطع) وكذا بنية الانتقال إلى غيرها ط (قوله: ما لم يكبر بنية مغايرة) بأن يكبر ناوياً النفل بعد شروع الفرض وعكسه، أو الفائتة بعد الوقتية وعكسه، أو الاقتداء بعد الانفراد وعكسه. وأما إذا كبر بنية موافقة كأن نوى الظهر بعد ركعة الظهر من غير تلفظ بالنية فإن النية الأولى لاتبطل ويبني عليها. ولو بنى على الثانية فسدت الصلاة ط (قوله: الصوم) ونحوه الاعتكاف، ولكن الأولى عدم الاشتغال بغير ما هو فيه ( شامی 1/441)

(قوله فيجوز بناء النفل على النفل) تفريع على كون التحريمة شرطا، لكن كونها شرطا يقتضي صحة بناء أي صلاة على تحريمة أي صلاة، كما يجوز بناء أي صلاة على طهارة أي صلاة، وكذا بقية الشروط، لكن منعنا بناء الفرض على غيره، لا لأن التحريمة ركن، بل لأن المطلوب في الفرض تعيينه وتمييزه عن غيره بأخص أوصافه وجميع أفعاله وأن يكون عبادة على حدة، ولو بني على غيره لكان مع ذلك الغير عبادة واحدة كما في بناء النفل على النفل. (شامی، مطلب قد یطلق الفرض علی ما یقابل الرکن 1/442)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 1615/43-1199

In the name of Allah the most Gracious the most merciful

The answer to your question is as follows:

The hadith mentioned in the question is authentic. The above hadith means that as long as the Prophet (saws) was alive, revelation would come and he would teach the Sahaabah according to it and correct them and correct their defects. He used to give thanks to Allah on good deeds and seek refuge from evil things and seek forgiveness from Allah Almighty. The companions of the prophet (saws) used to get their problems solved by the prophet (saws). And the deeds of the ummah were before him in his lifetime. Now, when the Prophet (saws) is not alive in this world but is alive in the blessed grave, the deeds of the ummah are presented to him in the grave. This is the belief of Ahl as-Sunnah wa'l-Jama'ah. And the Prophet (saws) thanks Allah for the good deeds of the ummah and asks forgiveness for the bad deeds.

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «حَيَاتِي خَيْرٌ لَكُمْ تُحَدِّثُونَ وَنُحَدِّثُ لَكُمْ، وَوَفَاتِي خَيْرٌ لَكُمْ تُعْرَضُ عَلَيَّ أَعْمَالُكُمْ [ص:309]، فَمَا رَأَيْتُ مِنَ خَيْرٍ حَمِدْتُ اللَّهَ عَلَيْهِ، وَمَا رَأَيْتُ مِنَ شَرٍّ اسْتَغْفَرْتُ اللَّهَ لَكُمْ» ، وَهَذَا الْحَدِيثُ آخِرُهُ لَا نَعْلَمُهُ يُرْوَى عَنْ عَبْدِ اللَّهِ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ بِهَذَا الْإِسْنَادِ (مسند البزار ،زاذان - عن عبداللہ 5/308) (1) البزار في ((البحر الزخار)) 5/ 308 (1925)، وقال الهيثمي في ((المجمع)) 9/ 24: ورجاله رجال الصحيح، وصححه الألباني دون الشطر الثاني منه. (جمع الفوائد من جامع الاصول ومجمع الزوائد، مرض النبی ﷺ وموتہ 1/410) قالَ رسولُ اللهِ: «حَياتي خيرٌ لكم - ثلاثَ مراتٍ - ووَفاتي خيرٌ لكم» ثلاثَ مراتٍ، فسكتَ القومُ، فقالَ عمرُ بنُ الخطابِ: بأَبي أنتَ وأُمي، كيفَ يكونُ هذا؟ قلتَ: حَياتي خيرٌ لكم ثلاثَ مراتٍ، ثم قلتَ: مَوتي خيرٌ لكم ثلاثَ مراتٍ، قالَ: «حَياتي خيرٌ لكم: ينزلُ عليَّ الوحيُّ مِن السماءِ فأُخبرُكم بما يَحِلُّ لكم وما يَحْرُمُ عليكم، ومَوتي خيرٌ لكم: تُعْرَضُ عليَّ أَعمالُكم كلَّ خميسٍ، فما كانَ مِن حسنٍ حمدتُّ اللهَ عليهِ (2) ، وما كانَ مِن ذنبٍ استَوهبتُ لكم ذُنوبَكم» (3) (المخلصیات، الجزء العاشر من المخلصیات 3/237)

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

متفرقات

Ref. No. 1896/43-1783

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   باپ نے اپنی حیات میں جس کسی کو بھی کوئی جائداد دے کر مالک بنادیا تو وہ اس حصہ کا مالک ہوگیا، اس میں کوئی دوسرا سوال نہیں کرسکتاہے، اور کسی کو حق اعتراض حاصل نہیں ہے، البتہ مرحوم کے انتقال کے وقت جو کچھ اس کی ملکیت میں باقی ہو اس کی تقسیم تمام ورثاء کے درمیان شرعی اعتبار سے ہونی ضروری ہے۔  اگر میراث کی تقسیم ہوچکی ہے اور  بعد میں  کسی کو یقین ہو کہ تقسیم شرعی اعتبار سے نہیں ہوئی تو وہ دوبارہ تقسیم کا مطالبہ کرسکتاہے، محض شک کی بناء پر مطالبہ درست نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

 

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن شریف کو گالی دینا کفر ہے۔ ’’العیاذ باللّٰہ‘‘ پس اس شخص سے جب وہ تو بہ بھی نہیں کرتا، مرتدین اور کفار جیسا معاملہ کیا جائے اور اس سے قطع تعلق کرلیا جائے۔(۱) ’’قال اللّٰہ تبارک وتعالی: {وَقَدْ نَزَّلَ عَلَیْکُمْ فِي الْکِتٰبِ أَنْ إِذَاسَمِعْتُمْ أٰیٰتِ اللّٰہِ یُکْفَرُبِھَا وَیُسْتَھْزَأُ بِھَا فَلاَ تَقْعُدُوْا مَعَھُمْ حَتّٰی یَخُوْضُوْا فِيْ حَدِیْثٍ غَیْرِہٖٓ صلے ز  إِنَّکُمْ إِذًا مِّثْلُھُمْط إِنَّ اللّٰہَ جَامِعُ  الْمُنٰفِقِیْنَ وَالْکٰفِرِیْنَ فِيْ جَھَنَّمَ جَمِیْعاًہلا۱۴۰}(۲)

(۲) سورۃ النساء: ۱۴۔

 

دار العلوم وقف دیوبند

(فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند جلد اول ص 178)

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضرات انبیاء علیہم السلام بشمول سید الانبیاء والمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے پردہ فرما گئے، لیکن وہ حضرات اپنی اپنی قبروں میں زندہ ہیں جیسے شہداء اپنی قبروں میں زندہ ہیں۔ {وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ أَمْوَاتٌط بَلْ أَحْیَآئٌ وَّلٰکِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَہ۱۵۴} سورۃ البقرۃ: ۱۵۴۔ حدیث پاک میں سیدنا ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا:
’’أکثروا الصلوٰۃ عليّ یوم الجمعۃ فإنہ مشہود تشہدہ الملائکۃ، وإن أحدا لن یصلي علي إلا عرضت علي صلاتہ حتی یفرغ منہا، قال: قلت: وبعد الموت؟ قال: وبعد الموت إن اللّٰہ حرم علی الأرض أن تأکل أجساد الأنبیاء فنبي اللّٰہ حي یرزق‘‘۔(۱)
مجھ پر جمعہ کے دن کثرت سے درود پڑھا کرو کیونکہ اس دن فرشتے جمع ہوتے ہیں اور جب تم میں سے کوئی شخص مجھ پر درود پڑھتا ہے، تو اس درود کو مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔ ابو الدرداء رضی اللہ عنہ نے سوال کیا کہ موت کے بعد بھی؟فرمایا: ہاں! موت کے بعد بھی؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر انبیاء علیہم السلام کے جسم مبارک کو کھانا حرام کر دیا ہے۔
’’إنہ (النبي -صلی اللّٰہ علیہ وسلم-) اجتمع مع الأنبیاء وأن الأنبیاء أحیاء في قبورہم یصلون‘‘(۲) انبیاء علیہم السلام اپنی قبروں میں باحیات ہیں اور نماز پڑھتے ہیں اور ان سے منکر نکیر سوال بھی نہیں کرتے ہیں یہی اہل سنت والجماعت کا عقیدہ بھی ہے۔

(۱) أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’أبواب ما جاء في الجنائز: باب ذکر وفاتہ ودفنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۸، رقم: ۱۶۳۷۔

(۲) ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان، باب الإیمان بالقدر، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۲، رقم: ۸۱)
 وصح خبر ’’الأنبیاء أحیاء في قبورہم یصلون۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ، الفصل الثالث‘‘: ج ۳، ص: ۴۱۵، رقم: ۱۳۶۶)


  فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند جلد اول ص 201

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:غیر اللہ کو مختار سمجھ کر اس سے سوال کرنا اور بلا واسطہ اس کے لئے استغاثہ و استعانت وغیرہ کے الفاظ استعمال کرنا شرعاً جائز نہیں ہے، ہاں! توسل شرعاً جائز ہے کہ استغاثہ واستعانت اللہ تعالیٰ سے ہی ہے اور کسی اللہ کے نیک بندے یا کسی نیک عمل کو وسیلہ بنا لیا جائے اگر کسی کو صرف وسیلہ بنایا جائے، تو جائز ہے؛ لیکن پختہ عقیدے کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہی کو رزاق وغیرہ مانا جائے، اور اسی کو مدد گار مانا جائے۔ (۱)
(۱) {قُلِ ادْعُوا الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ  مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِج لاَ یَمْلِکُوْنَ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ  فِي السَّمٰوٰتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ وَمَا لَھُمْ فِیْھِمَا مِنْ شِرْکٍ وَّمَا لَہٗ مِنْھُمْ مِّنْ ظَھِیْرٍہ۲۲ } (سورۃ السباء: ۲۲)
{إِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَنْ یَّخْلُقُوْا ذُبَابًا وَّلَوِ اجْتَمَعُوْا لَہٗط} (سورۃ الحج: ۷۳)
{قُلْ أَفَرَئَ یْتُمْ مَّا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ إِنْ أَرَادَنِيَ اللّٰہُ بِضُرٍّ ھَلْ ھُنَّ کٰشِفٰتُ ضُرِّہٖٓ أَوْ أَرَادَنِيْ بِرَحْمَۃٍ ھَلْ ھُنَّ مُمْسِکٰتُ رَحْمَتِہٖط قُلْ حَسْبِيَ اللّٰہُ ط عَلَیْہِ یَتَوَکَّلُ الْمُتَوَکِّلُوْنَ ہ۳۸} (سورۃ الزمر: ۳۸) ۔  أي: لا تستطیع شیئاً من الأمر۔ (ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر: ج ۷، ص: ۱۰۰)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص274

 

متفرقات

Ref. No. 2360/44-3552

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔     جب آپ سخت ضرورتمند تھے تو مقتدیوں نے آپ کی سودی رقم سے مدد کی ، اس وقت آپ کے  لئے  سودی رقم استعمال کرنا جائز تھا۔ اس لئے آپ کی امامت درست ہے اور لوگوں کا آپ کی اقتداء میں نماز پڑھنا بھی درست ہے۔

"ويردونها على أربابها إن عرفوهم، وإلا تصدقوا بها؛ لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه."

(فتاوی شامی:كتاب الحظر والاباحة، ج:6، ص:385، ط: سعيد)

"والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه."

فتاوی شامی (کتاب البیوع ، باب البیع الفاسد، ج:5، ص:99، ط:سعيد)

"قال شیخنا: ویستفاد من کتب فقهائنا کالهدایة وغیرها: أن من ملك بملك خبیث، ولم یمكنه الرد إلى المالك، فسبیله التصدقُ علی الفقراء ... قال: و الظاهر أن المتصدق بمثله ینبغي أن ینوي به فراغ ذمته، ولایرجو به المثوبة." (معارف السنن میں ہے:

أبواب الطهارة، باب ما جاء: لاتقبل صلاة بغیر طهور، ج:1، ص:34، ط: المکتبة الأشرفیة)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند