Frequently Asked Questions
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:سوال میں مذکورہ ڈائیلیسس کی تفصیل سے وضو ٹوٹ جائے گا؛ اس لیے کہ جسم کے کسی حصے سے اس قدر خون کا نکلنا کہ وہ خود بخود بہہ پڑے یہ ناقض وضو ہے، خواہ بیماری کی وجہ سے از خود نکلے یا نکالا جائے دونوں صورتوں میں خون کا نکلنا ناقض وضو ہے۔
’’ولذا أطلقوا في الخارج من غیر السبیلین کالدم والقیح والصدید أنہ ینقض الوضوء ولم یشترطوا سوی التجاوز إلی موضع یلحقہ حکم التطہیر، ولم یقیدوہ في المتون ولا في الشروح بالألم ولا بالعلۃ‘‘(۱)
’’(ومنہا) ما یخرج من غیر السبیلین ویسیل إلی ما یظہر من الدم والقیح والصدید والماء لعلۃ وحد السیلان أن یعلو فینحدر عن رأس الجرح۔ کذا في محیط السرخسي وہو الأصح‘‘(۲)
’’واعلم أن الخارج النجس من غیر السبیلین ینقض الوضوء عند علمائنا وہو قول العشرۃ المبشرۃ بالجنۃ، وعبد اللّٰہ بن مسعود، وعبد اللّٰہ بن عمر، وزید بن ثابت، وأبي موسی الأشعری، وأبي الدرداء وثوبان، وصدور التابعین، وقال ابن عبد البر روی ذلک عن علی وابن مسعود، وعلقمۃ والأسود وعامر الشعبي وعروۃ بن الزبیر وإبراہیم‘‘(۳)
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب …في ندب مراعاۃ الخلاف إذا لم یرتکب مکروہ مذہبہ‘‘: ج ۱، ص: ۲۷۹۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب الأول في الوضوء، الفصل الخامس في نواقض الوضوء ومنہا ما یخرج من غیر السبیلین‘‘: ج ۱، ص: ۶۱۔
(۳) بدر الدین العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الطہارات: فصل في نواقض الوضوء، الدم والقیح من نواقض الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۹۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص251
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:کنڈوم کااستعمال کثرتِ اولاد کے خوف اور فقر وفاقہ کی بنا پر کرتے ہیں؛ حالانکہ اسلام نے اولاد کی تعلیم وتربیت اور انہیں انسانی معاشرے کا صالح عنصر بنانے کی بڑی تاکید کی ہے۔ اسلام اولاد کو اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت قرار دیتا ہے اس نعمت کی تمنا اور خواہش صرف عام انسانوں کو ہی نہیں ہوتی؛ بلکہ انبیاء علیہم السلام بھی اس کی تمنا کرتے رہے ہیں (جیسا کہ حضرت زکریا علیہ السلام کا ذکر سورہ مریم میں مذکورہ ہے) فقر وفاقہ اور مفلسی کے ڈر سے اپنی اولاد کو قتل کرنا اللہ تعالیٰ کی صفت رزاقیت پر بالواسطہ یا بلا واسطہ حملہ کی دلیل ہے؛ اس لیے اگر کنڈوم (Condom) کا استعمال بغیر ضرورتِ شرعی فقر وفاقہ اور فکرِ معاش کی وجہ سے ہو تو اس پر سخت وعید آئی ہے۔
جیسا کہ قول باری ہے: {ولا تقتلوا أولادکم خشیۃ إملاق نحن نرزقہم وإیاکم}(۱)
اپنی اولاد کو قتل مت کرو فقر وفاقہ کے ڈر سے ہم ان کو بھی رزق دیتے ہیں اور تم کو بھی۔
{وما من دابۃ في الأرض إلا علی اللّٰہ رزقہا}(۲)
روئے زمین پر چلنے والے جو بھی جاندار ہیں ان کا رزق اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے؛ نیز مذکورہ عمل خواہشِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی خلاف ہے حدیث پاک میں آیا ہے:
’’تزوجوا الولود الودود فإني مکاثربکم الأمم یوم القیامۃ‘‘(۳) زیادہ محبت کرنے والی اور زیادہ بچے جننے والی عورت سے نکاح کرو؛ کیونکہ میں قیامت کے دن تم لوگوں کی زیادتی کی وجہ سے دوسری امتوں پر فخر کروں گا؛ البتہ اگر عورت کی صحت خراب ہونے کا خطرہ ہو، حمل برداشت کرنے کی طاقت نہ ہو، یا استقرار حمل میں ایسی تکلیف کا اندیشہ ہو جو ناقابل تحمل ہو، یا گود کے بچے کے لیے مضر ہو، تو ایسی صورت میں کسی مسلمان دین دار ڈاکٹر کے مشورہ سے عارضی طور پر کنڈوم (Condom) کا استعمال عذر کی وجہ سے کر سکتے ہیں اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے۔ ’’أفاد وضع المسألۃ أن العزل جائز بالإذن وھذا ھو الصحیح عند عامۃ العلماء لما في البخاري عن جابر رضي اللّٰہ عنہ،: کنا نعزل والقرآن ینزل، الخ‘‘(۱)
’’فإذا أذن فلا کراھۃ في العزل عند عامۃ العلماء وھو الصحیح وبذلک تضافرت الأخبار، وفي الفتح: وفي بعض أجوبۃ المشایخ: الکراھۃ وفي بعض عدمھا، نھر الخ‘‘(۲)
نیز کسی بھی وجہ سے اگر جماع کے وقت کنڈوم استعمال کیا تو چوں کہ کنڈوم کا غلاف اتنا باریک ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ بھی عورت کی فرج داخل (شرمگاہ کا اندرونی حصہ) کی حرارت محسوس ہوتی
ہے اور دونوں کو لذت کا احساس بھی ہوتی ہے؛ لہٰذا کنڈوم چڑھے عضو مخصوص کا سر عورت کی شرم گاہ میں داخل ہوتے ہی شوہر وبیوی دونوں پر غسل واجب ہو جائے گا چاہے انزال ہو یا نہ ہو، جیسا کہ مراقی الفلاح میں مذکور ہے:
’’ولو لف ذکرہ بخرقۃ وأو لجہ ولم ینزل فالأصح أنہ إن وجد حرارۃ الفرج واللذۃ وجب الغسل وإلا فلا، والأحوط وجوب الغسل في الوجہین لقولہ علیہ السلام: إذا التقی الختانان وغابت الحشفۃ وجب الغسل أنزل أو لم ینزل‘‘(۳)
(۱) سورۃ الإسراء: ۳۱۔
(۲) سورۃ ہود: ۶۔
(۳) أخرجہ النسائي، في سننہ، ’’کتاب النکاح: باب کراہیۃ تزویج العقیم‘‘: ج ۲، ص: ۵۹، رقم: ۳۲۲۷۔(مکتبہ نعیمیہ دیوبند)
(۱) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب النکاح: باب نکاح الرقیق‘‘: ج ۳، ص: ۳۴۸۔
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب النکاح: باب نکاح الرقیق، مطلب في حکم العزل‘‘: ج ۴، ص: ۳۳۵۔
(۳) الطحطاوي، مراقي الفلاح، ’’کتاب الطہارۃ: فصل ما یجب فیہ الاغتسال‘‘: ج ۱، ص: ۴۳۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص342
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ فی السوال صورت میں جو رقم امام کو تنخواہ میں دی جاتی ہے اگر وہ یقنی طور پر سود کی رقم ہے۔ تو دینے والوں کے لیے وہ رقم امام صاحب کو دینی جائز نہیں ہے۔(۱) البتہ اگر امام صاحب مستحق زکوٰۃ ہیں اور بہت غریب ہیں تو ان کے لیے بینک کی سودی رقم لینا جائز ہے تاہم اس سے تنخواہ ادا نہیں ہوگی۔ مسجد والوں پر لازم ہے کہ امام صاحب کے لیے محلہ والوں سے چندہ کرکے ان کی تنخواہ ادا کریں ورنہ سخت گنہگار ہوں گے اور آخرت میں جواب دہ ہوگے، تنخواہ امام صاحب کا حق ہے۔(۲)
(۱) ویردونہا علی أربابہا إن عرفوہم وإلا تصدقوا بہا لأن سبیل الکسب الخبیث التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ، باب الاستبراء وغیرہ، فصل في البیع‘‘: ج۹، ص: ۶۲۵)
والحاصل أنہ إن علم أرباب الأموال وجب ردہ علیہم وإلا فإن علم عین الحرام لایحل لہ ویتصدق بہ بنیۃ صاحبہ۔ (أیضًا:)
(۲) عن أبي ہریرۃ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: قال اللّٰہ تعالیٰ: ثلاثۃ أنا خصمہم یوم القیامۃ رجل أعطي بي ثم غدر ورجل باع حرا فأکل ثمنہ ورجل استاجر أجیرا فاستوفی منہ ولم یعط أجرہ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب البیوع، باب إثم من باع حرا‘‘: ج۲، ص: ۶۸۲، رقم: ۲۲۲۷)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص329
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: نمازی کے سامنے سے گزرنا سخت منع ہے(۱) لیکن اگر کوئی شخص عین پیچھے نماز کی نیت باندھ کر کھڑا ہوجائے تو اگلا شخص وہاں سے اپنی ضرورت کے لیے ہٹ جائے تو یہ ممنوع نہیں ہے(۲) حضرت عائشہؓ کی روایت میں ہے کہ میرے پیچھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز ادا فرماتے اور میں کھسک جایا کرتی تھی۔(۳)
(۱) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لویعلم الماربین یدي المصلي ماذا علیہ لکان أن یقف أربعین خیرالہ من أن یمربین یدیہ، قال أبوالنضرلاأدري، قال أربعین یوما أوشہرا أوسنۃ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب إثم الماربین یدي المصلي‘‘: ج۱، ص: ۷۴،رقم: ۵۱۰)
إن کعب الأحبارقال لویعلم الماربین یدي المصلي ماذا علیہ لکان أن یخسف بہ خیرالہ من أن یمربین یدیہ (موطا إمام مالک،کتاب الصلاۃ،التشدید في أن یمر أحدبین یدي المصلي، ص: ۱۵۳، مطبوعہ کراچی)۔
(۲) أراد المرور بین یدی المصلی فإن کان معہ شییٔ یضعہ بین یدیہ ثم یمر ویأخذہ، ولو مر إثنان یقوم أحدہما أمامہ ویمر الآخر ویفعل الآخر، ہکذا یمران۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘: ج۲، ص: ۴۰۱)
(۳) عن عائشۃ، قالت: أعدلتمونا بالکلب والحمار لقد رأیتني مضطجعۃ علی السریر، فیجيء النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فیتوسط السریر، فیصلي، فأکرہ أن أسنحہ، فأنسل من قبل رجلي السریر حتی أنسل من لحافي۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب إلی السریر‘‘: ج۱، ص: ۱۰۷، رقم: ۵۰۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص445
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: ذکر کردہ سوال میں آنے والا شخص جب دیکھے کہ امام صاحب ایک سلام پھیر چکے ہیں تو اس کے لیے اقتدا کرنا درست نہیں ہے، اس لیے کہ لفظ سلام کہنے سے نماز ختم ہوگئی اب آنے والا شخص تکبیر تحریمہ کہہ کر اپنی نماز کو علیحدہ شروع کرے اور اس شخص کو اپنے آپ کو مقتدی سمجھنا صحیح نہیں ہے۔ جیسا کہ علامہ ابن عابدین نے رد المحتار میں لکھا ہے:
’’(قولہ: وتنقضي قدوۃ بالأول) أي بالسلام الأول۔ قال في التجنیس: الإمام إذا فرغ من صلاتہ۔۔۔ فلما قال: السلام جاء رجل و اقتدی بہ قبل أن یقول: علیکم لایصیر داخلًا في صلاتہ؛ لأنّ ہذا سلام؛ ألا تری أنہ لو أراد أن یسلم علی أحد في صلاتہ ساہیًا، فقال: السلام ثم علم فسکت تفسد صلاتہ‘‘(۱)
’’وتنقطع بہ التحریمۃ بتسلیمۃ واحدۃ … وتنقضی قدوۃ بالأول قبل علیکم علی المشہور۔ قال في التجنیس: الإمام إذا فرغ من صلاتہ، فلما قال السلام جاء رجل واقتدی بہ قبل أن یقول : علیکم لا یصیر داخلا في صلاتہ‘‘(۲)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب لا ینبغي أن یعدل عن الدرایۃ إذا وافقتہا روایۃ‘‘: ج۲، ص:۱۶۲، ط:زکریا، دیوبند۔
(۲) الحصکفي و ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۶۲، ۲۳۹، ط: زکریا دیوبند۔
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص58
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: ایسا کرنا مکروہ تحریمی ہے اور عمل کثیر پایا جائے تو نماز ہی ٹوٹ جاتی ہے اور عمل کثیر یہ ہے کہ دیکھنے والے کو محسوس ہو کہ نماز نہیں پڑھ رہا ہے اس لیے اس عمل سے امام کو بچنا چاہئے۔
’’إن اللّٰہ کرہ ثلاثاً: العبث في الصلاۃ والرفث في الصیام والضحک في المقابر‘‘(۲)
’’ویکرہ أیضاً أي یکف ثوبہ وہو في الصلاۃ بعمل قلیل بأن یرفع بین یدیہ أو من خلفہ عند السجود … ویکرہ للمصلي أن یعبث بثوبہ أو بجسدہ لقولہ علیہ السلام : ان اللّٰہ تعالیٰ کرہ لکم ثلاثاً وذکر منہا العبث في الصلاۃ ولا العبث خارج الصلاۃ حرام فما ظنک في الصلاۃ‘‘(۱)
’’یکرہ للمصلي أن یعبث بثوبہ أو لحیتہ أو جسدہ، وإن یکف ثوبہ بأن یرفع ثوبہ من بین یدیہ أو من خلفہ إذا أراد السجود‘‘(۲)
’’وکرہ عبثہ بثوبہ وبدنہ‘‘(۳)
(۲) أخرجہ ابن خزیمۃ، في الصحیح: ص: ۲۰۹۔
(۱) المرغیناني، الہدایۃ، ’’باب ما یفسدالصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۹؛ وابن الہمام، فتح القدیر: ج ۱، ص: ۳۵۹۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب السابع، الفصل الثاني فیما یکرہ في الصلاۃ وما لا یکرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۴۔
(۳) ابن نجیم، البحر الرائق: ج ۲، ص: ۱۶-۳۳، زکریا۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص183
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق: صورت بالا میں آیت{ولا نساء من نساء عسیٰ أن یکن خیر منھن} میں عسی کی جگہ حتی پڑھنے سے معنی میں کوئی بڑی خرابی پیدا نہیں ہوئی، اس لیے نماز درست ہوجائے گی۔ لوٹانے کی ضرورت نہیں۔
’’(ومنہا) ذکر کلمۃ مکان کلمۃ علی وجہ البدل۔ إن کانت الکلمۃ التي قرأہا مکان کلمۃ یقرب معناہا وہي في القرآن، لا تفسد صلاتہ نحو: إن قرأ مکان العلیم الحکیم وإن لم تکن تلک الکلمۃ في القرآن لکن یقرب معناہا، عن أبي حنیفۃ ومحمد رحمہما اللّٰہ تعالی: لا تفسد وعن أبي یوسف رحمہ اللّٰہ تعالی: تفسد نحو إن قرأ التیابین مکان التوابین وإن لم تکن تلک الکلمۃ في القرآن ولا تتقاربان في المعنی۔ تفسد صلاتہ بلا خلاف إذا لم تکن تلک الکلمۃ تسبیحا ولا تحمیدا ولا ذکرا، وإن کان في القرآن ولکن لا تتقاربان في المعنی نحو إن قرأ: وعدا علینا إنا کنا غافلین مکان فاعلین ونحوہ مما لو اعتقدہ یکفر تفسد عند عامۃ مشایخنا، وہو الصحیح من مذہب أبي یوسف رحمہ اللّٰہ تعالی۔ ہکذا في الخلاصۃ‘‘(۱)
’’’’فالأصل فیہا عند الإمام ومحمد رحمہما اللّٰہ تعالی تغیر المعنی تغیرا فاحشا، وعدمہ للفساد، وعدمہ مطلقا سواء کان اللفظ موجودا في القرآن، أو لم یکن وعند أبي یوسف رحمہ اللّٰہ : إن کان اللفظ نظیرہ موجودا في القرآن لا تفسد مطلقا تغیر المعنی تغیرا فاحشا أو لا وإن لم یکن موجودا في القرآن تفسد مطلقا‘‘(۲)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الھندیۃ، ’’الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الخامس في زلۃ القاري‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۷، زکریا دیوبند۔
(۲) حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی، ’’باب ما یفسد الصلاۃ‘‘: ص: ۳۳۹۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص288
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ فی السوال وقت میں نوافل پڑھنا بلا شبہ درست ہے۔(۱)
(۱) التطوع المطلق یستحب أداء ہ في کل وقت، کذا في محیط السرخسي۔ (جماعۃ من علماء الھند، الفتاوی الھندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب التاسع في النوافل‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۲، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص404
طلاق و تفریق
Ref. No. 2840/45-4484
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ طلاق کے وقوع کے لئے لفظ طلاق کا زبان سے بولنا ، عورت کی جانب حقیقتا یا حکما نسبت کرنا ضروری ہے۔ لہذا صورت مسئولہ میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔ تاہم اس طرح کے جملہ پر مشق کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 1251 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم-: اگر شوہر نے اپنے قول سے طلاق کی نیت کی تھی توفقہ حنفی کی روشنی میں تین طلاقیں مغلظہ واقع ہوگئیں۔ اور اگر ایک دو تین سے فوری طور پر نکلنا مراد تھا تو طلاق واقع نہیں ہوئی۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند