Islamic Creed (Aqaaid)
عَنْ عُثْمَانَ، قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ـ صلى الله عليه وسلم ـ ‏ “‏ مَنْ أَدْرَكَهُ الأَذَانُ فِي الْمَسْجِدِ ثُمَّ خَرَجَ لَمْ يَخْرُجْ لِحَاجَةٍ وَهُوَ لاَ يُرِيدُ الرَّجْعَةَ فَهُوَ مُنَافِقٌ ‏” Is it hadith?if yes, what standard of of the hadith regarding sanad & matoon (text)?

Games and Entertainment

Ref. No. 962/41-119

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

It is a kind of gambling (game of chance) which is strictly prohibited in Islam. Gambling refers to the betting or staking of something of value, with consciousness of risk and hope of gain, on the outcome of a game, or a contest. In the case you mentioned above a team may acquire money more than they deposited and another team may lose what they deposited and it is called gambling in Islam. And it is a grave sin.

يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصابُ وَالْأَزْلامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (سورہ مائدۃ 90)

والحاصل أن العدالة إنما تسقط بالشطرنج إذا وجد واحد من خمسة: القمار وفوت الصلاة بسببه وإكثار الحلف عليه واللعب به على الطريق كما في فتح القدير،(شامی 5/483) لأن القمار من القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى، وسمي القمار قمارا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص، ولا كذلك إذا شرط من جانب واحد لأن الزيادة والنقصان لا تمكن فيهما بل في أحدهما تمكن الزيادة، وفي الآخر الانتقاص فقط فلا تكون مقامرة لأنها مفاعلة منه زيلعي (شامی 6/403)۔

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No.1411/42-839

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

A married woman will live with her worldly husband in the Heaven and she will be the leader of the virgins whom the husband meets. And if a woman in the world remarries after the death or divorce of her husband, then she will have the option in the Heaven to stay with whichever husband she wants to live with. And a believing virgin girl will be married to a boy of her choice. If she does not like a man, then Allah will create a man from Hoor-e-Ain and marry her.

"، قلت: يا رسول الله المرأة منا تتزوج الزوجين والثلاثة والأربعة ثم تموت فتدخل الجنة ويدخلون معها، من يكون زوجها؟ قال: " يا أم سلمة إنها تخير فتختار أحسنهم خلقاً، فتقول: أي رب إن هذا كان أحسنهم معي خلقاً في دار الدنيا فزوجنيه، يا أم سلمة ذهب حسن الخلق بخير الدنيا والآخرة'' (23/ 367، وفي الغرائب: ولو ماتت قبل أن تتزوج تخیّر أیضًا، إن رضیت بآدميّ زوجت منہ، وإن لم ترض فاللہ یخلق ذکرًا من الحور العین، فیزوجہا منہ۔

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

بدعات و منکرات

Ref. No. 1530/43-1034

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جس طرح ڈاکٹر مریض کے احوال دیکھ کر مرض کی تشخیص کرتاہے، اور اندازہ لگالیتاہے کہ اس کو کون سا مرض لاحق ہے، اسی طرح عاملین کچھ آثار سے اور علامات سے جادو یا آسیبی اثرات کی تشخیص کرتے ہیں۔  قرآن و حدیث سے اس کا ثبوت نہیں ہے البتہ عاملین کے اپنے قدیم تجربات ہیں جو لوگوں کے لئے مفید ثابت ہوتے ہیں ، لیکن اس میں غلطی کا امکان بہرحال رہتاہے، تاہم اس کو علم غیب سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ایک اندازہ ہوتاہے اور اس کے مطابق تعویذ و رقیہ کے ذریعہ اس کا علاج کیاجاتاہے۔ اور تعویذ ورقیہ کی شریعت میں اس شرط کے ساتھ اجازت ہے کہ اس میں شرکیہ کوئی بات نہ ہواور عقیدہ کے فساد کا سبب نہ بنے۔ اس لئے ایسے عامل سے علاج  کرانے میں کوئی حرج نہیں ہے جو  متبع سنت ہو اور شرکیہ کلمات سے بچتے ہوئے قرآن و حدیث سے علاج کرتاہو۔

’’ عن عوف بن مالك الأشجعي، قال: كنا نرقي في الجاهلية، فقلنا: يا رسول الله كيف ترى في ذلك؟ فقال: «اعرضوا علي رقاكم، لا بأس بالرقى ما لم يكن فيه شرك»‘‘. صحیح مسلم، (4/ 1727، رقم الحدیث: 2200، باب لا باس بالرقی مالم یکن فیہ شرک، ط: دار احیاء التراث العربی)

’’ذكر مالك في " موطئه ": عن زيد بن أسلم: ( «أن رجلاً في زمان رسول الله صلى الله عليه وسلم أصابه جرح، فاحتقن الجرح الدم، وأن الرجل دعا رجلين من بني أنمار، فنظرا إليه، فزعما أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لهما: " أيكما أطب"؟ فقال: أو في الطب خير يا رسول الله؟ فقال: " أنزل الدواء الذي أنزل الداء (ففي هذا الحديث أنه ينبغي الاستعانة في كل علم وصناعة بأحذق من فيها فالأحذق، فإنه إلى الإصابة أقرب‘‘.(زاد المعاد  فی ھدی خیرالعباد، ص:781، فصل في هديه صلى الله عليه وسلم في الإرشاد إلى معالجة أحذق الطبيبين، دار الفکر بیروت)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس طرح کے جملہ کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ مانگنے کی ترغیب ہو، اور توجہ اللہ کی طرف ہو، اس لئے اس جملہ میں کوئی حرج نہیں اور نہ ایمان کو کوئی خطرہ۔ تاہم اگر قائل یہ عقیدہ رکھے کہ بغیر مانگے اللہ تعالیٰ کچھ نہیں دیتے تو ایسے جملوں سے پرہیز ضروری ہے۔ (۱)

(۱) {إِنَّ اللّٰہَ یَرْزُقُ مَنْ  یَّشَآئُ بِغَیْرِ حِسَابٍہ۳۷} (سورۃ آل عمران: ۳۷)

{وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًاہلا ۲ وَّیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُط وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَھُوَ حَسْبُہٗط إِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ أَمْرِہٖط قَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شَیْئٍ قَدْرًاہ ۳} (سورۃ الطلاق: ۲۔۳)

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 1796/43-1562

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  وساوس  سے  بچنے کی کوشش کریں ورنہ زندگی اجیرن ہوجائے گی۔  شریعت میں دل کے اندر آنے والے وسوسوں کا اعتبار نہیں ہے جب تک ان کو زبان سے نہ کہاجائے یا اس کے مطابق عمل نہ کیا جائے۔ اس لئے آپ کا طلاق کا وسوسہ بے معنی ہے۔ اگر دل میں خیال آیا کہ میری بیوی فلاں کام کرے تو اس کو طلاق، مگر آپ نے اس کو زبان سے نہیں کہا تو اس کے وہ کام کرنے سے طلاق واقع نہیں ہوگی۔

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ:  محمد اسعد

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

 

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر اس نے استخفاف اور استہزا کے طور قرآن کو پھینکا ہے، تو اس کا یہ امر موجب کفر وارتداد ہے۔(۱)

(۱) إذا أنکر آیۃ من القرآن أو استخف بالقرآن أو بالمسجد، أو بنحوہ مما یعظم في الشرع، أو عاب شیأ من القرآن کفر۔ (عبد الرحمن بن محمد، مجمع الأنہر، ’’کتاب السیر والجہاد: باب المرتد، ثم إن ألفاظ الکفر أنواع‘‘: ج ۱، ص: ۵۰۷)

تثبت (أي الردۃ بالشہادۃ) ویحکم بہا حتی تبین زوجتہ منہ ویجب تجدید النکاح۔ (زین الدین ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب السیر: باب أحکام المرتدین‘‘: ج ۵، ص: ۲۱۳)

(فتاوی دار العلوم وقف دیوبند جلد اول ص 179)

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے توسل سے دعاء مانگنا حدیث اور اجماع سے ثابت ہے: ’’ویستفاد من قصۃ العباس رضي اللّٰہ عنہ: استحباب الاستشفاع بأہل الخیر والصلاح وأہل بیت النبوۃ‘‘(۱) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے استسقاء کے لئے دعاء مانگی تھی کہ ’’اے اللہ ہم تیرے پیغمبر علیہ السلام کے وسیلہ سے دعاء مانگا کرتے تھے، تو بارش عطا فرماتا تھا اب ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے دعاء مانگتے ہیں ہماری دعاء قبول فرما اور بارش عطاء فرما؛ چنانچہ دعاء کے بعد بارش ہوئی، جیسا کہ امام بخاری نے نقل کیا ہے، ’’عن أنس بن مالک، أن عمر بن الخطاب رضي اللّٰہ عنہ، کان إذا قحطوا استسقیٰ بالعباس بن عبد المطلب، فقال: اللّٰہم إنا کنا نتوسل إلیک بنبینا صلی اللّٰہ علیہ وسلم فتسقینا وإنا نتوسل إلیک بعم بنبینا فأسقنا، قال: فیسقون‘‘(۲) مذکورہ حدیث پاک سے واضح ہو گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے اور غیر نبی جو اللہ کے محبوب ومقبول بندے ہوں ان کے توسل اور وسیلہ سے دعاء مانگنا نہ صرف جائز ہے، بلکہ مستحسن اور اجابت دعاء میں مؤثر ہے۔ ’’ومن آداب الدعاء تقدیم الثناء علی اللّٰہ والتوسل بنبي اللّٰہ، لیستجاب الدعاء‘‘(۱)

(۱) ابن حجر، فتح الباري، ’’کتاب الاستسقاء: باب سوال الناس الإمام الاستسقاء‘‘: ج ۲، ص: ۴۹۷۔
(۲) أخرجہ البخاري، في صحیحہ،  ’’کتاب الاستسقاء: باب سؤال الناس الإمام الاستسقاء إذا قحطوا‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۷، رقم: ۱۰۱۰۔
(۱) الشاہ ولي اللّٰہ الدہلوي، حجۃ اللّٰہ البالغۃ، ’’الأمور التي لا بد منہا في الصلوٰۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۴۔
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص275

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 2444/45-3707

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

The belief of Ahlul -Sunnat wal-Jama'at about the mothers of the believers is that they are the mothers of all the believers according to the Qur'an, they are the mothers of all the believers, and they are to be respected and honored as it is clearly mentioned in some ahadith. In Hadith it is mentioned about Hazrat Ayisha (ra) that she will be the wife of the Prophet (saws) in the paradise even.

في رواية الترمذي: «إِنَّ هَذِهِ زَوْجَتُكَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ(سنن الترمذی ؛حدیث نمبر: 3880)۔

In the same way, when the Holy Prophet (PBUH) divorced Hazrat Hafsa, Jibreel Amin came and said that he should approach her because she is his wife both in this world and in the Paradise.

عَنْ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَلَّقَ حَفْصَةَ تَطْلِيقَةً، فَأَتَاهُ جِبْرِيلُ، فَقَالَ: " يَا مُحَمَّدُ طَلَّقْتَ حَفْصَةَ تَطْلِيقَةً وَهِيَ صَوَّامَةٌ قَوَّامَةٌ، وَهِيَ زَوْجَتُكَ فِي الدُّنْيَا وَفِي الْجَنَّةِ (شرح مشکل الآثار ،حدیث نمبر: 4615) عن هشام بن عروة، عن أبيه، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم " طلق سودة، فلما خرج إلى الصلاة أمسكت بثوبه، فقالت: مالي في الرجال من حاجة، ولكني أريد أن أحشر في أزواجك قال: فرجعها وجعل يومها لعائشة رضي الله عنها(السنن الکبری، للبیہقی،حدیث نمبر:13435)

Ibn Katheer wrote that all the honored wives will be the prophet’s wives in the Paradise and will be with the Holy Prophet in the best position and status above all creations.

۔" ثم ذكر عدله وفضله في قوله: ( وَمَنْ يَقْنُتْ مِنْكُنَّ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ )، أي: يطع الله ورسوله ويستجب ( نُؤْتِهَا أَجْرَهَا مَرَّتَيْنِ وَأَعْتَدْنَا لَهَا رِزْقًا كَرِيمًا ) أي: في الجنة، فإنهن في منازل رسول الله صلى الله عليه وسلم، في أعلى عليين، فوق منازل جميع الخلائق، في الوسيلة التي هي أقرب منازل الجنة إلى العرش " انتهى من "تفسير ابن كثير" (6/408)  ۔

(2) All the Companions of the Prophet (saws) are destined to go to Paradise, this is the clear message given in the Qur'an and Hadiths, and this is the creed of Ahlus Sunnat Wal-Jama'at. God Almighty himself has approved them for Paradise; there shall be no iota of doubt because it is approved by Quran and Hadith, no one can deny it. For anyone other than them, these two things are not proven by the Qur'an and Hadith. (Aqaide Islam p. 168).

وَالسَّابِقُونَ الأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللّهُ عَنْهُمْ وَرَضُواْ عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ {التوبة:100قال أبو محمد بن حزم رحمه الله: ثم نقطع على أن كل من صحب رسول الله صلى الله عليه وسلم بنية صادقة ولو ساعة، فإنه من أهل الجنة لا يدخل النار لتعذيب، إلا أنهم لا يلحقون بمن أسلم قبل الفتح، وذلك لقول الله عز وجل: لا يستوي منكم من أنفق من قبل الفتح وقاتل أولئك أعظم درجة من الذين أنفقوا من بعد وقاتلوا وكلا وعد الله الحسنى. انتهى

And Allah knows best

 

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:روایت کا مطلب یہ ہے کہ پوری کی پوری امت کبھی شرک میں مبتلا نہیں ہوگی؛ بلکہ ہر دور میں کچھ ایسے لوگ ہوں گے جو شرک سے بچنے والے ہوں گے؛ جب کہ کچھ لوگ شرک بھی کریں گے، جیسا کہ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لا تقوم الساعۃ حتی تلحق قبائل من أمتي بالمشرکین وحتی تعبد قبائل من أمتي بالأوثان‘‘(۱)

(۱) أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الفتن: ذکر الفتن ودلائلہا‘‘: ج ۲، ص: ۵۷۴؛ أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’باب ما جاء لا تقوم الساعۃ حتی یخرج کذابون‘‘: ج ۲، ص: ۱۷۷، رقم: ۲۲۱۹)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص113