Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:شرعاً نہ آئینہ دیکھنے کی ممانعت ہے رات میں اور نہ ہی جھاڑو دینے کی ممانعت ہے۔ زیادہ تر عورتیں ایسی باتیں کہتی ہیں جو صحیح نہیں ہے۔(۲) صفائی ستھرائی کی جب ضرورت ہو، صفائی کر لینا چاہیے اللہ کو صفائی پسند ہے اور اس کے لئے کسی وقت کی تعیین نہیں ہے۔(۱)
(۲) أشرف علي التھانوي، اغلاط العوام: ص: ۳۱۔ …عن أبي حرۃ الرقاشي عن عمہ رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: ألا لا تظلموا ألا لا یحل مال إمرئ إلا بطیب نفس منہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب البیوع: الفصل الثاني: باب الغصب والعاریۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۵، رقم: ۲۹۴۶)
(۱) إن اللّٰہ طیب یحب الطیب، نظیف یحب النظافۃ، رواہ الترمذي۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’باب الترجل‘‘: ج ۷، ص: ۲۸۴۶، رقم: ۴۴۸۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص525
متفرقات
Ref. No. 2605/45-4120
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ یہ آپ نے بہت غلط کیا، آپ کو اس طرح نہیں بولنا چاہئے تھا ، تاہم اس سےیمین منعقد ہوگئی اور قسم ٹوٹنے پر کفارہ دینا ہوگا، لیکن اس سے قسم کھانے والا کافر نہیں ہوگا۔ (بہشتی زیور حصہ سوم: ص۵۱قسم کھانے کا بیان)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
بدعات و منکرات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:دین کا سیکھنا فرض عین ہے، (۱)خواہ مدرسہ کے ذریعہ ہو یا خانقاہ کے ذریعہ یا جماعت کے ذریعہ؛ البتہ تبلیغ فرض کفایہ ہے جو عالم دین نے تبلیغ کو فرض کہا اس کی مراد یہی ہوگی کہ دین کا سیکھنا فرض ہے، جہاں تک ان کے دلائل ہیں، ان سے تبلیغ کی فرضیت ضرور ثابت ہوتی ہے، لیکن اس کا فرض عین ہونا نہیں ثابت ہوتا ہے، (۲) تبلیغ یعنی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر یہ فرض کفایہ ہے اور اس کے لیے کوئی خاص طریقہ متعین نہیں ہے؛ بلکہ جس طرح بھی یہ کام انجام دیا جائے درست ہے؛ اس لیے سوشل میڈیا کے ذریعہ یا واٹس ایپ وغیرہ کے ذریعہ بھی کوئی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دے، یہ جائز ہے؛ اس لیے کہ مقصد لوگوں کو بھلی بات بتانا اور برائی سے روکنا ہے۔
’’قال العلامہ الآلوسی في ہذہ الآیۃ ولتکن منکم أمۃ یدعون إلی الخیر ویأمرون المعروف وینہون عن المنکر؛ إن العلماء اتفقوا علی أن الأمر بالمعروف والنہي عن المنکر من فروض الکفایۃ۔(۱) وأعلم أن تعلم العلم یکون فرض عین وہو بقدر ما یحتاج إلیہ وفرض کفایۃ و ہو ما زاد علیہ لنفع غیرہ(۲) قال العلامي في فصولہ: من فرائض الإسلام تعلمہ ما یحتاج إلیہ العبد في إقامۃ دینہ وإخلاص عملہ للّٰہ تعالی ومعاشرۃ عبادہ وفرض علی کل مکلف ومکلفۃ بعد تعلمہ علم الدین والہدایۃ تعلم علم الوضوء والغسل والصلاۃ والصوم، وعلم الزکاۃ لمن لہ نصاب، والحج لمن وجب علیہ‘‘۔(۳)
(۱) عن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’المقدمۃ، باب فضل العلماء والحث‘‘: ج ۱، ص: ۲۰، رقم: ۲۲۴)
(۲) {کُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِط} (سورۃ آل عمران: ۱۱۰)
(۱) علامہ آلوسي، روح المعاني: ج ۴، ص: ۲۱۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’مقدمہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۵)
(۳) ’’أیضاً‘‘۔
----------
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص344
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:کنویں کے بارے میں فقہاء نے لکھا ہے کہ حرام پرندوں کی بیٹ سے کنواں ناپا ک نہیں ہوتا۔(۲)
(۲) ولا نزح في بول فارۃ فی الأصح: ولا بخرء حمام و عصفور، و کذا سباع طیور في الأصح لتعذر صونھا عنہ۔ قولہ: في الأصح راجع إلی قولہ (وکذا سباع طیر) أي مما لایؤکل لحمہ من الطیور۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطہارۃ، باب المیاہ، مطلب مھم في تعریف الاستحسان، ج۱، ص:۳۷۷)؛ و في الخانیۃ وزرق سباع الطیر یفسد الثوب إذا فحش و یفسد ماء الأواني ولا یفسد ماء البئر، و في الفیض و بول الفارۃ لو وقع في البئر قولان أصحھما عدم التنجس۔ (درر الحکام شرح غرر الأحکام، فصل بئر دون عشر في عشر،ج۱، ص:۲۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص481
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:اس میں راز یہ ہے کہ جس طرح انسان ظاہری اعضاء پر پانی ڈالتا ہے اور اس کی وجہ سے ظاہری اعضا کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں، اسی طرح باقی پانی پی کر اس طرف اشارہ ہوتا ہے کہ اے اللہ تونے جس طرح میرے ظاہر کو پاک کر دیا، اسی طرح میرے باطن کو بھی پاک فرما دیں؛ کیوںکہ وضو کے پانی میں ایک خاص تاثیر اور برکت ہوتی ہے۔(۲)
(۲)(ماخوذاز:حضرت تھانویؒ، احکامِ اسلام عقل کی نظر میں ، ص:۳۸)، حاشیہ میں مرقوم ہے ’’اور اس پانی کو کھڑے ہو کر پینا سنت ہے تاکہ اوپر سے نیچے تک پاک ہونے کی دعا ہے۔‘‘، و أن یشرب من فضل الوضوء قائماً، وضو کا بچا ہوا پانی کھڑے ہو کر پینا از قبیل مستحبات ہے۔ کذا في نورالإیضاح لشرنبلالي، فصل من آداب الوضوء، ص:۳۴… و أن یشرب بعدہ من فضل وضوئہ ۔۔۔ والمراد شرب کلہ أو بعضہ۔ (رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في بیان إرتقاء الحدیث الضعیف إلی مرتبۃ الحسن،‘‘ ج۱،ص:۲۵۳)؛ و عن أبي حیۃ قال رأیت علیا توضأ الخ ثم قام فأخذ فضل طھورہ فشربہ و ھو قائم۔(أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’ابواب الطہارۃ، باب في وضوء النبی ﷺ کیف کان،‘‘ ج۱، ص:۱۷، رقم:۲۶)
فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص148
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ہاں مردوں کی طرح عورتوں کو بھی مذی وودی آتی ہے۔ مذی پتلی اور سفیدی مائل ہوتی ہے جو منی سے پہلے شہوت کے وقت نکلتی ہے، مگر اس کے نکلنے سے شہوت ختم نہیں ہوتی اور ودی سفید گدلے رنگ کی ہوتی ہے جو پیشاب کے بعد اور کبھی اس سے پہلے اور کبھی جماع یا غسل کے بعد بلا شہوت نکلتی ہے۔
ان دونوں کے نکلنے کی صورت میں وضو ٹوٹ جاتا ہے اور غسل واجب نہیں ہوتا ۔
مراقی الفلاح میں ہے:
’’منہا المذي … وہو ماء أبیض رقیق یخرج عند شہوۃ لا بشہوۃ ولا دفق ولا یعقبہ۔ فتور وربما لا یحس نحو وجہ وہو أغلب في النساء من الرجال ویسمیٰ في جانب النساء قذی بفتح القاف والذال المعجمۃ‘‘
’’ومنہا (وديٌ) … وہو ماء أبیض کدر ثخین لارائحۃ لہ یعقب البول وقد یسبقہ۔ أجمع العلماء علی أنہ لا یجب الغسل بخروج المذي والودي‘‘(۱)
’’منہا ما یخرج من السبیلین من البول والغائط والریح الخارجۃ من الدبر والودي والمذي الخ‘‘(۱)
(۱) الطحطاوي، مراقي الفلاح علی حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الطہارۃ: فصل عشرۃ أشیاء لا یغسل‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۰، ۱۰۱۔
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب الأول: في الوضوء، الفصل الخامس: في نواقض الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۶۰۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص252
طہارت / وضو و غسل
الجوب وباللّٰہ التوفیق:عورت پر بچہ پیدا ہونے کے بعد جب تک خون جاری ہے اس پرغسل فرض نہیں ہے، جب خون بند ہو جائے گا، تو اس کے بعد غسل واجب ہوگا اور نفاس کی حالت میں عورت حکماً ناپاک ہے، مگر اس کے ہاتھ کا کھانا حرام نہیں ہے، اس کے ہاتھ کا کھانا بھی جائز ہے اور اس کا سب کے ساتھ رہنا بھی درست ہے، اس کے استعمال شدہ برتنوں کا بھی یہی حکم ہے۔
دوسرے لوگ ان برتنوں کو بلا جھجھک استعمال کر سکتے ہیں۔ حالت حیض ونفاس میں عورت کو بالکل الگ تھلگ کر کے ایسا سلوک کرنا اور اچھوت بنا دینا غیر اسلامی عمل ہے اس حالت میں عورت کے ساتھ ہمدردی اور حسن سلوک کی مزید ضرورت ہوتی ہے؛ اس لیے ان جاہلانہ باتوں کو جلد از جلد ترک کردینا ضروری ہے۔
’’ولا یکرہ طبخہا ولا استعمال ما مستہ من عجین أو ماء أو نحوہما‘‘ (۱)
’’وفرض الغسل عند خروج منی … وعند انقطاع حیض ونفاس‘‘ (۲)
’’وفي الفتاویٰ الصحیح وجوب الغسل علیہا وأما الوضوء فیجب اجماعاً لأن کل ما خرج من السبیلین ینقض الوضوء وہذا خارج من أحد السبیلین‘‘(۳)
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب لوافتی مفت بشيء من ہذہ الأقوال‘‘: ج ۱، ص: ۲۹۲۔
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب في تحریر الصاع والمد والر طل‘‘: ج ۱، ص: ۲۹۴۔
(۳) أبو بکر الحدادی، الجوہرۃ النیرۃ علی مختصر القدوري، ’’کتاب الطہارۃ: دم النفاس‘‘: ج ۱، ص: ۳۵۔(دارالکتاب دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص344
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: امام کی عزت اور احترام کے پیش نظر تو یہ ہونا چاہئے کہ اگر بغیر شرعی ثبوت کے کوئی بھی الزام تراشی کرے تو حتی الامکان اس کے دفعیہ کی پوری کوشش کریں چہ جائیکہ خود متولی بھی اپنے امام پر الزام لگائیں اور بلا ثبوت شرعی الزام تراشی کریں جب کہ ایسا کرنے والے خود بھی گناہگار ہیں اور ان کے ساتھ لگنے والے بھی گناہگار ہوں گے، حالاں کہ ایسی الزام تراشیوں سے پرہیز ہر مسلمان کا فرض ہے برآں مزید کہ امام صاحب معافی بھی مانگ رہے ہیں پھر بھی کس قدر سخت دل ہیں وہ حضرات کہ غلطی (اگر بالفرض ہو گئی ہو) کو معاف نہیں کرتے اور (۱) مذکورہ صورت میں امام صاحب کی بات کو صحیح مانا جائے گا ان کی امامت درست اور جائز ہوگی اس میں شک نہ کیا جائے، قانون شریعت کے تسلیم کرنے میں ہی ہماری نجات ہے۔
(۱) {وَالْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِط وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَہج ۱۳۴} (سورۃ آل عمران: ۱۳۴)
متولی المسجد لیس لہ أن یحمل سراج المسجد إلی بیتہ ولہ أن یحملہ من البیت إلی المسجد، کذا في فتاویٰ
قاضي خان۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الوقف، الباب الحادي عشر: في المسجد ومایتعلق بہ، الفصل الثاني في الوقف وتصرف القیم وغیرہ‘‘: ج۲، ص: ۴۱۲)
ولا تجوز إعارۃ أدواتہ لمسجد آخر ۱ھـ۔ (ابن نجیم، الأشباہ والنظائر، ص: ۴۷۱) (أیضًا:)
ولا تجوز إعارۃ الوقف والإسکان فیہ کذا في المحیط السرخسي، ۱ہـ ، (أیضًا:)
متولي المسجد لیس لہ أن یحمل سراج المسجد إلی بیتہ ولہ أن یحملہ من البیت إلی المسجد، کذا في فتاویٰ قاضي خان ۱ہـ، (أیضًا:)
ولا تجوز إجارۃ الوقف إلا بأجر المثل، کذا في المحیط السرخسي، (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الوقف، الفصل الثاني في الوقف وتصرف القیم، وغیرہ في مال الوقف علیہ‘‘: ج۲، ص: ۴۱۲)۔
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص330
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: کوئی حرج نہیں شروع کرسکتا ہے۔ تاہم اگر جگہ کی تنگی نہ ہو یا جماعت میں شرکت کی مجبوری نہ ہو تو نمازی کے سامنے سے گزرنے کی وعید کی وجہ سے اس سے بھی بچنا بہتر ہے۔(۱)
(۱) ولو من إثنان یقوم أحدہما أمامہ، ویمر الآخر، ویفعل الآخر بکذا، ویمران، کذا في القنیۃ۔ (ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘: ج۲، ص: ۴۰۱)
(اتفق الفقہاء علی أنہ أن یستتر المصلي بکل ما انتصب من الأشیاء کالجدار والشجر والأسطوانۃ والعمود، أو بما غرز کالعصا والرمح والسہم وما یصبح شاکلہا، وینبغي أن یکون ثابتا غیر شاغل للمصلي عن الخشوع - (الموسوعۃ الفقہیہ، ج۲۴، ص: ۱۷۸، ما یجعل سترۃ)
وشمل کل ما انتصب کإنسان قائم أو قاعد أو دابۃ کما في القہستاني والحلبي، وجوز في القنیۃ بظہر الرجل، ومنع بوجہہ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوی علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، فصل في اتخاذ السترۃ‘‘: ج۱، ص: ۲۰۰، ۲۰۱، ط: مصطفی الحلبي)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص446
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: جو تشہد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے نماز میں وہی پڑھا جائے، کوئی نماز کی کتاب دیکھ لیں وہی معروف ہے اپنی طرف سے کوئی زیادتی یا کمی نہ کی جائے اور شرک کا جو احتمال سوال میں لکھا ہے وہ خالی وسوسہ ہے، ایسی کوئی بات نہیں ہے۔(۱)
(۱) إذا جلس أحدکم فلیقل التحیات للّٰہ والصلوات والطیبات السلام علیک أیہا النبي ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ، السلام علینا وعلی عباد اللّٰہ الصالحین۔ فإنکم إذا قلتم ذلک أصاب کل عبد صالح في السماء والأرض أو بین السماء والأرض، أشہد أن لا إلہ إلا اللّٰہ وأشہد أن محمداً عبدہ ورسولہ۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ، باب التشہد‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۶، رقم: ۹۶۸، مکتبہ: نعیمیہ دیوبند)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص360