Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس کی کوئی اصل نہیں ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور نہ آپ کے اصحابؓ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ دین کے قول وعمل سے اس کی تائید ملتی ہے۔ اگر یہ صورت میت کے لئے مفید ہوتی، تو یہ حضرات اس سے دریغ نہ کرتے۔ لہٰذاجنازہ پر پھول کی چادر ثواب سمجھ ڈالنا مکروہ تحریمی ہے۔(۱)
(۱) حضرت شاہ اسحاق دہلوي، مسائل أربعین: ص: ۴۵۔
وفي حق النساء بالحریر والإبریسم والمعصفر والمزعفر ویکرہ للرجال ذلک۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوٰۃ: الباب الحادي والعشرون: في الجنائز، الفصل الثالث في التکفین‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۲)
وعن عمران بن حصین أن نبي اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: لا أرکب الأرجوان ولا ألبس المعصفر ولا ألبس القمیص المکفف بالحریر، وقال: ألا وطیب الرجال ریح لا لون لہ وطیب النساء لون لا ریح لہ۔ رواہ أبو داود۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب اللباس: الفصل الثاني‘‘: ج ۲، ص: ۳۷۵، رقم: ۴۳۵۴)
کل مباح یؤدي إلی زعم الجہال سیئۃ أمرا ووجوبہ فہو مکروہ۔ (تنقیح الفتاویٰ الحامدیۃ، ’’مسائل وفوائد شتیٰ من الحظر والإباحۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۳۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص401
قرآن کریم اور تفسیر
الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن کریم چونکہ عربی زبان میں نازل ہوا ہے اور عربی زبان کے بہت سے الفاظ ایسے ہیں کہ ان کی مثال دوسری زبانوں میں نہیں ہے اور اگر ہے بھی، تو طرز ادا اور اس کی صحیح آواز اور اس کی ادائے گی میں بہت ہی زیادہ فرق ہے، مثلاً: ’’صَلِّ‘‘ کا لفظ جو اصل ہے اس کے معنی درود اور رحمت نازل فرمانے کے ہیں اور یہ لفظ اگر ’’سَلِّ‘‘ یعنی سین کی آواز کے ساتھ پڑھ دیا جائے، تو اس کے معنی ’’تلوار کھینچ تو‘‘ کے ہوجائیں گے، جیسا: کہ ہندی زبان میں ’’ص، س‘‘ میں کوئی فرق نہیں اور ایسے ہی ’’ط، ت، ۃ‘‘ میں ہندی زبان میں کوئی فرق نہیں وغیرہ۔
ایسے ہی دیگر زبانوں کا حال ہے؛ اس لیے قرآن پاک کے متن کو اصلی عربی رسم الخط اور عربی زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان میں چھا پا جائے گا تو اس سے قرآن پاک کے معنی میں فرق آجائے گا اور اس کی ادائے گی بھی صحیح نہ ہوگی؛ اس لیے قرآن پاک کے متن کو دوسری زبان میں چھاپنا جائز نہیں ہے، البتہ قرآن پاک کے ترجمہ ومطلب میں اس قسم کا تغیر نہ ہوگا، اس تبدیلی میں مقصد کچھ بھی ہو اس کی آسان صورت یہ ہے کہ غیروں کی تعلیم کے لئے قرآن پاک کے اصل متن کو عربی ہی میں چھاپا جائے اور ان کو سمجھانے کے لئے ان کی زبان میں اس کا ترجمہ، مطلب وتفسیر لکھ دی جائے، تاکہ وہ سمجھ لیں اور مسلمانوں کو عربی متن والا قرآن پاک پڑھایا جائے، کیونکہ ان کو نماز میں اور غیر نماز میں قرآن پاک اصل عبارت میں پڑھنا ہے اور مسلمان اسی کے مکلف ہیں۔ (۱)
(۱) یحرم مخالفۃ خط مصحف عثمان في واو أو یاء أو ألف أو غیر ذلک۔ (جلال الدین السیوطي، الإتقان في علوم القرآن: ج ۲، ص: ۱۶۶) سئل مالک ہل یکتب المصحف علی ما أحدثہ الناس من الہجاء۔فقال: لا إلا علی الکتبۃ الأولی۔(جلال الدین السیوطي، الإتقان في علوم القرآن: ج ۴، ص: ۱۴۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص72
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق: حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سب سے پہلے حضرت سارہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی تھی۔ ان سے کوئی اولاد نہیں ہوئی تھی کہ حضرت ھاجرہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا ان سے حضرت اسماعیل علیہ السلام پیدا ہوئے ۔ اس کے بعد حضرت سارہ رضی اللہ عنہا سے بھی حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب علیہ السلام پیدا ہوئے۔(۲)
ان دونوں بیویوں کی وفات کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے قطورا بنت یقطن سے شادی کی ان سے چھ اولاد ہوئیں جن کے نام یہ ہیں:
(۱) یقشان (۲) زمران (۳) مدین (۴) مدان (۵) نشق (۶) سو۔
اور قطورا کی وفات کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حجون بنت اہیر سے شادی کی تھی۔(۱)
(۲) قیل کانت ہاجر جاریۃ ذات ہیئۃ فوہبتہا سارۃ لإبراہیم، وقالت: خذہا لعل اللّٰہ یرزقک منہا ولدا، وکانت سارۃ قد منعت الولد حتی أسنت فوقع إبراہیم علی ہاجر فولدت إسماعیل فلما ولد إسماعیل حزنت سارۃ حزنا شدیدا فوہبہا اللّٰہ إسحاق۔ (أبو الحسن الجزري، الکامل في التاریخ: ج۱، ص ۹۴)
(۱) ’’أیضاً‘‘:
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص223
بدعات و منکرات
الجواب وباللّٰہ التوفیق:دونوں کی دعوت ضروری ہے، دونوں میں بڑا اجر و ثواب ہے آج کے دور میں اس سے غفلت برتنا اچھا نہیں۔(۲)
(۲) وعن أنس بن مالک رضي اللّٰہ عنہ، قال أتی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم رجل یستحملہ فلم یجد عندہ ما یحلمہ فدلہ علی آخر فحملہ فأتی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم فأخبرہ، فقال: أن الدال علی الخیر کفاعلہ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب العلم، باب ما جاء أن الدال علی الخیر کفاعلہ‘‘: ج ۲، ص: ۹۵، رقم: ۲۶۷۰)
{لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ إِذْ بَعَثَ فِیْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْ أَنْفُسِہِمْ یَتْلُوْاعَلَیْھِمْ أٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیْہِمْ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَج} (سورۃ آل عمران: ۱۶۴)
{ٰٓیأَیُّھَا الْمُدَّثِّرُ ہلا ۱ قُمْ فَأَنْذِرْ ہلاص۲ وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ ہلاص۳ وَثِیَابَکَ فَطَھِّرْ ہلاص۴ } (سورۃ المدثر: ۱ تا ۴)
{وَأَمَّا مَنْ أٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَہٗ جَزَآئَنِ الْحُسْنٰیج وَسَنَقُوْلُ لَہٗ مِنْ أَمْرِنَا یُسْرًاہط ۸۸} (سورۃ الکہف: ۸۸)
-------------
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص338
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:کنویں میں عورت گر کر مر گئی تو کنواں بلاشبہ ناپاک ہوگیا، عورت کے گرنے کے وقت جس قدر پانی تھا، اس کے نکالنے سے کنواں پاک ہو جائے گا، یکبارگی پانی نکالنا ضروری نہیں ہے، تھوڑا تھوڑا پانی نکالنے سے کنواں پاک ہو جاتا ہے۔(۲)
(۲) و إن ماتت فیھا شاۃ أو آدمي أو کلب نزح جمیع مافیھا من الماء؛ لأن إبن عباسؓ و إبن الزبیرؓ أفتیا بنزح الماء حین مات زنجي في بئر زمزم۔ (ہدایہ، کتاب الطہارۃ، فصل في البئر، ج۱،ص:۴۳)؛ أو موت شاۃ أو موت آدمي فیھا لنزح ماء زمزم بموت زنجي۔ (الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، کتاب الطہارۃ، فصل في مسائل الآبار، ص:۳۶) ؛ و إن ماتت فیھا شاۃ أو آدمی أو کلب نزح جمیع مافیھا من الماء۔ ش أي ھذا حکمھا في الموت۔ (العینی، البنایۃ شرح الہدایہ، کتاب الطہارۃ، فصل في البئر، ج۱، ص:۴۵۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص474
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اعضاء وضو کو تین بار دھونا مسنون ہے، ایک مرتبہ دھونے سے بھی وضو درست ہوگا، اس سے نماز ادا ہو جائے گی؛ لیکن اس کو عادت نہیں بنانا چاہیے، وضو سنت طریقے پر کرنا چاہیے۔(۱)
(۱) و تثلیث الغسل المستوعب ولا عبرۃ للغرفات ولو اکتفی بمرۃ، إن اعتادہ أثم و إلا لا۔ (الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في منافع السواک،‘‘ ج۱، ص۳۹) ؛ و تکرار الغسل إلی الثلاث؛ لأن النبي علیہ الصلاۃ والسلام توضأ مرۃ، مرۃ، و قال: ھذا وضوء لا یقبل اللہ تعالیٰ الصلاۃ إلا بہ، و توضأ مرتین مرتین، و قال: ھذا وضوء من یضاعف اللّٰہ لہ الأجر مرتین، و توضأ ثلاثا ثلاثا، و قال: ھذا وضوئي و وضوء الأنبیاء من قبلي۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارات،‘‘ ج۱،ص:۳۱-۳۲)
فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص141
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ میں اگر عورت کو جنابت کے بعد غسل سے پہلے حیض آنا شروع ہوگیا تو فوری طور پر غسل کرنا اس عورت پر ضروری نہیں ہے، بلکہ جب حیض کا خون بند ہوجائے تب غسل کرے گی؛ اس لیے کہ غسل جنابت تو پاکی کے لیے ہوا کرتا ہے اور جب تک وہ عورت ایامِ حیض میں ہے پاکی کا تصور ہی نہیں ہو سکتا؛ لہٰذا عورت حیض سے پاک ہونے کے بعد دونوں کا ایک ہی غسل کرے گی، غسلِ جنابت اور حیض دونوں کا الگ الگ غسل کرنے کی ضرورت نہیں ہے؛ البتہ اگر کوئی عورت حالت حیض میں ویسے ہی غسل کرنا چاہے تو شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے؛ لیکن یہ غسل غسلِ طہارت نہیں کہلائے گا۔ فتاویٰ شامی میں ہے:
’’(و) عند (انقطاع حیض ونفاس) ہذا وما قبلہ من اضافۃ الحکم إلی الشرط: أي یجب عندہ لا بہ، بل بوجوب الصلاۃ أو إرادۃ ما لا یحل کما مر‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۵۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص330
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر کبھی ایسا ہو کہ پانچ اوقات میں سے کسی ایک وقت میں مذکورہ عذر سے خالی اتنا وقت بھی نہ مل سکے کہ وضو کر کے اس وقت کے فرائض ادا کر لیے جائیں، تو مریض شرعاً معذور کہلاتا ہے، اور اگر ایسا نہ ہو، تو شرعاً وہ معذور ہی نہیں کہلاتا۔ اس اعتبار سے اگر معذور شرعی ہو، تو نماز کا وقت آجانے پر وضو کرے اور اس وقت کی نماز پڑھے، اور اسوقت میں جتنی چاہے نمازیں پڑھے، اور دوسرے وقت دوسرا وضو کرے، اور اگر معذور نہیں تو عام آدمی کی طرح وضو کر کے نماز ادا کرے عذر لاحق ہونے پر وضو ٹوٹ جائے گا۔(۲)
(۲) و حاصلہ أن طہارۃ المعذور تنتقض بخروج الوقت بالحدث السابق۔ (المرغیناني، ہدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ فصل والمستحاضۃ‘‘ ج۱،ص:۶۸) ؛ وفسائر ذوي الأعذار في حکم المستحاضۃ، فالدلیل یشملھم و یصلون بہ أي بوضوئھم في الوقت ما شاء وا من الفرائض الخ۔ (طحطاوي،حاشیہ الطحطاوي، علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض والنفاس والاستحاضۃ‘‘ج۱،ص:۱۴۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص413
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: بشرط صحت سوال مذکورہ امام ظہر کی نماز پڑھا سکتا ہے کوئی وجہ ممانعت نہیں۔(۱)
(۱) وشروط صحۃ الإمامۃ للرجال الأصحاء ستۃ أشیاء: الإسلام، والبلوغ، والعقل، والذکورۃ، والقراء ۃ، والسلامۃ من الأعذار کالرعاف والفأفأۃ والتمتمۃ واللثغ، وفقد شرط کطہارۃ وستر عورۃ۔ (الشرنبلالي، نورالإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ص: ۷۸، ۷۷، مکتبہ عکاظ دیوبند)
لقولہ علیہ السلام: صلوا خلف کل برو فاجر، الخ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح،’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۳، شیخ الہند دیوبند)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص321
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق:ایک مشت داڑھی رکھنا واجب ہے اور اس سے کم کرانا یا کاٹنا ناجائز ہے، ایسا کرنے والاشریعت کی نگاہ میں فاسق ہے اور فاسق کی اذان واقامت مکروہ ہے۔
(وکرہ أذان الفاسق) لعدم الاعتماد ولکن لا یعاد‘‘(۱)
’’کذا أي: کما کرہ أذان السبعۃ المذکورین ومنھم الفاسق کرہ إقامتھم وإقامۃ المحدث لکن لا تعاد إقامتھم لعدم شرعیۃ تکرار الإقامۃ‘‘(۲)
(۱) عبدالرحمن بن محمد، مجمع الأنہر، ’’کتاب الصلاۃ، صفۃ الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۸۔
(۲) محمد بن فرامرز، درر الحکام شرح غرر الأحکام: ج ۱، ص: ۵۶، (شاملہ)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص217