نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جس کی امام کے ساتھ کوئی رکعت چھوٹ جائے اس کو مسبوق کہتے ہیں، مسبوق اپنی چھوٹی ہوئی رکعت اسی طرح پوری کرتا ہے جس طرح کے منفرد اپنی نماز پوری کرتا ہے، یعنی قرأت وغیرہ امور انجام دیتا ہے، اس میں کبھی سجدہ سہو کی بھی ضرورت پیش آجاتی ہے، پس مسبوق کے لیے سجدہ سہو ضروری نہیں ہے، لیکن اگر چھوٹی رکعت کے پوری کرنے کے دوران ایسی غلطی ہوگئی جس پر سجدہ سہو واجب ہوتا ہے، تو مسبوق کو بھی سجدہ سہو کرنا پڑتا ہے۔
’’والمسبوق من سبقہ الإمام بہا أو ببعضہا وہو منفرد) حتی یثنی ویتعوذ ویقرأ، وإن قرأ مع الإمام لعدم الاعتداد بہا لکراہتہا۔ مفتاح السعادۃ (فیما یقضیہ) أي: بعد متابعتہ لإمامہ، فلو قبلہا فالأظہر الفساد، ویقضي أول صلاتہ في حق قراء ۃ، وآخرہا في حق تشہد؛ (في الشامیہ)، ویلزمہ السجود إذا سہا فیما یقضیہ کما یأتي، وغیر ذلک مما یأتي متنا وشرحا‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار علی الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب فیما لو أتی بالرکوع والسجود الخ ‘‘: ج ۲، ص:۳۴۶، ۳۴۷۔

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص54

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: گلا کے بٹن کھلا رکھنا یا بند رکھنا نہ شعائر اسلام میں سے ہے اور نہ ضروریات دین میں سے؛ بلکہ ضروریات زندگی جس امر کی متقاضی ہوں ویسے ہی کیا جاسکتا ہے گرمی کی وجہ سے اگر کھولنے کی ضرورت پڑے تو اس میں کوئی حرج نہیں، سردی و ہوا وغیرہ کی وجہ سے بند کرنے کی ضرورت ہو تو بند کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں پس بلا قصد بھی کسی کے بٹن کھلے رہیں تب بھی کوئی حرج نہیں امام کا مذکورہ عمل نہ نماز کے شرائط میں سے ہے نہ مستحبات میں، نظر صرف ان چیزوں پر رہنی چاہئے کہ جن اعمال سے نماز میں کراہت آتی ہو کہ وہ نہ ہونے پائیں۔(۱)

(۱) فما رأیت معاویۃ‘‘ إلی آخرہ، وھذا وإن کان اختیاراً لما ھو خلاف الأولی خصوصاً فی الصلوات؛ لکنھما أحبا أن یکونا علی ما رأیا النبی صلی اللہ علیہ وسلم وإن کان إطلاقہ أزرارہ إذ ذاک لعارض، ولم یکن ھذا من عامۃ أحوالہ صلی اللہ علیہ وسلم، وذلک لما فیہ من قلۃ المبالاۃ بأمر الصلاۃ، إلا أن الکراھۃ لعلھا لا تبقی فی حق معاویۃ وابنہ لکون الباعث لھما حب النبی صلی اللہ علیہ وسلم واتباعہ فیما رأیاہ من الکیفیۃ۔ (خلیل أحمد سہارنفوري، بذل المجھود، ’’کتاب اللباس: باب في حل الإزار‘‘: ج۱۲، ص: ۱۰۹،(شاملہ)
وتشمیرکمیہ عنہما للنہي عنہ لما فیہ من الجفاء المنافي للخشوع۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ، فصل في المکروہات‘‘:  ص: ۳۴۹، دارالکتاب دیوبند )
(۱)ٰیبَنِیْٓ اٰدَمَ خُذُوْ ازِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ (سورۃ الأعراف: ۳۱)
وصلاتہ في ثیاب بذلۃ یلبسہا في بیتہ ومہنۃ أي خدمۃ إن لہ غیرہا وإلا لا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا‘‘: ج۲، ص: ۴۰۷)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص175

عائلی مسائل

Ref. No. 839 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

کسی مریض پر شریعت کے مطابق دم کرنے کے لئے اگر کسی کامل پیر کی اجازت بھی ہو تو اس  سے اس میں مزید تاثیر پیداہوتی ہے۔ شریعت کےمطابق دَم کرنے کی اجازت ہے۔ ابتدائی طور پر روزانہ ایک تسبیح استغفار کی پڑھیں۔ واللہ تعالی اعلم

 

دارالافتاء

 دارالعلوم وقف دیوبند

مساجد و مدارس

Ref No. 1010

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: (١) اگر تہ خانہ مسجد کے طور پر نہیں بنایا گیا بلکہ مصالح مسجد کیلئے ہے تو اس میں رہائش کی گنجائش ہے۔ (٢) مسجد کے اوپر چھوٹے بچے بچیوں کی تعلیم درست ہے  مگر بالغ بچیوں کا ہاسٹل بنانا درست نہیں  ہے۔ (٣) مسجد کے اوپری حصہ میں پردہ کے ساتھ مرد معلم تعلیم دے سکتا ہے۔ (٤) معلمہ کو اپنا کام خود کرنا چاہئے؛ طالبات سے گھر کا ذاتی کام لینا پسندیدہ نہیں ہے اور بالغ لڑکوں  سے پردہ لازم ہے  معلمہ کو اس کا خیال رکھنا ضروری ہے؛ کبھی وقت ضرورت معلمہ اگر کام لے لیں تو کوئی حرج نہیں مگر پردہ لازمی طور پر کرائیں۔ (٥) اگر کسی ادارہ کی صورت حال ایسی ہو کہ وہاں منکرات کو نظرانداز کیا جاتا ہو  تو اس میں اپنی بچیوں کو نہیں بھیجنا چاہئے  جب تک بچیوں کے لئے کسی دوسری محفوظ اور مناسب جگہ کا نظم نہ ہوجائے۔ (٦) چندہ دینا درست ہے، ثواب ان شاء اللہ مرتب ہوگا،  البتہ جو خامیاں اور منکرات ہیں ان کی اصلاح ضروری ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

فقہ

Ref. No. 971/41-117

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اس سے مزید برکت حاصل ہوگی ان شاء اللہ۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 1174/42-424

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ساتویں، چودہویں،یا پھر اکیسویں دن عقیقہ کرنا مسنون ہے۔ اس کے بعد کبھی بھی عقیقہ کیاجائے ، عقیقہ ادا ہوجائے گا۔ ایسا کوئی ضروری نہیں ہے کہ جس دن ولادت ہو اسی تاریخ میں عقیقہ ہو،  کسی دن کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 1906/43-1801

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اگرچہ عرف کے اعتبار سے مالک زمین ہی ٹھیکہ کا حقدار ہوتاہے، اور ملازمت میں بھی اسی کو ترجیح دی جاتی ہے ، لیکن اگر کسی دوسرے نے اس زمین کا ٹھیکہ قانون کے مطابق لے لیا، تو مالک زمین بھی اپنے لئے اس زمین کے ٹھیکہ کا دعوی پیش کرسکتاہے، ۔ حکومت اگر مناسب سمجھے گی تو دوسرے کا ٹھیکہ منسوخ کرکے ٹھیکہ مالک زمین کے نام کردے گی۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دنیا میں تشریف لاکر پینتالیس سال دنیا میں زندہ رہیں گے اور میرے مقبرے کے قریب دفن ہوں گے اور قیامت کے دن میں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام ساتھ ہی قبر سے اٹھیں گے۔
یہ حدیث علامہ ابن جوزی نے عقائد نفس میں ذکر کی ہے۔ (۲)

(۲) مشکوٰۃ المصابیح،: ج۲، ص ۴۸۰؛ وحاشیہ جلالین: ج ۱، ص ۵۲۔
عن عبد اللّٰہ بن عمرو رضي اللّٰہ عنہما، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ینزل عیسیٰ ابن مریم إلی الأرض فیتزوج ویولد لہ ویمکث خمسا وأربعین سنۃ ثم یموت فیدفن معي في قبري فأقوم أنا وعیسیٰ ابن مریم في قبر واحد بین أبي بکر وعمر، رواہ ابن الجوزي في کتاب الوفاء۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الفتن: باب نزول عیسیٰ علیہ السلام، الفصل الثالث‘‘: ج۲، ص ۴۸۰، رقم: ۵۵۰۸)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص223

بدعات و منکرات

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بالکل درست ہے، مگر یہ بھی واضح رہے کہ تبلیغی جماعت والے بھی سب عالم نہیں ہیں؛ اس لئے ان میں سے جو عالم ہوں اور مسائل سے واقف ہوں ان کی بات ماننی چاہئے۔(۱)

(۱) وعن ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ قال: سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: نضر اللّٰہ إمرأً سمع منا شیئاً فبلغہ کما سمعہ فرب مبلغ أوعی لہ من سامع۔ رواہ الترمذي وابن ماجہ ورواہ الدارمي عن أبي الدرداء۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب العلم: الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۳۵، رقم: ۲۳۰)
عن عروۃ بن الزبیر رضي اللّٰہ عنہ قال: قالت لي عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا: یا ابن أختي بلغني أن عبد اللّٰہ بن عمرو رضي اللّٰہ عنہ مار بنا إلی الحج فألْقَہُ فسألہ فإنہ قد حمل النبيصلی اللّٰہ علیہ وسلم علما کثیراً، قال: فلقیتہ فسألتہُ عن أشیاء یذکرہا عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ وسلم قال عروۃ: فکان فیما ذکر أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: إن اللّٰہ لا ینتزع العلم من الناس انتزاعاً، ولکن یقبض العلم بقبض العلماء فیرفع معہم ویبقی في الناس رؤساً جہالاً یفتونہم بغیر علم فیضَلون ویضِلون الخ۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب العلم: باب رفع العلم وقبضہ وظہور الجہل والفتن في آخر الزمان‘‘: ج ۲، ص: ۳۴۰، رقم: ۲۶۷۳)


--------------

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص339

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2672/45-4132

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر دیوار پر لکھی آیات پر نظر پڑی مگر وہ آیات اس کو یاد تھیں اور اس نے اپنی یادداشت سے وہ آیات  پڑھیں  تو نماز درست ہوجائے گی، اور اگر وہ آیات یاد نہیں  تھیں  اور دیوار پر دیکھ کر ہی پڑھی گئیں  تو نماز فاسد ہوجائے گی۔  اور اگر نظر پڑی اور مطلب سمجھ گیا لیکن زبان سے کچھ نہیں پڑھا تو نماز درست ہوجائے گی۔ نماز میں قیام کی حالت میں نگاہ سجدہ کی جگہ ہونی چاہئے ، نماز میں ادھر ادھر دیکھنا مناسب نہیں ہے۔

"(وقراءته من مصحف) أي ما فيه قرآن (مطلقا) لأنه تعلم.

و في الرد : (قوله أي ما فيه قرآن) عممه ليشمل المحراب، فإنه إذا قرأ ما فيه فسدت في الصحيح بحر (قوله مطلقا) أي قليلا أو كثيرا، إماما أو منفردا، أميا لا يمكنه القراءة إلا منه أو لا".

(کتاب الصلاۃ، باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها، ج:1، ص:623، ط: ایچ ایم سعید)

فتاویٰ عالمگیری (الفتاوى الهندية ) میں ہے:

"ولو نظر إلى مكتوب هو قرآن وفهمه لا خلاف لأحد أنه يجوز. كذا في النهاية

وفي الجامع الصغير الحسامي لو نظر في كتاب من الفقه في صلاته وفهم لا تفسد صلاته بالإجماع. كذا في التتارخانية

إذا كان المكتوب على المحراب غير القرآن فنظر المصلي إلى ذلك وتأمل وفهم فعلى قول أبي يوسف - رحمه الله تعالى - لا تفسد وبه أخذ مشايخنا وعلى قياس قول محمد - رحمه الله تعالى - تفسد. كذا في الذخيرة والصحيح أنها لا تفسد صلاته بالإجماع. كذا في الهداية ولا فرق بين المستفهم وغيره على الصحيح. كذا في التبيين".

(کتاب الصلوۃ، الباب السابع فيما يفسد الصلاة وما يكره فيها، الفصل الأول فيما يفسدها، ج:1، ص:101، ط:مکتبہ رشیدیہ)

 لو نظر المصلي إلى مكتوب وفهمه، سواء كان قرآنا أو غيره، قصد الاستفهام أو لا، أساء الأدب ولم تفسد صلاته لعدم النطق بالكلام

وجه عدم الفساد أنہ إنما يتحقق بالقراءة،وبالنظروالفهم لم تحصل وإليه أشار المؤلف بقوله لعدم النطق۔۔۔۔قوله:(أساء الأدب)لأن فيہ إشتغالاعن الصلاةوظاهره ان الكراهة تنزيهية وهذا إنما يكون بالقصد وأمالو وقع نظره عليه من غير قصده وفهمه فلا يكره   

(حاشیۃالطحطاوی علی مراقی الفلاح ،جلد01،صفحہ460)

ولم يذكروا كراهة النظر إلى المكتوب متعمدا وفي منية المصلي ما يقتضيها فإنه قال ولو أنشأ شعرا أو خطبة ولم يتكلم بلسانه لا تفسد وقد أساء وعلل الإساءة شارحها باشتغاله بما ليس من أعمال الصلاة من غير ضرورة (بحر الرائق ،جلد02،صفحہ25)

منہا نظر المصلی سواء کان رجلاً أو إمرأۃً إلی موضع سجودہ قائماً حفظاً لہ عن النظر إلی ما یشغلہ عن الخشوع، ونظرہ إلی ظاہر القدم راکعاً وإلی أرنبۃ أنفہ ساجداً وإلی حجرہ جالساً۔ (المراقي) ویفعل ہذا ولو کان مشاہداً للکعبۃ علی المذہب۔ (طحطاوی علی المراقی، ۱۵۱)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند