Frequently Asked Questions
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:افیون اور بھنگ وغیرہ نجس اور ناپاک نہیں ہیں، یہ چیزیں نشہ کی وجہ سے حرام ہیں(۱)؛ مگر ناپاک نہیں ہیں(۲) اس لیے اگر ان چیزوں کا اثر پانی میں آجائے، تو پانی ناپاک نہیں ہوتا ہے۔(۳)
(۱)و حرمھا محمد أي الأشربۃ المتخذۃ من العسل والتین و نحوھما۔ قالہ المصنف مطلقا قلیلھا و کثیرھا وبہ یفتی۔قولہ: و بہ یفتی أي بقول محمد، وھو قول الأئمۃ الثلاثۃ لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام ’’کل مسکر خمر، و کل مسکر حرام‘‘ رواہ مسلم، (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الأشربۃ،ج۱۰، ص:۳۶)
(۲)کیوںکہ افیون، چرس وغیرہ پتوں سے بنائی جاتی ہیں، اپنی ذات میں یہ چیزیں نجس و ناپاک نہیںہیں، البتہ ہر پاک چیز کا حلال ہونا ضروری نہیں، حرام چیز بھی پاک ہوسکتی ہے جیسا کہ مٹی۔ مفتی اعظم مفتی کفایت اللہ صاحبؒ فرماتے ہیں: ’’افیون، چرس، بھنگ، کوکین یہ تمام چیزیںپاک ہیں اور ان کا دوا میں خارجی استعمال جائز ہے۔ نشہ کی غرض سے ان کو استعمال کرنا ناجائز ہے۔(کفایت المفتی، مایتعلق بالبیع الصحیح، ج۱۱، ص:۴۹)
(۳)ولا یضر تغیّر أوصافہ کلھا بجامد کزعفران و فاکھۃ و ورق شجرۃ۔ (الشرنبلالي، نورالإیضاح،کتاب الطھارۃ،ص۲۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص430
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ شخص بدعتی اور فاسق ہے۔ اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہے؛ لیکن جو نمازیں اس کی امامت میں ادا کرلی ہیں وہ ادا ہوگئیں ان کا اعادہ ضروری نہیں۔(۲)
(۲) ویکرہ إمامۃ عبد …… ومبتدع أي صاحب بدعۃ وہي اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول … لا یکفر بہا …… وإن أنکر بعض ما علم من الدین ضرورۃ کفر بہا۔ فلا یصح الاقتداء بہ أصلاً۔
قال ابن عابدین: قولہ وہي اعتقاد إلخ: عزا ہذا التعریف في ہامش الخزائن إلی الحافظ ابن حجر في شرح النخبۃ، ولا یخفی أن الاعتقاد یشمل ما کان معہ عمل أو لا، فإن من تدین بعمل لا بد أن یعتقدہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۸- ۳۰۰)
ویکرہ اتخاذ الضیافۃ من الطعام من أہل المیت لأنہ شرع في السرور لا في الشرور، …وہي بدعۃ مستقبحۃ۔ (إبن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجنائز، فصل في الدفن‘‘: ج ۲، ص: ۱۵۱)
ویکرہ اتخاذ الطعام في الیوم الأول والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلی القبر في المواسم۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب في کراہۃ الضیافۃ من أہل المیت‘‘: ج ۲، ص: ۲۴۰)
لا یجوز ما یفعلہ الجہال بقبور الأولیاء والشہداء من السجود والطواف حولہا واتخاذ السرج والمساجد علیہا ومن الاجتماع بعد الحول کالاعیاد ویسمونہ عرسا۔ (محمد ثناء اللّٰہ پاني پتي، التفسیر المظہري، ’’سورۃ آل عمران: ۶۴‘‘: ج ۲، ص: ۶۸، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص124
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر بوقت ضرورت (جب کہ دوسرا قادر علی القیام آدمی) موجود نہ ہو، مذکورہ شخص امام بن کر نماز پڑھا دے، تو نماز ادا ہوجائے گی اور دوسرے اچھے آدمی کے ہوتے ہوئے امامت کرائی، تو کراہت سے خالی نہیں ہوگی۔
’’وقائم بقاعد یرکع ویسجد وقائم بأحدب وإن بلغ حدبہ الرکوع علی المعتمد و کذا بأعرج وغیرہ أولیٰ الخ‘‘(۱)
اس صورت میں بہتر یہ ہے کہ قادر علی القیام کو امام مقرر کیا جائے تاکہ نماز جیسا اہم فریضہ صحیح طریقہ پر بلا کراہت ادا کیا جا سکے۔(۲)
(۱) الحصکفي، رد المحتار مع الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ مطلب في رفع المبلغ صوتہ زیادۃ علی الحاجۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۳۶، ۳۳۸۔
(۲) (وصح اقتداء قائم بقاعد) یرکع ویسجد؛ لأنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم …صلی آخر صلاتہ قاعدا وہم قیام وأبو بکر یبلغہم تکبیرہ … وغیرہ أولٰی (وموم بمثلہ) إلا أن یومی الإمام مضطجعا والمؤتم قاعدا أو قائما ہو المختار۔ (أیضًا)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص223
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق:عام نمازوں میں اذان و اقامت کے درمیان مناسب فاصلہ ضروری ہے تاکہ لوگ کھانے پینے اور قضائے حاجت سے فارغ ہوسکیں، پھر روایت میں ہے کہ ہر اذان واقامت کے درمیان نماز ہے؛ اس لیے اتنا فاصلہ ہونا چاہیے کہ اذان و اقامت کے درمیان سنت پڑھ سکیں جہاں تک مغرب کا تعلق ہے تو مغرب کی نماز میں بالاتفاق تعجیل مستحب ہے، اور حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تک میری امت مغرب میں تعجیل کرے گی خیر پر رہے گی؛ اس لیے مغرب کی نماز میں اتنا فاصلہ نہیں ہونا چاہیے جتنا کہ دیگر نمازوں میں ہوتا ہے، تاہم وصل یعنی اذان کے فوراً بعد اقامت درست نہیں ہے معمولی فاصلہ ہونا چاہیے۔ اس فصل کی تحدید میں امام صاحب رحمہ اللہ کا قول یہ ہے کہ ایک سکتہ کے بقدر وقفہ کرے، اور موذن بیٹھے نہیں، اور ایک سکتہ کی مقدار امام صاحبؒ کے نزدیک ایک بڑی آیت یا تین چھوٹی آیات کے بقدر ہے، اور ایک روایت کے مطابق تین خطوات چلنے کے بقدر۔ اور صاحبین رحمہما اللہ کے نزدیک دو خطبوں کے درمیان جلسہ کے بقدر وقفہ کرنا کافی ہے، یعنی ان کے بقول مؤذن اتنی مقدار بیٹھے گا کہ زمین پر تمکن حاصل ہوجائے اور اس میں طوالت نہ ہو۔ اور خود امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا عمل بھی یہی تھا کہ مغرب کی اذان اور نماز کے درمیان وہ بیٹھتے نہیں تھے۔ اور یہ اختلاف افضلیت میں ہے؛ اس لیے مغرب کی اذان اور اقامت کے درمیان بیٹھنا امام صاحبؒ کے نزدیک بھی جائز ہے اور نہ بیٹھنا اور تین آیتوں کے بقدر کھڑے کھڑے فصل کرنا صاحبین رحمہما اللہ کے نزدیک بھی جائز ہے۔
حاصل یہ ہے کہ عام حالت میں مغرب کی نماز میں تعجیل افضل ہے، مغرب کی نماز اور اذان میں صرف ایک بڑی آیت یا تین مختصر آیات کی تلاوت کے بقدر وقفہ کرکے نماز پڑھ لینی چاہیے، اور جتنی دیر میں دورکعت ادا کی جاتی ہیں (یعنی تقریباً 2 منٹ) یا اس سے زیادہ تاخیر کرنا خلافِ اولیٰ ہے، اور بغیر عذر کے اتنی تاخیر کرنا کہ ستارے چمک جائیں مکروہِ تحریمی ہے۔ البتہ عذر کی وجہ سے تاخیر مکروہ نہیں ہے، جیساکہ مرض وسفر کی بنا پر مغرب کو آخر وقت تک مؤخر کرنا اور عشاء کو اول وقت میںپڑھنا درست ہے۔ اسی طرح اگر کہیں اس قدر تاخیر سے نماز کھڑی ہورہی ہو تو اذان کے بعد دو رکعت نماز بھی پڑھ سکتے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں ہے؛ لیکن باضابطہ سنت پڑھنے کے لیے وقفہ کرنا مکروہ ہے؛ اس لیے کہ یہ مغرب کی نماز میں تاخیر کا باعث ہے۔
’’قال في الجامع الصغیر: ویجلس بین الأذان والإقامۃ إلا في المغرب، وہذا قول أبي حنیفۃ، وقال أبو یوسف ومحمد رحمہما اللّٰہ: یجلس في المغرب أیضاً جلسۃً خفیفۃً، یجب أن یعلم بأن الفصل بین الأذان والإقامۃ في سائر الصلوات مستحب۔ والأصل في ذلک قولہ علیہ السلام لبلال: اجعل بین أذانک وإقامتک مقدار ما یفرغ الآکل من أکلہ، والشارب من شربہا ‘‘(۱)
’’ویجلس بین الأذان والإقامۃ، إلا في المغرب، وہذا عند أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ، وقالا: یجلس في المغرب أیضاً جلسۃً خفیفۃً؛ لأنہ لا بد من الفصل، إذ الوصل مکروہ، ولا یقع الفصل بالسکتۃ؛ لوجودہا بین کلمات الأذان، فیفصل بالجلسۃ کما بین الخطبتین، ولأبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ أن التأخیر مکروہ، فیکتفی بأدنی الفصل احترازاً عنہ، والمکان في مسألتنا مختلف، وکذا النغمۃ، فیقع الفصل بالسکتۃ، ولاکذلک الخطبۃ۔ وقال الشافعي: یفصل برکعتین اعتباراً بسائر الصلوات، والفرق قد ذکرناہ۔ قال یعقوب: رأیت أبا حنیفۃ رحمہ اللّٰہ تعالی یؤذن في المغرب ویقیم، ولا یجلس بین الأذان والإقامۃ، وہذا یفید ما قلناہ‘‘(۲)
’’(قولہ: إلی اشتباک النجوم) ظاہرہ أنہا بقدر رکعتین لایکرہ مع أنہ یکرہ أخذاً من قولہم بکراہۃ رکعتین قبلہا۔ واستثناء صاحب القنیۃ القلیل یحمل علی ما ہو الأقل من قدرہما توفیقاً بین کلام الأصحاب … واعلم أن التاخیربقدر رکعتین مکروہ تنزیہاً وإلی اشتباک النجوم تحریماً‘‘(۱)
(۱)محمود بن احمد المرغینانی المحیط البرہاني في الفقہ النعماني، ’’کتاب الصلاۃ، في الفصل بین الأذان والإقامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۴۶۔
(۲) العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ج ۲، ص: ۱۰۲، ۱۰۴۔
(۱) أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۸، ط:قدیمی۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص99
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق:صورت مسئولہ میں نماز سے پہلے اعلان درست نہیں ہے یہ تثویب میں داخل ہے جس کی اجازت نہیں ہے(۱) اور نماز فجر کے بعد طلوع کے وقت نماز پڑھنی درست نہیں ہے اس کی ممانعت ہے۔ اور غفلت کی وجہ سے لوگوں کو اس وقت کا پورا خیال نہیں رہتا اس لیے حسب ضرورت اعلان کی گنجائش ہے۔(۲)
(۱) ویثوب کقولہ بعد الأذان الصلاۃ الصلاۃ یا مصلین۔ (الشرنبلالي، نور الایضاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: ص: ۶۱، مکتبہ عکاظ دیوبند)
(۲) قال في العنایۃ: أحدث المتأخرون التثویب بین الأذان والإقامۃ علی حسب ما تعارفوہ في جمیع الصلاۃ سوی المغرب مع إبقاء الأول یعني الأصل ہو تثویب الفجر، و ما رآہ المسلمون حسنا فہو عند اللّٰہ حسن۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان‘‘: مطلب في أول من بنی المنائر للأذان، ج ۲، ص: ۵۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص231
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق: نماز درست ہے، سجدہ سہو کی ضرورت نہیں ہے۔
’’والصحیح أن ینوی الفتح علی إمامہ دون القراء ۃ۔ قالوا : ہذا إذا ارتج علیہ قبل أن یقرأ قدر ما تجوز بہ الصلاۃ أو بعد ما قرأ ولم یتحول إلی آیۃ أخری۔ وأما إذا قرأ أو تحول، ففتح علیہ، تفسد صلاۃ الفاتح، والصحیح أنہا لا تفسد صلاۃ الفاتح بکل حال، ولا صلاۃ الإمام لو أخذ منہ علی الصحیح، ہکذا في الکافي۔ ویکرہ للمقتدي أن یفتح علی إمامہ من ساعتہ، لجواز أن یتذکر من ساعتہ، فیصیر قارئاً خلف الإمام من غیر حاجۃ، کذا في محیط السرخسي، ولا ینبغي للإمام أن یلجئہم إلی الفتح ؛ لإنہ یلجئہم إلی القراء ۃ خلفہ وإنہ مکروہ، بل یرکع إن قرأ قدر ما تجوز بہ الصلاۃ وإلا ینتقل إلی آیۃ أخری، کذا في الکافي، وتفسیر الإلجاء أن یردد الآیۃ، أو یقف ساکتًا، کذا في النہایۃ‘‘(۱)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۷، ۱۵۸۔)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص293
Business & employment
Ref. No. 828/41-136
In the name of Allah the most gracious the most merciful
The answer to your question is as follows:
Paying grinding fee along with some amount of wheat is permissible if it not taken from the same grinded wheat. But if it is conditioned that the deduction would be from the same wheat grinded here then it would not be permissible and such a transaction is termed in a Hadith with ‘Qafeez e Tahhan’ which is an unlawful transaction in Shariah.
ولو دفع غزلا لینسجہ لہ بنصفہ ای بنصف الغزل او استاجر بغلا لیحمل طعامہ ببعضہ او ثورا لیطحن برہ ببعض دقیقہ فسدت فی الکل لانہ استاجر لجزء من عملہ والاصل فی ذلک نھیہ ﷺ والحیلۃ ان یفرز الاجر اولا او یسمی قفیزا بلاتعیین ثم یعطیہ قفیزا منہ فیجوز (ردالمحتار مطلب فی الاستئجار 6/57)
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
بدعات و منکرات
Ref. No. 883/41-02B
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نفلی صدقات کے لئے غریب ہونا ضروری نہیں ہے۔ اس لئے اس طرح بھی ایصال ثواب درست ہے۔ البتہ غریبوں کو ترجیح دینا اولی ہے۔ تاہم قبرستان میں ان امور سے اجتناب کیاجائے۔
وهذا الحكم لا يخص الزكاة بل كل صدقة واجبة كالكفارات وصدقة الفطر والنذور لا يجوز دفعها إليهم ومن سوى ما ذكر يجوز الدفع إليهم۔ (حاشیۃ الطحطاوی ج1 ص721)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 1081/41-256
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم :۔ کسی مسلمان کا نشہ کی حالت میں مسجد جیسی مقدس جگہ میں کام کرنا جائز نہیں ہے۔ مسجد کا پاکیزہ عمل کسی متقی وپرہیزگار کے ذریعہ یا کم ازکم ایسے لوگوں سے انجام پانا چاہئے جو کھلی بے حیائی کے کاموں میں ملوث نہ ہوں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 1538/43-1045
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مرد کی شرم گاہ کو بلا حائل دیکھنے سے حرمت مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے البتہ کپڑا حائل ہو تو کپڑے کے اوپر سے شرم گاہ کی وضع دیکھنے سے حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی۔ لہذا مذکورہ صورت میں حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوگی۔
"وناظرة إلى ذكره .... والعبرة للشهوة عند المس والنظر لا بعدهما وحدها فيهما تحرك آلته أو زيادته به يفتى، وفي امرأة ونحو شيخ كبير تحرك قبله أو زيادته. (قوله: وناظرة) أي بشهوة ... (قوله: وفي امرأة ونحو شيخ إلخ) قال في الفتح: ثم هذا الحد في حق الشاب، أما الشيخ والعنين فحدهما تحرك قلبه أو زيادته إن كان متحركاً لا مجرد ميلان النفس، فإنه يوجد فيمن لا شهوة له أصلاً كالشيخ الفاني، ثم قال: ولم يحدوا الحد المحرم منها أي من المرأة، وأقله تحرك القلب على وجه يشوش الخاطر قال ط: ولم أر حكم الخنثى المشكل في الشهوة، ومقتضى معاملته بالأضر أن يجري عليه حكم المرأة". (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) 3/33)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند