حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:کتب تفاسیر وشرح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی زبان سریانی تھی۔(۱) (۱) ابن کثیر، البدایۃ والنہایۃ: ج ۲، ص: ۱۵۲۔ فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص222

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:حوض میں دہ در دہ ہونا اوپر سے ضروری ہے، اگر اوپر سے کم ہے، تو وہ شرعی حوض نہ ہوگا۔(۱)

(۱) و إن کان أعلی الحوض أقل من عشر في عشر و أسفلہ عشر في عشر أو أکثر، فوقعت نجاسۃ في أعلی الحوض حکم بنجاسۃ الأعلی۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ،، کتاب الطہارۃ، الباب الثالث في المیاہ، ج۱،ص:۷۱)؛ ولو أعلاہ عشراً و أسفلہ أقل جاز حتی یبلغ الأقل، ولو بعکسہ فوقع فیہ نجس لم یجز حتی یبلغ العشر۔ (ابن عابدین، ردالمحتار، کتاب الطہارۃ، باب المیاہ، قبیل مطلب: یطھر الحوض بمجرد الجریان، ج۱،ص:۳۴۳)، اگر کھلا ہوا پانی مقدارِ شرعی سے کم ہے، تو اس سے وضو اس وقت تک کیا جاسکتا ہے، جب تک کوئی نجاست اس میں نہ پڑے، نجاست پڑنے سے وہ حوض ناپاک ہوجائے گا  (کفایت المفتی، باب ما یتعلق بأحکام الحوض،ج۳، ص:۳۹۸)؛ فإذا کان أعلی الحوض أقل من عشر في عشر و أسفلہ عشر في عشر أو أکثر ووقعت نجاسۃ في أعلی الحوض حکم بنجاسۃ الأعلی ثم انتقض الماء و انتھی إلی موضع ھو عشر في عشر۔ (المحیط البرھاني، کتاب الطہارات، الفصل الرابع في المیاہ، ج۱، ص:۹۹)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص473

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:وضو میں مشغول آدمی کو سلام نہ کیا جائے، وضو بھی ایک عبادت اور کار ثواب ہے، جس میں مصروفیت اور خاص توجہ کی ضرورت ہوتی ہے، جب کہ بعض اعضاء ایسے ہیں کہ اگر خاص توجہ نہ دی جائے، تو خشک ہی رہ جائیں گے اور وضو نہ ہوگا۔
وضو میں بعض فرائض، بعض سنن اور بعض مستحبات ہیں، اس کے آداب میں سے یہ ہے کہ عضو کو دھوتے ہوئے بسم اللہ اور کلمہ شہادت پڑھا جائے(۱) اور دوسری دعائیں بھی کتابوں میں منقول ہیں(۲)، جو ہر عضو کے لیے الگ الگ مخصوص ہیں، سلام سے ان سب چیزوں میں خلل ہونے کا قوی اندیشہ ہے؛ لہٰذا اس موقعہ پر سلام نہ کیا جائے اور اگر کوئی سلام کرے، تو اس کا جواب دینا اولیٰ اور بہتر ہے؛  لازم نہیں ہے۔(۳)

(۱)عن عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ ﷺ:  من توضأ فأحسن الوضوء ثم قال : أشھد أن لا إلہ إلا اللّٰہ وحدہٗ لاشریک لہ و أشھد أن محمدا عبدہٗ و رسولہ۔ أللھم اجعلني من التوابین واجعلني من المتطھرین، فتحت لہ ثمانیۃ أبواب الجنۃ یدخل من أیھا شاء۔ (أخرجہ الترمذي، فی سننہ،  ’’أبواب الطہارۃ، باب ما یقال بعد الوضوء،‘‘ ج۱،ص:۱۸، کتب خانہ نعیمیۃ دیوبند)
(۲)والدعاء بالوارد عندہ أي عند کل عضو۔ والصلاۃ والسلام علی النبي بعدہ أي بعد الوضوء۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار،  ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في مباحث الاستعانۃ في الوضوء بالغیر،‘‘ ج۱،ص:۵۲-۲۵۳)
(۳) فیکرہ السلام علی مشتغل بذکر اللّٰہ تعالی بأي وجہ کان۔(ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ، باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیھا، مطلب: المواضع التي یکرہ فیھا السلام،‘‘ ج۲،  ص:۳۷۴)

 

فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص140

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:غسل کرتے وقت اگر زیورات کے ہلانے سے پانی اندر تک پہنچ جاتا ہے، تو انہیں ہلا لینا ہی کافی ہے، اتارنا ضروری نہیں، اسی طرح کان میں بندے ڈالنے کے لیے جو سوراخ کیا جاتا ہے جنابت کے غسل کے دوران اس میں بھی پانی پہنچانا ضروری ہے، اگر کان میں بندے؍ بالی پہنی ہوئی ہو اور پانی بہاتے ہوئے ان سوراخوں میں خود بخود پانی پہنچ جائے، تو کافی ہے، ورنہ زیور کو ہلاکر پانی پہنچانا ضروری ہوگا۔
’’وسئل نجم الدین النسفی رحمہ اللّٰہ عن امرأۃ تغتسل من الجنابۃ، ہل تتکلف لإیصال الماء إلی ثقب القرط؟ قال: إن کان القرط فیہ، وتعلم أنہ لایصل الماء إلیہ من غیر تحریک فلا بد من التحریک، کما في الخاتم، وإن لم یکن القرط فیہ، إن کان لایصل الماء إلیہ لاتکلف، وکذلک إن انضم ذلک بعد نزع القرط وصار بحیث لایدخل القرط فیہ إلا بتکلف لاتتکلف أیضاً، وإن کان بحیث لو أمرَّت الماء علیہ دخلہ، ولو عدلت لم یدخلہ أمرت الماء علیہ حتی یدخلہ، ولاتتکلف إدخال شيء فیہ سوی الماء من خشب أو نحوہ لإیصال الماء إلیہ‘‘(۱)  
’’ویجب تحریک القرط والخاتم الضیقین، ولو لم یکن قرط فدخل الماء الثقب عند مرورہ أجزأہ کالسرۃ، وإلا أدخلہ کذا في فتح القدیر ولا یتکلف في إدخال شيء سوی الماء من خشب ونحوہ‘‘(۲)
’’وکان خاتمۃ ضیقاً نزعہ أو حر کہ وجوبا کقرط ولو لم یکن بثقب أذنہ قرط فلا خلا الحماء فیہ عند مرورہ علی أذنہ أجراہ کسرۃ وأذن دخلہما الماء وإلا یدخل أدخلہ ولو باصبعہ‘‘(۱)

(۱) برہان الدین محمود بن أحمد، المحیط البرہاني، ’’کتاب الطہارات: الفصل الثالث في تعلیم الاغتسال، نوع منہ‘‘: ج ۱، ص: ۸۰ (مکتبہ شاملہ)
(۲) ابن نجیم، البحر الرائق شرح کنز الدقائق، ’’کتاب الطہارۃ: فرض الغسل‘‘: ج ۱، ص: ۸۸۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب في أبحاث الغسل‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۹۔

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص329


 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ میں اگر واقعۃً قطرہ آتا ہو، تو اس طرح قطرہ آنے سے وضو ٹوٹ جائے گا، نماز کے دوران آیا تو نماز بھی نہ ہوگی اور اتنی کم نجاست کو کپڑے پر لگائے رکھنا درست نہیں ہے، البتہ اتنی کم مقدار میں ہو تو نماز ادا ہو جائے گی، اگر یہ مرض کے درجہ میں ہو، تو وضاحت کریں کہ یہ بات کتنی کتنی دیر میں پیش آتی ہے، بہتر ہے کہ کسی عالم سے بالمشافہ صورتِ حال بتلا کر مسئلہ معلوم کرلیں۔ (۱)

(۱)روي مالک بن أنس عن نافع عن ابن عمر رضي اللہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ ﷺ: لا ینقض الوضوء إلا ما خرج من قبل أو دبر۔ أخرجہ الدار قطني في غرائب مالک۔ (العیني، البنایۃ شرح الھدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ، فصل في نواقض الوضوء‘‘ج۱،ص:۲۵۷) ؛و قیل لرسول اللّیہ ﷺ وما الحدث؟ قال ما یخرج من السبیلین۔ (المرغیناني، ہدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ، فصل في نواقض الوضوء‘‘ ج۱،ص:۲۲) ؛ ومنھا ما خرج من السبیلین و إن قل، سمی القبل والدبر سبیلا لکونہ طریقا للخارج، و سواء المعتاد و غیرہ کالدودۃ والحصارۃ۔ (طحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الطہارۃ، فصل‘‘ج۱، ص:۸۶)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص412

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ امام مسجد و خطیب کو نوکر یا ملازم کہنا اگر اس کی اہانت کے پیش نظر ہے تو یہ گناہ کبیرہ ہے اس سے توبہ و استغفار ضروری ہے۔ ایسے الفاظ سے پرہیز کرنا ہی بہتر ہے تاکہ لوگوں کو شبہات پیدا نہ ہوں اس کی ممانعت حدیث میں بھی ہے۔
’’دع ما یریبک إلی ما یریبک‘‘(۱)
’’عن عبد اللّٰہ بن مسعود رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: سباب المسلم فسوق وقتالہ کفر‘‘(۲)
{وَلَا تَلْمِزُوْٓا أَنْفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْأَلْقَابِط بِئْسَ الاِسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْإِیْمَانِج وَمَنْ لَّمْ یَتُبْ فَأُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَہ۱۱}(۳)

(۱) أخرجہ الترمذي في سننہ، ’’أبواب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب‘‘: ج۲، ص:۸۳، رقم: ۲۴۴۲۔
(۲) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: باب خوف المؤمن من أن یحیط عملہ وہو لا یشعر‘‘: ج۱، ص: ۱۲، رقم: ۴۸؛ وأخرجہ المسلم في سننہ، ’’کتاب الإیمان، باب ما جاء سباب المسلم فسوق الخ‘‘: ج۱، ص: ۲۰، رقم: ۶۴۔
(۳) سورۃ الحجرات: ۱۱۔

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص320

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:’’حی علی الصلوٰۃ الصلوٰۃ‘‘ پر اور ’’حی علی الفلاح‘‘ میں الفلاح پر اگر وقف نہ کیا جائے تو عربی کے قاعدے کے لحاظ سے الصلوٰۃ اور الفلاح پر کسرہ پڑھا جائے۔اور اذان واقامت کا مروجہ طریقہ درست ہے۔(۱)

(۱)حدثنا الحسن بن علي حدثنا عفان وسعید بن عامر وحجاج والمعنی واحد قالوا حدثنا ہمام حدثنا عامر الأحول حدثني مکحول أن ابن محیریز حدثہ أن أبا محذورۃ حدثہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علمہ الأذان تسع عشرۃ کلمۃ والإقامۃ سبع عشرۃ کلمۃ الأذان اللّٰہ أکبر اللّٰہ أکبر اللّٰہ أکبر اللّٰہ أکبر أشہد أن لا إلہ إلا اللّٰہ أشہد أن لا إلہ إلا اللّٰہ أشہد أن محمدا رسول اللّٰہ أشہد أن محمدا رسول اللّٰہ أشہد أن لا إلہ إلا اللّٰہ أشہد أن لا إلہ إلا اللّٰہ أشہد أن محمدا رسول اللّٰہ أشہد أن محمدا رسول اللّٰہ حي علی الصلاۃ حي علی الصلاۃ حي علی الفلاح حي علی الفلاح اللّٰہ أکبر اللّٰہ أکبر لا إلہ إلا اللّٰہ والإقامۃ اللّٰہ أکبر اللّٰہ أکبر اللّٰہ أکبر اللّٰہ أکبر أشہد أن لا إلہ إلا اللّٰہ أشہد أن لا إلہ إلا اللّٰہ أشہد أن محمدا رسول اللّٰہ أشہد أن محمدا رسول اللّٰہ حي علی الصلاۃ حي علی الصلاۃ حي علی الفلاح حي علی الفلاح قد قامت الصلاۃ قد قامت الصلاۃ اللّٰہ أکبر اللّٰہ أکبر لا إلہ إلا اللّٰہ، کذا في کتابہ في حدیث أبي محذورۃ۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب کیف الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۷۳ رقم:۴۳۱)
 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص216

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر وہ شخص مدرک تھا اور غلطی سے اس نے اپنے آپ کو مسبوق سمجھ کر امام کے سلام پھیرنے کے بعد کھڑا ہوگیا تو جب تک اس نے رکعت پوری نہیں کی ہے اس کو چاہیے کہ واپس تشہد میں بیٹھ کر سجدہ سہو کرکے اپنی نماز پوری کرے اور اگر کھڑے ہونے کے بعد ایک رکعت پوری کر چکا ہے تو اسے چاہیے کہ دوسری رکعت بھی مکمل کرلے اور سجدہ سہو کرکے نماز کو پوری کرے؛ لیکن اگر ایک رکعت پر ہی بیٹھ کر سجدہ سہو کرکے نماز کو مکمل کرلیا تو بھی نماز ہوجائے گی۔
’’(وإن قعد في الرابعۃ) مثلاً قدر التشھد (ثم قام عاد وسلم) …، (وإن سجد للخامسۃ سلموا) … (وضم إلیھا سادسۃ) لو في العصر، وخامسۃ في المغرب، ورابعۃ في الفجر، بہ یفتی (لتصیر الرکعتان لہ نفلاً) والضم ھنا آکد، ولا عھدۃ لو قطع، ولا بأس بإتمامہ في وقت کراھۃ علی المعتمد (وسجد للسھو) في الصورتین، لنقصان فرضہ بتأخیر السلام في الأولی وترکہ في الثانیۃ‘‘(۱)

(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السھو‘‘: ج ۲، ص: ۵۵۳، ۵۵۴۔

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص53

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس طرح کے فرش پر جو تصویر دیکھائی دیتی ہے اس کا حکم عکس کا ہے تصویر کا نہیں ،اس طرح کے فرش پر بلاکراہت نماز درست ہے ہاں اگر تصوریر اس طرح نمایاں ہوتی ہوں کہ نماز ی کا خشوع و خضو ع متاثر ہوتاہوتو خشوع و خضوع کے متاثر ہونے کی وجہ سے نماز میں کراہت پیدا ہوگی۔ بہتر ہے کہ اس طرح کے فرش پر کوئی چادر یا قالین بچھالیں تاکہ نمازیوں کا خشوع متاثر نہ ہو۔
’’ولو صلی علی زجاج یصف ماتحتہ قالوا جمیعا یجوز‘‘(۱)
’’(قولہ لأنہ یلہي المصلی) أي فیخل بخشوعہ من النظر إلی موضع سجودہ ونحوہ، وقد صرح في البدائع في مستحبات الصلاۃ أنہ ینبغي الخشوع فیہا، ویکون منتہی بصرہ إلی موضع سجودہ إلخ وکذا صرح في الأشباہ أن الخشوع فی الصلاۃ مستحب۔ والظاہر من ہذا أن الکراہۃ ہنا تنزیہیۃ فافہم‘‘(۱)
’’قید الزیلعي أیضا الإباحۃ بأن لا یتکلف لدقائق النقش في المحراب فإنہ مکروہ؛ لأنہ یلہی المصلی۔ اہـ۔ قلت فعلی ہذا لا یختص بالمحراب بل في أي محل یکون أمام من یصلی بل أعم منہ وبہ صرح الکمال فقال بکراہۃ التکلف بدقائق النقوش ونحوہا خصوصا فی المحراب‘‘(۲)

(۱) الحصکفي، ردالمحتار مع الدر المختار، ج۲، ص: ۷۳۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، فروع أفضل المساجد، ج۱، ص: ۶۵۸۔
(۲) علي حیدر خواجہ أمین آفتندي، درر الحکام، ’’مکروہات الصلاۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۱۱۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص174

 

Divorce & Separation

Ref. No. 1044 Alif

In the name of Allah the Most Gracious the Most Merciful

The answer to your question is as follows:

If there was no condition in Talaqnama that the Talaq will take place only when she would receive it then 3 Talaqs have taken place at the moment you wrote Talaqnama and Iddat started from same time. In this case it is not necessary for her to receive the Talaqnama. Since the Talaq is imposed on her, you are no longer husband and wife. Hence you must keep away from her and she has to complete her Iddat in seclusion. (Same is mentioned in Shami)

And Allah knows best

 

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband