طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:مذکورہ پانی ناپاک ہے، اس کے کپڑے ناپاک ہوگئے  ان کو نکالنا اور دھونا ضروری ہے۔(۱)

(۱)لعاب الفیل نجس کلعاب الفھد والأسد إذا أصاب الثوب بخرطومہ، نجسہ۔ (فتاویٰ قاضی خاں مع الہندیۃ کتاب الطھارۃ، فصل في النجاسۃ التي تصیب الثوب أو البدن أو الأرض (الجزء السابع، الجزء الأول لقاضی خاں، ص:۱۴)؛  و سؤر الکلب والخنزیر و سباع البھائم نجس، کذا في الکنز۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، کتاب الطہارۃ، الفصل الثاني، فیما لا یجوز بہ التوضؤ، ج۱، ص:۷۶)، و سؤر خنزیر و کلب و سباع بھائم… نجس، قولہ: (و سباع بھائم) ھي ماکان یصطاد بنابہ کالأسد والذئب والفھد والنمر والثعلب والفیل والضبع و أشباہ ذلک (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطھارۃ، مطلب في السؤر،ج۱، ص:۳۸۲)؛ و سؤر الفیل والخنزیر والکلب والأسد والذئب والنمر نجس۔ (سراج الدین محمد، فتاویٰ سراجیہ، کتاب الطہارۃ، باب الآسار، ج۱، ص:۵۰)
 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص432

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: قرآن کے مخلوق ہونے کا عقیدہ رکھنے کی وجہ سے امامت اس کی مکروہ تحریمی ہے۔(۱)

(۱) الاقتداء بأہل الأہواء جائز إلا الجہیۃ والقدریۃ والروافض الغالیۃ والقائل بخلق القرآن والخطابیۃ والمشبہۃ وجملتہ أن من کان من أہل قبلتنا ولم یغل حتی لم یحکم بکفرہ تجوز الصلاۃ خلفہ۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۳۶۰، زکریا دیوبند)
قال المرغیناني: تجوز الصلاۃ خلف صاحب ہوی وبدعۃ ولا تجوز خلف الرافضي والجہمي والقدري والمشبہۃ ومن یقول بخلق القرآن، وحاصلہ إن کان ہوی لا یکفر بہ صاحبہ تجوز الصلاۃ خلفہ مع الکراہۃ وإلا فلا، ہکذا في التبیین والخلاصۃ وہو الصحیح۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماما لغیرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۱)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص127

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر نابینا آدمی اچھا پڑھا لکھا ہو اور نجاست وطہارت کے مسائل میں محتاط ہو تو اس کی امامت بینا کی موجودگی میں بھی درست ہے۔(۲)

(۲)وفیہ من الفقہ أجازہ إمامۃ الأعمیٰ ولا أعلمہم یختلفون فیہ۔ (حافظ ابن عبد البر، الاستذکار، ’’ ‘‘: ج ۲، ص: ۳۶۱)
دخلنا علی جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہما، وہو أعمی فجاء وقت الصلاۃ فقام في نساجۃ ملتحفا کلما وضعہا علی منکبیہ رجع طرفاہا إلیہ من صغرہا ورداؤہ إلی جنبہ علی المخشب فصلی بنا۔ (أخرجہ ابن أبي شیبۃ في مصنفہ، ج ۲، ص: ۲۱۳)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص225

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:اذان کے بعد بغیر ضرورت شرعیہ یا بغیر ضرورت شدیدہ مسجد سے بغیر جماعت سے نماز پڑھے یا قبل از وقت اپنی جماعت کرکے چلا جانا درست نہیں(۲) ضرورت شرعیہ مثلاً دوسری مسجد میں نماز پڑھانی ہو اور ضرورت شدیدہ مثلاً کوئی سفر ہو اور ٹرین چھوٹنے کا خطرہ ہو جس سے کوئی نقصان لازم آئے ایسی صورت میں گنجائش ہے۔ اس پر جماعت تبلیغ کو قیاس کیا جائے کہ ان کے لیے جانا کیا ان دونوں مسئلوں میں سے تھا؟ عذر کی وجہ سے اگر اصل جماعت سے پہلے جماعت کی جائے تو وہ مسجد شرعی اور اس کی چھت سے علا حدہ کسی جگہ کی جائے، مسجد یا اس کی چھت پر جماعت مکروہ ہے۔(۱)

(۲) وکرہ تحریما للنھي خروج من لم یصل من سجد أذن فیہ إلا لمن ینتظم بہ أمر جماعۃ أخری أو کان الخروج لمسجد حیۃ ولم یصلوا فیہ أو لأستاذہ لدرسہ أو لسماع الوعظ۔ (ابن عابدین، در المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب إدراک الفریضۃ‘‘: مطلب في کراہۃ الخروج من المسجد بعد الأذان، ج ۲، ص: ۵۰۷-۵۰۸)
(۱) ویکرہ تکرار الجماعۃ بأذان وإقامۃ في مسجد محلۃ لا في مسجد طریق أو مسجد لا إمام لہ ولا مؤذن … ولنا أنہ علیہ الصلاۃ والسلام کان خرج لیصلح بین قوم فعاد إلی المسجد وقد صلی أہل المسجد فرجع إلی منزلہ فجمع أہلہ وصلی ولو جاز ذلک لما اختار الصلاۃ في بیتہ علی الجماعۃ في المسجد‘‘ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ‘‘: مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد، ج ۲، ص: ۲۸۸، ۲۸۹)
قولہ: إذا أقیمت فیکرہ لمن صلی وحدہ الخروج إلا لمقیم جماعۃ أخری فلا یکرہ لہ الخروج عندہما کما في صدر الشریعۃ والحموي عن البرجندي۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب إدراک الفریضۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۵۸)
أن تکرار الجماعۃ في مسجد واحد مکروہ، قال في شرح الدرر والغرر وفي الکافي ولا تکرر جماعۃ وقال الشافعي رحمہ اللّٰہ: یجوز کما في المسجد الذي علی قارعۃ الطریق، لنا إنا أمرنا بتکثیر الجماعۃ وفي تکرار الجماعۃ في مسجد واحد تقلیلہا؛ لأنہم إذا عرفوا أنہم تفوتہم الجماعۃ یتعجلون للحضور فتکثر الجماعۃ، وفي المفتاح إذا دخل القوم مسجدا قد صلی فیہ أہلہ کرہ جماعۃ بأذان وإقامۃ ولکنہم یصلون وحدانا بغیر أذان ولا إقامۃ؛ لأن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم خرج لیصلح بین الأنصار فاستخلف عبد الرحمن بن عوف رضي اللّٰہ تعالٰی عنہ فرجع بعدما صلی فدخل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بیتہ وجمع أہلہ فصلی بہم بأذان وإقامۃ، فلو کان یجوز إعادۃ الجماعۃ في المسجد لما ترک الصلاۃ فیہ والصلاۃ فیہ أفضل۔ (ابن نجیم، البحر الرائق: ’’کتاب الصلاۃ، سنن الفرائض، إجابۃ المؤذن‘‘: ج ۱، ص: ۲۷۳)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص233

نکاح و شادی

Ref. No. 2793/45-4364

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر سوال کا مقصد یہ ہے کہ آپ کے بڑے بھائی نے آپ کی دادی کا دودھ پیا ہے تو آپ کی پھوپی اوروالد تو بڑے بھائی کے رضاعی بہن بھائی ہو گئے، لیکن آپ کا رضاعت کا رشتہ نہیں اس لئے آپ اپنی پھوپی زاد بہن سے نکاح کر سکتے ہیں۔

واحل لکم ما وراء ذلکم‘‘ (القرآن الکریم)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 37 / 1044

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ہاں اداکرسکتے ہیں۔ ہدایہ ج١ص ۸٦۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Games and Entertainment

Ref. No. 38 / 1144

In the name of Allah the most gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Cinemas and movie theaters are the center of evil acts. Hence it is not allowed to work there and cooperate on unlawful activities. So working there as a watchman is also not permissible.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 39 / 967

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر بجنور میں اپنا کچھ بھی نہیں ہے اور بجنور کو مستقل وطن کی حیثیت سے چھوڑدیا ہے اور مستقل طور پر دہلی میں رہائش اختیار کرلی ہے تو بجنور میں قصرکریں گے، اور اگر یہاں بھی گھر ہے اور تمام انتظامات ہیں یعنی بجنور کو وطن اصلی کی حیثیت سے باقی رکھا ہے تو پھر بجنور میں آنے کے بعد پوری نماز پڑھیں گے ، قصر کرنا جائز نہ ہوگا۔ وطن اصلی متعدد ہوسکتے ہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

زکوۃ / صدقہ و فطرہ

Ref. No. 40/821

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شرعی تملیک کے بغیر زکوۃ کی رقم   کسی عمارت میں صرف کرنا جائز نہیں ہے۔ رفاہ عام میں زکوۃ کی رقم لگانے سے زکوۃ ادا نہیں ہوگی۔زکوۃ کی رقم کسی مستحق کی ملکیت میں جانی ضروری ہے۔  اگر کسی جگہ عمارت کے لئے ضرورت ہو تو کسی مستحق کو زکوۃ دیدی جائے  اور اسکو مکمل اختیار دیدیا جائے اور پھراس کودینی مدرسہ کے لئے بطور چندہ رقم  دینے کی ترغیب دی جائے  ۔ وہ بلا کسی  دباؤ کے اپنی مرضی اور خوشی  سے جس قدر دیدے اس مقدار کو مسجد و دینی مدرسہ کی عمارت میں لگانے کی اجازت ہوگی۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 886/41-1130

الجواب وباللہ التوفیق      

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ایک مسلمان کے انتقال پر جس طرح غم اور افسوس کا اظہار ہوتا ہے، اسی طرح کاکسی مسلمان فلمی اداکار کے انتقال پربحیثیت مسلمان  اظہارافسوس کرنا درست  ہے،

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند