طلاق و تفریق

Ref. No. 2628/45-4002

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   بشرط صحت سوال اگر نکاح کے بعد شوہر و بیوی کی ملاقات نہیں ہوئی اور خلوت صحیحہ بھی نہیں ہوئی اور شوہر نے اپنی بیوی کو طلاق دیدی تو صورت مسئولہ میں ایک طلاق بائن واقع ہوئی۔ اگر دونوں دوبارہ نکاح کرکے رہنا چاہیں تو عدت کے اندر بھی نکاح کرسکتے ہیں ، البتہ آئندہ شوہر کو صرف دو طلاقوں کا اختیار ہوگا۔

" وإذا طلق الرجل امرأته ثلاثا قبل الدخول بها وقعن عليها " لأن الوقاع مصدر محذوف لأن معناه طلاقا بائنا على ما بيناه فلم يكن قوله أنت طالق إيقاعا على حدة فيقعن جملة فإن فرق الطلاق بانت بالأولى ولم تقع الثانية والثالثة " وذلك مثل أن يقول أنت طالق طالق طالق لأن كل واحدة إيقاع على حدة إذا لم يذكر في آخر كلامه ما يغير صدره۔ (الھدایۃ: (233/1، ط: دار احیاء التراث العربی)

إذا كان الطلاق بائنا دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها۔۔۔الخ (الھندیۃ: (473/1، ط: دار الفکر)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق: جب کپڑے کو دھو کر پاک کر لیا جائے، مگر اس کا دھبہ نہ جائے، تب بھی کپڑا پاک ہے اور اس میں نماز پڑھنا صحیح ہے۔(۱)

(۱) و یطھر مني أي محلہ یابس بفرک ولا یضر بقاء أثرہ أي کبقاء ہ بعد الغسل (ابن عابدین، رد المحتار، کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، ج۱، ص:۵۱۴)؛  وفما کان منھا مرئیا فطھارتہ زوال عینھا؛ لأن النجاسۃ حلت المحل بإعتبار العین فتزول بزوالھا إلا أن یبقی من أثرھا ما تشق إزالتہ لأن الحرج مدفوع۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، باب الأنجاس، ج۱، ص:۲۱۰)
و بقاء أثر المني بعد الفرک لا یضر کبقائہ بعد الغسل۔ ھکذا في ’’الزاھدي‘‘ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، الباب السابع في النجاسۃو أحکامھا، الفصل الأول، منھا الفرک في المني، ج۱، ص:۹۸)


 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص436

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: امام صاحب کا مذکورہ فعل غلط ہے، اس طرح کی بدعات سے اجتناب لازم ہے اور جو کیا اس پر توبہ اور استغفار لازم ہے، امامت اس کی درست ہے، تاہم اگر بدعات وخرافات میں مبتلا ہے تو اس کی امامت مکروہ ہے۔(۱)

(۱) قال الحصکفي: ویکرہ إمامۃ العبد … ومبتدع، أي: صاحب بدعۃ، وہي اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول۔۔۔۔ لایکفر بہا۔۔۔۔ وإن کفر بہا، فلا یصح الاقتداء بہ أصلا۔
قال ابن عابدین: قولہ: وہي اعتقاد الخ) عزا ہذا التعریف فی ہامش الخزائن إلی الحافظ ابن حجر فی شرح النخبۃ، ولا یخفی أن الاعتقاد) یشمل ماکان معہ عمل أو لا؛ فإن من تدین بعمل لا بد أن یعتقدہ … الخ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۹)
ویکرہ) … (ومبتدع) أي صاحب بدعۃ وہي اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول لا بمعاندۃ بل بنوع شبہۃ وکل من کان) من قبلتنا (لا یکفر بہا) حتی الخوارج الذین یستحلون دماء نا وأموالنا وسب الرسول، وینکرون صفاتہ تعالی وجواز رؤیتہ لکونہ عن تأویل وشبہۃ بدلیل قبول شہادتہم، إلا الخطابیۃ ومنا من کفرہم (وإن) أنکر بعض ما علم من الدین ضرورۃ (کفر بہا) کقولہ إن اللہ تعالی جسم کالأجسام وإنکارہ صحبۃ الصدیق (فلا یصح الاقتداء بہ أصلا) فلیحفظ۔
(قولہ: وہی اعتقاد إلخ) عزا ہذا التعریف في ہامش الخزائن إلی الحافظ ابن حجر في شرح النخبۃ، ولا یخفی أن الاعتقاد) یشمل ماکان معہ عمل أو لا، فإن من تدین یعقل لا بد أن یعتقدۃ کمسح الشیعۃ علی الرجلین وإنکارہم المسح علی الخفین وذلک، وحینئذ فیساوي تعریف الشمني لہا بأنہا ما أحدث علی خلاف الحق المتلقي عن رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ من علم أو عمل أو حال بنوع شبہۃ واستحسان، وجعل دینا قویما وصراطا مستقیما اہـ فافہم۔ (أیضًا:  ص: ۲۹۹)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص134

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: مذکورہ شخص امامت کے تقاضے پورا کرتا ہے تو اس کی امامت درست ہے صرف ہاتھ کی کچھ انگلیوں کا نہ ہونا، پیر کا کٹا ہوا ہوناامامت کی صحت کے لیے مضر نہیں، امامت بلا کراہت صحیح ہے۔(۱)

(۱) ولو کان قادرا علی بعض القیام دون تمامہ یؤمر بأن یقوم قدر ما یقدر … ولو قدر علی القیام متکئا، الصحیح أنہ یصلي قائما متکئا ولا یجزیہ غیر ذلک وکذلک لو قدر علی أن یعتمد علی عصا أو علی خادم لہ فإنہ یقوم ویتکئ، کذا في التبیین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الرابع: في صلاۃ المریض‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۶، زکریا دیوبند)
قید بتعذر القیام أي جمیعہ لأنہ لو قدر علیہ متکئا أو متعمداً علی عصاً أو حائط لا یجزئہ إلا کذلک خصوصا علی قولہما فإنہما یجعلان قدرۃ الغیر قدرۃ لہ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المریض‘‘: ج ۲، ص: ۱۹۸، زکریا دیوبند)
(برکوع وسجود وإن قدر علی بعض القیام) ولو متکئا علی عصا أو حائط (قام) لزوماً۔ (الحصکفي،  رد المحتارمع الدرالمختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ المریض‘‘: ج ۲، ص: ۵۶۷، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص230

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:عصر ومغرب کے درمیان تغیر شمس سے قبل سجدہ تلاوت، نماز جنازہ، فرض اور وتر کی قضاء جائز ہے، نوافل وسنن ممنوع ہیں اور تغیر شمس کے وقت یہ سب چیز یں ممنوع ہیں۔
’’تسعۃ أوقات یکرہ فیہا النوافل وما في معناہا لا الفرائض۔ ہکذا في النہایۃ والکفایۃ فیجوز فیہا قضاء الفائتۃ وصلاۃ الجنازۃ وسجدۃ التلاوۃ۔ کذا في فتاوی قاضي خان۔ومنہا ما بعد صلاۃ العصر قبل التغیر۔ ہکذا في النہایۃ‘‘(۱)
’’ثلاث ساعات لا تجوز فیہا المکتوبۃ ولا صلاۃ الجنازۃ ولا سجدۃ التلاوۃ إذا طلعت الشمس حتی ترتفع وعند الانتصاف إلی أن تزول وعند إحمرارہا إلی أن تغیب إلا عصر یومہ ذلک فإنہ یجوز أداؤہ عند الغروب‘‘(۲)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الأول: في المواقیت وما یتصل بہا‘‘: الفصل الثالث في بیان الأوقات التي لا تجوز فیہا الصلاۃ وتکرہ فیہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۹۔     (۲)  أیضاً، ص: ۱۰۸۔

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص103

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اذان واقامت میں بھی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نامی اسم گرامی آئے تو بھی درود شریف پڑھنا چاہئے یعنی صلی اللہ علیہ وسلم کہنا چاہئے؛ لیکن اگر کوئی اذان کا جواب دے رہا ہو تو اس کو ’’أشہد أن محمد رسول اللّٰہ‘‘ کے جواب میں صرف یہ ہی جملہ کہنا چاہئے اذان کے بعد دعاء اور اس کے بعد درود شریف پڑھنی چاہئے۔(۳)

(۳) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا سمعتم المؤذن فقولوا مثل ما یقول ثم صلوا علی فإنہ من صلی علي صلاۃ صلی اللّٰہ علیہ بہا عشرا ثم سلوا اللّٰہ لي الوسیلۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان، مطلب في کراہۃ الجماعۃ في المساجد‘‘: ج ۲، ص: ۶۹)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص239

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مرد کا ستر ناف سے لے کر گھٹنے تک ہے نماز میں اس کا چھپانا فرض ہے، لیکن مذکورہ صورت میں راجح قول کے مطابق نماز فاسد نہیں ہوئی۔(۲)

(۲) انکشاف ما دون الربع معفو إذا کان في عضو واحد وإن کان في عضوین أو أکثر وجمع وبلغ ربع أدنیٰ عضو منہا یمنع جواز الصلاۃ، کذا في شرح المجمع لابن الملک۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۵)
والرکبۃ إلی آخر الفخذ عضو واحد، حتی لو صلی والرکبتان مکشوفتان والفخذ مغطی، جازت صلاتہ، وہو الأصح، ہکذا في التجنیس۔ (أیضاً: ج ۱، ص: ۱۱۶)
وفي الظہیریۃ حکم العورۃ في الرکبۃ أخف منہ في الفخذ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث في شروط الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۸۲، زکریا دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص72

 

Usury / Insurance

Ref. No. 2845/45-4479

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Only the money (6 lakh) you invested in the insurance plan is yours. The additional amount (5 lakh) you got is the interest amount, which is not Halal for you. The Interest amount must be given to the poor without the intention of reward.

﴿ يَآ أَيُّهَا الَّذِينَ اٰمَنُوآ اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُون﴾ [المائدة: 90]

" عَنْ عَمْرِو بْنِ يَثْرِبِيٍّ، قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «لَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ مِنْ مَالِ أَخِيهِ شَيْءٌ إِلَّا بِطِيبِ نَفْسٍ مِنْهُ»". (شرح معانی الآثار،(2/313 ، کتاب الکراهة، ط: حقانيه)

 

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 1269

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                           

بسم اللہ الرحمن الرحیم-:  لڑکے پر ماں باپ کی فرمانبرداری اور خدمت واجب ہے، اگر اس نے اس میں کوتاہی کی تو اس کا وبال اسی پر ہوگا،  اور ایسا شخص انتہائی خسارہ میں ہے جو اپنے بوڑھے اورمحتاج والدین کی خدمت کرکے جنت  پانے کی کوشش نہ کرے۔ تاہم والد کا اپنی اولاد میں سے کسی کو محروم کرنا کہ مرنے کے بعد اس کو کوئی حصہ نہ  ملے خلاف شرع ہے۔  والد کا خوش ہوکر کسی ایک بیٹے کو کچھ دیدینا درست ہے لیکن کل جائداد تقسیم کردینا اور ایک بیٹے کو بالکل محروم کردینا درست نہیں ہے۔ باپ کے انتقال کے بعد کل جائداد  تقسیم کی جائے گی اور کسی بھی لڑکے کو محروم نہیں کیا جائے گا۔   

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Slaughtering / Qurbani & Aqeeqah

Ref. No. 37 / 1058

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is follows:

Yes, you can donate the amount (of Nafli Sadaqah) in Masjid too.

And Allah knows best

 

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband