نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بشرط صحت سوال اگر امام صاحب کے عقائد شرکیہ اور کفریہ نہ ہوں تو تنہا نماز پڑھنے سے بہتر ہے کہ آپ اسی امام صاحب کے پیچھے نماز ادا کریں ؛البتہ فقہاء نے بدعتی امام کے پیچھے نماز پڑھنے کو مکروہ لکھا ہے؛ لیکن بدعتی کے پیچھے پڑھی گئی نماز ہو جائے گی آپ کو جماعت کا ثواب بھی ملے گا۔
’’قال الحصکفي: ویکرہ تنزیہاً إمامۃ مبتدع لا یکفر بہا، وإن کفر بہا فلا یصح الاقتداء بہ أصلا … وقال: صلی خلف فاسق أو مبتدع، نال فضل الجماعۃ، قال ابن عابدین: قولہ: ’’نال فضل الجماعۃ‘‘ أفاد أن الصلاۃ خلفہما أولٰی من الإنفراد‘‘(۱)
’’(قولہ: وہي اعتقادالخ) عزا ہذا التعریف في ہامش الخزائن إلی الحافظ ابن حجر في شرح النخبۃ، ولایخفی أن الاعتقاد یشمل ما کان معہ عمل أو لا؛ فإن من تدین بعمل لا بد أن یعتقدہ … الخ‘‘(۲)

(۱) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۶، ۲۹۸۔
(۲) أیضًا: ص: ۲۹۴۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص133

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: کھڑے ہوکر سہارا لگاکر نماز پڑھانا درست نہیں ہے البتہ عذر کی صورت میں درست ہے؛ اس لیے بہتر ہے کہ امامت کے لیے دوسرا متبادل نظم کیا جائے بدرجۂ مجبوری مذکورہ شخص امامت کراسکتا ہے۔(۱)

(۱) (وللمتطوع الاتکاء علی شيء) کعصا وجدار (مع الإعیاء) أي التعب بلا کراہۃ وبدونہ یکرہ (و) لہ (القعود) بلا کراہۃ مطلقا ہو الأصح … (قولہ وبدونہ یکرہ) أي اتفاقا لما فیہ من إسائۃ الأدب … وظاہرہ أنہ لیس فیہ نہي خاص فتکون الکراہۃ تنزیہیۃ تأمل (قولہ ولہ القعود) أي بعد الافتتاح قائما (قولہ بلا کراہۃ مطلقا) أي بعذر ودونہ؛ أما مع العذر فاتفاقا، وأما بدونہ فیکرہ عند الإمام علی اختیار صاحب الہدایۃ، ولا یکرہ علی اختیار فخر الإسلام وہو الأصح لأنہ مخیر في الابتداء بین القیام والقعود فکذا في الانتہاء وأما الاتکاء فإنہ لم یخیر فیہ ابتداء بلا عذر بل یکرہ فکذا الانتہاء۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب صلاۃ المریض، مطلب في الصلاۃ في السفینۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۷۲)
ولو قدر علی القیام متکئا، الصحیح أنہ یصلي قائما متکئا ولا یجزیہ غیر ذلک وکذلک لو قدر علی أن یعتمد علی عصا أو علی خادم لہ فإنہ یقوم ویتکئ، کذا في التبیین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الرابع: في صلاۃ المریض‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۶، زکریا دیوبند)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص229

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اصل ضابطہ شرعیہ تو یہی ہے کہ ان تینوں اوقات میں کوئی بھی نماز جائز نہیں، مگر فقہاء نے اس دن کی عصر کی نماز بوقت غروب بھی پڑھنے کی اجازت دی ہے، لیکن اس کی عادت بنا لینا اچھا نہیں ہے، کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو منافق کی نماز قرار دیا ہے۔(۱)
’’(وغروب، إلا عصر یومہ) فلا یکرہ فعلہ لأدائہ کما وجب بخلاف الفجر والأحادیث تعارضت فتساقطت کما بسطہ صدر الشریعۃ (قولہ: وغروب) أراد بہ التغیر کما صرح بہ في الخانیۃ حیث قال عند إحمرار الشمس إلی أن تغیب، (قولہ إلا عصر یومہ) قید بہ لأن عصر أمسہ لا یجوز وقت التغیر لثبوتہ في الذمۃ کاملا الخ وعن أنس رضي اللّٰہ عنہ، قال: سمعت رسول اللّٰہ یقول  تلک صلوٰۃ المنافق یجلس یرقب الشمس حتی إذا کانت بین قرني الشیطان قام ینقر أربعاً لا یذکر اللّٰہ فیہا إلا قلیلاً۔
وعند إحمرارہا إلی أن تغیب إلا عصر یومہ ذلک فإنہ یجوز أداؤہ عند الغروب‘‘(۱)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الأول في المواقیت ومایتصل بہا‘‘: الفصل الثالث: في بیان الأوقات التي لاتجوز فیہا الصلاۃ وتکرہ فیہا، ج ۱، ص: ۱۰۸؛ وابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، مطلب: یشترط العلم بدخول الوقت‘‘: ج۲، ص: ۳۲،۳۳۔

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص102

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: ٹانگوں سے معذور شخص بیٹھ کر اذان دے سکتا ہے، البتہ غیر معذور کے لیے بیٹھ کر اذان دینا مکروہ ہے۔
’’عن الحسن بن محمد قال دخلت علي أبي زید الأنصاري فأذن وأقام وہو جالس إلی عن عطاء بن أبي رباح أنہ قال یکرہ أن یؤذن قاعدا إلا من عذر‘‘(۱)
’’ویکرہ أذان جنب وإقامۃ محدث لا أذانہ وأذان إمرأۃ وفاسق وقاعد إلا إذا أذن لنفسہ‘‘(۲)

(۱) السنن الکبیري للبیہقي: ج ۲، ص: ۱۴۱، رقم: ۱۸۸۳، دار الفکر؛ المصنف لابن أبي شیبۃ، في مصنفہ، ج ۲، ص: ۳۴۱؛
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان: مطلب في المؤذن إذا کان غیر محتسب في أذانہ‘‘: ج ۲، ص: ۶۰، زکریا۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص238

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: یہ نماز فاسد ہوگئی پھر کسی دوسرے کو امام بنا کر نماز ادا کرنی چاہئے۔(۱)

(۱) وکذلک لو مات الإمام استقبل القوم الصلاۃ بإمام آخر لأن عملہ انقطع بموتہ قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا مات ابن آدم انقطع عملہ إلا من ثلاث، وہذا لیس من جملتہا، والبناء علی المنقطع غیر ممکن فلہذا استقبلوا۔ (السرخسي، المبسوط، ’’باب الوضوء والغسل‘‘: ج ۱، ص: ۸۹، بیروت، لبنان)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص72

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 2844/45-4480

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حیض کی حالت میں قرآن کریم کی تلاوت حرام ہے، منزل میں قرآن       کریم کی سورتیں  اور آیتیں  ہیں  اس لئے ان کو پڑھنا جائز نہیں  ہے۔ اگر کبھی  گھبراہٹ ہوتو کوئی دوسرا ان سورتوں کو پڑھکر اس لڑکی پر دم  کرسکتاہے۔
اگر ہوم ورک میں صرف قرآنی آیت لکھ رہی ہو تواسے چھوتے ہوئے ناپاکی کی حالت میں قرآن کریم لکھنا ممنوع ہے،  لیکن اگرکچھ عربی کے الفاظ ہوں اور انکا ترجمہ لکھاجائے یاجملہ بنایا جائے توقرآنی آیت کوہاتھ نہ لگائے توقلم سےلکھنے  کی گنجائش ہوگی۔

"(ومنها) حرمة مس المصحف، لايجوز لهما وللجنب والمحدث مس المصحف إلا بغلاف متجاف عنه كالخريطة والجلد الغير المشرز، لا بما هو متصل به، هو الصحيح. هكذا في الهداية، وعليه الفتوى. كذا في الجوهرة النيرة.

والصحيح منع مس حواشي المصحف والبياض الذي لا كتابة عليه. هكذا في التبيين.

واختلفوا في مس المصحف بما عدا أعضاء الطهارة وبما غسل من الأعضاء قبل إكمال الوضوء، والمنع أصح. كذا في الزاهدي، ولايجوز لهم مس المصحف بالثياب التي هم لابسوها، ويكره لهم مس كتب التفسير والفقه والسنن، ولا بأس بمسها بالكم. هكذا في التبيين" (الفتاوى الهندية (1/ 38)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 848 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

نماز میں شرکت کے لئے عورتوں کا مسجد میں آنا ممنوع ہے۔ عن النبی ﷺ قال : صلوٰۃ المرءۃ فی بیتہا افضل من صلوٰتھا فی حجرتہا وصلوتہا فی مخدعہاافضل من صلوتہا فی بیتہا۔ (ابوداؤد شریف ج1 ص81)۔

والفتوی الیوم علی الکراھۃ فی کل الصلوات لظہور الفساد۔ (ہندیہ ج1 ص89)

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Hajj & Umrah

Ref. No. 1268 Alif

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as it follows:

Shawwal and Zi-qada are the month of Hajj, but performing Umrah or visiting Makkah in these months doesn’t make the Hajj obligatory upon him if he doesn’t have capacity to fulfill the Hajj. Moreover, performing hajj is obligatory only once in a lifetime. Likewise, if he returns home after performing Umrah, and then goes for Hajj the same year, it will not be Hajj e Tamattu owing to the previous Umrah, but it is hajj e Ifrad (without Umrah). For Hajje Tamattu, it is compulsory to perform Hajj and Umrah both in one journey.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

Usury / Insurance

Ref. No. 37 / 1051

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is follows:

Exchanging old coins and getting more money than the original value in return is unlawful.

And Allah knows best

 

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

متفرقات

Ref. No. 38 / 1147

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  دعاء کے لئے نہ تو کوئی وقت متعین ہے اور نہ ہی ممنوع ہے۔ ادعوا ربکم تضرعا وخفیۃ سے معلوم ہوا کہ ہاتھ اٹھاکر دعاء مانگناتضرع کی ایک شکل ہے اس لئے اس کی بھی ممانعت نہیں، البتہ لازم  نہ سمجھنا چاہئے  اور دعاء کے آداب کو ملحوظ رکھنا چاہئے۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند