نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق:  صورت مذکورہ میں ممکن ہے کہ وہ حروف ادا ہوتے ہوں؛ لیکن مقتدی تک آواز نہ پہونچتی ہوجس کی وجہ سے مقتدی کو لگتاہو کہ وہ حروف کٹ جاتے ہیں۔ اگر نماز میں کھانسی آجائے جس کی وجہ سے حروف مکمل ادا نہ ہوتے ہوں توان حروف کو دوبارہ ادا کرنا چاہیے تاکہ مقتدی حضرات کو کسی قسم کا اعتراض نہ ہواورنماز میں کسی قسم کے فساد کا اندیشہ نہ رہے۔ اگر امام نے اعادہ نہیں کیا اور حروف کے چھوٹنے کی وجہ سے معنی میں کوئی تغیر نہیں ہوا تو نماز درست ہوجاتی ہے؛ لیکن بسا اوقات بعض حروف کے چھوٹنے کی وجہ سے معنی میں ایسا تغیر آتاہے کہ نماز فاسد ہوجاتی ہے اس لیے امام صاحب کو چاہیے کہ کھانسی کا علاج کرائیں تاکہ نماز میں بار بار کھانسی کی وجہ سے لوگوں کو دشواری نہ ہو اور جب تک ٹھیک نہیں ہوتے ہیں۔ کھانسنے پر جو آیات چھوٹ رہی ہیں ان کا اعادہ کرلیا جائے۔ بہتر ہے کہ مقامی کسی مفتی کو امام کے پیچھے نماز پڑھا کر ان کی رائے معلوم کرلی جائے۔
’’قال في الہندیۃ: ومنہا حذف حرف … إن لم یکن علی وجہ الایجاز والترخیم۔ فإن کان لا یغیر المعنی لا تفسد صلاتہ، نحو أن یقرأ: وَلَقَدْ جَآئَتْہُمْ رُسُلُنَا بِالبَیِّنَاتِ بترک التاء من جاء ت وإن غیر المعنی تفسد صلاتہ عند عامۃ المشایخ نحو أن یقرأ: فما لہم لا یؤمنون في لا یؤمنون بترک لا‘‘(۱)
’’وفي الشامي: لو انتقل في الرکعۃ الواحدۃ من آیۃ الی آیۃ یکرہ وإن کان بینہما آیات بلا ضرورۃ فإن سہا ثم تذکر یعود مراعاۃ لترتیب الآیات‘‘(۲)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع، في صفۃ الصلاۃ، الصلاۃ، الفصل الخامس، في زلۃ القاري‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۷، زکریا دیوبند۔)
(۲) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب الإستماع للقرآن فرض کفایۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۶۹،زکریا۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص281

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: بیٹھ کر نفل پڑھنے میں جب رکوع کیا جائے تو سرین کو پیروں سے جدا نہ کیا جائے یعنی اٹھایا نہ جائے؛ بلکہ رکوع کے لیے کمر کو جھکایا جائے یہ مسنون ہے۔(۱)

(۱) ویجعل السجود أخفص من الرکوع، کذا في فتاویٰ قاضي خان حتی لو سوی لم یصح۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ج ۱، ص: ۱۹۶)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص399

اسلامی عقائد

Red. No. 39 / 980

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ،أَنَّىٰ يَكُونُ لَهُ وَلَدٌ وَلَمْ تَكُن لَّهُ صَاحِبَةٌ، وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ ،وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (سورہ الانعام آیت 101)،  اس آیت کریمہ میں اللہ سبحانہ وتعالی کے لئے اولاد اور بیوی کی واضح نفی کی گئی ہے۔ فلیتدبر

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

زکوۃ / صدقہ و فطرہ

Ref. No. 40/

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جو زمین بنیت تجارت خریدی گئی ہے، اس پر ہر سال بازارمیں قیمت  فروخت کے اعتبار سے زکوۃ واجب ہوگی۔ گزشتہ تین سالوں کا اگر علم نہیں ہے تو آج کی قیمت معلوم کرکے گذشتہ تینوں سالوں کی زکوۃ اسی حساب سے نکالیں ۔ آس پاس کی زمینوں سے بازاری قیمت بآسانی معلوم کی جاسکتی ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 921/41-52B

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سنت مؤکدہ کو کھڑے ہوکر پڑھنا افضل اور مستحب ہے اور بلاعذر بیٹھ کر پڑھنا بھی جائز ہے۔ البتہ بعض فقہاء نے سنت فجر کو مستثنی کیا ہے ، یعنی فجر کی سنت بلاعذر کے بیٹھ کر پڑھنا درست نہیں ہے۔

"يجوز النفل" إنما عبر به ليشمل السنن المؤكدة وغيرها فتصح إذا صلاها "قاعدا مع القدرة على القيام" وقد حكي فيه إجماع العلماء وعلى غير المعتمد يقال إلا سنة الفجر لما قيل بوجوبها وقوة تأكدها إلا التراويح على غير الصحيح لأن الأصح جوازه قاعدا من غير عذر فلا يستثنى من جواز النفل جالسا بلا عذر شيء على الصحيح (مراقی الفلاح 1/403)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 972/41-116

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اس اجارہ  میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ جتنی صدری فروخت ہوگی اسی قدر فائدہ متعین ہے، اور اس میں کسی قسم کے نزاع کا اندیشہ بھی نہیں ہے، اس لئے ایسا معاملہ کرنا جائز ہے۔ اللہ برکتیں نازل  فرمائیں  گے ان شاء اللہ۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نکاح و شادی

Ref. No. 2010/44-1966

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صرف لفظ مذکور کے کہنے سے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ طلاق کے لئے اس لفظ کو قائم مقام نہیں بنایاجاسکتاہے۔ بیوی کی طرف صراحۃً یا دلالۃً نسبت کیے بغیر طلاق دینے سے طلاق واقع نہیں ہوتی ۔

   لكن لا بد في وقوعه قضاءً وديانةً من قصد إضافة لفظ الطلاق إليها‘‘. (فتاوی شامی 3/250، کتاب الطلاق، ط؛ سعید)

ولو أقر بطلاق زوجته ظاناً الوقوع بإفتاء المفتي فتبين عدمه لم يقع، كما في القنية. قوله: ولو أقر بطلاق زوجته ظاناً الوقوع إلى قوله لم يقع إلخ. أي ديانةً، أما قضاء فيقع ،كما في القنية؛ لإقراره به۔ (غمز عيون البصائر في شرح الأشباه والنظائر (1/ 461)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 2106/44-2225

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ تراویح میں قرآن سناکراجرت لینا ناجائز ہے، اس لئے کہ عبادت پر اجرت نہیں لی جاتی ہے، اس لئے آپ کا اجرت کے طور پر رقم لینا جائز نہیں ہے۔ آپ مسجد کمیٹی کو پیسہ واپس کردیں،۔ ہاں اگر باضابطہ اجرت کا معاملہ طے نہیں ہوا تھا  اور نہ ہی اجرت لینے کی کوئی نیت تھی پھر کسی نے کچھ ہدیہ کردیا تو اس کا لینا اور استعمال کرنا درست ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 2327/44-3490

بشرط صحت سوال صورت مذکورہ میں اگر  مقروض کے وارثین قرض  کے بارے میں علم رکھتے ہیں مگر ادائیگی کے لئے تیار نہیں ہیں، یا یہ کہ وہ قسم کھانے  سے انکار کریں تو آپ کے لئے مرحوم کی اس زمین کو بیچ کر اپنا قرض وصول کرنے کی اجازت ہے، اسی طرح مارکیٹ ریٹ کے اعتبار سے مرحوم کے وارثین کو زمین کی رقم دیدینا بھی کافی ہے، البتہ وارثین کو اس زمین کے بارے میں پوری اطلاع دینا ضروری ہے تاکہ اگر وہ زمین رکھنا چاہیں تو آپ کا قرض ادا کرکے زمین اپنے پاس رکھ لیں یا اس زمین کو بیچنے پر راضی ہوجائیں۔ 

كذا إذا ادعى دينا أو عينا على وارث إذا علم القاضي كونه ميراثا أو أقر به المدعي أو برهن الخصم عليه) فيحلف على العلم.

)الدر المختار: (553/5، ط: دار الفکر(

ولو أن رجلا قدم رجلا إلى القاضي وقال: إن أبا هذا قد مات ولي عليه ألف درهم دين فإنه ينبغي للقاضي أن يسأل المدعى عليه هل مات أبوه؟ ولا يأمره بجواب دعوى المدعي أولا فبعد ذلك المسألة على وجهين: إما أن أقر الابن فقال: نعم مات أبي، أو أنكر موت الأب فإن أقر وقال: نعم مات أبي؛ سأله القاضي عن دعوى الرجل على أبيه فإن أقر له بالدين على أبيه يستوفى الدين من نصيبه، ولو أنكر فأقام المدعي بينة على ذلك قبلت بينته وقضي بالدين ويستوفى الدين من جميع التركة لا من نصيب هذا الوارث خاصة.۔۔۔۔وإن لم تكن للمدعي بينة وأراد استحلاف هذا الوارث يستحلف على العلم عند علمائنا - رحمهم الله تعالى - بالله ما تعلم أن لهذا على أبيك هذا المال الذي ادعى وهو ألف درهم ولا شيء منه.فإن حلف انتهى الأمر وإن نكل يستوفى الدين من نصيبه۔

)الفتاوی الھندیۃ: (407/3، ط: دار الفکر(

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ بادشاہ کو عمدہ اوصاف سے متصف ہونا چاہئے، نرمی کے وقت نرمی، سختی کے وقت سختی کی ضرورت ہے اور عدل وانصاف وغیرہ میں اس کو نمونہ ہونا چاہئے اور بادشاہ کا رعایا کو احترام کرنا چاہئے اور اس کی عزت وتوقیر کو لازم سمجھنا چاہئے، باقی تفصیلات کتب حدیث میں دیکھی جاسکتی ہیں۔(۱)

(۱) وأما الحدیث النبوي (السلطان ظل اللّٰہ فيالأرض یأوي إلیہ کل ضعیف وملہوف) وہذا صحیح، فإن الظل مفتقر إلی آو وہو رفیق لہ مطابق لہ نوعاً من المطابقۃ والآوي إلی الظل المکتنف بالمظل صاحب الظل فالسلطان عبد اللّٰہ مخلوق مفتقر إلیہ لا یستغني عنہ طرفۃ عین، وفیہ من القدرۃ والسلطان والحفظ والنصرۃ وغیر ذلک من معاني السؤدد والصمدیۃ التي بہا قوام الخلق، ما یشبہ أن یکون ظل اللّٰہ في الأرض وہو أقوي الأسباب التي بہا یصلح أمور خلقہ وعبادہ، فإذا صلح ذو السلطان صلحت أمور الناس، وإذا فسد فسدت یحسب فسادہ؛ ولا تفسد من کل وجہ، بل لا بد من مصالح، إذ ہو ظل اللّٰہ، لکن الظل تارۃ یکون کاملاً مانعاً من جمیع الأذي وتارۃ لا یمنع إلا بعض الأذي، وأما إذا عدم الظل فسد الأمر، کعدم سر الربیۃ التي بہا قیام الأمۃ الإنسانیۃ۔ واللّٰہ أعلم۔ (ابن تیمیہ، مجموعۃ الفتاویٰ، ’’کتاب قتال أصل البغي إلی نہایۃ الإقرار‘‘: ج ۱۸، ص: ۳۹)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص124