Frequently Asked Questions
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 2423/44-3656
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جس جگہ سے پیشاب خانہ کی نالی شروع ہوتی ہے وہاں سے اس نالی کا پانی ناپاک شمار ہوگا، اس کی چھینٹیں ناپاک ہوں گی۔ لیکن جو وضوخانہ کی نالی ہے اس میں پاک پانی ہونا غالب گمان ہے اس وجہ سے اس کی چھینٹیں پاک شمار ہوں گی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:چاند یا سورج کے گرہن پر کھانا، پینا بند کرنے وغیرہ کا حکم نہیں ہے(۱)؛ البتہ نوافل اور ذکر اللہ کرنے کا حکم ہے، وہ کرنا چاہئے۔ دیکھنے سے چونکہ نگاہ کمزور ہوتی ہے؛ اس لئے منع کیا جاتا ہے۔ (۲)
(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد، متفق علیہ۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸)
قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ہذہ الآیات التي یرسل اللّٰہ لا تکون موت أحد ولا لحیاتہ ولکن یخوف اللّٰہ بہ عبادہ، فإذا رئیتم شیئاً من ذلک فأفزعوا إلی ذکرہ ودعائہ واستغفارہ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الکسوف: باب الذکر في الکسوف‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۵، رقم: ۱۰۵۹)
(۲) یصلي بالناس من یملک اقامۃ الجمعۃ بیان للمستحب الخ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص523
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 2496/45-3798
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال، صورت مسئولہ میں والد کی وفات کے وقت ان کی اولاد میں سے جو لوگ باحیات تھے، ان کے درمیان ہی وراثت کی تقسیم عمل میں آئے گی، اور جس بیٹے کا انتقال ہوگیا تھا اس کا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ چنانچہ مرحوم کی کل جائداد کو 10 حصوں میں تقسیم کریں گے، ہر ایک بیٹے کو دو دو حصے اور ہر ایک بیٹی کو ایک ایک حصہ ملے گا۔ یعنی لڑکوں کو دوہرا اور لڑکیوں کو ااکہرا حصہ ملے گا۔ اور بڑے بھائی کی اولاد یعنی مرحوم کے پوتوں کو وراثت میں سے کوئی حصہ نہیں ملے گا، ان کا حصہ کا مطالبہ کرنا از روئے شرع جائز نہیں ہے، تاہم اگر وراثت میں حصہ پانے والے افراد اپنے حصہ میں سے کچھ نکال کر بطور حسن سلوک اپنے مرحوم بھائی کی اولاد کی مدد کریں اور ان کی ضروریات کا خیال کریں تو بڑے اجرو ثواب کے مستحق ہوں گے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:اگر بچہ مر گیا پھر اس کو نکالا گیا،تو دو سو ڈول پانی نکالا جائے اور اگر زندہ نکل آیا، تو کنواں پاک ہے۔ اگر اس کے بدن کو کوئی نجاست نہ لگی ہو۔(۲)
(۲) ولا ینجس الماء بوقوع آدمي، ولا بوقوع مایؤکل لحمہ کالإبل والبقر والغنم إذا خرج حیا ولم یکن علی بدنہ نجاسۃ۔ (الطحطاوی، حاشیۃ الطحطاوی، کتاب الطہارۃ، فصل في مسائل الآبار،ج۱،ص:۴۱)؛ و کل حیوان سوی الخنزیر والکلب علی ما ذکرہ۔ إذا خرج حیا، من البئر بعد الوقوع والحال أنہ قد أصاب الماء فمہ فأنہ ینظر إن کان سؤرہ طاھراً ولم یعلم أن علیہ نجاسۃ لا ینجس الماء۔ (إبراھیم بن محمد الحلبي، الحلبي الکبیر، فصل في البئر، ص۱۳۹)؛ و إن کان آدمیا و خرج حیا ولم یکن ببدنہ نجاسۃ حقیقیۃ أو حکمیۃ لا ینزح في ظاھر الروایۃ۔ (العینی، البنایۃ۔ کتاب الطہارۃ، فصل في البئر،ج۱، ص۴۵۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص479
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ غسل خانہ یا واش بیسن پر وضو کرتے وقت دعائیہ کلمات پڑھنا درست ہیں؛ لیکن لیٹرین صاف رکھنے کا اہتمام ضرور ی ہے۔(۲)
(۲) و یستحب أن لا یتکلم بکلام مطلقا أما کلام الناس فلکراھتہ حال الکشف، و أما الدعاء فلأنہ في مصب المستعمل و محل الأقذار والأوحال۔ أقول: قد عد التسمیۃ من سنن الغسل فیشکل علی ما ذکرہ تأمل۔ (ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب سنن الغسل،‘‘ ج۱،ص:۲۹۱)؛ و في ’’قاضی خان‘‘ : أنہ یکرہ قراء ۃ القرآن عند الجنازۃ قبل الغسل و حوالی النجاسۃ ولیس ھکذا في الحائض، فإن نجاستھا مستورۃ تحت الثیاب۔ (أنور شاہ الکشمیري، فیض الباري، ’’کتاب الحیض، باب قراء ۃ الرجل، في حجر إمرأتہ وھی حائض،‘‘ ج۱،ص:۴۸۸)
فتاوی ٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص146
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:میوزک سننا یا ٹی وی دیکھنا باعث گناہ ہے؛ لیکن اس سے وضو نہیں ٹوٹتا، اس لیے کہ خروج نجاست ناقض وضو ہے، کسی چیز کا دیکھنا یا سننا یہ ناقض وضو نہیں ہے، اسی وضو سے نماز پڑھ لی یا تلاوت کی تو نماز درست ہو جائے گی اور تلاوت کا ثواب بھی ملے گا؛ البتہ علماء نے بعض صورتوں میں وضو کو مستحب قرار دیا ہے مثلاً گالی دینے یا غیبت کرنے کے بعد وضو کرنا مستحب ہے؛ اس لیے اگر میوزک سننے پا ٹی وی دیکھنے کا گناہ سرزد ہو جائے، تو وضو کرنا مستحب ہے۔
’’ومندوب في نیف وثلاثین موضعاً، ذکرتہا في الخزائن: منہا بعد کذب، وغیبۃ، وقہقہۃ، وشعر، وأکل جزور، وبعد کل خطیئۃ، وللخروج من خلاف العلماء‘‘(۱)
’’وعن نافع رحمہ اللّٰہ قال: کنت مع ابن عمر في طریق فسمع مزماراً فوضع أصبعیہ في أذنیہ، وناء عن الطریق إلی الجانب الآخر، ثم قال لي بعد أن بعد: یا نافع ہل تسمع شیئاً؟ قلت: لا، فرفع أصبعیہ عن أذنیہ قال: کنت مع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فسمع صوت یراع، فصنع مثل ما صنعت۔ قال نافع: فکنت إذ ذاک صغیراً، رواہ أحمد وأبو داود‘‘(۲)
’’وبعد کل خطیئۃ وإنشاد شعر قبیح لأن الوضوء یکفر الذنوب الصغائر‘‘(۳)
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، تنبیہ‘‘: ج ۱، ص: ۸۹۔
(۲) أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الأدب: باب کراہیۃ الغناء والزمر‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۱، رقم: ۴۹۲۴۔
(۳) الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في أوصاف الوضوء‘‘: ج۱ ،ص: ۸۴۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص249
طہارت / وضو و غسل
الجواب و باللّٰہ التوفیق:حیض کے ایام پورے ہونے کے بعد کپڑے تبدیل کر کے نیم غسل یا تیمم کر کے نمازیں ادا کر لینی چاہئے تھیں، ایسی عورت کو چاہئے کہ پٹی کی جگہ کے علاوہ تمام بدن کو کپڑا تر کر کے اچھی طرح پونچھ لے کہ اعضاء پرپانی بہنے جیسے ہو جائے اور پٹی کی جگہ پر مسح کر لے اور اگر اس طرح پونچھنے پر تکلیف ہو تو تیمم کر لینا چاہئے؛ لیکن نمازوں کو قضا نہیں کرنا چاہئے
تھا اس پر استغفار کریں۔
’’وإذا زادت الجبیرۃ علی نفس الجراحۃ فإن ضرہ الحل والمسح مسح علی الکل تبعاً مع القرحۃ وإن لم یضرہ غسل ما حولہا ومسحہا نفسہا وإن ضرہ المسح لا الحل یمسح علی الخرقۃ التي علی رأس الجرح ویغسل ما حولہا تحت الخرقۃ الزائدۃ إذا الثابت بالضرورۃ یتقدر بقدرہا‘‘(۱)
’’ومن عجز عن استعمال الماء لبعدہ میلاً أو لمرض یشتد أو یمتد بغلبۃ ظن أو قول حاذق مسلم ولو بتحرک‘‘(۲)
(۱) ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارات: باب المسح علی الخفین‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۱۔
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار ’’کتاب الطہارۃ: باب التیمم‘‘: ج ۱، ص: ۳۹۵ - ۳۹۷۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص340
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں مذکورہ مسجد کے متولی اور ذمہ داران حضرات اپنے سابقہ امام کی دیرینہ خدمات اور آئندہ کی متوقع خدمات کے پیش نظر خدمت کرنا چاہیں تو مسجد کے فنڈ سے ان کی خدمت وظیفہ، تنخواہ یا پینشن کی صورت میں کرسکتے ہیں اور جب تک مناسب سمجھیں یہ خدمات جائز ہوں گی۔(۱)
(۱) ویفتی الیوم بصحتہا لتعلیم القرآن والفقہ والإمامۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الإجارۃ باب الإجارۃ الفاسدۃ، مطلب في الاستئجار علی الطاعات‘‘: ج۹، ص: ۷۶)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص327
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: اگر مسجد صغیر ہے تو تین چار صف کے آگے سے بھی گزرنا گناہ ہے اور اگر مسجد کبیر ہے تو گناہ نہیں۔(۱)
’’أو مرورہ بین یدیہ إلیٰ حائط القبلۃ في بیت ومسجد صغیر فإنہ کبقعۃ واحدۃ مطلقاً‘‘(۲)
(۱) (ومرور مار في الصحراء أو في مسجد کبیر بموضع سجودہ) في الأصح (أو) مرورہ (بین یدیہ) إلی حائط القبلۃ (في) بیت و (مسجد) صغیر، فإنہ کبقعۃ واحدۃ (مطلقا) (قولہ ومسجد صغیر) ہو أقل من ستین ذراعا، وقیل من أربعین، وہو المختار کما أشار إلیہ في الجواہر قہستاني (قولہ فإنہ کبقعۃ واحدۃ) أي من حیث أنہ لم یجعل الفاصل فیہ بقدر صفین مانعا من الاقتداء تنزیلا لہ منزلۃ مکان واحد، بخلاف المسجد الکبیر فإنہ جعل فیہ مانعا فکذا ہنا یجعل ما بین یدي المصلي إلی حائط القبلۃ مکانا واحدا، بخلاف المسجد الکبیر والصحراء فإنہ لو جعل کذلک لزم الحرج علی المارۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب مایفسد الصلاۃ، ومایکرہ فیہا،مطلب إذا قرأ قولہ -تعالٰی- جدک بدون ألف لاتفسد‘‘: ج۲، ص: ۳۹۸)
وکذا مرور المار في أي موضع یکون من المسجد بمنزلۃ مرورہ بین یدیہ وفي موضع سجودہ وإن کان المسجد کبیرا بمنزلۃ الجامع قال بعضہم: ہو بمنزلۃ المسجد الصغیر فیکرہ المرور في جمیع الأماکن، وقال بعضہم: ہو بمنزلۃ الصحراء (قولہ إن کان المسجد صغیرا) وہو أقل من ستین ذراعا وقیل من أربعین وہو المختار قہستاني عن الجواہر، کذا في حاشیۃ شرح مسکین للسید محمد أبي السعود قلت: وفي القہستاني أیضا، وینبغي أن یدخل فیہ الدار والبیت۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ، باب مایفسد الصلاۃ، ومایکرہ فیہا، الأکل والشرب فی الصلاۃ‘‘: ج۲، ص: ۱۷)
(۲) أیضًا:
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص443
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: وقت ضرورت اس کی گنجائش ہے باقی تمام شرائط کو ملحوظ رکھنا چاہئے۔(۲)
(۲) یستفاد مما في الفتاوی الہندیۃ: صورۃ الاستخلاف أن یتأخر مُحدَوْدِبًا … ویقدم من الصف الذي یلیہ … ولہ أن یستخلف ما لم یجاوز الصفوف في الصحراء وفي المسجد ما لم یخرج عنہ کذا في التبیین۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب سجود السہو‘‘: ج ۲،ص: ۵۵۴)۔
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص56