طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:کھجلی کے دانوں سے نکلنے والے پانی سے متعلق حکم یہ ہے کہ اگر وہ پانی اتنا ہو کہ اپنی جگہ سے نکل کر بہہ جائے، تو ناقض وضو ہے ورنہ نہیں، جیسا کہ شامی میں ہے:
’’بخلاف نحو الدم والقیح ولذا أطلقوا في الخارج من غیر السبیلین کالدم والقیح والصدید أنہ ینقض الوضوء ولم یشترطوا سوی التجاوز إلی موضع یحلقہ حکم التطہیر‘‘(۱)
البحر الرائق میں ہے:
’’والمعاني الناقضۃ للوضوء کل ما خرج من السبیلین والدم والقیح إذا خرجا من بدن فتجاوز إلی موضع یلحقہ حکم التطہیر‘‘(۲)

(۱)  ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب في ندب مراعاۃ الخلاف إذا لم یرتکب مکروہ مذہبہ‘‘: ج ۱، ص: ۲۷۹۔
(۲)   المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الطہارات: فصل في نواقض الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص248

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:کان پر پانی کی دھار ڈال لینا کافی ہے اور احتیاطا کانوں کے سوراخ والے حصہ کو مَل لیا جائے، تو بہتر ہے۔
’’ولو لم یکن لہ بثقب أذنہ قرط فدخل الماء فیہ أي الثقب عند مرورہ علی أذنہ أجزأہ کسرۃ وأذن دخلہما الماء وإلا یدخل أدخلہ ولو باصبعہ ولا یتکلف بخشب ونحوہ والمعتبر غلبۃ ظنہ بالوصول … ولا یتکلف أي بعد الإمرار‘‘(۱)
’’ویجب تحریک القرط والخاتم الضیقین ولو لم یکن قرط فدخل الماء الثقب عند مرورہ أجزأہ کالسرۃ وإلا أدخلہ کذا في فتح القدیر ولا یتکلف في إدخال شيء سوی الماء من خشب ونحوہ کذا في شرح الوقایۃ‘‘(۲)


(۱) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب: في أبحاث الغسل‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۹۔
(۲) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۸۸۔
 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص320

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر مسجد کی انتظامیہ یا اہل محلہ کی جانب سے امام صاحب کو مسجد میں مکتب چلانے کی صراحتاً یا دلالۃ اجازت ہے، تو امام صاحب کا اجرت لے کر قرآن کریم حفظ وناظرہ پڑھانا درست ہے اور اگر اجازت نہ ہو تو پھر پڑھانا درست نہیں، بصورت اجازت ملحوظ رہے کہ مسجد کی بے ادبی نہ ہو اور احتیاطاً مسجد کی صفوں اور لائٹ وغیرہ کے استعمال سے پرہیز کرے۔(۱)
(۱) لا لأجل الطاعات مئل الأذان والحج والإمامۃ وتعلیم القرآن والفقہ ویفتی الیوم بصحتہا لتعلیم القرآن والفقہ والإمامۃ والأذان۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ، مطلب في الاستئجار علی الطاعات‘‘: ج۹، ص:۷۶)
فلا یجوز لأحد مطلقا أن یمنع مؤمناً من عبادۃ یأتی بہا في المسجد لأن المساجد مابني إلا لہا في صلاۃ واعتکاف وذکر شرعي وتعلیم علم وتعلمہ۔ (ابن نجیم، البحرالرائق، ’’کتاب الصلاۃ، فضل استقبال القبلۃ بالفرج في الخلاء‘‘:ج۱، ص:۶۵۰، بیروت)

 فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص326

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 2755/45-4286

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ (نوٹ: اسلام میں نکاح ایک پاکیزہ رشتے کا نام ہے،اسلام نے اس کی پائداری پر زور دیا ہے، اور اس کے لیے باہمی الفت ومحبت اور دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کی تلقین کی ہے لیکن اگر کسی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان نااتفاقی ہونے لگے تو پہلے دونوں خاندان کے بزرگ کو صلح کرانے کی کوشش کرنی چاہیے؛ کیوں کہ اسلام میں طلاق ناپسندیدہ فعل ہے اور بلا ضرورت اسکا استعمال درست نہیں ہے۔ پھر بھی اگر نباہ کی کوئی صورت نہ بن سکے اور فتنہ وفساد کا اندیشہ ہو تو ایک طلاق صریح دے کر دونوں کو الگ ہو جانے کا حکم ہے۔  ایک طلاق کے بعد اگر دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو عدت میں رجوع کے ذریعہ اور عدت کے بعد نکاح کے ذریعہ دونوں ساتھ رہ سکتے ہیں۔  ایک ساتھ تین طلاق دینا شرعاً گناہ ہے اور ملکی قانون کے مطابق قابل مواخذہ جرم ہے)

جا تو آزاد ہے، یہ لفظ ہمارے عرف میں طلاق صریح کے لئے مستعمل ہے، اور لڑائی کے درمیان یہ الفاظ کئی بار کہے گئے ہیں، اس لئے طلاق کی نیت کے  بغیربھی اس سے طلاق واقع ہوگئی۔ لہذا صورت مسئولہ میں اگر یہ لفظ آزاد کیا یا آزاد ہے تین بار سے زیادہ بولا ہے تو عورت طلاق مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی، اب دونوں کا ایک ساتھ رہنا ہر گز جائز نہیں ہے۔  عورت پر عدت لازم ہے، اور عدت کے بعد عورت کو کسی دوسرے مرد سے نکاح کا اختیار ہوگا۔  

’’وقد مر أن الصريح ما غلب في العرف استعماله في الطلاق بحيث لا يستعمل عرفا إلا فيه من أي لغة كانت، وهذا في عرف زماننا كذلك فوجب اعتباره صريحا كما أفتى المتأخرون في أنت علي حرام بأنه طلاق بائن للعرف بلا نية مع أن المنصوص عليه عند المتقدمين توقفه على النية‘‘(الدر المختا ر مع رد المحتار،کتاب الطلاق،باب صریح الطلاق،ج:3،ص:252،ط:سعید)

’’والأصل الذي عليه الفتوى في زماننا هذا في الطلاق بالفارسية أنه إن كان فيها لفظ لا يستعمل إلا في الطلاق فذلك اللفظ صريح يقع به الطلاق من غير نية إذا أضيف إلى المرأة، مثل أن يقول في عرف ديارنا: دها كنم أو في عرف خراسان والعراق بهشتم؛ لأن الصريح لا يختلف باختلاف اللغات وما كان في الفارسية من الألفاظ ما يستعمل في الطلاق وفي غيره فهو من كنايات الفارسية فيكون حكمه حكم كنايات العربية في جميع الأحكام والله أعلم.‘‘ (بدائع الصنائع:کتاب الطلاق،فصل فی النیۃ،ج:3،ص:102،دار الکتب العلمیۃ)

’’ولو قال في حال مذاكرة الطلاق باينتك أو أبنتك أو أبنت منك أو لا سلطان لي عليك أو سرحتك أو وهبتك لنفسك أو خليت سبيلك أو أنت سائبة أو أنت حرة أو أنت أعلم بشأنك. فقالت: اخترت نفسي. يقع الطلاق وإن قال لم أنو الطلاق لا يصدق قضاء.‘‘ (فتاوی ہندیہ  کتاب الطلاق،الفصل الخامس،ج:1،ص:375،ط:دار الفکر)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:  قعدہ اخیرہ میں سلام سے پہلے عمداً حدث لاحق کردیا یعنی حدث کرکے نماز سے باہر نکلا تو فرض ساقط ہو جائے گا لیکن نماز واجب الاعادہ ہوگی اور اگر غیر اختیاری طور پر حدث لاحق ہوگیا تو بنا درست ہے۔(۱)

(۱) منہا الخروج بصنعہ کفعلہ المنافي لہا بعد تمامہا وإن کرہ تحریماً والصحیح أنہ لیس بفرض اتفاقاً قالہ الزیلعي وغیرہ وآثرہ المصنف وفي المجتبیٰ وعلیہ المتون۔ (الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مطلب في القنوت للنازلۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۴۸)۔
 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص56

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: امام کے در میں کھڑے ہونے کو شامی نے مکروہ لکھا ہے اگر ضرورت ہی ہو تو امام کو چاہئے کہ قدم در سے باہر رکھے اور سجدہ در میں ہو جائے تو درست ہے۔ ورنہ بضرورت در میں کھڑے ہوکر نماز پڑھانے سے بھی نماز ہوجاتی ہے مگر اس سے بچنا ہی بہتر ہے۔
’’ویکرہ قیام الإمام وحدہ في الطاق وہو المحراب، ولا یکرہ سجودہ فیہ إذا کان قائماً خارج المحراب، ہکذا في التبیین‘‘(۱)
’’وکرہ … قیام الإمام في المحراب لا سجودہ فیہ وقدماہ خارجہ لإن العبرۃ للقدم۔ في معراج الدرایۃ من باب الإمامۃ: الأصح ما روي عن أبي حنیفۃ أنہ قال: أکرہ للإمام أن یقوم بین الساریتین أو زاویۃ أو ناحیۃ المسجد أو إلیٰ ساریۃ … لأنہ بخلاف عمل الأمۃ‘‘(۱)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب السابع، الفصل الثاني فیما یکرہ في الصلاۃ و ما لا یکرہ‘‘: ج ۲، ص: ۱۶۷۔
(۱) الحکصفي،  الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘: ج ۲، ص:۴۱۴، زکریا دیوبند۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص181

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: ض بھی اور حروف کی طرح ایک مستقل حرف ہے یہ نہ ظاء ہے اور نہ طاء ہے۔ نہ دال ہے نہ دُواء ہے۔ نہ دُواد ہے اور نہ زواد ہے اس کو اس کی تمام صفات کے ساتھ ادا کرنا چاہئے اور جب اس کو اس کی پوری قواعد کی رعایت کے ساتھ ادا کیا جاتا ہے تو اس کی آواز کسی قدر ظاء کے مشابہ ہوتی ہے؛ کیوںکہ ض اور ظ کا مخرج قریب قریب ہے فن قراء ت علمی ہونے کے ساتھ فنی، مشقی اور تمرینی ہے جو صرف کتابوں میں پڑھنے سے نہیں آتا؛ بلکہ اس کی ادائیگی کو باقاعدہ ماہر استاذ فن سے سیکھنا چاہئے تمام حروف میں ض کا مخرج سب سے مشکل ہے اس لیے کسی ماہر سے اس کی ادائیگی کو سیکھنا چاہئے۔ جو لوگ ض کو پُر دال یا باریک دال کے مشابہ پڑھتے ہیں یہ تو بالکل غلط ہے؛ کیوںکہ ض اور دال کے مخرجوں میں کئی صفات کا فرق ہے اور دونوں کے مخرج الگ الگ ہیں فن تجوید کی کتابوں میں ایسا ہی ہے۔ مکہ معظمہ اور مدینہ طیبہ کے قراء بھی قواعد کے تابع ہیں وہ قواعد سے اور قانون شریعت سے اور پر نہیں ہیں ان کا لحن اور ادائیگی زبان موٹی ہونے یا اہل زبان ہونے کی وجہ سے ایسی سمجھی جاتی ہے کہ دال پڑھ رہے ہیں حالاں کہ وہ ض کو اس کے مخرج سے ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ویسے جہاں کا یہ واقعہ ہے وہاں کے قاری صاحب کا قرآن میں نے سنا ہے وہ فن اور لحن کے لحاظ سے قرآن حکیم قراء ت کے قواعد سے پڑھتے ہیں نمازیوں کو مطمئن رہنا چاہئے ویسے کوشش کے باوجود اگر ادائیگی ہو رہی ہے اس سے نماز پر کوئی اثرنہیں پڑتا۔(۱)

(۱) وإن ذکر حرفاً مکان حرف وغیر المعنی، فإن أمکن الفصل بین الحرفین من غیر مشقۃ کالطاء مع الصاد، فقرأ الطالحات مکان الصالحات تفسد صلاتہ عند الکل۔  وإن کان لا یمکن الفصل بین الحرفین إلا بمشقۃ، کالظاء مع الضاد، والصاد مع السین والطاء مع التاء، اختلف المشایخ فیہ، قال أکثرہم: لا تفسد صلاتہ … ولو قرأ الدالین بالدال تفسد صلاتہ۔ (قاضي خان،  فتاویٰ قاضی خان، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في قراء ۃ القرآن الخ‘‘: ج ۱، ص:۸۸، فیصل دیوبند)
وإن کان لا یمکن الفصل بین الحرفین إلا بمشقۃ کالظاء مع الضاد والصاد مع السین والطاء مع التاء اختلف المشایخ قال أکثرہم لا تفسد صلاتہ۔ ہکذا في فتاوی قاضي خان۔ وکثیر من المشایخ أفتوا بہ۔ (جماعۃ من علماء الہندیۃ، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’ ‘‘: ج ۱، ص:۱۳۷، زکریا)
أعلی حافۃ اللسان وما یحاذیہا من الضراس العلیا، یخرج منہ الضاد المعجمۃ بشرط اعتماد رأس اللسان العلیین الخ۔ (زبدۃ ترتیل القرآن: ص: ۳)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص284

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس شخص کو رمضان میں وتر کی نماز جماعت کے ساتھ ہی پڑھنی چاہئے کہ اس میں جماعت کا ثواب ملتا ہے یہ ہی بہتر ہے۔(۱)

(۱) ولا یصلي الوتر ولا التطوع بجماعۃ خارج رمضان، إن الجماعۃ في التطوع لیست بسنۃ یفید عدمہ۔ (الحصکفي ، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ:باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۵۰۰)
ویؤتر بجماعۃ في رمضان فقط، علیہ إجماع المسلمین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثامن في صلاۃ الوتر‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۶، ط: المکتبۃ الفیصل دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص402

 

Fasting & Ramazan

Ref. No. 1249 Alif

 

In the name of Allah the most Gracious the Most Merciful

The answer to your question is as follows:

In the above mentioned case, you have to repeat the fast. Doing iftar mistakenly before time even by 2 minutes invalidates the fast; although there is no kaffarah in this state.

And Allah knows best

 

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

بدعات و منکرات

Ref. No. 38 / 1128

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  کس نے کس کو ہرایا اس کا علم ہم کو نہیں ، البتہ موقع بموقع علماء دیوبند نے تحریرا وتقریرا ً تمام فرق باطلہ کا رد کیا ہے اور ان شاء اللہ کرتے رہیں گے۔ کتابوں کی عبارتوں سے دوسرے حضرات نے گستاخی کا مفہوم نکالا ہے جبکہ صاحب کتاب کا منشاء ہرگز گستاخی اور بے ادبی نہیں ہے۔ عبارات اکابر پر تفصیلی کتابیں موجود ہیں جن میں ان عبارتوں کا صحیح مفہوم واضح انداز میں بیان کردیا گیا ہے۔    واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند