Frequently Asked Questions
تجارت و ملازمت
Ref. No. 1244 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم-: زمین کرایہ پر دینے میں اگر مثلا ً دو کونٹل پیداوار کی شرط لگائی اور پیداوار دو کونٹل بھی نہیں ہوئی تو کیا ہوگا؟ اس لئے کرایہ طے کرنا چاہئے خواہ رقم کی شکل میں ہو یا چاول و گیہوں کی شکل میں ہو۔ واللہ اعلم
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
مساجد و مدارس
Ref. No. 38 / 1131
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس کی گنجائش ہے تاہم جو خواتین ناپاکی کی حالت میں ہوں ان کو مسجد میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوگی۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
خوردونوش
Ref. No. 41/969
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ڈاکٹروں سے رابطہ کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ افواہ ہے، اور پولیو کا کوئی نقصان اب تک سامنے نہیں آیا ہے، اس لئے پلانے کی اجازت ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 920/41-57
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صفوں کے درمیان اتصال ایک مسنون عمل ہے، اور اتصال صفوف کی احادیث میں بڑی تاکید آئی ہے۔ تاہم اندرونِ مسجد اگر صفوں میں انقطاع ہوجائے یا دو مصلی کے درمیان فاصلہ ہوجائے تو بھی نماز درست ہوجاتی ہے، گرچہ ایسا کرنا مکروہ ہے۔ لیکن موجودہ صورت حال کی بناء پر 'اھون البلیتین' کے طور پر مسجد کو بند کرنے سے بہتر ہے کہ محکمہ صحت کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے مطلوبہ فاصلہ باقی رکھا جائے۔
فناء المسجد کالمسجد فیصح الاقتداء وان لم تتصل الصفوف (الاشباہ ص 197) ( فتاوی دارالعلوم 3/135)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 1457/42-887
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جب شوہر نے خلع نامہ پر اپنی مرضی سے دستخط کردئے تو خلع مکمل ہوگیا اور عورت بائنہ ہوگئی۔ اب حیض والی عورت تین حیض عدت میں گزارے گی، اور جس عورت کو حیض نہیں آتا وہ تین ماہ عدت گزارے گی۔ عدت گزرنے کے بعد عورت اگر چاہے تو نکاح کرسکتی ہے، عدت گزرنے سے پہلے کسی دوسرے مرد سے نکاح جائز نہیں ہے۔
والمطلقات يتربصن بأنفسهن ثلاثة قروء الآية (سورۃ البقرۃ 228) وَٱلَّٰٓـِٔى يَئِسْنَ مِنَ ٱلْمَحِيضِ مِن نِّسَآئِكُمْ إِنِ ٱرْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَٰثَةُ أَشْهُرٍۢ وَٱلَّٰٓـِٔى لَمْ يَحِضْنَ ۚ وَأُوْلَٰتُ ٱلْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ۚ وَمَن يَتَّقِ ٱللَّهَ يَجْعَل لَّهُۥ مِنْ أَمْرِهِۦ يُسْرًا (سورۃ الطلاق 4)
والمطلقات ذوات الحيض، يجب أن ينتظرن دون نكاح بعد الطلاق مدة ثلاثة أطهار أو ثلاث حيضات على سبيل العدة؛ ليتأكدن من فراغ الرحم من الحمل. ولا يجوز لهن تزوج رجل آخر في أثناء هذه العدة حتى تنتهي. (التفسیر المیسر، 228، ج1ص36)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:بشرط صحت سوال مذکورہ شخص مسلمان ہے؛ لیکن مذکورہ شخص پر لازم ہے کہ اس غیر مسلم عورت کو مسلمان ہونے کی ترغیب دے، اگر وہ عورت مسلمان ہوجائے، تو شرعی طریقے پر اس سے شادی کرسکتا ہے؛ ورنہ اس کو علاحدہ کرکے توبہ واستغفار کرے اور آج تک جو گناہ ہوا اس پر بہر حال توبہ کرتے رہنا ضروری ہے۔(۱)
(۱) تثبت (أي الردۃ بالشہادۃ) ویحکم بہا حتي تبین زوجتہ منہ ویجب تجدید النکاح۔ (ابن نجیم، البحر الرائق شرح کنز الدقائق، ’’کتاب السیر: باب أحکام المرتدین، توبۃ الزندیق‘‘: ج ۵، ص: ۲۱۳)
وما کان خطأ من الألفاظ ولا یوجب الکفر فقائلہ یقر علی حالہ ولا یؤمر بتجدید النکاح، ولکن یؤمر بالاستغفار والرجوع عن ذلک۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار،کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب: جملۃ من لا یقتل إذا ارتد‘‘: ج ۶، ص: ۳۹۱)
بدعات و منکرات
Ref. No. 1816/43-0000
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔
میت کے لیے ایصال ثواب کا ثبوت احادیث اور سلف کے تعامل سے ثابت ہے اور جس طرح مالی عبادت کا ثواب میت کو پہنچتاہے اسی طرح بدنی عبادت کا ثواب بھی میت کو پہنچتاہے ۔علامہ شامی نے اسے اہل السنت والجماعت کا مسلک قرار دیا ہے ۔
من دخل المقابر فقرأ سورة يس خفف الله عنهم يومئذ، وكان له بعدد من فيها حسنات بحر. وفي شرح اللباب ويقرأ من القرآن ما تيسر له من الفاتحة وأول البقرة إلى المفلحون وآية الكرسي - وآمن الرسول - وسورة يس وتبارك الملك وسورة التكاثر والإخلاص اثني عشر مرة أو إحدى عشر أو سبعا أو ثلاثا، ثم يقول: اللهم أوصل ثواب ما قرأناه إلى فلان أو إليهم. اهـ. مطلب في القراءة للميت وإهداء ثوابها له [تنبيه]صرح علماؤنا في باب الحج عن الغير بأن للإنسان أن يجعل ثواب عمله لغيره صلاة أو صوما أو صدقة أو غيرها كذا في الهداية، بل في زكاة التتارخانية عن المحيط: الأفضل لمن يتصدق نفلا أن ينوي لجميع المؤمنين والمؤمنات لأنها تصل إليهم ولا ينقص من أجره شي(رد المحتار،مطلب فی زیارۃ القبور ،2/243)۔
قرآن کریم کے ذریعہ میت کو ثواب پہنچانا بھی درست ہے او راس سے میت کو فائدہ پہنچتاہے اور یہ عمل بھی حدیث اور سلف کے تعا مل سے ثابت ہے۔
أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ويس قلب القرآن لا يقرؤها رجل يريد الله والدار الآخرة إلا غفر له، اقرءوها على موتاكم(السنن الکبری للنسائی،حدیث نمبر:10847) وعن مجالد، عن الشعبي " كانت الأنصار إذا حضروا قرؤوا عند الميت البقرة ". مجالد ضعيف.(خلاصۃ الاحکام،باب مایقولہ من مات لہ میت ،حدیث نمبر:3279 )ملا علی قاری مرقات میں لکھتے ہیں : وأن المسلمين ما زالوا في كل مصر وعصر يجتمعون ويقرءون لموتاهم من غير نكير، فكان ذلك إجماعا، ذكر ذلك كله الحافظ شمس الدين بن عبد الواحد المقدسي الحنبلي في جزء ألفه في المسألة، ثم قال السيوطي: وأما القراءة على القبر فجاز بمشروعيتها أصحابنا وغيرهم.(مرقات المفاتیح،باب دفن المیت ، 3/1229)۔
تاہم یہاں چند باتیں پیش نظر رکھنی ضروری ہے ، اُسی عمل کا ثواب میت کو پہنچتاہے جو عمل انسان خالص اللہ کی رضا کے لیے کرے اوراس کا ثواب میت کو بخش دے ، جو عمل خالص رضائے ا لہی کے لیے نہ ہو اس کاثواب خود کرنے والے کونہیں ملتا تو دوسروں کو اس کا کیا فائدہ ملے گااسی وجہ سے حضرات علماء نے مروجہ قرآن خوانی پر سخت نکیر کی ہے اس لیے کہ اس میں بہت سے مفاسد جمع ہوجاتے ہیں ۔پڑھنےوالا اس نیت سے پڑھتاہے کہ اس پر کچھ ملے گا اور پڑھانے والوں کے بھی ذہن میں رہتا ہے کہ مدارس کے طلبہ کو بلایا تو اس کو کچھ ہدیہ کے نام پہ دینا ہوگا یا کھانا کھلانا ہوگا ظاہر ہے کہ اس عمل میں جانین سے اخلاص کا تحقق نہیں ہوتا۔اس لیے قرآن خوانی کی مروجہ صورت جس میں جس میں پڑھنے والوں کے لیے کھانے پینے کا نظم ہو یا شرطیہ یا بلاشرط کے بچوں کو کچھ دینے کا رواج ہو یا مدرسہ کے لیے رسید کٹانے کو ضروری قرار دیا جائے یہ سب ناجائز ہے ۔
قال تاج الشريعة في شرح الهداية: إن القرآن بالأجرة لا يستحق الثواب لا للميت ولا للقارئ. وقال العيني في شرح الهداية: ويمنع القارئ للدنيا، والآخذ والمعطي آثمان. فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراءة الأجزاء بالأجرة لا يجوز؛ لأن فيه الأمر بالقراءة وإعطاء الثواب للآمر والقراءة لأجل المال؛ فإذا لم يكن للقارئ ثواب لعدم النية الصحيحة فأين يصل الثواب إلى المستأجر ولولا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في هذا الزمان بل جعلوا القرآن العظيم مكسبا ووسيلة إلى جمع الدنيا - إنا لله وإنا إليه راجعون - اهـ.(شامی ، مطلب فی الاستئجار علی المعاصی٦/٥٦)۔
مدرسہ کے بچوں کو جمع کرنے اور گھر بلانے میں تو اور بھی مفاسد ہیں بسااوقات ان کی تعلیم و تربیت کا نقصان ہوتا ہے بچوں کے ماں باپ اعزہ کی تکلیف کا موجب ہے بہت سے لوگ بھی بچوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے بعض لوگ حقارت کی بھی نظروں سے دیکھتے ہیں اس لئے مدرسہ کے ذمہ داران کو بچوں کے بھیجنے سے صاف معذرت کردینا چاہئے۔
اگر لوگ مدارس سے قرآن خوانی کے لیے رابطہ کریں تو اس کی منا سب صورت یہ ہےکہ ان کو بچوں کی تعلیم کو تربیت کا حوالہ دے کر منع کردیا جائے اور یہ کہا جائے کہ مدرسہ میں بچے ہر وقت قرآن پڑھتے ہیں آپ کسی وقت تشریف لے آئیں بچوں نے جو قرآن پڑھا ہے اس میں ایصال ثواب کی نیت کرکے مرحوم کےلیے دعا کردی جائے گی یا مرحوم کا نام لے لیا جائے اور حفظ کی درسگاہ میں سبق کے اختتام کے وقت مرحوم کے لیے دعا کرادیا جائے تو یہ بہتر متبادل ہوسکتاہے ا س کے علاوہ ان کو انفرادی طورپر قرآن پڑھنے اور میت کو اس کا ثواب پہنچانے کی ترغیب کی جائے ۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 2163/44-2248
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مسئولہ میں بشرط صحت سوال، اگر وارثین میں صرف چار بیٹیاں باحیات ہیں اور ان کے ماں باپ بھی مرحوم کے انتقال کے وقت باحیات نہیں تھے تو مرحوم کی جائداد کو چار حصوں میں تقسیم کردیاجائے گا ۔ لیکن اگر اصحاب فرائض یا ذو الارحام میں سے کوئی ہو تو اس کی تفصیل لکھ کر دوبارہ معلوم کرلیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مشرکین کے وہ بچے جو قبل از بلوغ دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں ان کے ساتھ آخرت میں اللہ تعالیٰ کا کیا معاملہ فرمائیں گے اس بارے میں فقہاء کے تین اقوال ہیں:
(۱) یہ کہ اطفال مشرکین جہنم میں جائیں گے اس لئے کہ بچے والدین کے تابع ہیں۔
(۲) اطفال مشرکین جنت میں جائیں گے اس لئے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے تو وہ بھی فطرت اسلام پر پیدا ہوئے ہیں اور قبل از بلوغ دنیا سے رخصت ہوگئے اور کوئی گناہ بھی ان سے سرزد نہیں ہوا امام محمد ؒ کا بھی یہی رجحان ہے انہوں نے فرمایا کہ : ’’إن اللّٰہ لا یعذب أحداً بلا ذنب۔ الشامی۔
(۳) امام اعظم ابوحنیفہؒ کی طرف ایک تیسرا قول منسوب ہے کہ امام صاحب نے اس بارے میں توقف اختیار کیا ہے یعنی کوئی تشریح اس کی نہیں فرمائی لیکن صحیح امام اعظمؒ کے نزدیک یہ ہے کہ اللہ رب العزت زیادہ بہتر جانتے ہیں کہ کون بچہ جنت میں جائے گا اور کون بچہ دوزخ میں جائے گا (أللّٰہ أعلم بما کانوا عاملین) کہ اللہ رب العزت کو آئندہ کا علم ہے کہ کون بچہ ایسا ہے کہ اگر وہ زندہ رہتا تو اسلام لے آتا اور کون سا بچہ زندہ رہتا تو اسلام نہ لاتا پس جو بچے اللہ کے علم کے مطابق اگر زندہ رہتے اور اسلام لے آتے وہ جنت میں جائیں گے اور جو بچے اللہ تعالیٰ کے علم کے مطابق اگر زندہ رہتے تو کفر پر برقرار رہتے وہ بچے جہنم میں جائیں گے خلاصہ یہ کہ اللہ رب العزت کی مشیت پر موقوف ہے کہ اللہ رب العزت کو آئندہ کا بھی پورا علم ہے اسی کے اعتبار سے جنت اور جہنم کا فیصلہ ہوگا پس کوئی فیصلہ کن بات اس بارے میں نہیں کہی جاسکتی یہ امام اعظمؒ کا مسلک ہے اور یہی ’’أقرب إلی الصواب‘‘ معلوم ہوتا ہے چونکہ یہ مسئلہ از قبیل عبادات نہیں ہے اور انسان کا کوئی عمل اس پر موقوف نہیں؛ اس لئے اس میں امام اعظمؒ کا قول ہی قابل اختیار معلوم ہوتا ہے۔ (۱)
(۱) وقد اختلف في سؤال أطفال المشرکین وفي دخولہم الجنۃ أو النار، فتردد فیہم أبو حنیفۃ وغیرہ، وقد وردت فیہم أخبار متعارضۃ فالسبیل تفویض أمرہم إلی اللّٰہ تعالیٰ وقال محمد بن الحسن: اعلم أن اللّٰہ لا یعذب أحداً بلا ذنب۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب: في أطفال المشرکین‘‘: ج ۳، ص: ۸۲)
لا یحکم بأن أطفالہم في النار البتۃ بل فیہ خلاف، قیل: یکونون خدام أہل الجنۃ وقیل: إن کانوا قالوا بلی یوم أخذ العہد عن اعتقاد ففي الجنۃ وإلا ففي النار إلخ۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في الصلاۃ علی المیت‘‘: ج ۲، ص: ۱۳۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص294