Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:میت کا تیجہ،د سواں وغیرہ کرنا التزام مالایلتزم کے قبیل سے ہو کر بدعت ہے، اس کو ترک کرنا چاہئے، ورنہ تو اس کامرتکب گناہگار ہوگا اور اس میں چنے کا پڑھنا بھی رسم و رواج ہے کہ پھر ان کو تقسیم کیا جاتا ہے، غم کے موقع پر ایسا عمل درست نہیں ہے(۱)؛ بلکہ بلا التزام واہتمام وبلا لالچ طعام وغیرہ خلوص دل سے اگر جمع ہو کر کچھ لوگ کلمہ طیبہ وغیرہ پڑھ کر ایصالِ ثواب کردیں جس میں دن کی تعیین مروجہ طریقہ پر نہ ہو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔
(۱) ومن البدع الإضافیۃ التي تقرب من الحقیقۃ أن یکون أصل العبادۃ مشروعا إلا أنہ تخرج عن أصل شرعیتہا بغیر دلیل توہما أنہا باقیۃ علی أصلہا تحت مقتضي الدلیل، وذلک بأن یقید إطلاقہا بالرأي، أو یطلق تقییدہا وبالجملۃ فتخرج عن حدہا الذي حد لہا، ومن ذلک قراء ۃ القرآن بہیئۃ الاجتماع، وہذا کلہ إن فرضنا أصل العبادۃ مشروعاً، فإن کان أصلہا غیر مشروع فہي بدعۃ حقیقیۃ مرکبۃ۔ (أبو إسحاق الشاطبي، کتاب الاعتصام: ج ۲، ص: ۳۰۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص408
متفرقات
Ref. No. 2508/45-3843
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ زید کے قول 'تجھے دوبارہ نکاح کرنا پڑے گا ' سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔ اسی طرح طلاق دیدوں گا، وعدہ طلاق ہے ، اظہار ناراضگی ہے،اس سے بھی کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ہے۔ لہذا زید کا نکاح اپنی بیوی کے ساتھ باقی ہے۔
بخلاف قوله :”طلاق كنم “ لأنه استقبال فلم يكن تحقيقا بالتشكيك . وفي المحيط ”لو قال بالعربية :أطلق لا يكون طلاقا إلا إذا غلب استعماله للحال فيكون طلاقا .... سئل نجم الدين عن رجل قال لامرأته :اذهبي إلى بيت أمك .فقالت :”طلاق ده تابروم“فقال :”تو برو من طلاق دمادم فرستم “،قال :لا تطلق ؛لأنه وعد كذا في الخلاصة . (الهندية: (384/1، ط: دار الفکر)
صيغة المضارع لا يقع بها الطلاق إلا إذا غلب في الحال كما صرح به الكمال بن الهمام (تنقيح الفتاوى الحامدية: (38/1، ط: دار المعرفة)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:بعض معتبر تفاسیر میں ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کا نکاح زلیخا سے ہوا ہے؛ چنانچہ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب کی تفسیر معارف القرآن میں ہے بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ اس زمانہ میں عزیز مصر (قطمیر) کا انتقال ہوگیا تو شاہ مصر نے حضرت یوسف علیہ السلام سے ان کی شادی کرادی۔ حضرت مولانا محمد ادریس صاحب کاندھلوی اپنی تفسیر معارف القرآن میں لکھتے ہیں کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے زلیخا کے بطن سے دو لڑکے بھی پیدا ہوئے، ایک کا نام افرایم، دوسرے کا نام منشا تھا۔ تفسیر قرطبی، تفسیر ابن کثیر، معارف القرآن میں دوسری جگہ تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے ایک سو دس سال یا ایک سو سات سال کی عمر میں وفات پائی اور عزیز مصر کی عورت کے بطن سے ان کے دو لڑکے پیدا ہوئے اور ایک لڑکی بھی پیدا ہوئی۔ ایک کا نام افرایم، دوسرے کا نام میشا تھا اور لڑکی کا نام رحمت تھا، جو حضرت ایوب علیہ السلام کے نکاح میں آئیں۔(۱)
(۱) وکان الذي اشتراہ من مصر عزیز ہا وہو الوزیر: حدثنا العوفي عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، وکان إسمہ قطفیر، وقال محمد بن إسحاق: اسمہ أطفیر بن روحیب وہو العزیز وکان علی خزائن مصر، وکان الملک یومئذ الریان بن الولید رجلٌ من العمالیق۔ وقال: وإسم إمرائۃ واعیل بنت دعائیل، وقال غیرہ إسمہا زلیخا۔ (ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، ’’سورۃ یوسف‘‘: ج ۴، ص: ۳۲۴)
وقال اشتراہ من مصر یعني قطفیر لإمراء تہ إسمہا راعیل وقیل زلیخا۔ (محمد ثناء اللّٰہ پاني پتیؒ، تفسیر المظہري، ’’سورۃ یوسف‘‘: ج ۵، ص: ۱۵۱)
مفتي محمد شفیع عثمانيؒ، معارف القرآن ’’سورۃ یوسف: ۲۱‘‘: ج ۵، ص: ۸۹۔
محمد إدریس کاندھلويؒ، معارف القرآن ’’سورۃ یوسف: ۲۱‘‘: ج ۴۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص227
حدیث و سنت
Ref. No. 2624/45-3984
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قیامت کے دن ہرجان کواس کے جسم میں لوٹا دیاجائے گااور روح اپنےجسم کی جانب پرواز کرے گی اور اعمال نامے دائیں اور بائیں جانب پرواز کرکے انسانوں تک پہنچ جائیں گے۔ دنیا میں ہمارا اعمال نامہ جوفرشتے تیارکرتے ہیں وہ پوشیدہ ہیں اور قیامت میں وہ ظاہر ہوں گے۔انسان کا ہر عمل اور ہر گناہ و ثواب بالکل واضح ہوگا، پھر بھی اس سے اقرار کرایاجائے گا اور اقرار کے سوا اس کے پاس کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ انسان کا سونا‘ جاگنا اوراس کے جسم کے تمام اعضاء اس کے اعمال کے گواہ ہوں گے۔ اپنی ذمہ داریوں میں جو کوتاہی کی ہو گی وہ بھی اس کے سامنے ہوگی اور اس پر جزا یا سزا کا ترتب ہوگا۔ وغیرہ
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق:مذکورہ پانی ناپاک ہے، اس کے کپڑے ناپاک ہوگئے ان کو نکالنا اور دھونا ضروری ہے۔(۱)
(۱)لعاب الفیل نجس کلعاب الفھد والأسد إذا أصاب الثوب بخرطومہ، نجسہ۔ (فتاویٰ قاضی خاں مع الہندیۃ کتاب الطھارۃ، فصل في النجاسۃ التي تصیب الثوب أو البدن أو الأرض (الجزء السابع، الجزء الأول لقاضی خاں، ص:۱۴)؛ و سؤر الکلب والخنزیر و سباع البھائم نجس، کذا في الکنز۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، کتاب الطہارۃ، الفصل الثاني، فیما لا یجوز بہ التوضؤ، ج۱، ص:۷۶)، و سؤر خنزیر و کلب و سباع بھائم… نجس، قولہ: (و سباع بھائم) ھي ماکان یصطاد بنابہ کالأسد والذئب والفھد والنمر والثعلب والفیل والضبع و أشباہ ذلک (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطھارۃ، مطلب في السؤر،ج۱، ص:۳۸۲)؛ و سؤر الفیل والخنزیر والکلب والأسد والذئب والنمر نجس۔ (سراج الدین محمد، فتاویٰ سراجیہ، کتاب الطہارۃ، باب الآسار، ج۱، ص:۵۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص432
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: قرآن کے مخلوق ہونے کا عقیدہ رکھنے کی وجہ سے امامت اس کی مکروہ تحریمی ہے۔(۱)
(۱) الاقتداء بأہل الأہواء جائز إلا الجہیۃ والقدریۃ والروافض الغالیۃ والقائل بخلق القرآن والخطابیۃ والمشبہۃ وجملتہ أن من کان من أہل قبلتنا ولم یغل حتی لم یحکم بکفرہ تجوز الصلاۃ خلفہ۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۳۶۰، زکریا دیوبند)
قال المرغیناني: تجوز الصلاۃ خلف صاحب ہوی وبدعۃ ولا تجوز خلف الرافضي والجہمي والقدري والمشبہۃ ومن یقول بخلق القرآن، وحاصلہ إن کان ہوی لا یکفر بہ صاحبہ تجوز الصلاۃ خلفہ مع الکراہۃ وإلا فلا، ہکذا في التبیین والخلاصۃ وہو الصحیح۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماما لغیرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص127
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر نابینا آدمی اچھا پڑھا لکھا ہو اور نجاست وطہارت کے مسائل میں محتاط ہو تو اس کی امامت بینا کی موجودگی میں بھی درست ہے۔(۲)
(۲)وفیہ من الفقہ أجازہ إمامۃ الأعمیٰ ولا أعلمہم یختلفون فیہ۔ (حافظ ابن عبد البر، الاستذکار، ’’ ‘‘: ج ۲، ص: ۳۶۱)
دخلنا علی جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہما، وہو أعمی فجاء وقت الصلاۃ فقام في نساجۃ ملتحفا کلما وضعہا علی منکبیہ رجع طرفاہا إلیہ من صغرہا ورداؤہ إلی جنبہ علی المخشب فصلی بنا۔ (أخرجہ ابن أبي شیبۃ في مصنفہ، ج ۲، ص: ۲۱۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص225
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق:اذان کے بعد بغیر ضرورت شرعیہ یا بغیر ضرورت شدیدہ مسجد سے بغیر جماعت سے نماز پڑھے یا قبل از وقت اپنی جماعت کرکے چلا جانا درست نہیں(۲) ضرورت شرعیہ مثلاً دوسری مسجد میں نماز پڑھانی ہو اور ضرورت شدیدہ مثلاً کوئی سفر ہو اور ٹرین چھوٹنے کا خطرہ ہو جس سے کوئی نقصان لازم آئے ایسی صورت میں گنجائش ہے۔ اس پر جماعت تبلیغ کو قیاس کیا جائے کہ ان کے لیے جانا کیا ان دونوں مسئلوں میں سے تھا؟ عذر کی وجہ سے اگر اصل جماعت سے پہلے جماعت کی جائے تو وہ مسجد شرعی اور اس کی چھت سے علا حدہ کسی جگہ کی جائے، مسجد یا اس کی چھت پر جماعت مکروہ ہے۔(۱)
(۲) وکرہ تحریما للنھي خروج من لم یصل من سجد أذن فیہ إلا لمن ینتظم بہ أمر جماعۃ أخری أو کان الخروج لمسجد حیۃ ولم یصلوا فیہ أو لأستاذہ لدرسہ أو لسماع الوعظ۔ (ابن عابدین، در المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب إدراک الفریضۃ‘‘: مطلب في کراہۃ الخروج من المسجد بعد الأذان، ج ۲، ص: ۵۰۷-۵۰۸)
(۱) ویکرہ تکرار الجماعۃ بأذان وإقامۃ في مسجد محلۃ لا في مسجد طریق أو مسجد لا إمام لہ ولا مؤذن … ولنا أنہ علیہ الصلاۃ والسلام کان خرج لیصلح بین قوم فعاد إلی المسجد وقد صلی أہل المسجد فرجع إلی منزلہ فجمع أہلہ وصلی ولو جاز ذلک لما اختار الصلاۃ في بیتہ علی الجماعۃ في المسجد‘‘ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ‘‘: مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد، ج ۲، ص: ۲۸۸، ۲۸۹)
قولہ: إذا أقیمت فیکرہ لمن صلی وحدہ الخروج إلا لمقیم جماعۃ أخری فلا یکرہ لہ الخروج عندہما کما في صدر الشریعۃ والحموي عن البرجندي۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ، باب إدراک الفریضۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۵۸)
أن تکرار الجماعۃ في مسجد واحد مکروہ، قال في شرح الدرر والغرر وفي الکافي ولا تکرر جماعۃ وقال الشافعي رحمہ اللّٰہ: یجوز کما في المسجد الذي علی قارعۃ الطریق، لنا إنا أمرنا بتکثیر الجماعۃ وفي تکرار الجماعۃ في مسجد واحد تقلیلہا؛ لأنہم إذا عرفوا أنہم تفوتہم الجماعۃ یتعجلون للحضور فتکثر الجماعۃ، وفي المفتاح إذا دخل القوم مسجدا قد صلی فیہ أہلہ کرہ جماعۃ بأذان وإقامۃ ولکنہم یصلون وحدانا بغیر أذان ولا إقامۃ؛ لأن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم خرج لیصلح بین الأنصار فاستخلف عبد الرحمن بن عوف رضي اللّٰہ تعالٰی عنہ فرجع بعدما صلی فدخل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بیتہ وجمع أہلہ فصلی بہم بأذان وإقامۃ، فلو کان یجوز إعادۃ الجماعۃ في المسجد لما ترک الصلاۃ فیہ والصلاۃ فیہ أفضل۔ (ابن نجیم، البحر الرائق: ’’کتاب الصلاۃ، سنن الفرائض، إجابۃ المؤذن‘‘: ج ۱، ص: ۲۷۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص233
نکاح و شادی
Ref. No. 2793/45-4364
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر سوال کا مقصد یہ ہے کہ آپ کے بڑے بھائی نے آپ کی دادی کا دودھ پیا ہے تو آپ کی پھوپی اوروالد تو بڑے بھائی کے رضاعی بہن بھائی ہو گئے، لیکن آپ کا رضاعت کا رشتہ نہیں اس لئے آپ اپنی پھوپی زاد بہن سے نکاح کر سکتے ہیں۔
واحل لکم ما وراء ذلکم‘‘ (القرآن الکریم)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 37 / 1044
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ہاں اداکرسکتے ہیں۔ ہدایہ ج١ص ۸٦۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند