اسلامی عقائد

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔آپ کا سوال واضح نہیں ہے۔ اپنا سوال تفصیل کے ساتھ دوبارہ لکھ کر بھیجیں تو جواب دیاجائے گا۔ ان شاء اللہ

 واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 2172/44-2284

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جو الفاظ شرعا یا عرفا طلاق کے لئے استعمال ہوتے ہیں ، ان کو اس طرح بدل دینا کہ بدلنے کے بعد بھی وہ عوام میں مستعمل ہوں  اور ان کو بول کر طلاق مراد ہوتی ہو  تو ان کو بولنے سے بھی  طلاق واقع ہوجاتی ہے،  لیکن  اگر ایسی تبدیلی کردی کہ عرف میں بالکل بھی اس کا استعمال نہیں ہے اور الفاظ طلاق سے اب وہ لفظ  کوئی مناسبت نہ رکھتاہو تو اس کو  بولنے سے طلاق نہیں ہوگی اور ان کو الفاظ مصحفہ میں شمار نہیں کیاجائے گا۔

رد المحتار - (10 / 500):

"باب الصريح (صريحه ما لم يستعمل إلا فيه) ولو بالفارسية (كطلقتك وأنت طالق ومطلقة) بالتشديد قيد بخطابها، لأنه لو قال: إن خرجت يقع الطلاق أو لاتخرجي إلا بإذني فإني حلفت بالطلاق فخرجت لم يقع لتركه الإضافة إليها (ويقع بها) أي بهذه الألفاظ وما بمعناها من الصريح ، ويدخل نحو طلاغ وتلاغ وطلاك وتلاك أو " ط ل ق " أو " طلاق باش " بلا فرق بين عالم وجاهل ، وإن قال: تعمدته تخويفًا لم يصدق قضاء إلا إذا أشهد عليه قبله وبه يفتى."

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مروجہ فاتحہ خوانی، نیاز اور کونڈے وغیرہ بھرنا بدعت ہے اور ناجائز امور ہیں۔ (۱)

(۱) تعیین فاتحہ برشیرینی از طعام دریں شبہات از احادیث وروایات کتب معتبرہ ثابت نہ شدہ۔ (مأۃ مسائل: ص: ۱۰۸)
 یکرہ اتخاذ الدعوۃ لقرأۃ القرآن وجمع الصلحاء والقراء للختم أو لقراء ۃ سورۃ الأنعام والإخلاص۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في کراہۃ الضیافۃ من أہل المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۸))

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1 ص330

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ میں مذکورہ تمام رواج اور رسمیں (دسواں بیسواں منانا اس میں گوشت وغیرہ کا اہتمام) شرعاً ناجائز ہیں ان کی کوئی اصل شریعت میں نہیں ہے نیز میت کے اعمال کی قبولیت اور عدم قبولیت سے اس کا کوئی تعلق نہیں میت کے جنتی یا دوزخی ہونے کا مدار اس کے اعمال اور عقیدے پر ہے ان برائیوں اور ناجائز امور میں حصہ نہ لیا جائے اور اس میں لوگوں کے برا بھلا کہنے اور طعن وتشنیع کی پروا نہ کی جائے۔(۲)

(۲) یکرہ اتخاذ الطعام في الیوم الأول والثالث وبعد الأسبوع۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في کراہۃ الضیافۃ من أہل المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۸)
 کم من مباح یصیر بالالتزام من غیر لزوم والتخصیص من غیر مخصص مکروہ۔ (سباحۃ الفکر لعبد الحي: ص:
۷۲)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص421

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:دعاء کے آداب میں سے ہے کہ دونوں ہاتھ سینہ تک اٹھاکر دعا کرے اور دونوں کے درمیان فاصلہ ہو، ملاکر رکھنا خلاف اولیٰ ہے۔(۱)

(۱) الأفضل فيالدعاء أن یبسط کفیہ ویکون بینہما فرجۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الرابع، فی الصلاۃ، والتسبیح، وقراء ۃ القرآن‘‘: ج ۵، ص: ۳۶۷)
من آداب الدعاء بعد الصلوٰۃ رفع الیدین بحذاء صدرہ۔ (وزارۃ الأوقاف، الموسوعۃ الفقہیۃ، ’’رفع الیدین في الدعاء خارج الصلاۃ‘‘: ج ۴۵، ص: ۴۶۶)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص358

طہارت / وضو و غسل
نجاست غلیظہ کتنی معاف ہے؟ (۲۶)سوال:کیا فرماتے ہیں علماء کرام، مفتیان عظام کہ: نجاست سے مکمل پرہیز تو ممکن نہیں ہے، تو کیا تھوڑی بہت نجاست کے ساتھ اگر نماز پڑھ لی جائے تو نماز ہو جائے گی؟ نجاست غلیظہ کی کتنی مقدار معاف ہے، اس کی وضاحت فرما دیں کرم ہوگا۔ فقط: والسلام المستفتی: محمد سرور، غازی آباد

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: احناف کے نزدیک چہرہ دھوتے وقت پانی کا بہانا شرط ہے، جیسا کہ فتاوی ہندیہ میں مذکور ہے: الغسل ہو الاسالۃ اور اسالۃ کہتے ہیں: پانی کے بہانے کو اس لیے چہرہ پر پانی کا بہانا ضروری ہے، اس کے بغیر وضو درست نہیں ہوتا۔(۱)

(۱) و أن تسییل الماء شرط في الوضوء في ظاہر الروایۃ فلا یجوز الوضوء ما لم یتقاطر الماء۔(جماعۃ من الہند، الفتاوی الہندیۃ،’’کتاب الطہارۃ، الباب الأول، في الوضوء،‘‘ ج۱، ص:۵۳)؛ والغسل ہو إسالۃ المانع علی المحل، والمسح ہو الإصابۃ؛ حتی لو غسل أعضاء  وضوء ہ، ولم یسل الماء بأن استعملہ مثل الدہن لم یجز في ظاہر الروایۃ۔ ( الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الطہارۃ، تفسیر الوضوء،‘‘ ج۱، ص:۶۵)؛ و لا یجوز الوضوء والغسل بدون التسییل في الغسل۔ (علاء الدین السمرقندي، تحفۃ الفقھاء، ’’کتاب الطہارۃ،‘‘ ج۱، ص:۸)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص164

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق :اگر یقین کے ساتھ معلوم ہے کہ امام صاحب نے نقض وضو کے بعد پاؤں دھونے کے بجائے عام موزوں پر مسح کیا ہے، تو احناف کے نزدیک امام کا وضو نہ ہونے کی وجہ سے ایسے امام کی اقتداء کرنا جائز نہیں،جو موزہ چمڑے کا نہ ہو؛ لیکن ایسا دبیز ہو کہ اس میں پانی نہ چھنتا ہو اور اس کو پہن کر میل بھر چلنا ممکن ہو، تو ایسے موزے پر مسح جائز ہے؛ لیکن عام موزوں میں یہ بات نہیں پائی جاتی؛ اس لیے ان پر مسح جائز نہیں۔ (۱)   حنفی مسلک والے لوگوں کی دوسری جماعت ممکن ہو، تو جماعت سے پڑھ لیں؛ ورنہ تنہا پڑھیں؛ بوجہ مجبوری ترک جماعت کے گناہ سے محفوظ رہیں گے، ان شاء اللہ، چاروں ائمہ کرام کا مسلک حق ہے(۲)۔ صرف سہولت کے لیے مسلک تبدیل کرنا درست نہیں۔(۳)

(۱)أو جوربیہ ولو من غزل أو شعر الثخینین بحیث یمشي فرسخا، و یثبت علی الساق بنفسہ، ولا یری ماتحتہ ولا یشف۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع الرد، ’’باب المسح علی الخفین ، مطلب: اعراب قولھم إلا أن یقال،‘‘ ج۱، ص:۴۵۱)
(۲)إن ھذہ المذاھب الأربعۃ المحررۃ قد أجمعت الأمۃ -أو من یُعتدّ بہ منھا- علی جواز تقلیدھا إلی یومنا ھذا، و في ھذا من المصالح مالا یخفی، لا سیما في ھذہ الأیام التي قصرت فیھا الھمم جداً، و أشربت النفوس الھوی، و أعجب کل ذي رأي برأیہ۔ (الشاہ ولی اللہ الدہلوي، حجۃ اللہ البالغہ، ’’فصل: حکم التقلید والرد علی ابن حزم في تحریمہ،‘‘ ج۱، ص:۵۰۶، مکتبۃ فیصل دیوبند)
(۳)و  أن الحکم الملفق باطل بالإجماع، و أن الرجوع عن التقلید بعد العمل باطل إتفاقا، وھو المختار في المذھب۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع الرد، ’’مقدمہ، مطلب: لا یجوز العمل بالضعیف حتی لنفسہ عندنا،‘‘ج ۱، ص:۱۷۷)، یجوز للحنفي أن ینتقل إلی مذھب الشافعي وبالعکس لکن بالکلیۃ، أما في مسئلۃ واحدۃ، فلا یمکن، کما لو خرج دم من بدن حنفي و سال، فلا یجوز لہ أن یصلي قبل أن یغسلہ اقتداء بمذھب الشافعي في ھذہ المسألۃ، فإن صلّی، بطلت صلاتہ (لعدم مراعاتہ شروط الشافعي في حکم الطھارۃ والصلاۃ بأجمعھا)  و قال بعضھم : لیس لعامي أن یتحول من مذھب إلی مذھب حنفیاً کان أو شافعیا (أي لکونہ انتقالہ مبنیاً علی التشھي والتلھي غالباً۔ والتلھي بالمذاھب حرام بالإجماع) انتھی۔ (ظفر احمد العثماني، إعلاء السنن، ’’فوائد في علوم الفقہ، الفائدۃ الحادیۃ عشرۃ،‘‘ ج ۲۰، ص:۲۹۳المکتبۃ الاشرفیۃ دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص267

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر بات یہی ہے کہ زید ایسا ہی شخص ہے کہ عید گاہ اور جامع مسجد کے روپیہ میں غیر محتاط ہے اور اپنے خرچ میں لے آتا ہے اور حساب بھی نہیں دیتا ہے اور قرآن بھی صحیح نہیں پڑھتا تو ایسا شخص شرعی مجرم وفاسق ہے اس کو امام نہ بنانا چاہئے۔(۱)

(۱) لا تجوز إمامۃ الفاسق بلا تأویل کالزاني وشارب الخمر۔ (العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۳۳، نعیمیہ دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص140

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: بشرط صحت سوال اگر کوئی دوسرا اچھا قاری ہو تو اس کو مقرر کرلیا جائے اور اگر ان سے اچھا پڑھنے والا کوئی نہ ہو تو پھر اس کی امامت درست ہے۔(۲)

(۲) ومن لا یحسن بعض الحروف ینبغي أن یجتہدو لایعذر في ذلک فإن کان لاینطق لسانہ في بعض الحروف إن لم یجد آیۃ لیس فیہا تلک الحروف تجوز صلاتہ ولا یؤم غیرہ وإن وجد آیۃ لیس فیہا تلک الحروف فقرأہا جازت صلاتہ عند الکل، وإن قرأ الآیۃ التي فیہا تلک الحروف، قال بعضہم: لاتجوز صلاتہ، ہکذا في فتاویٰ قاضی خان وہو الصحیح کذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند،   …الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ الفصل الخامس في زلۃ القاري‘‘: ج۱، ص: ۱۳۷)، زکریا۔
ولا غیر الألثغ بہ أي بالألثغ علی الأصح کما في البحر عن المجتبی وحرر الحلبي وابن الشحنۃ أنہ بعد بذل جہدہ دائماً حتما کالأمي فلا یؤم الأمثلۃ ولا تصح صلاتہ إذا أمکنہ الاقتداء بمن یحسنہ أو ترک جہدہ أو وجد قدر الفرض مما لا لثغ فیہ ہذا ہو الصحیح المختار في حکم الألثغ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في الألثغ‘‘: ج۲، ص: ۳۲۷، ۳۲۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص235