Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2398/45-3624
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر امام صاحب نماز کی شرطوں کا خیال نہیں کرتے، اور آپ کے آواز اٹھانے سے فتنہ کا اندیشہ ہے، اور آپ نے اب تک جو کچھ کہا اس پر کوئی فرق نہیں پڑا تو آپ کسی اور مسجد میں نماز پڑھ لیا کریں یا اس اما م کے پیچھے نماز پڑھنے کے بعد اپنی نماز کی صحت میں شک ہو تو اطمینان قلبی کے لئے آپ اپنی نماز دوہرالیا کریں۔
نوٹ: اما م کے ہونٹ نہ ہلانے کا مقتدی کو کیسے پتا چلتاہے، یہ سمجھ میں نہیں آیا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 2513/45-3846
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بسم اللہ پڑھنے کے بہت سے فضائل احادیث میں مذکور ہیں، اور یقینا اس کی برکتیں بہت ہیں، اور یہ سعادتوں کی کنجی ہے، مگر مذکورہ واقعہ کی حقیقت کا علم نہیں ہے۔ کسی بزرگ کی مجلس کا واقعہ بیان کیاجاتاہے، اس کی صحت کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جاسکتی ہے۔ احادیث کے ذخیرہ کے ہوتے ہوئے اس طرح کے قصوں کو بیان کرنے سے احتراز کرنا چاہئے ۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مسلمانوں ہی کی طرف بھیجا تھا؛ اس لیے کہ مسلمانوں میں بعض لوگ قبروں کو بہت اونچا کردیتے تھے، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ قبروں کو ٹھیک کر دو یعنی ایک بالشت اونچا کرنا، جو عموماً قبر کی نکلی ہوئی مٹی سے ہی ہوجاتا ہے، اتنا تو شرعاً جائز بھی ہے اور مطلوب بھی ہے۔ احادیث سے اس کا مطلوب ہونا ثابت ہے؛ لیکن قبر کو اس سے زیادہ اونچا کرنا شرعاً درست نہیں؛ لہٰذا حدیث کے لفظ ’’سویتہ‘‘ سے مراد قبر کو شرعی حدود کے موافق اور ٹھیک کردینا ہے؛ نیز قبر پر قبے وغیرہ بنانا شرعاً جائز نہیںہے۔ احادیث وکتب فقہ میں اس کی ممانعت صراحت کے ساتھ ہے۔(۱)
(۱) عن أبي الہیاج الأسدي قال: قال لي علي ألا أبعثک علی ما بعثني علیہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أن لا تدع تمثالاً إلا طمستہ، ولا قبرا مشرفاً إلا سویتہ رواہ مسلم۔ قولہ أن لا تدع أي لا تترک (تمثالاً) أي صورۃ (إلا طمستہ) أي محوتہ وأبطلتہ والاستثناء من أعم الأحوال (ولا قبرا مشرفا) ہو الذي بني علیہ حتی ارتفع دون الذي أعلم علیہ بالرمل والحصباء، أو محسوسۃ بالحجارۃ لیعرف ولا یوطأ (إلا سویتہ) في الأزہار قال العلماء: یستحب أن یرفع القبر قدر شبر، ویکرہ فوق ذلک، ویستحب الہدم۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، باب دفن المیت‘‘: ج ۴، ص: ۶۸، رقم: ۱۶۹۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص134
طلاق و تفریق
Ref. No 2670/45-4135
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔
اسلام میں نکاح ایک پاکیزہ رشتے کا نام ہے،اسلام نے اس کی پائداری پر زور دیا ہے، اور اس کے لیے باہمی الفت ومحبت اور دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کی تلقین کی ہے لیکن اگر کسی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان نااتفاقی ہونے لگے تو پہلے دونوں خاندان کے بزرگ کو صلح کرانے کی کوشش کرنی چاہیے؛ کیوںکہ اسلام میں طلاق ناپسندیدہ فعل ہے اور بلا ضرورت اسکا استعمال درست نہیں ہے۔ پھر بھی اگر نباہ کی کوئی صورت نہ بن سکے اور فتنہ وفساد کا اندیشہ ہو تو ایک طلاق صریح دے کر دونوں کو الگ ہو جانے کا حکم ہے۔ ایک طلاق کے بعد اگر دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو عدت میں رجوع کے ذریعہ اور عدت کے بعد نکاح کے ذریعہ دونوں ساتھ رہ سکتے ہیں۔ ایک ساتھ تین طلاق دینا شرعاً گناہ ہے اور ملکی قانون کے مطابق قابل مواخذہ جرم ہے۔
بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں جب شوہر تین طلاق کا اقرار کررہاہے تو تین طلاقیں واقع شمار ہوں گی۔ طلاق کے لئے گواہ کا ہونا یا کسی کا سننا شرط نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللہ التوفیق: خنزیر کے بال ناپاک ہیں، جب کسی آدمی کے بدن یا کپڑے سے لگے۔ اگر خشک تھے، تو انسان کا بدن یا کپڑا ناپاک نہیں ہوا۔(۱)
(۱)کما لا ینجس ثوب جاف طاھر لف في ثوب نجس رطب لا ینعصر الرطب لو عصر… إلا أن یظھر أثرھا فیہ۔ (الشرنبلالی، نورالإیضاح، باب الأنجاس، ص:۵۳)؛ ولو مس کلباً أو خنزیراً أو وطیٔ نجاسۃ لا وضوء علیہ لإنعد ام الحدث حقیقۃ و حکما إلا أنہ إذا التزق بیدہ شيء من النجاسۃ یجب غسل ذلک الموضع و إلا فلا۔ (الکاساني، بدائع الصنائع ، باب نواقض الوضوء، ج۱، ص:۳۹؍۱۴۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص435
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:سوکر اٹھنے کے بعد اگر تری کے بارے میں منی ہونے کا یقین نہیں ہے؛ بلکہ سفید پانی یا مذی یا ودی ہونے کا یقین ہے تو غسل فرض نہیں ہوگا؛ بلکہ صرف وضو کرکے نماز ادا کرلے گی۔(۱)
(۱) ولا یجب اتفاقاً فیما إذا علم أنہ ودي مطلقاً وفیما إذا علم أنہ مذي أو شک في الأخرین مع عدم تذکر الاحتلام ویجب عند ہما فیما إذا شک في الأولین أو الطرفین أو في الثلاثۃ احتیاطاً ولا یجب عند أبي یوسف للشک في وجوب الموجب۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار’’کتاب الطہارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۰۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص349
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: بشرط صحت سوال اگر امام صاحب کے عقائد شرکیہ اور کفریہ نہ ہوں تو تنہا نماز پڑھنے سے بہتر ہے کہ آپ اسی امام صاحب کے پیچھے نماز ادا کریں ؛البتہ فقہاء نے بدعتی امام کے پیچھے نماز پڑھنے کو مکروہ لکھا ہے؛ لیکن بدعتی کے پیچھے پڑھی گئی نماز ہو جائے گی آپ کو جماعت کا ثواب بھی ملے گا۔
’’قال الحصکفي: ویکرہ تنزیہاً إمامۃ مبتدع لا یکفر بہا، وإن کفر بہا فلا یصح الاقتداء بہ أصلا … وقال: صلی خلف فاسق أو مبتدع، نال فضل الجماعۃ، قال ابن عابدین: قولہ: ’’نال فضل الجماعۃ‘‘ أفاد أن الصلاۃ خلفہما أولٰی من الإنفراد‘‘(۱)
’’(قولہ: وہي اعتقادالخ) عزا ہذا التعریف في ہامش الخزائن إلی الحافظ ابن حجر في شرح النخبۃ، ولایخفی أن الاعتقاد یشمل ما کان معہ عمل أو لا؛ فإن من تدین بعمل لا بد أن یعتقدہ … الخ‘‘(۲)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۶، ۲۹۸۔
(۲) أیضًا: ص: ۲۹۴۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص133
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق: کھڑے ہوکر سہارا لگاکر نماز پڑھانا درست نہیں ہے البتہ عذر کی صورت میں درست ہے؛ اس لیے بہتر ہے کہ امامت کے لیے دوسرا متبادل نظم کیا جائے بدرجۂ مجبوری مذکورہ شخص امامت کراسکتا ہے۔(۱)
(۱) (وللمتطوع الاتکاء علی شيء) کعصا وجدار (مع الإعیاء) أي التعب بلا کراہۃ وبدونہ یکرہ (و) لہ (القعود) بلا کراہۃ مطلقا ہو الأصح … (قولہ وبدونہ یکرہ) أي اتفاقا لما فیہ من إسائۃ الأدب … وظاہرہ أنہ لیس فیہ نہي خاص فتکون الکراہۃ تنزیہیۃ تأمل (قولہ ولہ القعود) أي بعد الافتتاح قائما (قولہ بلا کراہۃ مطلقا) أي بعذر ودونہ؛ أما مع العذر فاتفاقا، وأما بدونہ فیکرہ عند الإمام علی اختیار صاحب الہدایۃ، ولا یکرہ علی اختیار فخر الإسلام وہو الأصح لأنہ مخیر في الابتداء بین القیام والقعود فکذا في الانتہاء وأما الاتکاء فإنہ لم یخیر فیہ ابتداء بلا عذر بل یکرہ فکذا الانتہاء۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب صلاۃ المریض، مطلب في الصلاۃ في السفینۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۷۲)
ولو قدر علی القیام متکئا، الصحیح أنہ یصلي قائما متکئا ولا یجزیہ غیر ذلک وکذلک لو قدر علی أن یعتمد علی عصا أو علی خادم لہ فإنہ یقوم ویتکئ، کذا في التبیین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الرابع: في صلاۃ المریض‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۶، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص229
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: اصل ضابطہ شرعیہ تو یہی ہے کہ ان تینوں اوقات میں کوئی بھی نماز جائز نہیں، مگر فقہاء نے اس دن کی عصر کی نماز بوقت غروب بھی پڑھنے کی اجازت دی ہے، لیکن اس کی عادت بنا لینا اچھا نہیں ہے، کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو منافق کی نماز قرار دیا ہے۔(۱)
’’(وغروب، إلا عصر یومہ) فلا یکرہ فعلہ لأدائہ کما وجب بخلاف الفجر والأحادیث تعارضت فتساقطت کما بسطہ صدر الشریعۃ (قولہ: وغروب) أراد بہ التغیر کما صرح بہ في الخانیۃ حیث قال عند إحمرار الشمس إلی أن تغیب، (قولہ إلا عصر یومہ) قید بہ لأن عصر أمسہ لا یجوز وقت التغیر لثبوتہ في الذمۃ کاملا الخ وعن أنس رضي اللّٰہ عنہ، قال: سمعت رسول اللّٰہ یقول تلک صلوٰۃ المنافق یجلس یرقب الشمس حتی إذا کانت بین قرني الشیطان قام ینقر أربعاً لا یذکر اللّٰہ فیہا إلا قلیلاً۔
وعند إحمرارہا إلی أن تغیب إلا عصر یومہ ذلک فإنہ یجوز أداؤہ عند الغروب‘‘(۱)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الأول في المواقیت ومایتصل بہا‘‘: الفصل الثالث: في بیان الأوقات التي لاتجوز فیہا الصلاۃ وتکرہ فیہا، ج ۱، ص: ۱۰۸؛ وابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، مطلب: یشترط العلم بدخول الوقت‘‘: ج۲، ص: ۳۲،۳۳۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص102
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: ٹانگوں سے معذور شخص بیٹھ کر اذان دے سکتا ہے، البتہ غیر معذور کے لیے بیٹھ کر اذان دینا مکروہ ہے۔
’’عن الحسن بن محمد قال دخلت علي أبي زید الأنصاري فأذن وأقام وہو جالس إلی عن عطاء بن أبي رباح أنہ قال یکرہ أن یؤذن قاعدا إلا من عذر‘‘(۱)
’’ویکرہ أذان جنب وإقامۃ محدث لا أذانہ وأذان إمرأۃ وفاسق وقاعد إلا إذا أذن لنفسہ‘‘(۲)
(۱) السنن الکبیري للبیہقي: ج ۲، ص: ۱۴۱، رقم: ۱۸۸۳، دار الفکر؛ المصنف لابن أبي شیبۃ، في مصنفہ، ج ۲، ص: ۳۴۱؛
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان: مطلب في المؤذن إذا کان غیر محتسب في أذانہ‘‘: ج ۲، ص: ۶۰، زکریا۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص238