Frequently Asked Questions
Fiqh
Ref. No. 40/1163
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
Islam commands the one who has orphans under his care to look after them properly and raise them well, and if they have wealth he is to guard it. A stern warning has been given in the Quran against those who use up the orphan’s wealth unjustly. Quran says: “Verily, those who unjustly eat up the property of orphans, they eat up only a fire into their bellies, and they will be burnt in the blazing Fire!”Surah An-Nisa (4:10)
When this verse was revealed, the Sahaba avoided eating with orphans. Even they threw the food left over by the orphan but they couldn’t eat. So another Quranic verse was revealed: “And they ask you concerning the orphans, Say: To set right for them (their affairs) is good, and if you become copartners with them, they are your brethren; and Allah knows the mischief-maker and the pacemaker. So the scholars say that the orphan’s wealth in the hands of guardian is an amanat (trust), which gave the guardians permission to eat with the orphans without crossing the limit. The guardians must look after the wealth of orphan and can eat with them without misusing his wealth. If the guardian is poor, he can eat from the wealth of the orphan for his services. The sincere guardians are advised to invest his wealth in business to increase his assets so that it will not end when he is in need at later stages of life.
Now you are advised to separate the orphan’s share from your all wealth and put it aside then take out monthly expenditure from it and spend jointly with your wealth. The shariah insists on not usurping the orphans’ shares and forbids misusing it. If you are needy, you can take from the wealth of orphans meant for your services with no intention of usurping. May Allah help you in this very important matter!
و فی الاستحسان یجوز ان یاکل بالمعروف اذا کان محتاجا بقدر ما سعی (رد المحتار، باب الوصی، 713/6)
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 41/1002
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
A woman in period will perform all the hajj rituals except tawaf. A menstruating woman cannot do any kind of Tawaf. Although, if a woman finds no chance to do Tawaf e Ziyarat while it is Fardh, she is allowed to perform only Tawafe Ziyarat even being in period. But there must be a penalty on her for this offence. So she must slaughter an animal, such as camel and cow, in the Haram premises. For details, read the Hajj related books.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
متفرقات
Ref. No. 1100/41-291
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس طرح جانور پال پر دینا جائز نہیں ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھیں: Ref. No. 927/41-53B
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1203/42-502
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اسلام میں نماز کا جو حکم ہے وہ مسجد کی جماعت کے ساتھ مطلوب ہے۔ اسی لئے مسجد چھوڑکر جو لوگ گھروں میں نماز پڑھتے تھے، ان پر آپ ﷺ نے ناراضگی کا اظہار فرمایا تھا، اس لئے حتی الامکان مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کی کوشش کرنی چاہئے تاہم اگر کسی وجہ سے مسجد نہ جاسکیں تو باقی لوگوں کو چاہئے کہ دوکان میں ہی باجماعت نماز پڑھیں کہ کم از کم جماعت کے ثواب سے محروم نہ ہوں۔
صلوۃ الجماعۃ تفضل صلوۃ احدکم بسبع و عشرین درجۃ (مسند احمد شاکر، سند عبداللہ بن عمر، 5/239، حدیث نمبر 5779)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 1649/43-1232
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔یہ دلالی کا کام ہے، اور علماء نے ضرورت کے پیش نظر اس کی اجازت دی ہے۔ ایک آدمی جائز کام کرتاہے مگر کچھ رکاوٹیں آتی ہیں ، اور کام کا مکمل تجربہ نہیں ہوتاہے اور کام میں خطرہ کم سے کم مول لینا چاہتاہے تو وہ دلال سے ایک معاملہ طے کرلیتاہے، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور ایسے آدمی کا پیسہ لینا بھی درست ہے۔ البتہ اگر خلاف قانون کام ہو تو اس سے بچنا ضروری ہوگا تاکہ مال، عزت وآبرو کی حفاظت برقرار رہے۔
عن الحکم وحماد عن إبراہیم وابن سیرین قالوا: لا بأس بأجر السمسار إذا اشتری یدا بید۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ، في أجر السمسار، موسسۃ علوم القرآن ۱۱/ ۳۳۹، رقم: ۲۲۵۰۰)وفي الدلال والسمسار یجب أجر المثل۔ وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمۃ عن أجرۃ السمسار، فقال: أرجو أنہ لا بأس بہ، … لکثرۃ التعامل۔ (شامي، کتاب الإجارۃ، مطلب في أجرۃ الدلال، کراچی ۶/ ۶۳، زکریا ۹/ ۸۷، تاتارخانیۃ، زکریا ۱۵/ ۱۳۷، رقم: ۲۲۴۶۲)
قال في الشامیۃ عن البزازیۃ: إجارۃ السمسار والمنادی والحمامي والصکاک وما لا یقدر فیہ الوقت ولا العمل تجوز لما کان للناس بہ حاجۃ، ویطیب الأجر المأخوذ لو قدر أجر المثل۔ (شامي، کاب الإجارۃ، باب الإجارۃ الفاسدۃ، زکریا ۹/ ۶۴، کراچی ۶/ ۴۷، بزازیۃ، زکریا جدید ۲/ ۲۳، وعلی ہامش الہندیۃ ۵/ ۴۰) وأما الدلال: فإن باع العین بنفسہ بإذن ربہا (تحتہ في الشامیۃ) فتجب الدلالۃ علی البائع أو المشتري أو علیہما بحسب العرف۔ (شامي، کتاب البیوع، قبیل مطلب في حبس المبیع لقبض الثمن … زکریا ۷/ ۹۳، کراچی ۴/ ۵۶۰، تنقیح الفتاوی الحامدیۃ ۱/ ۲۴۷)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 1933/43-1832
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مندرجہ ذیل وظیفہ پڑھیں ان شاء اللہ مرض سے شفاء ہوگی۔:
سورہ فاتحہ – تین بار پڑھ کر سینے پر دم کریں۔
الذین آمنوا وتطمئن قلوبھم بذکراللہ، الا بذکر اللہ تطمئن القلوب ۔ سینے پر ہاتھ رکھ کر سات مرتبہ پڑھیں۔
یا قوی قونی وقلبی – سینے پر ہاتھ رکھ کر سات مرتبہ پڑھیں
معوذتین – سات مرتبہ سونے کے وقت پڑھیں
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 2176/44-2302
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سوال میں تھوڑا ابہام ہے، اگر آپ کا سوال یہ ہے کہ ایک مدرسہ کے تحت فلاحی اسپتال ہے جس میں میڈیکل اسٹور آپ ماہانہ کرایہ پر چلاتے ہیں یعنی مدرسہ کے اسپتال کے تحت آپ کا میڈیکل اسٹور ہےجو آپ ماہانہ کرایہ پر چلاتے ہیں یہ میڈیکل اسٹور آپ کا ذاتی ہے جو آپ نے اپنے پیسوں سے بنایا ہے اور میڈیکل اسٹور کھولتے وقت مدرسہ یا اسپتال سے آپ کا کوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا تو ادارے کا ماہانہ آمدنی ظاہر کرنے کا مطالبہ درست نہیں ہے ۔ اگر سوال میں مزید کچھ وضاحت ہو تو دوبارہ سوال کریں۔ باقی معاملہ کی تفصیل چونکہ سوال میں نہیں ہے اس لئے واضح جواب نہیں لکھاجاسکتا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:انبیاء کے معصوم ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے اندر گناہ کی بالکلیہ صلاحیت نہیں ہوتی ہے۔ انبیاء کرام بشر ہوتے ہیں اور ان کے اندر بھی بشری تقاضے ہوتے ہیں، مگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسا نظام ہے کہ ان کی گناہوں سے حفاظت ہوتی ہے۔ اور انبیاء کرام گناہوں سے بچنے میں بے اختیار نہیں ہیں؛ بلکہ بااختیار ہیں، اوراپنے اختیار سے گناہوں سے بچنا یقینا کمال ہے۔(۱)
(۱) إن الأنبیاء معصومون۔ (علامہ سعد الدین تفتازاني، شرح العقائد النسفیۃ، ’’أول الأنبیاء آدم -علیہ السلام-وآخرہم محمد -صلی اللّٰہ علیہ وسلم-‘‘: ص: ۱۳۹)
والأنبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کلہم منزہون عن الصغائر والکبائر والکفر والقبائح … أي جمیعہم الشامل مرسلہم ومشاہیر ہم وغیرہم أولہم آدم علیہ الصلاۃ والسلام علی ما ثبت بالکتاب والسنۃ وإجماع الأمۃ … منزہون أي معصومون من جمیع المعاصي۔ (أبو حنیفۃ -رحمہ اللّٰہ-، شرح الفقہ الأکبر، ’’بحث في أن الأنبیاء منزہون عن الکبائر والصغائر‘‘: ص: ۹۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص210
اسلامی عقائد
الجواب وبا اللّٰہ التوفیق:(۱) نوٹوں کا ہار گلے میں ڈالنا غیروں کا طریقہ ہے، اس کو اختیار کرنا درست نہیں ہے اور مسرت وخوشی کے موقعہ پر پھولوں کا ہار ڈالنے میں مضائقہ نہیں؛ بشرطیکہ کسی غیر قوم کا شعار نہ ہو اور اس کو ضروری بھی نہ سمجھا جائے۔(۱)
(۲) اگر اس کو لازم نہ سمجھا جائے تو درست ہے؛ بلکہ دینے والے ہدیہ کے طور پر دیدیا کریں تو اس میں ثواب بھی ہے؛ لیکن آج کل یہ ایک رسم بن چکی ہے اور خوشی سے نہیں دیا جاتا؛ بلکہ بعد میں اس کو اپنی شادی میں وصول کرنا مقصود ہوتا ہے اور نہ دینے پر ناگواری ہوتی ہے؛ اس لئے بچنا ضروری ہے۔(۱)
(۳) بغرض اعلان نکاح دف بجانا درست ہے(۲) باجہ وغیرہ درست نہیں ہے، یہ فضول خرچی واسراف ہے، شادی میں سادگی مطلوب ہے۔(۳)
(۴) قطعاً جائز نہیں ہے۔
(۵) کھانا کھانا جائز ہے؛ مگر استطاعت سے زیادہ لڑکی والوں پر بوجھ نہ رکھا جائے۔(۴)
مذکورہ امور اگر ثواب سمجھ کرکیے جاتے ہیں تو بدعت ہیں۔
(۱) عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من تشبہ بقوم فہو منہم۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الباس: باب في لبس الشہرۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۵۹، رقم: ۴۰۳۱)
مسلم را تشبہ بکفار حرام است۔ (ثناء اللہ پانی پتی، مالا بد منہ: ص: ۱۳۳)
(۱) {وَمَآ أَتَیْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّیَرْبُوَاْ فِيْٓ أَمْوَالِ النَّاسِ فَلاَ یَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰہِج} (سورۃ الروم: ۳۹)
عن أبي حرۃ الرقاشي عن عمہ رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: ألا لا تظلموا ألا لا یحل مال إمرئ إلا بطیب نفس منہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب البیوع: الفصل الثاني: باب الغصب والعاریۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۵، رقم: ۲۹۴۶)
(۲) أعلنوا ہذا النکاح واجعلوہ في المساجد واضربوا علیہ بالدفوف۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب النکاح، باب ما جاء في إعلان النکاح‘‘: ج ۲،ص: ۳۹۰، رقم: ۱۰۸۹)
(۳) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إن أعظم النکاح برکۃ أیسرہ مؤنۃ،ر واہ البیہقي في شعب الإیمان۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب النکاح: الفصل الثالث‘‘: ج ۶، ص: ۲۵۰، رقم: ۳۰۹۷)
(۴) لڑکی والے بغیر التزام کے اپنی مرضی سے کھانا دیدیں تو مباح ہے نہ دیں تو کوئی الزام نہیں ہے۔ (کفایۃ المفتی: ج ۷، ص: ۴۷۱، فاروقیہ) جو لوگ لڑکی والے کے مکان پر مہمان آتے ہیں اور ان کا مقصود شادی میں شرکت کرنا ہے اور ان کو بلایا بھی گیا ہے، تو آخر وہ کھانا کہاں جاکر کھائیں گے، اپنے مہمان کو کھلانا تو شریعت کا حکم ہے۔ (فتاوی محمودیہ: ج ۱۲، ص: ۱۴۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص424
فقہ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:یقینا موجودہ حالات کا علم رکھنا ایک مفتی کے لیے انتہائی ضروری ہے، ان حالات کو جانے بغیر صحیح رائے نہیں دی جاسکتی، علاوہ ازیں بہت ساری چیزیں عام حالات میں ناجائز ہوتی ہیں، مگر خاص حالات میں ان کی اجازت مع شرائط دی جاتی ہے۔ (۱)
(۱) من جہل بأہل زمانہ فہو جاہل۔ (مجموعہ رسائل ابن عابدین: ج ۲، ص: ۱۳۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص145