اسلامی عقائد

Ref. No. 799/41-1000

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جی یہ حدیث بخاری وغیرہ متعدد کتب حدیث میں ہے، "ان اللہ خلق آدم علی صورتہ " کہ اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کو اپنی صورت پر پیداکیا ہے، یہاں "ہ" ضمیر بعض لوگوں کے نزدیک خود حضرت آدم علیہ السلام کی طرف لوٹ رہی ہے، یعنی آدم کو ان کی اپنی صورت پر بنایا ہے، لیکن صحیح یہ ہے کہ "ہ" ضمیر اللہ کی طرف لوٹ رہی ہے، اس لئے کہ بعض روایت میں "صورۃ الرحمن" بھی ہے۔ اور صورت سے مراد صفت ہے، حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے حضرت آدم کو اپنی صفت کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ (فیض الباری 6/187)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2037/44-2012

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ امام کا محراب میں کھڑا ہونا اس لئے مکروہ  قراردیاگیا کہ اس کی حالت مقتدیوں سے اوجھل یا علیحدہ نہ رہے۔ تنہا اگر کوئی فرض یا نفل نماز محراب میں پڑھے تو اس میں کوئی کراہت نہیں ہے البتہ محراب میں کھڑے ہونے سے دیکھنے والوں کو شبہہ ہوسکتاہے  کہ جماعت سے کوئی نماز ہورہی ہے، اس لئے ایسا کرنا مناسب نہیں ہے۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 2242/44-2384

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جس طرح دیگر تجارتی انشورنس خریدنا بلاشدید مجبوری کے جائز نہیں ہے، اسی طرح موبائل کا انشورنس خریدنا بھی جائز نہیں ہے، کیونکہ اس میں بھی  جہالت اور دھوکہ ہے۔ یعنی ایسا ممکن ہے کہ آپ کا موبائل بالکل خراب نہ ہو تو آپ نے انشونس کے نام پر جو پیسے جمع کئے وہ ڈوب گئے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کا موبائل خراب ہو جائے اور اس کی اصلاح میں آپ کی جمع شدہ رقم سے کئی گنا زیادہ رقم انشورنس کمپنی کو برداشت کرنا پڑے، بس یہی سود ، دھوکہ اور جہالت کا مفہوم ہے، اس لئے موبائل کا انشونس شرعا جائز نہیں ہے۔

"لأن القمار من القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى، وسمي القمار قماراً لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص". (شامی، کتاب الحظر و الاباحۃ، فصل فی البیع، ج:۶ ؍۴۰۳ ،ط:سعید)

"أنواع التأمين:التأمين من حيث الشكل نوعان: ۱  - تأمين تعاوني ...

۲  - تأمين تجاري أو التأمين ذو القسط الثابت، وهو المراد عادة عند إطلاق كلمة التأمين، وفيه يلتزم المستأمن بدفع قسط معين إلى شركة التأمين القائمة على المساهمة، على أن يتحمل المؤمن (الشركة) تعويض الضرر الذي يصيب المؤمن له أو المستأمن. فإن لم يقع الحادث فقد المستأمن حقه في الأقساط، وصارت حقا للمؤمن. وهذا النوع ينقسم من حيث موضوعه إلى:

 ۱  - تأمين الأضرار: وهو۔۔۔۔۔۔ ۲  - وتأمين الأشخاص: وهو يشمل:

التأمين على الحياة: وهو أن يلتزم المؤمن بدفع مبلغ لشخص المستأمن أو للورثة عند الوفاة، أو الشيخوخة، أو المرض أو العاهة، بحسب مقدار الإصابة.

والتأمين من الحوادث الجسمانية: وهو أن يلتزم المؤمن بدفع مبلغ معين إلى المؤمن له في حالة إصابته أثناء المدة المؤمن فيها بحادث جسماني، أو إلى مستفيد آخر إذا مات المستأمن ... أما التأمين التجاري أو التأمين ذو القسط الثابت: فهو غير جائز شرعا، وهو رأي أكثر فقهاء العصر ... وسبب عدم الجواز يكاد ينحصر في أمرين: هما الغرر والربا. أما الربا: فلا يستطيع أحد إنكاره؛ لأن عوض التأمين ناشئ من مصدر مشبوه قطعا؛ لأن كل شركات التأمين تستثمر أموالها في الربا، وقد تعطي المستأمن (المؤمن له) في التأمين على الحياة جزءا من الفائدة، والربا حرام قطعا في الإسلام ... والربا واضح بين العاقدين: المؤمن والمستأمن، لأنه لا تعادل ولا مساواة بين أقساط التأمين وعوض التأمين، فما تدفعه الشركة قد يكون أقل أو أكثر، أو مساويا للأقساط، وهذا نادر۔ والدفع متأخر في المستقبل. فإن كان التعويض أكثر من الأقساط، كان فيه ربا فضل وربا نسيئة، وإن كان مساويا ففيه ربا نسيئة، وكلاهما حرام ...

 (الفقہ الاسلامی و ادلتہ،القسم الثالث:العقوداو التصرفات المدنیۃ،انواع التامین،ج:۵ ؍۳۴۲۱۔۔۳۴۲۵،ط:دارالفکر)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اللہ تعالیٰ تمام زبانوں کے خالق ہیں، اس لئے ہرطرح کی زبان کا پورا علم اللہ تعالیٰ رکھتے ہیں۔(۱) لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تمام زبانیں نہیں بولتے تھے۔(۲)

(۱) {وَمِنْ أٰیٰتِہٖ خَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافُ أَلْسِنَتِکُمْ وَ أَلْوَانِکُمْ ط} (سورۃ الروم: ۲۲)
(۲) عن زید بن ثابت -رضي اللّٰہ عنہ- قال: قال لي النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إني أکتب إلی قوم فأخاف أن یزیدوا عليّ أو  ینقصوا فتعلم السریانیۃ فتعلمتہا في سبعۃ عشر یوماً۔ (ابن حجر عسقلاني، الإصابۃ في تمییز الصحابۃ، زید بن ثابت‘‘: ج ۲، ص: ۲۳)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص214

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بریلوی جو مصافحہ نماز کے بعد کرتے ہیں اس کو لازم اور ضروری سمجھ کر کرتے ہیں اور مصافحہ نہ کرنے والوں کو لعن طعن کرتے ہیں جس سے التزام مترشح ہوتا ہے، جس کی وجہ سے اس کو بدعت ہی کہا جائے گا اور جماعت میں جاتے وقت جو مصافحہ کرتے ہیں، اس کو نہ تو ضروری سمجھا جاتا ہے اور نہ اس کا التزام ہوتا ہے؛ بلکہ رخصتی کے لئے کرتے ہیں یا باہر سے آنے والے واعظ سے مصافحہ کرتے ہیں، پھر اس میں سب لوگ نہیں کرتے؛ بلکہ بعض کرتے ہیں اور بعض چھوڑ دیتے ہیں اور چھوڑنے والوں کو لعن طعن نہیں کیا جاتا؛ اس لیے یہ بدعت نہیں ہے۔(۱)

۱) وقد صرح بعض علمائنا وغیرہم بکراہۃ المصافحۃ المعتادۃ عقب الصلوٰۃ مع أن المصافحۃ سنۃ وما ذلک إلا لکونہا یم تؤثر في خصوص ہذا الموضع فالمواظبۃ علیہا توہم العوام بأنہا سنۃ فیہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في دفن المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۱)
ویکرہ أن یقبل الرجل فم الرجل أو یدہ أو شیئاً منہ في قول أبي حنیفۃ رضي اللّٰہ عنہ۔
(وکذا) ما یفعلونہ من تقبیل (الأرض بین یدي العلماء) والعظماء فحرام والفاعل والراضي بہ أثمان: لأنہ عبادۃ الوثن وہل یکفر إن علی وجہ العبادۃ والتعظیم کفر وإن علی وجہ التحیۃ لا وصار آثماً مرتکباً للکبیرۃ والملتقط التواضع بغیر اللّٰہ حرام۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ، باب الاستبراء وغیرہ‘‘: ج ۹، ص: ۵۴۶)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص534

فقہ

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کسی زمانہ میں پیش آنے والے مسئلے کے حکم شرعی پر اس زمانہ کے تمام مجتہدین کا متفق ہونا اجماع کہلاتا ہے، تعریف سے معلوم ہوتا ہے کہ آج بھی اجماع ہو سکتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ یہ امت کسی غلط بات پر متفق نہیں ہو سکتی ہے گویا امت اپنی اجتماعی حیثیت میں معصوم ہے۔
’’الإجماع في اللغۃ العزم وفي الاصطلاح اتفاق المجتہدین من أمۃ محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم في عصر علی أمر دینی وأیضاً: العزم التام علی أمر من جماعۃ أہل الحل والعقد‘‘(۱)
اجماع کے سلسلے میں ضروری ہے کہ اس عہد کے تمام مجتہدین کسی مسئلے پر متفق ہوں یا اکثر متفق ہوں پھر چند لوگوں کا اختلاف مضر نہیں ہوگا؛ لیکن اگر دونوں طرف مجتہدین کی جماعت ہو تو اس کو اجماع سے تعبیر نہیں کیا جائے گا، مثلاً: موجودہ دور میں جو سیمینار ہوتے ہیں ان میں اگر کسی مسئلے پر تمام حضرات کی ایک رائے ہوتی ہے اور دو تین لوگ اس سے اختلاف کرتے ہیں تو اس کو اجماعی مسئلہ ہی کہا جاتا ہے؛ لیکن اگر دونوں طرف اہل علم کی رائے ہو تو پھر اس کو متفقہ فیصلہ نہیں کہا جاتا؛ بلکہ یہ لکھا جاتا ہے کہ اس مسئلہ میں اہل علم کی دو رائے ہیں۔

(۱) قواعد الفقہ: ص: ۱۶؛ المدخل إلی الفتاوی علی الہندیۃ: ج ۱، ص: ۳۴، فقہ إسلامي تدوین وتعارف: ص: ۴۸)
وفي أصول السرخسي إجماع الأمۃ موجب للعلم قطعاً کرامۃ لہم علی الدین لإنقطاع توہم إجتماعہم علی الضلال، وہذا مذہب الفقہاء وأکثر المتکلمین وہذا الإجماع حجۃ موجبۃ شرعاً۔ (المدخل إلی الفتاویٰ علی الہندیۃ: ج ۱، ص: ۳۵)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص149

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:درود ناریہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے؛بلکہ اکابر کا مستند ومجرب وظیفہ رہا ہے اور مصائب وپریشانیوں سے نجات کے لیے اس کا ورد مجرب ہے۔(۱)
(۱) عن عبد الرحمن بن أبي لیلی قال: لقیني کعب بن عجرۃ فقال ألا! أُہدي لک ہدیَّۃ سمعتہا من النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فقلت: بلی فأہدہا لي، فقال: سألنا رسول اللّٰہ علیہ وسلم، فقلنا: یا رسول اللّٰہ! کیف الصلاۃ علیکم أہل البیت فإن اللّٰہ قد علمنا کیف نسلم علیکم، قال: قولوا! اللہم صل علی محمد، وعلی آل محمد کما صلیت علی إبراہیم، وعلی آل إبراہیم إنک حمید مجید۔ اللّٰہم بارک علی محمد وعلی آل محمد کما بارکت علی إبراہیم، وعلی آل إبراہیم إنک حمید مجید۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأنبیاء علیہم السلام: باب یزفون النسلان في المشي‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۷، رقم: ۳۳۷۰)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص362

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق :جیل کریم جس سے بال اپنی جگہ ٹکے رہتے ہیں، وہ تیل کے ہی حکم میںہے اور وہ بالوں تک پانی کے پہنچنے سے مانع نہیں ہوتا؛ اس لیے جیل کریم کے لگے ہوئے ہونے کی حالت میں مسح کرنا جائز ہے۔(۲)

(۲) ولا یمنع (ما علی ظفر صباغ) ولا (طعام بین أسنانہ) أوفي سنہ المجوف بہ یفتی و قیل إن صلبا منع وھو الأصح۔ ( ابن عابدین ، رد المحتار مع الدر المختار، ’’مطلب في أبحاث الغسل تنبیہ، لا یمنع الطھارۃ کالطعام بین الأسنان وضوء ا کان أو غسلا لأنھا لا تمنع نفوذ الماء (علی حیدر، درر الحکام شرح غرر الأحکام، ’’فرائض الوضوء‘‘،ج۱، ص:۹)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص277

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر ٹرین کے ڈبے میں پانی ختم ہوجائے، دوسرے ڈبے میں بھی پانی نہ ہو، نہ قریب میں پانی ملنے کا امکان ہو، پانی کو خریدنا بھی اس کے لیے ممکن نہ ہو یا مناسب قیمت پر پانی دستیاب نہ ہو اور پانی ملنے تک نماز کے قضا ہونے کا اندیشہ ہو، تو اخیر وقت تک انتظار کرے اور جب وقت کے ختم ہونے کا خدشہ ہو، تو تیمم کرکے نماز پڑھ لے اور ٹرین کے باہری حصہ پر جو غبار ہوتا ہے اس پر تیمم کیا جاسکتا ہے۔ ھو لمحدث و جنب و حائض و نفساء لم یقدروا علی الماء أي علی ماء یکفی لطھارتہ (۱) و منہ خوف عدو آدمي أو غیرہ سواء خافہ علی نفسہ أو مالہ أو أمانتہ أو خافت فاسقا عند الماء أو خاف المدیون المفلس الحبس و منہ و عطش سواء خافہ حالا أو مآلا علی نفسہ أو رفیقہ في القافلۃ أو دابتہ (۲) و کذا یجوز بالغبار مع القدرۃ علی الصعید عند أبی حنیفۃ و محمد لأنہ رقیق ۔(۳)

(۱) عبیداللّٰہ بن سعود، شرح وقایہ، ’’کتاب الطہارۃ، باب التیمم‘‘ ج ۱،ص:۸۸
(۲) حسن بن عمار، مراقي الفلاح شرح نورالإیضاح، ’’باب التیمم‘‘ ج۱، ص:۴۸
(۳) المرغیناني، الہدایۃ،’’کتاب الطہارات، باب التیمم‘‘ ج۱، ص:۵۱

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص362

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: خالد کے جو حالات مذکورہ سوال میں ذکر کیے گئے ہیں ان کی رو سے خالد کے فاسق ہونے میں شک کی بھی گنجائش نہیں ہے۔ وہ درس وتدریس کی خدمت انجام دینے کا بھی اہل نہیں ہے؛ بلکہ مدرسہ کی ملازمت اور امامت تو بڑی چیز ہے وہ اس کا بھی اہل نہیں ہے کہ اس سے تعلقات رکھے جائیں۔ قرآن میں ہے کہ {وَلَا تَرْکَنُوْٓا إِلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُلا}(۱) اس کو پنج وقتہ نماز کے لیے ہو یا عیدین کی نماز ہو، امام بنانا مکروہ تحریمی ہے۔

در مختار میں ہے: ’’وتکرہ إمامۃ عبد وفاسق وقال في رد المحتار وأما الفاسق فقد عللوا کراہۃ تقدیمہ بأنہ لایتہم لأمر دینہ وبأن في تقدیمہ للإمامۃ تعظیمہ وقد وجب علیہم إہانتہ‘‘(۱)
معلوم ہوا کہ وہ اس قابل ہر گز نہیں ہے کہ مدرسی یا امامت جو کہ باعزت عہدہ ہے اس کو دیئے جائیں؛ بلکہ وہ واجب الاہانت ہے، اپنے مذکورہ کردار اور افعال کی وجہ سے ہے؛ نیز شامی میں ہے ’’بل في شرح المنیہ علی أن کراہۃ تقدیمہ کراہۃ تحریم‘‘(۲) پس ضروری ہے کہ کسی بھی نماز کے لیے اس کو امام نہ بنائیں، اس کو امام بنانے والے گنہگار ہوں گے اور اس کو مدرسی سے بھی فوراً الگ کر دیا جائے۔

(۱) سورۃ الہود: ۱۱۳۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۹۔
(۲) أیضًا:۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص149