اسلامی عقائد

Ref. No. 1428/42-866

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔عارش“ کے معنی ہیں: جانوروں کا باڑا بنانے والا، ٹٹی (چھپر وغیرہ) بنانے والا، حیران۔ (القاموس الوحید )۔ عارش نام رکھنے کی گنجائش ہے تاہم یہ  بہت مناسب نام نہیں ہے، اس لئے کوئی دوسرا نام تجویز کرلیں تو اچھاہے۔ اچھے ناموں کا بچوں پر اثر ہوتا ہے اس لئے اچھے معنی والا نام ہی تجویز کرنا چاہئے۔  عبداللہ، عبدالرحمن، حسّان ، حذیفہ، خالد، طلحہ، سلمان، معاویہ، جعفر، بلال، عمار، حسن ، حسین وغیرہ ناموں میں سے بھی  کوئی نام تجویز کرسکتے ہیں۔  عن ابن عمر قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان احب اسمائکم الیٰ اللّٰہ عبداللّٰہ وعبد الرحمن۔(مسلم شریف ،ج۲؍ص۲۰۶)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 1137/43-1317

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ میاں بیوی کا جنسی تسکین کے لئے مذکورہ صورت اختیار کرنا مناسب نہیں ہے۔ اور غلبہ کے وقت عورت کا خود کو اس طرح تسکین دینا بھی درست نہیں ہے، احتراز اور خود پر کنٹرول کرنا ضروری ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 2331/44-3500

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عاقلہ بالغہ عورت شدید مجبوری میں پورے پردہ کا اہتمام کرتے ہوئے اگر جائے تو اس کی اجازت ہوگی، تاہم اگر مسافت سفر پر جاناپڑے تو کسی محرم یعنی بھائی، چچا یا ماموں کو ساتھ لے کر جانا ضروری ہوگا۔

"عن عبد الله بن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «لايحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر، تسافر مسيرة ثلاث ليال، إلا ومعها ذو محرم»". (الصحیح لمسلم، 1/433، کتاب الحج، ط: قدیمی)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:میت کا تیجہ،د سواں وغیرہ کرنا التزام مالایلتزم کے قبیل سے ہو کر بدعت ہے، اس کو ترک کرنا چاہئے، ورنہ تو اس کامرتکب گناہگار ہوگا اور اس میں چنے کا پڑھنا بھی رسم و رواج ہے کہ پھر ان کو تقسیم کیا جاتا ہے، غم کے موقع پر ایسا عمل درست نہیں ہے(۱)؛ بلکہ بلا التزام واہتمام وبلا لالچ طعام وغیرہ خلوص دل سے اگر جمع ہو کر کچھ لوگ کلمہ طیبہ وغیرہ پڑھ کر ایصالِ ثواب کردیں جس میں دن کی تعیین مروجہ طریقہ پر نہ ہو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔

(۱) ومن البدع الإضافیۃ التي تقرب من الحقیقۃ أن یکون أصل العبادۃ مشروعا إلا أنہ تخرج عن أصل شرعیتہا بغیر دلیل توہما أنہا باقیۃ علی أصلہا تحت مقتضي الدلیل، وذلک بأن یقید إطلاقہا بالرأي، أو یطلق تقییدہا وبالجملۃ فتخرج عن حدہا الذي حد لہا، ومن ذلک قراء ۃ القرآن بہیئۃ الاجتماع، وہذا کلہ إن فرضنا أصل العبادۃ مشروعاً، فإن کان أصلہا غیر مشروع فہي بدعۃ حقیقیۃ مرکبۃ۔ (أبو إسحاق الشاطبي، کتاب الاعتصام: ج ۲، ص: ۳۰۹)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص408

 

متفرقات

Ref. No. 2508/45-3843

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ زید کے قول 'تجھے دوبارہ نکاح  کرنا پڑے گا ' سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔ اسی طرح طلاق دیدوں گا، وعدہ طلاق ہے ، اظہار ناراضگی ہے،اس سے بھی  کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ہے۔ لہذا زید کا نکاح اپنی بیوی کے ساتھ باقی ہے۔

بخلاف قوله :”طلاق كنملأنه استقبال فلم يكن تحقيقا بالتشكيك . وفي المحيط ”لو قال بالعربية :أطلق لا يكون طلاقا إلا إذا غلب استعماله للحال فيكون طلاقا .... سئل نجم الدين عن رجل قال لامرأته :اذهبي إلى بيت أمك .فقالت :”طلاق ده تابروم“فقال :”تو برو من طلاق دمادم فرستم “،قال :لا تطلق ؛لأنه وعد كذا في الخلاصة . (الهندية: (384/1، ط: دار الفکر)

صيغة المضارع لا يقع بها الطلاق إلا إذا غلب في الحال كما صرح به الكمال بن الهمام (تنقيح الفتاوى الحامدية: (38/1، ط: دار المعرفة)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بعض معتبر تفاسیر میں ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کا نکاح زلیخا سے ہوا ہے؛ چنانچہ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب کی تفسیر معارف القرآن میں ہے  بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ اس زمانہ میں عزیز مصر (قطمیر) کا انتقال ہوگیا تو شاہ مصر نے حضرت یوسف علیہ السلام سے ان کی شادی کرادی۔ حضرت مولانا محمد ادریس صاحب کاندھلوی اپنی تفسیر معارف القرآن میں لکھتے ہیں کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے زلیخا کے بطن سے دو لڑکے بھی پیدا ہوئے، ایک کا نام افرایم، دوسرے کا نام منشا تھا۔ تفسیر قرطبی، تفسیر ابن کثیر، معارف القرآن میں دوسری جگہ تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے ایک سو دس سال یا ایک سو سات سال کی عمر میں وفات پائی اور عزیز مصر کی عورت کے بطن سے ان کے دو لڑکے پیدا ہوئے اور ایک لڑکی بھی پیدا ہوئی۔ ایک کا نام افرایم، دوسرے کا نام میشا تھا اور لڑکی کا نام رحمت تھا، جو حضرت ایوب علیہ السلام کے نکاح میں آئیں۔(۱)

(۱) وکان الذي اشتراہ من مصر عزیز ہا وہو الوزیر: حدثنا العوفي عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، وکان إسمہ قطفیر، وقال محمد بن إسحاق: اسمہ أطفیر بن روحیب وہو العزیز وکان علی خزائن مصر، وکان الملک یومئذ الریان بن الولید رجلٌ من العمالیق۔ وقال: وإسم إمرائۃ واعیل بنت دعائیل، وقال غیرہ إسمہا زلیخا۔ (ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، ’’سورۃ یوسف‘‘: ج ۴، ص: ۳۲۴)
وقال اشتراہ من مصر یعني قطفیر لإمراء تہ إسمہا راعیل وقیل زلیخا۔ (محمد ثناء اللّٰہ پاني پتیؒ، تفسیر المظہري، ’’سورۃ یوسف‘‘: ج ۵، ص: ۱۵۱)
مفتي محمد شفیع عثمانيؒ، معارف القرآن ’’سورۃ یوسف: ۲۱‘‘: ج ۵، ص: ۸۹۔
محمد إدریس کاندھلويؒ، معارف القرآن ’’سورۃ یوسف: ۲۱‘‘: ج ۴۔


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص227

حدیث و سنت

Ref. No. 2624/45-3984

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  قیامت کے دن ہرجان کواس کے جسم میں لوٹا دیاجائے گااور روح اپنےجسم کی جانب پرواز کرے گی اور اعمال نامے دائیں اور بائیں جانب پرواز کرکے انسانوں تک پہنچ جائیں گے۔ دنیا میں ہمارا اعمال نامہ جوفرشتے تیارکرتے ہیں وہ پوشیدہ ہیں اور قیامت میں وہ ظاہر ہوں گے۔انسان کا ہر عمل اور ہر گناہ و ثواب بالکل واضح ہوگا، پھر بھی اس سے اقرار کرایاجائے گا اور اقرار کے سوا اس کے پاس کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ انسان کا  سونا‘ جاگنا اوراس کے جسم کے تمام اعضاء اس کے اعمال کے گواہ ہوں گے۔ اپنی ذمہ داریوں میں جو کوتاہی کی ہو گی وہ بھی اس کے سامنے ہوگی اور اس پر جزا یا سزا کا ترتب ہوگا۔ وغیرہ

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:مذکورہ پانی ناپاک ہے، اس کے کپڑے ناپاک ہوگئے  ان کو نکالنا اور دھونا ضروری ہے۔(۱)

(۱)لعاب الفیل نجس کلعاب الفھد والأسد إذا أصاب الثوب بخرطومہ، نجسہ۔ (فتاویٰ قاضی خاں مع الہندیۃ کتاب الطھارۃ، فصل في النجاسۃ التي تصیب الثوب أو البدن أو الأرض (الجزء السابع، الجزء الأول لقاضی خاں، ص:۱۴)؛  و سؤر الکلب والخنزیر و سباع البھائم نجس، کذا في الکنز۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، کتاب الطہارۃ، الفصل الثاني، فیما لا یجوز بہ التوضؤ، ج۱، ص:۷۶)، و سؤر خنزیر و کلب و سباع بھائم… نجس، قولہ: (و سباع بھائم) ھي ماکان یصطاد بنابہ کالأسد والذئب والفھد والنمر والثعلب والفیل والضبع و أشباہ ذلک (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطھارۃ، مطلب في السؤر،ج۱، ص:۳۸۲)؛ و سؤر الفیل والخنزیر والکلب والأسد والذئب والنمر نجس۔ (سراج الدین محمد، فتاویٰ سراجیہ، کتاب الطہارۃ، باب الآسار، ج۱، ص:۵۰)
 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص432

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: قرآن کے مخلوق ہونے کا عقیدہ رکھنے کی وجہ سے امامت اس کی مکروہ تحریمی ہے۔(۱)

(۱) الاقتداء بأہل الأہواء جائز إلا الجہیۃ والقدریۃ والروافض الغالیۃ والقائل بخلق القرآن والخطابیۃ والمشبہۃ وجملتہ أن من کان من أہل قبلتنا ولم یغل حتی لم یحکم بکفرہ تجوز الصلاۃ خلفہ۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۳۶۰، زکریا دیوبند)
قال المرغیناني: تجوز الصلاۃ خلف صاحب ہوی وبدعۃ ولا تجوز خلف الرافضي والجہمي والقدري والمشبہۃ ومن یقول بخلق القرآن، وحاصلہ إن کان ہوی لا یکفر بہ صاحبہ تجوز الصلاۃ خلفہ مع الکراہۃ وإلا فلا، ہکذا في التبیین والخلاصۃ وہو الصحیح۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماما لغیرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۱)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص127

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر نابینا آدمی اچھا پڑھا لکھا ہو اور نجاست وطہارت کے مسائل میں محتاط ہو تو اس کی امامت بینا کی موجودگی میں بھی درست ہے۔(۲)

(۲)وفیہ من الفقہ أجازہ إمامۃ الأعمیٰ ولا أعلمہم یختلفون فیہ۔ (حافظ ابن عبد البر، الاستذکار، ’’ ‘‘: ج ۲، ص: ۳۶۱)
دخلنا علی جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہما، وہو أعمی فجاء وقت الصلاۃ فقام في نساجۃ ملتحفا کلما وضعہا علی منکبیہ رجع طرفاہا إلیہ من صغرہا ورداؤہ إلی جنبہ علی المخشب فصلی بنا۔ (أخرجہ ابن أبي شیبۃ في مصنفہ، ج ۲، ص: ۲۱۳)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص225