Miscellaneous

Ref. No. 996/41-159

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

The extra money you have received from government is a reward which is halal for you.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 1327/42-705

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ظاہر یہ ہے کہ بھائی نے مذکورہ جملہ معاذ اللہ اللہ و رسول کی توہین کے لئے نہیں کہا ہے، اس لئے اس صورت میں  کفر لازم نہیں آیا، مذکورہ جملہ کہتے وقت اس کے دل میں کیا بات تھی وہی جانتا ہے۔ اس لئے اگر اس نے ایسا بطور توہین کے کہا ہو تو تجدید نکاح وتجدید ایمان ضروری ہے۔ اور اگر ایسا اس کے منھ سے نکل گیا تھا تو توبہ واستغفار کرے۔ اللہ نفس کے شر سے ہم سب کی حفاظت فرمائے۔آمین۔

فالقائل لمن يأمر بالمعروف: أنت فضولي يخشى عليه الكفر فتح. (قوله: يخشى عليه الكفر) ؛ لأن الأمر بالمعروف وكذا النهي عن المنكر مما يعني كل مسلم، وإنما لم يكفر لاحتمال أنه لم يرد أن هذا فضول لا خير فيه بل أراد أن أمرك لا يؤثر أو نحو ذلك (شامی 5/106)
واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1564/43-1081

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔شرائط پائی جائیں اور جمعہ واجب ہو تو جمعہ کی نماز بلا کسی عذر شرعی کے ترک کرنا گناہ ہے۔ البتہ اگر کسی نے ظہر کی نماز پڑھی تو ظہر کی نماز ادا ہوجائے گی، اور جمعہ ترک کرنے کا گناہ ہوگا۔  

ومن صلى الظهر يوم الجمعة في منزله ولا عذر له كره وجازت صلاته وإنما أراد حرم عليه وصحت الظهر لما سيأتي (قوله آكد من الظهر) أي لأنه ورد فيها من التهديد ما لم يرد في الظهر، من ذلك قوله - صلى الله عليه وسلم - " «من ترك الجمعة ثلاث مرات من غير ضرورة طبع الله على قلبه» رواه أحمد والحاكم وصححه، فيعاقب على تركها أشد من الظهر (شامی، باب الجمعۃ 2/136) (فتح القدیر، باب صلاۃ الجمعۃ 2/50)

"( وكره ) تحريمًا ( لمعذور ومسجون ) ومسافر ( أداء ظهر بجماعة في مصر ) قبل الجمعة وبعدها لتقليل الجماعة وصورة المعارضة، وأفاد أن المساجد تغلق يوم الجمعة إلا الجامع، (وكذا أهل مصر فاتتهم الجمعة ) فإنهم يصلون الظهر بغير أذان ولا إقامة ولا جماعة (شامی 2/157)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 1636/43-1211

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   جس شخص کے پاس نصاب کے بقدر مال نہ ہو ،  اس کو زکوۃ دینے سے زکوۃ ادا ہوجاتی ہے۔ البتہ اس کو نصاب سے زائد مال یک مشت دینا مکروہ ہے گوکہ اس سے بھی زکوۃ دہندہ کی زکوۃ ادا ہوجاتی ہے۔ لیکن اگر نصاب کے بقدر کسی کے پاس مال ہو جائے، چاہے وہ چند گھنٹہ پہلے ہی مالک ِ نصاب ہوا ہو اس کو زکوۃ دینا جائز نہیں ہے ؛ ایسے شخص کو زکوۃ دینے سے زکوۃ ادا نہیں ہوگی۔  لہذا صورت مذکورہ میں اگر طالب علم کے پاس نصاب کے بقدر مال جمع ہوگیا تو اس کو زکوۃ دینا  اور لیناجائز نہیں ہے۔البتہ ایسا کرسکتے ہیں کہ زکوۃ کی ایک  رقم کو ٹکٹ بنانے میں خرچ کردیا، پھر مستحق ہوگیا، زکوۃ کی دوسری رقم لی اس سے فیس ادا رکردیا، پھر زکوۃ کی رقم آئی اور اس سے کمرہ کا کرایہ ادا کردیا، یا کتاب وغیرہ خریدلی، تو اس طرح زکوۃ کی رقم اپنے اخراجات میں صرف کرسکتاہے۔  زکوۃ دینے والا اگر کوئی ایک بندہ ہے تو وہ زکوۃ کی ساری رقم یک مشت نہ دے بلکہ موقع بموقع مختلف ضروریات میں دیتارہے۔  ایک شکل یہ بھی ہے کہ کسی سے بطور قرض  ، ایک موٹی رقم لے لے اور اپنی ضروریات میں صرف کرے، اور اس قرض کی ادائیگی کے لئے زکوۃ کی  بڑی رقم  یک مشت لے کر ادائیگی کردے۔

"فهذه جهات الزكاة، وللمالك أن يدفع إلى كل واحد، وله أن يقتصر على صنف واحد، كذا في الهداية. وله أن يقتصر على شخص واحد، كذا في فتح القدير. والدفع إلى الواحد أفضل إذا لم يكن المدفوع نصاباً، كذا في الزاهدي. ويكره أن يدفع إلى رجل مائتي درهم فصاعداً، وإن دفعه جاز، كذا في الهداية. هذا إذا لم يكن الفقير مديوناً فإن كان مديوناً فدفع إليه مقدار ما لو قضى به دينه لايبقى له شيء أو يبقى دون المائتين لا بأس به، وكذا لو كان معيلاً جاز أن يعطى له مقدار ما لو وزع على عياله يصيب كل واحد منهم دون المائتين، كذا في فتاوى قاضي خان. وندب الإغناء عن السؤال في ذلك اليوم، كذا في التبيين". (الھندیۃ 1/188) "(وكره إعطاء فقير نصاباً) أو أكثر (إلا إذا كان) المدفوع إليه (مديوناً أو) كان (صاحب عيال) بحيث (لو فرقه عليهم لايخص كلا) أو لايفضل بعد دينه (نصاب) فلايكره، فتح".( شامی 2/353)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Taharah (Purity) Ablution &Bath

Ref. No. 1732/43-1431

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Masturbation is Haram and forbidden, and such a person is cursed in Hadith. It causes all kinds of spiritual and physical ailments. Therefore, you have to truly repent from it immediately and do not repeat this action in future. It may affect your married life badly. Try to avoid it and pray to Allah Almighty and also give something in charity. To stay away from this habit, you can impose a pledge upon you in the case of failure, so that you won’t repeat the same and seek the help of Allah Almighty meanwhile.

After the semen comes out of the penis, the penis becomes loose and the sperm slowly comes out of it. Therefore, ghusl should not be taken immediately after ejaculation, there should be an interval of about half an hour so that whatever is in the urethra comes out, and then take a ghusl.

Pouring cold water on pubes, while bathing, also releases the remaining liquid in the urethra out of the organ.

If you do ghusl immediately after ejaculation, then it is probable that the substance comes out and gets on the towel etc. and hence the towel and the body became impure, so it is obligatory to wash it. And since the substance has come out of the organ after ghusl, ablution will also be obligatory. Moreover, the tip of the penis can be checked with the finger to see if the substance is still coming out or stopped and the liquid on the towel is water or semen. You can act according to your Dominant assumption.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 1936/44-1862

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔(1)  جوشخص آن لائن کسی کمپنی میں کوئی کام کرے، اور اس کے عوض کمپنی کوئی رقم دے، تو یہ جائز ہے۔ اسی طرح اگر کمپنی کے ضابطہ کے مطابق کسی کو کمپنی سے جوڑنے پر کوئی انعام ملے تو وہ بھی جائز ہے کہ بندہ نے محنت کرکے ایک آدمی کو جوڑا ہے۔ البتہ دوسرے لوگ جن کے کمپنی کے ساتھ جوڑنے میں اس بندہ کا کوئی دخل نہیں ہے ، ان کے بدلے کوئی معاوضہ لینا شرعا جائز نہیں ہے۔ (2) اگر کمپنی کی شرط ہو کہ آپ کے اکاؤنٹ میں ایک متعین رقم رہنا ضروری ہے  اور پھر کمپنی آپ کے کام کے عوض اس میں اضافہ کرے تو درست ہے، اور اگر پیسے کاؤنٹ میں رکھنے پر پیسے بڑھتے رہیں اور جتنی رقم (کم یا زیادہ) رکھی جائے اسی تناسب سے اضافہ ہو تو یہ سود ہے جو حرام ہے اور اس سے بچنا لازم ہے۔ (3) پیسے رکھنے پر بلاکسی عمل کے پیسے میں اضافہ سود ہے جو حرام ہے۔

حدثنا ‌قتيبة، قال: حدثنا ‌أبو عوانة ، عن ‌سماك بن حرب، عن ‌عبد الرحمن بن عبد الله بن مسعود ، عن ‌ابن مسعود قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل ‌الربا وموكله وشاهديه وكاتبه»." ) سننِ ترمذی باب ما جاء في أكل الربا، ج:2، ص:496، ط: دار الغرب الإسلامي – بيروت(

قوله: كل قرض جرّ نفعًا حرام) أي إذا كان مشروطًا كما علم مما نقله عن البحر وعن الخلاصة. وفي الذخيرة: وإن لم يكن النفع مشروطًا في القرض، فعلى قول الكرخي لا بأس به، ويأتي تمامه. (شامی، کتاب البیوع،فصل فی القرض، مطلب كل قرض جر نفعا حرام، ج : 5، ص : 166 ،ط: سعید)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند 

 

متفرقات

Ref. No. 2243/44-2385

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگراس کے علاوہ کوئی اور طریقہ علاج نہ ہو، اور وہ غیرمسلم خود ہی کچھ پڑھتاہو اور پھونکتاہو، اور یقینی طور پر معلوم نہ ہو کہ وہ شرکیہ کلمات پڑھتاہے  تو اس سے علاج کرانے کی گنجائش ہے، گوکہ پرہیز بہتر ہے۔  اور اگر یقینی طور پر اس کے شرکیہ کلمات کا علم ہو تو اس سے علاج کرانا جائز نہیں ہے۔

في ”مرقاة المفاتیح“: (بقول: إن الرقي) أي رقیة فیہا اسم صنم أو شیطان أو کلمة کفر أو غیرہا مما لایجوز شرعاً ومنہا لم یعرف معناہا (۸/۳۷۱، کتاب الطب والرقی مطبوعہ، فیصل دیوبند) وعن عوف بن مالک الأشجعي قال: کنا نرقی في الجاھلیة، فقلنا: یارسول اللہ! کیف تری فی ذلک؟ فقال: ”اعرضوا عليّ رقاکم، لابأس بالرقي مالم یکن فیہ شرک۔ رواہ مسلم۔ (مرقاة المفاتیح: ۸/۳۵۹، مطبوعہ، فیصل دیوبند)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس شخص کو اپنا عمل اور اپنی عبادت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق کرنی چاہئے اگر ان جانے میں خلاف سنت کچھ ہوگیا ہے تو اس کی معافی خدا تعالیٰ سے مانگیں، اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی پوری اور قوی امید ہے۔(۱) {إِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ أَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآئُ ج}(۲)

(۱) {إِنَّمَاالتَّوْبَۃُ عَلَی اللّٰہِ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السُّوْٓئَ بِجَھَالَۃٍ ثُمَّ یَتُوْبُوْنَ مِنْ قَرِیْبٍ فَاُولٰٓئِکَ یَتُوْبُ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ ط وَکَانَ اللّٰہُ عَلِیْمًا حَکِیْمًاہ۱۷} (سوۃر النساء: ۱۷)
عن قتادۃ أنہ کان یحدث: أن أصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کانوا یقولون: کل ذنب أصابہ عبد فہو بجہالۃ۔ عن قتادۃ: ’’للذین یعملون السوء بجہالۃ‘‘، قال: اجتمع أصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فرأوا أن کل شيء عصي بہ فہو ’’بجہالۃ‘‘ عمداً أو کان غیرہ۔
عن مجاہد في قولہ: ’’للذین یعملون السوء بجہالۃ‘‘، قال: کل من عصی ربہ فہو جاہل حتی ینزع عن معصیتہ۔ (محمد بن جرید الطبري: جامع البیان، ’’سورۃ النساء: ۱۷‘‘: ج ۸، ص: ۸۹، رقم: ۸۸۳۲-۸۸۳۳)
وقال عکرمۃ: أمور الدنیا کلہا جہالۃ یعني ما اختص بہا وحرج عن طاعۃ أدلۃ۔ (أبو حبان محمد بن یوسف، البحر المحیط، ’’سورۃ النساء: ۱۷‘‘: ج ۳، ص: ۵۶۱)
(۲) سورۃ النساء: ۴۸۔


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص535

طلاق و تفریق

Ref. No. 2541/45-3887

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  صورت مذکورہ میں اگر والدین اپنے اختیار سے کسی کو وکیل بنائیں اور وکیل نکاح کرے تو یہ مؤکل کی طرف ہی منسوب ہوگا، اور والدین کا ہی نکاح کرنا پایاجائے گا، اور مؤکل کی طرف سے طلاق بھی واقع ہوجائے گی، ۔ ہاں اگر لڑکی بالغہ ہو اور وہ بلا ولی کی اجازت کے نکاح کرے تو ایسی صورت میں طلاق واقع نہیں ہوگی۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 2592/45-4091

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔    مذکورہ جملہ کہنا دینی باتوں کے استخفاف کے طور پر نہیں ہے، بلکہ دین کی باتوں کا کثرت سے سننا و سنانا بتانا ہے، نیز  دین کی باتوں کا کسی خاص انداز سے سننے سنانے کو لازم سمجھنے پر رد بھی ہوسکتاہے، اس لئے محض اس جملہ کی وجہ سے کوئی گناہ نہیں ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند