Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مسجد میں پہونچ کر معلوم ہوا کہ جماعت ہوچکی ہے، تو دوسری مسجد میں جماعت کی تلاش میں جانا واجب نہیں ہے، اگر جانا چاہے، تو جا سکتا ہے منع بھی نہیں ہے، اگر چلا جائے گا اور جماعت میں شرکت کرے گا، تو نماز جماعت کا ثواب پائے گا۔(۱)
(۱) الرجال العقلاء البالغین الأحرار القادرین علی الصلاۃ بالجماعۃ من غیر حرج ولو فاتتہ ندب طلبہا في مسجد آخر۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘ : ج ۲، ص: ۲۹۰، ۲۹۱)
عن عبد الرحمن بن أبي بکرۃ عن أبیہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و سلم أقبل من بعض نواحي المدینۃ یرید الصلاۃ فوجد الناس قد صلوا فذہب إلی منزلہ فجمع أہلہ ثم صلی بہم۔ (سلیمان بن أحمد الطبراني، المعجم الأوسط: ج ۷، ص: ۵۰، رقم: ۶۸۲۰)
عن الحسن قال: کان أصحاب محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا دخلوا المسجد وقد صلی فیہ صلوا فرادیٰ۔ (أبو بکر عبد اللّٰہ بن محمد بن أبي شیبۃ، في مصنفہ: ج ۲، ص: ۳۳، رقم: ۷۱۸۸)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص347
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:بچے کے کان میں جو اذان دی جاتی ہے اس اذان کا جواب دینا شریعت اسلامیہ میں مستحب ہے؛ اس لیے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مطلقاً اذان سننے والے کو جواب دینے کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے۔ جیسا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روایت نقل کی ہے:
’’إذا سمعتم النداء فقولوا مثل ما یقول المؤذن، وأیضاً: قال یحی وحدثني بعض إخواننا: أنہ قال: لما قال حي علی الصلوٰۃ قال: لا حول ولا قوۃ إلا باللّٰہ وقال: ہکذا سمعنا نبیکم صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول‘‘(۲)
مرد ہو یا عورت جو کوئی اذان کی آواز سنے اور مؤذن جو الفاظ کہے اسی کو دہرائے؛ لیکن جب مؤذن ’’حي علی الصلوٰۃ‘‘ اور حي علی الفلاح‘‘ کہے تو سننے والا ’’لا حول ولا قوۃ إلا باللّٰہ‘‘ کہے گا۔
اس سلسلے میں علامہ حصکفی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے: کیا نماز کی اذان کے علاوہ دیگر اذانوں کا بھی جواب دیا جائے گا، مثلاً بچے کی پیدائش کے وقت اذان دینا وغیرہ؟ اس کا جواب خود دیتے ہیں کہ میں نے اس مسئلہ پر اپنے ائمہ میں سے کسی کی تصریح نہیں دیکھی مگر ظاہر ہے کہ دیگر اذانوںکی طرح اس اذان کا جواب بھی دیا جائے گا۔
’’ھل یجیب أذان غیر الصلاۃ کالأذان للمولود؟ لم أرہ لأئمتنا والظاہر نعم!‘‘(۲)
نیزبچہ یا بچی کی پیدائش پر اسے غسل دینے کے بعد اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہنا مسنون عمل ہے۔
ترمذی شریف میں روایت ہے کہ ’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی ولادت پر ان کے کان میں اذان کہی تھی‘‘ اور امام ترمذی رحمہ اللہ علیہ نے اس حدیث کو حسن صحیح قرار دیا ہے۔
’’عن عبید بن أبي رافع عن أبیہ قال رأیت رسول اللّٰہ صلیٰ اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم أذن في أذن الحسن بن علي حین ولدتہ فاطمۃ بالصلاۃ، ہذا حدیث حسن صحیح‘‘(۳)
’’عن حسین قال: قال رسول اللّٰہ صلیٰ اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم: من ولد لہ فأذن في أذنہ الیمنی وأقام في أذنہ الیسری، لم تضرہ أم الصبیان‘‘(۴)
الحاصل: نومولود بچے کی پیدائش کے بعد کانوں میں اذان واقامت کہنا مسنون ہے، جب کہ اس اذان کا جواب دینا مستحب ہے۔
(۲) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان: باب ما یقول إذا سمع المنادي‘‘: ج۱ ، ص: ۱۲۶رقم ۶۱۳۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: مطلب في کراہۃ تکرار الجماعۃ في المسجد، ج ۲، ص: ۶۶۔
(۳) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبـواب الأضــاحي: باب الأذان في أذن المولود‘‘: ج ۱، ص: ۲۷۸، رقم: ۱۵۱۴۔
(۴) أخرجہ أبو یعلی، في مسندہ: ج ۱۲، ص: ۱۵۰، رقم: ۶۷۸۰۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص245
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اصح قول کے مطابق مسنون یہ ہے کہ نماز میں ہاتھ ناف کے نیچے باندھے جائیں اور عورت اپنا ہاتھ سینہ کے اوپر باندھے۔ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا روایات سے ثابت ہے ذیل میں چند احادیث ذکر کی جاتی ہے۔
’’وکونہ تحت السرۃ للرجال لقول علي رضي اللّٰہ عنہ: من السنۃ وضعہما تحت السرۃ‘‘(۱)
’’ورأي بعضہم أن یضعہما تحت السرۃ‘‘(۲)
’’قال: موسیٰ بن عمیر عن علقمۃ بن وائل بن حجر عن أبیہ، قال: رأیت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وضع یمینہ علی شمالہ في الصلاۃ تحت السرۃ‘‘(۳)
’’عن أبي وائل عن أبي ہریرۃ أخذ الأکف علی الأکف في الصلاۃ تحت السرۃ‘‘(۴)
’’عن أنس رضي اللّٰہ عنہ قال ثلاث من أخلاق النبوۃ: تعجیل الإفطار وتأخیر السجود ووضع الید الیمنی علی الیسریٰ في الصلوٰۃ تحت السرۃ‘‘ (۵)
’’عن أبي جحیفۃ أن علیا قال السنۃ وضع الکف علی الکف في الصلاۃ تحت السرۃ‘‘(۶)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في التبلیغ خلف الإمام‘‘: ج۲، ص: ۱۷۲۔
(۲) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ: باب ماجاء في وضع الیمین علی الشمال في الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۹، رقم: ۲۵۲۔
(۳) أخرجہ ابن أبي شیبہ، في مصنفہ: ج ۱، ص: ۱۳۹۔
(۴) أخرجہ أبي داود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب وضع الیمنی علی الیسری في الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۰، رقم:۷۵۸۔
(۵) فخرالدین العثمان الماردیني، الجوہر النقي: ج ۲، ص: ۱۳۲
(۶) أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب وضع الیمنی علی الیسری في الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۰، رقم:۷۵۶
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص385
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: یہ مضمون حدیث شریف میں ہے کہ نوافل سے فرائض کا جبر نقصان ہوتا ہے؛ لہٰذا یہ نیت اس کی صحیح ہے۔
’’ویاتي بالسنۃ مطلقاً الخ لکونہا مکملات؛ وأما في حقہ علیہ الصلاۃ و السلام فلزیادۃ الدرجات‘‘(۱)
(۱) الحصکفي، الدرالمختار، ’’باب إدراک الفریضۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۱۵۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص426
روزہ و رمضان
Ref. No. 905/41-29B
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ روزہ کی حالت میں ڈکار کی وجہ سے پانی یا خوراک جو حلق میں آجاتا ہے اس کو نگل لینے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا ہے ۔ نماز کی حالت میں کسی رومال یا ٹیشو میں نکال دے ، اگر نگل لیا تو بھی نماز درست ہوجائے گی۔
لو ابتلع البلغم بعدما تخلص بالتنحنح من حلقه إلى فمه لا يفطر عندنا قال في الشرنبلالية ولم أره ولعله كالمخاط قال: ثم وجدتها في التتارخانية سئل إبراهيم عمن ابتلع بلغما قال إن كان أقل من ملء فيه لا ينقض إجماعا وإن كان ملء فيه ينقض صومه عند أبي يوسف وعند أبي حنيفة لا ينقض. (الدرالمختار 2/400)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 1201/42-211
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ معاملہ کی مذکورہ صورت درست ہے۔ اور پہلے ڈرائیور کی حیثیت دلال اور بروکر کی ہوگی؛ اور دلال کی طرف سے اگر محنت اور کام پایاجائے تو اس کے لئے کمیشن لینا درست ہے، اس لئے مذکورہ معاملہ درست ہے۔
الاجرالذی یاخذہ السمسارحلال لانہ اجر علی عمل وجھد معقول (الفقہ الاسلامی وادلتہ : الشرط الثانی من شروط صیغ البیع 5/3326)۔ واجرۃ السمسار والمنادی والحمامی والصکاک ومالایقدر فیہ الوقت ولا العمل تجوز لماکان الناس بہ حاجۃ (الدر مع الرد 5/32)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 1322/42-694
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ تعلیم کے تعلق سے اسلام کا نقطہ نظر بہت واضح ہے، تعلیم جس طرح مردوں کے لئے ضروری ہے اسی طرح عورتوں کے لئے بھی ہے، تعلیم کا پہلا حصہ دینی تعلیم ہے، اس لئے کہ اس پر دنیا کی تربیت اور آخرت کی کامیابی موقوف ہے، دینی تعلیم مرد و عورت دونوں کے لئے یکساں ہے۔ جہاں تک عصری تعلیم کا تعلق ہے تو وہ تعلیم جو قوم اور سماج کی ترقی اور انسانیت کی فلاح و بہبود سے متعلق ہےایسی تعلیم حاصل کرنا وقت کا تقاضہ ہے ۔ البتہ عورتوں کے لئے اپنی عفت وعصمت کی حفاظت پردہ اور غیرمحرم کے ساتھ اختلاط سے اجتناب یہ ضروری اور بنیادی امرہے اس کی رعایت کے ساتھ ایسی تعلیم جس کے ذریعہ مطلوبہ شرائط کے ساتھ وہ سماج کی خدمت کرسکیں، عورتوں کے لئے بھی مطلوب ومستحسن عمل ہے۔ سوال میں جن مسائل کا تذکرہ کیا گیا ہے ان کی بنیاد دینی تعلیم وتربیت کا فقدان ہے ، اگر دینی تعلیم وتربیت کو ملحوظ رکھ کر عصری علوم میں آگے بڑھاجائے ان شاء اللہ اس طرح کے مسائل پیدا نہیں ہوں گے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 1725/43-1411
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جس جگہ خزانہ ہوتاہے اسی جگہ چوری ہوتی ہےاور ڈاکہ ڈالاجاتاہے۔ آپ کے اندر ایمان کی دولت موجود ہے اس لئے اس میں غلط خیال آتے ہیں جن پر آپ کا اختیار اور کنٹرول نہیں ہے۔ ایسے وساوس سے ایمان پر کوئی فرق نہیں آئے گا بلکہ یہ تو ایمان کی علامت ہے، بشرطیکہ زبان سے کچھ بھی نہ کہا ہو۔ اگر کلمات کفر زبان سے نکل گئے، اللہ تعالی کو زبان سے برابھلا کہہ دیا تو ایمان جاتارہا اس لئے کہ زبان چلانا اپنےاختیار میں تھا، ایسی صورت میں تجدید ایمان وتجدید نکاح ضروری ہے۔ وسوسوں کے دفعیہ کے لئے مندرجہ ذیل کلمات کثرت سے پڑھیں: اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم ، اٰمَنْتُ بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِه ، هُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْم، ربِّ اَعُوْذُبِکَ مِنْ هَمَزٰتِ الشَّیٰطِیْنِ وَاَعُوْذُ بِکَ رَبِّ اَنْ یَّحْضُرُوْنِ ۔ اور اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ کاموں میں مصروف رکھیں۔ ان شاء اللہ فائدہ ہوگا۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: جَاءَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلُوهُ: إِنَّا نَجِدُ فِي أَنْفُسِنَا مَا يَتَعَاظَمُ أَحَدُنَا أَنْ يَتَكَلَّمَ بِهِ، قَالَ: «أَو قد وجدتموه»؟ قَالُوا: نعم. قَالَ: «ذَاك صَرِيح الْإِيمَان» . رَوَاهُ مُسلم". (مشكاة المصابيح (1/ 26)
"( «في أنفسنا ما يتعاظم أحدنا أن يتكلم به» ) أي: نجد في قلوبنا أشياء قبيحة نحو: من خلق الله؟ وكيف هو؟ ومن أي شيء؟ وما أشبه ذلك مما يتعاظم النطق به لعلمنا أنه قبيح لايليق شيء منها أن نعتقده، ونعلم أنه قديم، خالق الأشياء، غير مخلوق، فما حكم جريان ذلك في خواطرنا؟ ... (صريح الإيمان) أي: خالصه يعني أنه أمارته الدالة صريحاً على رسوخه في قلوبكم، وخلوصها من التشبيه، والتعطيل؛ لأن الكافر يصر على ما في قلبه من تشبيه الله سبحانه بالمخلوقات، ويعتقده حسنا، ومن استقبحها، وتعاظمها لعلمه بقبحها، وأنها لاتليق به تعالى كان مؤمناً حقاً، وموقناً صدقاً فلا تزعزعه شبهة، وإن قويت، ولا تحل عقد قلبه ريبة، وإن موهت، ولأن من كان إيمانه مشوباً يقبل الوسوسة، ولايردها". (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (1/ 136)
"وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَأْتِي الشَّيْطَانُ أَحَدَكُمْ فَيَقُولُ: مَنْ خلق كَذَا؟ مَنْ خَلَقَ كَذَا؟ حَتَّى يَقُولَ: مَنْ خَلَقَ رَبَّكَ؟ فَإِذَا بَلَغَهُ فَلْيَسْتَعِذْ بِاللَّهِ وَلْيَنْتَهِ". "وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَزَالُ النَّاسُ يَتَسَاءَلُونَ حَتَّى يُقَالَ: هَذَا خَلَقَ اللَّهُ الْخَلْقَ فَمَنْ خَلَقَ اللَّهَ؟ فَمَنْ وَجَدَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا فَلْيَقُلْ: آمَنت بِاللَّه وَرُسُله".(مشكاة المصابيح (1/ 26)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حج و عمرہ
Ref. No. 2121/44-2158
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قرآن و حدیث میں واضح احکام کے مطابق سود کا لین دین حرام ہے، اور سودی قرض لینا بلا ضرورت شدیدہ جائز نہیں ہے۔ آپ نے جس مقصد کے لئے قرض لیا ہے اس کو پورا کرکے جلد از جلد قرض سے چھٹکاراحاصل کرنے کی کوشش کریں۔ سودی قرض لے کر بے فکر ہوجانا بہت بری بات ہے، گناہ کا باعث ہے۔ آپ پر عمرہ لازم نہیں اس لئے آپ عمرہ پر جانے کے مقابلہ میں سودی قرض کی ادائیگی پر توجہ دیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 2179/44-2292
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نکاح کے انعقاد کے لئے ایجاب و قبول کا ایک ہی مجلس میں ہونا ضروری ہے۔ اس لئے لڑکا اور لڑکی دو الگ الگ جگہوں پر ہوں اور ویڈیو کال پر نکاح کریں تو نکاح درست نہیں ہوگا۔ اس کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ لڑکا یا لڑکی کسی کواپنا وکیل بنادیں اور وہ مجلس نکاح میں موجود ہو وہ غائب شخص کی جانب سے نکاح کو قبول کرے ۔ اس طرح ایک اصیل اور ایک وکیل کی موجودگی میں دوگواہوں کے سامنے نکاح منعقد ہوجائے گا۔
قال الحصكفي ؒ: "ومن شرائط الإيجاب والقبول: اتحاد المجلس لو حاضرين."
قال ابن عابدين ؒ: "(قوله: لو حاضرين) احترز به عن كتابة الغائب، لما في البحر عن المحيط الفرق بين الكتاب والخطاب أن في الخطاب لو قال: قبلت في مجلس آخر لم يجز وفي الكتاب يجوز؛ لأن الكلام كما وجد تلاشى فلم يتصل الإيجاب بالقبول في مجلس آخر فأما الكتاب فقائم في مجلس آخر، وقراءته بمنزلة خطاب الحاضر فاتصل الإيجاب بالقبول فصح. اهـ." (الدر المختار و حاشية ابن عابدين، 3/14، دار الفكر)
قال الحصكفي ؒ: "(وشرط سماع كل من العاقدين لفظ الآخر) ليتحقق رضاهما."
علق عليه ابن عابدين ؒ في حاشيته: "(قوله: سماع كل) أي ولو حكما كالكتاب إلى غائبة؛ لأن قراءته قائمة مقام الخطاب كما مر." (الدر المختار و حاشية ابن عابدين، 3/21، دار الفكر)
قال الحصكفي ؒ:" (و) شرط (حضور) شاهدين (حرين) أو حر وحرتين (مكلفين سامعين قولهما معا) على الأصح (فاهمين)۔۔۔."
قال ابن عابدينؒ: " قال في الفتح: ومن اشترط السماع ما قدمناه في التزوج بالكتاب من أنه لا بد من سماع الشهود ما في الكتاب المشتمل على الخطبة بأن تقرأه المرأة عليهم أو سماعهم العبارة عنه بأن تقول إن فلانا كتب إلي يخطبني ثم تشهدهم أنها زوجته نفسها. اهـ." (الدر المختار و حاشية ابن عابدين، 3/23، دار الفكر)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند