Frequently Asked Questions
بدعات و منکرات
Ref. No. 994/41-158
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شرکیہ وکفریہ اعمال سے بچتے ہوئے کسی بھی غیرمسلم سے علاج کرایاجاسکتا ہے۔ ولاباس بالرقی مالم یکن فیہ شرک (مسلم)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 1483/42-906
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسیلمہ کذاب دعوی نبوت کی وجہ سے کافر و مرتد ہوگیاتھا اسی وجہ سے اسے قتال کیا گیاتھا، بغاوت ضمنی چیز تھی ۔(2) مسیلمہ کذاب کو اس کے دعوی نبوت کی وجہ سے مرتد کہا جائے گا زندیق نہیں ۔علامہ عینی نے عمدۃ القاری میں مختلف جگہ اس کو مرتد قرار دیا ہے ہاںآپ ﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر کی خلافت کے ابتدائی زمانہ میں دو گروہ تھے ایک مرتد تھاجیسے مسیلمہ کا گروہ اور ایک باغیوں کا گروہ تھا جو اسلام پر رہتے ہوئے زکوۃ دینے سے انکار کررہاتھااور دونوں سے ہی قتال کیا گیا تھا اور مسیلمہ نے فوج تیار کی تھی اور اپنی فوج کےساتھ جنگ کے لیے آیا تھا اس لیے شبہ ہورتاہے کہ وہ باغی تھا یا مرتد تھا ورنہ حقیقت یہ ہے کہ وہ مرتد تھا۔
(3) دعوت مرتد کو بھی دی جاسکتی ہے او رزندیق کو بھی یہی وجہ ہے کہ علماء نے زندیق کے توبہ قبول کرنے کی بات کہی ہے تاہم چوں کہ زندیق اس شخص کو کہتے ہیں جو ا پنے عقائد کفریہ کو دجل و تلبیس نیز ملمع سازی کرتے ہوئے اس خباثت باطنیہ کو اسلامی صورت میں ظاہر کرتا ہے اس لیے ایسے شخص کو اسلامی دعوت مفید نہیں ہوتی ہے اس لیے کہ اپنے دجل و فریب سے لوگوں کے سامنے اپنے اسلام کو دکھا کر باطل کی اسلامی تاویل کرکے مسلمانوں کو گمراہ کرنا چاہتا ہے ۔
كانوا صنفين صنف ارتدوا عن الدين ونابدوا الملة وعادوا إلى كفرهم وهم الذين عناهم أبو هريرة بقوله " وكفر من كفر من العرب " وهذه الفرقة طائفتان إحداهما أصحاب مسيلمة من بني حنيفة وغيرهم الذين صدقوه على دعواه في النبوة وأصحاب الأسود العنسي ومن كان من مستجيبيه من أهل اليمن وغيرهم وهذه الفرقة بأسرها منكرة لنبوة سيدنا محمد - صلى الله عليه وسلم - مدعية للنبوة لغيره فقاتلهم أبو بكر رضي الله تعالى عنه حتى قتل الله مسيلمة باليمامة والعنسي بالصنعاء وانقضت جموعهم وهلك أكثرهم والطائفة الثانية ارتدوا عن الدين فأنكروا الشرائع وتركوا الصلاة والزكاة وغيرهما من أمور الدين وعادوا إلى ما كانوا عليه في الجاهلية فلم يكن مسجد لله تعالى في بسيط الأرض إلا ثلاثة مساجد مسجد مكة ومسجد المدينة ومسجد عبد القيس في البحرين في قرية يقال لها جواثى والصنف الآخر هم الذين فرقوا بين الصلاة والزكاة فأقروا بالصلاة وأنكروا فرض الزكاة ووجوب أدائها إلى الإمام وهؤلاء على الحقيقة أهل بغي وإنما لم يدعوا بهذا الاسم في ذلك الزمان خصوصا لدخولهم في غمار أهل الردة فأضيف الاسم في الجملة إلى الردة إذ كانت أعظم الأمرين وأهمهما وأرخ قتال أهل البغي في زمن علي بن أبي طالب رضي الله تعالى عنه إذا كانوا منفردين في زمانه لم يختلطوا بأهل الشرك(عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری ، باب وجوب الزکاۃ ،8/244) ۔وذهب مالك إلى أن توبة الزنديق لا تقبل ويحكى ذلك أيضا عن أحمد وقال النووي اختلف أصحابنا في قبول توبة الزنديق وهو الذي ينكر الشرع جملة فذكروا فيه خمسة أوجه لأصحابنا أصحها والأصوب منها قبولها مطلقا للأحاديث الصحيحة المطلقة. والثاني لا تقبل ويتحتم قتله لكنه إن صدق فيه توبته نفعه ذلك في الدال الآخرة وكان من أهل الجنة. والثالث أنه إن تاب مرة واحدة قبلت توبته فإن تكرر ذلك منه لم تقبل. والرابع إن أسلم ابتداء من غير طلب قبل منه وإن كان تحت السيف فلا تقبل. والخامس إن كان داعيا إلى الضلال لم تقبل منه وإلا قبل منه (قلت) تقبل توبة الزنديق عندنا وعن أبي حنيفة إذا أوتيت بزنديق استتبه فإن تاب قبلت توبته وفي رواية عن أصحابنا لا تقبل توبته. وفيه أن الردة لا تسقط الزكاة عن المرتد إذا وجبت في ماله قاله في التوضيح (ایضا)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 1926/43-1835
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگرخود کا حصہ نہیں ہے تو اس جانور کے گوشت بنانے کی اجرت لینا جائز ہے جس میں بیوی نے حصہ لے رکھا ہو۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Business & employment
Ref. No. 2119/44-2160
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
The condition mentioned in the question is not valid. So, if the customer withdraws from buying the shop or is unable to pay the remaining amount and he is not able to buy the shop, then it is obligatory upon you to return the total advance amount to the customer. It is not halal for you to keep the advance amount given by him. Moreover, if you cancel the deal and return the total amount (received as an advance) to him, Allah would reward you for the sympathy you showed to him, In-sha-Allah.
قال الموفق فی"المغنی" العربون فی البیع ھو ان یشتری السلعۃ ۔۔۔ فیدفع الی البائع درھما او غیرہ علی انہ اخذ السلعۃ احتسب بہ من الثمن والم یاخذھا فذالک للبائع.... وقال ابو الخطاب (من الحنابلۃ ) : انہ لایصح، وھو قول الشافعی و اصحاب الرای". (إعلاء السنن: (6026/12)
العربون والعربان : بیع فسرہ ابن منظور بقولہ:" ھو ان یشتری السلعۃ ویدفع الی صاحبھا شیئا یلی انہ ان امضی البیع جائز حسب من الثمن، وان یمض البیع، کان لصاحب السلعۃ، ولم یرتجعہ المشتری۔
واختلف الفقہاء فی جواز العربون: فقال الحنفیۃ والمالکیۃ واشافعیۃ وابو الخطاب من الحنابلۃ : انہ غیر جائز". (فقه البیوع: (113/1) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا يَحِلُّ مَالُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلَّا بِطِيبِ نَفْسِهِ» (سنن الدارقطنی 3/424 الرقم 2885) من أقال مسلما بیعتہ أقال اللہ عثرتہ (رواہ ابوداوٴد)
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ شخص مسلمان نہیں ہے تا وقتیکہ ’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ کی رسالت کا اقرار نہ کرلے؛ پس ایسا شخص دائمی دوزخ کا مستحق ہے۔(۱)
(۱) {ٰیٰأَیُّھَا الَّذِیْنَ أَمَنُوْٓا أَمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَالْکِتٰبِ الَّذِیْ نَزَّلَ عَلٰی رَسُوْلِہٖ وَالْکِتٰبِ الَّذِيْ أَنْزَلَ مِنْ قَبْلُط وَمَنْ یَّکْفُرْ بِاللّٰہِ وَمَلٰٓئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ وَالْیَوْمِ الْأَخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلاً م بَعِیْدًا ہ۱۳۶} (سورۃ النساء: ۱۳۶)
{أٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَآ أُنْزِلَ إِلَیْہِ مِنْ رَّبِّہٖ وَالْمُؤْمِنُوْنَط کُلٌّ أٰمَنَ بِاللّٰہِ وَمَلٰٓئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ قف لاَ نُفَرِّقُ بَیْنَ أَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ قف وَقَالُوْا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا زق غُفْرَانَکَ رَبَّنَا وَإِلَیْکَ الْمَصِیْرُ ہ۲۸۵} (سورۃ البقرۃ: ۲۸۵)
وعن أبي سعید الخدري -رضي اللّٰہ عنہ- قال: لقیہ رسول اللّٰہ -صلی اللّٰہ علیہ وسلم- وأبو بکر وعمر رضي اللّٰہ عنہما -یعني ابن صیّاد- في بعض طرق المدینۃ، فقال لہ رسول اللّٰہ -صلی اللّٰہ علیہ وسلم- أتشہد أني رسول اللّٰہ؟ فقال ہو:أتشہد أني رسول اللّٰہ؟ فقال رسول اللّٰہ -صلی اللّٰہ علیہ وسلم-: آمنت باللّٰہ وملائکتہ وکتبہ ورسلہ، ما ذا تری؟ قال: أری عرشاً علی الماء۔ فقال رسول اللّٰہ -صلی اللّٰہ علیہ وسلم- تری عرش إبلیس علی البحر وما تری؟ قال: أری صادقین وکاذباً، أو کاذبین وصادقاً، فقال رسول اللّٰہ -صلی اللّٰہ علیہ وسلم-: ’’لبّس علیہ فدعوہ‘‘ رواہ مسلم۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الفتن: باب قصۃ ابن صیاد، الفصل الأول‘‘: ج۱، ص: ۱۵۵، رقم: ۵۴۹۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1 ص210
اسلامی عقائد
Ref. No. 2536/45-3892
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کسی شخص کے انتقال ہوجانے کے بعد اس کا تمام تر چھوڑا ہوا مال اس کے ورثہ کا ہوجاتاہے اور مرنے والے کی ملکیت اس پر سے ختم ہوجاتی ہےاب قرضوں کی ادائیگی اور وصیت کے نافذ کرنے کے بعد فوری طورپر ان کی جائداد کو تقسیم کرنا ضروری ہے اس میں کسی قسم کی تاخیر ناجائزاورحرام ہے۔خاص طورپر کسی وارث پر تمام جائداد پر قابض رہنا اور دیگر ورثہ کو محروم کرنا حرام ہے۔{وَسَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ}.. [آل عمران : 133].قرآن کریم کی اس آیت میں اللہ تعالی نے مغفرت کے اعمال کی طرف جلدی کرنے کا حکم دیا ہے ابن عاشور کہتے ہیں اس کا تعلق تمام اسباب مغفرت اور دخول جنت کے اسباب میں حقوق کی ادائیگی ہے خواہ حقوق اللہ ہو یا حقوق العباد ہو اور حقوق الناس میں ترکہ کی تقسیم بھی ہے مَنْ فَرَّ مِنْ مِيرَاثِ وَارِثِهِ، قَطَعَ اللَّهُ مِيرَاثَهُ مِنَ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ(ابن ماجہ)عن أبي هريرة رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «مَنْ قَطَعَ مِيرَاثًا فَرَضَهُ اللَّهُ، قَطَعَ اللَّهُ مِيرَاثَهُ مِنَ الْجَنَّةِ (بیہقی)قال العلامة المُناوي: "أفاد أن حرمان الوارث حرام، بل قضية هذا الوعيد أنه كبيرة، وبه صَرَّح الذهبي وغيره"
حدیث میں ہے کہ جو کسی کے میراث کو کاٹے گا یا وراثت سے محروم کرنے کی کوشش کرے گااللہ تعالی جنت کے اس کے حصہ کو ختم کردے گا۔ یہ حدیث میراث نہ دینے وا لوں اور دوسروں ورثہ کو محروم کرنے کے سلسلے میں بہت سخت ہے علامہ مناوی نے لکھاہےکہ وارث کو محروم کرنا نہ صرف حرام ہے بلکہ گناہ کبیرہ ہے ۔نیز میراث سے منع کرنایا اس میں بلا عذر کے تاخیر کرنا دوسروں کے حقو پر دست درازی اور تعدی کرنا اور دوسروں کے حقوق کو چٹ کرجاناہے اور یہ ظلم ہے اور ظلم گناہ کبیرہ ہے جس پر اللہ تعالی نے وعید کا تذکرہ کیاہے ۔عن جابر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: اتَّقُوا الظُّلْمَ، فَإِنَّ الظُّلْمَ ظُلُمَاتٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ)(مسلم شریف) وروى البخاري عن أبي هريرة رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «مَنْ كَانَتْ لَهُ مَظْلَمَةٌ لِأَخِيهِ مِنْ عِرْضِهِ أَوْ شَيْءٍ، فَلْيَتَحَلَّلْهُ مِنْهُ الْيَوْمَ، قَبْلَ أَنْ لَا يَكُونَ دِينَارٌ وَلَا دِرْهَمٌ، إِنْ كَانَ لَهُ عَمَلٌ صَالِحٌ أُخِذَ مِنْهُ بِقَدْرِ مَظْلَمَتِهِ، وَإِنْ لَمْ تَكُنْ لَهُ حَسَنَاتٌ أُخِذَ مِنْ سَيِّئَاتِ صَاحِبِهِ فَحُمِلَ عَلَيْهِ».(بخاری )اسی طرح میراث نہ دینا یہ لوگوں کا مال باطل طریقہ سے کھانا ہے جس پر بھی قرآن میں وعید ہے {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ}.. [النساء: 29]عن أبي حميد الساعدي، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «لا يحل لامرئ أن يأخذ مال أخيه بغير حقه» وذلك لما حرم الله مال المسلم على المسلم(مسند احمد 39/18،حدیث نمبر:23605)لا یجوز لاحد أن یتصرف فی ملک غیرہ بلا اذنہ أو وکالتہ منہ أو ولایۃ علیہ وان فعل کان ضامنا(شرح المجلۃ،رستم1/61)
چوں کہ مورث کی جائداد پر قبضہ کرنا اور دوسرے وارثوں کو محروم کرنا یہ گناہ کبیرہ اور ظلم ہے ایسے لوگوں کی نماز یں اللہ تعالی کے یہاں قبول نہیں ہوتی ہیں اگرچہ فریضہ ساقط ہوجاتاہے،وہ ان جائدادوں سے کھارہے ہیں تو ظلما دوسروں کا مال کھارہے رہے ہیںجس پر سخت وعید ناززل ہوئی ہے اس لیے بخت بانو کو چاہیے کہ جلد سے جلد شوہر کے ترکہ کو تمام ورثہ کے درمیان شرعی طورپر تقسیم کردیں اور تاخیر کی تمام ورثہ سے معافی مانگیں لیکن اگر انہوں نے تقسیم نہیں کیا اور فوت گئیں تو اس صورت میں شوہر کی جو جائداد ہے پہلے ان کے ورثہ میں تقسیم ہوگی پھر بخت بانو کے حصے میں جو کچھ آیا ہے اس کو بخت بانو کے ورثہ میں تقسیم کیا جائے گا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:فجر اور عصر کی نماز کے بعد چوںکہ نفل و سنت نماز نہیں ہے کمزور بیمار کام کاج والے مصلیوں کی رعایت کرکے قدرے طویل دعا کی گنجائش ہے اور ظہر، مغرب اور عشاء جن نمازوں کے بعد سنت ونوافل ہیں، ان میں مختصر دعاء مانگنی چاہئے۔
اور چونکہ نماز جمعہ کے بعد بھی سنتیں ہیں؛ لہٰذا اس وقت بھی مختصر دعاء کرنی چاہئے۔ فیض الباری شرع بخاری میںاسی طرح منقول ہے۔(۱)
(۱) فإن کان بعدہا أي بعد المکتوبۃ تطوع یقوم إلی التطوع بلا فصل إلا مقدار ما یقول: ’’اللہم أنت السلام الخ‘‘۔ (غنیۃ الملتمس: ص: ۳۴۱)
کل صلوٰۃ بعدہا سنۃ یکرہ القعود بعد ہا والدعاء الخ۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح علی الطحطاوي، ’’فصل في الأذکار الواردۃ بعد الفرض‘‘: ص: ۳۱۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص357
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:جنبی کی نجاست حکمی ہے اگر اس کے بدن پر کوئی ناپاکی نہیں ہے، تو اس کے جسم سے نکلنے والا پسینہ ناپاک شمار نہیں ہوگا اور اس پسینہ کے کسی کپڑے پر لگنے کی وجہ سے کپڑا ناپاک نہیں ہوگا۔
’’عرق کل شيء معتبر بسؤرہ کذا في الھدایۃ، سؤر الآدمي طاھر ویدخل في ھذا الجنب والحائض والنفساء الخ کذا في السراج الوھاج‘‘(۱)
’’سئل مالک عن رجل جنب وضع لہ ماء یغتسل بہ فسہا فأدخل أصبعہ فیہ لیعرف حر الماء من بردہ قال مالک إن لم یکن أصاب أصبعہ أذی فلا أری ذلک ینجس علیہ الماء‘‘(۲)
’’ویعتبر سؤر بمسئر فسؤر آدمي مطلقاً ولو جنبا أو کافرا أو امرأۃ‘‘(۳)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الھندیۃ، ’’کتاب الطھارۃ: الباب الثالث في المیاہ، الفصل الثاني، فصل: فیما لا یجوز بہ التوفی ومما یتصل بذلک المسائل‘‘: ج ۱، ص: ۷۶۔…
…(۲) مالک بن أنس، مؤطأ الإمام مالک، ’’جامع غسل الجنابۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۷رقم: ۱۴۴۔(مکتبۃ بلال، دیوبند)
(۳) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب المیاہ، مطلب في السؤر‘‘: ج ۱، ص: ۳۸۱۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص53
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایک مرتبہ چہرہ دھونے سے فرض کی ادائے گی ہوجاتی ہے، دو مرتبہ دھونا سنت اور تین مرتبہ دھونا کمال سنت ہے۔ تین مرتبہ دھونے کا اہتمام کرنا چاہیے ایک کی عادت بنانا درست نہیں ہے۔ (۲)
(۲) غسل الوجہ مرۃ واحدۃ لقولہ تعالیٰ: فاغسلوا وجوہکم۔ والأمر المطلق لایقتضي التکرار، (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الطہارۃ، و أما أرکان الوضوء‘‘،ج۱، ص:۶۶)، غسل الوجہ مرۃ واحدۃ۔ (محمد بن أحمد، أبوبکر علاء الدین السمرقندي، تحفۃ الفقہاء، ’’کتاب الطہارۃ‘‘، ج۱؍ ص:۸ ، شاملہ)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص163
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق :شریعت کی بنیاد سہولت پر نہیں ہے کہ جہاں بھی جس میں بھی سہولت ہو، وہ جائز ہو،؛بلکہ شریعت میں اس کی نظیر کا پایا جانا ضروری ہے(۱) موزے پر مسح کرنا ثابت ہے، تو مسح جائز ہوگا،(۲)اور جہاں مسح کرنا ثابت نہیں، اس پر مسح کرنا نا جائز ہوگا۔(۳)
(۱)عن علیؓ قال: لو کان الدین بالرأي، لکان أسفل الخف أولی بالمسح من أعلاہ، وقد رأیت رسول اللّّہ ﷺ یمسح علی ظاھر خفیہ۔ (أخرجہ ابوداود، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ، باب کیف المسح‘‘ ج۱،ص:۲۲،رقم:۱۶۲، مکتبۃ نعیمیۃ دیوبند)
(۲)وھو جائز بسنۃ مشھورۃ فمنکرہ مبتدع، وعلی رأي الثاني کافر، و في التحفۃ: ثبوتہ بالإجماع؛ بل بالتواتر، رواتہ أکثر من ثمانین منھم العشرۃ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب المسح علی الخفین، مطلب في المسح علی الخف،‘‘ ج ۱، ص:۴۴۱-۴۴۶)
(۳)لا یجوز علی عمامۃ و قلنسوۃ و برقع و قفازین، لعدم الحرج۔ (ایضاً، ج۱،ص:۴۵۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص266