Frequently Asked Questions
متفرقات
Ref. No. 2582/45-3948
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نابالغ بچہ کے لئے بھی دعاء مغفرت کرنا جائز ہے، کیونکہ دعاء کا ایک ہی فائدہ نہیں بلکہ ہرشخص کو اس کے مناسب احوال اس کا فائدہ پہونچتاہے، چنانچہ بچے کو اگر چہ مغفرت کی دعا کی ضرورت نہیں ہے، لیکن بچہ کے لیے دعا کرنے سے بچہ کو بھی درجات کی بلندی کا فائدہ حاصل ہوتا ہے۔
"(ولا يستغفر فيها لصبي ومجنون) ومعتوه لعدم تكليفهم (بل يقول بعد دعاء البالغين: اللهم اجعله لنا فرطا) بفتحتين: أي سابقا إلى الحوض ليهيئ الماء، وهو دعاء له أيضا بتقدمه في الخير، لا سيما، وقد قالوا: حسنات الصبي له لا لأبويه بل لهما ثواب التعليم.
(قوله: وهو دعاء له) أي للصبي أيضا: أي كما هو دعاء لوالديه وللمصلين لأنه لا يهيئ الماء لدفع الظمأ أو مصالح والديه في دار القرار إلا إذا كان متقدما في الخير، وهو جواب عن سؤال، حاصله أن هذا دعاء للأحياء، ولا نفع للميت فيه ط (قوله لا سيما وقد قالوا إلخ) حاصله أنه إذا كانت حسناته: أي ثوابها له يكون أهلا للجزاء والثواب، فناسب أن يكون ذلك دعاء له أيضا لينتفع به يوم الجزاء". (فتاوی شامی، باب صلاۃ الجنازۃ،ج:2،ص:215،سعید)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:
اشیاء کی پاکی کے تقریباً دس طریقے ہیں:
(۱) دھونا، جیسے کپڑے وغیرہ کو دھو کر پاک کیا جاتا ہے۔
(۲) صاف کر دینا، جیسے شیشے وغیرہ کو صاف کر کے پاک کیا جاتا ہے۔
(۳) کھرچنا، یہ طریقہ منی سے پاک کرنے کے سلسلے میں مذکور ہے اگر بہت گاڑھی ہو۔(۴) ملنا اور رگڑنا یہ طریقہ اس صورت کے لئے ہے جب نجاست خشک ہونے کے بعد نظر آتی ہو۔
(۵) سوکھ جانا، یہ حکم زمین سے متعلق ہے جیسے دیواریں اینٹیں وغیرہ۔
(۶) جلانا، جیسے گوبر وغیرہ راکھ بن کر پاک ہو جاتا ہے۔
(۷) تبدیل حقیقت، یعنی ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف منتقل ہو جانا جیسے شراب کا سرکہ بن جانا۔
(۸) دباغت: یہ طریقہ خنزیر اور آدمی کے علاوہ تمام مردار جانوروں کی کھالوں کے لیے اختیار کیا جاتا ہے۔
(۹) ذکاۃ: یعنی جانوروں کو ذبح کر کے ان کی جلد کو پاک کر دینا۔
(۱۰) نزح: یعنی اگر کنویں یا ٹنکی میں نجاست گر جائے تو نجاست نکال کر پانی کی خاص مقدار نکال کر پاک کرنا۔
مذکورہ دس طریقے علامہ شامیؒ اور علامہ حصکفیؒ نے اپنی اپنی کتابوں میں کچھ اشعار میں نقل کئے ہیں:
علامہ شامیؒ نقل فرماتے ہیں:
وآخر دون الفرک والندف الجفاف
والنحت قلب العین والغسل یطہر
ولا دبغ تخلیل ذکاۃ تخلل
ولا المسح والنزح الدخول التغور
وزاد شارحہا بیتاً، فقال:
وأکل وقسم غسل بعض ونحلہ
وندف وغلی بیع بعض تقور‘‘(۱)
علامہ حصکفیؒ اس طرح فرماتے ہیں:
وغسل ومسح والجفاف مطہِّر
ونحت وقلب العین والحفر یذکر
ودبغ وتخلیل ذکاۃ تخلل
وفرک ودلک والدخول التغور
تصرفہ في البعض ندف ونزحہا
ونار وغلی غسل بعض تقور‘‘(۲)
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس‘‘: ج ۱، ص: ۵۱۸۔
(۲) أیضاً۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص61
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:صاحب نور الایضاح نے مکروہات وضو کی تعداد چھ بیان کی ہے:
(۱) اسراف یعنی ضرورت سے زیادہ پانی استعمال کرنا۔
(۲) کمی کرنا، یعنی اس قدر کم پانی استعمال کرنا کہ اعضاء وضو کے دھلنے میں کمی رہ جائے۔
(۳) پانی کو چہرے پر مارنا یعنی وضو کرتے ہوئے پانی کو چہرے پر زور زور سے مارنا۔
(۴) وضو کرتے وقت دنیاوی باتیں کرنا۔
(۵) بغیر عذر وضو میں دوسرے سے مدد لینا۔
(۶) نئے پانی سے تین بار مسح کرنا۔
’’ویکرہ للمتوضي ستۃ أشیاء الإسراف في الماء والتقتیر فیہ وضرب الوجہ بہ والتکلم بکلام الناس والاستعانۃ بغیرہ من غیر عذر وتثلیث المسح بماء جدید‘‘(۱)
(۱) الشرنبلالي، نور الإیضاح، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في المکروہات‘‘: ص: ۳۶۔
ہکذا في المراقي مع حاشیۃ الطحطاوي: ’’کتاب الطہارۃ: فصل في المکروہات‘‘: ج ، ص: ۸۰، یا ۸۱۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص171
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق :بالوںکی افزائش کے بعد وضو اور غسل کے احکام میں یہ پہلو قابل غور ہوگا کہ بالوں کی افزائش کس طرح کی گئی ہے: اگر سرجری کے طور پر بالوںکو اگایا گیا ہے، یا مستقل طو رپر بالوںکو چسپاں کیا گیا ہے، تو ظاہر ہے: یہ ایک مستقل عضو کے حکم میں ہوگا اور جو احکام فطری بالوں کے ہوتے ہیں وہی احکام یہاں پر بھی جاری ہوں گے، ان بالوں پر مسح کے لیے یا غسل کے لیے ان کا نکالنا ضروری نہیں ہوگا اور اگر بالوں کو مستقل طور پر چسپاں نہیں کیا گیا؛ بلکہ عارضی طور پر لگایا گیا کہ لگانے والا یا لگانے والی عورت جب چاہے اپنی مرضی سے بلا مشقت کے نکال لے اور جب چاہے ان کو لگالے، تو ان کا حکم خارجی شے کا ہوگا اور ان پر وضو میںمسح کرنے یا غسل کرنے سے فرض ادا نہیں ہوگا؛ بلکہ وضو میں مسح کے لیے یا غسل فرض کے لیے ان کو نکالنا لازم و ضروری ہوگا، یہ ایسے ہی ہے؛ جیسے کہ دانت کے مسئلہ میں حضرات فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر دانت کو نکالنا آسان ہو، تو غسل میں اس کا نکالنا ضروری ہوگا اور اگر دانت کا نکالنا آسان نہ ہو، تو اس کو مستقل عضو قراردیا جائے گا۔فتاوی حبیبیہ میں حضرت مفتی حبیب الرحمن صاحب دامت برکاتہم تحریر فرماتے ہیں :
وِگ (مصنوعی بال) پر مسح کرنا جائز نہیں ہے، ان پر مسح درست نہیں ہوگا، وگ اتار کر مسح کرنا ضروری ہے، وگ کا استعمال کرنا شرعا جائز نہیں ہے، اس کے سرپر لگانے سے احتراز کرنا چاہیے، اگر کسی نے وگ کے اوپر مسح کیا، تو ا س کا وضو صحیح نہ ہوگا اور نماز بھی صحیح نہ ہوگی ۔ (۱)
’’ولا یجوز المسح علی القلنسوۃ و العمامۃ‘‘ (۲)
(۱)مفتی حبیب الرحمن خیرآبادی، فتاویٰ حبیبیہ، فرائض وضو، ج۱، ص: ۹۴
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب الأول: في الوضوء، الفرض الرابع مسح الراس،‘‘ ج۱، ص: ۵۶)؛ و (لا یصح المسح) علی عمامۃ و قلنسوۃ و برقع و قفازین۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، باب المسح علی الخفین، ’’کتاب الطہارۃ،‘‘ ج۱، ص:۳۱۹)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص272
نماز / جمعہ و عیدین
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں جو عالم قرآن کریم کو صحیح پڑھتے ہیں اور نماز کے لیے جس قدر حفظ کی ضرورت ہے اتنا قرآن ان کو یاد ہے تو وہ قاری بھی ہوئے اور اعلم بالسنہ بھی ہوئے جو شخص عالم نہیں ہے؛ بلکہ صرف حافظ ہے وہ صرف قاری ہے اعلم بالسنۃ نہیں ہے اس لیے عالم مقدم ہے الا یہ کہ حافظ امام متعین ہو۔(۱)
’’الأولیٰ بالإمامۃ أعلمہم بأحکام الصلوٰۃ ہکذا في المضمرات … ہذا إذا علم من القراء ۃ قدر ما تقوم بہ سنۃ القراء ۃ، ہکذا في التبیین … فإن تساووا فأقرؤہم أي أعلمہم بعلم القراء ۃ‘‘(۲)
(۱) والأحق بالإمامۃ تقدیماً بل نصباً الأعلم بأحکام الصلوٰۃ فقط صحۃ وفساداً … وحفظہ قدر فرض وقیل واجب وقیل سنۃ ثم الأحسن تلاوۃ للقراء ۃ‘‘ (ابن عابدین، ردالمحتار، …’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۴)
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثاني في بیان من ہو أحق بالإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۱، زکریا۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص240
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: بچوں کو نماز کی تربیت دینا درست ہے اور نیچے جو جماعت ہورہی ہے وہی مستقل جماعت ہے، جماعت ثانیہ نہیں ہے، ہاں! تربیت کے لیے ایسا کیا جائے کہ اوپر ہونے والی بچوں کی جماعت میں صرف نابالع بچے شریک ہوں اور ان کا امام بھی نابالغ ہو، تو اس طرح پہلی جماعت نفل ہوگی اور دوسری جماعت اصل ہوگی اور اگر بالغ بچے پڑھانے والے ہوں اور پڑھنے والے بھی چند بالغ ہوں گے، تو ایسی صورت میں پہلی جماعت فرض ہوجائے گی، تو دوسری جماعت، جماعت ثانیہ کہلائے گی۔(۱)
(۱) عن أبي بکر أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أقبل من نواحي المدینۃ یرید الصلاۃ فوجد الناس قد صلوا فمال إلي منزلہ فجمع أہلہ فصلی بہم۔ (المعجم الأوسط للطبراني، ’’باب من اسمہ: عبدان‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۳، رقم: ۴۶۰۱)(شاملہ)
ویکرہ تکرار الجماعۃ بأذان وإقامۃ في مسجد محلۃ لا في مسجد طریق أو مسجد لا إمام لہ ولا مؤذن (قولہ ویکرہ) أي تحریما لقول الکافي لا یجوز والمجمع لا یباح وشرح الجامع الصغیر إنہ بدعۃ کما في رسالۃ السندي (قولہ بأذان وإقامۃ إلخ) ۔۔۔ والمراد بمسجد المحلۃ ما لہ إمام وجماعۃ معلومون کما في الدرر وغیرہا۔ قال في المنبع: والتقیید بالمسجد المختص بالمحلۃ احتراز من الشارع، وبالأذان الثاني احتراز عما إذا صلی في مسجد المحلۃ جماعۃ بغیر أذان حیث یباح إجماعا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۸)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص352
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: رکوع و سجدہ میں کم از کم تین مرتبہ تسبیح پڑھنا مسنون ہے، ایک مرتبہ پڑھنے سے بھی رکوع اور سجدہ ادا ہو جاتا ہے اور اگر نہ بھی پڑھے تب بھی رکوع وسجدہ ادا ہو جائے گا اور وہ رکعت میں شامل ہونے والا کہلائے گا؛ البتہ ایسا کرنا مکروہ ہے۔ امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کی ہے کہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی رکوع کرے اور اپنے رکوع میں تین مرتبہ ’’سبحان ربي العظیم‘‘ کہے اور جب سجدہ کرے تو تین مرتبہ ’’سبحان ربي الأعلی‘‘ کہے تو اس کا رکوع پورا ہو گیا اور یہ ادنیٰ درجہ ہے۔ جیسا کہ ابوداؤد شریف کی روایت ہے:
’’عن عبد اللّٰہ بن مسعود رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا رکع أحدکم فلیقل ثلاث مرات: سبحان ربي العظیم، وذلک أدناہ، وإذا سجد فلیقل: سبحان ربي الأعلی ثلاثا، وذلک أدناہ‘‘(۱)
’’ویقول في رکوعہ سبحان ربي العظیم ثلاثا وذلک أدناہ فلوترک التسبیح أصلا أو أتی بہ مرۃ واحدۃ یجوز ویکرہ‘‘(۲)
’’إن أدنیٰ تسبیحات الرکوع والسجود الثلاث وأن الأوسط خمس مرات والأکمل سبع مرات الخ‘‘(۳)
’’والزیادۃ مستحبۃ بعد أن یختم علی وتر خمس أو سبع أو تسع ما لم یکن إماماً فلا یطول الخ‘‘(۱)
’’ونقل في الحیلۃ عن عبد اللّٰہ بن المبارک وإسحاق وإبراہیم والثوری أنہ یستحب للإمام أن یسبح خمس تسبحات لیدرک من خلفہ الثلث الخ‘‘(۲)
’’واعلم أن التطویل المکروہ وہو الزیادۃ علی قدر أدنیٰ السنۃ عند ملل القوم حتی أن رضوا بالزیادۃ لا یکرہ وکذا إذا ملوا من قدر أدنیٰ السنۃ، لا یکرہ الخ‘‘(۳)
’’أما الإمام فلا یزید علی الثلاث إلا أن یرضی الجماعۃ الخ‘‘(۴)
حلبی کبیری اور در مختار وغیرہ کا خلاصہ یہ ہے کہ: سنت کا ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ تین مرتبہ تسبیحات پڑھی جائیں، اوسط درجہ پانچ مرتبہ، اور اکمل درجہ سات مرتبہ پڑھی جائیں یا اس سے زائد ایسے ہی امام کو چاہئے کہ مقتدی کی رعایت کرتے ہوئے ادنیٰ درجہ پر عمل کرے۔
(۱) أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب کیف یضع رکبتیہ قبل یدیہ‘‘: ج ۱، ص: ۳۲۴، رقم: ۸۸۶۔
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع في صفۃ الصلاۃ، الفصل الثالث في سنن الصلاۃ وآدابہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۱۔
(۳) إبراہیم الحلبي، غنیۃ المستملي، مسائل تتعلق بالرکوع: ج ۲، ص: ۱۰۹، مکتبہ دار العلوم دیوبند۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، قراء ۃ البسملۃ بین الفاتحۃ والسورۃ حسن‘‘: ج ۲، ص: ۱۹۸۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في إطاعۃ الرکوع للجائي‘‘: ج ۲، ص: ۱۹۹۔
(۳) إبراہیم الحلبي، حلبي کبیري، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ص: ۲۸۲، اشرفیہ دیوبند، رحیمہ دیوبند: ص: ۳۰۸۔
(۴) صغیری مطبع مجتبائی دہلی: ص: ۱۵۳۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص394
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وبا للّٰہ التوفیق: امام بلند آواز، خوش الحان، تجوید کے مطابق صحیح صحیح قرأت کرنے والا ہونا چاہیے جو اس قدر بلند آواز سے پڑھے کہ تمام مصلی یا جماعت کا اکثر حصہ ان کی آواز کو سن سکے اور اگر امام صاحب کی آواز اتنی پست ہو کہ تمام یا اکثر مصلی ان کی آواز کو نہ سن سکیں، تو کم از کم اگر پہلی صف کے آس پاس کے مصلی ان کی آواز سن سکتے ہوں تو نماز ہو جائے گی مگر ایسے پست آواز والے کو امام بنانا بہتر نہیں ہے درمختا میں ہے:
’’وأدنی الجہر إسماع غیرہ، وأدنی المخافتۃ إسماع نفسہ ومن بقربہ؛ فلو سمع رجل أورجلان فلیس بجہر، والجہر أن یسمع الکل، خلاصۃ‘‘(۱)
(۱) الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، فصل في القراء ۃ، مطلب في الکلام علی الجہر والمخافتۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۵۲، ۲۵۳۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص193
Marriage (Nikah)
Ref. No. 38 / 1197
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جب لڑکی کا مناسب رشتہ مل جائے اور نکاح کا ارادہ ہو تو دونوں کے گھروالوں کے مابین نکاح کا مسنون خطبہ پڑھے ، پھردومناسب گواہوں کی موجود گی میں لڑکی کا نام مع ولدیت لے کر لڑکے سے کہے میں نے فلاں بنت فلاں کو بعوض اتنے روپئے تمہارے نکاح میں دیا ، کیا تم نے قبو ل کیا؟ لڑکا جواب میں کہے کہ ”میں نے اس کو قبول کیا“۔تو اس ایجاب و قبول کے بعد نکاح منعقد ہوگیا۔ لڑکی کی طرف سے اس کی اجازت سے اس کا ولی یا وکیل ایجاب کرے اورلڑکا قبول کرلے تو بھی نکاح درست ہوگا، پھرحسب گنجائش چھوارےتقسیم کئے جائیں۔ اور لڑکی کو لڑکے کے گھر بھیج دیاجائے۔ ہر جزء کی تفصیل کے لئے متعلقہ کتابوں کی طرف رجوع کریں۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند