نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:واضح رہے کہ حضرات فقہاء کرام نے عمومی طور پر نماز کے لیے جو اذان واقامت کہی جاتی ہے وہ اذان واقامت کہنا عورتوں کے لیے مکروہ لکھا ہے؛ کیوںکہ اس میں آواز کو بلند کرنا پڑتا ہے اور عورتوں کے لئے آواز بلند کرنا حرام ہے؛ لیکن بچے کے کانوں میں اذان واقامت بلند آواز سے نہیںدی جاتی ہے؛ بلکہ بچے کے نرم ونازک کان کے پردوں کا خیال کرتے ہوئے آہستہ آواز سے اذان واقامت کہی جاتی ہے، اس لیے کراہت کا سبب نہیں پایا جاتا ہے اور جب کراہت کا سبب نہیں پایا گیا تو عورت کا بچے کے کان میں اذان واقامت کہنا درست ہے، اس لیے آپ نے جو اذان واقامت کہی ہیں وہ بلا کراہت درست ہے؛ حالاںکہ ذکر کردہ سوال میں آپ نے مسلم مرد کو اسپتال میں تلاش بھی کیا ہے؛ لیکن دستیاب نہ ہونے کی صورت میں مجبوراً آپ نے اذان واقامت کہی ہے اس لیے اذان واقامت کے درست ہونے میں کوئی شک وشبہ نہ کریں۔
’’وأذان امرأۃ، لأنہا إن خفضت صوتہا أخلت بالإعلام وإن رفعتہ ارتکبت معصیۃ لأنہ عورۃ۔ تحتہ في حاشیۃ الطحطاوي ’’أنہ عورۃ‘‘ ضعیف والمعتمد أنہ فتنۃ‘‘(۱)
’’اعلم أن الأذان والإقامۃ من سنن الجماعۃ المستحبۃ فلا یندبان لجماعۃ النساء والعبید والعراۃ لأن جماعتہم غیر مشروعۃ کما في البحر وکذا جماعۃ المعذورین یوم الجمعۃ للظہر في المصر فإن أدائہ بہما مکروہ کما في الحلبي قولہ: من کراہتہما لہن لأن مبنی حالہن علی الستر ورفع صوتہن حرام والغالب أن الإقامۃ تکون برفع صوت إلا أنہ أقل من صوت الأذان‘‘(۱)
’’(قولہ: للرجال) أما النساء فیکرہ لہن الأذان وکذا الإقامۃ، لما روي عن أنس وابن عمر من کراہتہما لہن؛ ولأن مبنی حالہن علی الستر، ورفع صوتہن حرام إمداد‘‘(۲)
’’وأما أذان المرأۃ فلأنہ لم ینقل إلینا عن أحد السلف حین کانت الجماعۃ مشروعۃ في حقہن فیکون من المحدثات، لا سیما بعد انتساخ جماعتہن؛ ولأن المؤذن یستحب لہ أن یشہر نفسہ ویؤذن علی المکان العالي ویرفع صوتہ والمرأۃ منہیۃ عن ذلک کلہ، ولہذا جعل النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم التسبیح للرجال والتصفیق للنساء‘‘(۳)

(۱) أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ص: ۱۹۹،      دار الکتاب دیوبند؛ وابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان، مطلب في کراہۃ تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۷۸۔
(۱) أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۵۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ج ۲، ص: ۴۸۔
(۳) فخر الدین عثمان بن علي، تبیین الحقائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۹، ۲۵۰۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص247

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ’’أشہد أن لا إلہ‘‘ پر انگلی اٹھائی جائے اور ’’إلا اللّٰہ‘‘ پر گرائی جائے۔
’’وصفتہا أن یحلق من یدہ الیمنیٰ عند الشہادۃ الإبہام والوسطیٰ ویقبض البنصر والخنصر ویشیر بالمسبحۃ أو یعقد ثلاثۃ وخمسین بأن یقبض الوسطیٰ والخنصر، ویضع رأس إبہامہ علیٰ حرف مفصل الوسطیٰ الأوسط ویرفع الأصبع عند النفي ویضعہا عند الإثبات‘‘ (۱)
’’وفي الشرنبلالیۃ عن البرہان: الصحیح أنہ یشیر بمسبحۃ وحدہا، یرفعہا عند النفي ویضعہا عند الإثبات‘‘ (۲)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: مطلب في إطالۃ الرکوع للجائي، ج ۲، ص: ۲۱۷۔
(۲) أیضاً:

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص387

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگرچہ یہ بھی درست ہے؛ مگر بہتر یہ ہے کہ فرض کے بعد اول دو سنت مؤکدہ پڑھے اور پھر صلاۃ الاوابین چھ رکعت پڑھے۔ کیوں کہ صلاۃ الاوابین کی رکعت کم از چھ اور زیادہ سے زیادہ بیس ہیں۔
’’عن أبي سلمۃ عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من صلی بعد المغرب ست رکعات لم یتکلم فیما بینہن بسوء، عدلن لہ بعبادۃ ثنتي عشر سنۃ‘‘(۲)
’’عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من صلی بعد المغرب عشرین رکعۃ، بنی اللّٰہ لہ بیتا في الجنۃ‘‘(۳)

(۲) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃباب ما جاء في فضل التطوع ست رکعات بعد المغرب‘‘: ج ۱، ص: ۹۸،رقم:۴۳۵ نعیمیہ۔)
(۳) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’باب ما جاء في فضل التطوع ست رکعات بعد المغرب‘‘: ج ۱، ص: ۹۸،رقم:۴۳۵نعیمیہ۔)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص427

 

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1288

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                           

بسم اللہ الرحمن الرحیم-:  حجامت یعنی پچھنا لگانا ایک پیشہ ہے، یہ کام کرنا اور اس کی اجرت لینا ودینا جائز ودرست ہے؛ یہ طب اور ڈاکٹری ہی کے دائرہ میں ہے۔ کذافی الفتاوی۔  واللہ تعالی اعلم

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

بدعات و منکرات

Ref. No. 37 / 00000

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: شب برات ایک فضیلت والی رات ہے،  مگر اس میں کوئی عمل مخصوص نہیں ہے (جیسا کہ بعض لوگ نماز الفیہ وغیرہ کے نام سے نمازیں ضروری سمجھتے ہیں)، بلکہ سب لوگ اپنے اپنے گھروں میں جب تک چستی کے ساتھ ہو سکےانفرادی طور پر نماز، ذکراور تلاوت وغیرہ میں مشغول رہیں۔ وقت گذاری کے لئے کہیں باہر نہ جائیں، نیند کا غلبہ ہو تو سوجائیں۔ آج کل لوگ بلاوجہ گاڑیوں پر سوار ادھر ادھر پھرتے رہتے ہیں  ایسے عمل سے اجتناب لازم ہے۔اس رات قبرستان جانے کو لازمی سمجھنا بھی درست نہیں ہے۔  پندرہویں شعبان کا روزہ رکھنا  واجب  نہیں ہے، اگر کوئی رکھ لےتوباعث اجروثواب ہے۔  واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 906/41-28B

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ والد کے علاوہ کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے تاہم  مذکورہ نکاح درست ہوگیا۔ اصل مقصود تعارف اور لڑکی کی تعیین ہے،   اور مذکورہ صورت میں لڑکی متعین ہوگئی تو  نکاح درست ہوگیا۔

لأن المقصود نفي الجهالة، وذلك حاصل بتعينها عند العاقدين والشهود، وإن لم يصرح باسمها كما إذا كانت إحداهما متزوجة، ويؤيده ما سيأتي (الدرالمختار 3/15)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 1724/43-1412

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ نے ایک ہی   سوال میں کئی سوالات کرڈالے ، آئندہ اس کا خیال رکھیں کہ ایک بار میں ایک ہی سوال کریں تاکہ جواب میں سہولت ہو اور جلد  جواب دیاجاسکے۔  آپ کے سوالات کے جوابات حسب ذیل ہیں: (1) ظہر کا وقت شروع ہونے کے بعد ہی ظہر کی نماز پڑھی جاسکتی ہے، فرض نماز ہمیشہ جماعت کے ساتھ پڑھنی چاہئے ، اور کسی عذرشرعی کے بغیر جماعت کا ترک کرنا باعث گناہ ہے، اس لئے  دوکان کھولنے کے لئے جانے سے پہلے ظہر کی نماز جماعت سے مسجد میں پڑھ لیاکریں۔  گھر پرنماز پڑھنا اور اس کو معمول بنالینا بڑا گناہ ہے۔   (2) منتخب احادیث   نامی کتاب ایک اچھی کتاب ہے جس میں حدیثیں جمع کی گئی ہیں، ان پر عمل کرنے میں اور گھروں میں  اس کی تعلیم  کرنے میں کوئی حرج  نہیں ہے، احادیث پڑھنے اور سننے کا اولین مقصد ان پر عمل کرنا ہی ہونا چاہئے۔ (3) راستہ کی چھینٹوں کے بارے میں اگر  غالب گمان ان کے پاک ہونے کا ہو تو ان کو پاک سمجھاجائے گا اور اگر غالب گمان اس کے ناپاک ہونے کا ہے تو اس کو ناپاک سمجھاجائے گا مثلا گٹر کا پانی یا نجاست اس میں شامل ہو توناپاک ہے،  (4) طوطا شرعا حلال جانور ہے، یہ جانور اگرچہ کھانے میں اپنے پنجوں کا استعمال کرتاہے مگر پنجوں سے شکار نہیں کرتاہے، اس لئے حلال ہے۔ طوطے کی بیٹ پاک ہے، کیونکہ جو پرندے حلال ہیں اور ہوا میں بیٹ کرتے ہیں ان کی بیٹ پاک ہے۔

(1) (قوله: وذكر هو وغيره إلخ ) قال في النهر: وفي المفيد: الجماعة واجبة، وسنة لوجوبها بالسنة، وهذا معنى قول بعضهم: تسميتها واجبة، وسنة مؤكدة سواء، إلا أن هذا يقتضي الاتفاق على أن تركها بلا عذر يوجب إثمًا مع أنه قول العراقيين، والخراسانيون على أنه يأثم إذا اعتاد الترك، كما في القنية ا هـ . وفي شرح المنية للحلبي: والأحكام تدل على الوجوب من أن تاركها من غير عذر يعزر وترد شهادته ويأثم الجيران بالسكوت عنه، وهذه كلها أحكام الواجب، وقد يوفق بأن ترتيب الوعيد في الحديث، وهذه الأحكام مما يستدل به على الوجوب مقيد بالمداومة على الترك، كما هو ظاهر قوله عليه السلام: {لايشهدون الصلاة} وفي الحديث الآخر: {يصلون في بيوتهم} كما يعطيه ظاهر إسناد المضارع، نحو بنو فلان يأكلون البر أي عادتهم فيكون الواجب الحضور أحيانًا، والسنة المؤكدة التي تقرب منه المواظبة عليها وحينئذ فلا منافاة بين ما تقدم وبين قوله عليه السلام: {صلاة الرجل في الجماعة تفضل على صلاته في بيته أو سوقه سبعًا وعشرين ضعفًا} ا هـ . (قوله: إذا تركها استخفافًا) أي تهاونًا وتكاسلًا، وليس المراد حقيقة الاستخفاف الذي هو الاحتقار فإنه كفر (قوله: حتى لو صلى في بيته بزوجته إلخ ) سيأتي خلافه عن الحلواني من أنه لاينال الثواب ويكون بدعةً ومكروهًا۔ (البحر الرائق شرح كنز الدقائق ـ (3 / 385)

 قلت: وهذا صریح في أن وجوب الجماعة إنما یتأدی بجماعة المسجد لا بجماعة البیوت ونحوها، فما ذکره صاحب القنیة اختلف العلماء في إقامتها في البیت، والأصح أنها کإقامتها في المسجد إلا في الفضیلة، وهو ظاهر مذهب الشافعي اهـ. کذا في حاشیة البحر لابن عابدین لایصح مالم ینقل نقلًا صریحًا عن أصحاب المذهب ویرده ماذکرنا من الأحادیث في المتن، فالصحیح أن الجماعة واجبة مع وجوب إتیانها في المسجد، ومن أقامها في البیت وهو یسمع النداء فقد أساء وأثم". ((اعلاء السنن4/188 باب وجوب إتیان الجماعة في المسجد عند عدم العلة، إدارة القرآن کراچی)

(3) مطلب في العفو عن طين الشارع (قوله: وطين شارع) مبتدأ خبره قوله: عفو والشارع الطريق ط. وفي الفيض: طين الشوارع عفو وإن ملأ الثوب للضرورة ولو مختلطا بالعذرات وتجوز الصلاة معه. اهـ. . وقدمنا أن هذا قاسه المشايخ على قول محمد آخرا بطهارة الروث والخثي، ومقتضاه أنه طاهر لكن لم يقبله الإمام الحلواني كما في الخلاصة. قال في الحلية: أي: لا يقبل كونه طاهرا وهو متجه، بل الأشبه المنع بالقدر الفاحش منه إلا لمن ابتلي به بحيث يجيء ويذهب في أيام الأوحال في بلادنا الشامية لعدم انفكاك طرقها من النجاسة غالبا مع عسر الاحتراز، بخلاف من لا يمر بها أصلا في هذه الحالة فلا يعفى في حقه حتى إن هذا لا يصلي في ثوب ذاك. اهـ. (3) "فتاوی شامی" (1/ 324)

(4) (و منها) خرء بعض الطيور من الدجاج و البط، و جملة الكلام فيه أن الطيور نوعان: نوع لا يذرق في الهواء و نوع يذرق في الهواء.

(أما) ما لايذرق في الهواء كالدجاج و البط فخرؤهما نجس؛ لوجود معنى النجاسة فيه، و هو كونه مستقذرا لتغيره إلى نتن و فساد رائحة فأشبه العذرة، و في الإوز عن أبي حنيفة رحمه الله روايتان، روى أبو يوسف رحمه الله عنه أنه ليس بنجس، و روى الحسن رحمه الله عنه أنه نجس، (و ما) يذرق في الهواء نوعان أيضا: ما يؤكل لحمه كالحمام و العصفور و العقعق و نحوها، و خرؤها طاهر عندنا، و عند الشافعي نجس، وجه قوله أن الطبع قد أحاله إلى فساد فوجد معنى النجاسة، فأشبه الروث و العذرة. (و لنا) إجماع الأمة فإنهم اعتادوا اقتناء الحمامات في المسجد الحرام و المساجد الجامعة مع علمهم أنها تذرق فيها، و لو كان نجسا لما فعلوا ذلك مع الأمر بتطهير المسجد، و هو قوله تعالى: {أن طهرا بيتي للطائفين} [البقرة: 125] و روي عن ابن عمر - رضي الله عنهما - أن حمامة ذرقت عليه فمسحه و صلى، و عن ابن مسعود - رضي الله عنه - مثل ذلك في العصفور، و به تبين أن مجرد إحالة الطبع لا يكفي للنجاسة ما لم يكن للمستحيل نتن و خبث رائحة تستخبثه الطباع السليمة، و ذلك منعدم ههنا على أنا إن سلمنا ذلك لكان التحرز عنه غير ممكن؛ لأنها تذرق في الهواء فلا يمكن صيانة الثياب و الأواني عنه، فسقط اعتباره للضرورة كدم البق و البراغيث و حكى مالك في هذه المسألة الإجماع على الطهارة، و مثله لا يكذب فلئن لم يثبت الإجماع من حيث القول يثبت من حيث الفعل و هو ما بينا. (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ج:1، ص:62، ط: دار الكتب العلمية) ’’(و خرء) كل طير لا يذرق في الهواء كبط أهلي (و دجاج) أما ما يذرق فيه، فإن مأكولا فطاهر و إلا فمخفف. (الدر المختار و حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (ج:1، ص:316-321، ط: دار الفكر)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 1929/43-1837

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  صورت مذکورہ میں تین طلاق کو ایس ایم ایس یا کال پر معلق کیا ہے اور اس میں وقت کی تحدید نہیں ہے، اس لئے جب بھی نکاح کرے گا چاہے دس سال بعد کرے ، طلاق واقع ہوگی۔ آپ کے مفتی صاحب کا فتوی درست نہیں ہے، شرط و جزاء میں تین سال سے زیادہ کا دورانیہ نہیں ہوسکتاہے یہ مہمل بات ہے۔ جبکہ آپ کے ایس ایم ایس میں اس طرح کی کوئی قید بھی نہیں ہے۔ پس آپ کے بولے گئے الفاظ کی وجہ سے یہ یمین منعقد ہوگی اور نکاح کے بعد طلاق واقع ہوجائے گی۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 2120/44-2182

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اگر پاک کپڑوں کو ناپاک کپڑوں کے ساتھ ملا کر ایک ساتھ دھویاگیا اور تمام کپڑوں کو تین مرتبہ تین علاحدہ پانی سے دھویاگیا تو تمام کپڑے پاک شمار ہوں گے ۔ ناپاک کپڑا دھونے کی وجہ سے نل، جگہ وغیرہ ناپاک نہیں ہوتے ہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

Prayer / Friday & Eidain prayers

Ref. No. 2187/44-2294

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ فرض و نفل ہر نماز میں دونوں سجدوں کے درمیان جلسہ میں مذکورہ دعا پڑھی جاسکتی ہے۔ البتہ امام کو تخفیف کا حکم ہے کہ  مقتدیوں کا خیال کرے اور انکو مشقت میں نہ ڈالے ۔ لہذا اگر اس دعا کے پڑھےنے سے مقتدیوں پر  مشقت اورزحمت  نہ ہو تو امام بھی  اس دعا کو پڑھ سکتاہے اور مقتدی بھی۔

   فتاوی  شامی میں ہے:

"قال أبو يوسف: سألت الإمام: أيقول الرجل إذا رفع رأسه من الركوع والسجود: اللهم اغفر لي؟ قال: يقول ربنا لك الحمد وسكت، ولقد أحسن في الجواب؛ إذ لم ينه عن الاستغفار، نهر وغيره.

أقول: بل فيه إشارة إلى أنه غير مكروه؛ إذ لو كان مكروهاً لنهى عنه، كما ينهى عن القراءة في الركوع والسجود، وعدم كونه مسنوناً لا ينافي الجواز كالتسمية بين الفاتحة والسورة، بل ينبغي أن يندب الدعاء بالمغفرة بين السجدتين خروجاً من خلاف الإمام أحمد لإبطاله الصلاة بتركه عامداً، ولم أر من صرح بذلك عندنا، لكن صرحوا باستحباب مراعاة الخلاف، والله أعلم". (1 / 505، با ب صفۃ الصلاۃ، ط:  سعید)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند