نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ فی السوال معاملہ جب تک شرعی طریقہ پر ثابت نہ ہوجائے تو امام صاحب کو خطا وار قرار دینا شرعاً درست نہیں ہے اور شرعی ثبوت کے بغیر محض اس بات کو سن کر امام صاحب سے ناراض ہونا اور الگ جماعت کرنا بھی درست نہیں ہے، سب حضرات کو آپس میں اتفاق کرنا چاہئے اور سب کو ایک ہی جماعت میں نماز پڑھنی چاہئے نیز امام پر لازم ہے کہ وہ کوئی ایسا اقدام نہ کریں جس سے بستی میں انتشار پیدا ہو۔ اگر بدفعلی کے شرعی گواہ نہ ہوں اور امام صاحب قسم کھا کر انکار کردیں تو امام صاحب خطاوار نہیں ہیں اور اگر قسم نہ کھائیں تو وہ مجرم ہوں گے اور ان کو امامت سے سبکدوش کرنا لازم ہوگا۔
’’عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، أن رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم صلوا خلف کل بر وفاجر‘‘(۱)
’’وفي النہر عن المحیط: صلی خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعۃ … قولہ قال فضل الجماعۃ … أفاد أن الصلاۃ خلفہما أولیٰ من الإنفراد لکن لا ینال کما ینال خلف تقي ورع لحدیث، من صلی خلف عالم تقي فکأنما صلی خلف نبي‘‘(۱)

(۱) سنن دار قطني، ’’کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ مع‘‘: ج۱، ص:۲۴۰، رقم: ۱۷۶۸۔
(۱) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في إمامۃ الأمرد‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۱، زکریا دیوبند۔

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص334

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: زوال کے وقت سے پانچ منٹ پہلے اور پانچ منٹ بعد تک نماز موقوف رکھیں، گھڑی کو صحیح ٹائم کے ساتھ ملاکر رکھیں۔
’’وفي شرح النقایۃ للبرجندي وقد وقع في عبارات الفقہاء أن الوقت المکروہ ہو عندانتصاف النہار إلی أن تزول الشمس۔‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین،  رد المحتارعلی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب یشترط العلم بدخول الوقت‘‘: ج۲، ص: ۳۱۔
عند الانتصاف إلی أن تزول۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الأول في المواقیت وما یتصل بہا: الفصل الثالث: في بیان الأوقات التي لا تجوز فیہا الصلاۃ وتکرہ فیہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۸، مکتبہ: فیصل، دیوبند)
وفي القنیۃ واختلف في وقت الکراہۃ عند الزوال فقیل من نصف النہار إلی الزوال لروایۃ أبي سعید عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہ نھي عن الصلاۃ نصف النہار حتی تزول الشمس۔ (ابن عابدین،  رد المحتارعلی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ:  مطلب یشترط العلم بدخول الوقت‘‘: ج۲، ص: ۳۱، زکریا، دیوبند)

 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص104

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:صورت مسئولہ میں چوں کہ مؤذن صاحب نے قسم کھائی ہے اس لیے ان کو متہم نہیں کیا جاسکتا(۱) اور ان کی اذان، اقامت و امامت درست ہے۔ بغیر شرعی ثبوت کے کسی کو متہم کرنا جائز نہیں ہے۔(۲)

(۱) لکن البینۃ علی المدعي والیمین علی من أنکر قال النووي: ہذا الحدیث قاعدۃ شریفۃ کلیۃ من قواعد أحکام الشرع ففیہ أنہ لا یقبل قول الإنسان فیما یدعیہ بمجرد دعواہ بل یحتاج إلی بینۃ أو تصدیق المدعي علیہ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإماراۃ والقضاء، باب الأقضیۃ والشہادات، الفصل الأول‘‘: ج ۷، ص: ۲۹۰، رقم: ۳۷۵۸)
(۲) عن علي رضي اللّٰہ عنہ، قال: البہتان علی البراء أثقل من السموات۔ (علي متقي، کنز العمال: ج ۳، ص: ۸۰۲)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص240

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: آمین بالجہر یا بالسر کا مسئلہ اعتقادی نہیں ہے؛ نیز اس میں اختلاف او لویت اور غیر اولویت کا ہے، بعض ائمہ بالجہر کہنے کو افضل کہتے ہیں، بعض آہستہ کہنے کو افضل کہتے ہیں۔ آمین بالجہر کہنے پر امام کا مذکورہ فعل مطلقاً ناجائز ہے۔(۱)

(۱) ویخفونہا لما روینا من حدیث ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ ولأنہ دعاء فیکون مبناہ علی الإخفاء۔ (المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۵، مکتبہ: دار الکتاب، دیوبند)
اختلفوا في تأمین المأموم إذا کان الإمام في السریۃ وسمع المأموم تأمینہ، منہم من قال: یقولہ ہو کما ہو ظاہر الکتاب، منہم من قال: لا لأن ذلک الجہر لا عبرۃ بہ بعد الاتفاق علی أنہ لیست من القرآن۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: فصل ہو في اللغۃ في مابین الشیئین: ج ۱، ص: ۵۴۸، مکتبہ: زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص373

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس صورت میں نماز فاسد نہیں ہوگی۔(۱)

(۱) ولو عطس فقال لہ المصلی: الحمد للّٰہ لا تفسد؛ لأنہ لیس بجواب۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع فیما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۷، زکریا دیوبند)
ویشکل علی ہذا کلہ ما مر من التفصیل فیمن سمع العاطس فقال: ’’الحمد للّٰہ‘‘ تأمل واستفید أنہ لو لم یقصد الجواب بل قصد الثناء والتعظیم لا تفسد، لأن نفس تعظیم اللّٰہ تعالیٰ والصلاۃ علی نبیہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لا ینافي الصلاۃ، کما في شرح المنیۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا‘‘: ج ۲، ص: ۳۸۱، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص73

مساجد و مدارس

Ref. No.2846/45-4488

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جس جگہ مسجد بنانےکےلئے اورزمین خریدنے کےلئےچندہ   جمع کیاگیا،اب اگراس جگہ مسجد بناناناممکن  ہو تو اس  رقم  کو کسی دوسری جگہ شرعی  مسجد بنانے میں استعمال کرنے کی اجازت ہے۔البتہ تہہ خانےکی   عارضی مسجدمیں اس  رقم  کولگاناجائزنہیں ہوگا۔

"فإن شرائط الواقف معتبرة إذا لم تخالف الشرع وهو مالك، فله أن يجعل ماله حيث شاء ما لم يكن معصية وله أن يخص صنفا من الفقراء ولو كان الوضع في كلهم قربة."(شامی،کتاب الوقف ،ج:4 ص:343 ط:سعید)

"(اتحد الواقف والجهة وقل مرسوم بعض الموقوف عليه) بسبب خراب وقف أحدهما (جاز للحاكم أن يصرف من فاضل الوقف الآخر عليه) لأنهما حينئذ كشيء واحد.   (وإن اختلف أحدهما) بأن بنى رجلان مسجدين أو رجل مسجدًا ومدرسة ووقف عليهما أوقافا (لا) يجوز له ذلك."

شامی ، كتاب الوقف ج:4،ص:360،ط: سعيد)

"على أنهم صرحوا بأن مراعاة غرض الواقفين واجبة." (شامی، كتاب الوقف ج:4،ص:445،ط:سعيد)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 37 / 1050

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: انبیاء کے معصوم ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے اندر گناہ کی بالکلیہ صلاحیت نہیں ہوتی ہے۔انبیاء کرام بشر ہوتے ہیں اور ان کے اندر بھی  بشری  تقاضے ہوتے ہیں مگر اللہ کی طرف سے ایسا نظام ہے کہ ان کی گناہوں سے حفاظت ہوتی ہے۔ اور انبیاء کرام گناہوں سے بچنے میں  بے اختیار نہیں ہیں بلکہ بااختیار ہیں، اوراپنے اختیار سے گناہوں سے بچنا یقینا کمال ہے۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Hajj & Umrah

Ref. No. 41/1076

In the name of Allah the most gracious the most merciful

The answer to your question is as follows:

The Hadith is labeled with Dhaeef. (شرح ابن ماجہ لمغلطائ 1/1340) مسند احمد الرسالۃ 20/40)

And Allah knows best

Darul Ifta            

Darul Uloom Waqf Deoband

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 891/41-1135

الجواب وباللہ التوفیق      

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بھائی کا بہن کو وراثت میں حصہ نہ دینا ناجائز اور حرام کام ہے۔ شریعت نے جس طرح بھائی کا حصہ متعین کا ہے اسی طرح بہن کا حصہ بھی متعین کیا ہے ۔ لیکن اگر بھائی بہن کا حصہ نہیں دیتا ہے تو وہ بہن کا حصہ غصب کرنے والاہوگا۔ اور بہن کے حصہ کا مال اس کے قبضہ میں مال حرام ہے، جس کو کھانے سے پرہیز لازم ہے۔ لیکن اگر بھائی کے پاس دوسرا بھی مال ہے یا وہ اپنے حصہ کے پیسوں سے کھلاتا ہے تو بہن کا کھانا جائز ہے۔

 

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Business & employment

Ref. No. 1429/42-865

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Bribery is forbidden in Sharia. If you are qualified for this job and carry out your assigned duties well, then your pay is halal. And if you are not able to discharge the obligation, but you were selected on the basis of bribe, then the income will not be halal. There will also be the sin of depriving others of their rights.

ووجه آخر من الرشوة وهو الذي يرشو السلطان لدفع ظلمه عنه فهذه الرشوة محرمة على آخذها غير محظورة على معطيها وروي عن جابر بن زيد والشعبي قالا لا بأس بأن يصانع الرجل عن نفسه وماله إذا خاف الظلم وعن عطاء وإبراهيم مثله.

وروى هشام عن الحسن قال لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الراشي والمرتشي.

قال الحسن: ليحقّ باطلًا أو يبطل حقًّا فأما أن تدفع عن مالك فلا بأس، و قال يونس عن الحسن: لا بأس أن يعطي الرجل من ماله ما يصون به عرضه. و روى عثمان بن الأسود عن مجاهد قال: اجعل مالك جنة دون دينك ولاتجعل دينك جنة دون مالك. وروى سفيان عن عمرو عن أبي الشعثاء قال: لم نجد زمن زياد شيئًا أنفع لنا من الرشا، فهذا الذي رخص فيه السلف إنما هو في دفع الظلم عن نفسه بما يدفعه إلى من يريد ظلمه أو انتهاك عرضه."(احکام القرآن للجصاص، سورۃ المائدۃ آیت نمبر 44)

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband