نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ صورت میں جو جگہ کارخانہ کے مالک نے مسلمانوں کو نماز پڑھنے کے لیے دی ہے اس جگہ پر نماز پنج وقتہ ونماز جمعہ وعیدین وغیرہ سبھی نمازیں جائز اور درست ہوں گی، اس پر شبہ نہ کیا جائے،البتہ وہ جگہ عارضی طور پر نماز کے لیے ہے، جیسا کہ سوال سے ظاہر ہے، اس لیے وہ شرعی مسجد نہیں ہوگی۔(۱)

(۱) ویزول ملکہ عن المسجد والمصلی بالفعل و (بقولہ جعلتہ مسجدا) وفي القہستاني ولا بد من إفرازہ: أي تمییزہ عن ملکہ من جمیع الوجوہ، فلو کان العلو مسجدا والسفل حوانیت أو بالعکس لا یزول ملکہ لتعلق حق العبد بہ کما في الکافي۔ (ابن عابدین، رد المحتار،’’کتاب الوقف، مطلب إذا وقف کل نصف علی حدۃ صارا وقفین ‘‘: ج۶، ص: ۵۴۴،۵۴۵)
 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص348

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: شروع زمانہ میں نماز کی ہر نقل وحرکت کے ساتھ رفع یدین کا معمول تھا حتی کہ صحابہ کرامؓ سلام پھیرتے وقت بھی رفع یدین کرتے تھے؛ لیکن بعد میں بتدریج ہر ہر نقل وحرکت کے وقت رفع یدین سے منع کر دیا گیا، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو بکر حضرت عمر، حضرت علی اور حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہم وغیرہ صحابہ کرام سے نماز میں تکبیر تحریمہ کے علاوہ دیگر مواقع پر رفع یدین نہ کرنے کا ثبوت صحیح اور معتبر روایات سے ہے؛ اس لیے حنفیہ کے نزدیک وہ روایات قابل ترجیح ہیں جن میں ترک رفع یدین کا ثبوت ہے؛ لہٰذا تکبیر تحریمہ کے علاوہ دیگر مواقع پر رفع یدین کرنا خلاف سنت ہوگا۔ حضرت ابراہیم نخعیؒ نے حضرت وائل ابن حجر ؓکی رفع یدین والی حدیث کے بارے میں فرمایا اگر حضرت وائل ؓنے آپ کو ایک مرتبہ رفع یدین کرتے ہوئے دیکھا ہے تو حضرت عبد اللہ ابن مسعود نے آپ کو پچاس مرتبہ رفع یدین نہ کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
’’عن المغیرۃ قال قلت لإبراہیم حدیث وائل أنہ رأي النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یرفع یدیہ إذا افتتح الصلوٰۃ وإذا رکع وإذا رفع رأسہ من الرکوع فقال إن کان وائل رآہ مرۃ یفعل ذلک فقد رآہ عبد اللّٰہ خمیس مرۃ لا یفعل ذلک‘‘(۱)
’’عن علقمۃ عن عبد اللّٰہ ابن مسعود رضياللّٰہ قال صلیت خلف النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأبي بکر وعمر فلم یرفعوأیدیہم إلا عند افتتاح الصلوٰۃ‘‘(۲)
’’عن إبراہیم عن الأسود قال رأیت عمر بن الخطاب یرفع یدیہ في أول تکبیرۃ ثم لا یعود قال ورأیت إبراہیم والشعبي یفعلان ذلک‘‘(۳)
’’عن عاصم بن کلیب الجرمی عن أبیہ قال رأیت علی بن طالب رضي اللّٰہ عنہ رفع یدیہ في التکبیرۃ الأولیٰ من الصلوٰۃ والمکتوبۃ ولم یرفعہما فیما سویٰ ذلک‘‘(۴)
’’ولا یسن مؤکداً رفع یدیہ إلا فی سبع مواطن کما ورد … تکبیرۃ افتتاح وقنوت، در مختار وفي الشامي الوارد ہو قولہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لا ترفع الأیدی إلا في سبع مواطن تکبیرۃ الافتتاح وتکبیرۃ القنوت وتکبیرات العیدین الخ قال في فتح القدیر والحدیث غریب بہذا اللفظ‘‘(۱)
فلا یرفع یدیہ عند الرکوع إلا عند الرفع منہ لحدیث أبي داود عن البراء قال رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ حین افتتح الصلوٰۃ ثم لم یرفعہما حتی انصرف‘‘(۲)
’’عن جابر بن سمرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال خرج علینا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال مال أراکم رافعي أیدیکم کأنہا أذناب خیل شمس اسکنوا في الصلوٰۃ‘‘(۳)
’’ویرفع یدیہ مع التکبیر حتی یحاذي بإبہامیہ شحمۃ أذنیہ‘‘(۴)
’’عن أنس أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسم کان إذا کبر رفع یدیہ حذاء أذنیہ‘‘(۵)
’’قال کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا کبر لافتتاح الصلوٰۃ رفع یدیہ حتی إبہاماہ قریباً من شحمتي أذنیہ ثم لایعود، ومثل ذلک أحادیث کثیرۃ‘‘(۶)

(۱) أخرجہ أبو جعفر الطحاوي، في شرح معاني الآثار، ’’کتاب الصلاۃ: باب التکبیر للرکوع والتکبیر للسجود‘‘ ج۱، ص:۱۳۲، رقم: ۱۳۵۱۔
(۲) أخرجہ البیہقي، في سننہ: ج ۲، ص: ۷۹۔
(۳) أخرجہ أبوجعفر أحمد بن محمد، في شرح معاني الآثار، ’’کتاب الصلوۃ: باب التکبیر للرکوع والتکبیر للسجود‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۳، رقم: ۱۳۶۴۔
(۴) الموطأ لإمام محمد: ص: ۹۲۔
(۱) ابن عابدین،  ’’کتاب الصلوۃ: باب صفۃ الصلوۃ، مطلب في إطالۃ الرکوع للجائي‘‘: ج ۲، ص: ۲۱۴، زکریادیوبند۔
(۲) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلوۃ: باب صفۃ الصلوۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۳۔
(۳) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’باب الدہر بالسکون في الصلوۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۸۱، رقم: ۴۳۰۔
(۴) المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الصلوۃ: باب صفۃ الصلوۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۰۔
(۵) أیضًا:
(۶) أخرجہ أبو جعفر الطحاوي، في شرح معاني الآثار، ’’کتاب الصلوۃ: باب التکبیر للرکوع والتکبیر للسجود‘‘ ج۱، ص: ۱۳۲، رقم: ۱۳۴۶۔
عن المغیرۃ قال: قلت لإبراہیم حدیث واعمل أنہ رأی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یرفع یدیہ وإذا افتتح الصلاۃ وإذا رکع وإذا رفع رأسہ من الرکوع فقال: إن کان وائل رآہ مرۃ یفعل ذلک فقد رآہ عبداللّٰہ خمسین مرۃً لایفعل ذلک۔ (أخرجہ أبوجعفر الطحاوي، في شرح معاني الآثار، ’’کتاب الصلوۃ: باب التکبیر للرکوع والتکبیر للسجود‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۲، رقم: ۱۳۵۱)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص387

 

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 39 / 0000

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                

بسم اللہ الرحمن الرحیم:  مہر کا مال عورت کی ملک ہے۔مرنے والے کی وصیت اس کے تہائی مال میں جاری ہوتی ہے۔ لہذا  اس عورت کے مرنے کے بعداس کے ایک  تہائی مال سے اس  گود لئے بچے کی بیوی کو زیور بناکر دیدیاجائے  اور بقیہ دو تہائی  مال وارثوں کے درمیان بطور میراث تقسیم کرلیا جائے۔ میراث کی تقسیم کے لئے وارثین کی تفصیلات لکھ کر بھیجیں تواسکا جواب لکھاجائے گا۔   واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

بدعات و منکرات

Ref. No. 40/1097

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔درست بات یہی ہے کہ آندھی، طوفان ، زلزلہ یا دیگر آفات سماویہ آنے پر اذان دینا سنت سے ثابت نہیں ہے۔ لہذا اگر لوگ یہ عمل سنت یا حکم شرعی سمجھ کر کرتے ہیں تو غلط ہوگا، لیکن اگر لوگ محض غموں کو دور کرنے کا آلہ اور ہتھیار سمجھتے ہیں اس لئے اذان دیتے ہیں تاکہ لوگوں کو جمع خاطر نصیب ہو تو یہ ایک مستحب عمل ہے ۔ علامہ شامی نے مواقع اذان میں کتب شافعیہ کے حوالے سے اسے سنت کہا ہے  کہ مغموم وغمزدہ شخص کی دلجوئی  کے لئے اذان دی جائے کیونکہ اذان غموں کو کافور کردیتی ہے۔ فی المواضع التی یندب لھا الاذان فی غیرالصلوۃ قالوا یسن للمھموم ان یامر غیرہ ان یؤذن فی اذنہ فانہ یزیل الھم۔ (فتاوی شامی 3/63)۔   

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 907/41-28B

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صوفہ کو پاک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ تین مرتبہ اس کو پانی سے دھویاجائے اور ہر مرتبہ کے بعد اتنی دیر چھوڑدیاجائے کہ پانی ٹپکنا بندہوجائے، نچوڑنا دشوار ہو تو نچوڑنا ضروری نہیں ہے۔ اور اگر تر کپڑا نجاست لگی جگہ پر پھیردیاجائے تو بھی صوفہ پاک ہوجاتا ہے۔

(و) قدر (بتثليث جفاف) أي: انقطاع تقاطر (في غيره) أي: غير منعصر مما يتشرب النجاسة وإلا فبقلعها۔

في حاشية الواني على الدرر. (قوله: أي: غير منعصر) أي: بأن تعذر عصره كالخزف أو تعسر كالبساط (الدرالمختار 1/332)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

مساجد و مدارس

Ref. No. 1930/43-1831

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  کھیتی کی زمین جو مسجد کے لئے وقف ہے، اور وہاں اب تک مسجد نہیں بنی ہے، بلکہ مسجد کے لئے آمدنی اس سے آتی ہے تو اس کو بدل کر دوسری زمین لینا جو اس سے بہتر ہو، درست ہے۔ اس صورت میں مسجد کے لئے آمدنی دوگنی ہوجاتی ہے اور یہ بظاہر واقف کے منشاء کے خلاف بھی نہیں ہے۔ اس لئے مذکورہ زمین تبدیل کی جاسکتی ہے۔ اور سابقہ زمین کو قبرستان بنایاجاسکتاہے۔

والثانی أن لایشرطہ سواء شرط عدمہ أو سکت لکن صار بحیث لاینتفع بہ بالکلیۃ بأن لایحصل منہ شیئ أصلا أو لا یفی بمؤنتہ فہو أیضا جائز علی الأصح۔ (شامی، کتاب الوقف مطلب فی استبدال الوقف وشروطہ، مطبوعہ کوئٹہ ۳/۴۲۴، کراچی ۴/۳۸۴، زکریا ۶/۵۸۳، البحر الرائق کوئٹہ ۵/۲۲۳، زکریا ۵/۳۷۳)

وصح شرط أن یستبدل بہ أی بالوقف غیرہ أی یبیعہ و یشتری بثمنہ أرضا أخریٰ إذا شاء عند أبی یوسف استحسانا لأن فیہ تحویلہ إلی ما یکون خیرا من الأول أو مثلہ فکان تقریراً لا إبطالا فإذا فعل صارت الثانیۃ کالأولیٰ فی شرائطہا۔ (مجمع الأنہر، دار الکتب العلمیۃ بیروت ۲/۵۷۶)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند 

 

مساجد و مدارس

Ref. No. 2035/44-2010

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔(1)  مسجد کے تہہ خانے میں دوکانیں بناکر کرایہ پر دینا درست ہے۔ مسجد شہید ہونے سے تمام مکان پر مسجدیت لازم نہیں ہوگئی۔(2) جو حصہ خارج مسجد ہے تعمیر کے وقت نیت کرکے اس کو مسجد میں داخل کیاجاسکتاہے، وہ حصہ آئندہ سے مسجد شرعی کا حصہ ہوگا۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 2122/44-2180

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر نجاست مَرئی ہو یعنی نجاست دکھائی دے تو عین نجاست کو زائل کرنا فرض ہے، چاہے ایک مرتبہ میں ہی زائل ہوجائے، اور اگر نجاست غیرمرئی ہو یعنی دکھائی نہ دے تو اس کو تین مرتبہ دھونا ضروری ہے تاکہ ازالۂ نجاست یقینی ہوجائے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نکاح و شادی

Ref. No. 2177/44-2293

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نکاح میں عورتوں کی گواہی  قبول کی جاتی ہے ، لیکن ایک مرد کی جگہ دو عورتوں کا ہونا ضروری ہے۔ اس لئے ایک مرد اور ایک عورت کی گواہی میں نکاح جائز نہیں ہے، بلکہ کم از کم دو عورتوں کا ہونا لازم ہے۔  اگر ایک مرد اور ایک عورت کی گواہی میں نکاح کیاگیا تو نکاح منعقد ہی نہیں ہوا۔ دوبارہ نکاح کرنا ہوگا۔

ومنها:) الشهادة قال عامة العلماء: إنها شرط جواز النكاح، هكذا في البدائع. وشرط في الشاهد أربعة أمور: الحرية والعقل والبلوغ والإسلام ... ويشترط العدد فلاينعقد النكاح بشاهد واحد، هكذا في البدائع. ولايشترط وصف الذكورة حتى ينعقد بحضور رجل وامرأتين". (فتاوی ہندیہ (6/418)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مروجہ میلاد (جس میں التزام قیام و شیرینی کی تقسیم اور غیر صحیح روایات کا بیان ہوتا ہے) کا پڑھنا نہ تو فرض ہے نہ واجب نہ مسنون و مستحب ہے بلکہ بدعت ہے، اس سے پرہیز ہر مسلمان کے لئے لازم اور ضروری ہے۔(۲)

البتہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اگر صحیح روایات پڑھی جائیں اور کوئی قیام وغیرہ کی رسمیں نہ کی جائیں اور اس خاص وقت کی تعیین دائمی طور پر نہ کی جائے تو میلاد باعث ثواب ہے۔(۱)
پس میلاد کی نذر ماننے سے میلاد کرانا ضروری نہیں ہے اگر مروجہ طریقہ پر میلاد کرائی جائے گی، تو نیکی برباد اور گناہ لازم آئے گا ،اس رقم کو جو میلاد پر خرچ کرنے کا ارادہ ہو غرباء و مساکین اور ضرورت مندوں پر خرچ کردے کہ اس کا ثواب اس کو مل جائے گا۔(۲)

(۲) لا یجوز ما یفعلہ الجہال بقبور الأولیاء والشہداء من السجود والطواف حولہا واتخاذ السرج والمساجد علیہا ومن الاجتماع بعد الحول کالأعیاد ویسمونہ عرسا۔ (محمد ثناء اللّٰہ -رحمہ اللّٰہ- تفسیر مظہري، ’’سورۃ آل عمران: ۶۴‘‘: ج ۲، ص: ۶۸)
آنچہ بر قبور اولیاء عمارت ہائے رفیع بنا می کنند وچراغاں روشن کنند وازیں قبیل ہرچہ می کنند حرام است یا مکروہ۔
ترجمہ: وہ جو کچھ اولیاء کرام کی قبروں پر کیا جاتا ہے کہ اونچی اونچی عمارتیں بناتے ہیں اور چراغ روشن کرتے ہیں اور اس قسم کی جو چیز بھی کرتے ہیں حرام ہے، یا مکروہ۔ (قاضی ثناء اللہ، مالابد منہ: ص: ۷۸)

(۱) الاحتال بذکر الولادۃ الشریفۃ إن کان خالیا من البدعات المروجۃ فہو جائز بل مندوب کسائر أذکارہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ (امداد الفتاوی: ج ۶، ص: ۳۲۷)
(۲)  المولد الذي شاع في ہذا العصر وأحدثہ صوفي في عہد سلطان أربل ولم یکن لہ أصل من الشریعۃ الغراء۔ (علامہ أنور شاہ الکشمیري، العرف الشذي، ’’أبواب العیدین، باب ما جاء في التکبیر في العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۸)
وأقبح منہ النذر بقراء ۃ المولد في المقابر۔ (أیضاً:)
ومع اشتمالہ علی الغناء واللعب وإیہاب ثواب ذلک إلی حضرۃ المصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ‘‘کتاب الصوم: باب ما یفسد الصوم وما لا یفسدہ، مطلب في النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام‘‘: ج ۳، ص: ۴۲۷)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص332