اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ جملہ امور بدعت میں داخل ہیں اور نذر کا کھانا صرف غرباء کو کھلانا چاہئے اس پر مروجہ فاتحہ وغیرہ بدعت ہے۔ (۱)

(۱) یکرہ اتخاذ الدعوۃ لقرأۃ القرآن وجمع الصلحاء والقراء للختم أو لقراء ۃ سورۃ الأنعام والإخلاص۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في کراہۃ الضیافۃ من أہل المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۸)
کذا في مأۃ مسائل: ص: ۱۰۸۔؛ کذا في فتاوی رشیدیہ: ص: ۹۳۔


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص332

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:چالیسواں وغیرہ جائز نہیں ہے اسی طرح کسی غیر ضروری دعوت کو ضروری سمجھنا بھی درست نہیں ایسی دعوتوں میں شرکت سے احتراز کیا جائے، خواہ کسی قابل احترام شخص کی طرف سے کیوں نہ ہو(۱) یہ خلاف شرع اور بدعت ہے، البتہ اگر ایصال ثواب کی نیت سے دعوت ہو، تو غرباء کو قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔(۲)

(۱) إن البدعۃ المذمومۃ ہو الحدث في الدین من أن لا یکون في عہد الصحابۃ والتابعین ولا دل علیہ دلیل شرعي۔ (شرح المقاصد: ج ۲، ص: ۲۷۱)
(۲) {إِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآئِ وَالْمَسٰکِیْنِ} (سورۃ التوبہ: ۶۰)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص423

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 2538/45-3875

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ خون پتلا ہو یا گاڑھا ہو، اسی طرح خون لال ہو یا خون کے اندر موجود سفید پانی ہو یا خون خراب ہو کر پیپ ہوگیا ہو وغیرہ ، سب  خون ہی کے حکم میں ہے۔ اور خون کا حکم یہ ہے کہ اگر خون  اپنی جگہ سے بہہ پڑے تو چاہے سوئی کے ناکہ کے برابر بہہ پڑے اس سے وضو ٹوٹ جائے گا۔ 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

Usury / Insurance

Ref. No. 2579/45-3947

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is follows:

Your question is not clear and we are not able to know how this policy will reduce your income tax.  And if you do not take profit from this policy, will it give some concession or deduction in income tax or not? Write the detail about the policy and resend your query.

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ذکر کا یہ طریقہ جائز ہے۔ اس موقع پر روپیہ دینا یا کھانا کھلانا، اگر ذکر کرنے کی اجرت اور بدلہ ہے، تو یہ ناجائز ہے۔اور اجرت اور بدلہ نہیں ہے، تو جائز ہے۔(۲)

(۲) {وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْھَہٗ وَلَا تَعْدُ عَیْنٰکَ عَنْھُمْ ج تُرِیْدُ زِیْنَۃَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَاج وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَہٗ عَنْ ذِکْرِنَا وَاتَّبَعَ ھَوٰئہُ وَکَانَ أَمْرُہٗ فُرُطًا ہالثلٰثۃ ۲۸} (سورۃ الکہف: ۲۸)
وفصل آخرون فقالوا: الإخفاء أفضل عند خوف الریا، والإظہار أفضل عند عدم خوفہ الخ۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني، ’’تفسیر سورۃ الأعراف: ۵۰‘‘؛ : ج ۵، ص: ۲۰۸، )  …عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما، کان یقول عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إذا دعا أحدکم أخاہ فلیجب عرساً کان أو نحوہ۔ (أخرجہ، مسلم في صحیحہ، ’’کتاب النکاح، باب الأمر بإجابۃ الداعي إلی دعوۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۶۲، رقم: ۱۴۲۹)
قال بعض السلف وأما الأعذار التي یسقط بہا وجوب إجابۃ الدعوۃ أو ندبہا فمنہا أن یکون في الطعام شبہۃ أو یخص بہا الأغنیاء أو یکون من یتأذي بحضورہ معہ أو لا تلیق بہ مجالستہ أو یدعوہ لخوف شر أو لطمع في جانبہ الخ۔ (أخرجہ النووي، في شرح المسلم، ’’کتاب النکاح، باب الأمر بإجابۃ الداعي إلی دعوۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۶۲)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص359

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:نجاست حقیقیہ وہ ہے جو دیکھنے میں آتی ہے اور شریعت نے اسے ناپاک قرار دیا ہے، نجاست حقیقیہ کی دو قسمیں ہیں: (۱) نجاست غلیظہ (۲) نجاست خفیفہ:
 نجاست غلیظہ: امام صاحب کے نزدیک وہ نجاست ہے جس کے نجس ہونے پر نص وارد ہو اور اس کے خلاف کوئی نص نہ ہو اور صاحبین کے نزدیک نجاست غلیظہ وہ نجاست ہے جس کے نجس ہونے پر ائمہ کا اتفاق ہو اور اگر اختلاف ہو تو نجاست خفیفہ ہے۔ نجاست غلیظہ کی مثال جیسے پیشاب پاخانہ شراب وغیرہ، نجاست غلیظہ مقدار درہم معاف ہے۔ عالمگیری میں ہے:
’’النجاسۃ نوعان: الأول : المغلظۃ وعفی منہا قدر الدرہم … کل ما یخرج من بدن الإنسان مما یوجب خروجہ الوضوء أو الغسل فہو مغلظ کالغائط‘‘(۱)
(۲) نجاست خفیفہ: اگر کپڑے عضو یا بدن پر لگی ہو تو دیکھا جائے گا کہ اگر نجاست خفیفہ اس حصے کے چوتھائی سے کم پر ہے، تو معاف ہے اور اگر چوتھائی یا اس سے زائد پر ہے تو دھونا ضروری ہوگا۔
’’والنوع الثاني المخففۃ: وعفي منہا مادون ربع الثوب، کذا في أکثر المتون … وربع العضو المصاب کالید والرِجل إن کان بدناً وصححہ صاحب التحفۃ … وعلیہ الفتویٰ کذا في البحر الرائق‘‘(۲)
دوسری قسم نجاست حکمیہ ہے: نجاست حکمیہ اسے کہتے ہیں جو بظاہر دیکھنے میں نہ آئے؛ لیکن شریعت کا حکم ہونے کی وجہ سے ناپاک مان کر پاکی حاصل کرنا فرض ہوتا ہے اس کی بھی دو قسمیں ہیں:
(۱) حدث اکبر: جیسے منی، اس کے خروج سے غسل واجب ہوتا ہے (۲) حدث اصغر: جیسے ریح اس کے خارج ہونے سے وضو واجب ہوتا ہے۔
’’الطہارات في الإتیان بالجمع إشارۃ إلی أن الطہارۃ أنواع فإن رفع النجاسۃ طہارۃ ورفع الخبث أیضاً طہارۃ وہما نوعان مختلفان‘‘(۳)
’’وإنما صح إلحاق المائعات المزیلۃ بالماء المطلق لتطہیر النجاسۃ الحقیقیۃ لوجود شرط الإلحاق وہي تناھي أجزاء النجاسۃ بخروجہا مع الغسلات وہو منعدم في الحکمیۃ لعدم نجاسۃ محسوسۃ بأعضاء المحدث والحدث أمر شرعي لہ حکم النجاسۃ لمنع الصلاۃ معہ وعین الشارع لإزالتہ أنہ مخصوصۃ فلا یمکن إلحاق  غیرہا بہا‘‘(۱)
’’وذکر الکرخي أن النجاسۃ الغلیظۃ عند أبي حنیفۃ: ما ورد نص علی نجاستہ ولم یرد نص علی طہارتہ معارضاً لہ، وإن اختلف العلماء فیہ والحقیقۃ ما تعارض نصان في طہارتہ ونجاستہ‘‘(۲)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الباب السابع في النجاسۃ وأحکامہا: الفصل الثاني في الأعیان النجسۃ، النوع الأول: المغلظۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۰۔
(۲) أیضا، ’’النوع الثاني المخففۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۱۔
(۳) المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الطہارات: (حاشیہ نمبر: ۱۵)‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۔

(۱) الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الطہارۃ‘‘: ج ، ص: ۲۴۔
(۲) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الطہارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۸۰۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص56

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:وضو کے شرائط و ارکان میں کوئی ذکر نہیں ہے؛ اس لیے بغیر کسی ذکر ودعا کے بھی وضو درست ہے؛ البتہ وضو کے شروع میں یعنی ہاتھوں کو دھوتے وقت ہی تسمیہ مسنون ہے، کوئی بھی ذکر کر لیا جائے، تو یہ سنت ادا ہو جاتی ہے؛ لیکن یہ چند اذکار افضل ہیں، ان میں سے کوئی ایک ہو یا سب کو جمع کر لیا جائے۔
’’(۱) بسم اللّٰہ العظیم والحمد للّٰہ علی دین الإسلام، (۲) أعوذ باللّٰہ من الشیطٰن الرجیم، بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم، (۳) بسم اللّٰہ والحمد للّٰہ‘‘
’’البدائۃ بالتسمیۃ قولا وتحصل بکل ذکر لکن الوارد عنہ علیہ الصلاۃ والسلام بسم اللّٰہ العظیم والحمد للّٰہ علی دین الإسلام، قال ابن عابدین: وقیل عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: بسم اللّٰہ العظیم والحمد للہ علی دین الإسلام وقیل الأفضل بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم بعد التعوذ وفي المجتبی یجمع بینہما وفي شرح الہدایۃ للعیني: المروي عن رسول اللّٰہ علیہ وسلم بسم اللّٰہ والحمد للّٰہ‘‘(۱)
’’منہا التسمیۃ وہي سنۃ لازمۃ سواء کان المتوضي مستیقظاً من نوم أولا ومحلہا عند الشروع في الوضوء‘‘(۲)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب سائر بمعنی باقی لا بمعنی جمع‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۶۔
(۲) عبد الرحمن الجزیري، کتاب الفقہ علی المذاہب الأربعۃ، ’’کتاب الطہارۃ: بیان عدد السنن وغیرہا‘‘: ج ۱، ص: ۶۵۔(بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص166

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق :علامہ شامی نے بیان کیا ہے: معتبر روایت کے اعتبار سے  چوتھائی سر کا مسح فرض ہے اور پورے سر کا سنت ہے۔(۱)

(۱)ومسح ربع الرأس مرّۃ واعلم أن في مقدار فرض المسح روایات، أشھرھا في المتن الثانیۃ مقدار الناصیۃ، واختارھا القدوري و في الھدایۃ وھي الربع… والحاصل أن المعتمد روایۃ الربع و علیھا مشی المتاخرون کابن الھمام و تلمیذ۔(ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في معنی الاشتقاق و تقسیمہ،‘‘ ج۱، ص:۲۱۳)؛والمفروض في مسح الرأس مقدار الناصیۃ وھو ربع الرأس لما روي المغیرۃ بن شعبۃ أن النبي ﷺ أتی سباطۃ قوم فبال و توضأ و مسح علی ناصیتہ و خفیہ، والکتاب مجمل فالتحق بیاناً بہ، یستوعب رأسہ بالمسح وھو سنۃ، (ابن ہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارات‘‘، ج۱، ص:۱۳ -۳۴)؛  و صح المسح علی الخفین في الطھارۃ من الحدث الأصغر لما ورد فیہ من الأخبار المستفیضۃ فیخشی علی منکرہ الکفر… و ذکر الحافظ في فتح الباري عن بعضھم: أنہ روي المسح أکثر من ثمانین منھم العشرۃ المبشرون۔ (طحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي؟ کتاب الطہارۃ، باب المسح علی الخفین، ج۱،ص:۱۲۸، دارالکتاب دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص269

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگرچہ مسلم فنڈ کا تعلق اور واسطہ سرکاری بینکوں سے پڑتا ہے؛ لیکن اس کی وجہ سے مسلم فنڈ کی ملازمت کو مطلقاً ناجائز کہنا غلط ہے، بلکہ پہلے مسلم فنڈ کے نظام کے بارے میں تحقیق کریں، اس لیے مذکورہ امام کے پیچھے نماز بلا کراہت جائز ہے۔(۱)

(۱) {ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَآئَکُمْ فَاسِقٌم بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْٓا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًامبِجَھَالَۃٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَہ۶} إن جاء کم فاسق بنبإ، أي بخبر فتبینوا، وقرئ: فتثبتوا، أي: فتوقفوا واطلبوا بیان الأمر وانکشاف الحقیقۃ ولاتعتمدوا علی قول الفاسق أن تصیبوا أي کیلا تصیبوا بالقتل والسبي قوماً بجہالۃ أي جاہلین حالہ وحقیقۃ أمرہم فتصبحوا علی مافعلتم أي من إصابتکم بالخطإ نادمین۔ (علي بن محمد بن إبراہیم، تفسیر الخازن، ’’سورۃ الحجرات: ۶‘‘: ج۴، ص: ۱۷۸)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص143

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں اگر نابینا امامت کرے اور امامت کی پوری شرائط نابینا کے اندر پائی جاتی ہوں، پاکی اور صفائی کا پورا خیال بھی رکھنے والا ہو تو نابینا کی امامت بلا کراہت درست ہے۔ صاحب ہدایہ نے جو اعمیٰ کی امامت کو مکروہ لکھا ہے اس سے مراد مکروہ تنزیہی ہے اور وہ اس لیے کہ عام طور پر نابینا بصیرت نہ ہونے کی وجہ سے پاکی اور صفائی وغیرہ کا پورا پورا خیال نہیں رکھ پاتا اور قبلہ کی جانب سے انحراف کا بھی اندیشہ رہتا ہے اس لیے صاحب ہدایہ نے احتیاط کے طور پر امامت کو مکروہ یعنی خلاف اولیٰ کہا ہے، اس لیے بہتر ہے کہ وہ نابینا جو احتیاط نہ کر پائے اسے امام نہ بنایا جائے، البتہ اگر جماعت میں اس نابینا سے زیادہ کوئی علم وفضل میں زیادہ نہ ہو اور کوئی دوسری وجہ مانع امامت بھی نہ ہو تو نابینا کی امامت بلاشبہ جائز ہے۔ جیسا کہ فتاویٰ ہندیہ میں ہے کہ: اعرابی اور اندھا اور غلام کی امامت کراہت کے ساتھ جائز ہے۔
’’تجوز إمامۃ الأعرابي والأعمیٰ والعبد ۔۔۔۔۔ إلا أنہا تکرہ‘‘(۱)
علامہ حصکفیؒ نے در مختار میں لکھا ہے:
’’ویکرہ تنزیہاً إمامۃ أعمیٰ إلا أن یکون أعلم القوم‘‘(۲)
امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روایت نقل کی ہے کہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو اپنا جانشین بنایا کہ وہ امامت کریں اور وہ نابینا تھے۔

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۳۔
(۲) الحصکفی، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸۔
’’عن أنس رضي اللّٰہ عنہ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم استخلف ابن أم مکتوم یؤم الناس وہو أعمیٰ‘‘(۱)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص237