طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 1311/42-683

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔اگرخواب یاد نہ ہو تو جب تک منی ہونے کا یقین نہ ہو غسل واجب نہیں ہوگا۔  جاننا چاہئے کہ منی گاڑھی ہوتی ہے اور اس کا خروج قوت کے ساتھ کود کر ہوتا ہے، اوراس کے بعد انتشار ختم ہوجاتا ہے۔۲- مذی رقیق ہوتی ہے جو بیوی سے ملاعبت  یا شہوت پیدا ہونے پر نکلتی ہےاور اس میں انتشار پڑھتاجاتاہے۔ ۳- ودی بھورے رنگ کی ہوتی ہے جو پیشاب کے بعد یا کبھی پہلے خارج ہوتی ہے۔  

"وَلَوِاسْتَيْقَظَ فَوَجَدَ شَيْئًا وَشَكَّ فِي كَوْنِهِ مَنِيًّا أَوْ غَيْرَهُ (وَالشَّكُّ: اسْتِوَاءُ الطَّرَفَيْنِ دُونَ تَرْجِيحِ أَحَدِهِمَا عَلَى الآْخَرِ) فَلِلْفُقَهَاءِ فِي ذَلِكَ عِدَّةُ آرَاءٍ: أ - وُجُوبُ الْغُسْل، وَهُوَ قَوْل الْحَنَفِيَّةِ وَالْمَالِكِيَّةِ وَالْحَنَابِلَةِ، إِلاَّ أَنَّ الْحَنَفِيَّةَ أَوْجَبُوا الْغُسْل إِنْ تَذَكَّرَ الاِحْتِلاَمَ وَشَكَّ فِي كَوْنِهِ مَنِيًّا أَوْ مَذْيًا، أَوْ مَنِيًّا أَوْ وَدْيًا، وَكَذَا إِنْ شَكَّ فِي كَوْنِهِ مَذْيًا أَوْ وَدْيًا؛ لأَِنَّ الْمَنِيَّ قَدْ يَرِقُّ لِعَارِضٍ كَالْهَوَاءِ، لِوُجُودِ الْقَرِينَةِ، وَهِيَ تَذَكُّرُ الاِحْتِلاَمِ. فَإِنْ لَمْ يَتَذَكَّرِ الاِحْتِلاَمَ فَالْحُكْمُ كَذَلِكَ عِنْدَ أَبِي حَنِيفَةَ وَمُحَمَّدٍ، أَخْذًا بِالْحَدِيثِ فِي جَوَابِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الرَّجُل يَجِدُ الْبَلَل وَلَمْ يَذْكُرِ احْتِلاَمًا قَال: يَغْتَسِل. لِلإِْطْلاَقِ فِي كَلِمَةِ " الْبَلَل ". وَقَال أَبُو يُوسُفَ: لاَ يَجِبُ، وَهُوَ الْقِيَاسُ؛ لأِ نَّ الْيَقِينَ لاَ يَزُول بِالشَّكِّ". (الموسوعة الفقهية الكويتية،2/97)

"وَإِنْ اسْتَيْقَظَ الرَّجُلُ وَوَجَدَ عَلَى  فِرَاشِهِ أَوْ فَخِذِهِ بَلَلًا وَهُوَ يَتَذَكَّرُ احْتِلَامًا إنْ تَيَقَّنَ أَنَّهُ مَنِيٌّ أَوْ تَيَقَّنَ أَنَّهُ مَذْيٌ أَوْ شَكَّ أَنَّهُ مَنِيٌّ أَوْ مَذْيٌ فَعَلَيْهِ الْغُسْلُ وَإِنْ تَيَقَّنَ أَنَّهُ وَدْيٌ لَا غُسْلَ عَلَيْهِ وَإِنْ رَأَى بَلَلًا إلَّا أَنَّهُ لَمْ يَتَذَكَّرْ الِاحْتِلَامَ فَإِنْ تَيَقَّنَ أَنَّهُ وَدْيٌ لَا يَجِبُ الْغُسْلُ وَإِنْ تَيَقَّنَ أَنَّهُ مَنِيٌّ يَجِبُ الْغُسْلُ وَإِنْ تَيَقَّنَ أَنَّهُ مَذْيٌ لَا يَجِبُ الْغُسْلُ وَإِنْ شَكَّ أَنَّهُ مَنِيٌّ أَوْ مَذْيٌ قَالَ أَبُويُوسُفَ - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى -: لَا يَجِبُ الْغُسْلُ حَتَّى يَتَيَقَّنَ بِالِاحْتِلَامِ، وَقَالَا: يَجِبُ. هَكَذَا ذَكَرَهُ شَيْخُ الْإِسْلَامِ وَقَالَ الْقَاضِي الْإِمَامُ أَبُو عَلِيٍّ النَّسَفِيُّ: ذَكَرَ هِشَامٌ فِي نَوَادِرِهِ عَنْ مُحَمَّدٍ إذَا اسْتَيْقَظَ الرَّجُلُ فَوَجَدَ الْبَلَلَ فِي إحْلِيلِهِ وَلَمْ يَتَذَكَّرْ حُلْمًا إنْ كَانَ ذَكَرُهُ مُنْتَشِرًا قَبْلَ النَّوْمِ فَلَا غُسْلَ عَلَيْهِ إلَّا إنْ تَيَقَّنَ أَنَّهُ مَنِيٌّ وَإِنْ كَانَ ذَكَرُهُ سَاكِنًا قَبْلَ النَّوْمِ فَعَلَيْهِ الْغُسْلُ قَالَ شَمْسُ الْأَئِمَّةِ الْحَلْوَانِيُّ هَذِهِ الْمَسْأَلَةُ يَكْثُرُ وُقُوعُهَا وَالنَّاسُ عَنْهَا غَافِلُونَ فَيَجِبُ أَنْ تُحْفَظَ. كَذَا فِي الْمُحِيطِ. وَلَوْ تَذَكَّرَ الِاحْتِلَامَ وَلَذَّةَ الْإِنْزَالِ وَلَمْ يَرَ بَلَلًا لَا يَجِبُ عَلَيْهِ الْغُسْلُ وَالْمَرْأَةُ كَذَلِكَ فِي ظَاهِرِ الرِّوَايَةِ؛ لِأَنَّ خُرُوجَ مَنِيِّهَا إلَى فَرْجِهَا الْخَارِجِ شَرْطٌ لِوُجُوبِ الْغُسْلِ عَلَيْهَا وَعَلَيْهِ الْفَتْوَى. هَكَذَا فِي مِعْرَاجِ الدِّرَايَةِ". (الْفَصْلُ الثَّالِثُ فِي الْمَعَانِي الْمُوجِبَةِ لِلْغُسْلِ، الْفَصْلُ الثَّالِثُ فِي الْمَعَانِي الْمُوجِبَةِ لِلْغُسْلِ وَهِيَ ثَلَاثَةٌ، (الھندیۃ 1/15)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 1915/43-1807

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  زید نے اگر تکرار کے دوراان بطور مثال کے کہا کہ جس عورت سے نکاح کروں اس کو تین طلاق۔۔۔۔ تو اس سے کوئی یمین منعقد نہیں ہوگی۔ اور اگر اس نے بطور انشاء کے یہ جملہ کہا اور اس کاا رادہ یہی تھا تو پھر وہ جس عورت سے بھی نکاح کرے گا ، اس منکوحہ پر فورا تین طلاقیں واقع ہوجائیں گی۔اب اس سے نجات کا جو حیلہ بتایاجاتاہے  وہ یہ ہے کہ کوئی تیسرا شخص جو نہ ولی ہو نہ وکیل ہو (جس کو فضولی کہاجاتاہے)، اگر اس نے اپنے طور پر کسی عورت سے اس کا نکاح کرادیا اور پھر بعد میں اس کو خبرکردی کہ میں نے تیرا نکاح فلاں عورت سے کردیا ، تو اس کو قبول کرنے اور رد کرنے کا اختیار ہوتاہے، اگر  اس نے جواب میں مہر نکال کر بھیج دیا یا کوئی بھی ایسا کام کیا جس سے رضامندی ظاہر تو اس سے نکاح درست ہوجائے گا اور طلاق واقع نہ ہوگی، اور نکاح کی خبر ملنے پر رد کرے گا تو نکاح رد ہوجائے گا۔

دوسرا حیلہ یہ ہوسکتاہے کہ جس عورت کو ہمیشہ نکاح میں رکھنے کا ارادہ نہ ہو اس سے نکاح کرلے، نکاح کرتے ہی اس کو تین طلاق ہوجائے گی، پھر اپنی پسند کی جگہ نکاح کرلے تو اس کو کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔

"" وفي الحجة: وحکي أن أئمة اسروشنة کتبوا الی أئمة سمرقند منهم أبو أحمد العیاضی وإلی أئمة بخارا منهم محمد بن إبراهیم المیداني: أن علماء عصرنا یختلفون في مسألة نکاح الفضولي، منهم من سوی بین الإجازة بالقول والفعل أنه لا یحنث فیهما، ومنهم من قال: یحنث فیهما، ومنهم من قال: یحنث بالقول دون الفعل، ما اتفقوا علی شيء یجري علیه ولا یختلف، فذکر الإمام أبو أحمد العیاضي ذلک لأئمة عصره وأئمة بخارا، فاجتمعوا وتکلموا في هذه المسألة وجری الکلام بینهم یومین من أول النهار إلی آخره بالنظر والاستدلال والإنصاف وطلب الصواب وابتغاء الثواب، فوقع اتفاقهم علی أنه لایحنث الحالف بالإجازة بالفعل ویحنث بالقول وهو أوسط الأقاویل"۔ (فتاوی التاتارخانیۃ" ۶۱۰/۳)و الدرالمختار۳۵۲/۳)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند 

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 2336/44-3517

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔قرآن کریم کا احترام لازم ہے، اگر قرآن کے اوراق ناقابل استعمال ہوجائیں تو ان کو حفاظت کی غرض سے دفن کرنا جائز ہے، اور اس تدفین میں بھی احترام کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ لہذا  بغلی قبر کھود کر اس میں دفن کرنا بہتر ہےتاکہ مٹی ڈالنے میں اہانت کا شائبہ نہ ہو، اور اگر گڑھا کھود کر اس میں لکڑی لگادی جائے اور پھر مٹی ڈالی جائے تو بھی درست ہے۔ لکڑی لگانا ضروری تو نہیں ہے البتہ ایسی صورت اختیار کی جانی ضروری ہے کہ مٹی براہ راست قرآن پر نہ گرے کہ اہانت کا شبہہ پیدا ہو۔  اور اگرپاک کپڑے میں لپیٹ کر گڑھے میں ادب سے رکھ کر اس پر مٹی ڈال دی جائے تو بھی جائز ہے  کہ دفن کرنے والوں کے پیش نظر احترام ہے البتہ   بظاہر اہانت  کا  شبہہ ہے اس  وجہ سے مکروہ ہے۔  

"وفي الذخيرة: المصحف إذا صار خلقاً وتعذر القراءة منه لايحرق بالنار، إليه أشار محمد، وبه نأخذ، ولايكره دفنه، وينبغي أن يلف بخرقة طاهرة ويلحد له؛ لأنه لو شق ودفن يحتاج إلى إهالة التراب عليه، وفي ذلك نوع تحقير إلا إذا جعل فوقه سقف، وإن شاء غسله بالماء أو وضعه في موضع طاهر لاتصل إليه يد محدث ولا غبار ولا قذر تعظيماً لكلام الله عز وجل اهـ (رد المحتار - (6 / 422)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

Ref. No. 2515/45-3848

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مسئولہ میں اگر شخص مذکور نے سلام پھیرنے کے بعد کوئی منافی صلاۃ کام نہیں کیا ہے تو آپ کے کھانسنے سے یا آپ کے کھڑے ہونے سے اس کو یاد آجائے اور وہ اپنی ایک رکعت پوری کرلے تو نماز درست ہوجائے گی، اعادہ کی ضروررت نہیں ہوگی، اور اگر منافی صلوۃ عمل پایاگیا  ،  مثلاً قبلہ کی طرف سے سینہ پھیرلیا یا آپ نے اس کو  بات چیت کے ذریعہ بتایا کہ آپ نے تین رکعتیں پڑھی ہیں تو اس صورت میں وہ نماز فاسد ہوجائے گی اور اس نماز کو از سر نو پڑھنا  ہی لازم ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ فی السوال حدیث مسلم شریف، بخاری شریف میں ہے(۱) علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ وسلم پر صادق آتی ہے اور اس کا صحیح مصداق وہی ہیں اور علامہ سیوطیؒ کے ایک شاگرد ہیں، جو فرماتے ہیں کہ ہمارے استاد علامہ سیوطی نے جو فرمایا وہی صحیح ہے؛ اس لیے فارس کے لوگوں میں سوائے امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے کوئی بھی اتنے اونچے علم کو نہیں پہونچا۔ (۲)

(۱) لوکان الإیمان عند الثریا لنالہ رجال أو رجل من ہؤلاء۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب التفسیر، سورۃ الجمعۃ: باب قولہ: أخرین منہم لما یلحقوا بہم‘‘: ج ۲، ص: ۷۲۷؛و أخرجہ المسلم، في صحیحہ، ’’کتاب فضائل الصحابۃ رضي اللّٰہ عنہم: باب فضل فارس‘‘: ج ۲، ص: ۳۱۲، رقم: ۲۵۴۶)
(۲) في حاشیۃ الشبراملسي علی المواہب عن العلامۃ الشامي تلمیذ الحافظ السیوطي قال: ما جزم بہ شیخنا الرملي أن أبا حنیفۃ ہو المراد من ہذا الحدیث ظاہر لا شک فیہ لأنہ یبلغ من أبناء فارس في العلم مبلغہ أحد۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’مقدمہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۷)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص137

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 2629/45-4003

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   اس طرح اپنی زمین گروی رکھ کر قرض لینا جائز نہیں ہے کیونکہ اس  معاملہ میں زمین والا  مرتہن کو اس زمین میں تصرف کی اجازت دیتاہے حالانکہ یہ سود ہے۔ ہاں البتہ  اگر زمین  کا مالک زمین کا سودا کرے اور معاملہ کرتے وقت زمین واپس کرنے  کی شرط نہ لگائے، بلکہ زمین کی قیمت وصول کرکے زمین کو خریدارکی ملکیت میں دیدے ، پھر جب زمین بیچنے والے شخص کے پاس زمین کی قیمت کے بقدر رقم آجائے اور وہ دوبارہ وہی زمین خریدلے تو اس کی اجازت ہوگی۔ 

’’وَنَماءُ الْرَّهنِ کَالوَلَدِ وَالْثَّمَرِ وَالْلَّبَنِ وَالصُوفِ والوَبرِ وَالاَرْشِ وَنَحوِ ذٰلکَ لِلْرَّاهنِ لِتَوَلُّدِه مِنْ مِلْکِه‘‘. (درمختار ج۵/ ص۳۳۵)

’’لاَ یَحِلُ لَه اَنْ یَنْتَفِعَ بِشَیٍٴ مِنه بِوَجْه مِنَ الْوُجُوه اِنْ اَذِنَ لَه الْرَّاهنُ لأنَّه أذِنَ لَه في الْرِبَوا‘‘. (شامی ج۵/ ص۳۱۰)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللہ التوفیق:شراب پینے کے کچھ دیر بعد جب کہ منھ میں شراب کے قطرے باقی نہیں تھے شرابی مذکور نے قلم منہ میں دبایا پھر نکالا پھر اس کو دوسرے شخص نے منہ میں دبایا  تو اس میں کچھ حرج نہیں، اس کا منہ پاک ہے ناپاک نہیں ہوا، البتہ جان بوجھ کر ایسا نہ کرے کہ اس میں کراہیت طبعی بھی ہے۔(۲)

(۲) و شارب خمر فور شربھا أي بخلاف ما إذا مکث ساعۃ ابتلع ریقہ ثلاث مرات بعد لحس شفتیہ بلسانہ و ریقہ ثم شرب فإنہ لا ینجس ولا بد أن یکون المراد إذا لم یکن في بزاقہ أثر الخمر من طعم أو ریح۔ (ابن عابدین، ردالمحتار،کتاب الطہارۃ، باب المیاہ، مطلب في السؤر، ج۱، ص:۳۸۲)؛ و إلا إذا مکثت ساعۃ لغسل فمھا بلعابھا لأنھما یجوزان إزالۃ النجاسۃ بالمائعات الطاھرۃ۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، فصل في الآسار وغیرہا ، ج۱، ص:۱۱۶)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص436

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق: قرآن کے صفحات پر خون لگ جائے، تو ان کو پونچھ دینے سے پاکی حاصل ہو جائے گی، ان کو دھو کر خراب کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
’’وإزا لتہا إن کانت مرئیۃ بإزالۃ عینہا وأثرہا إن کانت شیئا یزول أثرہا ولا یعتبر فیہ العدد وإن کان شیئاً لا یزول أثرہا فإزا لتہا بإزالۃ عینہا ویکون ما بقی من الأثر عفواً وإن کان کثیراً وإنما اعتبرنا زوال العین‘‘ (۱)
’’والنجاسۃ إذا أصابت المرآۃ والسیف اکتفی بمسحہما لأنہ لا تتداخلہما النجاسۃ وما علی ظاہرہ یزول بالمسح‘‘ (۲)

(۱) برہان الدین محمود بن أحمد، المحیط البرہاني في الفقہ النعماني، ’’کتاب الطہارات: الفصل السابع في النجاسات وأحکامہا، في تطہیر النجاسات‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۵(بیروت: دارالکتب العلمیۃ، لبنان)
(۲) بدر الدین العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الطہارات: باب الأنجاس وتطہیر لہا‘‘: ج ۱، ص: ۷۱۸۔ (زکریا بک ڈپو دیوبند )

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص27

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ امور بدعات ورسومات پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ناجائز ہیں۔ ایسا شخص گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہے۔(۱)

(۱) ویکرہ إمامۃ عبد وأعرابي وفاسق …  ومبتدع أي صاحب بدعۃ …… وأما الفاسق فقد عللوا کراہۃ تقدیمہ بأنہ لا یہتم لأمر دینہ وبأن في تقدیمہ للإمامۃ تعظیمہ وقد وجب علیہم إہانتہ شرعاً۔ (ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص:۲۹۸، ۲۹۹، زکریا دیوبند)
(۲) الأعلم بالسنۃ أولی إلا أن یطعن علیہ في دینہ لأن الناس لایرغبون في الاقتداء بہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص135

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: امام کا عالم دین ہونا اور مسائل نماز سے واقف ہونا، نماز کے درست ہونے کے لیے کافی ہے، آنکھ سے کانا ہونا یا روزانہ کپڑے بدلنا، سرمہ وغیرہ لگانا امامت کے عدم جواز کی دلیل نہیں ہے؛ لہٰذا مذکورہ شخص کی امامت بلا کراہت شرعاً در ست ہے۔(۱)

(۱) قید کراھۃ إمامۃ الأعمی في المحیط وغیرہ بأن لا یکون أفضل القوم فإن کان أفضلھم فھو أولی (ابن عابدین، رد المحتار علی الدرالمختار ج۲، ص:۲۹۸)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص231