اسلامی عقائد

Ref. No. 2539/45-3881

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ وہ حقائق اور اخبار  جن کی حدیثیں متواتر طور پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں ، یعنی صحابہ سے لے کر بعد کی نسلوں تک ہر زمانے میں اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرنے والے اتنے لوگ رہے ہیں کہ ان کا کسی کذب بیانی یا غلط فہمی پر متفق ہونا عقلاً محال اور ناممکن ہے اور یہ قطعی طور پر ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چیزوں کی خبر دی ہے اور اپنی امت کو ان کے بارے میں بتلایا ہے۔ ایسی چیزوں کو علماء کی اصطلاح میں ’’ضروریات دین‘‘ کہتے ہیں ۔ یعنی وہ باتیں جن کے بارے میں یقین کے درجے میں یہ بات ثابت ہے کہ ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے اور ان کی بابت اپنی امت کو تعلیم دی ہے۔

سچے دل سے اُن سب باتوں کی تصدیق کرنا جو ضروریاتِ دین ہیں ایمان کہلاتاہےاور کسی ایک ضرورتِ دینی کے انکار کو کفر کہتے ہیں، اگرچہ باقی تمام ضروریات  دین کی تصدیق کرتا ہو۔ اس لئے  ایسا شخص  جو متواتر احادیث کا  بلا تاویل منکر ہو وہ دائرہ ایمان سے خارج ہے، البتہ اگر کوئی تاویل یا توجیہ پیش کرے جس سے کسی حدیث کا انکار لازم آئے تو ایسا شخص گمراہ ہے، جادۂ مستقیم سے ہٹاہوا ہے۔ ایسا شخص دین کے سلسلے میں لائق توجہ نہیں ہے، اس لئے  اپنے عقیدہ کی حفاظت کرنا اور ایسے شخص کی کتابوں اور مضامین  سے  دور رہنا  ضروری ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

مساجد و مدارس

Ref. No. 2580/45-3953

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  صف اول کا اہتمام کرنا بڑی فضیلت کی بات ہے، لیکن مسجد اللہ تعالیٰ کا گھر ہے کسی کےلیے مسجد میں اپنی مخصوص جگہ متعین کرنے کی گنجائش نہیں ہے، جو شخص مسجد میں پہلے آئے گا وہی آگے  کی صف میں موجود خالی جگہ کا زیادہ حق دار ہوگا، صف اول میں پہلے آکر رو مال وغیرہ ڈال دینے سے وہ جگہ اس کے لیے مخصوص نہیں  ہوجاتی ہے،  ہاں اگر فوراً واپس آنا ہو اور مذکورہ جگہ پر رومال ڈال دے تو اس کے لیے وہ جگہ مخصوص ہوگی، حضرات فقہاء نے فوری طور پر لوٹنے کی صورت میں اس جگہ کو مخصوص کرنےکی اجازت دی ہے۔  لہٰذا مذکورہ صورت کہ رومال ڈال کر صف کے اخیر میں قرآن پڑھنے سے وہ جگہ مخصوص نہیں ہوگی۔

وتخصيص المكان لنفسه، وليس له إزعاج غيره. لأنه يخل بالخشوع، قال في القنية: له في المسجد موضع معين يواطب عليه وقد شغله غيره قال الأوزاعي له أن يزعجة وليس له ذلك عندنا لأن المسجد ليس ملكا لأحد قلت وينبغي تقيده بما اذا لم يقم عنه علي نيه عوده بلا مهلة كما لو قام للوضوء ومثلاً ولا سيما اذا وضع فيه ثوبه لتحقق سبق يده. (شامي: ج 3، ص: 436)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر ناپاک کپڑے کی تری پاک کپڑے میں لگ جائے اور وہ گیلا ہو جائے، تو وہ کپڑے ناپاک ہو جائیں گے اور اگر ناپاکی کا اثر دوسری چیز یا کپڑے میں ظاہر نہ ہو تو وہ چیزیں یا وہ کپڑے ناپاک نہیں ہوں گے اور اگر پیشاب کی ایک دو چھینٹیں پڑ جائیں، تو تین مرتبہ دھونا ضروری ہے؛ البتہ اگر ایک درہم سے کم لگی ہوں اور اسے دھونا یاد نہ رہا ہو اور اسی حالت  میں نماز شروع کردی، تو فقہاء نے لکھا ہے کہ نماز پڑھ لینے سے نماز اداء ہو جائے گی۔
’’ولو ابتل فراش أو تراب نجسا وکان ابتلالہما من عرق نائم علیہما أو کان من بلل قدم وظہر أثر النجاسۃ وہو طعم أو لون أو ریح في البدن والقدم تنجسا لوجودہا بالأثر وإلا أي: وإن لم یظہر أثرہا فیہما فلا ینجسان‘‘ ’’کما لا ینجس ثوب جاف طاہر لف في ثوب نجس رطب لا ینعصر الرطب لو عصر لعدم انفصال جرم النجاسۃ إلیہ۔ واختلف المشایخ فیما لو کان الثوب الجاف الطاہر بحیث لو عصر لا یقطر فذکر الحلواني أنہ لا ینجس في الأصح وفیہ نظر لأن کثیرا من النجاسۃ یتشربہ الجاف ولا یقطر بالعصر کما ہو مشاہد عند ابتداء غسلہ فلا یکون المنفصل إلیہ مجرد نداوۃ إلا إذا کان النجس لا یقطر بالعصر فیتعین أن یفتی بخلاف ما صحح الحلواني ولا ینجس ثوب رطب بنشرہ علی أرض نجسۃ ببول أو سرقین لکونہا یابسۃ فتندت الأرض منہ أي: من الثوب الرطب ولم یظہر أثرہا فیہ‘‘(۱)
وفي الدر المختار مع رد المحتار:
’’(وعفا) الشارع (عن قدر درہم) وإن کرہ تحریما، فیجب غسلہ، وما دونہ تنزیہا فیسن، وفوقہ مبطل‘‘(۲)
’’والأقرب أن غسل الدرھم وما دونہ مستحب مع العلم بہ والقدرۃ علی غسلہ فترکہ حینئذ خلاف الأولی، نعم الدرھم غسلہ آکد مما دونہ فترکہ أشد کراھۃ کما یستفاد من غیرما کتاب من مشاھیر کتب المذھب الخ‘‘(۳)

(۱) حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح، ’’کتاب الطہارۃ: …بقیہ حاشیہ آئندہ صفحہ پر…
باب الأنجاس والطہارۃ، عنہا‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۹۔
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الأنجاس‘‘: ج ۱، ص: ۵۲۰۔    (۳) أیضاً۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3ص58


 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:آن لائن قرآن پڑھنے سے اگر لیپ ٹاپ، کمپیوٹر یا موبائل فون کی اسکرین پر کھلا ہوا قرآن پڑھنا مراد ہے، تو اس کا حکم یہ ہے کہ موبائل یا لیپ ٹاپ کی اسکرین کو دیکھ کر قرآن کریم پڑھنا جائز ہے، تلاوت خواہ وضو کی حالت میں ہو یا بے وضو ہو اور اس دوران بے وضو موبائل کو مختلف اطراف سے چھونا اور پکڑنا، تو جائز ہے؛ لیکن اسکرین کو بغیر وضو چھونا جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ جس وقت قرآن کریم اسکرین پر کھلا ہوا ہوتا ہے، اس وقت اسکرین کو چھونا قرآن کو چھونے کے حکم میں ہوتا ہے۔
اور اگر آن لائن پڑھنے کا مطلب کسی قاری صاحب سے آن لائن قرآن پڑھنا ہے، مثلا استاذ قرآن کی تلاوت کرے اور طالب علم سن کر اس کی اصلاح وتصحیح کرے دونوں میں سے کسی کے سامنے قرآن نہ ہو، تو اس صورت میں بلا وضو قران کی تلاوت کرنا جائز ہوگا او راگر استاذ موبائل میں انٹرنیٹ کی مدد سے پڑھائے اور طالب کے سامنے قرآن کھلا ہو، تو اس کو چھونے کے لیے وضو کرنا ضروری ہوگا۔
خلاصہ یہ ہے کہ قرآن چھونے کے لیے وضو کی ضرورت ہے،قرآن کی تلاوت کے لیے وضو کی ضرورت نہیں ہے، اور موبائل یا کمپیوٹر کی اسکرین پر کھلا قرآن یہ عام قرآن کے حکم میں ہے اس کو بلا وضو چھونا جائز نہیں ہے۔
’’ولیس لہم مس المصحف إلا بغلافہ ولا أخذ درہم فیہ سورۃ من القرآن إلا بصرتہ، وکذا المحدث لا یمس المصحف إلا بغلافہ؛ لقولہ علیہ السلام لا یمس القرآن إلا طاہر‘‘(۱)
’’(و) یحرم (بہ) أي بالأکبر (وبالأصغر) مس مصحف: أي ما فیہ آیۃ کدرہم وجدار، وہل مس نحو التوراۃ کذلک؟ ظاہر کلامہم لا (إلا بغلاف متجاف) غیر مشرز أو بصرۃ بہ یفتی، وحل قلبہ بعود، (قولہ: أي ما فیہ آیۃ إلخ) أي المراد مطلق ما کتب فیہ قرآن مجازاً، من إطلاق اسم الکل علی الجزء، أو من باب الإطلاق والتقیید۔ قال ح: لکن لایحرم في غیر المصحف إلا بالمکتوب: أي موضع الکتابۃ کذا في باب الحیض من البحر، وقید بالآیۃ؛ لأنہ لو کتب ما دونہا لایکرہ مسہ کما في حیض القہستاني۔ وینبغي أن یجری ہنا ما جری في قرائۃ ما دون آیۃ من الخلاف، والتفصیل المارین ہناک بالأولی؛ لأن المس یحرم بالحدث ولو أصغر، بخلاف القرائۃ فکانت دونہ تأمل … (قولہ: غیر مشرز) أي غیر مخیط بہ، وہو تفسیر للمتجافی، قال في المغرب: مصحف مشرز أجزاؤہ مشدود بعضہا إلی بعض من الشیرازۃ ولیست بعربیۃ۔ فالمراد بالغلاف ما کان منفصلاً کالخریطۃ وہي الکیس ونحوہا؛ لأن المتصل بالمصحف منہ حتی یدخل في بیعہ بلا ذکر۔ وقیل: المراد بہ الجلد المشرز، وصححہ في المحیط والکافي، وصحح الأول في الہدایۃ وکثیر من الکتب، وزاد في السراج: أن علیہ الفتوی۔ وفي البحر: أنہ أقرب إلی التعظیم۔ قال: والخلاف فیہ جار في الکم أیضاً۔ ففي المحیط: لایکرہ عند الجمہور، واختارہ في الکافي معللاً بأن المس اسم للمباشرۃ بالید بلا حائل۔ وفي الہدایۃ: أنہ یکرہ ہو الصحیح؛ لأنہ تابع لہ، وعزاہ في الخلاصۃ إلی عامۃ المشایخ، فہو معارض لما في المحیط فکان ہو أولی۔ أقول: بل ہو ظاہر الروایۃ کما في الخانیۃ، والتقیید بالکم اتفاقي فإنہ لایجوز مسہ ببعض ثیاب البدن غیر الکم کما في الفتح عن الفتاوی۔ وفیہ قال لي بعض الإخوان: أیجوز بالمندیل الموضوع علی العنق؟ قلت: لا أعلم فیہ نقلاً۔ والذي یظہر أنہ إذا تحرک طرفہ بحرکتہ لایجوز وإلا جاز، لاعتبارہم إیاہ تبعاً لہ کبدنہ في الأول دون الثاني فیما لو صلی وعلیہ عمامۃ بطرفہا الملقی نجاسۃ مانعۃ، وأقرہ في النہر والبحر۔ (قولہ: أو بصرۃ) راجع للدرہم، والمراد بالصرۃ ما کانت من غیر ثیابہ التابعۃ لہ۔ (قولہ: وحل قلبہ بعود) أي تقلیب أوراق المصحف بعود ونحوہ لعدم صدق المس علیہ‘‘(۱)

(۱) بدر الدین العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’مس المصحف للمحدث و الحائض‘‘: ج ۱، ص: ۶۴۹۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب یطلق الدعاء علی ما یشمل الثناء‘‘: ج۱، ص: ۳۱۵ - ۳۱۶۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص168

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق :چمڑے کے موزوں پر مسح کرنا حدیث سے ثابت ہے۔ در مختار میں ہے کہ سنت مشہورہ سے اس کا ثبوت ہے۔ اور مسح علی الخفین کے راوۃِ حدیث اسی (۸۰) صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے زیادہ ہیں، ان میں عشرۂ مبشرہ بھی شامل ہیں۔(۲)

(۲) و في التحفۃ ثبوتہ بالإجماع بل بالتواتر، رواتہ أکثر من ثمانین منھم العشرۃ (ابن عابدین، الدرالمختار مع الرد، ’’کتاب الطہارۃ، باب المسح علی الخفین، مطلب تعریف الحدیث المشہور،‘‘ ج۱، ص:۴۴۶)، والأخبار فیہ مستفیضۃ قال أبوحنیفۃ: ما قلت بالمسح حتی جاء ني فیہ مثل ضوء النھار، و عنہ أخاف الکفر علی من لم یر المسح علی الخفین: لأن الآثار التي جاء ت فیہ في حیز التواتر۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارۃ، باب المسح علی الخفین،‘‘ ج۱، ص:۱۴۶مکتبۃ زکریا دیوبند)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص270

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: خالد کے جو حالات سوال میں تحریر ہیں ان کی روسے خالد کو امام بنانا مکروہ تحریمی ہے اس کو معزول کرنا جائز ہے(۱)  اور تلک کی رقم لینا قطعاً جائز نہیں۔

(۱) ویکرہ إمامۃ عبد وأعرابي وفاسق وأعمیٰ ونحوہ الأعشیٰ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۱، ص: ۸۵)
قولہ وفاسق) من الفسق، وہو الخروج عن الاستقامۃ، ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر کشارب الخمر والزاني وآکل الربا ونحو ذلک، کذا في البرجندی۔ (ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۰، ۵۶۱، سعید کراچی)
ولذا کرہ إمامۃ الفاسق العالم لعدم اہتمامہ بالدین فتجب إہانتہ شرعاً فلا یعظم بتقدیمہ لإمامۃ وإذا تعذر منعہ ینتقل عنہ إلی غیر مسجدہ للجمعۃ وغیرہا وإن لم یقم الجمعۃ إلا ہو تصلي معہ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوٰۃ: فصل في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۲، ۳۰۳، شیخ الہند دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص144

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بشرط صحت سوال جب امام رکوع و سجود وجلسہ بھی نہیں کرسکتے تو مذکورہ شخص کی امامت درست نہیں، دوسرا نظم ضروری ہے۔
’’ولا یصلي الذي یرکع ویسجد خلف المؤمي‘‘(۲)

(۲) المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۷۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص238

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اذان ہو جانے کے بعد نماز پڑھے بغیر بلا عذر شرعی مسجد سے نکلنا مکروہ تحریمی ہے۔ اگر جماعت کے وقت واپس آنے کا ارادہ ہے، تو مکروہ نہیں ہے۔
’’وکرہ تحریماً للنہي خروج من لم یصل من مسجد أذن فیہ جری علی الغالب والمراد دخول الوقت أذن فیہ أولا إلا لمن ینتظم بہ أمر جماعۃ أخری أو کان الخروج لمسجد حیہ ولم یصلوا فیہ أولأستاذہ لدرسہ أو لسماع الوعظ أو لحاجۃ ومن عزمہ أن یعود‘‘(۱)
وعن عثمان رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: من أدرکہ الأذان في المسجد ثم خرج لم یخرج لحاجۃ وہو لا یرید الرجعۃ فہو منافق‘‘(۳)

(۲) ابن عابدین،  رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب إدراک الفریضۃ،   …مطلب في کراھۃ الخروج من المسجد بعد الأذان‘‘:ج ۲، ص: ۵۰۸۔
یکرہ الخروج بعد الأذان تحریماً لمن کان داخل المسجد، وہذا الحکم مقتصر علی من کان داخل المسجد۔ (الکشمیري، العرف الشذي شرح سنن الترمذي: ج ۱، ص: ۲۱۹)
(۳) أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’کتاب الأذان والسنۃ فیہا، باب إذا أذن وأنت في المسجد فلا تخرج‘‘: ج۱، ص: ۵۴، رقم: ۷۳۴۔

 

فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص349

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز میں سورہ فاتحہ کے بعد آمین کہنا بالاتفاق مسنون ہے اور اس پر بھی اتفاق ہے کہ سری وانفرادی نمازوں میں آمین آہستہ کہی جائے گی، حنفیہ کے نزدیک جہری نمازوں میں بھی آہستہ آمین کہنا افضل ہے جس کی تائید متعدد نصوص شرعیہ سے ہوتی ہے۔ لفظ آمین ایک دعاء ہے، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ حضرت عطاء ؒکے حوالہ سے نقل فرماتے ہیں ’’الآمین دعاء‘‘(۱) مجمع البحار میں ہے ’’معناہ استجب لي‘‘(۲)
اور دعاء مانگنے میں اصل اور افضل آہستہ دعاء مانگنا ہے۔{أدعوا ربکم تضرعا وخفیۃ}(۳) حضرت زکریا علیہ السلام نے بھی آہستہ دعاء کی تھی {اِذْ نَادٰی رَبَّہٗ نِدَآئً خَفِیًّاہ۳ }(۴)
’’عن علقمۃ بن وائل عن أبیہ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قرأ غیر المغضوب علیہم ولا الضالین فقال آمین خفض بہا صوتہ‘‘(۵)
’’عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال إذا قال الإمام ’’ولا الضالین‘‘ فقولوا آمین‘‘ فإن الإمام یقولہا، رواہ أحمد، والنسائي والدارمي وإسنادہ صحیح‘‘(۶)

اس روایت میں ’’فإن الإمام یقولہا‘‘ سے پتہ چلتا ہے کہ ’’آمین‘‘ آہستہ کہے گا ورنہ اس جملہ کی کوئی ضرورت نہ تھی۔
’’عن أبي وائل قال لم یکن عمر وعلي یجہران ببسم اللّٰہ الرحمن الرحیم ولا التعوذ ولا آمین‘‘(۱)
’’عن أبي وائل قال کان علي وعبد اللّٰہ لا یجہران … بالتأمین‘‘(۲)

مذکورہ بالا احادیث مبارکہ اور آثار صحابہؓ سے معلوم ہوا ہے کہ نماز میں ’’آمین‘‘ آہستہ کہی جائے گی۔
امام طبریؒ فرماتے ہیں: ’’إن أکثر الصحابۃ والتابعین رضي اللّٰہ عنہم کانوا یخفون بہا‘‘(۳)
’’ عن عبد الرحمن بن أبي لیلی قال: قال عمر بن الخطاب رضي اللّٰہ عنہ یخفی الإمام أربعاً التعوذ وبسم اللّٰہ الرحمن الرحیم وآمین وربنا لک الحمد‘‘(۴)
’’قال شیخ الإسلام أبو بکر المرغیناني وإذا قال الإمام ولاالضالین قال آمین، ویقولہا المؤتم قال ویخفونہا‘‘(۵)
’’قال الشیخ بدر الدین العیني أي یخفی الإمام والقوم جمیعاً لفظہ آمین‘‘(۶)
’’وسننہا … والتأمین وکونہن سراً‘‘(۷)
’’وإذا فرغ من الفاتحۃ قال آمین والسنۃ فیہ الإخفاء ویخفی الإمام والمأموم‘‘(۸)

(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب جہر الإمام بالتأمین‘‘: ج ۱، ص: ۱۰۷۔
(۲) جمال الدین، محمد طاہر بن علی، مجمع البحار: ج ۱، ص: ۱۰۵۔
(۳) سورۃ الاعراف: ۵۵۔
(۴) سورہ مریم: ۳۔
(۵) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلوۃ، باب ما جاء في التأمین‘‘: ج ۲، ص: ۵۷، رقم: ۲۴۸۔
(۶) أو جز المسالک، ’’کتاب الصلوۃ: التأمین خلف الإمام‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۲۔
(۱) أخرجہ أبوجعفر الطحاوي، في شرح معاني الآثار: ’’کتاب الصلاۃ‘‘ ج ۱، ص: ۹۹۔
(۲) المعجم الکبیر: رقم: ۹۲۰۷، مکتبہ العلوم والحکم۔(شاملہ)
(۳) أبوظفر العثماني، إعلاء السنن: ج ۲، ص: ۲۲۳
(۴) اندلسي، المحلی بالآثار: ج۲، ص: ۲۸۰(شاملہ)
(۵) ابن الہمام، فتح القدیر مع الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۰۱
(۶) العیني، العنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۵
(۷) ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب سنن الصلاۃ‘‘: ج ۲،ص: ۱۷۲
(۸) الفتاویٰ التاتار خانیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الفصل الثالث کیفیۃ الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۶۷، زکریا دیوبندـ۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص390

زکوۃ / صدقہ و فطرہ

Ref. No. 1289

بسم اللہ الرحمن الرحیم-:  زکوة کی ادائیگی کے لئے یا تو آپ  والد صاحب  کو پیسے دیدیں اور وہ اپنے اختیار سے  اپنی زکوة دیں یا آپ ان کی اجازت لے کر ان کی طرف سے بھی زکوة ادا کرسکتے ہیں۔ ان کی اجازت کے بغیر ان کی طرف سے دیں گے تو زکوة ادا نہیں ہوگی۔  واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند