ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 1462/42-898

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ بینکوں کا طریقہ کار کیا ہے، ہمیں نہیں معلوم۔ جن علماء کو جو تفصیلات بتائی گئیں ان کے مطابق انھوں نے جواز اور عدم جواز کافتوی  دیا ہوگا۔ اس سلسلہ میں دونوں  فریق  اگر مل بیٹھ کر تفصیلات پر گفتگو کریں تو فیصلہ آسان ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 1561/43-1080

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔زنا ایک گناہ کبیرہ ہے، اس پر سچی توبہ اور استغفار لازم ہے۔ اگر لڑکا و لڑکی سے ایسی غلطی ہوگئی اور جب حمل ظاہر ہوا تو دونوں کا نکاح کردیا گیاتو یہ اچھا کام ہوا۔چونکہ یہ حمل اسی کا ہے، اس سے غلطی پر پردہ بھی پڑ جائے گا اور بچہ کو اس کا باپ بھی مل جائے گا۔ اس لئے اگر نکاح کے چھ ماہ  بعد بچہ پیدا ہوگا تو اس کانسب  اس لڑکے سے ثابت ہوجائے گا، اور وہ اسی کا لڑکا قرار پائے گا۔ اور اگر چھ ماہ سے کم میں بچہ پیدا ہوگیا اور شوہر اس کے اپنے نسب سے ہونے کا اقرار کرتاہے تو بھی اس کا نسب اس سے ثابت مانا جائے گا، اور اگر انکار کرتاہے تو وہ لڑکا ولد الزنا ٹھہرے گا۔ نکاح ہوجانے کے بعد لڑکا لڑکی آپس میں مل سکتے ہیں، وضع حمل تک انتظار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔  البتہ اگر اس  لڑکی کا نکاح کسی دوسرے لڑکے سے ہو تو نکاح تو درست ہوجائے گا لیکن اس کے لئے وضع حمل تک صحبت کرنا حلال نہیں ہوگا۔

"لو نكحها الزاني حل له وطؤها اتفاقاً، والولد له ولزمه النفقة (قوله: والولد له) أي إن جاءت بعد النكاح لستة أشهر، مختارات النوازل، فلو لأقل من ستة أشهر من وقت النكاح لايثبت النسب، ولايرث منه إلا أن يقول: هذا الولد مني، ولايقول: من الزنى، خانية. والظاهر أن هذا من حيث القضاء، أما من حيث الديانة فلايجوز له أن يدعيه؛ لأن الشرع قطع نسبه منه، فلايحل له استلحاقه به، ولذا لو صرح بأنه من الزنى لايثبت قضاءً أيضاً، وإنما يثبت لو لم يصرح؛ لاحتمال كونه بعقد سابق أو بشبهة حملاً لحال المسلم على الصلاح، وكذا ثبوته مطلقاً إذا جاءت به لستة أشهر من النكاح؛ لاحتمال علوقه بعد العقد، وأن ما قبل العقد كان انتفاخاً لا حملاً، ويحتاط في إثبات النسب ما أمكن" (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 49) "لاتجب العدة علی الزانیة". (الفتاوی الهندية، 526) "وإن حرم وطؤها و دواعیه حتی تضع ... لو نکح الزاني حل له وطؤها اتفاقاً" (شامی 4/141)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 1637/43-1215

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذاق مذاق میں نکاح کرنا الگ چیز ہے، اور نکاح کی حکایت اور نقل ایک الگ امر ہے۔ اگر مذاق میں نکاح  کیا اور شرائط نکاح  موجود ہوں تو اس سے نکاح منعقد ہوجاتاہے، البتہ اگر کسی نکاح کی حکایت بیانی  کی جائے جیسا کہ ڈراموں میں ہوتاہے تو اس سے نکاح منعقد نہیں ہوگا۔  ڈراموں میں پہلے  کہانی لکھی جاتی ہے اور اداکارواداکارہ اسی کہانی کو عملی شکل میں پیش  کرتے ہیں۔ ان کا مقصد مذاق میں نکاح کرنا یا حقیقت میں نکاح کرنا نہیں ہوتاہے بلکہ محض حکایت مقصود ہوتی ہے، اور زبان سے ان الفاظ کو لکھی ہوئی ایک تحریر کے طور پر پڑھاجاتاہے۔ جیسے ہم اگر کہیں پڑھیں"میں نے اپنی بیوی کو طلاق دیا" تو اس سے ایک مخصوص تحریر کو پڑھنا مقصود ہے نہ کہ طلاق دینا۔الغرض ڈرامہ میں جو بطور تمثیل نکاح و طلاق ہوتاہے اس کا حقیقت نکاح و طلاق سے کوئی تعلق نہیں ۔  تاہم احتیاط بہرصورت لازم ہے۔

"وفي الذخيرة: قال واحد من أهل المجلس للمطربة: "اين بيت بگو كه من بتودادم كه تو جان مني"، فقالت المطربة: ذلك، فقال الرجل: "من پزيرفتم"، إذا قالت على وجه الحكاية فقيل: لاينعقد النكاح، لأنها إذا قالت على وجه الحكاية لاتكون قاصدةً للإيجاب".  (فتاوی تاتارخانیہ، کتاب النکاح (4/7،ط: مکتبہ فاروقیہ)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 1731/43-1430

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس معاملہ کو کسی قریبی دارالقضاء میں لیجائیں ، وہ اپنے طریقہ پر اعلانات وغیرہ کے ذریعہ اس کا حل  نکالنے کی کوشش کریں گے۔  آپ کو وہاں سے  لڑکی کے دوسرا نکاح کرنے کے تعلق سے  بہتر رہنمائی ملے گی ان شاء اللہ۔  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1935/43-1848

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اسکول انتظامیہ کی طرف سے جو گھنٹے پڑھانے کے لئے آپ کو دئے گئے، آپ ان کو پابندی سے پڑھاتے ہیں اور خالی گھنٹوں میں اسی طرح جب بچے نہ ہوں  تو فارغ اوقات میں مطالعہ کرتے ہیں یا فون پر بات کرتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس کو خیانت میں شمار نہیں کیاجائے گا۔ اسکول کی جانب سے مقررکردہ امور میں کوتاہی نہ ہونی چاہئے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

ربوٰ وسود/انشورنس

 Ref. No. 2241/44-2410

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شرعا ایسا لون لینا جائز ہے جس میں سود نہ دینا پڑے، اور اس کی جو مدت بلاسود کے متعین ہو اس میں ادائیگی کردی جائے۔

﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ  وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِيْنَ فَإِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَأْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللهِ وَرَسُوْلِه وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ أَمْوَالِكُمْ لَاتَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ وَإِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَة إِلٰى مَيْسَرَةٍ وَأَنْ تَصَدَّقُوْا خَيْر لَّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾[البقرة : ۲۷۸ إلى ۲۸٠ ]

 ’’عن عبد اللّٰه بن حنظلة غسیل الملائکة أن النبي صلی اللّٰه علیه وسلم قال: لَدرهمُ ربًا أشد عند اللّٰه تعالٰی من ست وثلاثین زنیةً في الخطیئة‘‘. (دار قطني)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:غیر نبی کے لئے علیہ السلام کہنا یا لکھنا درست نہیں ہے۔ یہ انبیاء علیہم السلام کے ساتھ خاص ہے۔ (۱)

۱) وأما السلام فنقل اللقاني في شرح جوہرۃ التوحید عن الإمام الجویني أنہ في معنی الصلاۃ، فلا یستعمل في الغائب ولا یفرد بہ غیر الأنبیاء فلا یقال عليٌّ علیہ السلام، وسواء في ہذا الأحیاء والأموات إلا في الحاضر إلخ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الخنثیٰ: مسائل شتیٰ‘‘: ج ۱۰، ص: ۴۸۳)
قال القاضي عیاض: الذي ذہب إلیہ المحققون وأمیل إلیہ ما لنا لہ مالک وسفیان واختارہ غیر واحد من الفقہاء والمتکلمین أنہ یجب تخصیص النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وسائر الأنبیاء- علیہم السلام- بالصلاۃ والتسلیم۔ (أیضاً: ص: ۴۸۴)
أنہ قولہ عليٌّ علیہ السلام من شعار أہل البدعۃ لا یستحسن فی مقام المرام۔ (أبو حنیفۃ رحمہ اللّٰہ، شرح الفقہ الأکبر: ص: ۱۶۷)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص213
 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:پاؤں چھونا جاہلانہ رسم اور بدعت ہے، ایسی رسموں سے مسلمان کو پرہیز لازم ہے(۱) رخصتی اور ملاقات کے لئے سلام اور مصافحہ کافی ہے اور مسنون یہی ہے۔(۲)

۱) ویکرہ أن یقبل الرجل فم الرجل أو یدہ أو شیئاً منہ في قول أبي حنیفۃ رضي اللّٰہ عنہ،
(وکذا) ما یفعلونہ من تقبیل (الأرض بین یدي العلماء) والعظماء فحرام والفاعل والراضي بہ أثمان: لأنہ عبادۃ الوثن وہل یکفر إن علی وجہ العبادۃ والتعظیم کفر وإن علی وجہ التحیۃ لا وصار آثماً مرتکباً للکبیرۃ والملتقط التواضع بغیر اللّٰہ حرام۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ، باب الاستبراء وغیرہ‘‘: ج ۹، ص: ۵۴۶)
(۲) إن المصافحۃ مستحبۃ عند کل لقاء، وأما ما اعتادہ الناس من المصافحۃ بعد صلاۃ الصبح والعصر، فلا أصل لہ في الشرع علی ہذا الوجہ … إنہ تکرہ المصافحۃ بعد أداء الصلاۃ بکل حال، لأن الصحابۃ رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہم ما صافحوا بعد أداء الصلاۃ، ولأنہا من سنن الروافض۔ ثم نقل عن ابن حجر عن الشافعیۃ أنہا بدعۃ مکروہۃ لا أصل لہا في الشرع … وقال ابن الحاج من المالکیۃ في المدخل: إنہا من البدع۔ (’’أیضاً‘‘: ج ۹، ص: ۵۴۸)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص534

فقہ

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ’’اختلاف أمتي رحمۃ‘‘ کا مطلب ائمہ مجتہدین کے ما بین فروع میں اختلاف ہے اور ان حضرات کا اختلاف اللہ تبارک وتعالیٰ کی رحمت کا اثر ہے کیونکہ  ان کا اختلاف لوگوں کے لئے دین کی راہ میں وسعت پیدا کرتا ہے اور یہ واضح کر دیتا ہے کہ دین میں حرج اور تنگی نہیں ہے؛بلکہ دینِ اسلام نہایت ہی آسان ہے، بخاری شریف میں ہے: نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’إن الدین یسر‘‘(۱) دین اسلام نہایت ہی آسان ہے۔
ائمہ کرام کے درمیان فروعات میں اختلاف اللہ تعالیٰ کی رحمت کا اثر ہے، ’’فإن اختلاف أئمۃ الہدیٰ توسعۃ للناس کما في التتارخانیۃ‘‘(۲) ائمہ اور علماء کا اختلاف لوگوں کے لیے دین کی راہ میں وسعت پیدا کرتا ہے۔
’’وعلم بأن الاختلاف من آثار الرحمۃ فمہما کان الاختلاف أکثر کانت الرحمۃ أو فر‘‘(۳)
علامہ ابن عابدین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین احکام کے استنباط میں اختلاف رائے نہ رکھتے تو امت کے لیے رخصت کا پہلو نہ نکلتا، ’’ونقل السیوطي عن عمر بن عبد العزیز أنہ کان یقول: ما سرني لو أن أصحاب محمد -صلی اللّٰہ علیہ وسلم- لم یختلفوا لأنہم لو لم یختلفوا لم تکن رخصۃ‘‘(۴)
خلیفہ ہارون رشید نے حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے کہا کہ: آپ کی تالیفات لکھا دیتے ہیں اور ان کو اسلام کے تمام اطراف وجوانب میں تقسیم کرا دیتے ہیں تاکہ امت کو انہیں کے موافق عمل کرنے پر ابھاریں تو امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ: امیر المؤمنین اختلافِ علماء اللہ تبارک وتعالیٰ کی جانب سے اس امت پر رحمت ہے، ہر عالم اس کی اتباع کرتا ہے جو اس کے نزدیک صحیح ہے اور تمام علماء ہدایت پر ہیں اور تمام علماء اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین اور اس کی مرضی ہی کا ارادہ رکھتے ہیں۔
’’وأخرج الخطیب إن ہارون الرشید قال: لمالک بن أنس یا أبا عبد اللّٰہ  نکتب ہذہ الکتب یعني مؤلفات الإمام مالک ونفرقہا في أفاق الإسلام لتحمل علیہا الأمۃ، قال: یا أمیر المؤمنین! إن اختلاف العلماء رحمۃ من اللّٰہ تعالیٰ علی ہذہ الأمۃ کل یتبع ما صح عندہ وکلہم علی ہدی وکل یرید اللّٰہ تعالیٰ‘‘(۱)
لہٰذا: ائمہ کے اجتہادات واستنباط کے ما بین مختلف فیہ مسائل ہیں جو اختلاف رائے ہے وہ اختلاف حق وباطل نہیں ہے؛ بلکہ ایک رائے کو صواب محتمل خطاء اور دوسری رائے کو خطاء محتمل صواب کہیں گے اور اس اختلاف کو اختلافِ رخصت کہتے ہیں، جیسا کہ علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ کی عبارت میں حضرت عمر بن عبد العزیز اور حضرت امام مالک رحمہما اللہ کا قول تفصیل سے ذکر ہوا۔

(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: باب الدین یسر‘‘: ج ۱، ص: ۱۶، رقم: ۳۹۔
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’مقدمہ‘‘: ج ۱، ص: ۶۸۔
(۳) ’’أیضاً‘‘۔
(۴) ’’أیضاً‘‘۔
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’مقدمہ‘‘: ج ۱، ص: ۶۸۔


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص147

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 253/45-4092

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔    جانوروں کو شرکت پر دینے کی جو صورت آپ نے بیان کی ہے  اس میں شرعی طور پر کئی مفاسد ہیں اس وجہ سے علماء نے اس کو ناجائز قرار دیا ہے۔ در اصل شرعی ضابطہ یہ ہے کہ آدمی اپنے عمل کی اجرت دوسرے سے نہیں لے سکتاہے، اسی طرح اپنے کئے ہوئے کام میں سے اپنی مزدوری نہیں لے سکتاہے جیسے گیہوں پیس کر آٹے میں سے بطور اجرت کے لینا جائز نہیں ہے۔  اسی طرح جانور پالنے کی مزدوری میں سے جانور لینا درست نہیں ہےنیز یہ بھی اصول ہے کہ  جو شریک ہوگا وہ  اجیر نہیں بن سکتاہے۔ جبکہ صورت مذکورہ میں وہ شریک بھی ہے اور اجیر بھی ہے، اور اپنے عمل میں سے مزدوری بھی  وصول کررہاہے۔ ان مفاسد کی بناء پر جانور پال پر دینا جائز نہیں ہے۔

جواز کی آسان شکل یہ ہے کہ (1) فریق اول جانور خرید کر پالنے کے لئے فریق ثانی کو ماہانہ یا روزانہ کی مزدوری پر دیدےاور پالنے کی اجرت طے کرلے۔ (اس صورت میں دودھ اور بچے کا مالک فریق اول ہی ہوگا)۔ (2) فریق اول اپنے پیسوں سے جانور خریدے اور پھرفریق ثانی  کے ہاتھ اس کا آدھا حصہ  آدھی قیمت پر بیچ دے ،پھر پیسے معاف کردے،تو  دونوں کے درمیان  وہ جانور مشترک ہوجائے گا، اب  اس جانورسے  جو دودھ یا بچے حاصل ہوں گے دونوں برابرکے حصہ دارہوں گے۔ (3) دونوں فریق پیسے ملا کرجانور خریدیں، ایسی صورت میں دونوں اپنی مالیت کے بقدر دودھ اور بچے میں شریک ہوں گے ۔ البتہ اگر کسی نے مذکورہ معاملہ کرلیا  تو  حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو جائز قراردیاہے۔ (امداد الفتاوی۔3/342) 

"رجل دفع بقرةً إلى رجل بالعلف مناصفةً، وهي التي تسمى بالفارسية "كاونيم سوو" بأن دفع على أن ما يحصل من اللبن والسمن بينهما نصفان، فهذا فاسد، والحادث كله لصاحب البقرة، والإجارة فاسدة". (خلاصة الفتاوی:۳/۱۱4۔کتاب الإجارة، الجنس الثالث في الدواب) "وَلَا خِلَافَ في شَرِكَةِ الْمِلْكِ أَنَّ الزِّيَادَةَ فيها تَكُونُ على قَدْرِ الْمَالِ حتى لو شَرَطَ الشَّرِيكَانِ في مِلْكِ مَاشِيَةٍ لِأَحَدِهِمَا فَضْلًا من أَوْلَادِهَا وَأَلْبَانِهَا لم تَجُزْ بِالْإِجْمَاعِ". (بدائع الصنائع میں ہے: (6/6۲۔کتاب الشرکة، فَصْلٌ وَأَمَّا بَيَانُ شَرَائِطِ جَوَازِ هذه الْأَنْوَاعِ۔ط/سعید)

"دفع بقرةً إلى رجل على أن يعلفها وما يكون من اللبن والسمن بينهما أنصافًا فالإجارة فاسدة ... والحيلة في جوازه أن يبيع نصف البقرة منه بثمن ويبرئه عنه، ثم يأمر باتخاذ اللبن والمصل فيكون بينهما". ( الھندیۃ : 4/۵۰4، کتاب الإجارة، الفصل الثالث في قفيز الطحان)

"بِخِلَافِ الزَّوَائِدِ فَإِنَّهَا تَتَوَلَّدُ مِنْ الْمِلْكِ فَإِنَّمَا تَتَوَلَّدُ بِقَدْرِ الْمِلْكِ". ((المبسوط للسرخسي:۱۵/6، کتاب القسمة،  الناشر:دار المعرفة – بيروت)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند