متفرقات

Ref. No. 1332/42-736

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسجد اللہ کا گھر ہے، جس طرح ظاہری احترام اس کا ضروری ہے اسی طرح باطنی احترام بھی ضروری ہے۔ اللہ کے گھر میں حرام ومشتبہ مال کو لگانا جائز نہیں ہے۔ حلال اور پاکیزہ مال ہی مسجد میں لگانا چاہئے۔ مخنث کی کمائی مطلقا حرام و ناجائز نہیں ہے۔ اگر اس نے حرام طریقہ سے پیسے حاصل کئے ہوں مثلا ناچ گانے وغیرہ سے یا زبردستی تو وہ پیسے حرام ہیں، ان کو مسجد میں لگانا جائز نہیں ہے۔ لیکن اگر وہ پیسے حلال طریقہ سے حاصل کئے ہوں جیسا کہ سوال میں مذکور ہے کہ مکان کا کرایہ ہے، تو اس کو مسجد کی تعمیر ودیگر امور میں خرچ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ الْأَرْضِ ۖ وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنفِقُونَ وَلَسْتُم بِآخِذِيهِ إِلَّا أَن تُغْمِضُوا فِيهِ ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ (البقرۃ 267)

أن الله لا يقبل إلا ما كان من كسب طيب فمفهومه أن ما ليس بطيب لا يقبل والغلول فرد من أفراد غير الطيب فلا يقبل والله أعلم (فتح الباری لابن حجر، باب لاتقبل صدقۃ من غلول، 3/279)

أما لو أنفق في ذلك مالا خبيثا ومالا سببه الخبيث والطيب فيكره لأن الله تعالى لا يقبل إلا الطيب، فيكره تلويث بيته بما لا يقبله.(ردالمحتار، فروع افضل المساجد 1/658)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین
سوال:السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ امید ہے مزاج گرامی بخیر وعافیت ہوگا۔ کیا فرماتے ہیں علماء دین اور شرح متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: ہمارے شہر آشٹہ سے بھوپال کی دوری آج سے دس سال قبل 82 کلومیٹر تھی جو ایک شہر کے فناء سے دوسرے شہر کے فناء تک تھی، اس صورت میں متفق علیہ قصر کی اجازت تھی، لیکن اب موجودہ صورت حال یہ ہے کہ دونوں شہروں کی آبادی کافی بڑھ گئی ہے، اور ایک شہر کی فناء سے دوسرے شہر کی فناء تک صرف 68 کلومیٹر کی دوری رہ گئی ہے، مذکورہ صورت میں قصر کرنا جائز ہوگا یا نہیں جب کہ پہلے سے لوگ قصر کرتے آئے ہیں ، اور اب دوری کم ہوگئی ہے؟ دوسرا پہلو یہ کہ اگر ایک شہر میں اپنے گھر سے نکل کر دوسرے شہر کی فناء تک مسافت شرعی پائی جائے تو قصر ہوگا یا نہیں ؟ براہ کرم قرآن و حدیث اور کتب فقہ کے حوالہ سے جواب مرحمت فرمائیں مسئلہ نزاعی بنا ہوا ہے، والسلام

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1734/43-1424

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہر وہ چیز جو تاجروں کے عرف میں نقص ثمن کا باعث ہو وہ عیب ہے، اس لئےآج کل کے عرف میں  استعمال شدہ ہونا بھی ایک عیب ہے اس لئے اس کی وجہ سے ثمن میں کمی کرنا  بالکل جائز ہے اور مذکورہ معاملہ درست ہے۔

كذا إذا شرط الأقل لما بيناه إلا أن يحدث في المبيع عيب فحينئذ جازت الإقالة بالأقل؛ لأن الحط يجعل بإزاء ما فات بالعيب، وعندهما في شرط الزيادة يكون بيعا؛ لأن الأصل هو البيع عند أبي يوسف رحمه الله وعند محمد رحمه الله جعله بيعا ممكن فإذا زاد كان قاصدا بهذا ابتداء البيع، وكذا في شرط الأقل عند أبي يوسف رحمه الله؛ لأنه هو الأصل عنده، وعند محمد رحمه الله هو فسخ بالثمن الأول لا سكوت عن بعض الثمن الأول، ولو سكت عن الكل وأقال يكون فسخا فهذا أولى، بخلاف ما إذا زاد، وإذا دخله عيب فهو فسخ بالأقل لما بيناه. (الھدایۃ باب الاقالۃ 3/55)

قال: "وكل ما أوجب نقصان الثمن في عادة التجار فهو عيب"؛ لأن التضرر بنقصان المالية، وذلك بانتقاص القيمة والمرجع في معرفته عرف أهله. (الھدایۃ باب خیارالعیب 3/37)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1937/43-1846

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  جس ریسٹورینٹ کی غالب آمدنی حلال ہو   تو اس میں ایسی ملازمت کرنا جس میں براہ راست حرام کام میں ملوث نہ ہونا پڑتاہو، جائز ہے۔  اس لئے آپ کی ملازمت میں چونکہ ایسی کوئی خرابی نہیں ہے  جس میں  براہ راست بار میں تعاون ہو، اس لئے آپ کی ملازمت جائز ہے اور کمائی حلال ہے، تاہم اس میں ایک گونہ شبہہ ہے، اس لئے  فی الحال یہ ملازمت اختیار کرلیں اور بعد میں جب کوئی متبادل ملازمت میسر ہوجائے تو اس کو چھوڑ دیں ۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُنِيرٍ، قَال:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَبَا عَاصِمٍ، عَنْ شَبِيبِ بْنِ بِشْرٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:‏‏‏‏ لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْخَمْرِ عَشْرَةً عَاصِرَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَمُعْتَصِرَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَشَارِبَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَحَامِلَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَالْمَحْمُولَةُ إِلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَسَاقِيَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَبَائِعَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَآكِلَ ثَمَنِهَا، ‏‏‏‏‏‏وَالْمُشْتَرِي لَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَالْمُشْتَرَاةُ لَهُ (سنن الترمذی: (رقم الحدیث: 1295)
أہدی إلیہ أو أضافہ وغالب مالہ حرام لا یقبل ولا یأکل ما لم یخبرہ أن ذٰلک المال أصلہ حلال ورثہ أو استقرضہ، وإن کان غالب مالہ حلالاً لا بأس بقبول ہدیتہ والأکل منہا۔ (الفتاوی الھندیۃ: (کتاب الکراہیۃ، 343/5، ط: زکریا)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

قرآن کریم اور تفسیر

Ref. No. 2123/44-2226

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس آیت میں عام ضابطہ بیان کیاگیا ہے کہ اللہ نے طبائع میں جوڑرکھا ہے،۔ بدکار مرد و بدکار عورتوں میں ایک دوسرے کی طرف رغبت ، اسی طرح نیک مرد اور نیک عورتوں میں ایک دوسرے کی طرف رغبت طبعی طورپر رکھی گئی ہے؛ ہر ایک اپنی رغبت کے مطابق اپنا جوڑ ڈھونڈ لیتاہے،  اور اس کو وہی مل جاتاہے اور وہی اس کے مناسب ہوتاہے۔ البتہ بعض مرتبہ اس کے خلاف بھی ہونا ممکن ہے کہ نیک مرد کو بدکار یا بدکار مرد کو نیک عورت مل جائے۔ شرعا یہ تمام نکاح درست ہیں، اور اس میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ (ماخوز از معارف القرآن سورہ النور پار ہ 18)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد پر فضیلت حاصل ہے قرآن کریم میں ہے: ’’ولقد کرمنا بني آدم‘‘ اور احادیث سے بھی یہ ہی مستفاد ہوتا ہے۔(۱)

۱) {وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْٓ أٰدَمَ} ]الإسراء: ۷۰[ الأولیٰ أن یقال: عوام المؤمنین أفضل من عوام الملائکۃ، وخواصّ المؤمنین أفضل من خواصّ الملائکۃ قال تعالی: {إِنَّ الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِلا أُولٰٓئِکَ ھُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّۃِہط۷  } وفي قولہ: إن البشر أفضل من الملک، بمعنی: أن ہذا الجنس لما وجد فیہم الأکمل من الرسل، أو الأکمل أفضل من ہذ الجنس لعدم وجودہم فیہم فتأمل۔ (رواہ ابن ماجہ) قلت: وحدیث ’’المؤمن أعظم حرمۃ من الکعبۃ‘‘۔ في ابن ماجہ بسند عن بن عمر أن النبي -صلی اللّٰہ علیہ وسلم- قال ونظر إلی الکعبۃ: (لحرمۃ المؤمن أعظم عند اللّٰہ حرمۃ منک) وہو بعض حدیث طویلٍ۔ (ملا علي قاري، ’’کتاب أحوال القیامۃ وبدء الخلق، باب بدء الخلق وذکر الأنبیاء، الفصل الثالث‘‘: ج ۱۰، ص: ۴۱۲، رقم: ۵۷۳۳)
أجمعت الأمۃ علی أن الأنبیاء أفضل الخلیقۃ و أن نبیّنا -علیہ الصلاۃ والسلام- أفضلہم و أن أفضل الخلائق بعد الأنبیاء الملائکۃ الأربعۃ وحملۃ العرش والروحانیون ورضوان ومالک؛ وأن الصحابۃ والتابعین والشہداء والصالحین أفضل من سائر الملائکۃ۔ واختفلوا بعد ذلک، فقال الإمام: سائر الناس من المسلمین افضل من سائر الملائکۃ وقالا:سائر الملائکۃ أفضل اہـ۔ ملخصا۔ … وحاصلہ أنہ قسم البشر إلی ثلاثۃ أقسام: خواص کالأنبیاء وأوساط کالصالحین من الصابحۃ وغیرہم وعوام کباقي الناس۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في عدد الأنبیاء والرسل -علیہم السلام-‘‘: ج ۲، ص: ۲۴۲)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص216

طلاق و تفریق

Ref. No. 2566/45-3908

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ طلاقیں   جمع کا صیغہ ہے، اور اردو میں جمع کا اطلاق ایک سے زیادہ پر ہوتاہے، لہذا اس لفظ 'طلاقیں' سے کم از دو طلاقیں  رجعی واقع ہوں گی، اور اگر تین کی نیت  کی ہو جو کہ طلاق کا عدد نہائی ہے تو  تین طلاقیں  واقع ہوجائیں گی ۔  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اہلیہ کا نام اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا(۱) اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اہلیہ کا نام زینب بنت مظعون رضی اللہ عنہا(۲) اور حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہ کے نکاح میں حضرت رقیہ اور ام کلثوم رضی اللہ عنہما تھیں۔ (۳)

(۱) أسماء بنت عمیس ہاجرت مع زوجہا جعفر إلی الحبشۃ فلما اشتشہد بموتۃ تزوجہا بعدہ أبو بکر رضي اللّٰہ عنہ (فولدت لہ محمداً)۔ (شمس الدین أبو عبد اللّٰہ محمد بن أحمد الذہبي، تاریخ الإسلام (حرف الباء): ج ۴، ص: ۱۷۸)

(۲) ذکر أولاد عمر رضي اللّٰہ عنہ کان لہ من الولد عبد اللّٰہ وعبد الرحمن وحفصۃ أمہم زینب بنت مظعون وزید الأکبر ورقیۃ أمہما أم کلثوم بنت علي وزید الأصغر وعبید اللّٰہ وأمہما أم کلثوم بنت جرول۔ (جمال الدین، ابن الجوزي، تلقیح فہو أہل الأثر، باب ذکر أولاد عمر رضي اللّٰہ عنہ: ج ۱، ص: ۷۶)
(۳) رقیۃ بنت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أمہا خدیجۃ تزوجہا عتبۃ بن أبي لہب قبل النبوۃ فلما بعث رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأنزل علیہ {تبت یدا أبي لہب} المسد قال أبو لہب لإبنہ رأسي حرام إن لم تطلق ابنتہ ففارقہا ولم یکن دخل بہا وأسلمت حین أسلمت أمہا خدیجۃ وبایعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہي وأخواتہا حین بایعہ النساء فتزوجہا عثمان بن عفان وہاجرت معہ إلی أرض الحبشۃ الہجرتین جمیعاً وکانت قد أسقطت من عثمان سقطا ثم ولدت لہ بعد ذلک عبد اللّٰہ الخ۔
أم کلثوم بنت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أمہا خدیجۃ تزوجہا عتبۃ ابن أبي لہب قبل النبوۃ وأمرہ أبوہ أن یفارقہا للسبب اللذي ذکرناہ في أمر رقیۃ ففارقہا ولم یکن دخل بہا فلم تزل بمکۃ مع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأسلمت حین أسلمت أمہا وبایعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مع أخواتہا حین بایعہ النساء ہاجرت إلی المدینۃ حین ہاجر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فلما توفیت رقیۃ تزوجہا عثمان بن عفان وتوفیت في حیاۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم في شعبان سنۃ تسع من الہجرۃ۔ (ابن الجوزي، تلقیح، باب ذکر الاناث من أولاد النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ج ۱، ص: ۳۱)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص242

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت میں کوشش کے باوجود پانی نہ ملے اور نماز کا وقت ختم ہونے کے قریب ہو، تو احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ اس وقت زید تیمم کر کے نماز پڑھ لے اور پانی ملنے کے بعد وضو کر کے نماز کا اعادہ کرلے؛ کیونکہ پانی پر عدم قدرت من جانب اللہ نہیں ہے۔
’’المحبوس في السجن یصلي بالتیمم ویعید بالوضوء، لأن العجز إنما تحقق بصنع العباد وصنع العباد لا یؤثر في اسقاط حق اللّٰہ تعالیٰ‘‘ (۱)
’’اعلم أن المانع من الوضوء إن کان من قبل العباد کأسیر منعہ الکفار من الوضوء ومحبوس في السجن ومن قیل لہ إن توضأت قتلتک جاز لہ التیمم ویعید
الصلوٰۃ إذا زال المانع … وأما إذا کان من قبل اللّٰہ تعالیٰ کالمرض فلا یعید‘‘(۲)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۸۱۔
(۲) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: باب التیمم‘‘: ج ۱، ص: ۳۹۸، ۳۹۹۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص365

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نسبندی ضابطہ شرعی اور اصول شرعی مذہبی کے خلاف ہے جو بغیر کسی شدید مجبوری اور معذوری کے کرائے وہ سخت گنہگار ہوتا ہے اس کو امام بنانا بھی مکروہ ہے  لیکن زید نے جو فعل کیا وہ زوجہ کی زندگی بچانے اور شدید خطرہ سے بچنے کے لیے مسلم ڈاکٹر کے کہنے پر کیا؛ اس لیے اس کا حکم معذور کا ہے ایسی مجبوری کی صورت میں اس کو مجرم کہنا صحیح نہیں اور اس کی امامت بلا کراہت صحیح ودرست ہے،(۱) لہٰذا بلاوجہ شر اور فتنہ پھیلانے والے غلطی پر ہیں، ان پر ضروری ہے کہ اس حرکت سے باز آئیں ورنہ گنہگار ہوں گے۔

(۱) {فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّلَاعَادٍ فَلََآ إِثْمَ عَلَیْہِ ط إِنَّ  اللّٰہَ  غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ہ۱۷۳} (سورۃ البقرۃ: ۱۷۳)
الضرورات تبیح المحظورات، ’’باب ما بیح للضرورۃ یتقدر بقدر الضرورۃ‘‘۔ (محمد عمیم الإحسان، قواعد الفقہ: ج ۱، ص: ۷۳)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص153