Miscellaneous
Ref. No. 40/1177 In the name of Allah the most Gracious the most Merciful The answer to your question is as follows: When the bitcoin is not controlled or issued by the government, it would be regarded as a ‘fake currency’. One should avoid buying or selling such a fake currency. One day it may cause a big loss to your wealth. And Allah knows best Darul Ifta Darul Uloom Waqf Deoband

طلاق و تفریق

Ref. No. 915/41-38

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  صورت مذکورہ میں شوہر نے دوبار بیوی کی طلاق کو معلق کیا  مگر بیوی شرط کے مطابق باہر آگئی، تو اس صورت میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، اور اگر متعینہ وقت گزرنے کے بعد باہر آئی تو طلاق واقع ہوچکی ۔

وإذا أضافه إلى شرط وقع عقيب الشرط مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق (الھدایۃ 1/244)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Divorce & Separation

Ref. No. 1005/41-175

In the name of Allah the most Gracious the most merciful

The answer to your question is as follows:

The woman must always obey her husband as much as possible, and try never to avoid when he calls for bed. If a woman is really sick then you should arrange a better treatment for her. How can you obligate her beyond her capacity if she is not in good health? You should try your level best to maintain your married life with good conduct. If you are still not able to overcome on your desire you can keep fast to control your passion. Divorce is not a solution for the problems.

ولو تضررت من کثرۃ جماعہ لم تجز الزیادۃ علی قدر طاقتھا۔ (الدرالمختار مع رد المحتار 3/203)

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

Fasting & Ramazan

Ref. No. 1220/42-526

In the name of Allah the most Grcious the most merciful

The answer to your question is as follows:

If people give something to Imam of Taraweeh on their own will, then it will be permissible. However, collection should not be made forcefully from the people for this purpose.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 1343/42-716

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ داماماد محرم ہے، داماد اور ساس میں حرمت مؤبدہ ہے، جو شخص ایک بار داماد بن گیا ، اس کا ساس سے نکاح ہمیشہ کے لئے حرام ہوجاتاہے چاہے اس ساس کی بیٹی زندہ ہو یا نہ ہو۔  اور جن لوگوں سے نکاح نہیں ہوسکتا ہے ان سے پردہ نہیں ہے۔ اس لئے داماد اپنی ساس سے (بیوی کے انتقال کے بعد بھی ) ملاقات کرسکتا ہے۔داماد کا ساس سے  لوگوں کا پردہ کرانا غلط ہے۔  البتہ اگر دونوں جوان ہوں اور فتنہ کا اندیشہ ہوتو فقہاء نے احتیاطا داماد کو ساس سے ملنے سے منع کیا ہے۔

اسباب التحریم انواع قرابۃ مصاھرۃ ....... الخ (شامی 3/38) وإن كانت الصهرة شابة فللجيران أن يمنعوها منه إذا خافوا عليهما الفتنة .   (شامی :9/530، ط. زکریا دیوبند)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایمان کے لئے دو چیزوں پر یقین ضروری ہے، اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا یقین، یہاں پر صرف قرآن پر یقین ہے جو ناکافی ہے، ایسے شخص کو شرعاً مومن نہیں کہا جائے گا۔

 وإسلامہ أن یأتي بکلمۃ الشہادۃ ویتبرأ عن الأدیان کلہا سوی الإسلام، وإن تبرأ عما

انتقل إلیہ کفی، کذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ”کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین ومنہا الطوع“: ج ۲، ص: ۷۶۲)

من لم یقر بعض الأنبیاء علیہم الصلاۃ والسلام أو لم یرض بسنۃ من سنن المرسلین فقد کفر۔ (أیضاً: موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بالأنبیاء علیہم السلام: ج ۲، ص: ۵۷۲)

وإسلامہ أن یتبرأ عن الأدیان سوی الإسلام أو عما انتقل إلیہ الخ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ”کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب: ما یشک أنہ ردۃ لا یحکم بہا“: ج ۶، ص: ۱۶۳)

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1644/43-1224

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ معاملہ کرتے وقت جب اینٹ کی صفت وغیرہ بیان کردی گئی،  اور جب اینٹیں تیار ہوگئیں تو چمنی کے مالک نے آپ کے حصہ کی اینٹیں الگ کردیں، تو آپ کی چیز متعین ہوگئی ، اور یہ تعیین ہی قبضہ کے قائم مقا م ہوگی، مبیع کو بیچنے سے پہلے دیکھنا ضروری نہیں ہے۔ پھر چمنے والے نے آپ کا وکیل بن کر اینٹیں بیچ دیں،  اس لئےمذکورہ  معاملہ درست ہے اور پیسے آپ کے لئے حلال ہیں۔  بظاہر اس پورے معاملہ کوئی بھی چیز مفضی الی النزاع بھی نہیں ہے۔

لأن القبض في المجلس لا يشترط إلا في الصرف وهو بيع الأثمان بعضها ببعض أما ما عداه فإنما يشترط فيه التعيين دون التقابض كما يأتي (شامی، مطلب فی الابراء عن الربوا 5/172)

نظر الوكيل بالقبض كنظر الرسول في أنه لا يسقط الخيار، قيد بالوكيل بالقبض؛ لأنه لو وكل رجلا بالرؤية لا تكون رؤيته كرؤية الموكل اتفاقا كذا في الخانية إلخ ما ذكره الشارح ابن ملك، والمسألة في المتون وأطال فيها في البحر فراجعه۔ وصورة التوكيل بالقبض كن وكيلا عني بقبض ما اشتريته وما رأيته كذا في الدرر. (شامی، کتاب الوکالۃ 5/509)

قلت: لا يخفى أن الإجازة اللاحقة كالوكالة السابقة فالبيع في الحقيقة من المشتري، ولذا قال في جامع الفصولين: شراه ولم يقبضه حتى باعه البائع من آخر بأكثر فأجازه المشتري لم يجز؛ لأنه بيع ما لم يقبض. اهـ. فاعتبره بيعا من جانب المشتري قبل قبضه فافهم، وظاهره أنه يبقى على ملك المشتري بالأول، ويأتي تمامه في فصل التصرف في المبيع.(شامی، مطلب فی بیع المرھون 5/111)

وصحة القبض بأحد الأمرين إما بالتخلية كما في المنقول وغيره أو بحقيقة القبض كما في المنقول وجه قول محمد عموم النهي وهو ما روي أنه «- عليه الصلاة والسلام - نهى عما لم يقبض» وهو بعمومه يشمل المنقول والعقار جميعا ولأن بيع المنقول قبل القبض لا يجوز فكذا غير المنقول؛ لأن عدم القبض موجود فيهما جميعا ولأن المقصود من البيع الربح وربح ما لم يضمن منهي شرعا والنهي يقتضي الفساد فيكون البيع فاسدا قبل القبض كما في المنقول؛ لأنه لم يدخل في ضمانه، ولهذا لا يجوز إجارته قبل القبض اهـ (قوله ولهما أنه لا يتوهم انفساخ العقد فيه) والأصل فيه أن ما لا ينفسخ العقد فيه بالهلاك فالتصرف فيه جائز قبل القبض (تبیین الحقائق فصل بیع العقار قبل القبض 4/79)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No 194344-1858

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  نماز میں قیام فرض ہے، قیام پر قدرت کے باوجود بیٹھ کرنماز پڑھنا جائز نہیں ہے۔ اور نماز میں جب قیام پر قدرت ہو جائے قیام کرنا ضروری ہوجاتاہے۔ اس لئے اگربحالت مجبوری  بیٹھ کر نماز پڑھتے ہوئے کوئی  شخص بھول کر قعدہ اولی کی نیت سے تشہد نہ پڑھ سکا، اور ابھی سورہ فاتحہ شروع نہیں  کی، تو اب واپس آکر قعدہ اولی کی نیت سے تشہد پڑھنا درست ہے۔   اور اگر سورہ فاتحہ شروع کردی تو اس کو چاہیے کہ نماز آگے پڑھے اور اخیر میں سجدہ سہو کرلے، اس سے نماز درست ہوجائے گی۔ اور اگر قراءت شروع کرنے کے بعد واپس قعدہ میں آگیا ، تو بھی صحیح قول کے مطابق نماز درست ہوجائے گی۔

من فرائضہا القیام في فرض لقادر علیہ وعلی السجود“ (درمختار مع الشامی زکریا: ۲/۱۳۲) وإن قدر علی بعض القیام ولو متکئا علی عصا أو حائط قام لزوما بقدر ما یقدر ولو قدر آیة أو تکبیرة علی المذہب لأن البعض معتبر بالکل“ (در مختار مع الشامی زکریا: ۲/۲۶۷) وإن لم یکن کذلک (أی بما ذُکر) ولکن یلحقہ نوع مشقة لا یجوز ترک القیام“ (تاتارخانیہ زکریا: ۲/۶۶۷) وإن عجز عن القیام وقدر علی القعود؛ فإنہ یصلی المکتوبة قاعدًا برکوع وسجود ولا یجزیہ غیر ذلک“ (تاتارخانیہ زکریا: ۲/۶۶۷)

سها عن القعود الأول من الفرض) ولو عملياً، أما النفل فيعود ما لم يقيد بالسجدة (ثم تذكره عاد إليه) وتشهد، ولا سهو عليه في الأصح  (ما لم يستقم قائماً) في ظاهر المذهب، وهو الأصح فتح (وإلا) أي وإن استقام قائماً (لا) يعود لاشتغاله بفرض القيام (وسجد للسهو) لترك الواجب (فلو عاد إلى القعود) بعد ذلك (تفسد صلاته) لرفض الفرض لما ليس بفرض، وصححه الزيلعي (وقيل: لا) تفسد، لكنه يكون مسيئاً ويسجد لتأخير الواجب (وهو الأشبه)، كما حققه الكمال، وهو الحق، بحر''۔ (الدر المختار مع رد المحتار(2/ 83،  کتاب الصلوٰۃ ، باب سجود السہو، ط: سعید)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وبا اللّٰہ التوفیق:یہ غیر مسلموں کی رسمیں ہیں، بدعت اور گناہ ہیں، ان سے پرہیز لازم ہے۔(۲) اور ایسے مواقع پر اکثر عورتیں غیر محرم کے سامنے آجاتی ہیں، جن کے دیکھنے کا گناہ علیحدہ ہے، ایسی رسموں سے ہر مسلمان پر پر ہیز ضروری ہے۔(۱)

(۲) في شرح الکرخي النظر إلی وجہ الأجنبیۃ الحرۃ لیس بحرام ولکنہ یکرہ کغیر حاجۃ وظاہرہ الکراہۃ ولو بلا شہوۃ قولہ: (وإلا فحرام) أي إن کان عن شہوۃ حرم قولہ (وأما في زماننا فمنع من الشابۃ) لا لإنہ عورۃ بل لخوف الفتنۃ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ، فصل في النظر والمس، مطلب في ستر العورۃ‘‘: ج ۹، ص: ۵۳۲)…ولا یحل لہ أن یمس وجہہا ولا کفہا وإن کان یأمن الشہوۃ وہذا إذا کانت شابۃ تشتہي فإن کانت لا تشتہي لا بأس بمصافحتہا ومس یدہا کذا في الذخیرۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الثاني: فیما یحل للرجل النظر إلیہ‘‘: ج ۵، ص: ۳۸۱)
(۱) عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من تشبہ بقوم فہو منہم۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب الباس: باب في لبس الشہرۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۵۹، رقم: ۴۰۳۱)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص433

مذاہب اربعہ اور تقلید

الجواب وباللّٰہ التوفیق:عمل تو قرآن وحدیث پر ہوتا ہے، البتہ جب تک بصیرت تامہ نہ ہو اس کے صحیح مفہوم تک رسائی ہر شخص کے بس کی بات نہیں(۱)۔ قرآن پاک کی تفسیر احادیث ہیں، پھر احادیث کے سبب ورود کی معلومات ضروری ہوتی ہیں، پھر نظائر کے تحت اجماع کا درجہ ہے، عام لوگوں کے بس کی بات نہیں کہ سب کو سمجھ سکیں؟ اب سوچنے والے عموماً علماء سے بدظن ہوتے ہیں، جو ان کے لئے خطرناک ہے۔(۲)

(۱) لیس في قوۃ أحد بعد الأئمۃ الأربعۃ أن یبتکر الأحکام ویستخرجہا من الکتاب والسنۃ فیما نعلم أبداً۔ (النافع الکبیر: ص: ۱۵،  اللباب في الجمع بین السنۃ والکتاب، أبو محمد علي بن زکریا، المنجبي: ص: ۱۰)
(۲) یخاف علیہ الکفر إذا شتم عالماً أو فقیہا من غیر سبب، (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، منہا: ما یتعلق بالعلم والعلماء‘‘: ج ۲، ص: ۲
۸۲)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص161