Frequently Asked Questions
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 41/1075
In the name of Allah the most gracious the most merciful
The answer to your question is as follows:
A Hadith with reference to a book namely ‘Musannaf e Abdur Razzaq’ is stated about the same. But it does not exist in ‘Musannaf Abdur Razzaq’. The Hadith is labeled with Mauzoo.
ومنها ما ذكره العجلوني في كشف الخفا [1/ 265] ، قال: روى عبد الرزاق بسنده عن جابر بن عبد الله قال: قلت: يا رسول الله بأبي أنت وأمي أخبرني عن أول شيء خلقه الله قبل الأشياء؟، قال: يا جابر إن الله تعالى خلق قبل الأشياء نور نبيك من نوره فجعل ذلك النور يدور بالقدرة حيث شاء، ولم يكن في ذلك الوقت لوح ولا قلم ولا جنة ولا نار ولا ملك ... الحديث بطوله۔ وهذا لم نقف عليه في المطبوع من المصنف للحافظ عبد الرزاق، (شرف المصطفی 1/307، السیرۃ الحلبیۃ 1/214) (کشف الخفاء حرف الھمزہ مع الھاء 1/302)
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
تجارت و ملازمت
Ref. No. 1216/42-000
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ کے دوستوں نے آپ پر اعتماد کرکے آپ سے گھی منگوایا ہے، آپ اس معاملہ میں ایک وکیل کی حیثیت رکھتے ہیں ، اس لئے بغیر بتائے کمیشن اور نفع لینا جائز نہیں ہوگا۔
إذا شرطت الأجرة في الوكالة وأوفاها الوكيل استحق الأجرة، وإن لم تشترط ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعاً. فليس له أن يطالب بالأجرة) يستحق في الإجارة الصحيحة الأجرة المسمى. وفي الفاسدة أجر المثل... لكن إذا لم يشترط في الوكالة أجرة ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعا، وليس له أن يطلب أجرة. أما إذا كان ممن يخدم بالأجرة يأخذ أجر المثل ولو لم تشترط له أجرة (درر الحکام في شرح مجلة الأحکام الکتاب الحادي عشر الوکالة، الباب الثالث، الفصل االأول، المادة:۱۴۶۷ ،ج:۳؍۵۷۳،ط:دارالجیل)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
فقہ
Ref. No. 1472/42-918
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جريمة اللواط من أعظم الجرائم ، وأقبح الذنوب ، وأسوأ الأفعال۔ اللواط من اشد المعاصی التی تخوفتھا الشریعۃ علی الامۃ لفسادہ للفطرۃ البشریۃ ، قال رسول اللہ ﷺ ان اخوف مااخاف علی امتی من عمل قوم لوط۔ (ابن ماجہ 2563)۔ وذهب الشافعي في ظاهر مذهبه والإمام أحمد في الرواية الثانية عنه إلى أن عقوبته وعقوبة الزاني سواء . وذهب الإمام أبو حنيفة إلى أن عقوبته دون عقوبة الزاني وهى التعزير ".
و لکن ھناك أمر مھم یجب ان یتضح ان الحدود والعقوبات ھی مسؤولية قاضي الحكومة الإسلامية فی المملکۃ الاسلامیۃ خاصۃ۔ ھو یقدرھا وینفذھا لا غیر۔ ویحرم علی المرء ان ینفذ الحدود والعقوبات بنفسہ۔ بل علیہ ان یتوب توبۃ نصوحا و يتخلى عن السيئات جملة ويصمم على عدم الاقتراب منها مرة أخرى،و یصلی ركعتين للتوبۃ معربا عن الندم والعار علی ما اقترفہ من عمل شنیع۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:آپ نے چونکہ اپنی مرضی سے مذہب اسلام قبول کیا ہے، اس لئے آپ مسلمان ہوگئے ہیں، مسلمانوں کو چاہئے کہ آپ کے ساتھ مسلمانوں جیسا برتاؤ کریں اور خود آپ بھی اسلام کے مطابق عمل کرتے رہیں، ”إن شاء اللّٰہ“ نجات ومغفرت ہوگی۔
ولو قال الیہودي أو النصراني: لا إلہ إلا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ، تبرأت عن الیہودیۃ ولم یقل مع ذلک دخلت في الإسلام لا یحکم بإسلامہ حتی لو مات لا یصلي علیہ، فإن قال مع ذلک: دخلت في الإسلام فحینئذٍ یحکم بإسلامہ ہکذا في فتاویٰ قاضي خان۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ”کتاب السیر: الباب الثاني، في کیفیۃ القتال“: ج ۲، ص: ۲۱۲)
لو قال الحربي: أنا مسلم صار مسلماً وعصم دمہ ومالہ۔ (الفتاویٰ السراجیہ، ”کتاب السیر، باب الإسلام“: ج ۲، ص: ۲۹۲)
بدعات و منکرات
Ref. No. 1841/43-1672
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شادی بیاہ کی رسموں میں سے ہی اس کو شمار کیاجائے گا، اس لئے اجتناب کیاجائے۔ اس کو پروگرام کہنا ہی اس کے بدعت پونے کی جانب اشارہ ہے۔ اس لئے مہندی وغیرہ کو رسم نہ بنایاجائے۔ اور شادی کو حضور ﷺ کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے آسان بنایاجائے، رسومات کی وجہ سے مشکل نہ بنایاجائے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 1927/44-2264
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ گوگل ایڈسینس کمپنی آپ کی ویب سائٹ پر اشتہار دینے کے بدلہ میں آپ کو کچھ رقم دیتی ہے۔ اگر اشتہار کے مشمولات جائز ہیں تو ان سے ملنے والا معاوضہ بھی جائز ہوگا، اور اگر مشمولات ناجائز ہیں تو ان پر ملنے والی رقم بھی ناجائز ہوگی۔ تاہم یہ بات معلوم ہے کہ گوگل ایڈسینس کمپنی آپ کی ویب سائٹ پر اشتہار دینے میں آزاد ہوتی ہے، اس کے مشمولات کا حد جواز میں ہونا ضروری نہیں ہے، اس لئے بہت سے علماء نے گوگل ایدسینس سے پیسے کمانے کو ناجائز لکھا ہے، اور ظاہر ہے اس جیسی کمپنیاں جائز و ناجائز مشمولات میں فرق نہیں کرسکتی ہیں۔ اس لئے اس سے احتراز کیاجائے۔
"وفي المنتقى: إبراهيم عن محمد - رحمه الله تعالى - في امرأة نائحة أو صاحب طبل أو مزمار اكتسب مالاً، قال: إن كان على شرط رده على أصحابه إن عرفهم، يريد بقوله: "على شرط" إن شرطوا لها في أوله مالاً بإزاء النياحة أو بإزاء الغناء، وهذا؛ لأنه إذا كان الأخذ على الشرط كان المال بمقابلة المعصية، فكان الأخذ معصيةً، والسبيل في المعاصي ردها، وذلك هاهنا برد المأخوذ إن تمكن من رده بأن عرف صاحبه، وبالتصدق به إن لم يعرفه؛ ليصل إليه نفع ماله إن كان لايصل إليه عين ماله، أما إذا لم يكن الأخذ على شرط لم يكن الأخذ معصيةً، والدفع حصل من المالك برضاه فيكون له ويكون حلالاً له." (الفتاوى الهندية 5/ 349)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 2341/44-3522
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جعلی ریویو دکھانا یا جعلی مارکیٹنگ کرنا جھوٹ اور دھوکہ دہی ہے، یہ جھوٹی گواہی کے زمرے میں آئے گا اور حرام ہوگا۔ اس لئے اس طرح کی دھوکہ دہی سے اجتناب کرنا لازم ہے۔ کاروبار میں جھوٹ اور مکروفریب سے بچنا انتہائی ضروری ہے۔
صحیح مسلم: (باب قول النبی من غشنا، رقم الحدیث: 101، ط: دار احیاء التراث العربی)
عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: "من غشنا فلیس منا".)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2370/44-3576
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ دوران نماز عورت کے لئے بالوں کا چھپانا بھی شرائط نماز میں سے ہے، اس لئے اگر دوپٹہ سرک جائے یا گرجائے اور بال چوتھائی سے کم مقدار میں کھل جائیں اور عورت اس کو فوراً ٹھیک کرلے تو نماز درست ہوجائے گی، اور اگر بال چوتھائی مقدار سے زیادہ کھل گئے یا یہ کہ تین بار سبحان اللہ کہنے کے بقدر بال کھلے رہے تو نماز فاسد ہوجائے گی۔ جان بوجھ کر تھوڑی دیر کے لئے بھی اگر بالوں کو کھولا تو نماز فاسد ہوجائے گی۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 408):
"(ويمنع) حتى انعقادها (كشف ربع عضو) قدر أداء ركن بلا صنعه (من) عورة غليظة أو خفيفة على المعتمد (والغليظة قبل ودبر وما حولهما، والخفيفة ما عدا ذلك) من الرجل والمرأة، وتجمع بالأجزاء لو في عضو واحد، وإلا فبالقدر؛ فإن بلغ ربع أدناها كأذن منع.
تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:
"(وَ) الرَّابِعُ (سَتْرُ عَوْرَتِهِ) وَوُجُوبُهُ عَامٌّ... (وَلِلْحُرَّةِ) وَلَوْ خُنْثَى (جَمِيعُ بَدَنِهَا) حَتَّى شَعْرُهَا النَّازِلُ فِي الْأَصَحِّ". ( كتاب الصلاة، بَابُ شُرُوطِ الصَّلَاةِ، ١ / ٤٠٤ - ٤٠٥، ط: دار الفكر)
رد المحتار میں ہے:
"(قَوْلُهُ: النَّازِلُ) أَيْ عَنْ الرَّأْسِ، بِأَنْ جَاوَزَ الْأُذُنَ، وَقَيَّدَ بِهِ إذَا لَا خِلَافَ فِيمَا عَلَى الرَّأْسِ (قَوْلُهُ: فِي الْأَصَحِّ) صَحَّحَهُ فِي الْهِدَايَةِ وَالْمُحِيطِ وَالْكَافِي وَغَيْرِهَا، وَصَحَّحَ فِي الْخَانِيَّةِ خِلَافَهُ مَعَ تَصْحِيحِهِ لِحُرْمَةِ النَّظَرِ إلَيْهِ، وَهُوَ رِوَايَةُ الْمُنْتَقَى وَاخْتَارَهُ الصَّدْرُ الشَّهِيدُ، وَالْأَوَّلُ أَصَحُّ وَأَحْوَطُ كَمَا فِي الْحِلْيَةِ عَنْ شَرْحِ الْجَامِعِ لِفَخْرِ الْإِسْلَامِ وَعَلَيْهِ الْفَتْوَى كَمَا فِي الْمِعْرَاجِ. (كتاب الصلاة، بَابُ شُرُوطِ الصَّلَاةِ، مَطْلَبٌ فِي سَتْرِ الْعَوْرَةِ، ١ / ٤٠٥، ط: دار الفكر)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:فجر کے علاوہ میں نماز کی اطلاع دینے کو فقہاء نے مکروہ لکھا ہے؛ تاہم متأخرین نے اس کی اجازت دی ہے اور اس کو اچھا سمجھا ہے، لوگوں کی سستی کو دیکھتے ہوئے؛ لہٰذا ضرورت کے وقت اتفاقاً ہو، تو کوئی حرج معلوم نہیں ہوتا۔(۱)
(۱) (ویثوّب الخ) ہو لغۃ مطلق العود إلی الإعلام بعد الإعلام وشرعاً ہو العود إلی الإعلام المخصوص، قولہ: (بعد الأذان) علی الأصح لا بعد الإقامۃ کما ہو اختیار علماء الکوفۃ، قولہ: (في جمیع الأوقات) استحسنہ المتأخرون وقد روي أحمد في السنن والبزار وغیرہما بإسناد حسن موقوفاً علي ابن مسعود ما رآہ المسلمون حسناً فہو عند اللّٰہ حسن۔ (حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الأذان‘‘: ص: ۱۹۸)
واستحسن المتأخرون التثویب: التثویب ہو الإعلام بعد الإعلام بحسب ما تعارفہ أہل کل بلدۃ من الأذانین مثل الصلوٰۃ الصلوٰۃ قوموا إلی الصلوٰۃ وغیرہما وقال: إنہ مکروہ في غیر الفجر، فیہ حدیثان ضعیفان أحدہما للترمذي وابن ماجہ۔ (مجمع الأنہر في ملتقی الأبحر، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الأذان‘‘: ج ۱، ص: ۶۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص539
فقہ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:بشرط صحتِ سوال صورت مسئولہ میں اجتہاد کہتے ہیں کسی چیز کی تلاش میں اپنی پوری طاقت خرچ کرنا اور اس سے مراد ہے کسی قضیہ (مسئلہ) کو قیاس کے طریقے سے کتاب وسنت کی طرف لوٹانا۔
’’الاجتہاد بذل الوسع في طلب الأمر، والمراد بہ رد القضیۃ من طریق القیاس إلی الکتاب والسنۃ‘‘(۱) کسی فقیہ کا کسی حکم شرعی کو حاصل (استنباط) کرنے کے لئے اپنی پوری طاقت خرچ کرنے کو بھی اجتہاد کہا جاتا ہے۔
اجتہاد کی شرعی حیثیت یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا فرمان ہے: {ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْٓا أَطِیْعُوا اللّٰہَ وَأَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَأُولِی الْأَمْرِ مِنْکُمْج فَأِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْئٍ فَرُدُّوْہُ إِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ إِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْأٰخِرِط ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّأَحْسَنُ تَأْوِیْلاًہع ۵۹}(۲)
اس آیت کریمہ میں ادلۃ اربعہ (چاروں دلیلوں) کی طرف اشارہ ہے۔ {أَطِیْعُوا اللّٰہَ} سے مراد قرآن کریم ہے {أَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ} سے مراد سنت ہے {أُولِی الْأَمْرِ} سے مراد علماء اور فقہا ہیں۔ ان میں اگر اختلاف وتنازع نہ ہو؛ بلکہ اتفاق ہو جائے تو اسے اجماعِ فقہاء کہتے ہیں اور اگر {أُولِی الْأَمْرِ} میں علماء وفقہاء کا اختلاف ہو تو ہر ایک مجتہد اپنی رائے سے اجتہاد کرتا ہے اس نئے اور غیر واضح اختلافی مسئلے کا قرآن وسنت کی طرف لوٹانا اور استنباط کرنا اجتہادِ شرعی یا قیاسِ مجتہد کہلاتا ہے۔
’’قال أبو بکر الجصاص: إن أولی الأمر ہم الفقہاء لأنہ أمر سائر الناس بطاعتہم ثم قال فإن تنازعتم في شيء فردوہ إلی اللّٰہ والرسول فأمر أولی الأمر برد المتنازع فیہ إلی کتاب اللّٰہ وسنۃ نبیہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا کانت العامۃ ومن لیس من أہل العلم لیست ہذہ منزلتہم لأنہم لا یعرفون کیفیۃ الرد إلی کتاب اللّٰہ والسنۃ ووجوہ دلائلہما علی أحکام الحوادث فثبت أنہ خطاب للعلماء‘‘(۱)
لہٰذا عوام الناس اور غیر عالم کا یہ مقام نہیں ہے کہ اختلافی مسائل کو کتاب وسنت کی طرف لوٹائے؛ اس لیے کہ لوٹانے کا کیا طریقہ ہے یہ اسے معلوم نہیں ہے اور نہ ہی انہیں نت نئے مسائل مستنبط کرنے کے دلائل کے طریقوں کا علم ہوتا ہے؛ اس لئے یہ مقام اور یہ خطاب علماء اور فقہاء ہی کا ہے۔
اجتہاد کا دروازہ ہرایک کے لیے کھلا ہوا ہو اس کی شریعت اسلامیہ میں گنجائش نہیں ہے، البتہ عام تحقیق وتلاش کتاب وسنت میں تدبر وتفکر، ان کے لطائف اور حقائق کا استخراج ہر زمانے کے تکوینی حوادث سے تشریعی مسائل کو تطبیق دے کر مناسب فتاوی دینا ایسے ہی معاندین اسلام کے نئے نئے شکوک وشبہات اور اعتراضات کی تردید کے لیے نصوص شرعیہ سے استنباط کرنا اصول اسلام کے اثبات اور تحقیق کے لئے کتاب وسنت سے تائید پیدا کرنے کا کام ہر دور میں اہل علم کے لیے باقی ہے اور ہر دور میں اہل عمل کے لئے (مذکورہ) میدان باقی ہے اجتہاد کی یہی نوع کل بھی تھی اور آج بھی ہے اور ہمیشہ رہے گی۔(۲)
(۱) محمد بن محمد الحسیني، تاج العروس من جواہر القاموس: ج ۷، ص: ۵۳۹۔
(۲) سورۃ النساء: ۵۹۔
(۱) أحمد بن علی أبوبکر الجصاص، أحکام القرآن، (سورۃ النساء: ۵۹) ’’باب في طاعۃ أولی الأمر‘‘: ج ۳، ص: ۱۷۷۔
(۲) حکیم الإسلام قاري محمد طیب صاحب، تحقیق: محمد حسنین أرشد قاسمي، اجتہاد اور تقلید: ص: ۷۹۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص159