اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:وہ دوبارہ اسلام لا سکتا ہے، ارتداد سے توبہ کرے اور کلمہ طیبہ  پڑھ کر مسلمان ہوجائے۔

وإسلامہ أن یأتي بکلمۃ الشہادۃ ویتبرأ عن الأدیان کلہا سوی الإسلام وإن تبرأ عما انتقل إلیہ کفی کذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ”کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، ومنہا الطوع“: ج ۲، ص: ۷۶۲)

وإسلامہ أن یتبرأ عن الأدیان سوی الإسلام أو عما انتقل إلیہ الخ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ”کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب: ما یشک أنہ ردۃ لا یحکم بہا“: ج ۶، ص: ۱۶۳)

تجارت و ملازمت

Ref. No. 1647/43-1229

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ نے ان کے ساتھ کاروبار میں اس طرح پیسے لگائے کہ خریدنے اور بیچنے کی ذمہ  داری آپ نے ان کو دیدی ، وہ اپنی صوابدید پر خریدتے اور بیچتے ہیں، اور آپ کے پیسے کو صحیح جگہ لگاتے ہیں ،  اور پھر فائدے کو برابر تقسیم کرکے آپ کو آپ کا حصہ دیدیتے ہیں، تو اس معاملہ میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ اور خریدی ہوئی زمین کو جاننا اور دیکھنا وغیرہ کوئی چیز آپ کے لئے ضروری نہیں ہے؛ اس لئے ان کا آپ کی اجازت کے بغیر خریدنا اور بیچنا درست ہے، اور پیسے آپ کے لئے حلال ہیں اس میں کوئی شبہ کی چیز نہیں ہے۔

إلا في صورة الخلط والاختلاط استثناء من صحة البيع بلا إذن الشريك، وحاصله توقف الصحة على إذن الشريك (شامی، کتاب الشرکۃ 4/304) ولكل واحد منهما أن يبيع ما اشتراه، وما اشترى صاحبه مرابحة على ما اشترياه؛ لأن كل واحد منهما وكيل لصاحبه بالشراء والبيع، والوكيل بالبيع يملك البيع مرابحة وهل لأحدهما أن يسافر بالمال من غير رضا صاحبه؟ ذكر الكرخي أنه ليس له ذلك والصحيح من قول أبي يوسف ومحمد أن له ذلك (بدائع، فصل فی حکم الشرکۃ 6/71)

(مَا يَفْعَله الشَّرِيك فِي مَال الشّركَة) وَيجوز للشَّرِيك ان يفعل فِي مَال الشّركَة سِتَّة عشر شَيْئا احدهما ان يَبِيع وَيَشْتَرِي وَالثَّانِي ان  يرْهن ويرتهن وَالثَّالِث ان يُؤجر ويستأجر وَالرَّابِع ان يقبل البيع وَالشِّرَاء وَالْخَامِس ان يُولى انسانا السّلْعَة بِمَا اشْتَرَاهُ وَالسَّادِس ان يُشْرك انسانا فِيمَا اشْترى وَالسَّابِع ان يودع المَال من الشّركَة وَالثَّامِن ان يعير شَيْئا من مَال التِّجَارَة وَالتَّاسِع ان يستبضع مَالا من مَال الشّركَة والعاشر ان يَبِيع بِالنَّقْدِ والنسيئة وَالْحَادِي عشر ان يَبِيع بالاثمان وَالْعرُوض وَالثَّانِي عشر ان يَأْذَن للْعَبد من مَال الشّركَة فِي التِّجَارَة وَالثَّالِث عشر ان يُوكل فِي البيع وَالشِّرَاء وَالرَّابِع عشر ان يَدْعُو احدا الى الطَّعَام وَالْخَامِس عشر ان يهدي الشَّيْء الْيَسِير وَالسَّادِس عشر ان يتَصَدَّق بِشَيْء يسير (النتف فی الفتاوی للسغدی، باب مالایجوز للشریک فعلہ فی مال الشرکۃ 1/537)

المادة (1372) إذا كان رأس مال الشريكين متفاضلا كأن كان رأس مال أحدهما مائة ألف درهم ورأس مال الآخر مائة وخمسين ألف درهم فإذا شرط تقسيم الربح بينهما بالتساوي فيكون بمعنى أنه شرط زيادة حصة في الربح للشريك صاحب رأس المال القليل بالنسبة إلى رأس ماله ويكون ذلك كشرط ربح زائد لأحد الشريكين حال كون رأس مالهما متساويا , فلذلك إذا عمل شرط كليهما أو شرط عمل الشريك صاحب الحصة الزائدة في الربح أي صاحب رأس المال القليل صحت الشركة واعتبر الشرط , وإذا شرط العمل على صاحب الحصة القليلة من الربح أي صاحب رأس المال الكثير فهو غير جائز ويقسم الربح بينهما بنسبة مقدار رأس مالهما. المادة (1373) يجوز لكل واحد من الشريكين أن يبيع مال الشركة نقدا أو نسيئة بما قل أو كثر. (مجلۃ الاحکام العدلیۃ، الفصل الخامس فی شرکۃ الاموال والاعمال 1/264)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Marriage (Nikah)

Ref. No. 2129/44-2173

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شادی کے موقع پر کسی چیز کا لین دین بطور رسم و رواج کے ناجائز  ہے۔ البتہ بلا کسی رسم و رواج کے التزام کے اگر دولہے کی ساس وغیرہ کوئی چیز دیدیں تو اس میں مضائقہ نہیں۔ مرد کے لئے سونے کی انگوٹھی پہننا حرام ہے لیکن اس کا مالک ہونا حرام نہیں ہے، اس لئے مرد انگوٹھی لے کر اپنے پاس رکھ سکتاہے یا اپنی بیوی کو پہناسکتاہے جبکہ ملکیت شوہر کی ہی ہوگی الا یہ کہ اپنی بیوی کو ہدیہ کردے یا مہر میں دیدے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طلاق و تفریق

Ref. No. 2105/44-2270

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کنائی الفاظ بولنے اور بیوی کی جانب منسوب کرنے کی صورت میں نیت کا اعتبار ہوگا، اور نکاح پر اثر پڑےگا، لیکن موبائل کا الارم بند کرنے کے لئے لفظ 'ڈسمس' پر کلک کرنے سے کسی طرح نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ اس لئے آپ وسوسہ کا شکار نہ ہوں، آپ کا نکاح بدستور باقی ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایسا شخص فاسق تو یقینا ہے اور گناہ گار ہے جب تک وہ صراحتاً علم غیب کا دعویٰ نہ کرے اس وقت اس کی تکفیر نہیں کرنی چاہئے۔(۱) (۱) {وَعِنْدَہٗ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُھَآ إِلَّا ھُوَط} (سورۃ الأنعام: ۵۹) {قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ الْغَیْبَ إِلَّا اللّٰہُط} (سورۃ النمل: ۶۵) وما کان خطأ من الألفاظ ولا یوجب الکفر، فقائلہ مؤمن علی حالہ ولا یؤمر بتجدید النکاح والرجوع عن ذلک، کذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۳) فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص222

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:خیر القرون میں نکاح کے وقت کلمہ پڑھوانا ثابت نہیں ہے، کلمہ تو ہر وقت پڑھنے کی چیز ہے، نکاح خواں کو چاہیے کہ لڑکے سے قبول کروائے، ایسے طریقہ پر کہ قریب بیٹھنے والے سن لیں تاکہ بوقت ضرورت نکاح کے لیے ان کی شہادت معتبر ہو سکے۔(۱)

(۱) حدثنا محمد بن بشار …… عن رجل من بني سلیم قال خطبت إلی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إمامۃ بنت عبد المطلب فانکحوني من غیر أن یتشہد۔ (خلیل أحمد سہارنپور، بذل المجہود، کتاب النکاح، باب: في خطبۃ النکاح: ج ۳، ص: ۲۴۶)
فکم من مباح یصیر بالالتزام من غیر لزوم والتخصیص من غیر مخصص مکروہاً۔ (مجموعہ رسائل اللکھنوي سباحۃ الکفر في الجہر بالذکر: ج ۳، ص: ۳۴؛ امدادیہ: ج ۱، ص: ۴۹۸)
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: وإیاکم ومحدثات الأمور فإن کل محدثۃ بدعۃ وکل بدعۃ ضلالۃ۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب السنۃ: باب لزوم السنۃ‘‘: ج ۲، ص: ۶۳۵، رقم: ۴۶۰۷)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص432

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2469/45-3743

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   عمل کثیر کی تشریح میں متعدد اقوال ہیں، البتہ ان میں مفتی بہ  قول یہ ہے کہ دور سے دیکھنے والے کو یہ غالب گمان ہو کہ یہ شخص نماز میں نہیں ہے۔عمل کثیر مفسد صلوۃ ہے، ایسی صورت میں نماز کا اعادہ واجب ہوتا ہے۔  

صورت مسئولہ میں سجدے میں جاتے وقت دونوں ہاتھوں سے  شلوارکو ہلکا سا اوپر کی طرف کھینچتے ہوئے سجدہ میں جانا عمل قلیل ہے، اس سے نماز فاسد نہیں ہوگی، لیکن بلاضرورت عمل قلیل کی عادت بنا لینا بھی مکروہ ہے، اس لئے  اس سے احتراز کرنا چاہئے اور پائچے کو نماز شروع کرنے  سے پہلےہی  درست کرلینا چاہئے۔

ویفسدہا کل عمل کثیر لیس من أعمالہا ولا لإصلاحہا۔ وفیہ خمسة أقوال: أصحہا مالا یشک بسببہ الناظر من بعید فی فاعلہ أنہ لیس فیہا وإن شک أنہ فیہا أم لا فقلیل (شامی: ۲/۳۸۵، ط: زکریا دیوبند)۔ وکرہ عبثہ بثوبہ (شامی: ۲/۴۰۶۔ مکروہات الصلوة، ط: زکریا دیوبند)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

خوردونوش

Ref. No. 2545/45-3949

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہم نے جو کچھ اس کے بارے میں جانا و ہ یہ ہے کہ میگنیشیم اسٹئریٹ  کا کام یہ  ہوتاہے کہ پیراسیٹامال دوا کو معدہ میں تحلیل کرنے میں  مدد کرتاہے۔ لیکن یہ کس چیز سے بنتاہے اس کے بارے میں ہمیں کوئی علم نہیں ہے۔ اگر آپ کو اس کے اصل مادہ جس سے بنتاہے کے بارے میں کچھ معلوم ہو تو دوبارہ اس کی وضاحت کے ساتھ سوال کریں تاکہ اس کے مطابق  اس کا حکم لکھاجائے۔   

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 2584/45-3944

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is follows:

Your cousin sister is not mahram for you; you must maintain proper Parda from her. Because of the lack of proper Parda it has happened. It is a forbidden and heinous crime and sinful act that should not have been occurred. Now, repent to Allah and seek forgiveness for your sins, and keep away from the same in the future. However, due to this shameful act, the Musaharat will take place.

عن معقل بن يسار رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لأن يُطعن في رأس أحدكم بمخيط من حديد خير له من أن يمسّ امرأة لاتحلّ له." رواه الطبراني". (صحيح الجامع 5045)

"وفي رواية : أَنَّهُ يُبَايِعُهُنَّ بِالْكَلامِ .. وَمَا مَسَّتْ كَفُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَفَّ امْرَأَةٍ قَطُّ". (صحيح مسلم 3470)

 

It is said in the hadith that if an iron needle is thrust into a man's head, it is better for him than touching a non-mahram woman, who is not permissible for him.

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

مذاہب اربعہ اور تقلید

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اہل حدیث وغیر مقلد ایک ہی فرقہ ہے اور یہ مسلمان ہیں؛ لیکن تقلید کے منکر ہیں، حالاں کہ تقلید ائمہ کے بغیر پورے طور پر راہِ راست پر رہنا مشکل ہے، اس سلسلے میں (فتاویٰ رحیمیہ: ص: ۲۳۴، ج۱) کا مطالعہ مفید ہوگا۔(۳)

(۳) وترک الأشعري: مذہبہ واشتغل ہو ومن تبعہ بإبطال رأی المعتزلۃ وإثبات ما ورد بہ السنۃ أي الحدیث ومضی علیہ الجماعۃ أي: السلف أو الصحابۃ خاصۃ بقرینۃ ما مر والمآل واحد فسموا بأہل السنۃ والجماعۃ أي: أہل الحدیث وإتباع الصحابۃ: (محمد عبدالعزیز، النبراس، شرح العقائد: ص: ۳۱)

قال في خزانۃ الروات: العالم الذي یعرف معنی النصوص والأخبار وہو من أہل الدرایۃ یجوز لہ أن یعمل علیہا وإن کان مخالفاً لمذہبہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’مطلب لا تقبل الشہادۃ بلفظ اعلم أو أتیقن‘‘: ج ۷، ص: ۷۸)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص256