Frequently Asked Questions
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ہاتھ آلہ تطہیر ونظافت ہے؛ اس لیے متوضی کو چاہئے کہ ابتداء وضو میں ہاتھ دھوتے ہوئے انگلیوں کا خلال کرے، تاکہ اچھی طرح نظافت حاصل ہو جائے، تاہم سنّت یہ ہے کہ کہنیوں تک ہاتھ دھوتے وقت خلال کرے۔
’’أن التخلیل إنما یکون بعد التثلیث لأنہ سنۃ التثلیث‘‘(۱)
’’وتخلیل الأصابح من الید والرجلین بعد التثلیث‘‘(۲)
’’والتخلیل إنما یکون بعد التثلیث لأنہ سنۃ التثلیث‘‘(۳)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب في منافع السواک‘‘: ج ۱، ص: ۲۳۸۔
(۲) علی حیدر خواجہ، درر الحکام شرح مجلۃ الأحکام، ’’کتاب الطہارۃ: سنن الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۔(شاملۃ)
(۳) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ: فرائض الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۴۶۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص183
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:حیض ونفاس سے پاکی حاصل کرتے وقت اگر زیر ناف صاف کرے تو گناہ گار نہیں ہوگی، دو تین دن بعد اگر صاف کرے تب بھی گناہ گار نہیں ہوگی، بلکہ چالیس دن کے اندر اندر جس وقت چاہے صاف کر لے کوئی ممانعت نہیں۔(۳)
(۳)حلق الشعر حالۃ الجنابۃ مکروہٌ و کذا قص الأظافیر (جماعۃ من علماء الہند، …الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الکراہیۃ، الباب التاسع عشر: في الختان والخضاء، و قلم الأظفار الخ‘‘ ج۵، ص:۴۱۴)؛ و قص الأظفار ھو إزالۃ ما یزید علی ما یلابس رأس الإصبع من الظفر بمقص أو سکین أو غیرھما و یکرہ … في حالۃ الجنابۃ، و کذا إزالۃ الشعر لما روی خالد مرفوعا من تنور قبل أن یغتسل جائتہ کل شعرۃ فتقول یارب سلہ لم ضیعنی ولم یغسلنی۔ (طحطاوی، حاشیۃ الطحطاوی، ’’کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ‘‘ج۱، ص:۵۲۵، دارالکتاب دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص378
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: اس صورت میں اذان کا اعادہ کرلیا جائے، تو اچھا ہے؛ لیکن ضروری نہیں۔ اگر اعادہ نہ کیا گیا، تو مقصد اذان پورا ہوجائے گا اس لیے کوئی حرج نہیں۔(۱)
(۱) ولو قدم فیہما مؤخراً أعاد ما قدم فقط ولا یتکلم فیہما اصلا ولو رد سلام فإن تکلم استأنفہ، وفي الشامیۃ: قولہ أعاد ما قدم فقط، کما لو قدم الفلاح علی الصلاۃ یعیدہ فقط أي ولا یستأنف الأذان من أولہ۔ (ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان‘‘: مطلب في أول من بنی المنائر للأذان، ج۲، ص: ۵۶)
ویترتب بین کلمات الأذان والإقامۃ … وإذا قدم في أذانہ أو في إقامتہ بعض الکلمات علی بعض … فالأفضل في ہذا أن ما سبق علی أوانہ لا یعتد بہ حتی یعیدہ في أوانہ وموضعہ، وإن مضی علی ذلک جازت صلاتہ، کذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند،الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني: في الأذان، الفصل الثاني: في کلمات الأذان والإقامۃ وکیفیتہما‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۳، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص147
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز ہوجائے گی لیکن ایسے خیال کو دفع کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔(۱)
(۱) یجب حضور القلب عند التحریمۃ، فلو اشتغل قلبہ بتفکر مسألۃ مثلا في أثناء الأرکان، فلا تستحب الإعادۃ۔ وقال البقالی: لم ینقص أجرہ إلا إذا قصر۔ (الحصکفي، رد المحتار علی الدر المختار، ’’مطلب في حضور القلب والخشوع‘‘ ج۲، ص: ۹۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص104
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: ایک بڑی آیت سے مراد یہ ہے کہ وہ تین چھوٹی آیات جیسے {ثُمَّ نَظَرَہلا ۲۱ ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَہلا ۲۲ ثُمَّ اَدْبَرَ وَاسْتَکْبَرَہلا ۲۳} کے بقدر ہو یعنی اس میں کم از کم تیس حروف ہوں، اگر کوئی ایسی ایک بڑی آیت بھی نہ پڑھ سکے تو ترکِ واجب کی وجہ سے اس پر سجدہ سہو لازم ہوگا۔
’’وضم أقصر سورۃ کالکوثر أو ما قام مقامہا، وہو ثلاث آیات قصار، نحو {ثُمَّ نَظَرَہلا ۲۱ ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَہلا ۲۲ ثُمَّ اَدْبَرَ وَاسْتَکْبَرَہلا ۲۳}، وکذا لو کانت الآیۃ أو الآیتان تعدل ثلاثاً قصاراً … وہي ثلاثون حرفا، فلو قرأ آیۃ طویلۃ قدر ثلاثین حرفاً یکون قد أتی بقدر ثلاث آیات‘‘(۱)
(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: کل صلاۃ أدیت مع کراہۃ التحریم تجب إعادتہا‘‘: ج ۲، ص: ۱۴۹، زکریا۔)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص222
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: جن حالات سے مسلمان گزر رہے ہیں بلاشبہ وہ اس کے مقتضی ہیں کہ دعائے قنوت پڑھی جائے عند الاحناف نماز فجر میں پڑھی جائے اور کسی نماز میں نہیں۔(۱)
(۱) وہو صریح فی أن قنوت النازلۃ عندنا مختص بصلاۃ الفجر دون غیرہا من الصلوات الجہریۃ أو السریۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل، مطلب في القنوت للنازلۃ‘‘: ج ۲، ص: ۴۴۹)
قال الإمام النووي: القنوت مسنون فی صلاۃ الصبح دائما، وأما في غیرہا ففیہ ثلاثۃ أقوال، والصحیح: المشہور أنہ إذا نزلت نازلۃ کعدو أو قحط أو وباء أو عطش أو ضرر أو ظاہر فی المسلمین، ونحو ذلک قنتوا في جمیع الصلوات المکتوبۃ، وإلا فلا۔ ذکرہ الطیبي، وفیہ أن مسنونیتہ في الصبح غیر مستفادۃ من ہذا الحدیث۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ، باب القنوت‘‘: ج ۳، ص: ۹۵۸)
والقنوت في الفجر لا یشرع لمطلق الحرب عندنا، وإنما یشرع لبلیۃ شدیدۃ تبلغ بہا القلوب الحناجر ولولا ذلک یلزم الصحابۃ القائلین بالقنوت للنازلۃ أن یقنتوا أبداً ولا یترکوہ یوماً لعدم خلو المسلمین عن نازلۃ ما غالبا، لا سیما في زمن الخلفاء الأربعۃ قلت: وہذا ہو الذي یحصل بہ الجمع بین الأحادیث المختلفۃ في الباب۔ ( ظفر أحمد العثماني، إعلاء السنن، ’’کتاب الصلاۃ: أبواب الوتر، تتمۃ في بقیۃ أحکام قنوت النازلۃ‘‘: ج ۶، ص: ۹۶،ادارۃ القرآن کراچی)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص330
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صبح صادق کے بعد صرف فجر کی دو سنت مؤکدہ پڑھ سکتے ہیں فجر کی نماز سے قبل اور نماز کے بعد نفل نماز مکروہ ہے۔
’’ویکرہ التنفل بعد طلوع الفجر بأکثر من سنۃ قبل أداء الفرض لقولہ صلی اللہ جمیع الوقت مشغولاً بالفرض حکماً ولذا تخفف قرائۃ سنۃ الفجر‘‘(۱)
(۱) حسن بن عمار، مراقي الفلاح، ص: ۱۰۱۔)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص439
زکوۃ / صدقہ و فطرہ
Ref. No. 39 / 800
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ زکوۃ کی رقم کا براہ راست اساتذہ کی تنخواہوں یا مدرسہ کی ضروریات میں خرچ کرنا جائز نہیں ہے۔ زکوۃ کی رقم کسی مستحق زکوۃ کی ملکیت میں دینا ضروری ہے جس کو اختیار ہو کہ اپنی مرضی سے جہاں چاہے خرچ کرے۔ پھر اگر اہل مدرسہ نے اس کو ترغیب دے کے کچھ رقم حاصل کرلی تو پھر اس رقم کو مدرسہ کی ضروریات اور اساتذہ کی تنخواہوں وغیرہ میں خرچ کرنے میں حرج نہیں ہے۔ کذا فی الفقہ
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Taharah (Purity) Ablution &Bath
Ref. No.
In the name of Allah the most Gracious, the most Merciful
The answer to your question is as follows:
The regular routine (habit) of the woman would be taken in notice. You should know that the maximum time of menstruation is 10 days. If blood stopped flowing after 10 days, then having intercourse with her before she takes a bath, is lawful though it not desirable.
If she has habit to menstruate less than 10 days then intercourse is allowed only after she takes a complete bath. Having intercourse is forbidden before a valid bath. Only pouring water over shoulder unto the lower parts of the body will not suffice and intercourse will remain unlawful, and if someone has done so in the past unknowingly he must repent to Allah and give sadaqa in the way of Allah too.
If she gets delayed in taking a bath and a time of a prayer passed by then it is permissible to have intercourse with her even before she take a proper bath.
وإذا انقطع دم الحيض لأقل من عشرة أيام لم يحل وطؤها حتى تغتسل " لأن الدم يدر تارة وينقطع أخرى فلا بد من الاغتسال ليترجح جانب الانقطاع " ولو لم تغتسل ومضى عليها أدنى وقت الصلاة بقدر أن تقدر على الاغتسال والتحريمة حل وطؤها " لأن الصلاة صارت دينا في ذمتها فطهرت حكما " ولو كان انقطع الدم دون عادتها فوق الثلاث لم يقربها حتى تمضي عادتها وإن إغتسلت " لأن العود في العادة غالب فكان الاحتياط في الاجتناب " وإن انقطع الدم لعشرة أيام حل وطؤها قبل الغسل " لأن الحيض لا مزيد له على العشرة إلا أنه لا يستحب قبل الاغتسال للنهي في القراءة بالتشديد. (ھدایہ ج 1 ص33)
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 916/41-000
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر بینک سے سود کی رقم حاصل ہوئی ہے تو اس کا حکم یہ ہے کہ اس کو بلا نیت ثواب غرباء پر خرچ کردیا جائے ، رفاہ عام میں خرچ کرنا یا رشوت میں خرچ کرنا درست نہیں ہے اس لیے مسجد کا مذکورہ سودی پیسے سے مسجد کی نالی کی صفائی کرانا یا رشوت دینا درست نہیں ۔اس لیے کہ رفاہی کاموں میں صرف کرنا یا رشوت میں دینا درحقیقت سود سے نفع حاصل کرنا ہے جس سے حدیث میں منع کیا گیا ہے ۔عن أبي هريرة، أن رسولَ الله -صلَّى الله عليه وسلم- قال: "لَيأتيننَّ على النَّاس زمانٌ لا يبقَى أحدٌ إلا أكل الرِّبا، فإن لم يأكله أصابه من بُخارِه(سنن ابی داؤد ، حدیث نمبر :٣٣٣١)فتاوی شامی میں ہے :ويردونها على أربابها إن عرفوهم، وإلا تصدقوا بها لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه (فتاوي شامي 6/385)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند