Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: ہم لوگ جہت (سمت) قبلہ کے مکلف ہیں اس میں اگر کچھ معمولی کمی زیادتی ہو جائے تب بھی نماز اداء ہو جاتی ہے، پس مذکورہ صورت میں نمازیں ادا ہو گئیں اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔(۲)
(۲) ولغیر المشاہد إصابۃ جہتہا البعید والقریب سواء (ولو بمکۃ) وحال بینہ وبین الکعبۃ بناء أو جبل (علی الصحیح) کما في الدرایۃ والتنجیس۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ‘‘: ص: ۲۱۳-۲۱۴، مکتبہ شیخ الہند، دیوبند)
ومن کان خارجاً عن مکۃ فقبلتہ جہۃ الکعبۃ وہو قول عامۃ المشائخ، وہو الصحیح ہکذا في التبیین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث في شروط الصلاۃ، الفصل الثالث، في استقبال القبلۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۰، زکریا، دیوبند)
والأصح أن من بینہ وبینہا حائل کالغائب، وأقرہ المصنف قائلاً: والمراد بقولي ’’فللمکي‘‘ مکي یعاین الکعبۃ (ولغیرہ) أي غیر معاینہا إصابۃ جہتہا۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ‘‘: مبحث في استقبال القبلۃ، ج۲، ص: ۱۰۸-۱۰۹، زکریا، دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص268
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: بسم اللہ یا مذکورہ آیت ضروری اور شرعی سمجھ کر یا سنت سمجھ کر نہیں پڑھنا چاہئے نہ ہی اس پر دائمی عمل ہونا چاہئے حکم شرعی سمجھے بغیر اتفاقاً اگر کوئی پڑھ لے توکوئی حرج نہیں ہے۔(۲)
(۲) ولہذا صرح في الذخیرۃ والمجتبی بأنہ إن سمی بین الفاتحۃ والسورۃ المقروئۃ سرا أو جہرا کان حسنا عند أبي حنیفۃ ورجحہ المحقق ابن الہمام وتلمیذہ الحلبي … وقال في شرح المنیۃ إنہ الأحوط، لأن الأحادیث الصحیحۃ تدل علی مواظبتہ علیہ الصلاۃ والسلام علیہا، جعلہ في الوہبانیۃ قول الأکثرین أي بناء علی قول الحلواني إن أکثر المشایخ علی أنہا من الفاتحۃ، فإذا کانت منہا تجب مثلہا لکن لم یسلم کونہ قول الأکثر (قولہ ضعفہ فی البحر) حیث قال في سجود السہو: إن ہذا کلہ مخالف لظاہر المذہب المذکور فيالمتون والشروح والفتاوی من أنہا سنۃ لا واجب فلا یجب بترکہا شيء۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب قراء ۃ البسملۃ بین الفاتحۃ والسورۃ حسن‘‘: ج ۲، ص: ۱۹۲، ۱۹۳)
ثم یسمی سرا کما تقدم ویسمی کل من یقرأ في صلاتہ في کل رکعۃ سواء صلی فرضا أو نفلا قبل الفاتحۃ بأن یقول بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم وأما في الوضوء والذبیحۃ فلا یتقید بخصوص البسملۃ بل کل ذکر لہ یکفی فقط فلا تسن التسمیۃ بین الفاتحۃ والسورۃ ولا کراہۃ فیہا وإن فعلہا اتفاقا للسورۃ سواء جہر أو خافت بالسورۃ وغلط من قال لا یسمی إلا في الرکعۃ الأولی۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في کیفیۃ ترکیب الصلاۃ‘‘: ص: ۱۳۷)
فائدۃ: یسن لمن قرأ سورۃ تامۃ أن یتعوذ ویسمی قبلہا واختلف فیما إذا قرأ آیۃ والأکثر علی أنہ یتعوذ فقط ذکرہ المؤلف في شرحہ من باب الجمعۃ ثم أعلم أنہ لا فرق فی الإتیان بالبسملۃ بین الصلاۃ الجہریۃ والسریۃ وفي حاشیۃ المؤلف علی الدرر واتفقوا علی عدم الکراہۃ في ذکرہا بین الفاتحۃ والسورۃ بل ہو حسن سواء کانت الصلاۃ سریۃ أو جہریۃ۔ (أحمد بن محمد، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في کیفیۃ ترکیب الصلاۃ‘‘: ص: ۱۷۴)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 413
Games and Entertainment
Ref. No. 1665
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
For justice to be delivered it is not that only video is necessary, before arrival of video justice has been much more, and every case is not to be dragged to the court. Therefore, in usual circumstances video etc. are not allowed.
Yes, in case there is no other way to (attain) justice, and it is most probable that in such a situation (using video) justice can be attained while in other conditions (when not using video) considerable harms are feared, then there may be scope for video.
However, if there is any compulsion it is better to describe it and ask the question again. And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
کھیل کود اور تفریح
Ref. No. 39 / 825
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔مکمل پردہ کا اہتمام ہو اور غیروں کے ساتھ اختلاط بھی نہ ہو تو کوئی حرج نہیں ۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 39/1053
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شوہر اول کے طلاق دئے بغیربیوی کا دوسری جگہ نکاح درست نہیں ہوا، دوسرے شوہر کے ساتھ حرام کاری ہوئی، عورت پر توبہ لازم ہے۔ مرد کا دوسری جگہ نکاح کرنا درست ہوا۔ بہر حال ان دونوں کا نکاح اب بھی باقی ہے۔ عورت عدت گزارنے کے بعد پہلے شوہر کے پاس بغیر تجدید نکاح کے واپس آسکتی ہے۔ البتہ اگر تجدید نکاح کرلیں تو بہتر ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 41/846
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ لغت میں 'نویر' لفظ کا کوئی مناسب معنی نہیں ملا۔ اس لئے کوئی دوسرا مناسب نام رکھ لیں۔ نوراللہ، نورالہدی، نعمان، وغیرہ نام میں سے کوئی نام رکھ لیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 41/1019
In the name of Allah the most gracious the most merciful
The answer to your question is follows:
A woman in period cannot perform Namaz and recite Quran, but she can do zikrs. It is better for her to sit on her Musalla at the time of each prayer and recite wazaif and make dua. n
Note: We searched but could not come across the authenticity of the reward you mentioned in the question.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1119/42-345
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1344/42-729
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جب کوئی اہم معاملہ درپیش ہو تو حدیث میں استخارہ کی ترغیب دی گئی ہے، تاکہ اللہ تعالی اس کے لئے خیروالا راستہ واضح فرمادے۔ استخارہ خود کرنا چاہئے اور درپیش معاملہ میں خود اللہ تعالی سے تعلق قائم کرکے خیر کا طالب ہوناچاہئے۔ حدیث پاک میں ہے کہ آپ ﷺ لوگوں کو استخارہ کی تعلیم ایسے دیتے تھے جیسے قرآن کی کوئی سورہ سکھاتے تھے۔ حدیث پاک میں کسی جگہ دوسروں سے استخارہ کرانا ثابت نہیں ہے۔ اس لئے ہر مسلمان کو اپنا تعلق اللہ سے مضبوط کرنا چاہئے اور خود سے استخارہ کرنا چاہئے۔ تاہم دوسروں سے استخارہ کو حرام بھی نہیں کہا جاسکتاہے، بعض مرتبہ آدمی کسی بزرگ کو نیک سمجھ کر اس سے استخارہ کراتاہے تو اس میں کوئی گناہ نہیں ہے البتہ خود سے بھی استخارہ کرتے رہنا چاہئے اور اگر معاملہ واضح نہ ہو تو سات دن کرتا رہے۔ کسی بھی مناسب وقت یا سونے سے قبل دو رکعت نفل نماز پڑھے اور نماز کے بعد استخارہ کی دعا پڑھے۔ استخارہ کی دعا یہ ہے: "اللهم إني أستخيرك بعلمك، وأستقدرك بقدرتك، وأسألك من فضلك العظيم، فإنك تقدر ولا أقدر، وتعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب. اللهم إن كنت تعلم أن هذا الأمر خير لي في ديني ومعاشي وعاقبة أمري أو قال عاجل أمري وآجله، فاقدره لي ويسره لي ثم بارك لي فيه، وإن كنت تعلم أن هذا الأمر شر لي في ديني ومعاشي وعاقبة أمري أو قال عاجل أمري وآجله فاصرفه عني واصرفني عنه، واقدر لي الخير حيث كان ثم رضني به"۔ جب "ھذا الامر" پر پہونچے تو اپنے کام کو دھیان میں رکھے۔
مطلب في ركعتي الاستخارة: (قوله ومنها ركعتا الاستخارة) عن «جابر بن عبد الله قال: كان رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يعلمنا الاستخارة في الأمور كلها كما يعلمنا السورة من القرآن يقول إذا هم أحدكم بالأمر فليركع ركعتين من غير الفريضة، ثم ليقل: اللهم إني أستخيرك بعلمك، وأستقدرك بقدرتك، وأسألك من فضلك العظيم، فإنك تقدر ولا أقدر، وتعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب. اللهم إن كنت تعلم أن هذا الأمر خير لي في ديني ومعاشي وعاقبة أمري أو قال عاجل أمري وآجله، فاقدره لي ويسره لي ثم بارك لي فيه، وإن كنت تعلم أن هذا الأمر شر لي في ديني ومعاشي وعاقبة أمري أو قال عاجل أمري وآجله فاصرفه عني واصرفني عنه، واقدر لي الخير حيث كان ثم رضني به، قال ويسمي حاجته» رواه الجماعة إلا مسلما شرح المنية. (شامی، باب الوتر والنوافل 2/26)
وإذا استخار يمضي لا ينشرح له صدره وينبغي أن يكررها سبع مرات لما روي عن أنس قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "يا أنس إذا هممت بأمر فاستخر ربك فيه سبع مرات ثم انظر إلى الذي يسبق إلى قلبك فإن الخير فيه". (مراقی الفلاح، فصل فی تحیۃ المسجد 1/149)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
مساجد و مدارس
Ref. No. 1658/43-1239
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صرف بالائی منزل وقف کرنا درست ہے۔ البتہ مسجدشرعی ہونے کے لئے ضروری ہے کہ وہ نیچے سے اوپر تک مسجد یا مصالح مسجد کے لئے ہو،مسجدِ شرعی اوپر آسمان تک اور نیچے تحت الثریٰ تک مسجد ہوتی ہے، اس لئے صرف بالائی منزل مسجد کے لئے وقف کرناگوکہ درست ہوگیا مگر یہ مسجد شرعی نہ ہوگی ، اور مسجد شرعی کا ثواب اس سے حاصل نہ ہوگا۔
و) كره تحريماً (الوطء فوقه، والبول والتغوط)؛ لأنه مسجد إلى عنان السماء (واتخاذه طريقاً بغير عذر) وصرح في القنية بفسقه باعتياده (وإدخال نجاسة فيه) وعليه (فلايجوز الاستصباح بدهن نجس فيه) ولاتطيينه بنجس (ولا البول) والفصد (فيه ولو في إناء) ويحرم إدخال صبيان ومجانين حيث غلب تنجيسهم وإلا فيكره وينبغي لداخله تعاهد نعله وخفه، وصلاته فيهما أفضل (لا) يكره ما ذكر (فوق بيت) جعل (فيه مسجد) بل ولا فيه؛ لأنه ليس بمسجد شرعاً. (و) أما (المتخذ لصلاة جنازة أو عيد) فهو (مسجد في حق جواز الاقتداء) وإن انفصل الصفوف رفقاً بالناس (لا في حق غيره) به يفتى نهاية (فحل دخوله لجنب وحائض) كفناء مسجد ورباط ومدرسة ومساجد حياض وأسواق لا قوارع.
قوله: إلى عنان السماء) بفتح العين، وكذا إلى تحت الثرى كما في البيري عن الإسبيجابي. بقي لو جعل الواقف تحته بيتاً للخلاء هل يجوز كما في مسجد محلة الشحم في دمشق؟ لم أره صريحاً، نعم سيأتي متناً في كتاب الوقف أنه لو جعل تحته سرداباً بالمصالحة جاز تأمل ... (قوله: لايكره ما ذكر) أي من الوطء والبول والتغوط نهر (قوله: فوق بيت إلخ) أي فوق مسجد البيت: أي موضع أعد للسنن والنوافل، بأن يتخذ له محراب وينظف ويطيب كما أمر به صلى الله عليه وسلم، فهذا مندوب لكل مسلم، كما في الكرماني وغيره قهستاني، فهو كما لو بال على سطح بيت فيه مصحف وذلك لايكره كما في جامع البرهاني معراج... (قوله: وأسواق) أي غير نافذة يجعلون مصطبة للصلاة فيها ح وذلك كالتي تجعل في خان التجار". الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 656):
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند