Frequently Asked Questions
فقہ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:علم لدنی یا وہبی اس علم کو کہتے ہیں، جو بغیر سیکھے اللہ تعالیٰ اپنی رحمت خاصہ سے عطا فرمادیتے ہیں اور جو علم سیکھا جائے، خواہ مدارس سے یا خانقاہوں سے یا کسی پیر ومرشد سے وہ علم کسبی کہلاتا ہے۔ (۱)
(۱) {فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَآ أٰتَیْنٰہُ رَحْمَۃً مِّنْ عِنْدِنَا وَعَلَّمْنٰہُ مِّنْ لَّدُنَّا عِلْمًاہ۶۵} (سورۃ الکہف: ۶۵)
یا موسیٰ اني علی علم من علم اللّٰہ علمنیہ لا تعلمہ وأنت علی علم من علم اللّٰہ علمک اللّٰہ علماً لا أعلمہ۔ (محمد ثناء اللّٰہ پاني پتي، تفسیر المظہري، ’’تحت تفسیر آیۃ: ۶۵‘‘: ج ۵، ص: ۳۹۶)
ثم إن الذي أمیل إلیہ أن موسیٰ علیہ السلام علم بعلم الحقیقۃ المسمیٰ بالعلم الباطني والعلم اللدني إلا أن الخضر أعلم بہ منہ، وللخضر علیہ السلام سواء کان نبیاً أو رسولاً علماً بعلم الشریعۃ المسمیٰ بالعلم الظاہر إلا أن موسیٰ علیہ السلام أعلم بہ منہ فکل منہما أعلم من صاحبہ من وجہ۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني، ’’سورۃ کہف‘‘۶۵: ج ۹، ص: ۴۷۸)
فإن حصل بواسطۃ البشر فہو کسبي، وإلا فہو العلم اللدني الخ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب العلم، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۲۶۱، رقم: ۱۹۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص168
مذاہب اربعہ اور تقلید
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ان تمام سوالات کے جوابات مختلف کتابوں میں موجود ہیں ان کو یہاں باحوالہ نقل کیا جاتا ہے:
(۱) بالقصد حضور اکرم B کا تصور نماز میں اس طرح جمانا کہ بالکل آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی طرف دھیان رہے کسی دوسری چیز کا خیال دل میں نہ آئے، قطعاً منع ہے؛ بلکہ ایہام شرک ہے، کیونکہ اس صورت میں نماز اللہ تعالیٰ کی نہ رہے گی، کیونکہ سجدہ وغیرہ سب کچھ حضرت نبی اکرم B کے لئے ہوگا، اور اس کا موہم شرک ہونا ظاہر ہے۔
اور اگر خنزیر وغیرہ کا تصور آئے گا، تو حقیر وذلیل ہوکر آئے گا، اس کی کوئی تعظیم دل میں نہ ہوگی، لہٰذا شرک کا شائبہ نہیں، بخلاف حضور اقدس B کے تصور کے کہ وہاں تعظیم ملحوظ ہوتی ہے، جس میں شرک کا قوی اندیشہ ہے۔ (۱)
(۲) کوئی امتی کسی نبی کے درجہ کو نہیں پہنچ سکتا، ولایت کے اونچے مقامات پر پہنچنا بعید نہیں، مگر جو حضرات پہنچتے ہیں وہ دعویٰ نہیں کرتے، اور تکبر نہیں کرتے۔
حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ عقیدہ رکھنا کہ وہ صرف بھائی کے درجہ میں ہیں، اس سے زیادہ ان کی کوئی فضیلت نہیں یہ غلط ہے، انبیاء علیہم السلام کی شان میں توہین اور گستاخی کرنا کفر ہے۔
بلا تحقیق کسی کی طرف کوئی غلط عقیدہ منسوب کرنا درست نہیں تہمت ہے۔ (۲)
حدیث پاک میں ارشاد ہے ’’أنا سید ولد آدم ولا فخر‘‘ (۳) حضرت نبی اکرم B کا مرتبہ اللہ پاک کے نزدیک اتنا بلند ہے کہ نہ کوئی فرشتہ اس کو پا سکتا ہے، نہ کوئی پیغمبر، پھر بڑے بھائی کے برابر کیسے ہو سکتے ہیں؟ البتہ حضور مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بلند مرتبہ کے باوجود حضرت
عمر رضی اللہ عنہ کو بھائی فرمایا ہے، اور امت کو بھی بھائی فرمایا ہے، جیسا کہ احادیث میں موجود ہے۔ (۱)
(۳) تحذیر الناس میں ہے کہ: ’’صورت اعمال میں بسا اوقات بظاہر امتی مساوی ہو جاتے ہیں، بلکہ بڑھ بھی جاتے ہیں‘‘۔
’’بظاہر‘‘ کی قید اس لیے ہے کہ امتی کا عمل دیکھنے میں کتنا زیادہ ہی کیوں نہ ہو، انبیاء علیہم السلام کی ایک حرکت وسکون سے زیادہ قیمتی نہیں ہو سکتا۔ حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں پوچھا، تو آپ نے فرمایا: ہمارے سارے اعمال، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے گھوڑے کی اس دھول کے برابر بھی نہیں ہو سکتے، جو دھول انہیں نبی کریم B کی رفاقت میں لگی ہوگی۔ جب صحابہؓ اور تابعین میں مقام کا یہ فرق ہے، تو نبی اور امتی کا فرق اسی سے سمجھا جا سکتا ہے۔ ہاں! بظاہر ہو سکتا ہے، جیسے کسی نے دس حج کر لئے، اور آپ علیہ السلام نے صرف ایک حج کیا؛ مگر حقیقت میں آپ کے ایک قدم کے برابر بھی نہیں۔(۲)
(۴) حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ بہت بڑے عالم متبع سنت، شیخ طریقت بزرگ تھے، انہوں نے ہر گز حضور اکرم B کے علم مبارک کو پاگلوں اور جانوروں کے مثل نہیں فرمایا ہے۔
چنانچہ اس کتاب میں جس پر بریلوی حضرات نے کفر کا فتویٰ دیا ہے، یہ عبارت موجود ہے، نبوت کے لئے جو علوم لازم اور ضروری ہیں وہ آپ کو بتمامہا حاصل ہو گئے، غور کا مقام ہے کہ حضرت مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے سرور کائنات B کے لیے تمام علوم نبوت کو حاصل مانا، اور صراحۃً تحریر فرما دیا، مگر یہ بریلوی حضرات ایسے بہتان تراش رہے ہیں، اس مسئلہ اور عبارت پر متعدد کتابیں تفصیل کے ساتھ لکھی گئیں، ’’بسط البنان، توضیح البیان، تکمیل العرفان، وغیرہ چونکہ بریلوی حضرات نے حضرت رسول مقبول B کو عالم الغیب تسلیم کیا اور لکھا ہے ان کے مذہب پر دو شقیں پیدا ہوتی ہیں، ایک شق پر حضرت نبی اکرم B کا علم، اللہ تعالیٰ کے علم کے برابر قرار پاتا تھا، جو کہ شرک ہے، دوسری شق پر حضرت فخر عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے علم مبارک کی تنقیص وتوہین ہوتی تھی؛ اس لیے حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا کہ عالم الغیب کا اطلاق اللہ تعالیٰ
کے سوا کسی پر جائز نہیں،کیونکہ نہ شرک کی گنجائش ہے، نہ حضرت رسول مقبول سید الانبیاء والمرسلین B کے کے علم مبارک کی توہین وتنقیص کی گنجائش ہے، یہ دونوں چیزیں اسلام کے خلاف ہیں، لہٰذا حضرت امام المرسلین سید الاولین والآخرین شفیع المذنبین B کو عالم الغیب کہنا درست نہیں ہے، بریلوی حضرات علم اور دلائل کی روشنی میں اس کا رد نہیں کر سکے، اور بات کو بگاڑ کر عوام کو مشتعل کرنے کے لئے یہ عنوان اختیار کیا اور کفر کا فتویٰ دیا ہے۔ ’’ہداہم اللّٰہ تعالیٰ إلی صراط مستقیم‘‘۔ (۱)
(۵) فتاوی رشیدیہ میں اس کی وضاحت ہے کہ:
امکان کذب کے جو معنی آپ نے سمجھے ہیں وہ تو بالاتفاق مردود ہیں یعنی اللہ تعالی کی طرف وقوع کذب کا قائل ہونا باطل ہے اور خلاف نص صریح ہے، نص صریح ہے: {ومن أصدق من اللّٰہ قیلا} وہ ذات پاک مقدس شائبہ نقص وکذب وغیرہ سے منزہ ہے، رہا خلاف علماء کا جو در بارۂ وقوع وعدم وقوع خلاف وعید ہے، جس کو صاحب براہین قاطعہ نے تحریر کیا ہے وہ در اصل کذب نہیں صورت کذب ہے اس کی تحقیق میں طول ہے۔
الحاصل امکان کذب سے مراد دخول کذب تحت قوت باری تعالیٰ ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے جووعدہ وعید فرمایا ہے اس کے خلاف پر قادر ہے، اگرچہ وقوع اس کا نہ ہو، امکان وقوع لازم نہیں، بلکہ ہو سکتا ہے کہ کوئی شئ ممکن بالذات ہو اور کسی وجہ خارجی سے اس کو استحالہ لاحق ہوا ہو؛ پس مذہب جمیع محققین اہل اسلام وصوفیائے کرام وعلماء عظام کا اس مسئلہ میں یہ ہے کہ کذب داخل تحت قدرت باری تعالیٰ ہے، پس جو شبہات وقوع کذب پر متفرع ہوں وہ مندفع ہو گئے، کیونکہ وقوع کا کوئی بھی قائل نہیں ہے {قُلْ ھُوَ الْقَادِرُ عَلٰٓی أَنْ یَّبْعَثَ عَلَیْکُمْ عَذَابًا}(۲) {وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَھُمْ وَأَنْتَ فِیْھِمْط} (۳) اس آیت ثانیہ میں ہے معنی عذاب کا وعدہ فرمایا اور ظاہر ہے کہ اگر اس کے خلاف ہو، تو کذب لازم آئے گا، مگر آیت اول سے اس کا تحت قدرت باری تعالیٰ داخل ہونا معلوم ہوا، پس ثابت ہوا کہ کذب داخل تحت قدرت باری تعالیٰ جل وعلیٰ ہے، کیوں نہ ہو کہ{وہو علی کل شیء قدیر} (القرآن)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جن کی شان میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کی آیت نازل کی {لِّیَغْفِرَ لَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَمنْبِکَ وَمَا تَأَخَّرَ}(۱) فرمایا کہ ’’واللّٰہ ما أدري وأنا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ما یفعل بي ولا بکم‘‘ اور ’’کما قال اللّٰہ تعالیٰ: {وَاللّٰہُ یَقُوْلُ الْحَقَّ وَھُوَ یَھْدِی السَّبِیْلَہ۴}۔ (۲)
(۶) فتاوی رشیدیہ میں اس کی وضاحت لکھی ہوئی ہے کہ:
مٹی میں ملنے کے دو معنی ہیں ایک یہ کہ مٹی ہوکر، مٹی زمین کے ساتھ خلط ملط ہو جائے، جیسا کہ سب اشیاء زمین میں پڑ کر خاک ہو کر زمین ہی بن جاتی ہیں۔ دوسرے مٹی سے ملاقی ومتصل ہو جانا یعنی مٹی سے مل جانا، تو یہاں مراد دوسرے معنی ہیں اور جسد انبیاء کے خاک نہ ہونے کے مولانا بھی قائل ہیں، چونکہ مردہ کو چاروں طرف سے مٹی احاطہ کر لیتی ہے اور نیچے مردہ کی مٹی سے جسد مع کفن ملاحق ہوتا ہے، یہ مٹی میں ملنا اور مٹی سے ملنا کہلاتا ہے، کچھ اعتراض نہیں۔ (۳)
(۷) مذکورہ عبارت فتاوی میں نہیں ملی، فتاوی رشیدیہ میں عبارت یہ ہے: محرم میں ذکر شہادت حسین علیہ السلام کرنا اگرچہ بروایات صحیحہ ہو یا سبیل لگانا، شربت پلانا، یا چندہ سبیل اور شربت میں دینا یا دودھ پلانا سب نا درست ہے اور تشبہ روافض کی وجہ سے حرام ہیں۔ (۴)
حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ سے پیشتر بہت سے حنفی فقہاء نے اس تعلق سے لکھا ہے۔ چنانچہ فتاویٰ عالمگیری میں ہے کہ: ’’والغراب الذي یأکل الحب والزرع ونحوہا حلال بالاجماع‘‘ یعنی جو کوا دانہ، اناج اور اس جیسی چیزیں کھاتا ہے وہ بالاتفاق حلال ہے۔ اس کے علاوہ بدائع الصنائع، کنز البیان، قدوری، در مختار، شامی، شرح وقایہ، فتاویٰ سراجیہ، ہدایہ اور احکام القرآن للجصاص وغیرہ کتب معتبرہ مستندہ میں بھی لکھا ہے۔
حاصل یہ ہے کہ وہ کوا جو صرف نجاست کھاتا ہے وہ حرام ہے۔ اور جو صرف دانہ کھاتا ہے یا دانہ ونجاست دونوں کھاتا ہے وہ حلال ہے۔(۱)
(۹) یہ محفل چوں کہ زمانہ فخر عالم علیہ السلام میں اورزمانہ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین اورزمانہ تابعین اور تبع تابعین اور زمانہ مجتہدین میں نہیں ہوئی اس کی ایجاد بعد چھ سو سال کے ایک بادشاہ نے کی اس کو اکثر اہل تاریخ فاسق لکھتے ہیں، لہٰذا یہ مجلس بدعت ضلالہ ہے اس کے عدم جواز میں صاحب مدخل وغیرہ علما ء پہلے بھی لکھ چکے ہیں اور اب بھی بہت رسائل وفتاوی طبع ہو چکے ہیں زیادہ دلیل کی حاجت نہیں عدم جواز کے واسطے یہ دلیل بس ہے کہ کسی نے قرون خیر میں اس کو نہیں کیا زیادہ مفاسد اس کے دیکھنے ہوں، تو مطولات فتاویٰ کو دیکھ لیں۔
رشید احمد گنگوہی عفی عنہ
مجلس مولود مجلس خیر وبرکت ہے در صورت کہ ان قیودات مذکورہ سے خالی ہو فقط بلا قید وقت معین وبلا قیام وبغیر روایت موضوع مجلس خیر وبرکت ہے صورت موجودہ جو مروج ہے بالکل خلاف شرع ہے اور بدعت ضلالہ ہے۔ ’’ہکذا سمعت من أبي مولانا الحاج المحدث السہارنفوری المولوی احمد علي برد اللّٰہ مضجعہ وبہذا أفتی مولانا المرحوم محمد خلیل الرحمن مدرس مدرسہ اسلامیہ سہارنپور‘‘ مجلس میلاد شریف بہیئت معلومہ مروجہ لاریب بدعت وممنوع ہے فقط۔(۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص265
اسلامی عقائد
Ref. No. 2642/45-4043
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ علامہ تفتازانی ایک صحیح العقیدہ شخص ہیں اہل سنت والجماعت میں سے ہیں شافعی المسلک ہیں امام ابو الحسن اشعری بھی اہل سنت والجماعت میں سے ہیں۔ بلا کسی تحقیق کے ان کو گمراہ قرار دینا درست نہیں ہے، ان کی جن باتوں سے اختلاف ہو اس کا دلیل کی روشنی میں تعاقب کیا جا سکتا ہے تاہم ان کو گمراہ نہیں کہا جا سکتا ہے۔
’’لا یرمی رجل رجلا بالفسوق ولا یرمیہ بالکفر الارتدت علیہ ان لم یکن صاحبہ کذلک‘‘ (کتاب الادب، ’’باب ما ینہی من الباب واللعن‘‘: ج ٨،ص: ١٥،رقم: ٥٠٠٤٥)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اولاً دیکھا جائے کہ اس سانپ میں بہنے والا خون ہے کہ نہیں، اگر بہنے والا خون ہے، تو اس کے مرنے اور گلنے سڑنے سے کنواں ناپاک ہو جائے گا، لہٰذا پانی کا اندازہ کر کے اس کو نکال دیا جائے۔ اور اگر ثابت ہو جائے کہ ایسے سانپ میں بہنے والا خون نہیں ہوتا، تو اس سے کنواں ناپاک نہیں ہوگا اور اگر یہ سانپ خشکی کا نہیں ہے؛ بلکہ پانی کا ہے، تو اس کے مرنے سے پانی ناپاک نہیں ہوگا۔
’’أو مات فیہا حیوان دموی غیر مائي لما مر وانتفخ أو تمعط أو تفسخ ینزح کل مائہا الذي کان فیہا وقت الوقوع بعد إخراجہ … وانتفخ ولا فرق بین الصغیر والکبیر کالفارۃ والأدمي والفیل لأنہ تنفصل بلتہ وہي نجسۃ مائعۃ فصارت کقطرۃ خمر‘‘(۱)
’’وإن ماتت فیہا شاۃ أو کلب أو آدمي نزح جمیع ما فیہا من الماء فإن انتفخ الحیوان فیہا أو تفسخ نزح جمیع ما فیہا صغر الحیوان أو کبر لانتشار البلۃ في أجزاء الماء‘‘(۲)
’’فیفسد في الأصح کحیۃ بریۃ إن لہا دم وإلا لا … کحیۃ بریۃ أما المائیۃ فلا تفسدہ مطلقا‘‘(۳)
’’ومثلہ لو ماتت حیۃ بریۃ لادم فیہا في إناء لا ینجس وإن کان فیہا دم ینجس‘‘(۴)
’’أما المائیۃ فلا تفسد مطلقاً کما علم مما مر‘‘(۵)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: باب المیاہ، فصل في البئر‘‘: ج ۱، ص: ۳۶۷، ۳۶۸۔
(۲) المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في البئر‘‘: ج ۱، ص: ۴۳۔
(۳) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: باب المیاہ، حکم سائر المائعات کالماء في الأصح‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۱۔
(۴) ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارۃ: فصل فی الغسل باب الماء الذي یجوز بہ الوضوء ومالا یجوز‘‘: ج ۱، ص: ۹۰۔(زکریا بک ڈپو دیوبند)
(۵) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: باب المیاہ، حکم سائر المائعات کالماء في الأصح‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۱۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص67
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:حالت جنابت میںمرجانے سے اس کے غسل دینے میں کچھ فرق نہیں ہوگا، جس طرح دیگر میتوں کو غسل دیا جاتا ہے، اسی طرح جنبی میت کو بھی غسل دیا جائے گا(۱)
(۱) و یجرد من ثیابہ کما مات و یوضأ من یؤمر بالصلاۃ بلا مضمضۃ و استنشاق للحرج و قیل یفعلان بخرقۃ و علیہ العمل ولو کان جنبا أو حائضا أو نفساء۔۔۔۔ أي في شرح القدوري من أن الجنب یمضمض و یستنشق غریب مخالف لعامۃ الکتب۔ قلت: و قال الرملی: اطلاق المتون والشروح والفتاوی یشمل من مات جنبا۔(ابن عابدین، رد المحتار، ’’باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في القراء ۃ عند المیت،‘‘ ج ۳، ص:۸۶-۸۷)؛ و قول المصنف بلا مضمضۃ واستنشاق: ھذا لو کان طاھرا أما لو کان جنبا أو حائضا أو نفساء فعلا تتمیما للطاھرۃ کما في الإمداد عن شرح المقدسي، و في حاشیۃ الرملي إطلاق المتون والشروح یشمل من مات جنبا۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الجنائز، تلقین الشھادۃ للمحتضر،‘‘ ج۲، ص:۳۰۱دارالکتاب دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص289
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ والتوفیق:حاملہ عورت کا حمل وقت سے پہلے ضائع ہونے کی صورت میں حکم یہ ہے کہ اگر بچے کے اعضا میں سے کسی عضو (مثلاً: ہاتھ، پیر، انگلی یا ناخن وغیرہ) کی بناوٹ ظاہر ہوچکی ہو، تو یہ عورت نفاس والی ہوجائے گی، اس حمل کے ساقط ہونے کے بعد نظر آنے والا خون نفاس کا خون کہلائے گا؛ لیکن اگر بچے کے اعضا میں سے کسی بھی عضو کی بناوٹ ظاہر نہ ہوئی ہو، تو پھر اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے، یعنی عورت نفاس والی نہیں بنے گی اور اس حمل کے ضائع ہونے کے بعد نظر آنے والا خون نفاس بھی نہیں کہلائے گا۔
بچے کے اعضا کی بناوٹ ظاہر ہونے کی مدت فقہاء نے چار مہینے لکھی ہے، لہٰذا جو حمل چار مہینے پورے ہونے پر یا چار مہینے کے بعد ضائع ہوجائے؛ تو اس کے بعد نظر آنے والا خون نفاس ہوگا؛ لیکن اگر حمل چار مہینے مکمل ہونے سے پہلے ضائع ہوجائے، تو اس حمل کا اعتبار نہیں ہوگا، یعنی اس سے نہ تو عورت کی عدت گزرے گی اور نہ اس کے بعد نظر آنے والا خون نفاس کا ہوگا۔ اس صورت میں دیکھا جائے گا کہ اگر کم از کم تین دن تک خون آیا اور اس سے پہلے ایک کامل طہر (کم از کم پندرہ دن پاکی) بھی گزر چکا ہو، تو یہ خون حیض کا شمار ہوگا؛ لیکن اگر تین دن سے کم ہو یا اس سے پہلے پندرہ دن پاکی نہ رہی ہو، تو پھر یہ خون استحاضہ (بیماری) کا شمار ہوگا۔
’’(ظہر بعض خلقہ کید أو رجل) أو أصبع أو ظفر أو شعر، ولایستبین خلقہ إلا بعد مائۃ وعشرین یوماً (ولد) حکماً (فتصیر) المرأۃ (بہ نفساء والأمۃ أم ولد ویحنث بہ) فی تعلیقہ وتنقضی بہ العدۃ، فإن لم یظہر لہ شیء فلیس بشیء، والمرئی حیض إن دام ثلاثاً وتقدمہ طہر تام وإلا استحاضۃ‘‘(۱)
’’فإن رأت دما قبل إسقاط السقط ورأت دما بعدہ، فإن کان مستبین الخلق فما رأت قبلہ لا یکون حیضاً وہي نفساء فیما رأتہ بعدہ وإن لم یکن مستبین الخلق فما رأتہ بعدہ حیض إن أمکن‘‘(۲)
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب الحیض، مطلب في أحوال السقط وأحکامہ‘‘: ج ۱، ص: ۵۰۰۔
(۲) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ: أقل النفاس‘‘: ج ۱، ص: ۲۳۰۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص389
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق: راگ باجے کے ساتھ جانے والا امام و خطیب گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے، امامت اس کی مکروہ تحریمی ہے حتی الامکان اس کی امامت سے پرہیز کرنا چاہئے کسی دیندار پرہیز گار کے پیچھے نماز ادا کرنے کی سعی کریں۔ لیکن اگر کسی مجبوری کی وجہ سے اس کی امامت میں نماز عید یا کوئی اور نماز ادا کرلی تو وہ ادا ہوگئی اعادہ ضروری نہیں ہوگی۔(۲)
(۲) قولہ: وفاسق من الفسق: وہو الخروج عن الاستقامۃ، ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر کشارب الخمر، والزاني وآکل الربا ونحو ذلک، وأما الفاسق فقد عللوا کراہۃ تقدیمہ …بأنہ لایہتم لأمر دینہ، وبأن في تقدیمہ للإمامۃ تعظیمہ، وقد وجب علیہم إہانتہ شرعاً۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۷)
وفي النہر عن المحیط: صلی خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعۃ، وکذا تکرہ خلف أمرد وسفیہ ومفلوج، وأبرص شاع برصہ، وشارب الخمر وآکل الربا وتمام، ومراء ومتصنع) قولہ: نال فضل الجماعۃ أفاد أن الصلاۃ خلفہما أولی من الإنفراد، لکن لاینال کما ینال خلف تقي ورع لحدیث: من صلی خلف عالم تقي فکأنما صلی خلف نبي، قال في الحلیۃ: ولم یجدہ المخرجون نعم أخرج الحاکم في مستدرکہ مرفوعاً: إن سرکم أن یقبل اللّٰہ صلاتکم فلیؤمکم خیارکم، فإنہم وفدکم فیما بینکم وبین ربکم۔ (أیضًا: ’’مطلب في إمامۃ الأمرد‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۱، ۳۰۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص171
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: فتوی معلوم کرنے کا مقصد اس پر عمل کرنا ہوتا ہے نہ کہ کسی دوسرے کی تذلیل وتحقیر کے لیے مسئلہ معلوم کیا جاتاہے۔ وہ قاری صاحب آپ کے امام نہیں ہیں؛ اس لیے آپ کی نماز کی صحت وفساد بھی اس سے متعلق نہیں ہے اور وہ نماز پڑھتے ہیں یا نہیں، یہ بھی ہمیں معلوم نہیں ہے۔ اس سلسلے میں نہ ہمارے پاس تحقیق ہے اور نہ ہی اس قاری صاحب کا اقرار ہے؛ اس لیے اس پر کوئی حکم نہیں لگایا جاسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے اپنے اعمال واحوال کو درست کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ تاہم اگر اس کو امام بنایا جائے تو اس کے پیچھے نماز درست ہو جاتی ہے۔(۱)
(۱) عن علي قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أصل الدین الصلاۃ خلف کل بر وفاجر۔ (أخرجہ الدار قطني في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج۱ ، ص:۴۱۶، رقم: ۱۷۶۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص260
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مدرسہ میں بھی نماز جمعہ اور دیگر نمازیں باجماعت درست ہیں؛ لیکن مسجد میں نماز پڑھنے کا جو ثواب ہے وہ نہیں ملے گا۔(۲)
(۲) المسجد الجامع لیس بشرط لہذا أجمعوا علی جوازہا بالمصلي في فناء المصر، (محمد بن محمد، کبیری، ’’حلبي کبیري، کتاب الصلاۃ‘‘:ص: ۵۵۱، مطبع اشرفي دیوبند)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص373
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: (۱) سمت قبلہ کی تعیین اور تعمیر مساجد کے سلسلے میں صحابہؓ و تابعین سے لے کر آج تک طریقہ یہ ہے کہ جس شہر میں پرانی مسجدیں مسلمانوں کی تعمیر کردہ موجود ہوں انھیں کے مطابق نئی مساجد تعمیر کرلی جائیں، ایسی جگہوں میں آلات رصدیہ اور قواعد ریاضیہ کی باریکیوں میں پڑنا خلاف سنت اور نامناسب ہے؛ اس لیے آپ اپنے آس پاس کی پرانی مسجدوں کے مطابق اپنی مسجد کا قبلہ طے کرلیں۔ آلات جدیدہ پر کلی اعتماد نہ کریں کمپاس یا قبلہ نما کی تعیین کاکلی اعتبار نہیں ہے، ہاں اس سے آپ مدد لے سکتے ہیں فیصلہ نہیں کرسکتے ہیں۔
(۲) اگر عین قبلہ سے پینتالیس ڈگری سے کم انحراف ہو، تو نماز ہوجاتی ہے؛ لیکن جان بوجھ کر انحراف رکھنا درست نہیںہے۔
(۳) اگر واقعی مسجد جہت قبلہ سے منحرف ہے، تو مسجد کو از سر نو توڑ پھوڑ کرنے کی ضرورت نہیں ہے؛ البتہ صفیںاس طرح لگادی جائیں کہ تمام صفوں کا رخ جہت قبلہ کی طرف ہوجائے۔
(۴) جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا کہ قدیم ترین مسجد کو معیار بنایا جائے، لیکن اس کی کوئی حتمی تعیین نہیں کی جاسکتی ہے، بلکہ شہر میں جو سب سے قدیم مسجد ہو اس کو معیار بنالیا جائے۔
’’فللمکي إصابۃ عینہا ولغیرہ أي: غیر معاینہا إصابۃ جہتہا بأن یبقي شيء من سطح الوجہ مسامتا للکعبۃ أو لہوائہا، بأن یفرض من تلقاء وجہ مستقبلہا حقیقۃ في بعض البلاد الخ قال الشامي: فیعلم منہ أنہ لو انحرف عن العین انحرافاً لاتزول منہ المقابلۃ بالکلیۃ جاز، ویؤیدہ ما قال في الظہیریۃ: إذا تیامن أو تیاسر تجوز؛ لأن وجہ الإنسان مقوس، لأن عند التیامن أو التیاسر یکون أحد جوانبہ إلی القبلۃ‘‘ (۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ، بحث في استقبال القبلۃ:ج ۲، ص: ۱۰۹، مکتبہ: زکریا دیوبند۔
اتفقوا علی أن القبلۃ في حق من کان بمکۃ عین الکعبۃ، فیلزمہ التوجہ إلی عینہا، کذا في فتاویٰ قاضي خان … ومن کان خارجاً عن مکۃ فقبلتہ جہۃ الکعبۃ، وہو قول عامۃ المشائخ، ہو الصحیح ہکذا في التبیین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث، في شروط الصلاۃ، الفصل الثالث: في استقبال القبلۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۰، مکتبہ زکریا، دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص272